مسلم دشمنی میں ملک کا عظیم اقتصادی نقصان

از: ڈاکٹر ایم اجمل فاروقی، ۱۵-گاندھی روڈ، دہرہ دون

ہمارے ملک کے متعصب حکمرانوں، انتظامیہ، میڈیا کی بڑی تعداد نے مسلم دشمنی کو قومی ضرورت یا مجبوری کے طور پر فروغ دینا ہی ”وطن دوستی“ سمجھا ہے۔ اور سیدھے سادے عوام کی اکثریت کو اسی ملک دشمن ذہنیت میں مبتلاکرنا چاہتا ہے۔ مسلم دنیا، مسلم عوام، مسلم ممالک کی مسخ شدہ اور ہند دشمن شبیہہ بنانے میں بھی ہندوستانی اشرافیہ ہر حقیقت اوراعداد وشمار کو جھٹلانے کے لیے تیار ہے، دو تین بڑی مثالوں سے اس حقیقت کے سمجھنے میں مدد ملے گی۔ پچھلے دس بارہ سالوں کی مسلسل کوششوں کے بعد ہندوستان میں غیرسودی بینکنگ کے لیے حکومتی سطح پر راہ کھلنے والی تھی کہ سبرامنیم سوامی کے وزیرخزانہ کو خط لکھنے کے بعد سارا معاملہ ٹھنڈا کردیاگیا۔ اس مہم کے آغاز میں دس سال پہلے ریزروبینک ودیگر مالیاتی اداروں سے بمشکل کوئی اعتراض (N.O.C.)نہیں کا تصدیق نامہ ملا۔ کیرالہ حکومت نے اس سلسلہ میں پیش قدمی کرکے وہاں سرکاری سطح پر غیرسودی مالی ارادہ کے قیام کی ابتداء کی تو مسلم دشمن مقامی اور ملکی عناصر نے عدالت میں اسے چیلنج کردیا جب عدالت سے بھی فیصلہ حق میں آ یا تو مرکز میں حکمراں بدل گئے۔ جب ملکی پیمانہ پر اس اسکیم کو لاگو کرنے کا نمبر آیاتو سبرامنیم سوامی کے خط نے سالوں کی کری کرائی جدوجہد پر پانی پھیر دیا کہ اس سے اسلامی قانون لاگو کرنے کا راستہ کھل جائے گا؛ حالانکہ اگر خالصاً تجارتی اور مالی نقطئہ نظر سے دیکھیں تو یہ ملک کے ساتھ بہت بڑی غداری ہے۔ اگر غیرسودی ادارے کام کرنے لگ جاتے تو صرف خلیجی ممالک سے ہی اربوں روپیوں کا سرمایہ ہندوستان آجاتا۔ خود ملک میں مسلمانوں کی بڑی تعداد جو سود کی حرمت کی بنا پر سودی اداروں میں سرمایہ نہیں لگاتی اس کا بھی بڑا حصہ ان اداروں کے ذریعہ ملکی معیشت کو فروغ دینے میں استعمال ہوتا۔ خلیجی ممالک سے کتنا سرمایہ وطن آسکتا ہے، ملک سے کتنا مل سکتا ہے، ان سب امور پر بھارت سرکار کے متعلقہ اداروں نے خوب چھان پھٹک کے بعد ہی منظوری دی تھی جواب رد کرکے دیش بھکتی کا تمغہ لیا جارہا ہے۔ دوسری طرف ملک میں سرمایہ کاری کے نام پر ملک ملک جاکر بھیک مانگی جارہی ہے۔ ملک میں بیرونی سرمایہ لانے کے لیے بین الاقوامی کمپنیوں کو رعایتیں دی جارہی ہیں اور ان کے نخرے اٹھائے جارہے ہیں؛ جب کہ غیرسودی بینک کاری کا فائدہ دنیا کے ۲۰ سے زیادہ ممالک اٹھارہے ہیں۔ متحدہ عرب امارات میں یہ 100ارب امریکی ڈالر کا نشانہ پورا کرچکا ہے۔ یہاں اسلامک بینکنگ 21.4% کی شرح سے بڑھ رہی ہے جو عالمی مارکیٹ کا 14.6%ہے۔ روایتی بینکنگ کے مقابلہ اسلامی بینکنگ دوگنی شرح سے ترقی کررہا ہے۔ ۲۰۱۹/ تک یہ نشانہ ۲۶۳ ارب ڈالر پورا کرنے کا ہے۔ اس کے علاوہ سعودی عرب پہلے نمبر پر ملیشیا دوسرے نمبر پر پھر بحرین، کویت، قطر، عمان وغیرہ کا نمبر آتاہے۔ خلیجی ممالک میں یہ اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری ہمارے ملک میں بھی منتقل ہوسکتی تھی اگر ہم مسلم دشمنی میں اندھے ہوکر غیرسودی بینکنگ کا راستہ روک کر ملک دشمنی نہ کرتے۔ دوسری مثال ہے ہندوستان سے باہر جاکر روزی کمانے والے لوگوں کی تعداد اوروہاں سے بھیجے جانے والے سرمایہ سے متعلق اعداد وشمار سے ملتی ہے، یہ اعداد وشمار عالمی بینک اور ہماری وزارتِ خارجہ کے ہیں۔ جن کے مطابق ہندوستان میں کل ملاکر ۷۰ ارب ڈالر کا سرمایہ باہر سے آتا ہے۔ سب سے بڑی رقم لاکھوں کی آبادی والے مسلم ممالک متحدہ عرب امارات سے آیا۔ 12.64ارب ڈالر امریکہ 35کروڑ آبادی کا ملک وہاں 22.1/2 لاکھ ہندوستانی ہیں 11.18 ارب ڈالر سرمایہ آیا متحدہ عرب امارات میں 17,50,000 سترہ لاکھ پچاس ہزار ہندوستانی ہیں۔ سعودی عرب میں تقریباً 18لاکھ ہندوستانی لگ بھگ 11ارب ڈالر سالانہ بھیج رہے ہیں۔ کویت میں لگ بھگ 6لاکھ ہندوستانی 5 ارب ڈالر بھیج رہے ہیں۔ پاکستان سے 4.7ارب ڈالر آیا۔ کل 24کروڑ غیرمقیم ہندوستانی ہیں جس میں سے کل 41لاکھ کے لگ بھگ صرف خلیج میں رہتے ہیں۔ کل 70ارب سالانہ بیرونی زرمبادلہ میں سے 36ارب ڈالر ان چھوٹے سے ممالک سے آتا ہے۔ امریکہ سے صرف 22 ارب ڈالر آتے ہیں۔ اور ہمارے سب سے قریبی ، قطری حلیف اسرائیل اعداد وشمار تو ہمارے حکام دیتے ہوئے بھی شرماتے ہوں گے، وہاں کتنے بھارتیہ مزدوروں کو نوکری ملتی ہے اور وہاں سے کتنا ڈالر بھارت آتا ہے۔ ہاں ہم یہ ضرور جانتے ہیں کہ اس وقت بھارت سے اربوں ڈالر ہتھیاروں کی خرید کے سلسلے میں ضرور اسرائیل جارہا ہے؛ جب کہ اسرائیل کی کئی کمپنیاں سودوں کے معاملہ میں رشوت خوری ثابت ہونے پر خود بھارت سرکارنے ہی بلیک لسٹ کردی ہیں۔ اتنے مالی فوائد کے باوجود آج پروپیگنڈہ کے بل بوتے پر عرب/مسلم دنیا کو ہندوستان کے حکمراں، افسران، میڈیا سب دشمن کے طور پر ہی پیش کررہے ہیں۔ مگر نقصان کس کا ہورہا ہے؟ ملک دشمن کون ہے؟ ملکی معیشت کو اربوں ڈالر کی تجارت اور سرمایہ کاری سے محروم کرنے والے کیا وطن دوست ہیں؟ تیسری مثال حال ہی میں مہاراشٹر سرکار کے ذریعہ بیل، سانڈ کے حلال بند کیے جانے کی ہے۔ مذہبی نقطئہ نگاہ سے بیل اور سانڈ کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ معاشی اور زراعتی اعتبار سے یہ غیرعقلی، غیرمنقطی اور گھاٹے کا سودا ہے۔ قدرت اپنے قانون کے مطابق چلتی ہے جس چیز کا استعمال ہوتاہے وہ باقی رہتی ہے۔ جس کا استعمال نہیں ہوتا وہ ناپید ہوجاتی ہے۔ جب بیل اور سانڈ کام کے قابل نہیں رہے گا تو اپنی طبعی عمرتک غیرپیداواری خرچہ کس کے ذمہ ہوگا؟ اگر سرکار کرے گی تو کیا سرکار کے پاس اتنا حاصل سرمایہ ہے؟ جس چیز کی ڈیمانڈ نہیں ہوتی اس کی سپلائی بھی نہیں ہوتی۔ اگر یہ لاکھوں بیل اور سانڈ سالانہ سرکاری خرچہ پر پالے جائیں گے تو فائدہ کس کو ہوگا؟ جب بھینس کی اجازت رہے گی تو لوگ بھینس پالیں گے کہ بیل؟ اخباروں میں مہاراشٹر کے بڑے چھوٹے کسانوں، مویشی کے تاجروں کے انٹرویو آرہے ہیں کسی نے بھی اس پابندی کی حمایت نہیں کی ہے گوکہ ان کی اکثریت غیرمسلم ہے؛ مگر حکومت کچھ مثبت کرنے کے بجائے سیدھے سادے ہندو عوام کو یہ دکھاکر خوش ہورہی ہے کہ دیکھو ہمارے اقدام سے مسلمان کتنا پریشان ہے؛ جب کہ پریشان تو غیرمسلم کسان بھی ہے اور انھوں نے دھمکی بھی دی ہے کہ اگر جلد ہی پابندی نہ ہٹائی گئی تو ہم سارے بیل اور سانڈ بڑے شہروں میں لے جا کر چھوڑ دیں گے؛ تاکہ وہ لوگ اس کا مزہ چکھیں جن کو خوش کرنے کے لیے یہ پابندی لگائی ہے۔ یہ پابندی گئوشالاؤں کے نام پر سرکاری کرپشن اور غیرسرکاری سرمایہ داروں کے ذریعہ انکم ٹیکس چوری کا بڑا حیلہ بھی بنے گا، اس کا فائدہ بھی اعلیٰ ذات کے طبقہ کو ہی ہوگا؛ مگر کل ملاکر ملکی اقتصادیات کو نقصان ہوگا۔ کیا یہی وطن دوستی ہے؟

———————————-

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ9 ، جلد: 99 ‏، ذی قعدہ 1436 ہجری مطابق  ستمبر 2015ء

Related Posts