از: مولانا محمد مجیب الر حمن دیودرگی     

استاذ دار العلوم حیدرآباد                   

ملک بھر سے بڑی تعداد میں اردو اخبارات نکلتے ہیں،کتنے ہی روزنامے،کتنے ہی سہ روزہ اخبار ، کتنے ہی ہفت روزہ؛لیکن کتنے اخبارات ایسے ہیں جو عریانیت سے محفوظ ہیں ؟ایسے ہی اخبارات کا سرسری جائزہ لیا جائے تو محسوس ہوگا کہ چند ہی گنتی کہ اخبارات ہیں جو اس لعنت سے محفوظ ہیں،ورنہ اکثر اخبارات عریانیت کی لپیٹ میں آچکے ہیں،اور اپنے اخبارات پر عریاں تصاویر کی اشاعت میں انھیں کوئی جھجک نہیں،فحش مناظر کے پیش کرنے میں انھیں کوئی عار نہیں، فحش خبروں کی اشاعت میں انھیں کوئی مانع ورکاوٹ نہیں۔

      صحافت در حقیقت حق کو ثابت کرنے باطل کو ختم کرنے کا موٴثرہتھیارہے،اس کے ذریعہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکرکا فریضہ بھی بڑی حد تک ادا کیا جاسکتا ہے،اپنی بات عوام تک پہنچانے کا بہترین وسیلہ ہے۔ اپنے افکار وخیالات سے عوام کو آگاہ کرنے کا بہترین آلہ ہے، باطل کے خلاف منظم محنت کا وسیع عملی میدان ہے،الکڑانک میڈیا سے پھیلنے والے زہر کے خاتمہ کا بہترین ذریعہ ہے ؛ لیکن ادھر کچھ دنوں سے اردو صحافت سوقیانہ پن کا شکار ہوتی جارہی ہے ،حیرت کی بات تو یہ ہے کہ کئی اخبارات تو وہ ہیں جو مذہبیت کے دعویدار ہیں اور قوم میں عقل وشعور پیداکرنے اور دین سے قریب کرنے کی جدوجہد کرتے ہیں؛ لیکن وہ بھی مال ودولت کی حرص میں اس زہر آلود عریانیت سے متأثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔

     اہلِ اسلام کاایک طبقہ وہ ہے جو ”ٹی وی“ کے زہر آلود اثرات سے دور ہے ؛جن کے خبریں جاننے کا ذریعہ عموماً اخبار ہی ہے ، یہ افراد الکڑانک میڈیا کے زہر اور عریانیت کے سیلاب سے محفوظ رہنے کی جدوجہد کرہے ہیں؛لیکن افسوس جب وہ خبروں کو جاننے کے لیے احوال کے علم کے لیے اخبارات ہاتھ میں لیتے ہیں تو یہ اردواخبار بھی نیم برہنہ اور عریا ں تصاویر شائع کر کے ان کا دل چھلنی کر جاتے ہیں اور انھیں یہ سوچنے پر مجبور کرتے ہیں کہ کیا ہم اب اردو اخبار بھی خرید نا بند کردیں؟ اخبارات کا مطالعہ عموماً سنجیدہ قسم کے افراد ہی کرتے ہیں جو اس طرح کی تصاویر ہر گز پسند نہیں کرتے ،گندہ معاشرہ تو گندہ ہی ہے ؛ لیکن یہ بے حیائی کے نظارے پاکباز افراد کو بھی گندگی پر آمادہ کرتے ہیں،عریاں تصاویر کی اشاعت صرف اشتہارات تک ہی محدود نہیں ؛ بلکہ بعض دفعہ ماڈل گرلس اور بعض دفعہ اداکاروٴں کی عریاں تصاویر بھی شاملِ اشاعت کی جاتی ہیں ، یہ در حقیقت ذمہ داروں کے ذوق کی عکاسی کرتی ہے ، نہ تو ان تصاویر کی اشاعت سے قا رئین کی تعداد میں اضافہ ہوتاہے اور نہ ان تصاویر کی پیشکش سے بازاروں میں اخبار کی اہمیت بڑھتی ہے؛ بلکہ بلا وجہ اس کے ذریعہ اپنے اخبار کو گندہ کیا گیا، نہ ہی عریاں تصاویر کی اشاعت توسیع اخبار کے لیے ضروری ہے اور نہ ہی عریاں اشتہارات کی اشاعت بقاءِ اخبار کے لیے نا گزیر ، اس کے باوجود اس کا سہارا لیا جاتا ہے تو یہ سوچنا پڑے گا کہ اس کا مقصد کیا ہے ؟ جس طرح اشتہارات سے حاصل شدہ رقوم کے مالکینِ اخبار محتاج ہوتے ہیں ، ویسے ہی مشتہرین بھی ان اخبارات ہی کے محتاج ہوتے ہیں پھر بھی جو طرزِ عمل اپنا یا جاتا ہے سمجھ سے بالاتر ہے ، جب کوئی اخبار مکمل دینی روح سے آراستہ نہیں ہو سکتا تو اسے مکمل طور پر دینی جذبہ سے خالی بھی نہیں ہونا چاہیے، اگر کوئی روزنامہ ۱۰/ کی تعداد میں فروخت ہوتا ہے تو اوسطاً ہر اخبار کے پڑھنے والے پانچ شمار کیے جائیں تو اس بے حیائی کا شکار کتنے آدمی ہونگے ، اگر کوئی روزنامہ ۵۰/ ہزار کی تعداد میں فروخت ہو تا ہے، اس سے بے حیائی کا شکار کتنے افراد ہوں گے ؟ جتنے افراد شکار ہوں گے ، جتنے افراد ان عریاں تصاویر کا مشاہدہ کریں گے ان کا وبال ذمہ داروں کے سر ہو گا ؛ کیونکہ انھوں نے گناہ کے لیے دعوتِ نظارہ دیا ہے۔

     اپنے قارئین کی تعداد اپنے اخبار کی تعداد بڑے ذوق وشوق سے ظاہر کی جاتی ہے ، فخریہ انداز میں پیش کیا جاتا ہے ، کبھی اپنے اخبار کی بے حیائی سے متأثرین کی فہرست بھی دی جائے، کبھی اس بے حیائی کے شکار افراد کو بھی شمار کروایا جائے ، بعض اردو اخبارات کے ذمہ داروں کی حس تو اتنی مردہ ہو چکی ہے کہ وہ ماہِ رمضان میں بھی عریاں تصاویر اور فحش اشتہارات سے نہیں چوکتے نیز بے حیائی کے فروغ کے لیے جس راہ اور جس زبان اور جس طریقہٴ کار کا انتخاب کیا گیا وہ انتہائی غلط ہے، اردو جیسی شریف اور مہذب زبان کو انہوں نے عریاں صحافت کے ذریعہ داغدار کرنے کی سازش رچی ہے ، عریاں لٹریچر کی اشاعت کے لیے اور بھی زبانیں اور بھی طریقہٴ کار تھے؛ لیکن جس مہذب زبان کا انھوں نے سہارا لیا یہ خود جرمِ عظیم ہے ،ایک طرف اردو کے فروغ کے دعوے دار ہیں ،دوسری جانب اردو کیساتھ یہ گھناوٴ نا مذاق؟ بالکل یہی حال؛ بلکہ اس سے بڑھ کر جرمِ عظیم عربی زبان کیساتھ ہورہا ہے ، فواحش کی اشاعت کے لیے عربی زبان کا سہا را لیا جارہا ہے ، جو قرآن کریم کی زبان ہے جو اہلِ جنت کی زبان ہے جو وسیع ترین عالمی زبان ہے ، ایک طرف مدیرانِ اخبار ادارتی صفحات میں مذہبی مضامین کو ضرور جگہ دیتے ہیں جو مغربی تہذیب کے خلاف ہو اور دیگر مواقع پر فلمی تہذیبی جھلک کہہ کر مغربیت پیش کرتے ہیں تو اس طرح کی دوغلی پالیسی سے کیا فائدہ؟

     ایک جانب اخبارات اخلاقی اقدار کی پامالی کے مرتکب ہیں تو دوسری جانب بہت سے رسائل بھی اپنے رسائل سے اخلاقیات کا جنازہ نکال رہے ہیں ، کئی رسائل جو مذہبیت کے حامی ہیں ، قوم کی تعمیر کے دعویدار ہیں ،ملت کی اخلاقی زبوں حالی پر ماتم کناں ہیں؛ لیکن کیا قوم کی تعمیر فحش مناظر اور فحاشی و عریانیت سے لبریز خبروں سے کرنا جائزہے؟ کئی رسائل اب بھی فلمی تہذیب وتمدن کی جھلکیں پیش کرتے ہوئے کوئی عار محسوس نہیں کرتے ، الغرض!اردو جیسی مہذب زبان کا استعمال فحش خبرو کی تر سیل اور فحاشی وعر یانیت کے کیے کسی بھی درجہ میں درست نہیں، اولاً تو فحاشی کا فروغ ہی قابلِ مواخذہ ہے تو اس فحاشی سے اردو کو داغدار کرنا کہا ں کی دانشمندی ہے ؟

      اللہ تعالی سورہٴ نور میں فرماتے ہیں : بلا شبہ اہلِ ایمان میں سے جو لوگ فحش چیزوں کی اشاعت کو پسند کرتے ہیں ان کے لیے دردناک عذاب ہے (النور:۱۹) آیتِ کریمہ میں فحش خبروں کی اشاعت کو موردِ طعن وموردِ ملامت قرار دیا گیا، فحش خبروں اور فحش گفتگوں سے برائی کچھ پھیلتی ہے ، برائی کا شیوع ہوتا ہے ، فحش تصاویر کی اشاعت تو عوام کو برائی پر آمادہ کرتی ہے ، ہیجان انگیز عریاں تصاویر گناہوں پر بر انگیختہ کر تی ہیں، فحش تصاویر کی اشاعت کا جرم خبروں کی اشاعت سے بڑھا ہوا ہے ۔ مذکورہ آیتِ کریمہ کی تفسیر میں وھبہ زحیلی فرماتے ہیں :

      ”یہ بہترین نظام ہے جس سے کئی فوائد ہیں عوام میں فحش چیزوں کی اشاعت عوام کو گناہ پر آمادہ کرتی ہے اور گناہ میں پڑنا آسان ہو جاتا ہے ۔اور آیتِ کریمہ اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ محض فحش چیزوں کی اشاعت کی محبت عذاب کے لاحق ہو نے کے لیے کافی ہے ، اور جوعملی طور پر اس میں شریک ہوں ان کا جرم تو بہت بڑھا ہواہے اور عقاب بھی ہے ۔ “ (تفسیر منیر۱۸/۱۸۲)

      اسی طرح مولانا عبدالماجد دریا آباد رقمطراز ہیں :

     ” قرآن کریم نے اس آیت کے ذریعہ امت کو ایک مستقل دستور العمل قیامت تک کے لیے پاکیزہ معاشرہ دیا ہے ،اسلامی معاشرے میں گندے شہوانی تذکروں اور چرچوں کی جڑ ہی کاٹ دی؛ لیکن مقدم آیت کے عموم میں وہ تمام افعال وحرکات داخل ہیں جو امت کے معاشرے میں براہِ راست یا بالواسطہ کسی طرح بھی بے حیائی، شہوانیت، بد چلنی کے زندہ رہنے کا سبب بنتے ہیں، خواہ ان کا نام آرٹ کی سر پرستی یا کلچرکی ترقی ہی کیوں نہ رکھ دیا جائے۔“(تفسیر ماجدی۳/۴۴۶)

     نیز آپ … نے فرما یا : میں ایک ایسی قوم کو جانتا ہوں جو سینوں کو پیٹ رہے ہوں گے ، جس کے مارنے کی آوازاہلِ جہنم بھی سنیں گے، ان میں ایک طعنہ زن ہے اور وہ افراد ہیں جو لوگوں کے عیوب تلاش کرتے ہیں اور پردہ دری کرتے ہیں اور ان فحش چیزوں کی اشاعت کرتے ہیں جو ان میں نہیں۔(تفسیر کبیر۱۱/۲۷۹ شاملہ)

     الغرض اردو اخبارات کے مدیران اور اس کے ذمہ د اران سے ہمارا پر زور مطالبہ ہے کہ وہ اپنے اخبارات سے عریانیت وفحاشیت کا مکمل خاتمہ کریں اور ایسی خبریں جس سے فواحش کا فروغ ہو، ان کی اشاعت سے باز رہیں، اسی طرح ایسے مناظر جن سے فواحش کو بڑھاوا ملے انھیں شائع کرنے سے مکمل اجتناب کریں اور عریاں اشتہارات سے گریز کریں ، مدیران سے ہمار ی پر خلوص گزارش ہے کہ وہ اپنے اخبار میں دینی روح باقی رکھنے کی سعی جدوجہد کریں، اپنے اخبارات کا مطمحِ نظر صرف کمائی یا ریاکاری ونام نمود نہ رکھیں ؛ بلکہ اس سے در حقیقت امر بالمعروف نہی عن المنکرکا فریضہ انجام دیتے ہوئے اپنے اخبارات کے ذریعہ زرد صحافت کا تعاقب کریں ، اپنے اخبار کے ذریعہ دعوتِ دین کا اہم اور بنیادی فریضہ انجام دیں ،قارئین ِ اخبار کی ذمہ داری ہے کہ وہ مراسلتی خطوط کے ذریعہ فواحش کے خلاف اپنے خیالات کا اظہار کریں ، ان فواحش پربند لگانے کا مطالبہ کریں ، ان فواحش سے ہونے والے نقصانات سے آگاہ کریں اور انھیں یہ اطلاع دیں کہ اردو صحافت عریانیت کے تعاقب کے لیے ہے، نہ کہ عریانیت کے فروغ کے لیے، اگر انھیں عریانیت کے فروغ کے لیے استعمال کیا گیا تو زرد صحافت کا تعاقب کون کرے گا؟ ان اخبارات کے ذریعہ مکمل اسلامی روح پیش کرنے کا اہتمام کریں ،اربابِ حل وعقد کی ذمہ داری ہے کہ ان ذمہ دارانِ اخبارات سے موٴثر نمائندگی کرتے ہوئے عریانیت کا خاتمہ کرنے کا مطالبہ کریں، انھیں آگاہ کریں کہ تصاویر سے نسلِ نو پر برے اثرات مرتب ہورہے ہیں۔

——————————————–

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ12، جلد:100 ‏، ربیع الاول 1438 ہجری مطابق دسمبر 2016ء

Related Posts