اولاد کی ظاہری وباطنی تربیت اہمیت ․․․․انداز

از:مولانا محمد شفیق الرحمن علوی

دفتر ماہنامہ بینات، بنوری ٹاؤن کراچی

بچے مستقبل میں قوم کے معمار ہوتے ہیں، اگر اُنھیں صحیح تربیت دی جائے تو اس کا مطلب ہے ایک اچھے اور مضبوط معاشرے کے لیے ایک صحیح بنیاد ڈال دی گئی۔بچوں کی اچھی تربیت سے ایک مثالی معاشرہ وجود میں آتا ہے؛ اس لیے کہ ایک اچھا پودا ہی مستقبل میں تناور درخت بن سکتا ہے۔

بچپن کی تربیت نقش علی الحجرکی طرح ہوتی ہے، بچپن میں ہی اگر بچہ کی صحیح دینی واخلاقی تربیت اور اصلاح کی جائے توبڑے ہونے کے بعد بھی وہ ان پر عمل پیرا رہے گا۔ اس کے برخلاف اگر درست طریقہ سے ان کی تربیت نہ کی گئی تو بلوغت کے بعد ان سے بھلائی کی زیادہ توقع نہیں کی جاسکتی، نیزبلوغت کے بعد وہ جن برے اخلاق واعمال کا مرتکب ہوگا، اس کے ذمہ دار اور قصور وار والدین ہی ہوں گے، جنہوں نے ابتدا سے ہی ان کی صحیح رہنمائی نہیں کی۔نیز! اولاد کی اچھی اور دینی تربیت دنیا میں والدین کے لیے نیک نامی کا باعث اور آخرت میں کامیابی کا سبب ہے؛ جب کہ نافرمان وبے تربیت اولاد دنیا میں بھی والدین کے لیے وبالِ جان ہو گی اور آخرت میں بھی رسوائی کا سبب بنے گی۔

لفظِ ”تربیت“ ایک وسیع مفہوم رکھنے والا لفظ ہے، اس لفظ کے تحت افراد کی تربیت، خاندان کی تربیت، معاشرہ اور سوسائٹی کی تربیت، پھر ان قسموں میں بہت سی ذیلی اقسام داخل ہیں۔ ان سب اقسام کی تربیت کا اصل مقصد وغرض‘ عمدہ، پاکیزہ، بااخلاق اور باکردار معاشرہ کا قیام ہے۔ تربیت ِ اولاد بھی اُنھیں اقسام میں سے ایک اہم قسم ہے۔

آسان الفاظ میں ”تربیت“ کی تعریف یوں کی جاسکتی ہے کہ:” برے اخلاق وعادات اور غلط ماحول کو اچھے اخلاق وعادات اور ایک صالح ،پاکیزہ ماحول سے تبدیل کرنے کا نام ”تربیت“ ہے۔ “

تربیت کی دو قسمیں

تربیت دو قسم کی ہوتی ہے: (۱)ظاہری تربیت،(۲)باطنی تربیت۔

ظاہری اعتبار سے تربیت میں اولاد کی ظاہری وضع قطع، لباس، کھانے، پینے، نشست وبرخاست، میل جول ،اس کے دوست واحباب اور تعلقات و مشاغل کو نظر میں رکھنا،اس کے تعلیمی کوائف کی جانکاری اور بلوغت کے بعد ان کے ذرائع معاش کی نگرانی وغیرہ امور شامل ہیں، یہ تمام امور اولاد کی ظاہری تربیت میں داخل ہیں۔اور باطنی تربیت سے مراد اُن کے عقیدہ اور اخلاق کی اصلاح ودرستگی ہے۔

اولاد کی ظاہری اور باطنی دونوں قسم کی تربیت والدین کے ذمہ فرض ہے۔ ماں باپ کے دل میں اپنی اولاد کے لیے بے حد رحمت وشفقت کا فطری جذبہ اور احساس پایا جاتا ہے۔ یہی پدری ومادری فطری جذبات واحساسات ہی ہیں جو بچوں کی دیکھ بھال، تربیت اور اُن کی ضروریات کی کفالت پر اُنھیں اُبھارتے ہیں۔ماں باپ کے دل میں یہ جذبات راسخ ہوں اور ساتھ ساتھ اپنی دینی ذمہ داریوں کا بھی احساس ہو تو وہ اپنے فرائض اور ذمہ داریاں احسن طریقہ سے اخلاص کے ساتھ پوری کرسکتے ہیں۔

قرآن مجید اور احادیث نبویہ میں اولاد کی تربیت کے بارے میں واضح ارشادات موجود ہیں۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

” قُوْا أَنْفُسَکُمْ وَأَھْلِیْکُمْ نَارًا وَّقُوْدُھَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ“․(التحریم:۶)

ترجمہ:”اپنے آپ کو اور اپنی اولاد کو اس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں“۔

حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اس آیت کی تفسیر وتشریح میں فرمایا کہ:

”علموھم وأدِّبوھم“․

ترجمہ:”ان (اپنی ولاد )کو تعلیم دو اور ان کو ادب سکھاؤ“۔

فقہاء کرام نے لکھا ہے کہ ہر شخص پر فرض ہے کہ اپنے بیوی بچوں کو فرائض شرعیہ اور حلال وحرام کے احکام کی تعلیم دے اور اس پر عمل کرانے کے لیے کوشش کرے۔

اولاد کی تربیت کی اہمیت کا اندازہ ان احادیث سے بھی ہوتا ہے، آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:

۱- ”مَانَحَلَ والدٌ أفضلَ مِنْ أدبٍ حسنٍ“․ (بخاری، جلد:۱،ص:۴۲۲)

ترجمہ:”کوئی باپ اپنی اولاد کو اس سے بہتر عطیہ نہیں دے سکتا کہ اس کو اچھے آداب سکھادے“۔

یعنی اچھی تربیت کرنا اور اچھے آداب سکھانا اولاد کے لیے سب سے بہترین عطیہ ہے۔

۲- ”عن ابن عباس․․․․․․قالوا: یارسول اللہ! قد علمنا ما حق الوالد فماحق الولد؟ قال: أن یحسن اسمہ ویحسن أدبہ“․ (سنن بیہقی)

ترجمہ:”حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: یارسول اللہ! والدین کے حقوق تو ہم نے جان لیے، اولاد کے کیا حقوق ہیں؟آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ یہ ہے کہ اس کا نام اچھا رکھے اور اس کی اچھی تربیت کرے “۔

۳- ”یہ بہت بڑا گناہ ہے کہ انسان جن کا ذمہ دارورکھوالا ہے، اُنھیں ضائع کردے، ان کی تربیت نہ کرے“۔

یہ بھی ضائع کرنا ہے کہ بچوں کو یونہی چھوڑدینا کہ وہ بھٹکتے پھریں، صحیح راستہ سے ہٹ جائیں، ان کے عقائد واخلاق برباد ہوجائیں۔نیز اسلام کی نظر میں ناواقفیت کوئی عذر نہیں ہے، بچوں کی تربیت کے سلسلہ میں جن امور کا جاننا ضروری ہے، اُس میں کوتاہی کرنا قیامت کی باز پرس سے نہیں بچا سکتا۔

حضرت عبد اللہ بن عمررضی اللہ عنہ کا ارشاد ہے:

”اپنی اولاد کوادب سکھلاوٴ، قیامت والے دن تم سے تمہاری اولاد کے بارے میں پوچھا جائے گاکہ تم نے اسے کیا ادب سکھلایا؟ اور کس علم کی تعلیم دی؟۔“ (شعب الإیمان للبیہقی)

بچوں کی حوصلہ افزائی

بچہ نرم گیلی مٹی کی طرح ہوتا ہے، ہم اس سے جس طرح پیش آئیں گے، اس کی شکل ویسی ہی بن جائے گی۔بچہ اگر کوئی اچھا کام کرے تو اس کی حوصلہ افزائی کے لیے اس کی تعریف سے دریغ نہیں کرنا چاہیے اور اس پر اُسے شاباش اورکوئی ایسا تحفہ وغیرہ دینا چاہیے جس سے بچہ خوش ہوجائے اور آئندہ بھی اچھے کام کا جذبہ اور شوق اس کے دل میں پیدا ہوجائے۔

بچوں کی غلطی پرتنبیہ کا حکیمانہ انداز

بچوں کو کسی غلط کام پر باربار اور مسلسل ٹوکنا اُن کی طبیعت میں غلط چیز راسخ ہونے سے حفاظت کا سبب بنتا ہے،جس سے اگر غفلت نہ برتی گئی تو اس میں شک نہیں کہ بچوں اور بچیوں میں غلط افکار جڑپکڑنے سے پہلے کامل طریقہ سے ان کی بیخ کنی ہوگی ۔بچے سے خطا ہوجانا کوئی اچھنبے کی بات نہیں ہے، غلطی تو بڑوں سے بھی ہوجاتی ہے۔ ماحول کا بچوں پر اثر ہوتا ہے، ممکن ہے کہ غلط ماحول کی وجہ سے بچہ کوئی غلطی کربیٹھے، تو اس صورت حال کو بھی مد نظر رکھنا چاہیے کہ بچے سے غلطی کس سبب سے ہوئی؟ اسی اعتبار سے اسے سمجھایا جائے۔تربیت میں میانہ روی اور اعتدال کا راستہ اختیار کرنا چاہیے، مربی کو اس بات سے باخبر ہونا چاہیے کہ اس وقت بچہ کے لیے نصیحت کارگر ہے یا سزا؟ تو جہاں جس قدر سختی اور نرمی کی ضرورت ہو اسی قدر کی جائے۔ بہت زیادہ سختی اور بہت زیادہ نرمی بھی بعض اوقات بگاڑ کا سبب بنتی ہے۔

تربیت میں تدریجی انداز اختیار کرنا چاہیے؛ چنانچہ غلطی پر تنبیہ کی ترتیب یوں ہونی چاہیے : ۱-سمجھانا۔۲-ڈانٹ ڈپٹ کرنا۔۳-مارکے علاوہ کوئی سزا دینا۔۴-مارنا۔۵- قطع تعلق کرنا۔ یعنی غلطی ہوجانے پر بچوں کی تربیت حکمت کے ساتھ کی جائے، اگر پہلی مرتبہ غلطی ہو تو اولاً اُسے اشاروں اور کنایوں سے سمجھایا جائے، صراحةً برائی کا ذکر کرنا ضروری نہیں۔ اگربچہ بار بار ایک ہی غلطی کرتا ہے تو اس کے دل میں یہ بات بٹھائیں کہ اگر دوبارہ ایسا کیا تو اس کے ساتھ سختی برتی جائے گی، اس وقت بھی ڈانٹ ڈپٹ کی ضرورت نہیں ہے، نصیحت اور پیار سے اُسے غلطی کا احساس دلایاجائے ۔

پیارومحبت سے بچوں کی تربیت واصلاح کا ایک واقعہ حضرت عمر بن ابی سلمہ سے منقول ہے، فرماتے ہیں کہ میں بچپن میں رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کے زیرتربیت اور زیرکفالت تھا، میرا ہاتھ کھانے کے برتن میں اِدھر اُدھر گھوم رہا تھا، یہ دیکھ کر رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: ”یا غلامُ سَمِّ اللہ! وکل بیمینک وکل ممایلیک“ ․․․․”اے لڑکے! اللہ کا نام لے کر کھانا شروع کرو اور دائیں ہاتھ سے کھاؤ اور اپنی طرف سے کھاؤ۔“

اگر نصیحت اور آرام سے سمجھانے کے بعد بھی بچہ غلطی کرے تو اُسے تنہائی میں ڈانٹا جائے اور اس کام کی برائی بتائی جائے اور آئندہ ایسا نہ کرنے کو کہا جائے۔ پھر بھی اگر باز نہ آئے تو تھوڑی پٹائی بھی کی جاسکتی ہے۔ تربیت کے یہ طریقے نوعمر بچوں کے لیے ہیں؛لیکن بلوغت کے بعد تربیت کے طریقے مختلف ہیں، اگر اس وقت نصیحت سے نہ سمجھے تو جب تک وہ اپنی برائی سے باز نہ آئے اس سے قطع تعلق بھی کیا جاسکتا ہے، جو شرعاً درست ہے اور کئی صحابہ کرام رضی اللہ عنہمکے عمل سے ثابت ہے۔ حضرت عبداللہ بن مغفل کے ایک رشتہ دار تھے جو ابھی بالغ نہ ہوئے تھے، انھوں نے کنکر پھینکا تو حضرت عبداللہ نے منع کیا اور فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کنکر مارنے سے منع فرمایا ہے اور فرمایا ہے کہ: ”إنّھا لاتصید صیدًا“ اس سے کوئی جانور شکار نہیں ہوسکتا، اس نے پھر کنکر پھینکا تو انھوں نے غصہ سے فرمایا کہ میں تمہیں بتلارہا ہوں کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے اور تم پھر دوبارہ ایسا ہی کررہے ہو؟ میں تم سے ہرگز بات نہیں کروں گا۔اسی طرح حضرت عبداللہ بن عمر نے بھی اپنے بیٹے سے ایک موقع سے قطع تعلق کیا تھا اور مرتے دم تک اس سے بات نہ کی۔

بچوں کو ڈانٹنے اور مارنے کی حدود

بچوں کی تربیت کے لیے ماں باپ یا استادکااُنھیں تھوڑابہت، ہلکا پھلکا مارنا نہ صرف یہ کہ جائز ہے؛بلکہ بعض اوقات ضروری ہوجاتا ہے۔اس معاملہ میں افراط وتفریط کا شکار نہیں ہونا چاہیے۔ غصہ میں بے قابو ہوجانا اور حد سے زیادہ مارنایا بچوں کے مارنے ہی کو غلط سمجھنا دونوں باتیں غلط ہیں۔ پہلی صورت میں افراط ہے اور دوسری میں تفریط ہے۔اعتدال کا راستہ وہ ہے جو نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک حدیث میں بیان فرمایا کہ”اپنے بچوں کو نماز کا حکم دو؛ جب کہ وہ سات سال کے ہوجائیں اور ان کو نماز نہ پڑھنے پر مارو؛ جب کہ وہ دس سال کے ہوجائیں“۔ (مشکوٰة) اس حدیث سے مناسب موقع پر حسبِ ضرورت مارنے کی اجازت معلوم ہوتی ہے۔

مارنے میں اس بات کا بھی خیال رکھا جائے کہ اس حد تک نہ ماراجائے کہ جسم پر مار کا نشان پڑجائے۔ نیز جس وقت غصہ آرہا ہو، اس وقت بھی نہ مارا جائے؛ بلکہ بعد میں جب غصہ ٹھنڈا ہوجائے تو اس وقت مصنوعی غصہ ظاہر کرکے ماراجائے؛کیونکہ طبعی غصہ کے وقت مارنے میں حد سے تجاوز کرجانے کا خطرہ ہوتا ہے اور مصنوعی غصہ میں یہ خطرہ نہیں ہوتا، مقصد بھی حاصل ہوجاتا ہے اور تجاوز بھی نہیں ہوتا۔

لڑکوں کو لڑکیوں پر ترجیح دینا گناہ ہے

اولاد اللہ تعالیٰ کی بیش بہا نعمت اورتحفہ ہے،خواہ لڑکا ہو یا لڑکی۔اسلامی تعلیمات کی رو سے بچوں پر رحم وشفقت کے معاملہ میں مذکر ومؤنث میں کوئی تفریق نہیں ہے۔ جو والدین لڑکے کی بہ نسبت لڑکی سے امتیازی سلوک کرتے ہیں، وہ جاہلیت کی پرانی برائی میں مبتلا ہیں، اس طرح کی سوچ اور عمل کا دین سے کوئی تعلق نہیں ہے؛ بلکہ دینی اعتبار سے تو اس پر سخت وعید یں وارد ہوئی ہیں۔ لڑکی کو کمتر سمجھنے والا درحقیقت اللہ تعالیٰ کے اس فیصلے سے ناخوشی کا اظہار کرتا ہے جو اللہ تعالیٰ نے اُسے لڑکی دے کر کیا ہے، ایسے آدمی کو سمجھ لینا چاہیے کہ وہ تو کیا پوری دنیا بھی مل کراللہ تعالیٰ کے اس اٹل فیصلہ کو تبدیل نہیں کرسکتی۔یہ درحقیقت زمانہٴ جاہلیت کی فرسودہ اورقبیح سوچ ہے، جس کو ختم کرنے کے لیے رحمة للعالمین  صلی اللہ علیہ وسلم نے والدین اور تربیت کرنے والوں کو لڑکیوں کے ساتھ اچھے برتاؤاوران کی ضروریات کا خیال رکھنے کی باربار نصیحت کی۔

اولاد کے درمیان برابری اور عدل

ابوداؤد شریف میں حضرت نعمان بن بشیر  کی حدیث ہے:

”قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: اعدلوا بین أبنائکم اعدلوا بین أبنائکم اعدلوا بین أبنائکم“․(ابوداؤد،جلد:۲،ص:۱۴۴)

ترجمہ:”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اپنی اولاد کے درمیان برابری کرو، اپنی اولاد کے درمیان برابری کرو،اپنی اولاد کے درمیان برابری کرو“۔

مطلب یہ ہے کہ ظاہری تقسیم کے اعتبار سے سب بچوں میں برابری کرنی چاہیے؛کیونکہ اگر برابری نہ ہو تو بچوں کی دل شکنی ہوتی ہے۔ہاں! فطری طور پر کسی بچے سے دلی طور پر زیادہ محبت ہو تواس پر کوئی پکڑ نہیں؛بشرطیکہ ظاہری طور پر برابری رکھے۔ حدیث میں تین بارمکرر برابری کی تاکیدآئی ہے جو اس کے واجب ہونے پر دلالت کرتی ہے، یعنی اولاد کے درمیان برابری کرنا واجب ہے، اور برابری نہ کرنا ظلم شمار ہوگا۔اور اس کا خیال نہ رکھنا اولاد میں احساسِ کمتری اور باغیانہ سوچ کو جنم دیتا ہے، جس کے بعد بھیانک نتائج سامنے آتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ تمام مسلمان والدین کو اپنی اولاد سے متعلق ذمہ داریاں احسن طریقہ سے نبھانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!

———————————-

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ6، جلد:100 ‏، شعبان1437 ہجری مطابق جون 2016ء

Related Posts