از: مولانا محمد انس حسان                   

گورنمنٹ ڈگری کالج جہانیاں، پاکستان 

”مآخذ“ سے وہ ذرائع مراد ہیں جن سے قانون اخذ کیاجاتا ہے، یا وہ مقامات ہیں جہاں سے قانون دلائل کے ساتھ حاصل کیے جاتے ہیں۔ قانون کی کتابوں میں ماخذ کی دو قسمیں بیان کی جاتی ہیں:

$ماخذ صوری : قانون کا وہ ماخذ ہے جس کے ذریعے وہ اپنا جواز اور اثر حاصل کرتا ہے۔

$ماخذ مادی : قانون کا وہ ماخذ ہے جس سے قانون اپنا مواد حاصل کرتا ہے۔ (۱)

اصول فقہ کی کتب میں عمومی طور پر فقہ اسلامی کے مآخذ چار بیان کیے جاتے ہیں:

 $قرآن مجید $سنت $اجماع$قیاس

صاحب نورالانوار کے نزدیک فقہ اسلامی کے بنیادی ماخذ تین ہیں:

الکتاب والسنة واجماع الامة (۲)

”کتاب(یعنی قرآن حکیم)، سنت اور امت کا اجماع(فقہ کے بنیادی ماخذ ہیں)“

نیز وہ قیاس کو ماخذ تو سمجھتے ہیں لیکن اس کو الگ ذکر کرتے ہیں اورفقہ کے بنیادی مآخذمیں اس کا شمار نہیں کرتے؛ اس لیے کہ ”قیاس“ ذریعہ اورآلہ کی حیثیت رکھتاہے۔

مولانا محمد تقی امینی (۱۹۲۷ء۔۱۹۹۱ء)کے نزدیک فقہ اسلامی کے مادی مآخذ عمومی حیثیت سے بارہ ہیں:

$قرآن حکیم $سنت $اجماع $قیاس $استحسان $استدلال $استصلاح$مسلَّمہ شخصیتوں کی آراء$تعامل$عرف وعادت $ماقبل کی شریعت $ملکی قانون

مولانا امینی کے نزدیک اصولِ فقہ کی کتابوں میں صراحتاً صرف پہلے چار کا ذکر ملتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بعض ماخذ کو بعض میں داخل سمجھا گیا ہے۔ اور اختصار کے طور پر صرف چار کا ذکر کرکے ان کی تعبیر و توجیہ اس طرح کی گئی ہے کہ ان کے عموم میں بقیہ داخل ہوجاتے ہیں، مثلاً قیاس کے عموم میں استحسان ، استصلاح وغیرہ داخل ہیں۔ اجماع میں تعامل اور عرف وعادت داخل ہیں۔ ماقبل کی شریعت قرآن یا حدیث کے عموم میں آتی ہے۔ ملکی قانون تعامل میں شمار ہوسکتا ہے۔ رائیں اگر قیاس پر مبنی ہیں تو ان کا شمار قیاس میں ہوگا ورنہ وہ سماع پر محمول حدیث کے ذیل میں آجائیں گی۔ استدلال بھی قیاس کے قریب ہے۔ (۳) ذیل میں فقہ اسلامی کے بنیادی مآخذکا تعارف پیش کیاجاتا ہے۔

قرآن مجید

(فقہ اسلامی کا پہلا ماخذ)

قرآن مجید فقہ اسلامی کا بنیادی ماخذ ہے۔ قرآن وہ کتاب ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری نبی حضرت محمد  صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کی؛چونکہ یہ سلسلہٴ ہدایت کا آخری ایڈیشن ہے؛ اس لیے اس کی جملہ تعلیمات و تفہیمات کا ہر زمانہ میں یکسانیت کے ساتھ پایاجانا لازمی تھا۔ اور یہ صرف اسی صورت میں ممکن تھا کہ تمام شعبہ ہائے زندگی کے حدود اربعہ بناکر اس کے خطوط متعین کردیے جائیں۔ قرآن مجید مختصر ہونے کے باوجود جامع مانع ہے اور اس میں زندگی کے تمام شعبوں کے متعلق واضح احکام موجود ہیں؛ لیکن ان احکامات کی حیثیت اصول کی ہے۔ قرآن نے ایسا نہیں کیا کہ ابتداء ہی سے احکامات سے متعلق تمام جزئیات بیان کردی ہوں؛ بلکہ اس میں تدریج کا طریقہ بروئے کار لایاگیا۔ اگر بالفرض ابتداء ہی میں ساری جزئیات بیان کردی جاتیں اور عملی شکل کے سارے خاکے تیار کردیے جاتے تو ایک تو اس کی دستوری پوزیشن باقی نہ رہتی، دوسری بڑی بات یہ ہوتی کہ اس کی دوامی اور عالمگیر حیثیت ختم ہوکر ساری تعلیم خاص زمانہ تک محدود ہوجاتی اور پھر اس میں جمود و تعطل پیدا ہوکر ارتقاء پذیر معاشرے کو سمونے اور اقتضاء و مصالح کو جذب کرنے کی ساری صلاحیت ختم ہوجاتیں(۴)

مثال کے طور پر قرآن مجید نے اس بات کی تو وضاحت کی ہے کہ حکومت اللہ کی نیابت و امانت ہوگی اور ہر مسلمان کے لیے شورائی بنیاد پر عدل و انصاف کے نظام کے قیام کو ممکن بنانا لازم ہوگا؛ لیکن یہ تفصیل نہیں بتائی کہ یہ نظام کس نوعیت کا ہوگا اور اس کی ہیئت ترکیبی کیا ہوگی؟ اسی طرح قرآن مجید نے ہر حرام اور حلال چیز کا فرداً فرداً ذکر نہیں کیا اور نہ ہی حیات انسانی سے متعلق ہرجزوی معاملہ کو موضوعِ بحث بنایا؛ بلکہ اصول متعین کردیے۔ اب ان متعین اصولوں سے مطلوبہ نتائج اخذ کرنا اور ان کی علت تلاش کرکے حالات و زمانہ کے مطابق ان کی عملی تطبیق پیش کرنا اہل علم پر چھوڑ دیا۔ مولانا امینی اس حوالے سے اپنی ذاتی رائے کا اظہار ان الفاظ میں کرتے ہیں:

”اس بارے میں فقہاء و صلحائے امت نے جزئیات کی تفاصیل بتاکر کارہائے نمایاں انجام دیئے ہیں وہ سب اپنے اپنے زمانہ کے حالات کی مناسبت سے تھے اور آج بھی ہمیں حق ہے کہ ان جزئیات کی روشنی میں مقصد اور اصول کے پیش نظر اپنے زمانہ کے حالات و تقاضا کے مناسب طریقہٴ کار کی جزئیات مرتب کریں۔ اس مرتب شدہ جزئیات کی حیثیت بھی پہلی جزئیات کی طرح قطعی او ر دوامی نہ ہوگی؛ بلکہ معاشرہ کی حالت پر موقوف ہوگی اور اسی وقت تک باقی رہے گی؛ جب تک معاشرہ اجازت دے گا۔“ (۵)

فقہائے متاخرین میں سے علامہ شامی رحمة اللہ علیہ نے اس موضوع پر باقاعدہ ایک کتاب لکھی ہے اور اس میں حالات و زمانہ کے مطابق فقہی جزئیات میں تبدیلی اور اس کی ضرورت پر بڑی جامع بحث فرمائی ہے۔ ذیل میں مولانا شامی رحمة اللہ علیہ کی اسی کتاب سے ایک مثال پیش کی جاتی ہے:

”جاننا چاہیے کہ مسائلِ فقہ یا صریح نص سے ثابت ہوں گے (ان مسائل کو ہم نے پہلی فصل میں بیان کیا ہے) یا اجتہاد اور رائے سے ثابت ہوں گے۔ ان میں سے اکثر مسائل ایسے ہوتے ہیں جن کو مجتہد نے اپنے زمانہ کے رواج کے موافق قائم کیاتھا۔ اس طرح کہ اگر وہ (دینی مجتہد) آج کے زمانہ میں موجود ہوتا تو اپنے ہی قول کے خلاف کہتا۔ اسی بنا پر اجتہاد کے شرائط میں لوگوں نے اس کو بھی شامل کیا ہے کہ مجتہد لوگوں کے رسم و رواج سے واقفیت رکھتا ہو؛ کیونکہ اکثر احکام زمانہ کے اختلاف سے بدل جاتے ہیں۔ بوجہ اس کے کہ رواج بدل گیا۔ یا کوئی نئی ضرورت پیدا ہوگئی یا زمانہ کے لوگ بدروش ہوگئے۔ اس صورت میں اگر وہ پہلا حکم باقی رہے تو اس سے لوگوں کو تکلیف اور ضرر پہنچے اور شریعت کے ان قواعد کی مخالفت زمانہ کے حالات کے موافق تھی؛ کیونکہ مشائخ کو یہ معلوم تھا کہ اگر آج خود مجتہد موجود ہوتا تو وہی کہتا جو انھوں کہا۔“(۶)

بہرحال ان فقہی احکامات کی جزئیات مرتب کرنے اور جدید مسائل کی عصری تطبیق کے حوالے سے فقہ اسلامی کے پہلے ماخذ یعنی قرآنِ کریم نے سات چیزوں کو اپنافقہی اصول قرار دیا ہے جن سے رہنمائی حاصل کرکے قرآنی منشاء کے مطابق ہر دور کے شرعی مسائل حل کیے جاسکتے ہیں۔ یہ سات اصول درج ذیل ہیں:

$عدم حرج$قلت تکلیف $تدریج $نسخ $شانِ نزول

$حکمت و علت $عرب کی معاشرتی حالت

اگر عمومی طور پر قرآن ِ کریم کا جائزہ لیاجائے تو اس میں امت اسلامیہ کی نفسیات اور طبعی میلانات کی رعایت اور لحاظ کرتے ہوئے درج ذیل احکامات کو ملحوظ رکھا گیا ہے۔

(۱) اس بات کی کوشش کی گئی ہے کہ کوئی ایسا حکم نہ دیاجائے جس میں ناقابلِ برداشت مشقت ہو۔

(۲)لوگوں کی رغبت اور میلان کے پیش نظر بعض ایسے احکام مقرر ہوئے جنہیں قومی عید کے طور پر منایا جائے اور ان میں جائز اور مباح حد تک خوشی منانے اور زیب و زینت کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔

(۳)طاعات کی ادائیگی میں طبعی رغبت اور میلان کو ملحوظ رکھا گیا اور ان تمام محرکات و دواعی کی اجازت دی گئی جو اس میں مددگار ثابت ہوں؛ بشرطیکہ ان میں کوئی قباحت نہ ہو۔

(۴)طبعی طور پر جن چیزوں سے قباحت ہوتی ہے یا طبعیت بار محسوس کرتی ہے اس کو ناپسند کیاگیا۔

(۵)حق و استقامت پر قائم رہنے کے لیے تعلیم و تعلم، امربالمعروف و نہی عن المنکر کو دوامی شکل دی گئی کہ طبیعت کو اسلامی مزاج کے مطابق ڈھالنے میں مدد ملتی ہے۔

(۶)بعض احکام کی ادائیگی میں عزیمت اور رخصت کے دو درجے مقرر کیے گئے؛ تاکہ انسان اپنی سہولت کے پیشِ نظر جس کو چاہے اختیار کرے۔

(۷)بعض احکام میں رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کے دو مختلف قسم کے عمل مذکور ہوئے اور حالات کے پیش نظر دونوں پر عمل کی گنجائش رکھی گئی۔

(۸)بعض برائیوں میں مادی نفع سے محروم کرنے کا حکم دیاگیا۔

احکام کے نفاذ میں تدریجی ارتقاء کو ملحوظ رکھاگیا، یعنی نہ ایک ہی وقت میں سارے احکام مسلط کیے گئے اور نہ ہی ساری برائیوں سے روکا گیا۔

(۹)تعمیری اصلاحات میں قومی کردار کی پختگی اور خامی کی رعایت کی گئی۔

(۱۰)نیکی کے بہت سے کاموں کی پوری تفصیل بیان کی گئی۔ اس کو انسانوں کی سمجھ پر نہیں چھوڑا گیا، ورنہ بڑی دشواری پیش آتی ۔

(۱۱)بعض احکام کے نفاذ میں حالات و مصالح کی رعایت کی گئی اور بعض میں اشخاص و مزاج کی۔ (۷)

چنانچہ قرآنِ کریم جو کہ فقہ اسلامی کا بنیادی ماخذ ہے، اس سے ہمیں مندرجہ بالا اصولوں سے کافی رہنمائی ملتی ہے۔

سنت

(فقہ اسلامی کا دوسرا ماخذ)

فقہ اسلامی کا دوسرا ماخذ سنت ہے۔ سنت کے لغوی معنی راستہ اور طریقہٴ عمل کے ہیں۔ اصطلاح میں سنت رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال، افعال اور تقریرات کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ صحابہٴ کرام کے اقوال و افعال بھی سنت میں داخل ہیں، جیسا کہ اصول کی کتابوں میں ذکر ملتا ہے۔

اَلسُّنَّةُ تُطْلَقُ عَلٰی قَولِ الرَّسُولِ وَ فِعْلِہ وَسُکُوْتِہ وَعَلٰی أقْوَالِ الصَّحَابَةِ وَأفْعَالِھِمْ․(۸)

”سنت کا اطلاق رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و فعل اور سکوت پر نیز صحابہٴ کرام کے اقوال و افعال پر ہوتا ہے۔“

 صاحب کشف الاسرار لکھتے ہیں:

”سنت کا لفظ آں حضور  صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال و افعال نیزطریقِ رسول و صحابہ کو شامل ہے۔“ (۹)

 ڈاکٹر محمود احمدغازی کے مطابق:

”ہر وہ چیز جو رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ گرامی سے نسبت رکھتی ہے، وہ حدیث ہے اور علم حدیث میں شامل ہے۔“ (۱۰)

فقہ اسلامی کو سمجھنے اور مسائل ِ حاضرہ کے استخراج کے حوالے سے سنت کوبنیادی ماخذ سمجھا جاتا ہے؛ چنانچہ علماء و فقہاء نے تدوینِ فقہ کے حوالے سے سنت کی درج ذیل معلومات کا ہونا ضروری قرار دیا ہے:

$ناسخ و منسوخ $مجمل و مفسر$خاص و عام$محکم و متشابہہ

$احکامات کے درجے اور مراتب $ قرآن سے استدلال

$درایت و روایتِ حدیث کا علم

مولانا محمد تقی امینی رحمة اللہ علیہ سنت کے اس حصے کے بارے میں لکھتے ہیں، جس کا تعلق عام واقعات و مواعظ سے ہے:

”عام فقہاء کے خیال میں(کذا)قانون سازی کے لیے اس سے واقفیت ضروری نہیں ہے؛ لیکن اگر غور سے دیکھا جائے تو اجتماعی زندگی کو سمجھنے اور اس حیثیت سے قانون کا مقام متعین کرنے، نیز قانون کو موٴثر بنانے میں اس سے بڑی رہنمائی حاصل ہوتی ہے۔ اگر اس کو نظر انداز کرکے قانون کی تدوین عمل میں لائی جائے تو اس میں خشکی اور کرختگی ہوگی اور جذب و محبت کا عنصر کم ہوجائے گا جو اسلامی قانون کی جان ہے۔“ (۱۱)

اسی طرح سنت کی تشریحی و توضیحی حیثیت کی مختلف صورتوں کے حوالے سے مولانا امینی کا حاصلِ مطالعہ درج ذیل ہے:

(۱) قرآن حکیم میں جو آیتیں مجمل تھیں رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی تشریح فرمائی۔

(۲)جو مطلق تھیں ، موقع اور عمل کے لحاظ سے انھیں مقید فرمایا۔

(۳)جو مشکل تھیں، ان کی تفسیر بیان فرمائی۔

(۴)جو قرآنی احکام مجمل تھے یعنی جن کے عمل کی کیفیت ، اسباب و شرائط اور لوازم وغیرہ کی تفصیل نہ تھی، رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی تفصیل بیان فرمائی؛ چنانچہ نماز اور زکوٰة وغیرہ کی جو تفصیلات ”سنت“ میں مذکور ہیں، وہ سب قرآنِ حکیم کی شرح اور وضاحت ہیں۔

(۵)قرآنی توضیحات کی روشنی میں بہت سے پیش آمدہ واقعات کا حکم بیان فرمایا،مثلاً حلت و حرمت کے باب میں جو احکام مذکور تھے، ان پر مشتبہ اور مشکوک چیزوں کو قیاس کیا جن کی تصریح قرآن حکیم میں نہ تھی۔

(۶)قرآنی اصول و مقاصد کے پیش نظر وقت اور محل کی مناسبت سے وسائل و ذرائع کا حکم بیان فرمایا۔

(۷)قرآنی تصریحات سے ایسے اصول مستنبط فرمائے جن سے نئے حالات و مسائل کو قیاس کرنے کی راہیں کھلیں۔

(۸)قرآنی احکام کے وجوہ و اسباب اور حکمت و مصلحت بیان فرمائی جس سے بہت سے اصول و کلیات مستنبط ہوئے۔

(۹)قرآنی ہدایات سے الٰہی حکمت اخذ کی، اس کے مقاصد دریافت فرمائے، پھر اسی روشنی میں شریعت کو انسان کی عملی زندگی سے ہم آہنگ بنایا۔

(۱۰)بحیثیت مجموعی زندگی ایسی گذاری کہ قرآنی زندگی کے لیے وہ مکمل تفسیر بنی۔“ (۱۲)

ایک فقیہ کسی بھی شرعی مسئلہ کے استخراج کے لیے سب سے پہلے قرآن مجید کا مطالعہ کرتا ہے اور قرآن کی آیاتِ احکام پر جو کہ کم و بیش 500کے قریب ہیں نظر دوڑاتا ہے، اگر اس مسئلہ کا حل قرآنِ مجید کی کسی آیت سے معلوم نہیں ہوتا تو پھر سنت نبوی  صلی اللہ علیہ وسلم میں اسے تلاش کرتا ہے؛ تاکہ مسئلہ واضح ہوجائے۔سنت میں فقہی مسائل کے استخراج کی کئی مثالیں موجود ہیں:

(۱) قرآنِ کریم نے نماز، روزہ، زکوٰة، صدقات، حج اور اسی نوع کی دیگر عبادات کا حکم دیا ہے؛ لیکن چونکہ قرآنِ کریم کی مثال Text کی ہے اور اس کی شرح سنت سے معلوم ہوسکتی ہے تو اسی لیے ہمیں نماز کی ادائیگی، رکعت، وقت اور اسی طرح دیگر عبادات کی کافی حد تک تشریح سنت سے معلوم ہوگی؛ چنانچہ ان عبادات کی جزئیات تک رسائی سنت کا سہارا لیے بغیر ممکن نہیں۔

(۲)قرآن کریم میں ارشاد ہے: ﴿وَیَحِلُّ لَھُمُ الطَّیِّبَاتُ وَیُحَرِّمُ عَلَیْھِمُ الْحَبَائِثَ﴾(۱۳) یعنی پاک چیزیں تمہارے لیے حلال ہیں اور ناپاک چیزیں تمہارے لیے حرام ہیں۔ اب پاک و ناپاک چیزوں کی وضاحت کیسے معلوم ہوگی تو اس کے لیے سنت سے رہنمائی حاصل کی جاسکتی ہے۔ مثال کے طور پر نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر اس جانور کا گوشت حرام قرار دیا جو شکار کرکے کھاتا ہے تو اس سے حرام جانور کا تعین ہوگیا۔ اس کے علاوہ جو پرندہ کسی جانور کا شکار کرکے کھائے اسے بھی حرام قرار دیا اور اسی طرح پاک چیزوں کی تعیین بھی کردی۔

(۳)سنت اگر موجود نہ ہوتو قرآنِ کریم کی بہت سی آیات کا معنی لغت یا کسی دوسرے ذریعہ سے معلوم نہیں ہوسکتا۔ قرآن کریم میں اعتکاف کا تذکرہ آیا ہے؛ لیکن اعتکاف سے کیا مراد ہے؟ عاکف کس کو کہتے ہیں؟ قرآنِ کریم میں اس طرح کے سیکڑوں احکامات موجود ہیں، جن کی تعبیر و تشریح کے لیے سنت کی تعبیر و تشریح سامنے ہونا ازحد ضروری ہے۔

(۴)قرآن کریم میں تیمم کا ذکر آیا ہے؛ لیکن اس کی تفصیلات اور د یگر احکام کی فقہی تعبیر کے لیے سنت کا مطالعہ ضروری ہے۔

(۵)قرآن کریم کا اصول ہے: ﴿لاَ تَأکُلُو أمْوَالَکُمْ بَیْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ الاَّ أنْ تَکُوْنَ تِجَارَةً عَنْ تَرَاضٍ مِّنْکُمْ﴾ (۱۴)

یعنی ایک دوسرے کا مال غلط طریقہ سے مت کھاؤ ماسوائے اس صورت میں کہ آپس کی باہمی رضامندی سے تجارت اور لین دین ہو؛ چنانچہ اگر باہم رضامندی سے تجارت یا لین دین ہوتو وہ جائز ہے؛ لیکن اگر یہی عمل باطل طریقوں سے کیاجائے تو اس کی ممانعت کی گئی۔ اب یہ قرآن کا عام اصول ہے؛ لیکن اس کا انطباق کیسے ہوگا اور کن کن صورتوں میں ہوگا؟ اس حوالے سے بے شمار حدیثوں میں تشریحی نکات ملتے ہیں۔ مثال کے طور پر حدیث میں اس بیع سے منع کیاگیا ہے، جس میں کوئی ”مال“ بیچنے والے کے قبضے میں نہ ہو؛ تاکہ فساد سے بچا جاسکے۔(۱۵) چنانچہ اگر کوئی شخص درخت پر لگے کچے پھل کی بیع کرتا ہے یا پانی میں موجود مچھلیوں کی بیع کرتا ہے تو چونکہ اس میں یہ ممکن ہے کہ جتنے میں بیع ہوئی مال اس سے زیادہ یا کم نکلے تو اس صورت میں جھگڑے کا اندیشہ ہے۔ لہٰذا اسلام نے ایسی بیع کی اجازت نہیں دی؛ حالانکہ ظاہراً یہ بھی ایک تجارت ہے۔

(۶)قرآن حکیم میں ارشاد ہے: ﴿وَاَنْ تَجْمَعُوْا بَیْنَ الأُخْتَیْنِ﴾(۱۶) یعنی دو بہنوں سے ایک وقت میں نکاح جائز نہیں ہے؛ لیکن حدیث نے اس کی مزید وضاحت کردی کہ پھوپھی اور بھتیجی سے بھی ایک وقت میں نکاح جائز نہیں؛ اسی طرح بھانجی اور خالہ سے بھی بیک وقت نکاح نہیں ہوسکتا۔

ان تمام مثالوں سے یہ سمجھنا کہ سنت کا کام محض یہی ہے کہ وہ قرآنی احکامات کی تشریح کردے تو یہ درست نہیں؛ بلکہ سنت کا کام براہِ راست احکام دینا بھی ہے اور اس پر عمل کرنا امت پر واجب ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جائز و ناجائز کے بہت سے مسائل ایسے ہیں جو ہمیں براہِ راست سنت سے معلوم ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر خیارِ شرط کی نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت دی۔ یعنی ایک شخص اگر کوئی چیز خریدتا ہے اور بیچنے والے سے یہ شرط رکھتا ہے کہ اگر مجھے یہ چیز پسند نہ آئی تو تین دن تک میں اس بیع سے رجوع کرسکتا ہوں۔ اب یہ حکم براہِ راست قرآن کریم میں موجود نہیں؛ لیکن یہ اسلامی اصولِ بیع کا حصہ ہے اورفقہ حنفی کے مطابق اس پر عمل لازم ہے۔اسی طرح دیگر بہت سی مثالیں موجود ہیں جن سے سنت کا براہِ راست ماخذِ شریعت ہونا معلوم ہوتا ہے؛ چنانچہ اس سے کئی پیچیدگیوں سے چھٹکارا ملتا ہے اور کئی مشکلات آسان ہوجاتی ہیں۔

$ $ $

حوالہ جات

(۱) امینی ،محمد تقی ، فقہ اسلامی کا تاریخی پس منظر، ص ۵۷۔ (۲) سکروڈوی ،جمیل احمد ، قوت الاخیار شرح نورالانوار، ج ۱، ص ۴۳۔ (۳) امینی ،محمد تقی ،فقہ اسلامی کا تاریخی پس منظر، ص ۵۸۔ (۴) ایضاً، ص ۶۱۔ (۵) ایضاً، ص ۶۲۔ (۶) شامی ،علامہ، نثر العرف فی بناء بعض الاحکام العرف، ص ۱۸۔ (۷) امینی ،محمد تقی ،فقہ اسلامی کا تاریخی پسِ منظر، ص ۹۳۔۹۲۔ (۸) ملا جیون، احمد بن سعید ، نور الانوار بحوالہ فقہ اسلامی کا تاریخی پس منظر، ص ۹۴۔ (۹) حنفی ،عبدالعزیز، کشف الاسرار، ص ۳۵۹۔ (۱۰) غازی، محموداحمد، ڈاکٹر، محاضراتِ فقہ، ص ۲۰۔ (۱۱) امینی ،محمد تقی ،فقہ اسلامی کا تاریخی پسِ منظر، ص ۱۰۸۔ (۱۲) ایضاً، ص ۱۰۰۔۹۹۔ (۱۳) الاعراف، آیت ۱۵۷۔ (۱۴) النساء، آیت ۲۹۔ (۱۵) چنانچہ اس حوالہ سے بخاری شریف میں نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث بھی آئی ہے کہ:”نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کوئی شخص کسی قسم کا غلہ خریدے تو جب تک اس پر پوری طرح قبضہ نہ کرلے اسے نہ بیچے۔“ (۱۶) النساء، آیت ۲۳۔

—————————————–

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ10، جلد: 99 ‏، ذی الحجہ1436 ہجری مطابق اکتوبر 2015ء

Related Posts