از:مولانا مفتی عمرفاروق لوہاروی
شیخ الحدیث دارالعلوم، لندن
” صحیح بخاری“ کی روایت میں بھی عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کی تعیین ہے
$ علامہ زمخشری (۴۶۷-۵۳۸ھ) نے ”الکشاف“ میں ایک روایت ذکر کی ہے:
وعن ابن عباس أن عمر – رضی اللہ عنھم – کان یدنیہ و یأذن لہ مع أھل بدر، فقال عبد الرحمن: أتأذن لھذا الفتن معنا وفی أبنائنا من ھو مثلہ؟! فقال: انہ ممن قد علمتم․ (الکشات، سورة النصر، ص:۶۴۳، ج:۴، دارالحدیث: القاھرة)
”حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ انھیں قریب کرتے تھے اور بدریین کے ساتھ (اپنے پاس حاضر ہونے کی) انھیں اجازت دیتے تھے، تو حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: کیا آپ اس نوجوان کو ہمارے ساتھ (حاضری کی) اجازت دیتے ہیں؛ حالاں کہ ہمارے بیٹوں میں اس جیسے ہیں (آپ ان کو قریب نہیں کرتے، ہمارے ساتھ حاضری کی اجازت نہیں دیتے)؟! حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: یقینا یہ نوجوان ان میں سے ہے، جن (کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے قرابت یا جن کے علم وذہانت) کو تم جانتے ہو۔“
علامہ زیلعی رحمہ اللہ (وفات:۷۶۲ھ) ”تخریج أحادیث الکشاف“ میں اس روایت کے متعلق فرماتے ہیں کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے اس کے ہم معنی روایت کی تخریج فرمائی ہے اور اس میں عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کی تعیین نہیں ہے:
أخرجہ البخاری من حدیث ابن عباس بمعناہ، ولیس فیہ تعیین عبدالرحمن بن عوف․ (الکشاف، سورة النصر، ص:۶۴۳، ج:۴، دارالحدیث: القارھرة)
حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے ”الکاف الشاف من تخریج أحادیث الکشاف“ میں اس پر کوئی تعقب وتبصرہ نہیں فرمایا ہے۔
بندہ کہتا ہے:
صحیح بخاری، کتاب التفسیر، سورة النصر، ص:۷۴۳، ج:۲، قدیمی: کراچی کے ابواب میں مذکور روایات میں بلاشبہ حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کی تعیین نہیں؛ لیکن کتاب المناقب اور کتاب المغازی، باب مرض النبی صلی اللہ علیہ وسلم ووفاتہ کی روایات میں یہ تعیین ہے؛ چناں چہ صحیح بخاری، کتاب المناقب، باب علامات النبوة فی الاسلام میں ہے:
عَنِ ابنِ عباسٍ – رضی اللہ عنھما – قال: کَانَ عمرُ بنُ الخَطّابِ – رضی اللہ عنہ – یُدْنِیْ ابنَ عباسٍ، فقال لہ عبدُ الرحمنِ بنُ عوفٍ – رضی اللہ عنہ – انّ لنا ابناءً مثلَہ، فقال: انّہ من حیث تعلم․․․ (صحیح بخاری، ص:۵۱۲، ج:۱، قدیمی: کراچی)
اور صحیح بخاری، کتاب المغازی، باب مرض النبی صلی اللہ علیہ وسلم ووفاتہ میں ہے:
عَنِ ابنِ عباسٍ – رضی اللہ عنھما- قال: کَانَ عُمرُ بنُ الخَطّاب – رضی اللہ عنہ – یُدْنِیْ ابنَ عباسٍ، فقال لہ عبدُ الرحمنِ بنُ عوفٍ – رضی اللہ عنہ – انٍ لنا ابناءً مثلَہ، فقال: انّہ من حیث تعلم․․․ (صحیح بخاری، ص:۶۳۷، ۶۳۸، ج:۲، قدیمی: کراچی)
کتاب الاحکام میں نہیں، کتاب التوحید میں ہے
”صحیح بخاری“ کتاب فضائل القرآن میں ہے:
باب مَنْ لَمْ یَتَغَنَّ بِالْقُرْآنِ․ (صحیح بخاری، ص:۷۵۱، ج:۲، قدیمی: کراچی)
حافظ ابن حجر عسقلانی (۷۷۳-۸۵۲ھ) اور علامہ عینی (۷۶۲-۸۵۵ھ) رحمہما اللہ فرماتے ہیں کہ یہ ترجمہ ایک حدیث کے الفاظ ہیں، جس کو امام بخاری رحمة اللہ علیہ نے ابن جریج عن ابن شہاب کے طریق سے حدیث الباب کی سند سے ”مَنْ لَمْ یَتَغَنَّ بِالْقُرْآنِ فَلَیْسَ مِنَّا“ کے الفاظ کے ساتھ ”کتاب الأحکام“ میں ذکر فرمایا ہے؛ چناں چہ ’فتح الباری‘ میں ہے:
قولہ: (باب من لم یتغن بالقرآن) ھذہ الترجمة لفظ حدیث أوردہ المصنف فی الأحکام من طریق ابن جریج عن ابن شھاب بسند حدیث الباب بلفظ: ”من لم یتغن بالقرآن فلیس منّا“․ (فتح الباری، کتاب فضائل القرآن، باب من لم یتغن بالقرآن، ص:۲۵۶، ج:۱۱، دارطیبة: الریاض)
’الکنز المتواری‘ میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے حوالے سے ان کا یہ کلام بلاتعقب منقول ہے، ملاحظہ ہو: الکنز المتواری ص: ۳۶۳، ۳۶۴، ج:۱۷، مکتبة الحرمین: دوبئی․
’عمدة القاری‘ میں ہے:
وھذہ الترجمة لفظ حدیث أخرجہ البخاری فی الأحکام من طریق ابن حریج عن ابن شھاب بسند حدیث الباب بلفظ ”من لم یتغن بالقرآن فلیس منا“․ (عمدة القاری، کتاب فضائل القرآن، باب من لم یتغن بالقرآن، ص:۳۹، ج:۲۰، داراحیاء التراث العربی: بیروت)
شیخ الاسلام زکریا الانصاری رحمة اللہ علیہ نے بھی تقریباً یہی بات نقل کی ہے؛ چناں چہ ”منحة الباری بشرح صحیح البخاری، المسمّٰی ’تحفة الباری‘ میں ہے:
والترجمة ب”من لم یتغن بالقرآن“ لفظ حدیث أخرجہ البخاری فی الأحکام بلفظ: ”من لم یتغن بالقرآن فلیس منا“․ (منحة الباری، کتاب فضائل القرآن، باب من لم یتغن بالقرآن، ص:۳۰۰، ج:۸، الرشد: الریاض)
علامہ محمد تاودی مالکی رحمة اللہ علیہ (۱۱۱۱-۱۲۰۹ھ) نے بھی حدیث کی تخریج کی نسبت حافظ ابن حجر، علامہ عینی، شیخ الاسلام زکریا الانصاری رحمہم اللہ کی طرح ”کتاب الأحکام“ کی طرف کی ہے، ’حاشیة التاودی بن سودة علی صحیح البخاری‘ میں ہے:
ھذہ الترجمة لفظ حدیث أوردہ المصنف فی الأحکام․ (حاشیة التاودی بن سودة، کتاب فضائل القرآن، باب من لم یتغن بالقرآن، ص:۲۹، ج:۵، العلمیة: بیروت)
بندہ کہتاہے:
یہ ان حضرات کا وہم ہے؛ کیوں کہ مذکورہ ترجمہ جس حدیث کے الفاظ ہیں، وہ ”کتاب الأحکام“ میں نہیں؛ بل کہ ”کتاب التوحید“ میں ہے؛ چناں چہ ”صحیح بخاری“ کتاب التوحید میں ہے:
حَدَّثَنَا اسحاقُ، قَالَ أخْبَرَنَا أبُوعاصمٍ، أخْبَرَنَا ابنُ جُرَیْجٍ، قَالَ: أَخْبَرَنَا ابنُ شھابٍ عَنْ أبی سلمةَ عَنْ أبی ھریرةَ قَالَ: قَالَ رسولُ اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: لَیْسَ مِنَّا مَنْ لَمْ یَتَغَنَّ بِالْقُرْآن․ (صحیح بخاری، کتاب التوحید، باب قول اللہ: ﴿وَاَسِرُّوْا قَوْلَکُمْ اَوِ اجْھَرُوْا بِہ﴾ الخ، ص:۱۱۲۳، ج:۲، قدیمی: کراچی)
اسی سے یہ بھی واضح ہوگیا کہ حافظ ابن حجر، علامہ عینی اور شیخ الاسلام زکریا الانصاری رحمہم اللہ نے حدیث ”مَنْ لَمْ یَتَغَنَّ بِالْقُرْآنِ فَلَیْسَ مِنَّا“ کے الفاظ کے ساتھ نقل کی ہے؛ حالاں کہ حدیث ”لَیْسَ مِنَّا مَنْ لَمْ یَتَغَنَّ بِالْقُرْآنِ“ کے الفاظ کے ساتھ ہے۔
”صحیح بخاری“ کتاب التوحید میں اس حدیث کی تخریج سے علامہ کرمانی رحمة اللہ علیہ (۷۱۷-۷۸۶ھ) کا ایک وہم ثابت ہوا، جنھوں نے ایک اشکال کے متعدد جوابات میں سے ایک جواب میں ذکر کیا ہے کہ حدیث ”مَنْ لَمْ یَتَغَنَّ بِالْقُرآنِ فَلَیْسَ مِنَّا“ امام بخاری رحمة اللہ علیہ کی شرط پر نہیں؛ اس لیے امام بخاری رحمہ اللہ نے اسے ذکر نہیں کیا۔ ”شرح البخاری للکرمانی“ میں ہے:
فان قلت: الحدیث أثبت التغنی بالقرآن، فلم ترجم الباب بقولہ ”من لم یتغن“ بصورة النفی؟
قلت: اما باعتبار ما روی عنہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم أنہ قال: ”من لم یتغن بالقرآن فلیس منا“ فأراد الاشارة الی ذلک الحدیث، ولما لم یکن بشرطہ لم یذکرہ․ (شرح البخاری للکرمانی، کتاب فضائل القرآن، باب من لم یتغن بالقرآن، ص: ۳۱، ج:۱۹، دار احیاء التراث العربی: بیروت)
وجہ وہم ظاہر ہے کہ حدیث امام بخاری رحمة اللہ علیہ کی شرط پر ہے اور انھوں نے اس کو اگرچہ کتاب فضائل القرآن کے باب من لم یتغن بالقرآن میں ذکر نہیں کیا ہے؛ لیکن کتاب التوحید، باب قول اللہ: ﴿وَاَسِرُّوْا قَوْلَکُمْ اَوِاجْھَرُوْا بِہ﴾ الخ میں ”لیس منا من لم یتغن بالقرآن“ کے الفاظ کے ساتھ ذکر فرمایا ہے۔ علامہ کرمانی رحمة اللہ علیہ کے اس وہم کا ذکر علامہ عینی رحمة اللہ علیہ نے ”عمدة القاری“ میں کیا ہے، اگرچہ وجہ وہم کے بیان میں علامہ عینی رحمہ اللہ کو حدیث کی تخریج کی نسبت کتاب التوحید کی بجائے کتاب الأحکام کی طرف کرنے میں وہم ہوگیا ہے۔ ”عمدة القاری“ میں ہے:
وجہ الوھم أنہ قال: ولما لم یکن بشرطہ، فکیف یقول ذلک وقد أخرجہ البخاری فی الأحکام کماذکرناہ․ (عمدة القاری، کتاب فضائل القرآن، باب من لم یتغن بالقرآن، ص:۳۹، ج:۲۰، داراحیاء التراث العربی: بیروت)
کتاب النکاح میں نہیں، کتاب الأدب میں ہے
$ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ (۷۷۳-۸۵۲ھ) فرماتے ہیں:
ویدلُّ علیٰ أن التسمیةَ لاَ تختصُّ بِالسَّابِحِ مَا تَقَدَّمَ فی النکاحِ مِنْ حدیثِ أبِی أُسَیْدٍ أنہ ”أتی النبیَّ صلی اللہ علیہ وسلم بِابنِہِ حین وُلِدَ فسمَّاہ المنذرَ“ (فتح الباری، کتاب العقیقة، باب تسمیة المولود الخ، ص:۵۰۲، ح:۹، دارالریان: القاھرة)
”بچے کا نام رکھنا ساتویں دن کے ساتھ خاص نہیں ہے، اس پر حضرت ابواُسید رضی اللہ عنہ کی وہ حدیث دلالت کرتی ہے، جو ”کتاب النکاح“ میں گزرچکی کہ ”أتی النبیَّ صلی اللہ علیہ وسلم بِابنِہ حین وُلِد فسمّاہ المنذرَ“ وہ اپنے بیٹے کو جب پیدا ہوئے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں لائے، تو آپ نے اس کا نام منذر رکھا۔“
بندہ کہتا ہے:
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے حضرت ابواُسید رضی اللہ عنہ کی حدیث کا حوالہ دیا کہ ”کتاب النکاح“ میں گزرچکی، یہ موصوف کا وہم ہے؛ کیوں کہ یہ حدیث ”کتاب النکاح“ میں نہیں؛ بلکہ آگے کتاب الأدب، باب تحویل الاسم الیٰ اسم ہو احسن منہ میں ہے۔ مکمل حدیث حسبِ ذیل ہے:
․․․․․․ عَنْ سھل قال: أُتِیَ بِالمنذرِ بنِ أبی أُسَیْدٍ الیٰ النبیِّ صلی اللہ علیہ وسلم حین وُلِدَ، فَوَضَعَہُ علیٰ فَخِذِہِ، وَأبو أُسیدٍ جَالِسٌ، فَلَھِیَ النبیُّ صلی اللہ علیہ وسلم بِشَیْءٍ بَیْنَ یَدَیْہِ، فَأَمَرَ أبو أُسیدٍ بِابنِہِ، فَاحْتُمِلَ مِنْ فَخِذِ النبیِّ صلی اللہ علیہ وسلم، فَاسْتَفَاقَ النبیُّ صلی اللہ علیہ وسلم فقال النبیُّ صلی اللہ علیہ وسلم: أَیْنَ الصَّبِیُّ؟ فقال أبو أُسَیْدٍ: أقْلَبْنَاہُ یا رسول اللہ، قال: مَا اسْمُہُ؟ قال: فُلانٌ، قال: (لَا) ولٰکِن اسمُہُ المُنذرُ، فَسَمّاہُ یَومئِذ المُنْذِرَ․ (صحیح بخاری، کتاب الأدب، باب تحویل الاسم اسم ھو أحسن منہ، ص:۹۱۴، ج:۲، قدیمی: کراچی)
”․․․․ حضرت سہل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ منذر بن ابی اُسید رضی اللہ عنہما کو جب پیدا ہوئے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں لایاگیا، تو آپ نے ان کو اپنی ران مبارک پر رکھا، ابواُسید رضی اللہ عنہ (بھی ساتھ) بیٹھے تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے سامنے کسی چیز میں مشغول ہوگئے، تو ابواُسید رضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹے (کے اٹھالینے) کے متعلق (کسی کو) حکم دیا، پس ان کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ران مبارک سے اٹھالیا گیا، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی مشغولیت سے فارغ ہوئے، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بچہ کہاں ہے؟ ابواُسید رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ہم نے اس کو گھر بھیجوادیا۔ آپ نے دریافت فرمایا: اس کا نام کیاہے؟ عرض کیا: فلاں، آپ نے فرمایا: (نہیں؛) لیکن اس کا نام ”مُنذِر“ ہے، تو اس دن آپ نے ان کا نام ”مُنذِر“ رکھا۔“ (باقی آئندہ)
————————————-
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ6، جلد:100 ، شعبان1437 ہجری مطابق جون 2016ء