از: امدادالحق بختیار قاسمی
مرکز علم وادب ،فریدی منزل ،پروہی ،مدھوبنی ،بہار
شیر شاہ سوری ایک بے مثال مسلمان بادشاہ گزرا ہے ، جس کے یہاں ہمیں عدل وانصاف ، مساوات وبرابری ، خوش اخلاقی ، رعایا پروری، عالی ظرفی ، مردم شناسی اور حسنِ سلوک کے اعلیٰ نمونے ملتے ہیں اور جس نے ملک وقوم کے لیے ایسے ایسے عظیم الشان کارہائے نمایاں انجام دیے ہیں ، جن سے آج تک ہندوستانی عوام مستفید ہورہی ہے ، ایک آدھ مختلف فیہ واقعات کے علاوہ ، اس کا پورا عہدِ حکومت بالکل بے داغ رہا ہے ، اور اس کے زمانہٴ حکمرانی میں رعایا کو جتنا امن وسکون، فراخی وسہولت حاصل رہی ہے ، کسی دوسرے بادشاہ کے عہد میں یہ نعمتیں انھیں نہیں ملی، ہندوستان پر حکمرانی محمود نے اور محمد نے بھی کی ، غزنوی اور غوری نے بھی کی ، تیمور اور بابر نے بھی کی؛ مگر امور سیاست کے جتنے دور دراز میدان شیر شاہ سوری نے طے کیے ، ملک اور رعایا کی رفاہ میں جتنے کا م اس کے دست وبازو سے ہوئے، اتنے نہ محمود کی لیاقت سے ہو سکے اور نہ محمدتغلق کی قابلیت سے، نہ تیمور کی شہرت اس کو پورا کرسکی اور نہ بابرکی سطوت وقوت اس کو کامل کرسکی ، اس نے اپنے پانچ سالہ مدتِ حکومت میں اتنے بڑے بڑے کام کیے ، جو دوسرے حکمرانِ ہندوستان سے پچاس سال کی سلطنتوں میں بھی نہ ہوسکے۔
مختصر تعارف
شیر شاہ سوری کا اصلی نام فرید خان تھا ،ان کے والد حسن خان اور داد ا ابراہیم خان تھے، یہ لوہانی پٹھان کی سوری شاخ سے تھے ؛ اسی لیے انھیں ”سوری “ کہا جاتا ہے اور ان کے سلسلہ کو سلاطینِ غوریہ سے قرابت تھی ، ابراہیم خان سلطان لودی کے زمانہ میں ہندوستان آئے۔
شیر شاہ سوری کی ولادت ۱۴۷۳ء میں بمقام شہس رام (بہار)میں ہوئی ،تحصیل علم کے لیے جونپور کا سفر کیا ،دوسال تک وہاں رہ کر فارسی میں مہارت حاصل کی اور کچھ عربی بھی پڑھی ،نیز عروض وتاریخ کا علم بھی حاصل کیا ، اور ظاہری علوم کی تحصیل کے ساتھ ساتھ باطنی کمالات کی طرف بھی توجہ کا ولولہ پیدا ہو؛چنانچہ جونپور کے علماء ، فضلاء اور بزرگانِ دین کی خدمت میں برابر حاضری دیتے رہے اور ان کے فیضانِ صحبت سے بھر پور مستفیض ہوتے رہے، شیر شاہ سوری نے بہار، بنگال اور اڑیسہ سے لے کر پورے ہندوستان پر حکمرانی کی،سب سے پہلے اپنے والد حسن خان سوری کے پرگنہ شہس رام میں نائب بنائے گئے اور والد کی وفات کے بعد حاکم بھی بنے، بعد ازاں کئی بادشاہوں کے یہاں ملازمت بھی کی،جلال خان کے بعد پورے بہار کی باگ ڈور شیر شاہ سوری کے ہاتھ میں آئی اور ہمایوں کے بعد یہ اقبال مند حکمراں پورے ہندوستاں کا بادشاہ بن گیا، شیر شاہ سوری کی وفات ۷۲ سال کی عمر میں ۱۲/ربیع الثانی ۹۵۲ھ مطابق ۲۲/مئی ۱۵۴۵ء کو کالنجر کے قلعہ کے پاس ہوئی اور تدفین شہس رام کے اسی عالی شان مقبرہ میں ہوئی،جسے وہ اپنے لیے تعمیر کروارہے تھے اور جس کی تکمیل ان کے بیٹے سلیم شاہ کے زمانہٴ حکومت میں ہوئی ۔
شیر خان کا لقب
شیر شاہ سوری کاپہلا لقب شیر خان تھا اور اس کے پس منظر میں تاریخ کی کتابوں میں ایک واقعہ ذکر کیا جاتا ہے کہ ایک مرتبہ شیر شاہ سوری بہار کے بادشاہ محمد شاہ ، جس کا اصلی نام بہادر خان ہے ، کے ساتھ شکار کے لیے جنگل گئے ، اچانک ایک شیرسامنے آگیا ،شیر شاہ سوری فطری طور پر دلیر اور بہادر اور ہمت کے پہاڑ تھے ؛چنانچہ انھوں نے شیر کا مقابلہ کیا اور اس کی اگلی دونوں ٹانگیں پکڑ کر زمین پرپٹخ دیا اور پھر تلوار سے اس کا سر دھڑ سے الگ کردیا اور بادشاہ کی خدمت میں پیش کیا، بادشاہ نے اس حیرت انگیز بہادری اور شجاعت سے خوش ہوکر ”شیر خان“ کا لقب عنایت کیا۔
شیر شاہ کا لقب
۱۵۳۲ء تا ۱۵۳۹ء کی طویل جنگ کے بعد بالآخر شیر شاہ سوری نے ہمایوں کو ہندوستان چھوڑنے پر مجبور کردیا اور ہمایوں تمام خزانہ اور جواہرات وغیرہ لے کر لاہور چلاگیا اور ۱۵۴۰ء سے ہندوستان کا تخت شیر شاہ سوری کے لیے خالی کرگیا ،شیر شاہ سوری آگرہ پہنچ کر تختِ حکمرانی پر جلوہ افروز ہوئے اور اسی دن سے ”شیر خان سے شیر شاہ“ ہوگئے۔
عدل وانصاف کا عجیب وغریب نمونہ
مسٹر الفنسٹن نے اپنی تاریخ میں شیر شاہ سوری کی عدالت کا ایک حیرت انگیز واقعہ لکھا ہے کہ شیر شاہ کا منجھلا لڑکا عادل خان ایک دن ہاتھی پر سوار ہوکر آگرہ کی کسی گلی سے جارہا تھا ، ایک مہاجن کی عورت ،جو حسین جمیل اور خوبصورت تھی ، اپنے آنگن میں نہا رہی تھی ، اس کے گھر کی چہار دیواری نیچی تھی ؛ اسی لیے عادل خان جو ہاتھی پر سوار تھا اس کی نظر اس عورت کے جسم پر پڑ گئی،وہ اسے دیکھنے لگا اور پان کا ایک بیڑہ بھی اس کی طرف پھینکااور اس کو اپنی طرف متوجہ کرنا چاہا ، وہ عورت پارسا اور باحیا تھی، ایک نامحرم کے بے پردگی کی حالت میں دیکھ لینے کو برداشت نہ کرسکی اور خود کشی کرنے لگی ، اس کے اعزہ واقارب اور شوہر نے بڑی مشکل سے اسے خود کشی سے روکا ۔
اور اس کا شوہر پان کا وہ بیڑہ لے کر شیر شاہ سوری کے دربار میں حاضر ہوا ، جہاں وہ عوام کی شکایتیں سن رہے تھے، اس نے اپنی عزت وناموس کی درد بھری روداد شیر شاہ سوری کے گوش گزار کی، اس واقعہ کو سن کر شیر شاہ سوری بہت رنجیدہ ہوئے ، دیر تک افسوس کرتے رہے ، پھرحکم دیا کہ یہ مہاجن اسی ہاتھی پر سوار ہوکر عادل خان کے گھر آئے اور عادل کی بیوی اسی طرح برہنہ کرکے اس کے سامنے لائی جائے اور یہ مہاجن اس کی طرف بھی پان کا بیڑہ پھینکے۔
ایسا انصاف جو اپنے دل پر پتھر رکھ کر اپنے ہی خلاف اور اپنے گھر کی عزت وناموس کی پرواہ کیے بغیر دیا گیا ہو ، شاید ہی کہیں ہمیں ملے؛چنانچہ یہ حکم سن کر پورا دربار کانپ اٹھا ، امراء اور اراکینِ سلطنت نے عادل خان کے ناموس کی حفاظت کے لیے سفارش کی؛ مگر شیر شاہ سوری نے پوری متانت کے ساتھ جواب دیا کہ میں ایسے موقع پر کسی کی سفارش قبول کرنا ہرگز نہیں چاہتا ؛میری نگاہ میں میری اولاد اور رعایا دونوں مساوی ہیں ،میری اولاد ایسی گھٹیا حرکت کرے اور میں اس کے ساتھ روا داری کروں ، یہ مجھ سے نہیں ہوسکتا ۔
اس مہاجن نے جب عدل وانصاف کایہ فیصلہ سنا اور ایسا عدل ،جو اس کے حاشیہٴ خیال میں بھی نہیں آسکتا تھا ،تو وہ شیر شاہ سوری کے قدموں میں پڑگیا اور اس نے خود عاجزی اور اصرار کے ساتھ درخواست کی کہ یہ حکم نافذ نہ کیا جائے میں اپنے دعوے سے دست بردار ہوتاہوں۔
مساوات اور رعایا پروری کی بہترین مثال
شیر شاہ سوری نے رعایا کی سہولت کے لیے بہت سے رفاہی کام کروائے ہیں ،ان میں کئی ایک کارنامے انتہائی عظیم ہیں ، انھیں میں سے ایک طویل ترین دو پختہ سڑکیں ہیں ، جن میں سے ایک آگرہ سے لے کر مانڈو (علاقہ مدراس )تک جاتی ہے ، جو ساڑھے چار سو کوس لمبی ہے اور دوسری پنجاب (کے قلعہ جدید رہتاس) سے لے کر ستارگاوٴں(بنگال)تک جاتی ہے اور یہ سڑک پندرہ سو(1500) میل طویل ہے۔
اور اس میں خاص بات یہ ہے کہ شیر شاہ سوری نے ان سڑکوں کی دونوں جانب دوطرفہ سایہ دار درخت لگوائے اور ان کے پھل مسافروں کے لیے وقف تھے،نیز ان دونوں سڑکوں پر ہر تین کوس پر سرائے پختہ بنوائیں اور ان میں دو باورچی خانے بنوائے ،ایک مسلمانوں کے لیے اور ایک ہندوٴں کے لیے اور عام حکم دیا کہ بلاخیالِ مذہب ہر مسافر کی مہمان نوازی سرکاری خزانہ سے کی جائے اور ہر سرائے میں جان ومال کی حفاظت کے پیشِ نظر پولس کا انتظام کیا گیا، اسی طرح ہر سرائے کے دروازے پر ایک نقارہ تھا اور بادشاہ کی طرف سے حکم تھا کہ جس وقت ہم کھانا کھانے بیٹھیں ، اسی وقت تمام مسافروں کے لیے کھانا لگا دیا جائے اور آگرہ سے بنگال تک تمام نقارے ایک دوسرے کی آواز سن کر بجائے جائیں ؛ تاکہ معلوم ہوجائے ہم تنہا ہندوستان کے ایوان شاہی سے محظوظ نہیں ہورہے ہیں ؛بلکہ ہمارے ساتھ ہماری پردیسی اور غریب رعایا بھی خداکی عنایت کردہ نعمت میں شریک ہے۔ (تاریخ جدید صوبہٴ اُڑیسہ وبہار ، مرتبہ: سید اولادحیدر فوق# بلگرامی کواتھ مقامی ، مطبع اکبری بودی کٹرہ ،پٹنہ ، تاریخ طبع ۱۹۱۵ء)
————————————————–
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ11، جلد:100 ، صفرالمظفر 1438 ہجری مطابق نومبر 2016ء