انقلابِ ماہیت – اسلامی نقطہٴ نظر

از:مفتی اشتیاق احمد قاسمی، مدرس دارالعلوم دیوبند

دنیا مظہرِ انقلاب ہے، تغیر وتبدل میں دنیا کی بقاء وفنا مضمر ہے، مناطقہ کے یہاں بھی دنیا کے حادث ہونے کی دلیل اس کا متغیر ہونا ہے۔ تغیر وتبدل کے لیے ”انقلاب“ کے ساتھ ”استحالہ“ کا لفظ بھی بولا جاتا ہے، ”معجم لغة الفقہاء“ میں”استحالہ“ کی تعریف اس طرح کی گئی ہے: تَغَیُّرُ مَاہِیَّةِ الشَّيءِ تَغیُّرًا لاَ یَقْبَلُ الاعَادَةَ․ (کسی چیز کی حقیقت کا اس طرح بدل جانا کہ وہ پہلی حالت کی طرف لوٹ نہ سکے) اور ”انقلاب“ کی تعریف اس طرح کی گئی ہے: تَحوُّلُ ماہیہِ الشيء الی ماہیةٍ أخری․ (کسی چیز کی حقیقت کا دوسری حقیقت میں بدل جانا)

ان دونوں میں پہلی تعبیر زیادہ واضح ہے، اس کا حاصل یہ ہے کہ شئی غیر شئی ہوجائے اور اس حد تک پہنچ جائے کہ وہ اپنی پہلی حالت کی طرف لوٹ نہ سکے، اگر وہ اپنی پہلی حالت کی طرف لوٹنے کی صلاحیت رکھتی ہے توانقلاب واستحالہ تسلیم نہیں کیا جاسکتا۔

انقلابِ ماہیت ممکن ہے، محال نہیں

انقلابِ ماہیت ممکن اور وقوعی ہے، یہی بات قرین شرع وخرد ہے، جو لوگ انقلابِ ماہیت کے محال ہونے کی رائے رکھتے ہیں، ان کی رائے میں ضعف ہے، فقہائے کرام نے ان کا اعتبار نہیں کیا ہے، احناف کا مختار ومفتی بہ مذہب یہی لکھا ہے کہ انقلاب ممکن ہے، اکثر مشائخ اسی کے قائل ہیں (طحطاوی علی المراقی: ص/۸۶، دمشق) علامہ شامی کے نزدیک دلائل کی رو سے یہی بات ثبوت تک پہنچتی ہے:

”وَالظَّاھِرُ أنَّ مَذْھَبَنَا ثُبُوْتُ اِنْقِلاَبِ الْحَقَائِقِ بِدَلیلٍ مَا ذَکَرُوْہُ فِي انْقِلاَبِ عَیْنِ النِّجَاسَةِ کَاِنْقِلاَبِ الْخَمْرِ خَلًّا وَالدَّمِ مِسْکاً وَنَحْوِ ذٰلِکَ وَاللہ اعلم․ (رد المحتار: ۱/۲۳۹، رشیدیہ، بحر، فتح القدیر)

ترجمہ: اور ظاہرسی بات ہے کہ ہمارا مسلک انقلابِ ماہیات کے ثبوت کا ہے، اس دلیل کی وجہ سے جو فقہائے کرام نے عین نجات کے بدلنے میں ذکر فرمائی ہے، جیسے شراب کا سرکہ بن جانا اور خون کا مشک بن جانا اور اس جیسی دوسری چیزیں(رد المحتار) ․․․․ تو ہم نے سمجھ لیا کہ عین کا بدلنا اس وصف کے ختم ہوجانے کے تابع ہے جو اس (عین) پر مرتب ہوتا ہے۔

حضرت الاستاذ مفتی نظام الدین صاحب رحمة اللہ علیہ نے انقلابِ ماہیت کو اپنے الفاظ میں اس طرح تعبیر فرمایا ہے:

”قلبِ ماہیت یہ ہے کہ سابق حقیقت معدوم ہوکر نئی حقیقت ونئی ماہیت بن جائے، نہ پہلی حقیقت وماہیت باقی رہے، نہ اس کا نام باقی رہے، نہ اس کی صورت وکیفیت باقی رہے، نہ اس کے خواص وآثار وامتیازات باقی رہیں؛ بلکہ سب چیزیں نئی ہوجائیں، نام بھی دوسرا، صورت بھی دوسری، آثار وخواص بھی دوسرے، اثرات و علامات اور امتیازات بھی دوسرے پیدا ہوجائیں، جیسے: شراب سے سرکہ بنالیا جائے۔“ (منتخبات نظام الفتاویٰ: ۱/۲۶، ۲۷، اسلامک فقہ اکیڈمی دہلی)

انقلابِ ماہیت کی تین متفق علیہ مثالیں

ذیل میں انقلابِ ماہیت کی تین ایسی مثالیں پیش کی جارہی ہیں جن پر فقہائے کرام متفق ہیں، اس سے اصل مضمون کے سمجھنے میں مدد ملے گی:

(۱) تخلیقِ انسانی کے مراحل قرآنِ کریم میں بیان ہوے ہیں (مومنون:۱۲،۱۴) پہلا مرحلہ ”جوہرِغذا“ (مٹی کا خلاصہ) کاہے، جس سے خون بنتا ہے، مٹی کا خلاصہ پاک ہے؛ لیکن خون بننے کے بعد وہ ناپاک ہوگیا، پھر خون سے ”نطفہ“ اور نطفہ سے ”علقہ“ بنایہ دونوں ناپاک ہیں، پھر جب علقہ ”مضغہ“ (بوٹی) بنا تو وہ پاک ہوگیا اور اخیر مرحلہ تک پاک رہا یعنی مضغہ سے ”عظام“ (ہڈی) بنا اوراس پر ”گوشت“ چڑھا پھر ”انسان“ بن کر تیار ہوگیا۔ (ردالمحتار:۱/۲۳۹، رشیدیہ)

(۲) زمین پر نجاست گرتی ہے تو اس پر ناپاکی کا حکم لگتا ہے؛ لیکن اثرنجاست کے ختم ہوجانے کے بعد زمین پاک ہوجاتی ہے، اس پر تیمم کرنا جائز ہوجاتا ہے، تیمم سے انسان حکماً پاک ہوجاتا ہے۔

(۳) پھلوں کارس پاک ہے؛ مگرشراب بننے کے بعد ناپاک ہوجاتاہے، پھر سرکہ بننے کے بعد اس پر پاکی کا حکم لگ جاتاہے۔

وَالعصیرُ طاھرٌ فَیَصِیْرُ خَمْرًا فینجُسُ ویصیرُ خلاًّ فَیَطْھُرُ․(ردالمحتار:۱/۲۳۹، رشیدیہ)

ماہیت کب بدلتی ہے؟

انقلاب کے تحقق اور اس کی وجہ سے حکم لگانے کے لیے ضروری ہے کہ بدلنے والی چیز کے اجزائے اصلیہ کی تحقیق کی جائے اور ان اجزاء میں بھی اس جز کی تعیین کی جائے جس کی وجہ سے حلت یا حرمت کا حکم اس پر لگایاجاتاہے، اس جزء کے انقلاب کے بعد اس پر دوسرا حکم لگے گا، یہ بات نہایت ہی غور وفکر کی متقاضی ہے۔

اب اگر کلی طور پر ماہیت تبدیل ہوگئی تو اس میں تو سارے فقہائے کرام کا اتفاق ہے کہ حکم شرعی بدل جائے گا؛ لیکن جزوی تبدیلی کے وقت حکم بدلتا ہے یا نہیں؛ اس میں فقہائے کرام کا اختلاف ہے، احناف کے علاوہ تقریباً سارے فقہاء جزوی تبدیلی سے حکم کی تبدیلی کے قائل نہیں ہیں، احناف کے یہاں بنیادی جزء کی تبدیلی ضروری ہے، جس سے اس شئی کی شناخت ہوتی ہے اس کے بعد بعض اوصاف کا باقی رہنا مضر نہیں ہے۔ حضرت مفتی کفایت اللہ صاحب فرماتے ہیں:

”حقیقت منقلبہ کی بعض کیفیاتِ غیرمختصہ کا باقی رہنا مانع انقلاب نہیں“۔

مثلاً: (۱) شراب جب سرکہ بنتی ہے تو اس میں خمریت (نشہ کی صلاحیت) بدل جاتی ہے اور دوسرے خواص واثرات بھی بدلتے ہیں؛ لیکن رقت باقی رہتی ہے؛ شریعت کو حلت وحرمت والے وصف سے ہی بحث کرنی ہے؛ اس لیے صرف ایک وصف کی تبدیلی سے ہی حلت کا حکم لگادیتی ہے؛ اس لیے کہ حرمت کا حکم لگانے کے لیے بھی صرف ایک ہی وصف کو علت قرار دے کر حرام ہونے کا حکم لگاتی ہے۔

حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی مدظلہ نے ناپاک تیل یا چربی سے بنے صابن میں عموم بلویٰ کو علت بنایا ہے، نہ کہ انقلابِ ماہیت کو؛ اس لیے کہ صابن میں دُسومت باقی رہتی ہے مولانا فرماتے ہیں:

(۲) ”صابن میں تیل اور چربی اگر مل جائے تو تیل اور چربی کااثر باقی رہتا ہے، غالباً اسی سے دسومت پیداہوتی ہے؛ اس لیے بہ ظاہر یہ کہنادشوار ہے کہ صابن میں تیل اور چربی کا وجود معدوم ہوچکا ہے؛ اسی لیے فقہائے کرام نے جہاں بھی تحویلِ حقیقت کے ذیل میں ناپاک تیل اور چربی سے بنے ہوئے صابن کاذکر کیا ہے، وہاں یہ بات بھی کہی ہے: انَّہ یُفْتیٰ بہ لِلْبَلْویٰ“ (ردالمحتار: ۱/۱۹، البحرالرائق:۱/۴۹۴) گویا ابتلائے عام کی وجہ سے صابن میں یہ بات مان لی گئی ہے کہ انقلابِ ماہیت کی وجہ سے اب اس تیل اور چربی کی نجاست کا حکم باقی نہیں رہا“ (جدید فقہی تحقیقات: ۱۰/۱۱۱، مکتبہ نعیمیہ دیوبند)

حضرت مولانا خلیل احمد صاحب سہارنپوری اور حضرت مفتی کفایت اللہ صاحب کے فتاویٰ کو بہ نظر غائر دیکھنے کے بعد اندازہ ہوتا ہے کہ ناپاک چربی والے صابن میں حضرت مفتی کفایت اللہ صاحب انقلابِ ماہیت کو تسلیم کرکے صابن کے استعمال کو جائز کہتے ہیں (کفایت المفتی: ۲/۳۳۴، چوتھا باب) اور حضرت مولانا سہارنپوری انقلابِ ماہیت کو فی الفور تسلیم نہیں کرتے (فتاویٰ مظاہرعلوم:۱/۲۲) بعد مرورِ زمان جب کہ صابن خشک ہوجائے اور اس کی شوریت (کھاراپن) اس کے دُہن (تیل) کو منقلبُ الحقیقة کردے (ایضاً) تو اس کو طاہر کہتے ہیں اور اس کے استعمال میں مضائقہ نہیں سمجھتے۔

انقلابِ ماہیت کی کلی اور جزوی صورتیں

انقلابِ ماہیت میں کبھی تو سارے اجزاء کا مکمل طور پر انقلاب ہوجاتا ہے اور کبھی بعض اجزاء کا انقلاب ہوتا ہے اور بعض کا نہیں، مکمل طورپر انقلاب کی مثالیں راقم الحروف کے نزدیک درج ذیل ہیں:

۱- گوبر یا گوہ جل کر راکھ ہوجائے۔(حلبی کبیر:ص/۱۸۸)

۲-حیوان نمک کی کان میں گر کرنمک بن جائے۔ (ایضاً)

۳- نجاست زمین میں مدتوں دفن رہنے کے بعد مٹی ہوجائے۔ (مجمع الانہر:۱/۶۱)

اور جزوی انقلاب کی مثالیں درج ذیل ہیں:

۱- شراب سرکہ ہوجائے تواس میں نشہ کی استعداد ختم ہوجاتی ہے؛ البتہ رقت وغیرہ باقی رہتی ہے۔ (کفایت المفتی:۲/۳۳۴)

۲- پھلوں کاجوس شراب ہوجائے تو اس میں نشہ کی استعداد کا اضافہ ہوجاتا ہے۔ بقیہ بعض حقیقتیں باقی رہتی ہیں۔

۳- ناپاک تیل یا چربی صابن بن جائے تواس میں دُہنیت فی الفور باقی رہتی ہے؛ البتہ وہ مدتِ دراز کے بعد ختم ہوجاتی ہے۔ (فتاویٰ مظاہر علوم:۱/۲۱)

۴- خون مشک ہوجائے تو رنگ باقی رہتا ہے، بقیہ اوصاف بدل جاتے ہیں۔

۵- علقہ جب مضغہ بن جائے تو اس میں سابقہ لزوجت (لیس دار ہونا) باقی رہتی ہے۔

۶- لید یا گوبر یا کوئی گندگی کنویں کی دیوار سے لگ کر مدتِ دراز کے بعد کالی مٹی (کائی) ہوجائے تو اس میں بھی رنگ باقی رہتا ہے۔ (ردالمحتار:۱/۲۳۹، رشیدیہ)

انقلابِ ماہیت میں مسالکِ فقہاء

فقہائے اربعہ کا مسلک یہ ہے کہ اگرانقلابِ ماہیت کلی طور پر ہوجائے تو حکم شرعی میں تبدیلی ہوگی؛ البتہ جزوی تبدیلی اگر ہوجائے تواس میں احناف کے نزدیک حکم شرعی میں تبدیلی ہوگی، رد المحتار میں ہے:

”․․․ لأنَّ الشَّرْعَ رَتَّبَ وَصْفَ النِّجَاسَةِ عَلٰی تِلْکَ الْحَقِیْقَةِ وَتَنْتَفِی الْحَقِیْقَةُ باِنْتِفَاءِ بَعْضِ أجْزَاءِ مَفْھُوْمِھَا، فَکَیْفَ بِالْکُلِّ فَانَّ الْمِلْحَ غَیْرُ الْعَظْمِ وَاللَّحْمِ، فاذَا صَارَ مِلْحًا تَرَتَّبَ حُکْمُ الْمِلحِ“․ (رادالمحتار:۱/۲۳۹، رشیدیہ)

ترجمہ: شریعت نے نجاست کا حکم اس ماہیت پر لگایا ہے اور ماہیت بعض اجزاء کے معدوم ہونے سے معدوم ہوجاتی ہے، تو جب سارے اجزاء ہی معدوم ہوجائیں تو حکم کیوں نہیں مرتب ہوگا، نمک کی حقیقت ہڈی اور گوشت کے علاوہ ہے، تو جب جانور نمک ہوگیا تو اس پر نمک کا حکم لگ جائے گا۔

مالکیہ اس مسئلہ میں احناف کے ساتھ معلوم ہوتے ہیں۔ (شرح کبیر:۱/۵۰ -تا-۵۸)

شوافع اورحنابلہ جزوی انقلابِ ماہیت سے حکم شرعی کے بدلنے کے قائل نہیں ہیں۔ (دیکھیے: روضة الطالبین:۱/۱۳۷، الممتع شرح المقنع: ۱/۲۶، المغنی:۱/۶۵)

انقلابِ ماہیت کے اسباب

متعدد چیزیں ہیں جن کی وجہ سے ماہیت بدلتی ہے، مثلاً جلنا، دھوپ لگنا، کوئی چیز ملانا، مدتوں ایک حال میں رہنا اور زمین میں دفن ہونا وغیرہ۔

پہلا سبب

جلنا، جل کر مکمل طور پر حقیقت بدل جاتی ہے، جلنے والی کوئی بھی چیز ہو اگر وہ جل کر راکھ ہوگئی تو اس پرپاک ہونے کا حکم لگ جائے گا؛ مثلاً:

(ا) گوبر یا کوئی نجاست جل کر راکھ ہوجائے۔ (امداد الفتاویٰ:۴/۱۰۱)

(ب)             ناپاک مٹی سے ہانڈی یا رکابی بنائی اوراسے آگ میں پکادیا۔ (ہندیہ:۱/۴۶)

(ج)               نجس کچی اینٹ پک گئی۔ (ایضاً)

دوسرا سبب

دھوپ لگنا، دھوپ اور ہوا لگنے سے بھی ماہیت میں تبدیلی ممکن ہے، مثلاً:

(ا) ناپاک چمڑا دھوپ سے پاک ہوجاتا ہے۔

(ب)ناپاک زمین دھوپ اور ہوا سے پاک ہوجاتی ہے۔ (بدائع:۱/۲۴۵، خانیہ:۱/۲۲)

(ج)شراب جو دھوپ میں رہ کر سرکہ بن جائے شراب میں تو تبدیل ماہیت ہوگئی (اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ کسی بھی ناپاک چیز کو محض سکھادینے سے اس کی ماہیت بدل جاتی ہے؛ بلکہ اس کا مطلب ہے کہ دھوپ کو بھی انقلابِ ماہیت میں دخل ہے)۔

تیسرا سبب

کوئی چیز مل کر انقلابِ ماہیت کی مثالیں:

(ا) ناپاک تیل یا چربی جو دیگر اشیاء کے ساتھ مل کر صابن بن جائیں اور اپنی حقیقت کھودیں۔ (ردالمحتار:۱/۵۱۹، زکریا)

(ب)یا کوئی دوسری چیز مثلاً: انسان یا کتا صابن بنائے جانے والے برتن میں گرکر صابن بن جائے۔ (طحطاوی علی المراقی: ص/۸۷، شرح منیة المصلی: ص/۱۸۸)

(ج)شراب میں نمک یا کوئی اور چیز ڈال کر سرکہ بنالیا گیا۔

کیمیاوی عمل

آج کل دواسازی اور دوسرے کیمیکل بنانے والے اکثر ایسا کرتے ہیں کہ کسی بھی چیز میں کیمیکل ملاتے ہیں اور اس چیز کے اندر پائے جانے والے آثار وخواص کو الگ الگ کرتے ہیں، یہاں سوال یہ پیداہوتا ہے کہ کیا کیمیاوی عمل سے انقلابِ ماہیت ہوجاتا ہے؟ یا نہیں ہوتا؟

اس کا جواب یہ ہے کہ کیمیاوی عمل کی دو صورتیں ہوتی ہیں: اس کی ایک صورت یہ ہوتی ہے کہ اس میں ایسا کیمیکل ڈالاجاتا ہے جس سے شئی کی سابقہ ساری حالت بدل جاتی ہے، پہلے والے آثار وخواص بالکل معدوم ہوجاتے ہیں۔ یہ صورت بہت کم اختیار کی جاتی ہے۔

”دوسری صورت“ یہ ہوتی ہے کہ شئی میں پائے جانے والے آثار وخواص میں سے مطلوبہ خواص وآثار اچھی طرح الگ ہوجاتے ہیں، پھر الگ کیے ہوے اجزاء کو مطلوبہ مقاصد حاصل کرنے کے لیے دوسری چیزوں میں ملاکر کھانے یا برتنے کی کوئی چیز بناتے ہیں، اب الگ کیے ہوئے اس جز کی قوتِ تاثیر پہلے سے کہیں زیادہ ہوجاتی ہے، اس مضمون کو حضرت نانوتوی علیہ الرحمہ نے اپنے خاص فلسفیانہ انداز میں سمجھایا ہے (دیکھئے: حجة الاسلام ۱۵۵ تا۱۶۹ اور تقریر دل پذیر ص۱۸۷، ۱۸۸) یہی دوسری صورت زیادہ تررائج ہے۔

اب یہاں شرعی سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس چیز کے پاک یا ناپاک ہونے کا پہلا حکم باقی رہے گا یا نہیں؟ اس کا مختصر جواب یہ ہے کہ پہلا حکم باقی رہے گا۔

اس لیے کہ یہاں بنیادی عمل ”تجزیہ“ یا ”ترکیب“ ہے، اقلاب یا تبدیل نہیں؛ اس لیے اگر وہ چیز حرام یا ناپاک ہے تو اس کا پہلا حکم تجزیہ کے بعد باقی رہے گا، ہاں! اگر وہ چیز پاک تھی تو دیکھیں گے کہ ملایا جانے والا کیمیکل پاک ہے یا ناپاک؟ اگر پاک ہے تو پاکی کا حکم باقی رہے گا اور ناپاک ہے تو ناپاک کی آمیزش کی وجہ سے اس پر ناپاک ہونے کا حکم لگ جائے گا۔ خلاصہ یہ ہے کہ کیمیاوی عمل میں اکثر تجزیہ ہوتا ہے؛ اس لیے سابق حکم باقی رہے گا؛ کیوں کہ سابق حالت باقی ہے۔ کیمیکل ملانے سے بواور ذائقہ اگرچہ بدل جاتے ہیں؛ مگر شئی کی حقیقت نہیں بدلتی۔

خون سے بنی چیزوں کا حکم

اس تفصیل سے خون وغیرہ کا حکم بھی واضح ہوگیا کہ اس سے بنائی جانے والی چیز ناپاک ہوں گی، معلوم ہوا ہے کہ بعض ”کافی“ وغیرہ میں خون کی ملاوٹ ہوتی ہے؛ اس لیے ملاوٹ کی تحقیق کے بعداس کا استعمال ناجائز ہوگا۔

بسکٹ میں چربی یا حرام اجزاء کی آمیزش

اگر بسکٹ میں چربی ملی ہوئی ہو تو یہ ایسا ہی ہے، جیسے: پکوان میں تیل اور گھی استعمال کیاجاتا ہے، اس کو انقلاب ہرگز نہیں کہا جاسکتا، یہ تو ترکیب اور اختلاط ہے، اس سے حکم میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی؛ اس لیے چربی کے بدستور حرام رہنے کی وجہ سے بسکٹ کھانا حرام ہوگا؛ متعدد اجزاء سے بنی ہوئی چیز میں اگر ایک چیز بھی ناپاک یا حرام ہوتو اس پر حرام ہونے کا حکم لگتا ہے، اِخْتِلَاطُ النَّجِسِ بِالطَّاھِرِ یُنَجِّسُہ، ھٰذَا ھُو الصَّحیحُ․ (حلبی کبیر:ص/۱۸۸) خنزیر کی چربی اور اس کے دیگر اجزاء کا استعمال پہلے عام نہیں تھا، اب اس کا رواج عام ہوگیاہے، مختلف اجزاء کو کیمیاوی طور پر الگ کرکے الگ الگ چیزوں میں استعمال کرتے ہیں؛ اس لیے پہلے سے زیادہ آج احتیاط کی ضرورت ہے۔

توتھ پیسٹ میں ہڈیوں کے پاؤڈر کی آمیزش

اگرتوتھ پیسٹ میں حرام جانوروں کی ہڈی یا اس کے گوشت کا پاؤڈر ملایاجائے تو یہ بھی ترکیب واختلاط ہے، انقلابِ ماہیت نہیں ہے؛ اس لیے ایسے توتھ پیسٹ کا استعمال جائز نہ ہوگا، اگرچہ ہڈی اور گوشت کا مزہ بدل گیا ہو؛ اس لیے کہ شئی کی ماہیت باریک ہوگئی ہے اور دیگر کیمیکلوں سے اس کا اصل مزہ دب گیا ہے۔

ہاں! اگر حلال جانوروں کی ہڈی کا سفوف توتھ پیسٹ میں ڈالا جائے یا بسکٹ میں ملایا جائے تو چوں کہ ہڈی ان اجزاء میں سے ہے، جن میں خون سرایت نہیں کرتا اور اس کا کھانا جائز ہے؛ اس لیے ہڈی کے حلال ہونے کی وجہ سے توتھ پیسٹ اور بسکٹ کا استعمال جائزہوگا۔

فلٹر کے بعد پیشاب کا حکم

      پیشاب بذاتِ خود نجس ہے؛ اس لیے فلٹر کے ذریعہ اگر اس کی بدبو وغیرہ نکال دی جائے تب بھی وہ پیشاب ہی رہے گا؛ اس لیے کہ یہاں پیشاب کی عینیت باقی ہے، استحالہ نہیں؛ بلکہ تجزیہ ہے۔

فلٹر کے بعد تالاب کا بندہ پانی

تالاب کا گندہ پانی بذاتِ خود ناپاک نہیں؛ بلکہ اس میں نجاست گرگئی ہے؛ اس لیے اس کو اگر فلٹر کیاجائے تو بعض معاصر اہلِ علم کے نزدیک وہ پاک ہوجائے گا، جیساکہ بعض کم پانی والے علاقوں میں ایسا کیا جاتا ہے اور فقہ اکیڈمی جدہ نے ایسے پانی کے چار مراحل میں فلٹر کیے جانے اور سابق آثار وخواص کے بدل جانے کے بعد پاک ہوجانے کا فیصلہ کیا ہے۔ (دیکھیے: پانچواں فیصلہ: فقہ اکیڈمی جدہ، بحوالہ فقہی فیصلے: ص/۲۲۶، فقہ اکیڈمی انڈیا)

ماحولیات کی درستگی کے لیے غلاظتوں کو مشین سے صاف کرنا

غلاظتوں سے پھیلنے والے تعفن کو ختم کرنے کے لیے مشینوں سے صفائی کا عمل کیا جاتا ہے، اس عمل سے انقلابِ ماہیت نہیں ہوتا، جب انقلاب نہیں ہوتا تو نجاست کا حکم باقی رہے گا، ختم نہیں ہوگا۔

چوتھا سبب

طولِ مکث (مدتوں ایک حالت میں رہنا) اس سے بھی ماہیت بدلتی ہے۔ (بدائع: ۱/۲۴۳، طحاوی: ص/۸۷، خانیہ: ۱/۲۲) اس کی مثالیں درج ذیل ہیں:

(ا) شراب کبھی طولِ مکث سے بھی سرکہ بن جاتی ہے۔

(ب)خون مشک بن جاتا ہے۔

(ج)صابن بننے کے بعد تیل اور چرپی کی دسومت شوریت کی وجہ سے ختم ہوجاتی ہے، (فتاویٰ مظاہر علوم:۱/۲۱) اس میں طولِ مکث بھی ہے اور اختلاط بھی۔

پانچواں سبب

زمین میں دفن ہونے کی وجہ سے انقلابِ ماہیت ہوتا ہے، مثلاً: نجاست مٹی میں دفن ہونے کے بعد کافی مدت کے بعد مٹی ہوجاتی ہے۔ (بدائع: ۱/۲۴۳، بیروت) یہاں طولِ مکث بھی شامل ہے۔

چھٹا سبب

قدرتی طور پر انقلابِ ماہیت کی مثالیں بھی بہت سی ہیں؛ مثلاً:

(الف) پاک غذا سے خون بننا۔

(ب) خون کا نطفہ بننا۔

(ج) علقہ کامضغہ بننا۔

(د) عصائے موسیٰ کا سانپ بننا۔ (ردالمحتار:۱/۳۴، رشیدیہ) معجزہ اور سحر میں یہی فرق ہے کہ سحر میں اشیاء کی حقیقت تبدیل نہیں ہوتی اور معجزہ میں تبدیل ہوجاتی ہے۔ (تفسیر کبیر: طٰہ:۲۰)

تبدیل ہونے والے عناصر

حقیقت وماہیت کی تبدیلی کب تسلیم کی جائے گی؟ اس کا مختصر جواب یہ ہے کہ اگر نقلابِ کلی متحقق ہوجائے تو ماہیت کی تبدیلی مسلم ہوگی اور شرعی حکم بھی بدل جائے گا؛ لیکن انقلاب جزوی طورپر پایا جاتا ہو تو ایسے بنیادی اجزاء کے بدلنے پر حکم لگے گا، جس پر حکم شرعی دائرہے، مثال شراب اور سرکہ کی دی جاچکی ہے۔

دوسری صورت میں اشیاء کے خواص و آثار اور بنیادی اجزائے ترکیبی معلوم کرنے کے لیے ماہرین سے رائے لینا، اس پر غور کرنا پھر اطمینان کی صورت میں اس پر حکم لگانا ضروری ہے؛ کیوں کہ ہر شخص کے لیے ہر چیز کے خواص و آثار کا علم مشکل ہے۔

نام بدلنا کافی نہیں

محض نام بدلنا کافی نہیں؛ اس لیے کہ انقلابِ ماہیت کے بعد ہی نام بدلنا معتبر ہے، درج ذیل صورتوں میں نام بدلنے کے باوجود حکم نہیں بدلا ہے؛ اس لیے قلبِ ماہیت کے بغیر ہی نام بدلا ہے:

(الف) ناپاک دودھ پنیر یا ٹوفی یابسکٹ بن جائے۔

(ب)ناپاک گیہوں آٹا ہوجائے۔

(ج)ناپاک آٹا روٹی ہوجائے۔

(د) پیشاب کی شوریت سے نمک تیار کرلیا جائے۔ (فتاویٰ مظاہر علوم:۱/۵،۹)

(ھ)خنزیر کے بال کا برش بن جائے۔ (محمودیہ:۱۱/۲۹۱)

(و) ناپاک انگور جوس بن جائے وغیرہ۔

صورت وہیئت بدلنا کافی نہیں

صورت وہیئت بدلنابھی کافی نہیں ہے؛ اس لیے کہ کیمیاوی تجزیہ میں صورت وہیئت بدل جاتی ہے؛ مگر ماہیت نہیں بدلتی۔

رنگ، بو اور مزہ کی تبدیلی

پانی اور اس طرح کی سیال چیزوں میں رنگ، بو اور مزہ کی تبدیلی معتبر ہے، ہر چیز میں محض انھیں چیزوں کی تبدیلی کو معیار نہیں بنایا جاسکتا ہے؛ اس لیے کہ ہر چیز کی خاصیت الگ ہوتی ہے۔

فقہائے احناف کے یہاں پاکی کا حکم لگانے میں زیادہ احتیاط

فقہائے احناف نے طہارت وحلت کے مقابلہ میں حرمت ونجاست کا زیادہ خیال کیا ہے؛ چناں چہ حلال چیز کے حرام ہونے اور پاک کے ناپاک ہونے میں محض ایک وصف کے انقلاب کو کافی سمجھا گیا ہے، ایک وصف کے بدل جانے سے اور اس کے ناپاک ہونے سے ناپاک ہونے کا حکم لگایاجاتا ہے اور ناپاک وحرام کو پاک اور حلال قرار دینے میں سارے اجزاء کے حلال اور پاک اجزاء سے بدل جانے کو ضروری قرار دیا جاتاہے، اس کے بغیر انقلاب متحقق نہیں ہوتا، یہی موقف راجح، مختار اور مفتی بہ ہے۔ (تفصیل کے لیے دیکھیے: البحرالرائق:۱/۳۹۴)

اگر پکائی جانے والی چیز میں ناپاک چیز مل جائے

اگرپکائی جانے والی چیز میں کوئی ناپاک چیز اس طرح مل جائے کہ اس کا جدا کرنا ممکن نہ ہو تو اس کی وجہ سے پوری چیز ناپاک ہوجائے گی؛ خواہ وہ ناپاک چیز غلطی سے گرگئی ہو یا کسی نے اس میں قصداً اس کو ڈالا ہو دونوں کا حکم ایک ہے، ردالمحتار میں ہے:

”وَلَوْ صُبَّتِ الخمرُ فِيْ قِدْرٍ فِیْھَا لَحْمٌ انْ کَانَ قَبْلَ الْغلَیَانِ یَطْھُرُ اللَّحْمُ بالغَسْلِ ثلاثاً، وَانْ بَعْدَہ فلا․․․․ وفي الخانیة: اذا صبَّ الطَّبَّاخُ في القدرِ مکانَ الخَلِّ خَمْرًا غَلَطًا فَالْکُلُّ نَجِسٌ لَایَطْھُرُ أبدًا․․․ وَکذا الْحِنْطَةُ اذَا طُبِخَتْ فِی الْخَمْرِ لَاتَطْھُرُ أبدًا“ (ردالمحتار:۱/۲۴، رشیدیہ)

ترجمہ: اگر ایسی ہانڈی جس میں گوشت تھا، شراب ڈال دی گئی تو اگر جوش مارنے سے پہلے (ڈالی گئی) ہے تو گوشت تین بار دھونے سے پاک ہوجائے گا اور اگر جوش مارنے کے بعد (شراب ڈالی گئی) ہے تو گوشت پاک نہیں ہوگا․․․ اور فتاویٰ خانیہ میں ہے کہ جب باورچی ہانڈی میں غلطی سے سرکہ کی جگہ شراب ڈال دے تو سارا کھانا ناپاک ہوجائے گا، کبھی پاک نہیں ہوگا․․․ اور یہی حکم اس وقت بھی ہے جب کہ گیہوں شراب میں پکالی جائے تو گیہوں کبھی پاک نہیں ہوگا۔

اس سلسلے میں حضرت مفتی کفایت اللہ صاحب فرماتے ہیں:

”بعض آثار کا زائل ہوجانا یا بوجہِ قلت، آثار کامحسوس نہ ہونا موجبِ انقلاب نہیں، جیسا کہ فقہاء نے تصریح کی ہے کہ اگرآٹے میں کچھ شراب ملاکر گوندھ لیاجائے اور روٹی پکالی جائے تو وہ روٹی ناپاک ہے، یا گھڑے دو گھڑے پانی میں تولہ دو تولہ شراب یا پیشاب مل جائے تو وہ پانی ناپاک ہے؛ حالاں کہ روٹی یا پانی میں اس قلیل المقدار شراب کا کوئی اثر محسوس نہ ہوگا؛ لیکن چوں کہ شراب نے ان صورتوں میں فی نفسہ اپنی حقیقت نہیں چھوڑی ہے؛ اس لیے ناپاکی کا حکم باقی ہے اور محسوس نہ ہونا بوجہِ قلتِ اجزاء کے ہے؛ چوں کہ شراب کے اجزاء کم تھے اور آٹے کے زیادہ؛ اسی لیے وہ روٹی میں محسوس نہیں، پس یہ اختلاط ہے نہ کہ انقلاب“۔ (کفایة المفتی:۲/۲۸۳-۲۸۴، بدائع الصنائع:۱/۷۸)

انقلاب اوراستہلاک میں فرق

مذکورہ بالا مسئلے کو سمجھنے کے لیے انقلاب اور استہلاک میں فرق سمجھا ضروری ہے، وہ یہ ہے کہ ”انقلاب“ میں ایک چیز دوسری چیز ہوجاتی ہے اور ”استہلاک“ چوں کہ اختلاط کی آخری شکل ہے؛ اس لیے ایک چیز دوسری چیز میں مل کر اپنی پہچان ختم کرلیتی ہے، قلیل مقدار ہونے کی وجہ سے وہ دوسری چیز میں اس طرح رَل مل جاتی ہے کہ اس کا جدا کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔ ”الموسوعة الفقہیہ“ میں استہلاک کی تعریف اس طرح کی گئی ہے:

ھُوَ تَصَیُّرُ الشَّيْءِ ھَالِکاً أوْ کَالْھَالِکِ أَوِاخْتِلَاطُہ بِغَیْرِہ بِحَیْثُ لَایُمْکِنُ افْرَادُہ بِالتَّصَرُّفِ کَا اسْتِھْلاکِ السَمَنِ فِي الْخُبْزِ․ (۴/۱۲۹، کویت)

ترجمہ: استہلاک کسی چیز کا ہلاک ہونا یا ہلاک ہونے والے کی طرح ہوجانا ہے یا اپنے غیر میں اس طرح رلنا ملنا ہے کہ کسی طرح اس کا الگ کرنا ممکن نہ ہو، جیسے: گھی کا روٹی میں رل مل جانا۔ (اسی طرح شکر کا دودھ میں مل جانا وغیرہ)

الکحل کی تحقیق

الکحل (اسپرٹ) یہ انگریزی زبان کا لفظ ہے، یہ عربی کے لفظ ”الغَوْلُ“ (درد، نشہ) سے بنا ہے، قرآن مجید میں ہے: لافیھا غَوْلٌ ولاھم عنھا یُنْزَفُون (صافات:۴۷)

ترجمہ: (جنت کی شراب میں) نہ تو درد سر ہوگا اور نہ اس سے عقل میں فتور آئے گا۔

الکحل ایک سیال نشہ آور، بیرنگ، پانی سے ہلکا، بھاپ بن کر اڑجانے والا مادّہ ہے، یہ گیس کی تین قسموں سے بنتا ہے، یعنی کاربن، ہائیڈروجن اور آکسیجن سے مل کر تیار ہوتا ہے، اس کی علامت یہ ہے کہ اس میں ایک قسم کی بو ہوتی ہے اور ذائقہ آتشی ہوتا ہے۔

الکحل کی دو قسمیں ہیں: میتھائیل (Methyl) اور ایتھائیل (Ethyl) ایتھائیل کا استعمال زیادہ ہوتا ہے، مثلاً ہومیوپیتھک دواؤں میں کھانسی کے شربت میں، جسم کو سُن کرنے میں، پینٹ میں اور صابن وغیرہ میں اس کا استعمال عام ہے۔ یہ ”مولاسیس“ سے بنایا جاتا ہے۔ گنے کے رَس سے شکر کے دانے بنانے کے بعد جو مادہ بچ جاتا ہے، اس میں تیس فی صد شکر ہوتی ہے جو دانوں میں تبدیل نہیں ہوسکتی؛ اسی کو ”مولاسیس“ کہتے ہیں۔ (جدید فقہی تحقیقات: ۱۰/۴۶۔ تلخیص)

حضرت مفتی محمد تقی عثمانی لکھتے ہیں:

”میرا خیال ہے کہ الکحل کی زیادہ تر قسمیں انگوری شراب سے نہیں بنائی جاتیں؛ بلکہ دوسری چیزوں سے بنائی جاتی ہیں، مثلاً: شہد، حبوب، جو، انناس، گندھک اور دوسرے پھلوں کے رَس سے الکحل زیادہ تر حاصل کیا جاتا ہے، عموم بلویٰ کی وجہ سے شیخین کے مسلک پر عمل کرنے کی گنجائش ہے“۔ (مستفاد تکملہ فتح الملہم:۹/۴۹۸، فیصل دیوبند)

معلوم ہوا کہ شرعاً گنجائش ہے؛ مگر جن چیزوں اور جن دواؤں میں الکحل کی آمیزش نہیں ہوتی ان کے استعمال کو ترجیح دینا ہی بہتر ہے۔

———————————–

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ9 ، جلد: 99 ‏، ذی قعدہ 1436 ہجری مطابق  ستمبر 2015ء

Related Posts