حرفِ آغاز
مولانا حبیب الرحمن اعظمی
ماہ ربیع الاوّل اور عید میلاد النبی
ربیع الاوّل وہ مبارک مہینہ ہے، جس میں رب العالمین نے محسنِ انسانیت، پیغمبرِ اعظم صلی اللہ علیہ وسلم کو رحمتِ مجسم بناکر اس خاکدانِ عالم میں بھیجا ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی روشن تعلیمات اور نورانی اخلاق کے ذریعہ دنیا سے نہ صرف کفر و شرک اور جہالت کی مہیب تاریکیوں کو دور کردیا؛بلکہ لہوولعب، بدعات و رسومات اور بے سروپا خرافات سے مسخ شدہ انسانیت کو اخلاق و شرافت، وقار و تمکنت اور سنت و شریعت کے زیور سے آراستہ وپیراستہ کردیا۔
اس محسنِ اعظم کا حق تو یہ تھا کہ ہمارے قلوب ہرلحظہ اس کی عظمت واحترام سے معمور اور ہمارے دلوں کی ہر دھڑکن اس کی تعظیم و توقیر کی ترجمان ہوتی، ہمارا ہر عمل اس کے اسوہٴ پاک کا نمونہ اور ہر حرکت و سکون اس کی سنتِ مطہرہ کے تابع ہوتا گویا ایک مسلمان کی مکمل زندگی سیرتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تذکار اور اخلاقِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی جیتی جاگتی تصویر ہونی چاہیے۔ نہ یہ کہ دیگر اہل ادیان وملل کی طرح ہم بھی اس نبیٴ برحق کی یاد و تذکرہ کے لیے چند ایام کو مخصوص کرلیں اور پھر پورے سال بھولے سے بھی اس کی سیرت و اخلاق کا ذکر زبان پرنہ لائیں۔ بلاشبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا تذکرہ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی یاد میں زندگی کے جتنے لمحات بھی گذرجائیں، وہ ہمارے لیے سعادت اور ذریعہٴ نجاتِ آخرت ہیں۔
لیکن آہ کہ ! آج رسولِ عربی صلی اللہ علیہ وسلم فداہ روحی، ابی، وامّی کے نام لیوا اوراس کے عشق و محبت کے دعویدار ماہِ ربیع الاوّل میں ”عید میلاد النبی“ کے دلنشیں نام پر جو وقتی اور بے روح محفلیں منعقد کرتے ہیں، اس کے تصور ہی سے روح تھرا اٹھتی ہے اور کلیجہ منھ کو آنے لگتا ہے۔ ملتِ اسلامیہ کی یہ کیسی بدبختی و بدنصیبی ہے کہ سیرت پاک اور میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پراس ہڑبونگ، غل غپاڑہ اور طوفان بے تمیزی کا مظاہرہ ہوتا ہے کہ کچھ دیر کے لیے شیطان بھی شرماجاتا ہے۔ دل کی دنیا تاریک وتباہ ہوتی جارہی ہے؛ مگر اس کی فکر سے بے پرواہ بازاروں کے گلی اور کوچے برقی قمقموں سے منور اور خوشنما جھنڈیوں سے سجائے جاتے ہیں۔ چار چار اور چھ چھ گھنٹے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر جلوس میں گذاردئیے جاتے ہیں؛ مگر اسلام کے رکنِ اولیں نماز کا خیال تک نہیں آتا۔ میلادالنبی کے ان جلسوں اور جلوسوں میں فکرننگ وناموس سے بے نیاز ہوکر مردوں اور عورتوں کا جس طرح اجتماع اوراختلاط ہوتا ہے عہد جاہلیت کا جشن نوروز بھی اس کے آگے ماند پڑجاتا ہے۔ اور قوم وملت کااس قدر سرمایہ ان سطحی اور غیرشرعی مجلسوں کی زیبائش و آرائش پر صرف ہوتا ہے کہ اس کا اندازہ بھی دشوار ہے۔
محسنِ کائنات کے عشق کے مدعیو! ذرا کچھ تو غور و فکر اور ہوش سے کام لو وہ دعویِ محبت یکسر فریب ہے جواطاعت واتباع سے خالی ہو۔
لَوْکَانَ حُبُّکَ صَادِقًا لَأطَعْتُہ لِأنَّ الْمُحِبَّ لِمَنْ یُحِبُّ یُطِیْع
تم زبان سے محبتِ رسول کا دم بھرتے ہو؛ مگر تمہارے طور طریقے اوراعمال و اشغال تعلیماتِ رسول، ہدایاتِ محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کے سراسر خلاف ہیں۔ ہادیِ اعظم صلی اللہ علیہ وسلم نے بالکل آخری وقت میں جب کہ نبض ڈوب رہی تھی اور نزع کا عالم طاری تھا تمہیں نماز کی وصیت فرمائی تھی۔ غیر محرم عورتوں سے اختلاط تو بڑی چیز ہے، ان کی جانب نظر اٹھانے کو بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دین وایمان کی ہلاکت قرار دیاتھا۔ بیجا اسراف اور فضول خرچی سے تمہیں باز رہنے کی موٴکد ہدایت فرمائی تھی؛ لیکن آج انھیں کے نام پر ان جلسوں جلوسوں میں تم وہ سب کچھ کرتے ہو جس سے تمہارے محسن نے روکاتھا۔
خدارا ہوش میں آؤ اور دیکھو دنیا کہاں سے کہاں پہنچ چکی ہے اور تم ہو کہ ان سطحی اجتماعات اور غیرشرعی رسومات میں اپنی طاقت، سرمائے اور وقت کو برباد کررہے ہو اور اس طرح اپنی دنیا کو تباہ و برباد کرنے کے ساتھ اللہ اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ناراضگی بھی اپنے ہاتھوں خرید رہے ہو۔
اللہ تعالیٰ نے صاف لفظوں میں اعلان فرمادیا ہے کہ دنیا و آخرت کی کامیابی اللہ کے احکام کے پوراکرنے اور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقہ پر چلنے میں ہے۔
ارشاد ربانی ہے:
فَلْیَحْذَرِ الَّذِیْنَ یُخَالِفُونَ عن اَمْرِہ اَنْ تُصِیْبَھُمْ فَتَنَةٌ اَوْ یُصِیْبَھُمْ عَذَابٌ ألِیْم (المومنون)
(جو لوگ اللہ تعالیٰ کے حکم کی مخالفت کرتے ہیں انھیں اس بات سے ڈرنا چاہیے کہ ان پر کوئی آفت آجائے یا ان پرکوئی دردناک عذاب نازل ہوجائے۔)
ایک موقع پر ارشاد ہے:
مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِنْ ذَکَرٍ اَوْ اُنْثٰی وَھُو مُوٴمِنٌ فَلَنُحْیِیَنَّہٗ حَیوةً طَیَّبَةً ولَنَجْزِیَنَّھُم اَجْرَھم بِاَحْسَنِ مَا کَانُوا یَعْمَلُونَ ․
(جو شخص نیک کام کرے مرد ہو یا عورت بشرطیکہ ایمان والا ہو تو ہم اسے ضرور اچھی زندگی بسر کرائیں گے (یہ دنیا میں ہوگا اور آخرت میں) انکے اچھے کاموں کے بدلے میں ان کو اجر دیں گے)
ان آیات پر غور کریں اور دیکھیں کہ ہم اپنے اعمال واخلاق کے ذریعہ اپنے آپ کو موردِ آفات اورمستحقِ عذاب بنارہے ہیں یا دنیا میں حیاتِ طیبہ (راحت کی زندگی) اور آخرت میں اجر و ثواب کے لائق بن رہے ہیں۔
رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم کا پاک ارشاد ہے:
قَدْ أفْلَحَ مَنْ أخْلَصَ قَلْبَہ لِلْایْمَانِ وَجَعَلَ قَلْبَہ سَلِیْمًا وَلِسَانَہ صَادِقًا وَنَفْسَہ مُطْمَئِنَّةً وَخَلِیْقَة مُسْتَقِیْمَةً وَجَعَلَ أدْنَہ مُسْتَمِعَةً وَعِیْنَہ نَاظِرَةً (الحدیث رواہ الامام احمد فی مسندہ ۵/۱۴۸)
یقینا وہ شخص کامیاب ہوگیاجس نے اپنے دل کو ایمان کے لیے خالص کرلیا اور اپنے دل کو (کفر و شرک اور نفسانی رذائل) سے پاک و صاف کرلیا، اپنی زبان کو سچا رکھا اپنے نفس کو مطمئن بنالیا (کہ اس کو اللہ کی یاد سے اوراس کی مرضیات پر چلنے سے اطمنان وسکون ملتا ہو) اپنی طبیعت کو درست رکھا (کہ وہ برائی کی طرف نہ چلتی ہو) اپنے کان کو حق سننے والا بنایا اور اپنی آنکھ کو (ایمان کی نگاہ سے) دیکھنے والا بنایا۔
قرآن و حدیث میں یہ مضمون بار بار مختلف اسلوب میں بیان کیاگیا ہے کہ دنیا وآخرت کی فلاح و کامیابی اللہ اوراس کے پاک رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت میں منحصر ہے۔ اللہ رب العزت کی اطاعت و فرماں برداری ہی محبتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی کسوٹی اور معیار ہے۔ قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللہَ فَاتَّبِعُونِی الایة اے رسول صلی اللہ علیہ وسلم مسلمانوں سے کہہ دیجیے! اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری اتباع کرو! (بغیر اتباعِ الٰہی کے دعوائے محبت خود فریبی ہے؛ بلکہ اگر بغور دیکھا جائے تو یک گونہ مذاق و استہزاء ہے )(نعوذ باللہ منہ)
اس لیے ہم سب کے لیے ایک لمحہٴ فکریہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے پاک رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی صریح مخالفت کرتے ہوئے یہ میلاد النبی، اجلاس و جلوس ، ہمیں فلاح و کامیابی کی جانب لے جارہے ہیں یا دنیا و آخرت کی ناکامی اور خسارے کی جانب ۔
صلائے عام ہے یارانِ نکتہ داں کے لیے
———————————-
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ11، جلد:100 ، صفرالمظفر 1438 ہجری مطابق نومبر 2016ء