حرفِ آغاز
مولانا حبیب الرحمن اعظمی
اٹھارہویں صدی میں ہندوستان اپنی پوری تاریخ میں تقریباً پہلی بار ایک بیرونی ملک یعنی برطانیہ کے زیرتسلط آیا، جو وطنِ عزیز ہندوستان سے کئی ہزارمیل کے فاصلہ پر تھا، مسلم فاتحین جو افغانستان اور وسط ایشیا سے آئے، ان کی بہرحال ایک مختلف کہانی ہے، یہ باہری حکمراں اگرچہ اپنے دین ومذہب پر قائم رہے، اپنی تہذیب اور کلچر کا بھی بڑا حصہ اپنائے رکھا؛ لیکن انھوں نے اس ملک میں مستقل طور پر رہنے کا فیصلہ کیا اور اپنے بیرونی ہونے کے خیالات کو خیرباد کہہ کر اپنی قسمت ابنائے ہند کے ساتھ وابستہ کردی، ہندوستانی زندگی اور ابتدائی تہذیب کے اصول بھی انھوں نے اپنے اندر سمولیے، ہندوستان جو بہت سے مذاہب کا ایک گنجینہ تھا، ایک مزید مذہب کے اضافہ سے اور بھی مال دار اور اس نئے عناصر کے شامل ہونے سے اس کی رنگ برنگی تہذیب میں اور بھی تنوع آگیا، ہندوستان کے بسنے والوں نے ان نئے آنے والوں کو تہذیبی طور پر بہت کچھ دیا تو معاوضہ میں بہت کچھ ان فاتحین سے پایابھی، جس کی تفصیل کا یہ موقع نہیں۔
بہرحال تاریخ بتاتی ہے کہ اٹھارہویں صدی کے آغاز میں مغلیہ سلطنت کا ڈھانچہ ٹوٹنے لگا اور وقت جوں جوں آگے بڑھتا گیا، حکومت کے زوال کی رفتار تیز ہوتی گئی، جس کے نتیجہ میں مرکز گریز قوتوں نے غلبہ حاصل کرنا شروع کردیا، قانون وضابطہ منتشر ہوگیا، اجتماعی اور شخصی اخلاق کی چولیں ہل گئیں، شہنشاہیت ٹکڑوں میں تقسیم ہوگئی، یہی وہ زمانہ ہے جب یورپی اقوام کے ایجنٹوں نے ہندوستان کے معاملات میں دخل اندازی شروع کردی اور پھر آگے بڑھ کر تجارت کے عنوان سے ملک کے مختلف خطوں میں منتشر برطانیہ کے تاجر نما آزمودہ کار سپاہیوں نے ملک کے اقتدار پر اپنا قبضہ جمالیا، اس طرح تقریباً دو صدیوں تک وطن عزیز ایک بیرونی طاقت کا غلام رہا؛ لیکن یہ بھی ایک تاریخی عجوبہ سے کم نہیں ہے کہ اسی ملک پر قابض اور سیاہ وسفید کی مالک بیرونی حکومت کے زمانہ ہی میں اس کی تمام تر حربی طاقتوں کے باوجود ملک کے جیالے سپوتوں نے اسے دیس نکالا دے کر اپنی کھوئی ہوئی آزادی حاصل کرلی اورملک کے اقتدار کی زمام اپنے ہاتھوں میں لے لی۔
یہ عجوبہ یونہی اتفاقاً نہیں رونما ہوا؛ بلکہ اس کے پیچھے ایک طویل، بے پناہ جاں فروشیوں اور ایثار وقربانی کی خوں چکاں داستان ہے، افسوس ہے کہ اجنبی اقتدار کے جوئے کو کاندھے سے اتار پھینکنے کے لیے ملک کے عوام کی اس عظیم تحریک کو ایک زمانہ تک بغاوت، شورش، فساد، ہنگامہ، غدر وغیرہ نہ جانے کتنے حقیر وذلیل ناموں سے ذکر کیاگیا، مزید افسوس اور حیرت تو اس پر ہے کہ خود ملک کے بعض نامور افراد بھی انگریز نوازی، ذاتی مفاد یا بزعم خویش قومی بہبود کے تحت اس خلافِ واقعہ، کردار کُش مہم میں غاصب حکومتِ وقت کے ہم زبان وہم نوا بن گئے، کم وبیش پچاس سال تک تاریخ کے ساتھ ناانصافی کا یہ سلسلہ جاری رہا، پھر رفتہ رفتہ صحیح واقعات ومشاہدات کو دنیا کے سامنے پیش کیے جانے کا حوصلہ بیدار ہوا اور تحریکِ حریت سے متعلق چھوٹی بڑی کتابیں شائع ہونا شروع ہوگئیں؛ البتہ تمام احوال ووقائع پر قومی انداز میں غور وفکر کا واضح آغاز اس وقت ہوا جب اجنبی حکومت ختم ہوگئی اور اس کی جگہ آزاد وطنی حکومت نے سنبھال لی، اس طرح تحریک حریت کی حقیقی اور سچی عظیم الشان تاریخ عالم آشکارا ہوگئی، جسے بیرونی حکومت اوراس کے بہی خواہوں نے اپنی مصلحتوں کے تحت ناپسندیدہ رنگ دینے کی ظالمانہ کوشش کی تھی۔
صداقت ہو تو دل سینوں سے کھنچنے لگتے ہیں واعظ
حقیقت خو د کو منو ا لیتی ہے مانی نہیں جاتی
اجمالی طور پر جنگ حریت کی صدیوں پرمحیط تاریخ کو تین مرکزی حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے، جس کے تحت جہد وجنگ کی بہت ساری ولولہ انگیز داستانیں داخل ہیں۔
دور اوّل: اس دور کے آغاز کا منشا ایسٹ انڈیا کمپنی کے بڑھتے ہوئے جارحانہ اقدامات اور ملک پراس کے تسلط کوبچانا تھا، ایسٹ انڈیا کمپنی کے کارکن بہ خوبی اس حقیقت سے واقف تھے کہ بوڑھی مغلیہ حکومت امرائے سلطنت کی باہمی کشاکش اور ریشہ دوانیوں سے بے حال ہوچکی ہے اس کے اندر مقاومت کی ادنیٰ ہمت بھی نہیں ہے؛ اس لیے وہ دہلی پر بلاتاخیر قبضہ کرنے کی فکر میں تھے؛ لیکن وہ اپنے اس منصوبہ کو بروئے کار لانے میں اس لیے پس وپیش میں تھے کہ ریاست بنگال جو اس وقت ہندوستان کی ایک ابھرتی ہوئی طاقت ہے، ہماری راہ میں اڑچن کھڑی کرسکتی ہے، انھیں شیرِمیسور سلطان ٹیپوشہید سے بھی خطرہ تھا کہ اپنے جیتے جی وہ ہندوستان کو غلام دیکھنا برداشت نہیں کرسکتا ہے، علاوہ ازیں انھیں روہیلوں سے بھی خوف تھا؛ اس لیے انھوں نے دلی پر قبضہ سے پہلے ان تینوں مذکورہ طاقتوں کو ختم کردینا ضروری سمجھا۔ المختصر مئی ۱۷۷۵/ پلاسی کے میدان میں نواب سراج الدولہ کی فوج سے ان کا مقابلہ ہوا اور پہلے ہی حملہ میں انگریز سپاہی پسپا ہوگئے اور ”فورٹ ولیم“ پر سراج الدولہ کا قبضہ ہوگیا، بالآخر انگریزوں نے سراج الدولہ کے وزیر میر جعفر کو لالچ دے کراپنا ہم نوا بنالیا اور غدارِ قوم ووطن نے عین جنگ کے وقت دھوکہ دیا، اس طرح جیتی ہوئی جنگ شکست میں بدل گئی اور سراج الدولہ کے خون سے حکومت بنگال کا پٹہ ایسٹ انڈیا کمپنی کے نام لکھاگیا، یوں اڑیسہ، بہار تک انگریزوں کا راستہ صاف ہوگیا؛ کیونکہ بہار اور اڑیسہ اس وقت بنگال ہی کے تابع تھے۔
غزالاں تم تو واقف ہوکہو مجنوں کے مرنے کی
دیوانہ مرگیا آخر کو ویرانے پہ کیا گز ری
اس سے پہلے یعنی ۱۷۷۴/ میں انگریزوں نے شجاع الدولہ (والیِ اودھ) کو ترغیب ومدد دے کر روہیل کھنڈ پر چڑھائی کرادی جس کے نتیجے میں کٹرہ میران پور کی وہ مشہور جنگ ہوئی جس میں حافظ رحمت خاں شہید ہوئے، روہیلوں کا قتل عام ہوا، ان کا مال واسباب تاراج اور جائدادیں ضبط کرلی گئیں، اس طرح شجاع الدولہ کی انگریز نوازی سے یہ کانٹا بھی راستہ سے صاف ہوگیا۔
اس طرح شمالی ہند میں چاٹگام سے لے کر دہلی کی دیواروں کی پشت تک انگریزی اقتدار کا تسلط قائم ہوگیا، جنوبی ہند میں حیدرآباد نے تو انگریزوں سے دوستی کرلی تھی، اب صرف ٹیپوسلطان اور مرہٹے ہی مخالف تھے، پہلے مرہٹوں کو تھپک کر خاموش کیا، اس کے بعد میسور کی طرف متوجہ ہوئے۔ میرصادق وغیرہ سلطان کے غدار ساتھیوں نے خفیہ ساز بازکرلی تھی، اب ایک معرکہ کی ضرورت تھی، جس میں شیرِبیشہٴ حریت کو شہید کردیاجائے۔ مئی ۱۷۹۹/ اسی منصوبہ کی آخری تاریخ تھی، دن کا ایک بجا تھا کہ جنگ آزادی کے اس شیردل کمانڈر نے اپنے مخصوص جاں نثاروں کے ساتھ انگریز حملہ آوروں کی مدافعت شروع کی، ہر طرف سے گھِرجانے کے باوجود مئی کی دہکتی ہوئی گرمی میں بھوکے پیاسے سات گھنٹے کی جنگ کے بعد غروبِ آفتاب کے وقت اس بہادر سلطان نے خشک ہونٹوں کو جامِ شہادت سے ترکیا اور تاریخ جبروقہر کی پیشانی پر خون شہادت سے یہ لکھ دیا:
”شیر کی زندگی کاایک لمحہ گیڈر کی صدسالہ زندگی سے بہتر ہے“
”لارڈ ہارس“ نے جب سلطان کی خون آلود لاش دیکھی تو بے ساختہ اس نے یہ نعرہ بلند کیا۔ آج ہندوستان ہمارا ہے، اب آزادیٴ وطن کی اجڑی محفل میں صرف مرہٹی اقتدار کی ایک بجھی بجھی سی شمع باقی رہ گئی تھی؛ مگر وہ بھی تابکے؛چنانچہ آج ہندوستان کے نعرہ کی صداقت جتانے کے لیے ۱۸۰۰/ کے آخر میں لارڈلیک انگریزی فوجوں کے ساتھ دہلی کی طرف بڑھا، راجہ سندھیا کی فوجیں شاہی اقتدار کی نگہبان تھیں، سینہ سپر ہوئیں؛ مگر انگریزی فوجوں کے ریلا کے آگے مرہٹوں کی قوتِ ایثار ثابت قدم نہ رہ سکی، مجبوراً لٹی پٹی دلی نے بادلِ نا خواستہ انگریزوں کا استقبال کیا اور لارڈ لیک نے دلی پر تسلط کرکے سلطنتِ مغلیہ کے تخت کے نام نہاد وارث ”شاہ عالم“ سے وہ مشہور معاہدہ کیا، جس کی تعبیر ان الفاظ میں کی گئی کہ ”خلق خدا کی، ملک بادشاہ سلامت کا اور حکم کمپنی بہادر کا“ یہی وہ موقع ہے جب ایک فقیر بے نوا یعنی سراج الہند مولانا شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی نے اپنا انقلاب انگیز فتویٰ صادر فرمایا کہ ”ہندوستان اب دارالحرب ہے“؛ جس سے استخلاصِ وطن کی جہدوجنگ کادورِ ثانی شروع ہوا۔
(باقی)
——————————————
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ9، جلد:100 ، ذی الحجہ 1437 ہجری مطابق ستمبر 2016ء