از: محمد نجیب قاسمی سنبھلی، ریاض
نماز کی وقت پر ادائیگی سے متعلق آیات قرآنیہ اور متواتر احادیث کی روشنی میں مفسرین، محدثین، فقہاء وعلماء کرام کا اتفاق ہے کہ فرض نماز کو اس کے متعین اور مقرر وقت پر پڑھنا فرض ہے اور بلا عذر شرعی مقرر وقت سے مقدم وموٴخر کرنا گناہ کبیرہ ہے۔
نماز کو وقت پر پڑھنے سے متعلق چند آیات:
اِنَّ الصَّلَاةَ کَانَتْ عَلَی الْمُوٴمِنِیْنَ کِتَاباً مَّوْقُوْتاً (سورة النساء ۱۰۳)بے شک نماز اہلِ ایمان پرمقررہ وقتوں میں فرض ہے۔
حَافِظُوا عَلَی الصَّلَوَاتِ (سورة البقرة ۲۳۸) نمازوں کی حفاظت کرو۔ مفسر قرآن علامہ ابن کثیر اس آیت کی تفسیر میں تحریر فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ وقت پر نمازوں کو ادا کرنے کی حفاظت کا حکم فرماتے ہیں۔
وَالَّذِیْنَ ھُمْ عَلَی صَلَوَاتِھِمْ یُحَافِظُوْنَ (سورة المعارج۳۴) اور وہ لوگ اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں۔ مفسر قرآن ابن کثیر اس آیت کی تفسیر میں تحریر فرماتے ہیں کہ وہ لوگ نماز کے اوقات، ارکان، واجبات اور مستحبات کی حفاظت کرتے ہیں۔
فَوَیلٌ لِّلْمُصَلِّیْنَ الَّذِیْنَ ھُمْ عَنْ صَلَاتِھِمْ سَاھُوْنَ (سورة الماعون۴ و ۵)سو ان نمازیوں کے لیے بڑی خرابی ہے جو اپنی نماز میں کاہلی کرتے ہیں۔ مفسرین نے تحریرکیا ہے کہ وقت پر نماز کی ادائیگی نہ کرنا اس آیت کی وعید میں داخل ہے۔
قرآن کریم (سورة النساء آیت ۱۰۲)میں نماز خوف کی کیفیت اور اس کے اصول وآداب بیان کیے گئے ہیں۔ متعدد احادیث میں نمازِ خوف کی کیفیت بیان کی گئی ہے، جن سے واضح ہوتا ہے کہ میدانِ جنگ میں اور عین جنگ کے وقت صرف نماز کی کیفیت میں تخفیف کی گنجائش ہے؛ لیکن وقت کو نظر انداز کرنے کی اجازت نہیں ہے؛ بلکہ امکانی حد تک وقت کی پابندی ضروری ہے۔ معلوم ہوا کہ اگر کفار سے جنگ ہورہی ہو اور اس وقت ذرا سی کاہلی بھی شکست کا سبب بن سکتی ہے تو اس موقع پر بھی دونمازوں کو جمع کرکے یعنی ایک کا وقت ختم ہونے کے بعد یا دوسرے کا وقت داخل ہونے سے قبل پڑھنا جائز نہیں ہے؛ بلکہ نماز کو وقت پر ادا کیا جائے گا ، ورنہ وقت کے نکلنے کے بعد اس کی قضا کرنی ہوگی، جیسا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہٴ احزاب کے موقع پر وقت پر ادائیگی نہ کرنے پر نماز کی قضا کی تھی۔
نماز کو وقت پر پڑھنے سے متعلق چند احادیث نبویہ:
نماز کے اوقات سے متعلق متعدد احادیث کتب حدیث میں موجود ہیں، جن میں سے ایک یہ ہے کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ کونسا عمل اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ پسندیدہ ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نماز کو اس کے وقت میں پڑھنا۔ انھوں نے عرض کیا اس کے بعد کون سا عمل زیادہ محبوب ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ماں باپ کی خدمت کرنا۔ انہوں نے پھر عرض کیا کہ اس کے بعد کون سا عمل زیادہ محبوب ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ کے راستہ میں جہاد کرنا۔ (صحیح بخاری وصحیح مسلم)
اسی طرح حضرت جبرئیل علیہ السلام کی امامت والی حدیث متعدد صحابہٴ کرام سے مروی ہے جس میں مذکور ہے کہ ۲ روز حضرت جبرئیل علیہ السلام نے امامت فرماکر حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز پڑھائی۔ پہلے دن ہر نماز اول وقت میں پڑھائی اور دوسرے دن آخر وقت میں پڑھائی، پھر فرمایا کہ ہر نماز کا وقت ان دونوں وقتوں کے درمیان ہے۔ (ابوداود، ترمذی)
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ نماز کو وقت پر ادا فرماتے تھے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ غزوہٴ احزاب میں ایک روز شدتِ جنگ کی وجہ سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز عصر فوت ہوگئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غروبِ آفتاب کے بعد اس کی قضا پڑھی اور کفار کے خلاف سخت الفاظ میں بددعا فرمائی کہ ان لوگوں نے ہمیں نماز عصر سے مشغول رکھا، اللہ تعالیٰ ان کے گھروں اور قبروں کو آگ سے بھر دے۔ (صحیح بخاری باب غزوہ الخندق، صحیح مسلم)
غور فرمائیں کہ حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے طائف کے سفر میں جب کہ آپ کو لہولہان کردیا گیا تھا، فرشتہ نے آپ کے سامنے حاضر ہوکر ان کو کچلنے کی پیش کش بھی کی مگر رحمة للعالمین نے ان کے لیے ہدایت کی ہی دعا فرمائی؛ مگر غزوہٴ احزاب میں کفار کی مزاحمت کی وجہ سے نماز کے قضا ہوجانے پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس قدر صدمہ پہنچا کہ ان کے خلاف سخت سے سخت الفاظ میں بددعا فرمائی۔
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جس شخص نے بغیر کسی عذر کے دو نمازوں کو جمع کرکے پڑھا اس نے کبیرہ گناہ کا ارتکاب کیا۔ (ترمذی باب ما جاء فی الجمع بین الصلاتین)
اس حدیث کے ایک راوی کو امام ترمذی نے ضعیف کہا ہے؛ تاہم قرآن وحدیث کے دیگر نصوص سے اس حدیث کے مضمون کی تائید ہوتی ہے۔ نیز امام حاکم نے ان کو قوی تسلیم کیا ہے۔
حضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مروی ہے کہ نماز میں کوتاہی یہ ہے کہ ایک نماز کو دوسرے نماز کے وقت تک موٴخر کردیا جائے۔ (صحیح مسلم باب قضاء الصلاة الفائتہ)
جمع بین الصلاتین:
قرآن وحدیث کی روشنی میں امت مسلمہ کا اتفاق ہے کہ ہر نماز کو اس کے وقت پر ہی ادا کرناچاہیے۔ یہی شریعت اسلامیہ میں مطلوب ہے، پوری زندگی اسی پر عمل کرنا چاہیے اور اسی کی دعوت دوسروں کو دینی چاہیے؛ لیکن اگر کوئی شخص سفر یا کسی شرعی عذر کی وجہ سے دو نمازوں کو اکٹھا کرنا چاہے تو اس سلسلہ میں فقہاء وعلماء کرام کا اختلاف ہے۔ فقہاء وعلماء کرام کی ایک جماعت نے سفر یا موسلادھار بارش کی وجہ سے ظہر وعصر میں جمع تقدیم وجمع تاخیر اسی طرح مغرب وعشاء میں جمع تقدیم وجمع تاخیر کی اجازت دی ہے؛ لیکن فقہاء وعلماء کرام کی دوسری جماعت نے احادیث نبویہ کی روشنی میں حقیقی جمع کی اجازت نہیں دی ہے۔ ۸۰ ہجری میں پیدا ہوئے مشہور تابعی وفقیہ حضرت امام ابوحنیفہ رحمة اللہ علیہ کی بھی یہی رائے ہے۔ ہندوپاک کے علماء کا بھی یہی موقف ہے۔ فقہاء وعلماء کی یہ جماعت، اُن احادیث کو جن میں جمع بین الصلاتین کا ذکر آیا ہے، ظاہری جمع پر محمول کرتی ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ ظہر کی نماز آخری وقت میں اور عصر کی نماز اوّلِ وقت میں ادا کی جائے، مثلاً ظہر کا وقت ایک بجے سے چار بجے تک ہے اور عصر کا وقت چار بجے سے غروب آفتاب تک تو ظہر کو چار بجے سے کچھ قبل اور عصر کو چار بجے پڑھا جائے۔ اس صورت میں ہر نماز اپنے اپنے وقت کے اندر ادا ہوگی؛ لیکن صورت وعمل کے لحاظ سے دونوں نمازیں اکٹھی ادا ہوں گی، اسی طرح مغرب کی نماز آخری وقت میں اور عشاء کی نماز اوّلِ وقت میں پڑھی جائے، اس کو جمع ظاہری یا جمع صوری یا جمع عملی کہا جاتا ہے۔ اس طرح تمام احادیث پر عمل بھی ہوجائے گا اور قرآن وحدیث کا اصل مطلوب ومقصود (یعنی نمازکی وقت پر ادائیگی) بھی ادا ہوجائے گا۔
موٴخر الذکر قول چند اسباب کی وجہ سے زیادہ راجح ہے
(۱) نماز کے اوقات کی تحدید قطعی فرض ہے جو قرآن کریم کی بعض آیات ومتعدد متواتر احادیث سے ثابت ہے اور پوری امت کا اس پر اجماع ہے۔ جمع بین الصلاتین دو نمازوں کو اکٹھی پڑھنے سے متعلق احادیث اخبار آحاد ہیں۔ قرآنی آیات اور متواتر احادیث کا اگر بظاہر تعارض خبر آحاد سے ہو تو خبر آحاد میں تاویل کرنی چاہیے، لہٰذا ان اخبار آحاد کو جمعِ ظاہری (یعنی نماز ظہر کو آخر وقت میں اور نماز عصر کو اوّل وقت میں ادا کیا جائے) پر محمول کیا جانا چاہیے؛ تاکہ کسی طرح کا تعارض بھی نہ رہے اور تمام احادیث پر عمل بھی ہوجائے۔
(۲) بعض احادیث سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے زندگی میں حقیقی جمع بین الصلاتین صرف دو بار حج کے موقع پر کیا ہے:
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بے وقت نماز پڑھتے نہیں دیکھا (یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ وقت پر نماز پڑھتے تھے)؛ مگر (حجة الوداع میں) مغرب وعشاء کو مزدلفہ میں اکٹھے پڑھا (یعنی عشاء کے وقت میں مغرب وعشاء اکٹھی پڑھیں)۔ (صحیح بخاری، کتاب الحج، من یصلی الفجر بجمع۔۔۔۔ صحیح مسلم)
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ نماز وقت پر پڑھتے تھے؛ لیکن (حجة الوداع میں) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عرفات میں ظہر وعصر کو ظہر کے وقت میں جمع کرکے پڑھا اور مزدلفہ میں مغرب وعشاء کو عشاء کے وقت میں جمع کرکے پڑھا۔ (نسائی)
حجاج کرام کے لیے عرفات (مسجد نمرہ) میں ظہروعصر کی حقیقی جمع اور مزدلفہ میں مغرب وعشاء کی حقیقی جمع متواتر احادیث سے ثابت ہے اور پوری امت کا اس پر اجماع ہے؛ لیکن حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عرفات اور مزدلفہ کے علاوہ کبھی بھی حقیقی جمع کی صورت میں دو نمازوں کو اکٹھا کرکے نہیں پڑھا، جیساکہ احادیث بالا میں مذکور ہے۔
(۳) بعض احادیث کے الفاظ سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ دو نمازوں کو جمع کرکے پڑھنے سے متعلق احادیث کا تعلق جمع ظاہری سے ہے، مثلاً:
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سفر میں ظہر کو موٴخر اور عصر کو مقدم کرتے تھے، مغرب کو موٴخر اور عشاء کو مقدم کرتے تھے۔ (مسند امام احمد، طحاوی، مستدرک حاکم)
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما (ایک سفر میں )غروبِ شفق سے قبل سواری سے اترے، مغرب کی نماز پڑھی پھر انتظار کیا، غروب شفق کے بعد عشاء کی نماز ادا کی پھر فرمایا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب (سفر میں) جلدی ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسی طرح عمل فرماتے جیسے میں نے کیا ہے۔ (ابوداود، باب الجمع بین الصلاتین ۔ دار قطنی)
حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ غزوہٴ تبوک کے سفر میں نکلے تو حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ظہر وعصر کو اس طرح جمع کرتے، ظہر کو آخری وقت میں اور عصر کو اول وقت میں پڑھتے۔ (طبرانی اوسط)
حضرت ابو عثمان نہدی فرماتے ہیں کہ وہ اور حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کوفہ سے مکہ مکرمہ سفر حج پر جارہے تھے۔ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ ظہر وعصر کو اس طرح جمع کرتے کہ ظہر کو موٴخر کرتے اور عصر کو مقدم کرتے پھر دونوں کو اکٹھا ادا کرتے، مغرب کو موٴخر کرتے اور عشاء کو مقدم کرتے، پھر دونوں کو اکٹھا ادا کرتے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ باب من قال یجمع المسافر بین الصلاتین)
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ میں ظہر وعصر کو ملاکر پڑھا؛ حالانکہ یہ کسی خطرہ یا سفر کی حالت نہ تھی۔ حضرت ابو الزبیر کہتے ہیں کہ میں نے حضرت سعید سے پوچھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کیوں کیا؟ حضرت سعید نے جواب دیا کہ میں نے بھی یہ بات حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے پوچھی تھی تو انہوں نے بتایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصد تھا کہ لوگ تنگی میں مبتلا نہ ہوں۔ (صحیح مسلم، الجمع بین الصلاتین فی الحضر)
اس حدیث میں جمع بین الصلاتین سے مراد ظاہری جمع ہے یعنی ظہر کو اس کے آخر وقت میں اور عصر کو اس کے اول وقت میں پڑھا۔ محدثین کرام حتی کہ علامہ شوکانی نے بھی اس حدیث سے جمع صوری ہی مراد لیا ہے۔
ان تمام احادیث سے واضح طور پر معلوم ہوا ہے کہ ظاہری جمع جائز ہے؛ لیکن حقیقی جمع صرف دو جگہوں پر ہے۔
(۴) حدیث کے پورے ذخیرہ میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے صرف اُنھیں دو نمازوں کے جمع کرنے کا ثبوت ملتا ہے جن کے اوقات آپس میں ملتے ہیں اور درمیان میں مکروہ وقت بھی نہیں ہے، جن کی وجہ سے ظاہری جمع پر عمل ہوسکتا ہے اور وہ صرف ظہر وعصر یا مغرب وعشاء کی نمازیں ہیں۔ باقی جن نمازوں کے اوقات باہم متصل نہیں ہیں، جیسے فجر وظہر یا اوقات تو متصل ہیں؛ لیکن درمیان میں مکروہ وقت ہے، جیسے عصر ومغرب یا عشاء وفجر کہ نصف شب کے بعد عشاء کا مکروہ وقت شروع ہوجاتا ہے۔ اگر حقیقی جمع جائز ہوتی تو پھر ظہر و عصر یا مغرب وعشاء کے ساتھ ہی خاص نہ ہوتی؛ بلکہ عشاء وفجر یا فجر وظہر میں حقیقی جمع جائز ہوتی، اور اس کا کوئی بھی قائل نہیں ہے، معلوم ہوا کہ جن احادیث میں سفر وغیرہ کی وجہ سے دو نمازوں کے اکٹھے پڑھنے کا ذکر ہے اس سے مراد ایک نماز کو اس کے آخری وقت میں اور دوسری نماز کو اس کے اوّل وقت میں ادا کرنا ہے۔
(۵) بعض احادیث میں آتا ہے کہ حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض دفعہ سفر یا خوف یا بارش کے عذر کے بغیر بھی دو نمازوں کو اکٹھا کرکے پڑھا۔ اگر دو نمازوں کی حقیقی جمع جائز ہوتی تو ان احادیث کی وجہ سے بغیر کسی عذر کے بھی دو نمازوں کو حقیقی جمع کرکے پڑھنا جائز ہوتا؛ حالانکہ اہل السنة والجماعة میں کوئی بھی اس کا قائل نہیں ہے ۔ معلوم ہوا کہ اس طرح کی احادیث سے مرادایک نماز کو اس کے آخری وقت میں اور دوسری نماز کو اس کے اوّل وقت میں ادا کرنا ہے۔ غزوہٴ تبوک کے طویل سفر میں یہی صورتِ عمل تھی کہ سفر بہت طویل تھا، موسم سخت گرم تھا، طہارت ووضو کے لیے پانی کی قلت تھی، اسلامی فوج کی تعداد تقریباً تیس ہزار تھی اتنے بڑے لشکر کا ان مذکورہ حالات میں باربار اترنا اور سوارہونا انتہائی مشکل تھا؛ اس لیے ظاہری جمع پر عمل کیا گیا یعنی ایک نماز کو اس کے آخری وقت میں اور دوسری نماز کو اس کے اوّل وقت میں ادا کیا گیا۔
غرضے کہ نماز کو وقت پر ہی ادا کرنا چاہیے سوائے ۹ ذی الحجہ کو مسجد نمرہ (عرفات) میں ظہر وعصر کی ادائیگی ظہر کے وقت میں اور مزدلفہ میں مغرب وعشاء کی ادائیگی عشاء کے وقت میں؛ لیکن اگر کوئی عذر شرعی ہے، مثلاً سفر میں ہیں اور بار بار رکنا دشواری کا سبب ہے تو دو نمازیں ظاہری جمع کرکے ادا کرلی جائیں یعنی ایک نماز کو اس کے آخری وقت میں اور دوسری نماز کو اس کے اوّل وقت میں ادا کرلیا جائے۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو وقت پر نماز کا اہتمام کرنے والا بنائے اور نماز میں کوتاہی کی تمام شکلوں سے حفاظت فرمائے، آمین۔
———————————–
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ12، جلد: 99 ، صفر1437 ہجری مطابق دسمبر 2015ء