از: مفتی محمد فیاض قاسمی                   

 رہوا، رامپور، وارث نگر، سمستی پور      

اسلام نے عقل وروح کو پروان چڑھانے کے ساتھ ساتھ جسمانی طاقت وقوت میں اضافہ کے لیے جسمانی ورزش اور کھیل کود کی اجازت دی ہے۔ اللہ پاک نے اہل حق کو ایک طاقت ور قوم وملت بننے کا حکم دیا اور انفرادی طاقت وقوت کی طرف اشارہ بھی کیا۔ اَلْمُومِنُ القَوِیُ خَیرٌ وَاَحَبُّ اِلی اللہِ مِنَ المُومِنِ الضَّعیفِ وَفی کُلٍّ خَیرٌ، اِحْرِصْ عَلٰی مَنْ یَنفَعُکَ وَاسْتَعِنْ بِاللہِ وَلَاتَعْجِزْ۔ (صحیح مسلم) اللہ پاک کے نزدیک طاقت ور مومن بہتر اور زیادہ محبوب ہے کمزور مومن کے مقابلے میں۔ ہر ایک کے اندر خیر ہے۔ ایسے کاموں کے حریص بنو جو تمھیں فائدہ پہنچائے، اللہ سے مدد مانگو، عاجز اور مجبور نہ بنو۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مسجد میں اہل حبشہ کو نیزوں سے کھیلتے ہوئے دیکھا تو فرمایا: دَوْنَکُمْ یَا بَنِی اَرْقَدَة تَعْلَمْ الْیَھَوْدُ اَنَّ فِیْ دِیْنِنَا فَسْحَةً۔ اے بنو ارقدہ! تم اسے مضبوطی سے تھام لو، تاکہ یہود کو معلوم ہوجائے کہ ہمارے مذہب میں کشادگی ہے۔ متعدد احادیث سے بھی پتا چلتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو گھوڑسواری، تیراکی اور تیر اندازی جیسے کھیل پسند تھے۔

کھیل کود کی اسلام میں جہاں اجازت ہے وہیں حدود شرع سے تجاوز کرنے کی ممانعت بھی ہے، لہٰذاوہ کھیل جو اسلامی احکامات سے ٹکراتے ہیں وہ ممنوع قرار پاتے ہیں: جیسے دوران کھیل ستر کھلی رکھنا، نماز کے اوقات کو ضائع کرنا، کھیل کے شوق میں پیسہ اور صلاحیتیں برباد کرنا، عورتوں کا ضروری پردہ کا خیال نہ رکھنا یا پھر مرد وعورتوں کا اختلاط وغیرہ۔

حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے زمانہٴ خلافت میں مسلمانوں اور ایرانیوں کے بیچ اختلاط شروع ہوگیا۔ مسلمانوں میں عجمیت کے سماجی و روایتی جراثیم سرایت کرنے لگے۔ کبوتربازی، شطرنج بازی، نردبازی جیسے شوق لوگوں کے درمیان ابھرنے لگے۔ صحابہ کرام نے سختی سے ان لہوولعب سے منع کیا۔ اسی طرح حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے ایک گھر میں کرایہ دار رہتے تھے، ان کے متعلق معلوم ہواکہ وہ نرد کھیلتے ہیں، حضرت عائشہ سخت ناراض ہوئیں اور کہلا بھیجا کہ اگر نرد کی گوٹیوں کو میرے گھر سے باہر نہ پھینکو گے تو میں اپنے گھر سے نکال دوں گی۔ وہ امت جو نبی کی نیابت کے لیے مبعوث کی گئی، جسے خیر امت کا لقب ملا اس کو گوٹیوں اور نرد جیسے لغویات سے بچانا ضروری تھا۔ حضرات صحابہ کا لہوولعب کے بارے میں دادگیر کرنا اور حضرت عائشہ کی وارننگ مسلمانوں کے لیے مشعل راہ ہے اوراس سے کھیلوں کے سلسلہ میں اسلام کے مزاج کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔

زمانہ قدیم میں بدھسٹ اور راہب ورزش اور لڑائی کے داوٴ پیچ میں مہارت رکھتے تھے۔ تھائی لینڈ، کوریا، چین اور جاپان جیسے ممالک میں کراٹے، کنفو اور جوڈو وغیرہ بہت مقبول ہیں۔ ہندوستان کے قدیم اکھاڑوں میں ورزش کے ساتھ ساتھ کشتی لڑنے کی ماہرانہ تربیت دے کر پہلوانوں کو تیار کیا جاتا ہے، اسی طرح یوگا کے ذریعہ صحت کو بحال رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ غرض انواع واقسام کے کھیل اور ورزشیں الگ الگ ملکوں کے اعتبار سے رائج اور مقبول ہیں۔

جسمانی ورزش کی ہیئت پر مشتمل ”یوگا“ موجودہ صورت حال میں ایک اہم موضوع بن کر ابھر رہاہے۔ حکومت ہند کی طرف سے پیش قدمی کی بناپر اس سال یعنی ۲۰۱۵ء کے ۲۱/جون کو باضابطہ ”عالمی یوگا دیوس“ منعقد کرنے کی مکمل تیاری ہے، اور اب سے دنیا کے ایک سو نوے ممالک میں ہرسال یوگا ڈے منایا جائے گا۔ ہندوستان کے صوبوں، ضلعوں، شہروں، قصبوں، پنچایتوں، بلاکوں اور گاوٴں کا ہرفرد بلاافتراق مذہب وملت ہرسال یوگا دیوس منائے گا۔ یہ اس طور پرمنایا جائے گا کہ یوگا ہندو، مسلم، سکھ، عیسائی، بدھسٹ، جین، پارسی اور یہود پر مشتمل ہندوستان کی ایک سو پچیس کڑور آبادی کا عمل ہے اور اس ملک کا کلچر ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ ملک کے اسکولوں میں یوگا بطور نصاب شامل ہوگا اورہر طالب علم کو یوگا کرنا ہوگا۔ اسی بنا پر ملک کے کچھ خاص مذہبی حلقوں میں یوگا کے تئیں مختلف باتیں سامنے آرہی ہیں۔ کبھی یوگا کو مذہب سے جوڑ کر دیکھا جارہا ہے تو کبھی صرف ایک جسمانی ورزش کی حد تک سمجھنے کی صلاح دی جاتی ہے۔

یوگا کی حقیقت:

یوگا سنسکرت لفظ ”یوج“ سے نکلا ہے، جس کے معنی شامل ہونے اور متحد ہونے کے ہیں۔ یوگا کے معنی ذہنی گہری سوچ کے ذریعہ وحدت کائنات کے پُر اسرار رازوں تک پہنچنا ہے۔ (اسریٰ نعمانی یوگی تربیت یافتہ ہندوستانی نژاد مسلم صحافی) یوگا کی تقریباً 185ورزش کی ترکیبیں ہیں۔ یوگا کرنے والے شخص کو یوگی کہا جاتا ہے۔

ہندووٴں کی مقدس کتابوں ویدوں اور بھگوت گیتا میں یوگا کی تعلیمات ملتی ہیں۔ یوگا کو ہندووٴں کے مذہبی پیشوا، رشی منی، سادھو سنت اپنے مٹھوں میں ہندومذہبی عقیدہ کے مطابق اپنے چیلوں کے ساتھ بطور فرض کے روزانہ انجام دیتے ہیں۔ بھگوت گیتا کا چھٹا باب فلسفہ یوگا کے لیے خاص ہے، جس میں شری کرشنا نے ارجن کو یوگا کے سلسلہ میں تفصیل سے سمجھایا اور کہا کہ یوگا درد وتکلیف سے چھٹکارا دلاتا ہے اور یوگا کی مشق کرنے والا یوگی روحانیت الٰہی کی نعمت سے نفس کا اطمینان پالیتا ہے۔ ارجن نے شری کرشنا سے پوچھا ”تم نے یوگا کے متعلق بتایا، روح کے متعلق بتایا؛ لیکن انسان کی عقل ہمیشہ بے چین اور مضطرب رہتی ہے۔ عقل مضبوط، ضدی اور پُر مقصد ہوتی ہے، اس کو ہوا کی طرح خارج نہیں کیا سکتا ہے۔“ کرشنا نے جواب دیا یقینا عقل مضطرب ہوتی ہے اور اس پر گرفت مشکل ہے، لیکن اس کی تربیت ابھیاسا (Abhyasa) کے ذریعہ کی جاسکتی ہے اور خواہشات اور ورگیا (Vargaya) سے چھٹکارا مل سکتا ہے۔ (لائٹ آف یوگا صفحہ ۲۰)

کچھ خاص ترکیبیں جن سے یوگا پہچانا جاتا ہے:

آسنا (جسم کی خاص ساخت اختیار کرنا) دھرنا (کسی خاص چیزپر توجہ مرکوز کرنا) دھیانا (آنکھیں بند کرکے مراقبہ کرنا) دھیانا کے لیے ضروری ہے کہ کسی ایک جگہ بیٹھ کر روزانہ متعین وقت پر کیا جائے۔ یوگا کے ماہرین بغیر دھیانا کے یوگا تسلیم نہیں کرتے)۔ پرانیاما (روح پر گرفت کرنے کی کوشش کرنا)۔ سوریہ نمسکار بہت اہم مانا جاتا ہے۔ یوگاکرنے والے کے لیے ضروری ہے کہ وہ مشرق کی جانب آنکھیں بند کرکے دونوں ہاتھوں کو جوڑ کر سورج کو پرنام و آداب بجالائے۔ بی کے ایس اینگر نے ویدوں کے حوالے سے لکھا ہے کہ پرانیاما سے جسم اور عقل کی تمام ناپاک چیزیں خارج ہوجاتی ہیں اور مقدس آگ کے شعلے انھیں توانائی اور رعنائی کے ساتھ پاک کردیتے ہیں، تب ایک شخص دھرانا اور دھیانا کے قابل ہوتا ہے۔ اس مقام تک پہنچنے کے لیے طویل مدت درکار ہوتی ہے۔ (لائٹ آف یوگا صفحہ ۴۶۱)

یوگا میں کیے جانے والے ورد:

مشاق یوگی دوران یوگا اور اس کے ختم پر کئی اشلوک کا ورد کرتے اور گاتے ہیں۔ ان میں اہم ترین اشلوک جو سنسکرت میں ہیں ان کا ترجمہ پیش کیا جارہاہے:

”میں نہ عقل ہوں نہ سوچ، میں نہ سن سکتاہوں نہ بول سکتاہوں، نہ سونگھ سکتاہوں نہ دیکھ سکتاہوں، میں روشنی اور ہوا میں اپنے آپ کو نہیں پاتا ہوں، نہ زمین پر نہ آسمان پر، میں نعمتوں کی نعمت ہوں، میر اکوئی نام نہیں، میری کوئی زندگی نہیں، میں سانس نہیں لیتاہوں، نہ کوئی مقدس کلمات ہیں نہ عبادات، نہ علم ہے نہ معلوم، کسی شئی نے مجھے ڈھالا نہیں، میرا کوئی جسمانی خروج نہیں، میں نہ غذ اہوں نہ کھانا اورنہ کبھی میں نے کھایا ہے، میں خیالات اور مسرت ہوں اور آخر میں کرم میں مل جاوٴں گا۔ میں غیر مجسم ہوں، میں احساسات میں رہتا ہوں لیکن وہ میر امسکن نہیں۔“ (لائٹ آف یوگا صفحہ ۳۲۔۳۳)

ان اشلوکوں میں خودی اور خودی کا انکار، تمام عبادات اور مقدس کلمات کا انکار، علم اور تعلیم کا انکار شامل ہے۔ اس میں اپنے آپ کو نعمت وکرم گردانا جاتا ہے اور آفاقی روح میں مل جانے کا اقرار کیا جاتا ہے۔ یہ تمام باتیں ایمانیات اور اسلامی تعلیمات سے ٹکراتی ہیں اور خالق ومخلوق کے فرق کو ختم کرتی ہیں۔ اس میں حلول، تجسیم اور انکارِرب جیسے کفریہ کلام شامل ہیں۔

یوگا کی تعریف، اس کے ارکان اور اس میں کیے جانے والے اعمال سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ یوگا ایک خالص ہندو مذہب کا حصہ ہے اور اس کی جڑیں ہندو تعلیمات سے جڑی ہوئی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہندومت کی دھارمک شخصیتیں ومذہبی پیشوا اور ہندو احیا پسند تحریکات دراصل یوگا کے توسط سے ورن آشرم کو دوبارہ قائم کرنا چاہتے ہیں۔ نسلی طبقاتی تفریق کو پروان چڑھانا چاہتے ہیں۔ وہ ہندومت کو قومی وعالمی سطح پر ایک عظیم کامیاب نظام زندگی کے طور پر غالب کرنے کی کوشش میں ہیں۔

مذہب اسلام عقائد، معاملات، مامورات، معمولات اور زندگی کے ہرشعبے میں کلی یاجزوی طور پر کفر وشرک کے عناصر کا باریک بینی سے خاتمہ کرتاہے اور کسی بھی تہذیب وتمدن کے اجزا کو کفروشرک سے پاک صاف کرکے اپنے اندر ضم کرنے کی وسعت رکھتا ہے۔ اسلام دنیا کے مختلف گوشوں میں پھیلا اور جہاں بھی پہنچا وہاں کے مقامی معاشرہ، تمام باطل ولغو رسم ورواج، طور طریقوں اورعادات واطوار کا خاتمہ کرکے مقامی سماج کو اپنے اندر شامل کیا۔ دور حاضر کی آنکھوں کو خیرہ کردینے اور قلب وذہن کو ظاہراً متاثر کردینے والی کسی بھی قدیم وجدید تہذیب کو، جواسلام سے متصادم ہو، اپنانے اور اس پر عمل کرنے سے منع کرتاہے۔

قرآن کریم نے حرام کاموں کے تدارک کے لیے ابتدائی مراحل میں ہی بندش لگادی اور ڈانٹ کے ذریعہ پابندی عائد کردی۔ اہل ایمان کو کفر وشرک اور لغو وباطل سے بچانے کے لیے اللہ پاک نے مختلف انداز میں تحذیر کے ساتھ تخاطب فرمایا ہے: وَلاتَقرَبُوا (قریب بھی مت ہو) وَاجْتَنِبُوا (اجتناب کرو) اَلَمْ یَان الذِینَ اٰمَنوا (کیا ایمان والوں کے لیے اب بھی وقت نہیں آیا۔) فَفِرُّوا اِلی اللہ (دوڑو اللہ کی طرف) وَسَارِعُوا اِلٰی مَغفِرةٍ مِنْ رَبِّکُم (دوڑو اپنے رب کی مغفرت کی طرف۔) اِنّ ھٰذَا صِرَاطِی مُسْتَقِیْماً فَاتَّبِعُوہْ (یہی میرا سیدھا راستہ ہے، لہٰذا اسی کی اتباع کرو)۔ اللہ تعالی نے دعوت، ترغیب، ترہیب، تنبیہ اور نداء کا ولولہ انگیز مشفقانہ انداز اپنایا، لہو ولعب کی چھوٹی بڑی چیزوں اور بے فائدہ وحرام باتوں کے خاتمہ کا دوٹوک فیصلہ سنایا اور رجوع الی اللہ، توبہ واصلاح، تقوی ومغفرت کی طرف بلاکسی توقف کے لپکنے اور دوڑنے کی ترغیب دی۔ محسن امت حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے تین باتوں سے منع فرمایا: تشبہ بالکفار، تشبہ بالنساء، تشبہ بالرجال۔ یعنی کوئی مومن کافر کی مشابہت اختیار نہ کرے، کوئی مرد کسی عورت کی مشابہت اختیار نہ کرے اور کوئی عورت کسی مرد کی مشابہت اختیار نہ کرے۔ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے ایک دفعہ ایک عورت کو دیکھا جس کی چادر میں صلیب کے نقش ونگار بنے ہوئے تھے، دیکھتے ہی ڈانٹا کہ یہ چادر اتار دو، حضور صلی اللہ علیہ وسلم ایسے کپڑوں کو دیکھتے تو پھاڑ ڈالتے۔ (مسند احمد) قرآن کریم میں اللہ پاک کی ترغیب وترہیب، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات اور صحابہ کرام کا عمل اس بات کی طرف مشیر ہے کہ کفار کے طور طریقے، رسم ورواج، مخصوص مذہبی اسٹائل وانداز کی تقلید کرنا اور کفر سے بھری اصل نوعیت کو بغیر زائل کیے کسی کی پیروی کرنا کفار کی مشابہت اختیار کرنا ہے، جس کی اسلام میں ممانعت ہے۔

مسلم معاشرہ کے باشعور تعلیم یافتہ، دین دار اور اسلام پسند لوگوں کے درمیان آج یوگا موضوع بحث بنا ہوا ہے۔ کچھ نام نہاد مسلم رہنما اسے محض ایک ورزش کا نام دے رہے ہیں۔ بعض حضرات اسے مکمل طور پر شریعت کے خلاف گردان رہے ہیں اور کچھ لوگ یوگا میں استعمال ہونے والے کفریہ وشرکیہ کلمات کو مستثنیٰ کرکے جواز کے قائل ہیں۔ بعض تعلیم یافتہ مسلمان یہ سوال کرتے ہیں کہ یوگا صحت کے لیے مفید ہے تو پھر اسلامی حلقوں سے اس کی ممانعت کے سلسلہ میں کیوں آوازیں آرہی ہیں؟ کیا اسلا م اتنا تنگ نظر ہے کہ اپنے پیروکار کو جسمانی ورزش سے منع کرکے ان پر تحدیدات عائد کرتا ہے؟ اور بعض گوشوں سے تو یوگا کے متعلق فتووں پر تنقیدیں بھی جاری ہیں۔ واضح رہے کہ ملیشیا کے مفتیان کرام نے یوگا کے خلاف فتوی جاری کرکے وہاں مسلمانوں پر روک لگادی ہے، اور فتوی نافذ العمل بھی ہے، تاہم چند سیاسی لوگوں نے مخالفت کی ہے۔

یوگا کی ہیئت کذائیہ یعنی ورزش کے معمولات ڈنڈ بیٹھک کی حد تک اس کی اصل سے علیحدہ کرکے شریعت کا حکم اگر معلوم کیا جائے، تو ظاہر سی بات ہے کوئی بھی مفتی وعالم یقینا ورزش کے زمرہ کی حد تک اسے جائز قرار دے گا۔ لیکن صرف ورزش کی حد تک فنی بنیادوں پر حاصل شدہ اجازت نامہ کی وجہ سے یوگا میں بے شمار مخفی، مشتبہ، مشکوک باتوں اور کفریہ وشرکیہ واضح دلائل کی موجودگی میں یوگا کی ممانعت کا حکم بھی ناقص اور مہمل نہیں سمجھا جائے گا۔

یوگا کی وکالت کرنے والوں کا استدلال یہ ہے کہ ہندو عقائد کی نفی اور اشلوک کے ورد کو چھوڑ کر صرف جسمانی ورزش ممنوع نہیں ہے، کیونکہ اسلام علاقائی اور بیرونی مفید کارآمد باتوں کو اپنے اندر ضم کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ہوسکتا ہے لوگوں کی نیک نیتی کے پیش نظر یوگا کو جائز قرار دینے والوں نے یہ فیصلہ کیا ہو؛ لیکن یہ خیال رہے کہ کسی پیچیدہ مسئلہ کو کاٹ چھانٹ کر اس کے ٹکڑے اور ذرے ذرے کرکے ایک ہلکے عنصر کو لے کر جواز کا حکم صادر کرنا دور بینی سے الگ نجی فیصلہ قرار پائے گا۔

ٹھیک ہے کہ یوگا ورزش کی حد تک جائز ہے؛ تاہم یہ مُفْضِی اِلی الْکُفْرِ وَالشِّرْکِ بھی ہے۔ دھیرے دھیرے یہی عمل یوگا سے الفت پیدا کردے گا، لوگ یوگا کے سارے ارکان سے دلچسپی لینا شروع کردیں گے، یوگیوں کے مٹھوں اور کیندروں میں جاکر یوگا کے ذریعہ سارے کفریہ اعمال انجام دیں گے، یہاں تک کہ آنے والی نسل جب مسلمانوں میں رائج یوگا کو پائے گی تو انھیں اس وقت یوگا ایک اسلامی کلچر کی شکل میں نظر آئے گا اور اس کے قبیح ومذموم ہونے کی طرف اس کی توجہ بھی نہیں جائے گی۔ غرض مسلم معاشرہ کا ایمان کفر وشرک کی پیروی میں تبدیل ہوجائے گا لیکن انھیں اس کا احساس بھی نہ ہوگا۔ اس وقت نہ کوئی داعی، عالم اور مصلح کی بات اثر کرے گی اور نہ خود کا ضمیر ملامت کرے گا۔ قلب وذہن پر کفر کے دبیز پردے پڑجائیں گے۔ زہر چاہے تھوڑی مقدار میں ہی کیوں نہ لیا جاتا رہے وہ اپنا اثرضرور دکھائے گا اور جسم میں خاموشی سے سرایت کرتے ہوئے موت کے منہ میں دھکیل دے گا۔ یہی معاملہ ایمان وکفر کا ہے۔ لاعلمی اور انجانے میں ایک مومن اگر کفر کی چند یا بعض باتوں کو قبول کرتے کرتے ردِکفر کے جذبہ کو کھو بیٹھے اور ایمان وکفر کے فرق کو اپنی فکرونظر سے اوجھل کردے تو پھر ایمان پر کفر پوری طرح حاوی ہوجاتا ہے، جس کے نتیجہ میں مومن کو ہر کافرانہ دعوت وعمل جاذب نظر آنے لگتے ہیں۔

مغلیہ سلطنت کے زوال کے دور میں ملک میں افراتفری اور بد امنی پھیلنا شروع ہوگئی تھی۔ ہندو مسلم اہل علم ومذہبی پیشواوٴں کا آپس میں رابطہ مضبوط ہوچکا تھا۔ اکبر بادشاہ نے ہندومت اور اسلام ودیگر مذاہب کو ملاکر ایک نیا مذہب ”دین الٰہی“ کے نام سے بنایا۔ درباری چمچے، شاہی امام اور پنڈتوں نے مل کر اسلامی مذہبی تعلمات کی بنیادوں کو ڈھانے کی کوشش کی اور کئی کافرانہ رسم ورواج حکومت کی سرپرستی میں مسلمانوں کے درمیان پروان چڑھائے گئے۔ مولوی اور عامل حضرات سحر، جادو، بھوت پریت اور جنات کے اثرات کو زائل کرنے اور مصیبت زدہ کی آفتوں کو دور کرنے کے لیے ذکر ودعا اور شرعی تعویذوں سے کام لیا کرتے تھے؛ لیکن اس وقت کے بعض عاملوں کے ذہن میں یہ بات بٹھادی گئی کہ صرف پرانے طریقوں پر قرآنی آیات اور دعا وذکر سے عوام کے باطنی امراض ومصائب کا حل فوراً نہیں ہوسکتا، بلکہ سنسکرت کے اشلوکوں، ہندووٴں کے مقدس طور طریقوں اور پوجاپاٹ کے ذریعہ اس کا حل ممکن ہے۔ اس وقت اسماعیل نامی ایک مسلم شخص اس کام کے لیے تھا۔ اس نے آچاریوں، رشیوں اور سادھووٴں سے جادو، ٹونا، بھانامتی اور ہندوعملیات کی تعلیم وتربیت حاصل کی۔ وہ اسے سیکھ کر باطل شیطانی کافرانہ سفلی عملیات کاماہر ہوگیا اور اشلوکوں کو قرآنی آیات سے ملاکر خلط ملط کرکے ایک نیا سفلی علم تیار کیا۔ اس کے عملیات کی شہرت ہونے سے وہ اسماعیل یوگی کے نام سے مشہور ہوگیا۔ اس سے دوسرے مولویوں نے بھی سفلی عمل کو سیکھا اور اس طرح ملت اسلامیہ ہند میں سفلی عمل کا سلسلہ چل پڑا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ آج دینی تعلیم سے دور مسلمانوں نے دین اور بے دینی میں فرق کو بھلادیا، دیوالی، ناگ پنچھی، اماوس کے موقعوں پر بعض جاہل مسلم خواتین کی بڑی تعداد مندروں کے قریب نظر آتی ہے۔ ہندو تیوہاروں میں مانگ پر ٹیکہ لگانا، کلائی پر بدھی باندھنا، مزاروں کے سامنے سے گزرتے ہوئے ہاتھ کے اشارہ سے چومنا، گاڑیوں میں کعبة اللہ، مسجد نبوی یاکسی مزار کی تصویر لٹکا کر اس پر پھول کی مالا چڑھانا بھی اسی غفلت کا نتیجہ ہے۔ یہ سادہ لوح مسلمان اس حد تک کیسے پہنچے، اس کا محرک کیا تھا․․․؟ یوگا کا معاملہ بھی ٹھیک اسی طرح ہے۔ محض صحت وتندرستی کی خاطر ایک ایسا عمل اور طریقہ کار جس کی جڑیں کفر وشرک سے ملتی ہیں، صرف نیک نیتی کی بنیاد پر اسے مباح قرار نہیں دیا جاسکتا ہے۔

ایک مومن کفر کی باریکیوں کو سمجھنے میں غلطی کرکے چند فائدوں کی خاطر قلب وذہن کو بند کرکے دھوکہ کھاجائے تو اللہ پاک نے ایسے موقع پر ایمان والوں کو وارننگ دی ہے۔ فرمایا: لَوْتَکْفُرُونَ کَما کَفَرْتُمْ فَتَکُوْنُونَ سَوَاءً (اگر تم کفر کروگے جیسے انھوں نے کیا تو تم بھی ان جیسے ہوجاوٴگے۔ سورہ النساء)

فقہ اسلامی کے چند اہم اصولوں کو سامنے رکھ کر اگر استنباط کیا جائے تو یوگا کی ممانعت اور عدم ممانعت کی باتیں سمجھنے میں آسانی ہوگی۔

۱-  مبادیات کی تحقیق:

یوگا کے مبادیات کی تحقیق کریں تو اس کی دوبنیادی باتیں راست کفر اور ہندو مذہب سے جاملتے ہیں۔ ایک اس کا مقصد گیتا کی تعلیم ہے۔ دوسرے یوگا پر رشیوں اور آچاریوں کا مکمل کنٹرول ہے، بطور عبادت اس کی مشق کی جاتی ہے۔ اسی طرح یوگا کے اشلوکوں میں توحید، رسالت، کتاب اللہ اور یوم آخرت کا انکار ہے۔ مخلوق کا خالق میں حلول کرجانے کا عقیدہ ہے۔ کفار کے ساتھ مشابہت ہے۔ غرض اس تخریج مناط کے بعد یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ یوگا ہندو تہذیب کے عقائد کا اہم حصہ ہے۔

۲- سد باب:

شریعت ہر دو زاویوں سے مسئلہ کا تجزیہ کرتی ہے۔ (۱) اگر کسی امر کے سلسلہ میں اس کے سدباب سے کفر، شرک، برائی اور لادینیت کا خاتمہ ہوسکتا ہے تو سب سے پہلے ان ذرائع کے باب الداخلہ کو بند کیا جائے گا۔ تاکہ بندہٴ مومن کسی نافرمانی اور خلاف شرع امور میں مبتلا نہ ہوجائے۔ (۲) اور اگر کسی مسئلہ میں ایسے ذرائع کے دروازے کھول دیے جائیں، جن سے توحید، حق، خیر، ثواب، نیکی، وتقویٰ کو قوت ملے اور کفر، شرک وبرائی کے پیدا ہونے کا کوئی خدشہ باقی نہ رہے اور لوگ انفرادی واجتماعی طور پر مستفید ہوسکیں، تو ان ذرائع کے دروازے کھول دینے چاہیے۔

۳- اصل کے اعتبار سے جائز ہونا:

کھیل اور تندرستی کے لیے ورزش وکسرت اصل کے اعتبار سے جائز اور مباح ہے۔ جب تک کہ کوئی منکر، شر اور گناہ کی چیز اس میں شامل نہ ہو اور کوئی دلیل ِحرمت اس میں نہ پائی جائے، مباح رہے گا۔

۴- گناہ وجرم سے مُبرّا ہونا:

ایسے تمام افعال جس کے ظاہر وباطن میں کوئی ممنوع اور خلاف شرع بات نہ ہو اور اس کے کرنے سے کسی گناہ، شر اور منکر کے پیدا ہونے اور پھیلنے کاشبہ نہ ہو، فقہ میں ایسے اعمال کو گناہ سے مبرا قرار دیا جاتا ہے، جسے فقہ کی اصطلاح میں اِرْتِفَاعُ الْمَسْئُولِیَةِ الْجِنَائِیَةِ کہتے ہیں۔ عام کھیل کود، ورزشیں اور کراٹے اسی زمرے میں آتے ہیں۔

مذکورہ بالا فقہ کے ان اصولوں کی روشنی میں یوگا کے مبادیات کفر وشرک سے ملتے ہیں۔ گناہ وشر سے مبرا بھی نہیں ہے۔ یوگا کے نصوص بھگوت گیتا سے ملتے ہیں۔ یوگا کے ذرائع کے دروازے کو کھول دینے سے اعتقادی کمزوریاں اور ایمانیات پر برے اثرات پیدا ہوں گے۔ تو صرف اصل کے اعتبار سے یوگا کی ورزش والی کیفیت پر نظر رکھتے ہوئے اسے مباح اور جائز قرار نہیں دیا جاسکتا ہے؛ بلکہ سد بابِ ذرائع کے پیش نظر یوگا کو بالکلیہ ممنوع اور مسلمانوں کے لیے ناجائز قرار دیا جائے گا۔

جو لوگ یوگا کے عدم ممانعت کے قائل ہیں ان کے پیش نظر یہی بات ہے کہ یوگا اصلاً ورزش ہے، لہٰذا محرمات سے گریز کرتے ہوئے یوگا کو اپنانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ ان کے لیے ہم کہنا چاہیں گے کہ کسی حکم میں حلت، حریت اور توسیع کی توجیہات اس کے دائرے میں ہونی چاہیے، من مانی توجیہات قابل قبول نہیں ہوگی۔ اس کو دومثالوں سے سمجھنا آسان ہوگا۔ اسلام میں نکاح کے لیے کوئی موقع اور محل کی قید نہیں ہے۔ اس اجازت سے فائدہ اٹھاکر اگر ایک شخص بت کدہ، مندر یا ہندو وعیسائی دھارمک استھانوں میں اسلامی اصولوں کی سخت پابندی کے ساتھ نکاح کرتا ہے تو اس کے جائز ہونے میں کوئی شبہ نہیں۔ لیکن اس کی دیکھا دیکھی دوسرے مسلمان اس مکروہ طرز عمل کو اپنالیں اور معاشرہ کا حصہ بنالیں تو کیا اب بھی یہ مباح عمل گردانا جائے گا؟ اسی طرح اگر کوئی مسلمان اللہ کا ذکر، مناجات اور تسبیحات کے لیے ایسی جگہ منتخب کرے جو مرکزِ کفر وشرک ہو یا اس کا ایک حصہ ہو جیسے مندر، آشرم اور مٹھ وغیرہ۔ جیساکہ آج کل کے آشرم اور مٹھ بڑے خوبصورت، کشادہ اور آرام دہ ہوا کرتے ہیں۔ روحانیت کے متلاشی مختلف لوگ یہاں تپسیا وغیرہ کرتے ہیں، تو کیا مسلمان کا روحانی ارتقاء کے لیے مسجدوں کو چھوڑ کر مٹھوں، آشرموں اور کیندروں میں بیٹھ کر مراقبہ کرنا، تسبیحات اور مناجات کرنا جائز ہوگا؟ ان دونوں مثالوں کے لیے جو جواب ہوگا وہی یوگا کے بارے میں بھی ہوگا۔

اسلام کی روح اور مزاج کی حفاظت دور حاضر کا اہم تقاضہ ہے۔ محض جسمانی ورزش اور بیماریوں کے علاج کے نام پر یوگا کی پریکٹس کو اپنا کر اسلامی روح کو برقرار نہیں رکھا جاسکتا۔ سائنس کے مطابق اسلام کی عبادتیں خود اس طرح کی ہیں کہ ہر مومن لازمی طور پر روزانہ مراقبہ، اطمینانِ قلب اور ورزش سے مستفید ہوتا ہے۔ پانچ وقت کی نماز، روزے، حج وعمرہ اور اعتکاف میں بندہ اللہ سے لو لگاتا ہے۔ اللہ کا قرب حاصل کرنے کی کوشش کرتاہے۔ ہردن فرض، سنت اور نفل نمازوں میں قیام، رکوع، سجدے اور قعدہ سے باضابطہ ورزش اور مراقبہ کی ضرورت پوری ہوجاتی ہے۔ اس کے علاوہ تلاوت کلام پاک، ذکر وتسبیحات، محاسبہٴ نفس، توبہ واستغفار اور رجوع الیٰ اللہ سے بندے کو جسمانی وروحانی قوت مل جاتی ہے۔

جس مسلمان کے دل میں ایمانی حرارت ہوتی ہے وہ کفر کرنا تو دور کی بات، کفر کے تصور سے بھی کانپ جاتے ہیں۔ وہ ایسے موحد ہوتے ہیں کہ توحید پرستی ان کی زندگی کا قیمتی سرمایہ ہوتا ہے۔ کفر وشرک اور نفاق جیسے گناہ انھیں چھو بھی نہیں سکتے۔ وہ شیطان کی چال بازیوں سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ پختہ عقیدہٴ توحید اور اعلی اسلامی کردار وخشیت الٰہی کے ذریعہ اپنے نفس کو مطمئن رکھتے ہیں۔ یہی وہ اسلامی اسپرٹ اور روح ہے جو ہمیں اللہ کا محبوب بندہ بناکر دنیا و آخرت میں سر بلند کرتی ہے۔

———————————-

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ7‏-8 ، جلد: 99 ‏، رمضان – شوال 1436 ہجری مطابق  جولائی -اگست  2015ء

Related Posts