از: مولانا مفتی عمرفاروق لوہاروی
شیخ الحدیث دارالعلوم، لندن
کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کی غزوہٴ تبوک سے متعلق حدیث کی تخریج
”صحیح بخاری“ میں کتنے مقامات میں ہوئی ہے؟
$ امام بخاری رحمہ اللہ (۱۹۴-۲۵۶ھ) نے حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کی غزوئہ تبوک اور ان کی توبہ کی قبولیت سے متعلق حدیث اپنی ”صحیح“ میں مختصر اور مطول کتنی دفعہ تخریج فرمائی ہے، اس سلسلے میں علامہ ابن الملقّن رحمة اللہ علیہ ”التوضیح لشرح الجامع الصحیح“ میں فرماتے ہیں:
وھو حدیث خرجہ البخاری مطولاً ومختصرًا فی عشرة مواضع․ (التوضیح، ص:۴۸، ج:۱۸، وزارة الأوقاف: قطر)
”امام بخاری رحمة اللہ علیہ نے اس حدیث کی مختصر ومطوّل دس مقامات میں تخریج فرمائی ہے۔“
وأشرنا الی أن البخاری خرجہ فی عشرة مواضع فی ”صحیحہ“ مطولاً ومختصرًا․ (التوضیح، ص:۵۹۴، ج:۲۱، وزارة الأوقاف: قطر)
علامہ عینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وقد أخرج البخاری حدیث غزوة تبوک وتوبة اللہ علیٰ کعب بن مالک فی عشرة مواضع مطولا ومختصرًا: فی الوصایا وفی الجھاد وفی صفة النبی صلی اللہ علیہ وسلم وفی وفود الأنصار وفی موضعین من المغازی وفی موضعین من التفسیر وفی الاستئذان وفی الأحکام․ (عمدة القاری، کتاب المغازی، باب: حدیث کعب بن مالک، ص:۵۱، ج:۱۸، دار احیاء التراث العربی: بیروت)
”اور امام بخاری رحمہ اللہ نے غزوہٴ تبوک اور اللہ تعالیٰ کے کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کو بخش دینے کی حدیث دس مقامات میں مطول ومختصر ذکر فرمائی ہے:
وصایا، جہاد، صفة النبی صلی اللہ علیہ وسلم، وفود الانصار، مغازی میں دو جگہ، تفسیر میں دو جگہ، استئذان اور کتاب الاحکام میں۔“
شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا صاحب نوراللہ مرقدہ نے علامہ عینی رحمہ اللہ کا بیان کردہ اجمالی عدد بلا کسی تعقّب کے نقل فرمایا ہے؛ چناں چہ حضرت شیخ الحدیث صاحب نوراللہ مرقدہ فرماتے ہیں:
وقال (أی العینی) أیضًا: وقد أخرج الموٴلف حدیث غزوة تبوک وتوبة اللہ علیٰ کعب بن مالک فی عشرة مواضع مطولاً ومختصرًا، الیٰ آخر ما قال․ (الأبواب والتراجم لصحیح البخاری، کتاب المغازی، باب: حدیث کعب بن مالک، ص:۶۵۹، ج:۴، دارالبشائر الاسلامیة: بیروت)
”الکنز المتواری فی معادن لامع الدراری وصحیح البخاری، ص:۵۳۷، ج:۱۵، مکتبہ الحرمین: دوبئی میں بھی علامہ عینی رحمة اللہ علیہ کا کلام بلاتعقب منقول ہے۔
علامہ قسطلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وقد أخرج الموٴلف رحمہ اللہ تعالیٰ حدیث غزوة تبوک وتوبة اللہ علیٰ کعب فی عشرة مواضع مطولاً ومختصرًا، وسبق بعضھا، ویأتی منھا ان شاء اللہ تعالیٰ فی الاستئذان والأحکام․ (ارشاد الساری، کتاب المغازی، باب حدیث کعب بن مالک، ص:۳۹۳، ج:۹، العلمیة: بیروت)
”موٴلف – امام بخاری- رحمہ اللہ تعالیٰ نے غزوئہ تبوک اور اللہ تعالیٰ کے کعب رضی اللہ عنہ کو بخش دینے کی حدیث دس مقامات میں کہیں مطول تو کہیں مختصر تخریج فرمائی ہے، جن میں سے بعض مقامات گزرگئے اور بعض ان شاء اللہ استئذان اور احکام میں آئیں گے۔“
”عون الباری لحل أدلة صحیح البخاری“ ص:۲۶۶، ج:۵، العلمیة: بیروت میں علامہ قسطلانی رحمہ اللہ کے حوالے سے دس ہی کا عدد منقول ہے۔
ہمارے دیار کی مطبوعہ ”صحیح بخاری“ کے نسخوں کے حاشیے میں بھی قسطلانی کے حوالے سے دس کا عدد منقول ہے۔ ملاحظہ ہو: حاشیہ ۱۴، ص:۶۳۶، ج:۲، قدیمی: کراچی․
علامہ محمد تاودی رحمة اللہ علیہ (۱۱۱۱-۱۲۰۹ھ) نے بھی ’حاشیة التاودی بن سودة علی صحیح البخاری‘ میں دس کا عدد ذکر کیا ہے:
وقد أخرج الموٴلف حدیث کعب ہذا فی عشرة مواضع مطولاً ومختصرًا․ (حاشیة التاودی، ص:۲۷۹، ج:۴، العلمیة: بیروت)
بندہ کہتا ہے:
”صحیح بخاری“ میں حضرت کعب رضی اللہ عنہ کی غزوئہ تبوک اور ان کی توبہ کی قبولیت سے متعلق حدیث کی تخریج دس مقامات میں ہونے کا قول وہم ہے؛ کیوں کہ اس کی تخریج دس نہیں؛ بل کہ بندہ کے شمار میں کم از کم بیس مقامات میں ہوئی ہے:
صلاة میں ایک جگہ، زکوٰة میں ایک جگہ، وصایا میں ایک جگہ، جہاد میں پانچ جگہ، صفة النبی … میں ایک جگہ، وفود الانصار میں ایک جگہ، مغازی میں تین جگہ، تفسیر میں چار جگہ، استئذان میں ایک جگہ، اَیمان ونذور میں ایک جگہ اور کتاب الاحکام میں ایک جگہ۔
حدیث کعب رضی اللہ عنہ کی تخریج کے مقامات کا ایک جدول ذیل میں پیش کیا جاتا ہے:
نوٹ: جدول میں صفحہ نمبر اور جلد نمبر کا حوالہ ”صحیح بخاری“ مطبوعہ قدیمی: کراچی کا دیا گیا ہے۔
نمبرشمار کتاب باب کتنی دفعہ تخریج ہوئی؟ صفحہ نمبر جلد نمبر
۱ الصلاة(أبواب المساجد) الصلاة اذا قدم من سفر ۱ ۶۳ ۱
۲ الزکاة لا صدقة الا عن ظھرغنی ۱ ۱۹۲ ۱
۳ الوصایا اذا تصدق أو وقف بعض رقیقہ أو دوابہ فھو جائز ۱ ۳۸۶ ۱
۴ الجھاد من أراد غزوة فوری بغیرھا الخ ۴ ۴۱۴ ۱
۵ الجھاد الصلاة اذا قدم من سفر ۱ ۴۳۴ ۱
۶ المناقب صفة النبی صلی اللہ علیہ وسلم ۱ ۵۰۱ ۱
۷ مناقب الأنصار وفود الأنصار الی النبی بمکة ۱ ۵۵۰ ۱
۸ المغازی قصة غزوة بدر ۱ ۵۶۳ ۲
۹ المغازی باب بلا ترجمة بعد باب فضل من شھد بدرا ۱ ۵۶۷ ۲
۱۰ المغازی حدیث کعب بن مالک ۱ ۶۳۴ ۲
۱۱ التفسیر سَیَحْلِفُوْنَ بِاللہِ ۱ ۶۷۴ ۲
۱۲ التفسیر لَقَدْ تَابَ اللہُ ۱ ۶۷۵ ۲
۱۳ التفسیر وَّعَلَی الثَّلٰثَةِ الَّذِیْنَ خُلِّفُوْا ۱ ۶۷۵ ۲
۱۴ التفسیر یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللہَ ۱ ۶۷۶ ۲
۱۵ الاستئذان من لم یسلّم علی من اقترف ذنبا ۱ ۹۲۵ ۲
۱۶ الأیمان والنذور اذا أھدی مالہ علی وجہ النذر والتوبة ۱ ۹۹۰ ۲
۱۷ الأحکام ھد للامام أن یمنع المجرمین وأھل المعصیة الخ ۱ ۱۰۷۳ ۲
ابوبکر الاثرم ان دو صحابیوں کی بدر میں شرکت پر جزم کرنے والوں میں ہیں یا․․․․․
$ ”صحیح بخاری“ میں غزوہٴ تبوک سے متعلق حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کی طویل حدیث میں ہے:
․․․․․ ثُمَّ قُلْتُ لَھُم: ھَلْ لَقِیَ ھٰذَا مَعِیْ أَحَدٌ؟ قَالُوا: نَعَمْ، رَجُلَانِ قَالاَ مِثْلَ مَا قُلْتَ، فَقِیْلَ لَھُمَا مِثْلُ مَا قِیْلَ لَکَ، قُلْتُ: مَنْ ھُمَا؟ قَالُوا: مُرَارَةُ بْنُ الرَّبِیْعِ الْعَمْرِیُّ وَہِلاَلُ بْنُ اُمَیَّةَ الْوَاقِفِیُّ، فَذَکَرُوا لِیْ رَجُلَیْنِ صَالِحَیْنِ، قَدْ شَھِدا بَدْرً․․․․ (صحیح بخاری، کتاب المغازی، باب حدیث کعب بن مالک، ص: ۶۳۵، ج:۲، قدیمی: کراچی)
”․․․․ پھر میں نے ان سے (بنو سَلِمہ قبیلے کے ان لوگوں سے، جنھوں نے متخلّفین کی طرح رسول اللہ … کی خدمت اقدس میں عذر خواہی کے لیے مجھے قائل کرنا چاہا) کہا: کیا کوئی اور بھی اس سے (اللہ تعالیٰ کا فیصلہ آنے تک معاملے کے موٴخر ہونے سے) ہمکنار ہوا ہے؟ انھوں نے کہا: ہاں! دو آدمیوں نے تمہاری طرح کہا، تو ان کو وہی جواب دیاگیا جو تمھیں دیاگیا، میں نے دریافت کیا کہ وہ دونوں کون ہیں؟ انھوں نے کہا: ایک مرارة بن الرَّبیع العَمری اور دوسرے ہلال بن اُمیّہ الواقفی؛ پس انھوں نے میرے سامنے ایسے دو آدمیوں کا (نام) ذکر کیا، جنھوں نے غزوہٴ بدر میں شرکت کی تھی․․․․“
حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ (۷۷۳-۸۵۲ھ) فرماتے ہیں:
قولہ: ”فذکروا لی رجلین صالحین، قد شھدا بدرا“․․․․ وممن جزم بأنھما شھدا بدرا أبوبکر الأثرم، و تعقبہ ابن الجوزی ونسبہ الیٰ الغلط، فلم یصب․ (فتح الباری، کتاب المغازی، باب حدیث کعب بن مالک، ص:۷۲۴، ج:۷، دارالریان: القاہرة)
”اور ان دونوں صحابیوں کی بدر میں شرکت پر جزم کرنے والوں میں ابوبکرالاثرم ہیں، ابن الجوزی نے ان کا تعقب کیا اور غلطی کی طرف منسوب کیا ہے؛ لیکن ان کا تعقب وتغلیط درست نہیں ہے۔“
علامہ قسطلانی رحمہ اللہ (۸۵۱-۹۲۳ھ) فرماتے ہیں:
وممن جزم بأنھما شھدا بدرا الأثرم وھو ظاھر صنیع البخاری، وتعقّب الأثرمَ ابنُ الجوزی ونسبہ الی الغلط؛ لکن قال الحافظ ابن حجر: انہ لم یصب․ (ارشاد الساری، کتاب المغازی، باب حدیث کعب بن مالک، ص: ۳۸۸، ۳۸۹، ج:۹، العلمیة: بیروت)
”اور ان دونوں صحابیوں کی بدر میں شرکت پر یقین کرنے والوں میں اثرم ہیں اور یہی امام بخاری رحمہ اللہ کے طرز سے ظاہر ہے۔ ابن الجوزی نے اثرم کا تعقب کیا اور ان کو غلطی کی طرف منسوب کیا ہے؛ لیکن حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فرمایا کہ انھوں نے (ابن الجوزی نے) درستی کو نہیں پایا۔“
”الکنز المتواری فی معادن لامع الدراری وصحیح البخاری“ میں علامہ قسطلانی رحمة اللہ علیہ کا یہ کلام بلاتعقب منقول ہے۔ ملاحظہ ہو: الکنز المتواری، ص:۵۳۷، ج:۱۵، مکتبہ الحرمین دوبئی․
بندہ کہتا ہے:
حافظ ابن حجر عسقلانی اور ان کے اتباع میں علامہ قسطلانی رحمہما اللہ کو یہاں وہم ہوا ہے کہ انھوں نے ابوبکر الاثرم رحمہ اللہ کو ان دونوں صحابیوں کی بدر میں شرکت پر جزم کرنے والوں میں سے اور ابن الجوزی رحمہ اللہ (تقریباً ۵۱۰ یا اس سے قبل -۵۹۷ھ) کو ان کا تعقب کرنے والا اور غلطی کی طرف منسوب کرنے والا قرار دیا ہے؛ حالاں کہ حقیقت یہ ہے کہ ابوبکر الاثرم رحمہ اللہ ان دو صحابیوں کی بدر میں عدمِ شرکت پر جزم کرنے والوں میں سے ہیں؛ چناں چہ ابن الجوزی رحمہ اللہ ”کشف المشکل“ میں فرماتے ہیں:
وقولہ: ”فذکروا لی رجلین صالحین، قد شھدا بدرا“ ھذا مما قرأتہ علیٰ المشایخ سنین، وما نبھنی علیہ أحد، ولا رأیت من نظر فیہ من تتبع بعضھم أغلاط بعض، فلما جعمت أسماء أھل بدر، وذکرت من اتفق علی حضورہ ومن اختلف فیہ لم أر لھذین الرجلین ذکرًا، فما زلتُ أبحث وأسأل فلا یدلنی أحد علی محجّة، واذا الحدیث مخرج فی الصحیحین وفی المسانید، ولا ینبہ أحد علیہ، ولا أدری ما وجھہ، الیٰ أن رأیت فی کتاب ”ناسخ الحدیث منسوخہ“ لأبی بکر الأثرم، وقال فیہ: کان الزھری أوحد أھل زمانہ فی حفظ الحدیث، ولم یحفظ علیہ من الوھم الا الیسیر، من ذلک قولہ فی ھذین الرجلین: شھدا بدرًا․ (کشف المشکل، کتاب المغازی، باب حدیث کعب بن مالک، ص:۳۸۳، ج:۵، مکتبة عباس أحمد الباز: مکة المکرمة)
”فذکروا لی رجلین صلاحین، قد شھدا بدرا“ یہ جملہ ان میں سے ہے، جن کو میں نے کئی سال مشائخ پر پڑھا اور کسی نے اس جملہ پر مجھے نہیں ٹوکا اور نہ ہی میں نے دوسروں کی اغلاط کے جوئندہ لوگوں میں سے کسی کو پایا جس نے اس جملہ میں نظر قائم کی ہو۔ جب میں نے حضرات بدریین کے اسماء گرامی کو جمع کیا اور جن صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم کی غزوہٴ بدر میں شرکت متفق علیہ اور جن کی مختلف فیہ ہے، ان کو ذکر کیا، تو میں نے ان دونوں صحابیوں کا ذکرنہیں پایا، میں مسلسل چھان بین اور دریافت میں لگا رہا، کسی نے راہِ راست پر میری رہنمائی نہ کی؛ جب کہ اس حدیث کی صحیحین اور مسانید میں تخریج ہوئی ہے اور کوئی اس پر تنبیہ نہیں کررہا ہے۔ مجھے پتا نہیں تھا کہ اس کا سبب کیا ہے؟ یہاں تک کہ میں نے ابوبکر الاثرم کی کتاب ”ناسخ الحدیث ومنسوخہ“ میں دیکھا، اس میں انھوں نے کہا: زہری حفظِ حدیث میں اپنے زمانے والوں میں بے نظیر تھے، ان کے اوہام کم ہی ہیں، جن میں سے ان دو صحابیوں کے متعلق ان کا یہ قول ہے : شَہِدَ بدرًا (ان دونوں کی غزوئہ بدر میں شرکت ہے)“
امام ابن الجوزی رحمہ اللہ کے اِس کلام سے معلوم ہوا کہ ابوبکر الاثرم رحمہ اللہ حضرت مُرارہ بن الربیع العَمری اور ہلال بن امیہ الواقفی رضی اللہ عنہما کی بدر میں شرکت کے قائل نہیں ہیں؛ اسی لیے انھوں نے امام زہری رحمہ اللہ کے قول شَہِدَا بدرًا․ (اندونوں نے غزوہٴ بدر میں شرکت کی ہے) کو ان کے اوہام میں شمار کیا ہے۔ خود حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے کتاب المغازی، باب بلا ترجمة بعد باب فضل من شہد بدرا میں اثرم کو ان دونوں صحابیوں کی بدر میں شرکت کا اولاً انکار کرنے والا قرار دیا ہے؛ چناں چہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وقد استقرأت أول من أنکر شھودھما بدرًا، فوجدتہ الأثرم صاحب الامام أحمد، واسمہ أحمد بن محمد بن ھانی، قال ابن الجوزی: لم أزل متعجبا من ھذا الحدیث وحریصا علی کشف ھذا الموضع وتحقیقہ حتی رأیت الأثرم ذکر الزھری وفضلہ، وقال: لا یکاد یُحْفَظُ عنہ غَلَطٌ الا فی ھذا الموضع، فانہ ذکر أن مرارة وھلالا شھدا بدرا، وھذا لم یقلہ أحد، والغلط لا یخلو منہ انسان․ (فتح الباری، کتاب المغازی، باب بلا ترجمة بعد باب فضل من شھد بدرًا، ص: ۳۶۱، ج:۷، دارالریان: القاھرة)
”میں نے ان دونوں صحابیوں کی بدر میں شرکت کا سب سے پہلے انکار کرنے والے کی جستجو کی، تو میں نے انکار کرنے والا امام احمد (بن حنبل) کے تلمیذ اثرم رحمہما اللہ کو پایا، ان کا نام احمد بن محمد بن ہانی ہے۔ ابن الجوزی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں اس حدیث سے مسلسل متعجب اور اس مقام کی وضاحت اور اس کی تحقیق کا خواہش مند رہا، یہاں تک کہ میں نے اثرم کو پایا کہ انھوں نے زہری کا اور ان کے فضل وکمال کاذکر کیا اور کہا: سوائے اس مقام کے ان کی کوئی غلطی نوٹ نہیں کی جاسکتی؛ اس لیے کہ انھوں نے ذکر کیا کہ مُرارہ اور ہلال رضی اللہ عنہما نے غزوئہ بدر میں شرکت کی؛ حالاں کہ یہ بات کسی نے نہیں کہی اور غلطی سے کوئی انسان خالی نہیں۔“
”فتح الباری“ کی اِس عبارت سے معلوم ہوا کہ اثرم ان دونوں صحابیوں کی بدر میں شرکت کا نہ صرف انکار کرنے والوں میں سے ہیں؛ بل کہ انکار کرنے والوں میں اوّل ہیں اور بقول ان کے زہری رحمہ اللہ ان دونوں صحابیوں کی بدر میں شرکت کا ذکر کرکے غلطی ووہم کے مرتکب ہوئے ہیں۔ واللہ تعالیٰ اعلم
(باقی آئندہ)
—————————————–
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ4، جلد:100 ، جمادی الاخری1437 ہجری مطابق اپریل 2016ء