خير الكلام فى كشف أوهام الأعلام (۴)

از: مولانا مفتی عمرفاروق لوہاروی         

شیخ الحدیث دارالعلوم، لندن             

دونوں امور حدیث الباب میں ہیں

$ ”صحیح بخاری“ کتاب الھبة میں ہے:

باب القلیل مِن الھبةِ:

حَدَّثَنا محمدُ بنُ بشّارٍ حدثنا ابنُ أبي عدیٍّ عن شعبةَ عن سلیمان عن أبی حازم عن أبی ھریرة رضی اللہ عنہ عن النبي صلی اللہ علیہ وسلم قالَ: لو دُعِیتُ الیٰ ذِراعٍ أو کُراعٍ لَأَجَبْتُ، لو أُھدِيَ اليَّ ذِراعٌ أو کُراعٌ لَقَبِلْتُ․ (صحیح بخاری، کتاب الھبة، باب القلیل مِن الھبة، ص:۳۴۹، ج:۱، قدیمی: کراچی)

”․․․ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر مجھے جانور کے دست یا پائے کھانے کی دعوت دی جائے، تو میں دعوت ضرور قبول کروں گا اور اگر مجھے دست یا پائے کا ہدیہ دیا جائے، تو میں (وہ ہدیہ) ضرور قبول کروں گا۔“

حافظ ابن حجر عسقلانی رحمة اللہ علیہ (۷۷۳-۸۵۲ھ) ”فتح الباری“ میں فرماتے ہیں:

ومناسبتہ للترجمة بطریق الأولی؛ لأنہ اذا کان یجیب من دعاہ علیٰ ذلک القدر الیسیر، فلأن یقبلہ ممّن أحضرہ الیہ أولیٰ․

والکراع من الدابة ما دون الکعب، وقیل: ھو اسم مکان، ولا یثبت، ویردہ حدیث أنس عند الترمذی بلفظ ”لو أھدي اليّ کراع لقبلت“․ (فتح الباری، کتاب الھبة، باب القلیل من الھبة، ص:۲۳۶، ج:۵، دارالریان: القاھرة)

ہمارے دیار کی مطبوعہ ”صحیح بخاری“ کے نسخوں کے حاشیے میں حافظ ابن حجرعسقلانی رحمة اللہ علیہ کا مذکورہ کلام بلا تعقب منقول ہے۔ ملاحظہ ہو: حاشیہ: ۶، ص:۳۴۹، ج:۱، قدیمی کراچی)

”الأبواب والتراجم“ ص:۱۰۹، ج:۴، دارالبشائر الاسلامیہ: بیروت اور ”الکنز المتواري في معادن لامع الدراري وصحیح البخاري“ ص:۳۳۵، ج:۱۱، موٴسسة الخلیل الاسلامیة: فیصل آباد میں بھی حافظ ابن حجر عسقلانی رحمة اللہ علیہ کا مذکورہ کلام بلا تعقب منقول ہے۔

حافظ ابن حجر عسقلانی رحمة اللہ علیہ نے اس عبارت میں دو امور ذکر فرمائے ہیں:

(۱) حدیث پاک کی ترجمہ کے ساتھ مناسبت بیان فرمائی ہے کہ حدیث کی ترجمہ کے ساتھ مناسبت بطریق اولیٰ ہے۔ یعنی حدیث سے ترجمہ بطریق اولیٰ ثابت ہورہا ہے؛ کیوں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس معمولی مقدار: پائے کی دعوت دینے والے کی دعوت قبول فرمائیں گے، تو جو یہ مقدار خود لاکر آپ کی خدمت میں پیش کرے گا، بطریق اولیٰ اس کو قبول فرمائیں گے۔

(۲) ”کُرَاع“ کے معنی بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ جانور کا کُراع اس کے ٹخنے سے نیچے کا حصہ ہے۔

بعض نے کہا: ”کُرَاع“ ایک جگہ کا نام ہے۔ گویا حدیث پاک میں ”کُراع“ نامی جگہ مجھے دعوت دی جائے تو میں دعوت قبول کروں گا۔

حافظ ابن حجر عسقلانی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ قول ثابت نہیں۔ ”جامع ترمذی“ کی حضرت انس رضی اللہ عنہ کی روایت اس کا رد کرتی ہے، جس کے الفاظ ہیں:

لو أُھْدِيَ اليَّ کُرَاعٌ لَقَبِلْتُ․

”اگر مجھے کُراع“ ہدیہ دیا جائے، تو میں ضرور قبول کروں گا۔“

ظاہر ہے کہ ”کُراع“ نامی مقام بطور ہدیہ دینے کا کیا مطلب؟ لامحالہ ”کُراع“ سے جانور کے ٹخنے سے نیچے کا حصہ یعنی پایہ مراد ہے۔

علامہ ابن الملقّن رحمة اللہ علیہ (۷۲۳-۸۰۴ھ) کی ”التوضیح لشرح الجامع الصحیح“ میں مذکورہ دو امور میں سے دوسرے امر کا ذکر ہے:

والکراع فی حد الرسغ وھو فی البقر والغنم بمنزلة الوظیف فی الفرس والبعیر أي: ھو خفہ وھو مستدق الساق․․․ وقیل: ان الکراع ھنا اسم موضع، وذکرہ الغزالي في ”الاحیاء“ لفظ: کراع الغمیم، ولم أرہ کذلک، ویردہ روایة الترمذي عن أنس مرفوعًا: ”لو أھدي اليَّ کراع لقبلت، ولو دعیت علیہ لأجبت“ ثم صححہ․ (التوضیح، ص:۲۸۲، ج:۱۶، وزارة الأوقاف: قطر)

علامہ عینی رحمة اللہ علیہ (۷۶۲-۸۵۵ھ) نے مذکورہ دو امور میں سے صرف دوسرے امر کا ”بعض“ یعنی حافظ رحمہ اللہ کے حوالے سے بلاتعقب ذکر کیا ہے:

وقال بعضھم: قیل: الکراع اسم مکان․ قلت: الذي قالہ ھو الغزالي، ذکرہ في الاحیاء بلفظ کراع الغمیم، وتردّ ذلک روایة من حدیث أنس مرفوعًا: لو أھدي اليّ کراع لقبلتہ، ثم صححہ․ (عمدة القاري، ص:۱۲۸، ج:۱۳، داراحیاء التراث العربي: بیروت)

علامہ محمد تاودی مالکی رحمة اللہ علیہ (۱۱۱۱-۱۲۰۹ھ) نے بھی مذکورہ دو امور میں سے صرف دوسرے امر کا ذکر کیا ہے:

(لو دعیت الی کراع) ھو من الدابة ما دون الکعب، وقیل: اسم مکان ولا یثبت، ویردّہ حدیث أنس عند الترمذي بلفظ: ”لو أھدي اليَّ ذراع أو کراع لقبلت“ (حاشیة التاودي بن سودة علی صحیح البخاري، ص:۱۲، ج:۳، العلمیة: بیروت)

ملحوظہ:

”جامع ترمذی“ کی حدیث انس رضی اللہ عنہ میں صرف ”کُراع“ کا لفظ ہے، جیسا کہ ”فتح الباری“ اور ”عمدة القاری“ میں واقع ہے، ”ذِراع“ کا لفظ نہیں ہے، جو ”حاشیة التاودی“ میں واقع ہوگیا ہے۔ ملاحظہ ہو: الکتب الستة، جامع الترمذي، أبواب الأحکام، باب ما جاء في قبول الھدیة واجابة الدعوة، ص:۱۷۸۶، حدیث: ۱۳۳۸، دارالسلام: الریاض․

بندہ کہتا ہے:

حدیث الباب کا دوسرا جزء ہے:

ولو أُھْدِيَ الَیَّ ذِراعٌ أو کُراعٌ لَقَبِلْتُ․

”اور اگر مجھے دست یا پائے کا ہدیہ دیا جائے، تو میں ضرور قبول کروں گا۔“

یہ دوسرا جزء صراحتاً ترجمہ کے ساتھ مناسبت رکھتا ہے اور صراحتاً اس سے ترجمہ ثابت ہورہا ہے؛ لہٰذا حدیث کی ترجمہ کے ساتھ مناسبت بطریق اولویت نکالنے کی ضرورت نہیں رہتی۔

دوسرے امر میں ”کُراع“ سے ایک جگہ مراد لینے کی تردید بھی حدیث الباب کے دوسرے جزء سے ہورہی ہے۔

اس طرح دونوں امور حدیث الباب میں ہیں۔ واللہ تعالیٰ اعلم

باب کی پہلی روایت میں مذکور واقعہ فتح مکہ کا نہیں ہے

$ ”صحیح بخاري“ میں ہے:

باب الرِّدف علی الحمار: حَدَّثَنَا قُتَیْبَةُ، حَدَّثَنَا أبو صفوانَ، عَنْ یونسَ بنِ یزِیدَ، عن ابنِ شھابٍ، عَنْ عُروةَ، عَن أسامة بنِ زیدٍ – رضی اللہ عنھما – أنّ رسولَ اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رَکِبَ علیٰ حمارٍ علیٰ اکافٍ عَلَیْہِ قَطِیْفَةٌ، وَأَرْدَفَ أسامةَ وَرَوائہُ․

حَدَّثَنَا یَحْیَی بْنُ بُکَیْرٍ، حَدَّثَنَا اللَّیْثُ، قَالَ: حَدَّثَنَا یُونُسُ، أَخْبَرَنِی نَافِعٌ، عَنْ عَبْدِ اللہِ – رَضِیَ اللہُ عَنْہُ- أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَقْبَلَ یَوْمَ الفَتْحِ مِنْ أَعْلَی مَکَّةَ عَلَی رَاحِلَتِہِ مُرْدِفًا أُسَامَةَ بْنَ زَیْدٍ، وَمَعَہُ بِلاَلٌ، وَمَعَہُ عُثْمَانُ بْنُ طَلْحَةَ مِنَ الحَجَبَةِ، حَتَّی أَنَاخَ فِي المَسْجِدِ، فَأَمَرَہُ أَنْ یَأْتِيَ بِمِفْتَاحِ البَیْتِ، فَفَتَحَ وَدَخَلَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَمَعَہُ أُسَامَةُ، وَبِلاَلٌ، وَعُثْمَانُ، فَمَکَثَ فِیھَا نَھَارًا طَوِیلًا، ثُمَّ خَرَجَ، فَاسْتَبَقَ النَّاسُ، فَکَانَ عَبْدُ اللہِ بْنُ عُمَرَ أَوَّلَ مَنْ دَخَلَ، فَوَجَدَ بِلاَلًا وَرَاءَ الْبَابِ قَائِمًا، فَسَأَلَہُ: أَیْنَ صَلَّی رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ؟ فَأَشَارَ لَہُ إِلَی المَکَانِ الَّذِی صَلَّیٰ فِیہِ․ قَالَ عَبْدُ اللہِ: فَنَسِیتُ أَنْ أَسْأَلَہُ: کَمْ صَلّٰی مِنْ سَجْدَةٍ؟ (صحیح بخاری، کتاب الجھاد والسیر، باب الردف علی الحمار، ص:۴۱۹، ج:۱، قدیمی: کراچی)

”گدھے پر سوار کے پیچھے سوار ہونے والے کے بیان میں یہ باب ہے․․․․ حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گدھے پر، پالان پر سوار ہوئے، اس پر روئیں دار چادر تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پیچھے اسامہ رضی اللہ عنہ کو سوار کیا۔

․․․․ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فتح مکہ کے دن مکہ مکرمہ کی بالائی جانب سے اپنی اونٹنی پر حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما کو ردیف بناکر (اپنے پیچھے سوار کرکے) تشریف لائے۔ حضرت بلال رضی اللہ عنہ اور خانہٴ کعبہ کے دربانوں: خدّام میں سے حضرت عثمان بن طلحہ رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اونٹنی مسجد میں بٹھائی اور حضرت عثمان بن طلحہ رضی اللہ عنہ کو بیت اللہ کی چابی لانے کا حکم فرمایا (وہ چابی لائے) پس انھوں نے دروازہ کھولا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (بیت اللہ میں) داخل ہوئے، اُسامہ بن زید، بلال اور عثمان (بن طلحہ) رضی اللہ عنہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں تھے، آپ بیت اللہ میں دیر تک ٹھہرے، پھر نکلے، تو لوگ (بیت اللہ میں داخل ہونے کے لیے) آگے بڑھے، حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما (لوگوں میں) سب سے پہلے داخل ہونے والے تھے، انھوں نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو بیت اللہ کے دروازے کے پیچھے کھڑا ہوا پایا، تو ان سے دریافت کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہاں نماز پڑھی؟ حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے انھیں اس جگہ کی طرف اشارہ کیا، جہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھی تھی۔ (راویٴ حدیث:) حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ سے یہ پوچھنا بھول گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کتنی رکعت پڑھی؟“

حضرت مولانا احمد علی صاحب محدث سہارن پوری نوراللہ مرقدہ (وفات: ۱۲۹۷ھ/ ۱۸۷۹/) نے باب کی پہلی حدیث کے متعلق ”الخیر الجاری“ کے حوالے سے حاشیہ ”صحیح بخاری“ میں بلا تعقب لکھا ہے کہ عنقریب یہ بات آئے گی کہ یہ واقعہ فتح مکہ کے موقع پر پیش آیا تھا۔

وسیأتی أنہ کان في فتح مکة․․․․ ۱۲ الخیرالجاری (صحیح بخاری، کتاب الجھاد والسیر، باب الردف علی الحمار، حاشیہ:۶، ص:۴۱۹، ج:۱، قدیمی: کراچی)

بندہ کہتا ہے:

یہ صاحب الخیر الجاری: علامہ ابویوسف یعقوب لاہوری رحمة اللہ علیہ (وفات: ۱۰۹۸ھ) کا وہم ہے؛ اس لیے کہ باب کی دوسری روایت میں بلاشبہ فتح مکہ کا واقعہ ہے؛ لیکن باب کی پہلی روایت میں فتح مکہ کا واقعہ نہیں ہے؛ بل کہ غزوئہ بدر سے قبل رئیس المنافقین: عبداللہ بن اُبَی کے اظہار اسلام سے پہلے مدینہ منورہ میں پیش آنے والا واقعہ ہے، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قبیلہٴ خزرج کے سردار حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کی عیادت کے لیے تشریف لے جارہے تھے، جیساکہ ”صحیح بخاری“ کی حسب ذیل مفصل روایت میں صراحتاً منقول ہے:

حَدَّثَنَا أَبُو الیَمَانِ، قال: أَخْبَرَنَا شُعَیْبٌ، عَنِ الزُّھْرِیِّ، قَالَ: أَخْبَرَنِی عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَیْرِ أَنَّ أُسَامَةَ بْنَ زَیْدٍ – رَضِیَ اللہُ عَنْھُمَا – أَخْبَرَہُ أَنَّ رَسُولَ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رَکِبَ عَلَی حِمَارٍ عَلَی (علیہ) قَطِیفَةٍ فَدَکِیَّةٍ، وَأَرْدَفَ أُسَامَةَ بْنَ زَیْدٍ وَرَائَہُ یَعُودُ سَعْدَ بْنَ عُبَادَةَ فِي بَنِي الحَارِثِ بْنِ الخَزْرَجِ قَبْلَ وَقْعَةِ بَدْرٍ․ قَالَ: حَتَّی مَرَّ بِمَجْلِسٍ فِیہِ عَبْدُ اللہِ بْنُ أُبَیِّ ابْنُ سَلُولَ، وَذَلِکَ قَبْلَ أَنْ یُسْلِمَ عَبْدُ اللہِ بْنُ أُبَیٍّ، فَإِذَا فِي المَجْلِسِ أَخْلاَطٌ مِنَ المُسْلِمِینَ وَالمُشْرِکِینَ عَبَدَةِ الأَوْثَانِ وَالیَھُودِ وَالمُسْلِمِینَ، وَفِی المَجْلِسِ عَبْدُ اللہِ بْنُ رَوَاحَةَ، فَلَمَّا غَشِیَتِ المَجْلِسَ عَجَاجَةُ الدَّابَّةِ خَمَّرَ عَبْدُ اللہِ بْنُ أُبَیِّ أَنْفَہُ بِرِدَائِہِ ثُمَّ قَالَ: لاَ تُغَبِّرُوا عَلَیْنَا، فَسَلَّمَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلَیْھِمْ، ثُمَّ وَقَفَ فَنَزَلَ فَدَعَاھُمْ إِلَی اللہِ وَقَرَأَ عَلَیْھِمُ القُرْآنَ، وَقَال (فَقَالَ) عَبْدُ اللہِ بْنُ أُبَیٍّ ابْنُ سَلُولَ: أَیُّھَا المَرْءُ، إِنَّہُ لاَ أَحْسَنَ مِمَّا تَقُولُ إِنْ کَانَ حَقًّا فَلاَ تُؤْذِینَا (فلا توٴذنا) بِہِ فِی مَجَالِسِنَا، ارْجِعْ إِلَی رَحْلِکَ فَمَنْ جَائَکَ فَاقْصُصْ عَلَیْہِ․ فَقَالَ عَبْدُ اللہِ بْنُ رَوَاحَةَ: بَلَیٰ یَا رَسُولَ اللہِ، فَاغْشَنَا بِہِ فِي مَجَالِسِنَا، فَإِنَّا نُحِبُّ ذَلِکَ․ فَاسْتَبَّ المُسْلِمُونَ وَالمُشْرِکُونَ وَالیَھُودُ حَتَّی کَادُوا یَتَثَاوَرُونَ، فَلَمْ یَزَلِ النَّبِیُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُخَفِّضُھُمْ حَتَّی سَکَنُوا (سَکتوا)․ ثُمَّ رَکِبَ النَّبِیُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ دَابَّتَہُ، فَسَارَ حَتَّی دَخَلَ عَلَی سَعْدِ بْنِ عُبَادَةَ، فَقَالَ لَہُ النَّبِیُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: یَا سَعْدُ، أَلَمْ تَسْمَعْ مَا قَالَ أَبُوحُبَابٍ؟ یُرِیدُ عَبْدَ اللہِ بْنَ أُبَیٍّ قَالَ: کَذَا وَکَذَا، قَالَ سَعْدُ بْنُ عُبَادَةَ: یَا رَسُولَ اللہِ، اعْفُ عَنْہُ وَاصْفَحْ عَنْہُ، فَوَالَّذِی أَنْزَلَ عَلَیْکَ الکِتَابَ لَقَدْ جَاءَ اللہُ بِالحَقِّ الَّذِی نزّل (أَنْزَلَ) عَلَیْکَ، لَقَدِ اصْطَلَحَ أَھْلُ ھَذِہِ البُحَیْرَةِ عَلَی أَنْ یُتَوِّجُوہُ فَیُعَصِّبُوہُ بِالعِصَابَةِ، فَلَمَّا أَبَی اللہُ ذَلِکَ بِالحَقِّ الَّذِی أَعْطَاکَ اللہُ شَرِقَ بِذَلِکَ، فَذَلِکَ فَعَلَ بِہِ مَا رَأَیْتَ، فَعَفَا عَنْہُ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ․ وَکَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابُہُ یَعْفُونَ عَنِ المُشْرِکِینَ، وَأَھْلِ الکِتَابِ، کَمَا أَمَرَھُمُ اللہُ، وَیَصْبِرُونَ عَلَیٰ الأَذَیٰ․ قَالَ اللہُ: ﴿وَلَتَسْمَعُنَّ مِنَ الَّذِینَ أُوتُوا الکِتٰبَ مِنْ قَبْلِکُمْ وَمِنَ الَّذِینَ أَشْرَکُوٓا أَذًی کَثِیرًا﴾ الآیَةَ، وَقَالَ اللہُ: ﴿وَدَّ کَثِیرٌ مِنْ أَھْلِ الکِتٰبِ لَوْ یَرُدُّونَکُمْ مِنْ بَعْدِ إِیمَانِکُمْ کُفَّارًا حَسَدًا مِنْ عِنْدِ أَنْفُسِھِمْ﴾ إِلَی آخِرِ الآیَةِ، وَکَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَتَأَوَّلُ فی العَفْوَ مَا أَمَرَہُ اللہُ بِہِ حَتَّی أَذِنَ اللہُ فِیھِمْ، فَلَمَّا غَزَا رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَدْرًا، فَقَتَلَ اللہُ بِہِ صَنَادِیدَ کُفَّارِ قُرَیْشٍ، قَالَ ابْنُ أُبَیٍّ ابْنُ سَلُولَ وَمَنْ مَعَہُ مِنَ المُشْرِکِینَ وَعَبَدَةِ الأَوْثَانِ: ھَذَا أَمْرٌ قَدْ تَوَجَّہَ، فَبَایَعُوا الرَّسُولَ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلَی الإِسْلاَمِ فَأَسْلَمُوا․ (صحیح بخاری، کتاب التفسیر، باب قولہ ﴿وَلَتَسْمَعُنَّ مِنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ مِنْ قَبْلِکُمْ وَمِنَ الَّذِیْنَ اَشْرَکُوْآ اَذًی کَثِیْرًا﴾، ص:۶۵۵، ۶۵۶، ج:۲، کتاب المرضی، باب عیادة المریض راکبًا وماشیًا وردفًا علی الحمار، ص:۸۴۵، ۸۴۶، ج:۲، کتاب الأدب، باب کنیة المشرک، ص:۹۱۶، ۹۱۷، ج:۲، کتاب الاستئذان، باب التسلیم في مجلس فیہ أخلاط من المسلمین والمشرکین، ص:۹۲۴، ۹۲۵، ج:۲، قدیمی: کراچی)

غزوہٴ بدر کے مُبارزین کے ناموں اور ان کے احوال میں

عجیب مطابقت اور شیخ ابن القیم رحمہ اللہ کا وہم

$ تقدیرِ الٰہی نے غزوہٴ بدر میں کفار اورمسلمانوں کی طرف سے مبارزت کے لیے نکلنے والے چھ افراد کے ناموں کی اس دن ان کے احوال سے عجیب مطابقت پیدا کی تھی؛ چناں چہ کفار کی طرف سے سب سے پہلے مقابلہ کے لیے میدان کارزار میں اترنے والے تین: ولید، شَیْبَہ اور عُتْبَہ تھے۔ ولید کے معنی بچہ ہے، ظاہر ہے بچہ میں کس قدر ضعف وعجز کا پہلو ہے! اس طرح یہ نام بدایت ضعف پر دلالت کرتا ہے۔ شیبہ میں بڑھاپے کے معنی ہیں اور بڑھاپے میں انسان کے اعضاء وقُویٰ جواب دے دیتے ہیں، اس اعتبار سے اس میں نہایت ضعف پر دلالت ہے، جیساکہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

اَللہُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ مِّنْ ضُعْفٍ ثُمَّ جَعَلَ مِنْ بَعْدِ ضُعْفٍ قُوَّةً ثُمَّ جَعَلَ مِنْ بَعْدِ قُوَّةٍ ضُعْفًا وَّ شَیْبَةً (الروم:۵۴)

”اللہ وہ ہے، جس نے تمہاری تخلیق کی ابتدا کمزوری سے کی، پھر کمزوری کے بعد طاقت عطا فرمائی، پھر طاقت کے بعد (دوبارہ) کمزوری اور بڑھاپا طاری کردیا۔“

اور عُتْبہ عَتْبٌ سے ماخوذ ہے، جس میں ناراضگی کے معنی ہیں، تو ان کے ناموں نے ان کو حاصل ہونے والے ضعف اور ان پر واقع ہونے والی ناراضگی پر دلالت کی۔

ادھر مسلمانوں کی طرف سے ان کے مقابلہ کے لیے نکلنے والے تین: حضرت حمزہ، حضرت عبیدہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہم تھے۔ کفار کے ناموں ں کے بالمقابل ان کے ناموں میں خوبی اور کمال تھا۔ حمزہ نام اپنے جلو میں شیر کی صلابت و شجاعت رکھے ہوئے تھا۔ عُبیدہ نام سے عبودیت ٹپکتی تھی، جو انسان کی غرضِ تخلیق اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے پیاری صفت ہے اورنام علی عُلُوٌّ سے ماخوذ ہے، جو بلندی کی خبر دیتا ہے۔ تینوں نام ان کے اوصاف: صلابت وشجاعت، عبودیت اور علو کے مناسب اور ان سے لَگّا کھانے والے تھے۔ حمزہ کی قوت وصلابت، عُبیدہ کی عبودیت اور علی کے علو نے ان کی شخصیتوں کو ایسا متأثر کیا اور نام کی عمدگی سے ان کے کام پر ایسا اثر مرتب ہوا کہ انھوں نے کفار پر علو وسربلندی پائی۔ شیخ ابن القیم رحمہ اللہ (۶۹۱-۷۵۱ھ) زاد المعاد في ھدي خیر العباد ﷺ، میں فرماتے ہیں:

وتأمل أسماء الستة المتبارزین یوم بدر کیف اقتضی القدر مطابقة أسمائھم لأحوالھم یومئِذ، فکان الکفار: شیبة، وعتبة، والولید، ثلاثة أسماء من الضعف، فالولید لہ بدایة الضعف، وشیبة لہ نھایة الضعف، کما قال تعالیٰ: ﴿اَللہُ الَّذِیْ حَلَقَکُمْ مِّنْ ضُعْفٍ ثُمَّ جَعَلَ مِنْ بَعْدِ ضُعْفٍ قُوَّةً ثُمَّ جَعَلَ مِنْ بَعْدِ قُوَّةٍ ضُعْفًا وَّ شَیْبَةً﴾ (الروم:۵۴) وعتبة من العتب، فدلّت أسماوٴھم علیٰ عتب یحل بھم، وضعف ینالھم، وکان أقرانھم من المسلمین: عليّ، و عُبیدة، والحارث، رضي اللہ عنھم ثلاثة أسماء تناسب أوصافھم، وھي العلو، والعبودیة، والسعي الذي ہو الحرث، فعلوا علیھم بعبودیتھم وسعیھم في حرث الآخرة․ (زاد المعاد، فصل: في فقہ ھذا الباب بعد فصل: في ہدیہ صلی اللہ علیہ وسلم في الأسماء والکنی، ص:۲۷۳، العلمیة: بیروت، الطبعة الثانیة: ۱۴۲۸ھ)

بندہ کہتا ہے:

شیخ ابن القیم رحمة اللہ علیہ نے ”حمزہ رضی اللہ عنہ“ کی بجائے ”حارث“ ذکر کیا اوراس کے نام سے آخرت کی کھیتی کی سعی کا نکتہ پیدا کیا، یہ موصوف کا وہم ہے؛ کیوں کہ حارث تو عبیدہ رضی اللہ عنہ کا والد ہے، جو مسلمان ہی نہیں تھا، چہ جائے کہ وہ عزوہٴ بدر میں مسلمانوں کی طرف سے شرکت کرتا اور مبارزت کے لیے نکلتا۔

روایت سے متعلقہ آیت کون سی؟

$ غزوہٴ اُحُد سے متعلق حضرت انس رضی اللہ عنہ کی ایک روایت میں ہے:

لمّا کان یومُ أُحُد․․․․ ولقد وقع السّیفُ مِنْ یَدِ أبي طلحةَ، اما مَرَّتین واما ثلاثا․ (صحیح بخاری، کتاب المناقب، باب مناقب أبي طلحة، ص:۵۳۸، ج:۱، کتاب المغازی، باب اذ ہمت طائفتان الخ، ص:۵۸۱، ج:۲، قدیمی: کراچی)

”جب جنگ اُحُد ہوئی․․․․ حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کے ہاتھ سے دو یا تین مرتبہ تلوار گرپڑی۔“

یہ تلوار کا گرپڑنا اونگھ کی وجہ سے تھا؛ چناں چہ ”صحیح مسلم“ میں ہے:

ولقد وقع السیف من یدد أبي طلحة اما مرّتین أو ثلاثا من النعاس․ (صحیح مسلم، کتاب الجھاد والسّیر، باب غزوة النساء مع الرجال، ص:۱۱۶، ج:۲، قدیمی: کراچی)

”فتح الباری“ میں ہے:

قولہ: (اما مرتین واما ثلاث) ․․․․ وسیأتي بعد باب من وجہ آخر عن أنس عن أبي طلحة ”کنت فیمن یغشاہ النعاس یوم أحد حتی سقط سیفي من یدي مرارا“، ولأحمد والحاکم من طریق ثابت عن أنس ”رفعت رأسی یوم أحد فجعلت أنظر وما منھم من أحد الا وھو یمیل تحت حجفتہ من النعاس“ وھو قولہ تعالیٰ: ﴿اِذْ یُغَشِّیْکُمُ النُّعَاسَ اَمَنَةً مِّنْہُ﴾․ (فتح الباری، کتاب المغازی، باب ﴿اِذْ ھَمَّتْ طَّآئفَتٰنِ مِنْکُمْ﴾ الخ، ص:۴۲۰،ج:۷، دارالریان: القاہرة)

”عمدة القاری“ میں ہے:

قولہ: (من یدي أبي طلحة) وفي روایة الأصیلي: من ید أبي طلحة بالافراد، و وقوع السیف کان لأجل النعاس الذي ألقی اللہ علیھم أمنة منہ، و وقع في روایة أبي معمر شیخ البخاري عند مسلم ”من النعاس“ صرح بہ، وھو قولہ تعالیٰ: ﴿اِذْ یُغَشِّیْکُمُ النُّعَاسَ اَمَنَةً﴾․ (عمدة القاری، کتاب المغازی، باب اذ ھمت طائفتان منکم الخ، ص:۱۵۱، ج:۱۷، دار احیاء التراث العربی: بیروت)

”لامع الدراری علیٰ جامع البخاری“ میں ہے:

قولہ: ولقد وقع السیف من ید أبي طلحة الخ یعني بذلک أن الناعسین کانوا ھم الموٴمنون، وکان أبو طلحة منھم(۱)․

ہامش ”لامع الدراری“ میں ہے:

(۱) لقولہ تعالیٰ: ﴿ثُمَّ اَنْزَلَ عَلَیْکُمْ مِّنْ بَعْدِ الْغَمِّ اَمَنَةً نُّعَاسًا یَّغْشٰی طَآئِفَةً مِّنْکُمْ﴾ الآیة، قال صاحب ”الجلالین“: وھم الموٴمنون فکانوا یمیدون تحت الحجف وتسقط السیوف منھم اہ، قال الحافظ رحمہ اللہ تعالیٰ: قولہ: ولقد وقع السیف الخ، ․․․․ وسیأتي بعد باب من وجہ آخر عن أنس عن أبي طلحة ”کنت فیمن یغشاہ النعاس یوم أحد حتی سقط سیفي من یدي مرارًا“ اہ، قلت: وھم الذین وردت فیھم الآیة الأخری في سورة الأنفال: ﴿اِذْ یُغَشِّیْکُمُ النُّعَاسَ اَمَنَةً مِّنْہُ﴾ الآیة․ (لامع الدراری، ص:۳۵۳، ج:۸، المکتبة الامدادیة، مکة المکرمة)

بعینہ یہ کلام ”الکنز المتواري في معادن لامع الدراري وصحیح بالخاري، ص:۱۳۴، ج:۱۵، مکتبہ الحرمین: دوبئی میں منقول ہے۔

بندہ کہتا ہے:

جنگ میں اونگھ طاری کرنے کا ذکر اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں دومقام میں کیا ہے، چناں چہ ”سوہ آل عمران“ میں ہے:

﴿ثُمَّ اَنْزَلَ عَلَیْکُمْ مِّنْ بَعْدِ الْغَمِّ اَمَنَةً نُّعَاسًا یَّغْشٰی طَآئِفَةً مِنْکُمْ﴾ (آل عمران:۱۵۴)

”پھر اللہ نے اس غم کے بعد تم پر چین بھیجی، یعنی اونگھ کہ تم میں سے ایک جماعت پر تو اس کا غلبہ ہورہا تھا۔“

اور ”سورة الانفال“ میں ہے:

﴿اِذْ یُغَشِّیْکُمُ النُّعَاسَ اَمَنَةً مِّنْہُ﴾ (الأنفال:۱۱)

”اس وقت کو یاد کرو، جب کہ اللہ تم پر اونگھ کو طاری کررہا تھا، اپنی طرف سے چین دینے کے لیے۔“

ان دونوں آیات میں سے ”سورة آل عمران“ کی آیت کا تعلق ”غزوہٴ اُحُد“ سے اور ”سورة الانفال“ کی آیت کا تعلق ”غزوہٴ بدر“ سے ہے؛ چوں کہ مذکورہ بالا روایت غزوہٴ اُحُد سے متعلق ہے؛ لہٰذا اس کے مناسب آیت ﴿ثُمَّ اَنْزَلَ عَلَیْکُمْ مِّنْ بَعْدِ الْغَمِّ اَمَنَةً نُّعَاسًا یَّغْشٰی طَآئِفَةً مِنْکُمْ﴾ ہے، ﴿اِذْ یُغَشِّیْکُمُ النُّعَاسَ اَمَنَةً مِّنْہُ﴾ نہیں۔

سریہٴ رجیع میں صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم کے خلاف کارروائی کے لیے کتنے کفار تیار ہوئے تھے؟

سریہٴ رجیع میں حضرات صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم کے خلاف کارروائی کے لیے کتنے کفارتیار ہوئے تھے؟

”صحیح بخاری“ کتاب المغازی کی روایات میں سو کے قریب، جب کہ ”صحیح بخاری“ کتاب الجہاد“ کی روایت میں دو سو کے قریب تیر اندازوں کا ذکر ہے:

حَدَّثَنَا مُوسَی بْنُ إِسْمَاعِیلَ قال: حَدَّثَنَا إِبْرَاھِیمُ قال: أَخْبَرَنَا ابْن شِھَابٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِی عَمَرُو بْنُ أَسِیدِ بْنِ جَارِیَةَ الثَّقَفِیُّ حَلِیفُ بَنِی زُھْرَةَ وَکَانَ مِنْ أَصْحَابِ أَبِي ھُرَیْرَةَ عَنْ أَبِي ھُرَیْرَةَ – رَضِيَ اللہُ عَنْہُ – قَالَ: بَعَثَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَشَرَةً عَیْنًا، وَأَمَّرَ عَلَیْھِمْ عَاصِمَ بْنَ ثَابِتٍ الأَنْصَارِیَّ جَدَّ عَاصِمِ بْنِ عُمَرَ بْنِ الخَطَّابِ، حَتَّی إِذَا کَانُوا بِالھَدَّةِ بَیْنَ عَسْفَانَ وَمَکَّةَ، ذُکِرُوا لِحَیٍّ مِنْ ھُذَیْلٍ یُقَالُ لَھُمْ بَنُو لِحْیَانَ، فَنَفَرُوا لَھُمْ بِقَرِیبٍ مِنْ مِائَةِ رَجُلٍ رَامٍ․․․․․ (صحیح بخاری، کتاب المغازی، باب بلا ترجمة بعد باب فضل من شھد بدرا، ص:۵۶۸، ج:۲، قدیمی، کراچی)

حَدَّثَنِی إِبْرَاھِیمُ بْنُ مُوسَی قال: أَخْبَرَنَا ہِشَامُ بْنُ یُوسُفَ عَنْ مَعْمَرٍ عَنِ الزُّھْرِیِّ عَنْ عَمْرِو بْنِ أَبِی سُفْیَانَ الثَّقَفِیِّ عَنْ أَبِی ھُرَیْرَةَ – رَضِیَ اللہُ عَنْہُ – قَالَ: بَعَثَ النَّبِیُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سَرِیَّةً عَیْنًا، وَأَمَّرَ عَلَیْھِمْ عَاصِمَ بْنَ ثَابِتٍ وَھُوَ جَدُّ عَاصِمِ بْنِ عُمَرَ بْنِ الخَطَّابِ، فَانْطَلَقُوا حَتَّی إِذَا کَانَ (کَانُوا) بَیْنَ عُسْفَانَ وَمَکَّةَ ذُکِرُوا لِحَیٍّ مِنْ ھُذَیْلٍ یُقَالُ لَھُمْ بَنُو لَحْیَانَ، فَتَبِعُوھُمْ بِقَرِیبٍ مِنْ مِائَةِ رَامٍ، فَاقْتَصُّوا آثَارَھُمْ ․․․․ (صحیح بخاری، کتاب المغازی، باب غزوة الرجیع ورعل وذکوان وبئر معونة وحدیث عضل والقارة وعاصم بن ثابت وخبیب وأصحابہ، ص:۵۸۵، ج:۲، قدیمی، کراچی)

حَدَّثَنَا أَبُو الیَمَانِ أَنَا شُعَیْبٌ عَنِ الزُّھْرِیِّ قَالَ: أَخْبَرَنِی عَمْرُو بْنُ أَبِی سُفْیَانَ بْنِ أَسِیدِ بْنِ جَارِیَةَ الثَّقَفِیُّ وَھُوَ حَلِیفٌ لِبَنِي زُھْرَةَ وَکَانَ مِنْ أَصْحَابِ أَبِي ھُرَیْرَةَ أَنَّ أَبَا ھُرَیْرَةَ – رَضِيَ اللہُ عَنْہُ – قَالَ: بَعَثَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَشَرَةَ رَھْطٍ سَرِیَّةً عَیْنًا، وَأَمَّرَ عَلَیْھِمْ عَاصِمَ بْنَ ثَابِتٍ الأَنْصَارِیَّ جَدَّ عَاصِمِ بْنِ عُمَرَ بْنِ الخَطَّابِ فَانْطَلَقُوا، حَتَّی إِذَا کَانُوا بِالھَدَأَةِ وَھُوَ بَیْنَ عُسْفَانَ وَمَکَّةَ، ذُکِرُوا لِحَیٍّ مِنْ ھُذَیْلٍ یُقَالُ لَھُمْ بَنُو لَحْیَانَ، فَنَفَرُوا لَھُمْ قَرِیبًا مِنْ مِائَتَیْ رَجُلٍ کُلُّھُمْ رَامٍ، فَاقْتَصُّوا آثَارَھُمْ ․․․․ (صحیح بخاری، کتاب الجھاد، باب ھل یستأسر الرجل ومن لم یستأسر ومن رکع رکعتین عند القتل، ص:۴۲۷، ج:۱، قدیمی، کراچی)

علامہ عینی رحمة اللہ علیہ (۷۶۲-۸۵۵ھ) فرماتے ہیں کہ دو سو سے نکلنے کو کہا؛ لیکن سو ہی نکلے۔ ”عمدة القاری“ میں ہے:

قولہ: ”فنفروا لھم“ بتشدید الفاء أي استنجدوا لأجلھم قریباً من مائتي رجل وفي روایة ”فنفر الیھم قریب من مائة رجل“ بتخفیف الفاء أي خرج الیھم فکأنہ قال: نفروا مائتي رجل؛ ولکن ما تبعھم الا مائة․ (عمدة القاری، کتاب الجھاد، باب ھل یستأسر الرجل ومن لم یستأسر ومن رکع رکعتین عند القتل، ص:۲۹۱، ج:۱۴، داراحیاء التراث العربی: بیروت)

حافظ ابن حجر عسقلانی رحمة اللہ علیہ (۷۷۳-۸۵۲ھ) فرماتے ہیں کہ دونوں کے درمیان تطبیق واضح ہے، اس طور پر کہ ایک سو تیرانداز اور باقی دوسرے سو غیرتیر انداز ہوں گے۔ ”فتح الباری“ میں ہے:

قولہ: ”فتبعوھم بقریب من مائة رام“ في روایة شعیب في الجھاد ”فنفروا لھم قریبا من مائتي رجل“ والجمع بینھما واضح بأن تکون المائة الأخری غیر رماة․ (فتح الباری، کتاب المغازی، باب غزوة الرجیع الخ، ص:۱۶۴، ج:۹، دارطیبة: الریاض)

حافظ ابن حجرعسقلانی رحمة اللہ علیہ کی یہ تطبیق ”بذل المجھود في حل سنن أبي داوٴد“ میں بلا تعقب منقول ہے۔ ملاحظہ ہو: بذل المجھود، کتاب الجھاد، باب في الرجل یستأسر، حدیث: ۲۶۶۰، ص:۲۷۳، ج:۹، دارالبشائر الاسلامیة: بیروت․

علامہ محمد التاودی رحمة اللہ علیہ (۱۱۱۱-۱۲۰۹ھ) نے بھی یہی تطبیق نقل فرمائی ہے؛ چناں چہ ”حاشیة التاودی بن سودة علی صحیح البخاری“ میں ہے:

”بقریب من مائة رام“ ومرّ في الجھاد ”فنفروا لھم قریبا من مائتي رجل“ فیکون بعضھم غیر رماة․ (حاشیة التاودی بن سودة علی صحیح البخاری، کتاب المغازی، باب غزوة الرجیع الخ، ص:۱۵۵، ج:۴، دارالکتب العلمیة: بیروت)

بندہ کہتا ہے:

حافظ ابن حجر اور علامہ محمد التاودی رحمہما اللہ کو یہاں وہم ہوا ہے؛ کیوں کہ ”کتاب الجہاد“ کی شعیب کی روایت میں جہاں تقریباً دو سو افراد کا ذکر ہے، وہیں معاً ”کلھم رامٍ“ وارد ہے کہ یہ دو سو کے قریب افراد میں سے ہر ایک تیر انداز تھا؛ اس لیے یہ نہیں کہا جاسکتا کہ ایک سو تیر انداز اور دوسرے سو غیر تیر انداز تھے۔

تعارض کا بے غبار جواب یہ ہے کہ اس روایت میں مدار السند امام زہری رحمة اللہ علیہ ہیں اور امام زہری رحمة اللہ علیہ کے چار تلامذہ ہیں، جن کی تفصیل حسب ذیل ہے:

(۱) شعیب: ان کی روایت امام بخاری رحمة اللہ علیہ نے ”صحیح بخاری“ کتاب الجھاد، باب ھل یستأسر الرجل ومن لم یستأسر ومن رکع رکعتین عند القتل، حدیث: ۳۰۴۵، ص:۳۲۷، ج:۱، قدیمی: کراچی میں اور امام نسائی رحمة اللہ علیہ نے ”السنن الکبری“، حدیث: ۸۷۸۸، ص:۱۲۳، ج:۸، موٴسسة الرسالة: بیروت میں تخریج فرمائی ہے۔

(۲) ابراہیم بن سعد: ان کی روایت امام بخاری رحمة اللہ علیہ نے ”صحیح بخاری“ کتاب المغازی، باب بلا ترجمة بعد باب فضل من شھد بدرا، حدیث:۳۹۸۹، ص:۵۶۸، ج:۲، قدیمی: کراچی، امام ابوداؤد سجستانی رحمة اللہ نے ”سنن أبی داوٴد“، کتاب الجھاد، باب في الرجل یستأسر، حدیث: ۲۶۶۰، ص:۸۱،۸۲، ج:۳، دار ابن حزم: بیروت، امام احمد بن حنبل رحمة اللہ علیہ نے اپنی ”المسند“، حدیث: ۷۹۲۸، ص:۳۰۷ تا ۳۱۰، ج:۱۳، موٴسسة الرسالة: بیروت، امام بیہقی رحمة اللہ علیہ نے ”السنن الکبری“، حدیث: ۱۸۴۳۲، ص:۲۴۵،ج:۹، دار الکتب العلمیة: بیروت اور امام ابوداؤد طیالسی رحمة اللہ علیہ نے اپنی ”المسند“، حدیث: ۲۷۲۰، ص:۳۲۴، دارالھجرة: مصر میں تخریج فرمائی ہے۔

(۳) معمر بن راشد: ان کی روایت امام بخاری رحمة اللہ علیہ نے ”صحیح بخاری“ کتاب المغازی، باب غزوة الرجیع الخ، حدیث: ۴۰۸۶، ص:۵۸۵،ج:۲، قدیمی: کراچی، امام عبدالرزاق صنعانی رحمة اللہ علیہ نے اپنے ”المصنف“ حدیث: ۹۷۳۰، ص:۳۵۳ تا ۳۵۵، ج:۵، المجلس العلمی: ڈابھیل، امام احمد بن حنبل رحمة اللہ علیہ نے اپنی ”المسند“ حدیث: ۸۰۹۶، ص:۴۵۹ تا ۴۶۱، ج:۱۳، موٴسسة الرسالة: بیروت اور امام ابن حبان رحمة اللہ علیہ نے اپنی ”الصحیح“ حدیث: ۷۰۳۹، ص:۵۱۲، ج:۱۵، موٴسسة الرسالة: بیروت میں تخریج فرمائی ہے۔

(۴) ابراہیم بن اسماعیل الانصاری: ان کی روایت امام ابن ابی شیبہ رحمة اللہ علیہ نے اپنے ”المصنف“ حدیث:۳۸۰۱۹، ص:۴۲۷، ۴۲۸، ج:۲۰، دارقرطبة: بیروت اورامام طبری رحمة اللہ علیہ نے اپنی ”التاریخ“ ص:۵۴۰، ۵۴۱، ج:۲، دارالتراث: بیروت میں تخریج فرمائی ہے۔

امام زھری

شعیبابراھیم بن سعدمعمر بن راشدابراھیم بن اسماعیل الأنصاری
أخرج عنہ البخاری فی الجھاد والنسائی فی السنن الکبریأخرجہ عنہ البخاری فی المغازی فی باب بلا ترجمة بعد باب فضل من شھد بدرا و أبوداود فی سننہ وأحمد فی مسندہ والبیھقی فی السنن الکبری وأبو داود الطیالسی فی مسندہأخرج عنہ البخاری فی المغازی فی باب غزوة الرجیع وعبد الرزاق فی مصنفہ وأحمد فی مسندہ وابن حبان فی صحیحہأخرجہ عنہ ابن أبی شیبة فی مصنفہ والطبری فی تاریخہ
قریباً من مائتي رجل کلھم رام   قریب من مائة رجل کلھم رام   

مذکورہ جدول سے واضح ہے کہ امام زہری رحمة اللہ علیہ کے ان چاروں تلامذہ میں سے صرف شعیب ”قریبا من مائتي رجل کلھم رام“ نقل کرتے ہیں، باقی تینوں تلامذہ: ابراہیم بن سعد، معمر بن راشد اورابراہیم بن اسماعیل انصاری ”قریب من مائة رجل رام“ نقل کرتے ہیں، اس صورت میں ظاہر ہے ترجیح جماعت کے قول یعنی ”قریب من مائة رجل رام“ کو ہوگی لأن الجماعة أولیٰ بالحفظ من واحد․ واللہ أعلم․                                                                            (باقی)

——————————————–

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ2، جلد:100 ‏، ربیع الثانی1437 ہجری مطابق فروری 2016ء

Related Posts