حرفِ آغاز

مولانا حبیب الرحمن اعظمی

یہ دنیا فانی ہے، یہاں آنا ہی جانے کی دلیل ہے، پیدا ہونے والے روزمرتے ہیں، ہر کسی پر غم نہیں ہوتا؛ غم تو صرف اسی شخصیت کی رحلت پر ہوتا ہے، جو اپنی ذات میں انجمن ہوتی ہے، جس میں گوناگوں خوبیاں موجود ہوتی ہیں، جس کی زندگی کا ہرپہلو درخشندہ اور خوبیوں سے لبریز ہوتا ہے؛ انھیں میں دارالعلوم دیوبند کی مجلس شوریٰ کے معزز رکن، مسلم پرسنل لاء بورڈ کے جنرل سکریٹری، امارت شرعیہ بہار واڑیسہ کے چھٹے امیرِشریعت حضرت مولانا سیدنظام الدین صاحب گیاوی تھے۔ ۳/محروم الحرام ۱۴۳۷ھ = ۱۷/اکتوبر ۲۰۱۵/ یوم یکشنبہ کو عین غروبِ آفتاب کے وقت رحلت فرماگئے انا للّٰہ وانا الیہ راجعون مولانا مرحوم چندمہینوں سے سخت علیل تھے، مرض میں نشیب وفراز جاری تھا، کبھی روبہ صحت ہوتے اورکبھی مرض غالب آجاتا تھا، بہ تدریج ضعف بڑھتا گیا؛ یہاں تک کہ ہسپتال کے خصوصی نگہداشت کے حصے میں رہنے لگے اور اسی میں جان، جانِ آفریں کے سپرد کردیا۔

مولانا مرحوم میں ربِ کائنات نے بہت سی خوبیاں ودیعت فرمائی تھیں، ان کے اندر دیانت وامانت، سادگی، تواضع، سنجیدگی، وقار اور عالمانہ رکھ رکھاؤ کے اوصاف نمایاں تھے، وہ بڑے اچھے منتظم ہونے کے ساتھ ساتھ اچھے مدرس بھی تھے، ان کا علم پختہ اور استعداد مضبوط تھی، انھوں نے حدیث شریف حضرت شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی رحمة اللہ علیہ سے پڑھی تھی اور زبان وادب کاذوق حضرت شیخ الادب مولانا اعزاز علی امروہوی سے حاصل کیاتھا، قوم وملت کے سرمایہ کی حفاظت نہایت ہی دقیقہ رسی سے کیاکرتے تھے، رُبع صدی تک (۱۹۶۵/ تا ۱۹۹۱/) امارتِ شرعیہ کے ناظم رہے، ”بیت المال“ کا حسّاس شعبہ آپ کی نگرانی میں تھا، اس کے حساب وکتاب پر بڑی گہری نظر رہتی تھی، کیا مجال کہ کسی کے پاس ایک پیسہ رہ جائے اور وہ نہایت سلیقے سے اس کویاد نہ دلائیں امارت شرعیہ کی گاڑی سے جہاں بھی جاتے، واپسی میں گاڑی کے تیل اور دیگر مصارف کا حساب کرکے بیت المال میں داخل فرمادیتے تھے، طبیعت میں بذلہ سنجی بھی خوب تھی، اچھے شاعر تھے اور اساتذہٴ فن کا کلام بھی انھیں خوب یاد تھا، مجلس میں اکابر وبزرگان کی حکایات کے ساتھ برجستہ اشعار بھی خوب سناتے تھے، حمد، نعت، نظم اور قصیدہ کے علاوہ غزلیں بھی خوب کہتے تھے، ”فرحت“ ان کا تخلص تھا۔

ولادت ۳۱/مارچ ۱۹۲۷/= ۱۳۴۵ھ کو محلہ: پرانی جیل، گیا (بہار) میں ہوئی، سادات خاندان سے تعلق رکھتے تھے، مرحوم کے جدِّ اعلیٰ قاضی سید صادق علی مغلیہ دور کے بالکل اخیر میں ”پرگنہ کوٹھی کندہ“ کے قاضی تھے، اس پرگنہ کا دائرہ چترا، ہزاری باغ، پلاموں اور گیا وغیرہ کو شامل تھا اورمرحوم کے دادا قاضی سید شرف الدین حضرت مولانا سیدمحمدعلی مونگیری کے مرید تھے اور والد ماجد حضرت مولانا قاضی سید حسین علامہ انورشاہ کشمیری کے شاگردِ رشید تھے، مولاناکا گھرانہ آبا واجداد کے وقت سے ہی علمی اور روحانی تھا۔ مولانا مرحوم نے اسی ماحول میں آنکھیں کھولیں، جب سنِ شعور کو پہنچے تو مدرسہ امدادیہ دربھنگہ میں داخلہ لیا،اس مدرسہ کی شہرت اس زمانے میں عروج پر تھی، مولانا مرتضیٰ حسن چاندپوری اور علامہ محمد ابراہیم بلیاوی جیسی قدآور شخصیات نے اپنے فیضانِ علمی سے اس ادارے کو فیض یاب فرمایا ہے۔ یہ مدرسہ اس علاقے کا ”دارالعلوم“ تھا، گوشے گوشے سے تشنگانِ علم وفضل وہاں پہنچتے تھے۔

مولانا مرحوم نے متوسطات کے بعد کی اعلیٰ تعلیم کے لیے ۱۹۴۲/ میں دارالعلوم دیوبند کا رخ کیا اوراس وقت کے آسمانِ علم وفضل سے سیرابی حاصل کی، ۱۹۴۶/ میں دورئہ حدیث شریف سے فراغت حاصل کی، پھر مزید ایک سال فنون کی تکمیل کے لیے رہے، حضرت شیخ الادب سے خصوصی طور پر استفادہ کیا۔ اس کے بعد مدرسہ ریاض العلوم ساٹھی، چمپارن (بہار) سے تدریس کی ابتداء کی، وہاں صدرالمدرسین کے عہدے پر فائز رہے، چودہ سال تک موصوف نے اپنے علوم وفیوض سے وہاں کے تشنہ گان کو سیراب کیا، پھر مدرسہ رشیدالعلوم چترا (بہار) میں دوسال صدرالمدرسین کی حیثیت سے رہے، اس کے بعد امارت شرعیہ بلالیے گئے، اور تادم واپسیں اسی کی خدمت کرتے رہے، موصوف نے امارتِ شرعیہ کی ترقی میں اپنی ہر طرح کی کوشش صرف کردی، اس ادارے کو اپنے خون وپسینہ سے سینچا، آپ کے زمانے میں امارتِ شرعیہ نے ہمہ جہتی ترقی کی، مولانا مرحوم نے حضرت مولانا قاضی مجاہدالاسلام قاسمی کے ساتھ رہ کر امارت شرعیہ کو تعلیمی اور رفاہی دونوں لحاظ سے آگے بڑھایا، امارت شرعیہ کی ”موجودہ عمارت“، ”مولانا سجاد ہسپتال“، المعہد العالی للتدریب فی القضاء والافتاء“، ”ٹیکنیکل انسٹی ٹیوٹ“ اور ”وفاق المدارس بہار“ وغیرہ یہ سب ان دونوں بزرگوں کی محنتوں کا ثمرہ ہیں، مولانا مرحوم نے اہلِ علم اور اربابِ عزیمت کی ایک بڑی تعداد امارت شرعیہ میں جمع کردی ہیں۔

مولانا مرحوم کے اندر ایک خاص بات یہ تھی کہ وہ ہر ایک کا خیال رکھتے تھے، امارت شرعیہ کے سارے کارکنان ان کی نظر میں ایک کنبہ کے افراد کی طرح تھے۔ انھوں نے کبھی کسی کی ذات کو تکلیف نہیں دی، یہی خوبی تھی کہ امارتِ شرعیہ میں کوئی شخص مولانا مرحوم سے ناراض نہیں رہا، ہر ایک کی زبان پر مولانا کی تعریف ہی سنائی دیتی تھی   ع

خدا بخشے بہت ہی خوبیاں تھیں جانے والے میں

مولانا مرحوم کا شمار دارالعلوم دیوبند کے بڑے ہونہار فرزندوں میں تھا، ۱۹۹۷/ میں دارالعلوم دیوبند کی موقر مجلس شوریٰ کے رکن بنائے گئے اور تاحیات رکن رہے، ضعف ونقاہت اور بیماری کے باوجود تشریف لاتے تھے اورمادرعلمی سے محبت کا ثبوت دیتے ہوئے اس کے نازک سے نازک حالات میں بھی نہایت ہی معتدل رائے عنایت فرماتے۔ مسلم پرسنل لاء بورڈ کے جنرل سکریٹری کی حیثیت سے ۱۹۹۱/ میں آپ کا انتخاب ہوا اور پچیس سال تک (تاوفات) اس عہدہ پر فائز رہے اور بورڈ کے کام کو بڑی وسعت دی۔

مولانا مرحوم نے سن عیسوی کے لحاظ سے اٹھاسی اور سن ہجری کے لحاظ سے اکانوے سال کی عمر پائی، ان کی وفات ملت کے لیے بہت بڑا نقصان ہے، خصوصاً امارتِ شرعیہ میں ان کی وفات سے ایسا خلا پیدا ہوگیا ہے جس کی تلافی بہ ظاہر مشکل ہے۔

اللہ تعالیٰ مرحوم کی بال بال مغفرت فرمائیں اور جنت الفردوس میں جگہ عنایت فرمائیں!

اللّٰھُمَّ ارْحَمْہُ وسَکِّنْہُ في جَنَّةِ الْفِرْدَوْسِ وغَسِّلْہُ بِالماءِ وَالثَّلْجِ والبَرَدِ، ونَقِّھْہُ مِنَ الخَطایَا کما یُنَقَّی الثَّوبُ الأبیضُ من الدَّنَسِ․

———————————–

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ11، جلد: 99 ‏، محرم الحرام1437 ہجری مطابق نومبر 2015ء

Related Posts