از: مولانا عبدالرؤف غزنوی فاضل دارالعلوم دیوبند

استاذ: جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی

حضرت الاستاذمفتی سعیداحمدصاحب پالن پوری مدظلہم کی

 خدمت میں حاضری اوران کاذکرِخیر

جامع مسجدرشیدمیں نمازِ عشاء اداکرنے کے بعدچونکہ یہ مجھ سے نہیں ہوسکتاتھااورنہ ہی مناسب تھاکہ حضرت الاستاذ مفتی سعیداحمدصاحب پالن پوری مدظلہم شیخ الحدیث وصدرالمدرسین دارالعلوم دیوبندسے ملاقات کے لیے کل کاانتظارکروں،عشاء کی نمازکے بعدہی حضرت کی خدمت میں ان کے ذاتی مکان پر (جودارالعلوم سے آٹھ دس منٹ کے فاصلے پر اندرون کوٹلہ واقع ہے) حاضری دی، حضرت الاستاذسے احقرکو بے انتہاء محبت وعقیدت ہے؛ اس لیے کہ احقرنے اپنی تعلیمی زندگی میں سب سے زیادہ استفادہ ان ہی سے کیاہے،اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ جس سال (تعلیمی سال ۱۴۰۱ھ-۱۴۰۲ھ)احقر نے دارالعلوم دیوبندمیں دورہٴ حدیث کیا،اس سال حضرت والانے مندرجہ ذیل تمام کتابیں پڑھائیں:

بخاری شریف جلد ثانی، ترمذی شریف جلد اول، سنن ابوداوٴد، صحیح مسلم (چنداسباق کے علاوہ)

موٴطاامام مالک، موٴطاامام محمد، شمائل ترمذی

اوراگلے سال جب احقرنے شعبہٴ افتاء (تخصص فی الفقہ)میں داخلہ لیاتواس سال بھی حضرت والاسے خارجی طورپرکافی استفادہ کیا اورسب سے بڑھ کرحضرت والاکی ایک خصوصی شفقت وعنایت یہ رہی کہ جب احقرکامدرس کی حیثیت سے دارالعلوم میں تقررہوا اورایک دوسال پڑھانے کے بعدشدت کے ساتھ یہ احساس ہونے لگاکہ کاش میں حافظ قرآن ہوتا!اس لیے کہ مدرس کے لیے حافظ قرآن ہونانہایت اہم ہے اورویسے بھی یہ ایک عظیم نعمت ہے جس سے میں محروم ہوں؛چنانچہ حضرت والاہی کے مشورہ سے تدریس کے ساتھ ساتھ حفظِ قرآن ان ہی کے پاس شروع کیااوران کی صحیح رہنمائی،فیض وبرکت اورخصوصی عنایت سے تقریباً ایک سال کے اندر حفظِ قرآن مکمل ہوگیا،ا س کے علاوہ جب تک دارالعلوم میں تدریس کاسلسلہ رہاتوقدم قدم پران کی رہنمائی وسرپرستی حاصل رہی،دارالعلوم سے کراچی منتقل ہونے کے بعدبھی آج تک ان سے علمی اوردیگراہم ومشورہ طلب امورمیں استفادہ کاسلسلہ ٹیلی فون،خط وکتابت اوران کی تصانیف کے ذریعہ قائم ہے، خلاصہ یہ ہے کہ ایک حقیقی بیٹے کواپنے مشفق والدکی طرف سے اس سے زیادہ شفقت کی سعادت حاصل نہیں رہی ہوگی جتنی شفقت سے حضرت الاستاذ نے اس نالائق شاگرد کونوازاہے اورآج تک نوازرہے ہیں۔ اللّٰھُمَّ بَارِکْ فِیْ حَیَاتِہ مَعَ الصِّحَةِ وَالْعَافِیَةِ․

حضرت مفتی صاحب مدظلہم العالی کا۱۳۹۳ھ مطابق ۱۹۷۳ء کودارالعلوم دیوبندمیں تقرر ہوا، انھوں نے دارالعلوم کی اس خدمت کوسعادت سمجھ کر اپنی تمام صلاحیتوں کوتعلیم وتدریس، تصنیف وتالیف اوراصلاحِ طلبہ پرلگایا،معاشی دشواریاں بھی پیش آئیں؛ لیکن انھوں نے صبر و استقامت کے ساتھ برداشت کرتے ہوئے اپنے علمی کاموں میں ان دشواریوں کوحائل نہیں ہونے دیااورنہ ہی کسی غیرعلمی مصروفیت کی طرف متوجہ ہوئے،مفتی صاحب کی خداداد صلاحیتوں، طلبہ میں بے پناہ مقبولیت اورعلمی یکسوئی کودیکھ کر مجلسِ شوریٰ دارالعلوم دیوبندنے شیخ الحدیث وصدرالمدرسین کے باوقارواعلیٰ علمی منصب پرفائزکردیا۔

حضرت الاستاذ سے خصوصی اجازتِ حدیث کی درخواست

اس سے پہلے عرض کیاجاچکاہے کہ احقر نے حضرت مفتی سعید احمد صاحب پالن پوری مدظلہم العالی کے پاس حدیث کی کئی اہم کتابیں پڑھنے کی سعادت حاصل کی ہے،مزیدیہ بھی کہ دارالعلوم دیوبندسے احقر کی سندِ فراغت پربھی آپ اوردیگراساتذہٴ کرام کے دستخط موجودہیں جواجازتِ حدیث کے لیے کافی ہیں؛تاہم میری ایک قلبی خواہش ضرورتھی کہ حضرت الاستاذ ایک خصوصی مختصر اجازت نامہ تحریری طورپرمزیدعنایت فرمادیں جس میں ان کی تمام مرویات کی اجازت شامل ہو؛ چنانچہ اس سفرمیں ایک دن میں نے اس درخواست کی جسارت کرہی دی،حضرت نے فرمایاکہ ضروردیں گے،میراخیال یہی تھاکہ حضرت الاستاذسادہ کاغذپرمختصرالفاظ میں تین چارسطر تحریر فرماکرعنایت فرمائیں گے اوروہی مختصرتحریرمیرے لیے عظیم سعادت ہوگی؛لیکن میری حیرت کی انتہاء نہ رہی؛ بلکہ میراسر شرم سے جھک گیا؛ جب اگلے دن بعدالعصر ان کی خدمت میں حاضری ہوئی تومعلوم ہواکہ انھوں نے ایک مفصل اجازت نامہ تحریرفرماکر ایک خوبصورت کاغذ پرجس کے حواشی پررنگارنگ پھولوں کے نقوش چھپے ہوئے ہیں کاتب سے منتقل کروادیاہے اورنیچے دستخط فرماکراس کمترین شاگردکوعنایت فرمائیں گے۔

اس اجازت نامہ میں حضرت الاستاذ(أمدَّ اللہُ فِی عُمُرِہ وَصِحَّتِہ وَجُھُوْدِہ)نے اس حقیرخادم کا جس اندازپرذکرفرمایاہے، احقراس کواپنے لیے نیک فال ضرورسمجھتاہے؛ لیکن اپنے آپ کواس کامستحق ہرگزنہیں سمجھتا؛بلکہ یہ تصورکرتاہے کہ حضرت والانے اس اندازسے اپنے ایک ادنیٰ شاگردکو آگے بڑھنے کاحوصلہ دیتے ہوئے اس کی ہمت افزائی اورذرّہ نوازی فرمائی ہے، حضرت والانے جواجازت نامہ تحریرفرمایاہے، اس کامتن ان ہی کے الفاظ میں برکت کے لیے پیش کیا جارہاہے:

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اجازة روایة کتب الحدیث

”الحمدللہ الذی ھدانالدین الاسلام والاھتداء، والصلوة والسلام علیٰ خیر خلقہ سید المرسلین وعلیٰ آلہ وصحبہ ذوی الدرایة والیقین، أما بعد:

فان تلمیذ الأمس زمیلَ الیوم، الأستاذ الأدیب الأریب، الشیخ المحدث، النبیہ الکریم، العلامة حبیبی عبدالروٴوف خان الغزنوي الأفغاني مدرس الحدیث الشریف بالجامعة الاسلامیة بنوری تاوٴن بکراتشي الباکستان قرأ عليّ عدیداً من الکتب الحدیثیة، ک صحیح البخاري، وصحیح مسلم والجامع للامام الترمذي وغیرھا، وکان التصدی للاقراء ھوالاجازة، ولکنہ استجاز مني أخریٰ، لحسن ظنہ بي، ولست بأھل لذلک، فماکل بیضاء شحمة، ولاکل ذات ورم سمینة، ولکن حسن ظنہ ھو غایة آمالي، فاقتداء بالسلف الصالح أجیزہ بروایة جمیع الکتب الحدیثیة معروفة الأسانید لدی تلامیذي، مثل الصحیحین، والسنن الأربعة، وشرح معاني الآثار، والموٴطین للإمامین الھمامین: مالک ومحمد، ومسند الإمام الأعظم، ومسند الإمام أحمد بن حنبل رحمھم اللہ، وأدعوا اللہ تعالیٰ أن یوفقہ ویرضی، ویذیقہ حلاوة العلم والمعرفة والتحقیق، ویبلغہ غایة مایتمناہ، وأوصیہ بتقوی اللہ فی السر والعلن، وأن یتبع سنة سید المرسلین، وأرجو منہ أن لاینساني في دعواتہ الصالحة، ویوفقني وایاہ لمرضاتہ ولصالح الأعمال، فانہ ولي التوفیق، والحمدللہ رب العالمین، وصلی اللہ علی سید الأنبیاء والمرسلین وعلیٰ آلہ وصحبہ أجمعین، آمین یارب العالمین“․                                                                                                    أجازہ العبدالفقیر الحقیر

                                                                       سعیدأحمد البالن بوری

                                                              ۱۰/۷/۱۴۳۵ھ=۱۰/۵/۲۰۱۴م

حضرت الاستاذ مولاناریاست علی صاحب کی خدمت میں حاضری اور ان کاذکرِخیر

دارالعلوم دیوبندمیں احقرکے اساتذہٴ کرام میں سے تین حضرات بقیدحیات ہیں (اللّٰھم بارک في حیاتھم وصحتھم وجھودھم) ایک حضرت الاستاذمفتی سعید احمد صاحب پالن پوری دامت برکاتہم جن کا تذکرہٴ خیرہوچکا ہے،دوسرے حضرت الاستاذ مولاناقمرالدین صاحب مدظلہم العالی جن کاذکرخیرآرہاہے اور تیسرے حضرت الاستاذمولاناریاست علی صاحب بجنوری زیدمجدہم ہیں۔

حضرت مولاناریاست علی صاحب بجنوری سے احقرنے سنن ابن ماجہ کاسبق پڑھاہے،اللہ نے ان کو گوناگوں صلاحیتوں سے نوازاہے،تقویٰ وطہارت کے ساتھ ساتھ ذہانت وفطانت، فصاحت وبلاغت،شعرگوئی وبذلہ سنجی اورمعاملہ فہمی وحاضر جوابی میں ثانی نہیں رکھتے،تدریس کے دوران مختصر؛مگرجامع ونہایت سہل اندازمیں موضوع پیش کرنے کاملکہ رکھتے ہیں، مضمون نگاری وتصنیف وتألیف کے میدان میں بھی قدرت نے ان کوخوب صلاحیت عطا کی ہے۔۱۳۹۱ھ کو دارالعلوم دیوبندمیں مدرس کی حیثیت سے آپ کاتقررہوا اورابتدائی درجات سے لے کردورہٴ حدیث وتکمیلات تک کی کتابیں کامیابی کے ساتھ پڑھائیں، آج کل دورہٴ حدیث کی ایک اہم کتاب ترمذی شریف جلد اول پڑھارہے ہیں،دارالعلوم دیوبندکامشہورومعروف ترانہ (یہ علم وہنرکاگہوارہ․․․․) آپ ہی کی تخلیق اورآپ ہی کی پاکیزہ شاعری کاترجمان ہے جسے سن کردلوں پررقت طاری ہوتی ہے اورآنکھوں کوآنسو بہائے بغیرچین نہیں آتا،”نغمہٴ سحر“کے نام سے آپ کے اشعارکامجموعہ شائع ہوچکاہے۔

تصنیف و تالیف کے میدان میں آپ کی ایک شاہکار تصنیف ”شوریٰ کی شرعی حیثیت“ہے جواپنے موضوع پرایک مفصل ومدلل کتاب ہے،یہ کتاب مجلس شوریٰ اورمہتمم کی باہمی حیثیت سے متعلق لکھی گئی ہے اورنصوصِ شرعیہ اوراسلافِ امت واکابرین دارالعلوم دیوبندکی تصریحات کی روشنی میں شوریٰ کی بالادستی،مہتمم کواس کے سامنے جواب دہ ہونا اورمجلس شوریٰ کامہتمم کے نصب وعزل کا مختار ہونا ثابت کیاگیاہے،یہ کتاب ۱۴۰۸ھ کوپہلی بار۴۰۸صفحات پرمشتمل”شیخ الہند اکیڈمی دارالعلوم دیوبند“کی طرف سے شائع ہوئی اوراس کوعلمی حلقوں میں بڑی پذیرائی وشہرت ملی، مفتی اعظم ہندحضرت مولانامفتی محمودحسن گنگوہی قدس سرہ،حضرت مولانامعراج الحق صاحب صدرالمدرسین دارالعلوم دیوبند رحمہ اللہ،حضرت مولانانصیراحمدخان صاحب شیخ الحدیث دارالعلوم دیوبندرحمہ اللہ،حضرت مفتی سعیداحمدصاحب پالن پوری موجودہ صدرالمدرسین وشیخ الحدیث دارالعلوم دیوبندمدظلہم اورمشہورمصنف حضرت مولاناقاضی اطہرصاحب مبارک پوری نگران اعزازی ”شیخ الہنداکیڈمی دارالعلوم دیوبند“رحمہ اللہ ان تمام اکابرنے اس کتاب پراعتمادکااظہارفرماتے ہوئے اس پر تصدیقات ثبت فرمائی ہیں۔

میدانِ تصنیف وتالیف میں ان کادوسراعظیم کارنامہ ”ایضاح البخاری“شرح صحیح بخاری ہے جس میں انھوں نے اپنے استاذِ محترم فخرالاسلام حضرت مولاناسیدفخرالدین احمدصاحب شیخ الحدیث دارالعلوم دیوبند (متوفّٰی۱۳۹۲ھ)رحمہ اللہ کے افادات کواپنی مزیدتحقیق،حسنِ ترتیب اورحوالوں کی نشاندہی کے ساتھ جمع فرمایا ہے اوراب تک اس کی آٹھ جلدیں (کتاب الوحی سے کتاب الاعتکاف کے اختتام تک)شائع ہوچکی ہیں اور آگے کاکام جاری ہے،اللہ تعالیٰ اس کوپایہٴ تکمیل تک پہنچانے کی توفیق عطافرمائے۔

مذکورہ تمام کمالات کے ساتھ ساتھ حضرت الاستاذ کاایک امتیازی اورخصوصی کمال ان کی حقیقی تواضع اور بے پناہ خاکساری ہے جس سے احقر بے حدمتاثرہواہے؛اس لیے کہ ظاہری تواضع کی مثالیں توکافی ملتی ہیں؛ لیکن حقیقی تواضع اوروہ بھی صاحبِ کمال بلکہ مجمع الکمالات شخص کے اندرپایاجانابہت مشکل ہے۔رواں ہجری صدی کے شروع میں جب راقم داخلہ کی غرض سے دارالعلوم دیوبندپہنچااورحضرت والاسے پڑھنے کاموقع نصیب ہوا،اورساتھ ساتھ آپ کوبحیثیت ناظمِ تعلیمات بھی قریب سے دیکھنے کاموقع ملا،اوردارالعلوم دیوبندسے میری جدائی کے بعدبھی آپ سے تعلق قائم رہاجوآج تک بحمداللہ باقی ہے،اس طویل واقفیت کے بعدمیں شرح صدرکے ساتھ یہ کہتاہوں کہ تواضع کے جس مقام پروہ فائزہیں، وہ بہت کم لوگوں کونصیب ہوتاہے۔

حضرت الاستاذمولاناقمرالدین صاحب زیدمجدہم کی خدمت میں حاضری

اس سفرمیں اللہ کے فضل وکرم سے اپنے استاذمحترم حضرت مولاناعلامہ قمرالدین احمد صاحب گورکھپوری دامت برکاتہم العالیہ استاذ حدیث دارالعلوم دیوبندکی خدمت میں بھی حاضری ہوئی اوران کی نصیحتوں اورقیمتی ملفوظات سے استفادہ کاموقع نصیب ہوا،آپ نے بہت ہی شفقت ومحبت کامعاملہ فرماتے ہوئے اپنے ملفوظات ومجالس کامجموعہ”جواہراتِ قمر“عنایت فرمایا، اور چائے وپھل فروٹ سے بھی احقر کااکرام فرمایا، احقرنے ان سے حدیث کی دوکتابیں(شرح معانی الآثاراورسنن نسائی)پڑھی ہیں۔

حضرت الاستاذدارالعلوم کے قدیم ترین استادوں میں سے ہیں،دارالعلوم دیوبندمیںآ پ کا تقرر ۱۳۸۶ھ کوحضرت مولاناعلامہ محمدابراہیم صاحب بلیاوی (متوفّٰی۱۳۸۷ھ)قدس سرہ صدرالمدرسین دارالعلوم دیوبندکے توسط سے عمل میں آیا،اس وقت سے آج تک پوری نصف صدی گزرچکی ہے کہ آپ دارالعلوم میں پڑھارہے ہیں،ابتداء سے لیکر دورہٴ حدیث وتکمیلات تک ہرفن پڑھاچکے ہیں اورہرفن پرعبوررکھتے ہیں،اپنے مخدوم واستادمحترم امام المعقولات حضرت علامہ بلیاوی قدس سرہ کی خدمت وصحبت کی برکت سے فن معقولات میں آپ کوخصوصی ملکہ حاصل ہے،آج کل دورہٴ حدیث میں صحیح مسلم شریف پڑھارہے ہیں۔

حضرت الاستاذپڑھانے کے ساتھ ساتھ طلبہ کی تربیت واصلاح پربھی خصوصی توجہ دیتے ہیں،اس مقصدکے تحت دورانِ تدریس علمی تحقیقات بیان کرنے کے ساتھ ساتھ طلبہ کوہدایات وتعلیمات ِ نبویہ پرعمل کرنے کی ترغیب اوراس سلسلہ میں اکابرین کے واقعات بیان کرناآپ کامعمول ہے،بعدالعصرآپ کی رہائش گاہ کے قریب واقع مسجدِ طیّب میں سالوں سے آپ کی اصلاحی مجالس کاسلسلہ قائم ہے جس سے طلبہ اورعام نمازیوں کواستفادہ کرنے کاموقع مل جاتاہے،بیعت وسلوک کے میدان میں آپ کواپنے استاد ومخدوم حضرت علامہ محمدابراہیم بلیاوی علیہ الرحمة اورحضرت مولاناشاہ ابرارالحق ہردوئی علیہ الرحمة سے اجازت وخلافت حاصل ہے۔

حضرت مہتمم صاحب سے ملاقات

حضرت مولانامفتی ابوالقاسم صاحب نعمانی مہتمم واستاذ حدیث دارالعلوم دیوبندسے بھی اس سفرمیں متعددنیازمندانہ ملاقاتیں ہوئیں اورانھوں نے بھی احقرکواکرام سے نوازا،جس زمانہ میں احقردارالعلوم میں مقیم تھا اس وقت دارالعلوم کی تدریس یاانتظام سے مفتی صاحب کی وا بستگی نہیں تھی؛البتہ حضرت فقیہ الامت مفتی محمودحسن گنگوہی قدس سرہ صدرمفتی دارالعلوم دیوبندسے چونکہ ان کااصلاحی تعلق تھا(اِس وقت حضرت فقیہ الامت کے اجل خلفاء میں ان کوشمار کیا جاتا ہے) اوران کی خدمت میں وقتاً فوقتاً دیوبندحاضری دیتے رہتے تھے اوراحقر کابھی حضرت فقیہ الامت قدس سرہ سے اصلاحی تعلق قائم ہوگیاتھااوران کی مجلسوں میں حسبِ توفیق شریک ہوا کرتا تھا اس دوران مفتی ابوالقاسم نعمانی صاحب سے بھی ملاقات ہوجایاکرتی تھی۔

دارالعلوم کے دیگرمشایخ کرام سے ملاقاتیں

اپنے اساتذہٴ کرام اورحضرت مہتمم صاحب کے علاوہ حضرت مولاناعبدالحق صاحب اعظمی، حضرت مولانانعمت اللہ صاحب اعظمی،حضرت مولاناعبدالخالق صاحب مدراسی (نائب مہتمم دارالعلوم دیوبند) حضرت مولاناحبیب الرحمن صاحب اعظمی(مدیرماہنامہ دارالعلوم )،حضرت مولاناقاری محمد عثمان صاحب منصورپوری، حضرت مولانامحمدامین صاحب پالن پوری اورحضرت مولاناعبدالرحیم صاحب بستوی دامت برکاتہم العالیہ (اساتذہٴ حدیث دارالعلوم دیوبند)سے بھی ملاقات کاشرف حاصل ہوا،مذکورہ تمام حضرات اس زمانہ سے دارالعلوم میں پڑھارہے ہیں جس زمانہ میں راقم الحروف بھی دارالعلوم کے خادموں میں سے ایک خادمِ تدریس کی حیثیت سے وہاں کام کررہاتھا،ان تمام حضرات کی عظمت وفضیلت کااس وقت بھی قائل تھا اورآج بھی ہوں؛البتہ اُن سے پڑھنے کی سعادت میسر نہیں ہوسکی ہے،میری خوش قسمتی ہے کہ اس سفرمیں ان تمام حضرات سے خوشگوارماحول میں ملاقاتیں ہوئیں،اورماضی کی دلچسپ یادوں کوتازہ کیا اورانھوں نے احقر کی ذرہ نوازی واکرام بھی فرمایا۔

جناب مولانانورعالم خلیل امینی صاحب سے ملاقات

اپنی مادرِعلمی کے اس سفرکے دوران جناب مولانانورعالم خلیل امینی صاحب زیدمجدہم استاذادب عربی ومدیرمجلہ عربی”الدّاعي“دارالعلوم دیوبندسے ان کے گھرپرملاقات کی سعادت حاصل کی، جہاں موصوف نے اپنے نفیس دسترخوان پرچائے ودیگرلوازمات سے احقر کااکرام کیا، مولاناکاتقرردارالعلوم میں ماہِ شوال۱۴۰۲ھ کو بحیثیت استاذ ادب عربی ومدیرجریدہ عربی ”الدّاعي“ ان کے استادومربی حضرت مولاناوحیدالزمان صاحب کیرانوی (متوفی۱۴۱۵ھ)رحمہ اللہ سابق استادومعاون مہتمم دارالعلوم دیوبندکی تحریک پرہوا،احقر اس وقت تخصص فی الفقہ (شعبہٴ افتاء) کا طالب علم تھااورچندہی مہینے بعدماہِ صفر۱۴۰۳ھ کودارالعلوم میں مدرس کی حیثیت سے احقرکاتقرربھی عمل میں آیا،اس وقت سے جناب مولانانورعالم صاحب کوجانتاہوں۔

میں پورے وثوق کے ساتھ کہہ سکتاہوں کہ مولانانورعالم صاحب نے اپنے مربی حضرت مولانا وحیدالزمان صاحب قدس سرہ کی تمناکے مطابق؛بلکہ اس سے بھی بڑھ کر عربی ادب کے میدان میں خدمت انجام دی،ایک طرف انھوں نے ایسے لائق وفائق شاگردتیارکردیے جنہوں نے دارالعلوم سے فراغت کے بعد پورے ملک وبیرونِ ملک کے تعلیمی اداروں میں عربی ادب وعربی زبان کی اہمیت کواجاگرکرتے ہوئے خوب کام کیا،اوردوسری طرف سے مولانانے عربی مجلہ”الدّاعي“ کوبامِ عروج پرپہنچایا۔

اپنے ہم عصر اوردوست اساتذہ سے ملاقاتیں

اپنی زندگی کے اس ناقابلِ فراموش سفرمیں جہاں اپنے اساتذہٴ کرام اوردیگرمشایخِ عظام کی خدمت میں حاضری کاموقع ملا وہاں اپنے ان ہم عصراوردوست اساتذہ کادیداراوران سے شرفِ لقاء بھی نصیب ہوا جن کے ساتھ ماضی میں بے تکلف ملاقاتیں،دعوتوں کا تبادلہ، بعدالعصر اکثر ایک ہی ساتھ چہل قدمی کے لیے نکلنے اوردارالاقامہ کانظام ایک ہی ساتھ سنبھالنے کاسلسلہ رہاتھا،ان حضرات میں سے جناب مولاناعبدالخالق صاحب سنبھلی(جو،اب نائب مہتمم دارالعلوم دیوبند بھی بنائے گئے ہیں)اورجناب مولانامحمدنسیم صاحب بارہ بنکوی سرفہرست ہیں،ان دونوں حضرات اوراحقر کاایک ہی ساتھ دارالعلوم دیوبندمیں تعلیمی سال۱۴۰۲ھ-۱۴۰۳ھ کو تقرر ہوا تھا، حسنِ اتفاق سے تینوں کو بچوں سمیت ایک ہی عمارت ”دارالمدرسین“میں رہائش بھی ملی تھی،اس سفرمیں پرانی یادوں کوتازہ کرتے ہوئے ایک مرتبہ پھردارالمدرسین ہی میں مولانامحمدنسیم صاحب کے دسترخوان پرتینوں نے ایک ہی ساتھ ناشتہ کیا،ناشتہ کے بعدان کے قریب میں رہائش پذیر بزرگ استاذحضرت مولاناعبدالرحیم صاحب بستوی سے ملاقات ہوئی جنہوں نے بہت اکرام کیا، موصوف شیخ الاسلام حضرت مدنی قدس سرہ کے شاگردوں میں سے ہیں(دارالعلوم میں حضرت مدنی قدس سرہ کے شاگردچندہی رہ گئے ہیں) اور طلبہ میں ایک مقبول ومشفق استاذکی حیثیت سے پہچانے جاتے ہیں،عمرمیں ہم تینوں سے کافی بڑے ہیں؛ لیکن اپنی تواضع کی بنیادپرہمارے ساتھ ان کامعاملہ بے تکلف دوستوں جیساہواکرتاتھا،اللہ تعالیٰ ان کی عمروصحت میں برکت عطا فرمائے۔

چندنوجوان اساتذہ سے ملاقاتیں

اس باسعادت سفردارالعلوم دیوبندمیں چنداُن نوجوان اساتذہٴ کرام سے بھی ملاقات کاشرف حاصل ہواجن کی تقرریاں دارالعلوم سے میری واپسی کے بعدہوئی ہیں،ان حضرات کاعلمی انہماک،تدریسی ذمہ داری کونباہنے کے ساتھ ساتھ تصنیف وتألیف کے میدان سے بھی اچھی دلچسپی اور اپنے بڑوں اوراساتذہ سے مضبوط تعلق اوران کے مشوروں سے چلنا،ان تمام امورکودیکھ کر یہ محسوس ہواکہ الحمدللہ مادرِ علمی کاعلمی وعملی دونوں میدانوں میں امتیاز جیساکہ ہمیشہ برقراررہاہے ایساہی آئندہ بھی ان جیسے نوجوانوں کے ذریعہ ان شاء اللہ برقراررہے گا۔

ان نوجوان اساتذہ میں جناب مولاناعبداللہ صاحب معروفی،جناب مولاناعارف جمیل صاحب قاسمی،جناب مولانامحمدساجد صاحب قاسمی،جناب مولانامحمدعلی صاحب بجنوری،جناب مولاناتوحیدعالم صاحب قاسمی،جناب مولانامحمدعثمان صاحب ہوڑوی، جناب مولانا اشتیاق احمد صاحب دربھنگوی، جناب مولانااشرف عباس صاحب قاسمی وغیرہ (زیدمجدہم)شامل ہیں، نوجوان اساتذہٴ کرام میں سے کچھ حضرات نے اپنی تالیفات کاہدیہ بھی پیش کیا، فجزاہم اللّٰہ خیراً، ان تالیفات کودیکھ کران کی صلاحیتوں اورمحنتوں کااندازہ ہوا۔

جامع مسجد رشیدمیں نمازجمعہ کی امامت

دارالعلوم دیوبندمیں اس مختصرقیام کے دوران دفتراہتمام کی طرف سے جامع مسجدرشیدکے امام صاحب کے ذریعہ یہ پیغام موصول ہواکہ احقربروز جمعہ۹/۷/۱۴۳۵ھ مطابق۹/۵/۲۰۱۴ء کوجامع مسجدرشیدمیں نمازِ جمعہ پڑھاکر پرانی یادوں کوتازہ کرادیں،اس حکم کواپنے لیے سعادت سمجھ کراس امیدپرقبول کیاکہ جس طرح اللہ تعالیٰ اس دنیامیں میری خامیوں اورنااہلیت پرپردہ ڈال کرعلماء وصلحاء کی ایک عظیم جماعت کی امامت وخطابت کاموقع دے رہاہے شایدقیامت میں بھی ان ہی صلحاء کے طفیل میں اس گنہگار کابیڑاپارکرادے۔

شہردیوبندکے چنددیگردینی اداروں کی زیارت

اس دلچسپ سفرمیں دارالعلوم کے علاوہ شہردیوبندکے چنددیگرایسے دینی اداروں کی زیارت کاموقع بھی ملاجواحقر کی مدرسی کے زمانے میں موجودنہیں تھے،ان اداروں میں سے ایک ”دارالعلوم (وقف)“ہے جس کے مہتمم حضرت مولانامحمدسالم صاحب قاسمی مدظلہم ہیں،جب میں دیوبندمیں تھااسی وقت یہ”دارالعلوم(وقف)“قائم ہوگیاتھا؛ البتہ عمارت نہ ہونے کی وجہ سے اس نے شہر دیوبند کی جامع مسجدمیں کام شروع کردیاتھااورعیدگاہ کے قریب اس کے لیے مستقل عمارت کے ارادہ سے زمین حاصل کرلی گئی تھی،اس سفرمیں راقم نے دیکھاکہ اس زمین پرایک شاندارعمارت کھڑی ہے جس میں درسگاہیں، دارالاقامہ،دفاتراورمدرسہ کی تمام ضروریات کا انتظام موجوداورتعلیم کاسلسلہ جاری ہے،اورسب سے اچھی اور باعث اطمینان چیزیہ نظرآئی کہ اب الحمدللہ اختلاف کی کیفیت بھی ختم ہوچکی ہے اوردونوں ادارے(دارالعلوم دیوبنداوردارالعلوم وقف) اپنے اپنے دینی کاموں میں لگے ہوئے ہیں اورذمہ داران کاآپس میں اچھاتعلق بھی قائم ہے۔

مولاناعبدالرشیدصاحب بستوی فاضل دارالعلوم دیوبندکی دعوت پر دیوبندکے ایک اوردینی ادارے ”جامعة الامام محمدانورالکشمیری“ کی زیارت کاموقع بھی ملا، اور مولانا موصوف۔ جومذکورہ ادارہ کے ایک قابل استاد اورصدرالمدرسین اوراحقرکے مخلص دوست ہیں۔ کی خواہش پرطلبہ کی تقریری انجمن کے اختتامی پروگرام میں شریک ہوکرطلبہ کی خدمت میں چند باتیں بھی عرض کیں،مولانانے احقرکابہت اکرام کیااوررات کے کھانے پرمدعوبھی کیا۔

اسی طرح”الجامعة الاسلامیة للبنات“-جس کے بانی ومدیرجناب مولانا سیداسجد صاحب مدنی زیدمجدہم ہیں۔کی زیارت کے لیے بھی حاضرہوااوراس کی نفاست ونظافت اور حسنِ انتظام کودیکھ کر دل خوش ہوا،مولاناخودچونکہ سفرمیں تھے اس لیے ان سے شرفِ ملاقات حاصل نہ کرسکا جس کاقلق اب تک باقی ہے؛ البتہ ان کے ہونہارصاحبزادے جناب مولاناحسن صاحب مدنی سے ملاقات ہوئی اورانھوں نے ایک پُرتکلف دعوت سے بھی نوازا۔میرے ایک اورمخلص دوست مولانامزمل حسین صاحب آسامی کاقائم کردہ مدرسہ”جامعة الشیخ حسین احمدالمدنی“کی زیارت بھی نصیب ہوئی اورمولاناموصوف نے بھی احقرکااکرام کیااورایک پرتکلف دعوت پرمدعوبھی کیا۔قریب میں واقع”شیخ الاسلام اکیڈمی “جس کی نگرانی محترم مولانا سید امجد صاحب مدنی فرمارہے ہیں کی زیارت اوروہاں کے علمی واشاعتی کاموں سے آگاہی وخوشی حاصل ہوئی،بالخصوص”تحفة الأحوذي شرح جامع الترمذي“پرمولاناسیدامجدمدنی صاحب بارک اللّٰہ فی علومہ وجہودہ کے تحقیقی کام (جس کاسلسلہ جاری ہے)سے دل بڑا خوش ہوا، اللہ تعالیٰ پایہٴ تکمیل تک پہنچانے کی توفیق عطافرمائے۔

دارالعلوم دیوبندکی ترقی کے چنداہم اسباب

اس سفرکے دوران اپنی مادرِعلمی دارالعلوم دیوبندکے ماضی وحال پرغورکرتاہوااوراس کی بے مثال ترقی کاتصورکرتاہواذہن اس طرف متوجہ ہواکہ اس حیرت انگیزکامیابی کے بنیادی اسباب کیاہیں؟آخرمیں چنداہم اسباب کی طرف ذہن منتقل ہوا جن کو اختصارکے ساتھ قلمبند کرنا مناسب سمجھتاہوں:

۱:-اخلاص وللہیت

اللہ تعالیٰ نے اکابرین دارالعلوم کواخلاص وللہیت کابھرپورحصہ عطافرمایاتھا،بانیِ دارالعلوم حضرت مولانامحمدقاسم نانوتوی علیہ الرحمة کاپیش کردہ آٹھ دفعات پرمشتمل دستورالعمل جو”اصول ہشتگانہ“ کے نام سے مشہورہے ایک بے نظیردستورہے،اُن آٹھ اصولوں بالخصوص اصل نمبرچھ اور اصل نمبرآٹھ پرغورکرنے سے اندازہ ہوتاہے کہ بانی کواللہ تعالیٰ نے اخلاص وتوکل علی اللہ کاحصہٴ وافرعطافرمایاتھا،ملاحظہ ہواصل نمبرچھ”اس مدرسہ میں جب تک آمدنی کی کوئی سبیل یقینی نہیں جب تک یہ مدرسہ ان شاء اللہ بشرطِ توجہ الی اللہ اسی طرح چلے گا، اوراگرکوئی آمدنی ایسی یقینی حاصل ہوگئی جیسے جاگیریاکارخانہٴ تجارت یاکسی امیرمحکم القول کاوعدہ توپھریوں نظرآتاہے کہ یہ خوف ورجا جوسرمایہٴ رجوع الی اللہ ہے ہاتھ سے جاتارہے گااورامدادِ غیبی موقوف ہوجائے گی اورکارکنوں میں باہم نزاع پیداہوجائے گا،القصہ آمدنی اورتعمیروغیرہ میں ایک نوع کی بے سروسامانی ملحوظ رہے“۔

اوراصل نمبرآٹھ بھی حرف بحرف نقل کی جاتی ہے”تامقدورایسے لوگوں کاچندہ زیادہ موجب برکت معلوم ہوتاہے جن کواپنے چندہ سے امیدِ ناموری نہ ہو بالجملہ حسنِ نیتِ اہلِ چندہ زیادہ پائیداری کاسامان معلوم ہوتاہے“۔

اخلاص کایہ سلسلہ دارالعلوم دیوبندکے ماحول میں ہرزمانہ کے اندرجاری رہاہے اورمستقبل میں بھی ان شاء اللہ جاری رہے گا،حضرت مولانامرغوب الرحمن صاحب رحمہ اللہ سابق مہتمم دارالعلوم دیوبند (متوفّٰی۱۴۳۲ھ)رحمہ اللہ کااپنے دورِ اہتمام میں مدرسہ سے کسی قسم کی رعایت وسہولت قبول نہ کرنااورنہ ہی اپنے فائق فرزندیاخاندان کے دوسرے فرد کومدرسہ میں لگانااس سلسلہٴ اخلاص کی بقاء کی واضح دلیل ہے۔

۲:-محنت وسادگی

علم کی ترقی کے لیے مستقل محنت کی ضرورت ہوتی ہے،اورچونکہ محنت وسادگی میں چولی دامن کاساتھ ہے اس لیے محنت وہی شخص کرسکتاہے جس کی زندگی میں سادگی ہو،جولوگ سہولت پسندی اورپرتعیش زندگی کے عادی ہوتے ہیں، ان سے علمی میدان میں محنت نہیں ہوسکتی،انھیں تو ہمیشہ عمدہ سے عمدہ لباس،پرتکلف دعوتوں اورمہنگے ہوٹلوں کے کھانوں،غیرضروری اسفار،عمدہ اور جدیدترین سواریوں اورنئی نئی سہولتوں پرمشتمل رہائشگاہوں کی فکردامن گیررہتی ہے،علمی کاموں کے لیے نہ ان کے پاس فرصت ہوتی ہے اورنہ ہی محنت ومشقت برداشت کرنے کاحوصلہ ۔

اکابروفرزندانِ دارالعلوم دیوبندکی گُھٹّی میں محنت وسادگی دونوں شامل ہیں،بانیِ دارالعلوم حجة الاسلام حضرت مولانامحمدقاسم نانوتوی قدس سرہ سے لے کرآج تک علمائے دارالعلوم کی زندگیاں محنت وسادگی سے بھرپور،تکلفات سے دوراورخواہشات کی پیروی سے خالی نظرآتی ہیں،ان کی دنیوی تمنائیں قلیل اوراخروی مقاصدجلیل ہواکرتے ہیں؛اس لیے انھوں نے تدریس وتعلیم،تصنیف وتالیف،دعوت وتبلیغ،بدعات وفتن کی سرکوبی اورہردینی میدان میں ایسے کارنامے انجام دیے ہیں کہ ان کی بلندیوں کودیکھ کرعقل دنگ رہ جاتی ہے،ان ہی کارناموں اورکامرانیوں نے دارالعلوم کی معنویت کوبلندوبالاکردیاہے۔

اس کاخِ فقیری کے آگے شاہوں کے محل جھک جاتے ہیں

۳:-بااختیارشورائی نظام

دارالعلوم دیوبندکانظم ونسق شروع ہی سے ”وَأَمْرُھُمْ شُوْریٰ بَیْنَھُمْ“کے اصول پرقائم ہے،اہل علم وتقویٰ پرمشتمل ایک بااختیارمجلس شوریٰ عزل ونصب اوردیگرتمام اہم امورکی نگرانی کرتی ہے اوراس کومکمل اختیاروبالادستی حاصل ہے،”تاریخ دارالعلوم دیوبند“کی تصریح کے مطابق ابتدائی مجلس شوریٰ سات ارکان پرمشتمل تھی، جن میں سرفہرست حضرت مولانامحمدقاسم نانوتوی علیہ الرحمة اورحضرت حاجی عابدحسین صاحب علیہ الرحمة کے نامِ نامی ہیں؛بلکہ حضرت الاستاذ مولاناریاست علی صاحب بجنوری دامت برکاتہم نے اپنی مایہٴ نازکتاب”شوریٰ کی شرعی حیثیت“میں یہ ثابت کردیاہے کہ مجلس شوریٰ کی تشکیل قیامِ دارالعلوم سے بھی پہلے ہوچکی تھی۔

اس بااختیارمجلس شوریٰ کی برکت سے دارالعلوم اقرباء پروری،نامناسب یاغیرضروری تقرریوں اور دیگرفتن سے محفوظ ہے،اوردن بہ دن ترقی کی طرف گامزن ہے،جن اداروں میں شورائیت نہیں یابرائے نام ہے، وہ ادارے ترقی کے بجائے تنزل کی طرف سفرکرتے ہیں اوران کی کارکردگی کمزورہوکرآخرکارختم ہوجاتی ہے۔

اس کے علاوہ اس سفرمیں دارالعلوم دیوبندکے نظام سے متعلق ایک قابل صدتحسین نیا معمول میرے علم میں آیاجس نے مجھے بے حدمتأثرکردیا،اوروہ یہ کہ سابق مہتمم حضرت مولانا مرغوب الرحمن صاحب رحمہ اللہ (متوفّٰی۱۴۳۲ھ )نے اقرباپروری کے سدباب کے لیے اپنے دورِاہتمام کے آخری سالوں میں یہ معمول بنایاتھاکہ دارالعلوم کے کسی استاذمحترم کے کسی فرزند ارجمند کو (جب تک کہ ان کے والددارالعلوم میں تدریس سے وابستہ ہوں) دارالعلوم کامدرس نہیں بنایاجائے گا،اس معمول سے متعلق احقرنے اطمینان حاصل کرنے کے لیے حضرت مولانامفتی ابوالقاسم صاحب نعمانی موجودہ مہتمم دارالعلوم دیوبندسے ان کے دونوں نائبین کی موجودگی میں دفترِ اہتمام کے اندرجب دریافت کیاتوانھوں نے تصدیق کرتے ہوئے فرمایاکہ یہ معمول حضرت مولانا مرغوب الرحمن صاحب کے زمانے سے جاری ہے اورچونکہ سب کواس معمول کے بارے میں علم ہے اوراس کے مطابق تعامل برقرارہے؛ اس لیے اس کوچیلنج بھی نہیں کیاجاتا،ہاں اتنی بات ضرور ہے کہ اس تعامل کوباضابطہ اورتحریری طورپردستورکاحصہ نہیں بنایاگیاہے۔

بہرصورت! دارالعلوم کی بے نظیرترقی میں احقرکی نظرمیں (غورکرنے کے بعد)بنیادی کردارمذکورہ تین اسباب نے اداکیاہے،اللہ تعالیٰ دارالعلوم اوراس کی دینی خدمات کاسلسلہ تا روز قیامت جاری وساری رکھیں،آمین۔

دیگرمدارس کے ذمہ داران کوبھی دارالعلوم دیوبندکی پیروی کرنی چاہیے

دارالعلوم دیوبندکوپوری دنیامیں اوربالخصوص برصغیرمیں پھیلے ہوئے دینی مدارس کے ذمہ داران، اساتذہٴ کرام اورطلبہ اپنی مادرِ علمی تصورکرتے ہیں اوراس سے بے پناہ محبت کاظہارکرتے ہیں، لہٰذاان کوچاہیے کہ دارالعلوم سے ان کی محبت صرف زبان تک محدودنہ ہو؛بلکہ اکابرینِ دارالعلوم کے نقش قدم پرچلنے اوران کے طریقہٴ کار اورقائم کردہ اصولوں کی پیروی کو اپنا شعار بنالیں، اخلاص وتقویٰ،محنت وسادگی،بااختیارشورائی نظام قائم کرنے اورصلاحیت وصالحیت کی بنیادپرتقرریوں اورترقیوں کااہتمام فرمالیں،سہولت پسندی،نام ونمود، غیرضروری مصروفیات اوربالخصوص اقرباپروری سے اجتناب فرمالیں؛اس لیے کہ اس صورت میں دینی ادارے ترقی کے بجائے تنزل کی طرف سفرشروع کردیتے ہیں اورلوگوں کااعتمادآہستہ آہستہ ختم ہونے لگتا ہے، اورذمہ داران کویہ بات بھی ہمیشہ ذہن میں رکھنی چاہیے کہ یہ مدارس کسی کی ذاتی ملکیت نہیں؛ بلکہ عام مسلمانوں کی امانت ہیں،جن کی حفاظت کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ نے ان پرعائدکردی ہے، اور قیامت کے دن اس امانت کے ہرہرپہلوسے متعلق ذمہ داران حضرات کوجواب دیناہوگا۔

احقرکے پاس صرف پندرہ دن کاویزاتھا،ایسامحسوس ہورہاتھاکہ یہ پندرہ دن چندلمحات میں گزرگئے اوربروزِمنگل ۲۰/۷/۱۴۳۵ھ مطابق۲۰/۵/۲۰۱۴ء اس دعاکے ساتھ پاکستان واپسی ہوئی کہ اے اللہ ! صحت وعافیت کے ساتھ باربارمادرعلمی اوروہاں کے بزرگوں کی زیارت کاموقع عنایت فرماتے رہیے۔(آمین)

مراامیدوصالِ توزندہ می دارد                                      وگرنہ ہر دمم ازہجرِتُست بیم ہلاک

—————————————-

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ10، جلد: 99 ‏، ذی الحجہ1436 ہجری مطابق اکتوبر 2015ء

Related Posts