از: معاذ کولہاپوری    

جامعہ اسلامیہ تعلیم الدین، ڈابھیل    

سرزمین ِہند کی پر امن فضاوٴں میں آزاد نہ سانس لیتے ہوئے دورِفرنگی کا تذکرہ چھڑتا رہتاہے، اور مجاہدینِ وطن و شہدائے چمن کی قربانیوں کی یاد دہانیوں اور مدح سرائیوں کی مجلسیں جمتی رہتی ہیں ۔ یہ مجلسیں اس وقت تک کامل نہیں ہوسکتیں؛ جب تک کہ ٹیپو سلطان  کا تذکرہ نہ ہو۔

یہ سچ ہے کہ سلطان جنگ ِآزادی کے سرخیل تھے؛لیکن اس کے علاوہ بھی بہت سی خوبیاں ان میں موجود تھیں جن سے لوگ ناآشناہیں ۔یہی وجہ ہے کہ بہت سے لوگ سلطان کو ایک متعصب اور ہندو دشمن ظالم حکمراں کی حیثیت سے پیش کرنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں؛ حالانکہ حقیقت بالکل برعکس ہے۔غلط فہمیاں تو انگریز موٴرخین نے من گھڑت اور جھوٹی باتیں لکھ کر پھیلائی تھیں۔ ان کے جھوٹ کا اندازہ کرنے کے لیے صرف یہی ایک مثال کافی ہوگی : ایک انگریز موٴرخ نے لکھا ہے کہ: ٹیپوسلطان  نے صرف ”کورگ“ شہر میں ستر ہزار لوگوں کو قبولِ اسلام پر مجبور کیا تھا؛حالانکہ عہدِ ٹیپو میں سرزمینِ”کورگ“ فقط پچیس سے تیس ہزار کی آبادی پر مشتمل تھی۔(سیرت ٹیپو سلطان شہید ص ۴۳۲)

مندروں پر عنایات

ٹیپوسلطان نے مسجدوں اور مندروں کے درمیان کبھی کوئی امتیاز روا نہیں رکھا،جس طرح مسجدوں پر سلطان کی نظریں رہیں، اسی طرح مندروں پر بھی ان کی عنایات رہیں ،جن کا اندازہ درج ذیل چند مثالوں سے لگایا جاسکتا ہے :

تعلقہٴ ننجن گڑھ کے کلالے نامی گاوٴں میں واقع لکشمی کانتھ مندر میں چاندی کے چار پیالے، ایک پلیٹ اور ایک اگالدان اب بھی دیکھا جاسکتا ہے،جو ٹیپوسلطان شہید  نے اس مندر کو بطور نذرانہ دیا تھا۔

 خود سری ر نگاپٹنم کے رنگناتھ مندرکو سلطان  نے ایک کافور دان اور چاندی کے سات پیالے دیے تھے اور یہ چیزیں آج تک اس مندر میں موجود ہیں۔ مقدم الذکر شہر کے ایک اور مندر سرکینشور کو ایک مرصع پیالہ -جس کے نچلے حصے میں پانچ قیمتی جوہرات جڑے ہوئے تھے- عطا کیااور نارائن سوامی مندر کو قیمتی جواہرات سے آراستہ بہت سے برتن ،ایک نقارہ اور بارہ ہاتھی عنایت کیے تھے ۔(سیرت ٹیپو سلطان شہید ص ۴۳۸)

مندروں کی حفاظت

سلطان مندروں پر فقط خزانے لٹا کر عہدہ برآنہ ہوئے؛بلکہ مشکل اوقات میں کئی مندروں کی حفاظت بھی کی ہے۔ڈنڈیگل تعلقہ پر حملہ کرتے ہوئے سلطان  نے اس کے عقبی حصہ سے گولہ باری کروائی تھی جس کامقصد صرف یہ تھا کہ راجہ کا وہ مندر حملوں کی زد میں نہ آنے پائے جو قلعہ کے اگلے حصہ میں واقع تھا۔

 ملیبار میں گروایوار پر قبضہ کے دوران وہاں کے ایک مندر کو نذرِ آتش کرنے کی کوشش کرنے والے کچھ مسلمان سپاہیوں کو سلطان نے سزائیں بھی دلوائیں اور اسی وقت مندر کی مرمت بھی کروائی ۔

کانجی ورم کے اُس مندر کی تکمیل کے لیے (جس کی بنا ۱۷۸۰ء میں سلطان حیدر علی نے رکھی تھی؛مگر تکمیل نہ ہوسکی تھی )سلطان نے دس ہزار روپیہ پیش کرنے کے ساتھ ساتھ اس موقع پر ہونے والی آتش بازیوں کے مصارف بھی خود برداشت کیے تھے۔ (سیرت ٹیپو سلطان شہید ص ۴۳۸)

مندروں اور سوامیوں کا احترام

جب رگھورناتھ راوٴ کی قیادت میں مرہٹہ در اندازوں اور فتنہ پردازوں نے سرنگیر کے ایک مندر پر حملہ کیا ،بیش قیمت املاک لوٹ کر لے گئے اور سارہ دیوی نامی مورتی کو باہر پھینک دیا جس کے نتیجہ میں مندر کے سوامی اور متولی شنکر گرواچاریہ فرار ہوکر شہر کارکل میں پناہ گزیں ہوئے اورسلطان سے حالات کی شکایت کی ، تو سلطان نے جواباًایک خط سوامی کے نام ارسال کیا جس میں آپ  نے اس قدر احترام کے ساتھ سوامی کو تسلی دی کہ خلاف ِمعمول گروجی کے نام کو اپنے نام پر مقدم کیا اور اسی پربس نہیں؛ بلکہ ان کواپنے زیر قبضہ دیہاتوں میں سے کسی بھی چیز کے لینے کا اختیار دیا ،نیز اس علاقہ کے گورنر سے دو سو اشرفیاں مع غلہ دالوئیں اور سارہ دیوی کو احترام کے ساتھ اس کی جگہ نصب کرواکر اس تقریب کے موقع پر ایک ہزار فقراکو کھاناکھلوایا۔ (سیرت ٹیپو سلطان شہید ص ۴۳۵)

ہندو عہدیداربڑے عہدوں پر

سلطان ہندووٴں کو فقط دورہی سے نوازتے نہیں رہے؛ بلکہ انھیں بڑے بڑے عہدوں پر بھی فائز کررکھا تھا۔سلطنت ِخداداد کا وزیرِ خزانہ ہندو برہمن ”پورنیا“تھا ۔یہی ”پورنیا“ باعتبار اختیارات کے وزیر اعظم میر صادق کے بعدسلطان کا نائب ِدوم بھی تھا۔

سلطان کا ذاتی منشی اورمعتمد ِخاص ”لالہ مہتاب رائے سبقت “نامی ایک ہندوبرہمن تھا ،جومیدانِ جنگ میں بھی شاہی کیمپ میں رہتا تھااور اخیر تک سلطان کا وفادار رہا۔

میسور کی فوج کا افسرِ اعلیٰ ہری سنگھ تھا،جس کابھائی بھی باوجودہندو ہونے کے حکومت کا ایک بڑا عہدیدار تھا ۔کورگ کی فوج کا افسرِ اعلیٰ ایک برہمن تھا ۔علاوہ ازیں تین ہزار کی ایک فوج سردار سیواجی کی کمان میں رہتی تھی ۔ اسی طرح اور بھی کئی مناصب ِعلیا پر غیر مسلموں کو فائز کررکھاتھا۔ (سیرت ٹیپو سلطان شہید ص ۴۳۴)

ہندو اورمسلم کے حقوق میں مساوات

سلطان ٹیپو  نے جس طرح عبادت گاہوں میں برابری اور مساوات کا معاملہ کیا ،اسی طرح انسانی حقوق میں بھی بلا تفریق ہندو ومسلم کے مذہبی رواداری کی اعلیٰ مثال قائم کی ۔جہاں انہوں نے کرشناراوٴ اور اس کے بھائیوں کو غداری کی سزا میں تختہٴ دار پر لٹکا یا، وہیں محمد قاسم اور عثمان خان کشمیری کو بھی موت کے گھاٹ اتار ا۔جہاں سلطان نے عیسائی غداروں اور نمک حراموں کے پیشوااور قائدین کو موت کی سزا دی، وہیں ان مسلمان عورتوں کو بھی قتل کیا جنہوں نے انگریز سپاہیوں کے ساتھ بدکاری کی تھی۔(سیرت ٹیپو سلطان شہید ص ۴۳۳)

 اہل السنة والجماعة سے عقائد میں بنیادی فرق کی بنا پرمہدوی فرقہ کو سلطان غیر مسلم ہی گمان کرتے تھے،نیز یہ لوگ سلطنت ِخدادادکے لیے آستین کے سانپ تھے، ان میں سے بھی بہتیرے لوگوں کو بڑے بڑے عہدوں پر فائز کر رکھا تھا۔ جب ان کی انگریزوں کی خفیہ حمایت پر ایک مدت ِدراز گذر گئی اور ذکر بالجہر کا وہ خاص غیر شرعی طریقہ- جس کے یہ لوگ قائل تھے -پوری پوری رات اڑوس پڑوس کے لوگوں کی تکلیف کا باعث بننے لگا، اور برملا حکم عدولیاں کرنے لگے، تو سلطان نے ان کو جلا وطن کردیا۔

عیسائیوں کے ساتھ سلطان کا سلوک

عیسائیوں کے ساتھ بھی سلطان  کا رویہ کچھ مختلف نہ تھا۔ سلطان نے کئی فرانسیسی عیسائیوں کواپنی سلطنت میں عہدے سپرد کررکھے تھے۔ آرمینیہ کے عیسائی تاجروں کو بھی اپنے ملک میں آکر تجارت کرنے کی اجازت ہی نہیں؛ بلکہ ان کی مالی پشت پناہی بھی کی۔ گُو اسے تارکین ِوطن عیسائیوں کو دوبارہ اپنی سلطنت میں لاکر بسایا ۔(سیرت ٹیپو سلطان شہید ص ۴۴۵)

رعایاکے دل میں سلطان کی عقیدت ومحبت

رعایا میں سلطان ٹیپوکی عقیدت اس قدر تھی کہ ہندومذہب کے دوفرقوں واڈگلائی اور ٹنکالائی کے درمیان اختلاف ہونے پر خودہندووٴں نے سلطان کو اپنا حکَم اور ثالث بنایا تھا ۔بھلا اگر سلطان ظالم اور ہندو دشمن ہوتے تو یہ صورت ِحال کیوں کرممکن ہوتی؟

سلطان کی مذہبی رواداری ہی تو تھی جس نے رعایاکے سینوں میں عقیدت و محبت کے وہ شمع فروزاں کیے تھے جنہیں دیکھ کر انگریز بھی ششدر تھے۔سلطان نے جس جگہ اپنی جان جانِ آفریں کے سپرد کی اسی جگہ سلطان کے سیکڑوں فدائین کی لاشیں پڑی ہوئی تھیں ،جن میں عورتیں بھی تھیں اور جوان لڑکیاں بھی۔جب سلطان کا جنازہ اٹھایاجانے لگا تو راہ میں ہندو عورتیں ماتم کرتے ہوئے اپنے سروں پر مٹی ڈال رہی تھیں ۔(سیرت ٹیپو سلطان شہید ص ۴۴۳)

اسی لیے ظفر علی خان نے کہا تھا:

قوتِ  با ز و ئے  ا سلا م تھی  اس کی صولت

اس کی دولت کے دعا گوؤں میں شامل تھے ہنود

سلطان کی مذہبی رواداری اور بلا تفریق ِمذہب رعایا سے حسن ِسلوک ملاحظہ فرمائیں اور دوسری طرف ہندوفرقہ پرستوں کے منہ سے نکلا ہوا زہر دیکھیے،تاریخ کے مسخ کرنے اور اسے مٹانے کی زندہ مثال آپ کو واضح طورپر سمجھ میں آجائے گی۔جولوگ تحمل مزاجی اور برداشت کی دولت سے محروم ہیں،اور جو تعصب کے ناپاک نالے کے گندے کیڑے ہیں، جو سانپ وبچھو کی طرح ہمیشہ زہر اگلتے رہتے ہیں،وہ کہہ رہے ہیں کہ سلطان ہندو کُش اورمتعصب ظالم حکمران تھا۔کاش ایک نظر اپنے دامن پر بھی ڈال دی ہوتی!

ع    دامن تو ذرا دیکھ ذرا بند قبا دیکھ

افسوس اس پربھی ہے کہ سر زمین ِہند کے اس عظیم سپوت کے حالات ِزندگی اور اس کے قابل ِرشک کارنامے باشندگانِ ملک تک صحیح معنوں میں پہنچائے نہیں گئے ہیں، ورنہ ممکن نہ تھا کہ سلطان کومتعصب اور ہندو دشمن ظالم حکمران کہا جاتا۔

غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ مذہبی رواداری،غیرمسلموں کی خوشی وغم میں شریک ہونے اور ان کے مذہبی جذبات کا خیال رکھنے میں سلطان اس قدر آگے نکل گئے تھے کہ بعض مواقع پر فقہی اعتبار سے اس پر بحث بھی کی جاسکتی ہے۔

المیہ یہ ہے کہ خود مسلمانانِ ہنداپنے سلاطین وحکمرانوں کے کارناموں اور ان کی عدل پروری کی داستانوں سے ناواقف ہیں۔اگر ٹیپو سلطان کے مسئلہ میں سنجیدگی اختیار نہ کی گئی اور اسے پڑھااورپڑھایا نہ گیاتو وہ دن دور نہیں جب ٹیپو سلطان جیسا عادل حکمران بھی ظالم سمجھا جانے لگے گا اورمسلمانِ ہند وکیلِ صفائی بن کر وضاحتیں دے رہے ہونگے؛لیکن اس وقت تک پانی سر سے اوپرہو چکا ہوگا!

——————————————-

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ9، جلد:100 ‏، ذی الحجہ 1437 ہجری مطابق ستمبر 2016ء

Related Posts