از: مولانا شوکت علی قاسمی بستوی     

ناظم عمومی کل ہندرابطہٴ مدارس اسلامیہ عربیہ‏، و استاذ دارالعلوم دیوبند    

                رابطہٴ مدارس اسلامیہ عربیہ دارالعلوم دیوبند کے امور کی انجام دہی کے لیے دو مجلسیں قائم ہیں، ایک مجلس عمومی ہے جو تمام رکن مدارس کے نمائندوں پر مشتمل ہے، اس کا اجلاس ہر تین سال کے وقفے سے ہوتا ہے، دوسری مجلس عاملہ جو ۵۱/ارکان پر مشتمل ہے، اس کا اجلاس سال میں ایک بار ہوتا ہے۔ مورخہ ۲/۶/۱۴۳۶ھ کو مجلس عاملہ کا اہم اجلاس مہمان خانہ دارالعلوم میں منعقد ہوا، اورمدارس کے تحفظ، نظامِ تعلیم و تربیت کے استحکام، صوبائی شاخوں کو فعال بنانے وغیرہ امور سے متعلق اہم تجاویز منظور کی گئیں، پیش ہے پہلے مجلس عمومی پھر مجلس عاملہ کے اجلاس کی کارروائی۔

مجلس عمومی کا اجلاس

                مورخہ۳/جمادی الثانیہ ۱۴۳۶ھ مطابق ۲۴/مارچ ۲۰۱۵/ کو جامع رشید دارالعلوم دیوبند میں مجلس عمومی کا اجلاس منعقد ہوا، اس اہم اجلاس کی صدارت ملک کی عظیم اور ہر دل عزیز شخصیت، دارالعلوم دیوبند کی روحانی اور علمی روایات کے پاسباں، کاروانِ دیوبند کے قافلہ سالار، شیخِ طریقت حضرت مولانا مفتی ابوالقاسم صاحب نعمانی دامت برکاتہم، مہتمم دارالعلوم دیوبند وصدر رابطہٴ مدارس اسلامیہ عربیہ نے فرمائی۔ آغاز جناب قاری عبدالرؤف صاحب بلندشہری مدظلہ، استاذ تجوید وقرأت دارالعلوم دیوبند کی تلاوتِ قرآن کریم سے ہوا۔

                تلاوت کے بعد دارالعلوم دیوبند کا ترانہ پڑھا گیا، ترانہ میں استاذ گرامی حضرت مولانا ریاست علی صاحب بجنوری دامت برکاتہم، استاذ حدیث وسابق ناظم مجلس تعلیمی دارالعلوم دیوبند نے دارالعلوم دیوبند کے تاریخی کردار اور اکابر دیوبند کے خصوصی امتیازات کو نہایت ہی خوش اسلوبی کے ساتھ اجاگر فرمایا ہے، ترانہ مولوی محمد ذکوان دیوبندی سلّمہ ومولوی محمد جاوید امروہوی سلّمہ طلبہٴ دارالعلوم دیوبند نے پیش کیا، پھر حضرت صدراجلاس دامت برکاتہم سے صدارتی خطاب کی درخواست کی گئی، حضرت والا نے نہایت قیمتی اور بصیرت افروز خطبہٴ صدارت سے سامعین کومحظوظ فرمایا۔ افادئہ عام کے پیش نظر مکمل خطبہٴ صدارت پیش کیاجارہا ہے۔

خطبہٴ صدارت

کل ہنداجلاس مجلس عمومی رابطہٴ مدارس اسلامیہ عربیہ دارالعلوم دیوبند

منعقدہ: ۳/جمادی الثانیہ۱۴۳۶ھ مطابق: ۲۴/ مارچ ۲۰۱۵ئبروز منگل

از

حضرت مولانا مفتی ابوالقاسم صاحب نعمانی دامت برکاتہم

مہتمم دارالعلوم دیوبند وصدر رابطہٴ مدارس اسلامیہ عربیّہ

—————

بسم اللہ الرحمن الرحیم

                الحمد للہ رب العٰلمین والصلٰوة والسلام علٰی سیدنا محمد وآلہ وأصحابہ أجمعین․ أما بعد !

                اللہ رب العزت کا فضل واحسان ہے کہ اس نے ہم سب کو ایمان کی نعمت سے سرفراز فرماکر اہل السنة والجماعة کے کاروانِ ہدایت کا حصہ بنایا اور حضرات اکابرِ دیوبند رحمہم اللہ کے اُس زریں سلسلے سے وابستگی عطا فرمائی جو ایمان وعقیدہ اور علم وعمل کی تمام تفصیلات میں، کتاب وسنت پر مضبوطی کے ساتھ قایم ہے اور اپنے مزاج ومذاق میں مَاْ أنَاْ عَلَیہِ وَأصْحَابِیْ کے منہاج پر کاربند ہے، بلاشبہ یہ اللہ رب العزت کی ایک عظیم نعمت ہے۔ اسی کے ساتھ ہم اس پر بھی شکر ادا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں مدارس اسلامیہ کی خدمت سے وابستہ کیا اور ان مدارس کی سب سے پہلی کڑی اور ملت اسلامیہ کے علمی، عملی اور تہذیبی ورثہ کے امین وپاسبان ادارہ دارالعلوم دیوبند اور اسی کے منہاج پر چلنے والے اداروں کی خدمت کی توفیق بخشی اور مدارس اسلامیہ کے معاملات ومسائل پر باہمی غور وخوض کے لیے رابطہٴ مدارس اسلامیہ دارالعلوم دیوبند کا یہ مشترکہ پلیٹ فارم عطا فرمایا۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنی ان تمام نعمتوں کی قدردانی اور ان سے صحیح طور پر فائدہ اٹھانے کی توفیق عطا فرمائے، آمین!

                مہمانانِ گرامی مرتبت! بارگاہ رب العزت میں شکروسپاس کے بعد آپ حضرات کا شکریہ ادا کرنا بھی، بندے کا خوش گوار فریضہ ہے کہ آپ نے ہماری حقیر دعوت پر لبیک کہا اور سفر کی صعوبتیں برداشت کرتے ہوئے یہاں تشریف لائے اور اپنے احساسِ ذمہ داری کا ثبوت دیا، ہم آپ کا صمیمِ قلب سے شکریہ ادا کرتے ہیں اور ساتھ ہی مہمان نوازی میں کوتاہی پر معذرت خواہ ہیں، ہمیں یقین ہے کہ آپ کو خدانخواستہ کوئی زحمت ہوئی تو اپنی وسعت ظرفی کا ثبوت دیں گے اور درگذر فرمائیں گے۔

                علمائے عالی مقام! رابطہٴ مدارس اسلامیہ عربیہ دارالعلوم دیوبند کی مجلس عمومی کا یہ اجلاس، دستور میں طے شدہ نظام کے مطابق منعقد ہورہا ہے؛ لیکن یہ محض ضابطہ کی رسمی تکمیل نہیں ہے؛ بلکہ یہ وقت کا تقاضا اور مدارس کی ضرورت بھی ہے، اس لیے کہ تیزی سے بدلتے ہوئے حالات سے عہدہ برآہونے اور مدارس کی کشتی کو طوفان سے محفوظ رکھنے کے لیے ہم سب باہمی مشوروں کے محتاج ہیں، کوئی سمجھ دار آدمی موجودہ حالات کی سنگینی سے ناواقف نہیں ہوسکتا جب کہ پوری دنیا ہی میں دین اسلام کے علمبرداروں اور نام لیواؤں پر عرصہٴ حیات تنگ کرنے کی مہم جاری ہے اور اسلام کی مکمل تعلیمات کو اصلی شکل میں پیش کرنے والے یہ مدارس اسلامیہ، اس مہم کا سب سے پہلا نشانہ ہیں؛ لیکن جس طرح یہ حالات پہلی بار پیش نہیں آرہے ہیں، اسی طرح ان سے مقابلہ کی حکمت عملی بھی ہمیں اسی قدیم اصول کی رہنمائی میں تیار کرنا ہوگی جس کی صحت وصداقت کا بار بار تجربہ ہوچکا ہے کہ لن یصلح آخر ھذہ الأمة الا بما صلح بہ أولہا․

                پاسبانانِ مدارس! اس مقصد کے لیے ہمیں سب سے پہلے مدارس اسلامیہ کے مقاصدِ قیام کو ایک بار پھر مستحضر کرلینا ضروری ہے، خاص طور پر اس لیے کہ آج بھی ایک طبقہ اس سلسلے میں دانستہ یا نادانستہ غلط فہمی کا شکار ہے، جو یہ سمجھتا ہے کہ مدارس اسلامیہ کو دینی علوم کے ساتھ باضابطہ عصری علوم کی تعلیم کا نظم کرنا چاہیے تاکہ طلبہٴ مدارس پر فراغت کے بعد، سرکاری ملازمتوں یا مختلف تجارتی وصنعتی اداروں کے دروازے کھل سکیں۔ ظاہر ہے کہ یہ بات مدارس اسلامیہ کے مقصدِ قیام سے ناواقف ہونے یا اس کو نظر انداز کرنے پر مبنی ہے۔

                حقیقت یہ ہے کہ مدارس اسلامیہ کا بنیادی مقصد، شریعت کے علمی، فکری اور دینی ورثہ کو اس کی اصلی شکل میں محفوظ رکھنا اوراس کے لیے ایسے افراد تیار کرنا ہے جو علمی رسوخ اور عملی پختگی کے ساتھ ساتھ ملت کی رہنمائی کے لیے مطلوبہ اوصاف سے متصف ہوں، جن کی دین وشریعت سے وابستگی اور اللہ ورسول سے وفاداری ہرشک وشبہ سے بالاتر ہو، جن کو دنیا کا بڑے سے بڑا مفاد، دین کے چھوٹے سے چھوٹے اصول سے انحراف پر آمادہ نہ کرسکے، اور جو ستائش کی تمنا اور صلے کی پروا سے بے نیاز ہوکر اپنا سب کچھ دین کے لیے قربان کرنے کے جذبے سے سرشار ہوں۔

                اس قسم کی صلاحیت وصالحیت کے حامل افراد کی تیاری کے لیے یقینا ہمیں اپنے طرز عمل کا از سرِ نو جائزہ لینا اور اپنے نظامِ تعلیم وتربیت کو حضرات اکابر رحمہم اللہ کے مقرر کردہ منہاج پر استوار کرنا ضروری ہے، اس سلسلے میں بطور یاد دہانی چند گذارشات پیشِ خدمت ہیں۔

(۱)     نظامِ تعلیم

                سب سے بڑی اور پہلی ضرورت یہ ہے کہ مدارس اسلامیہ اپنے نظام تعلیم کو بہتر بنائیں، آپ حضرات سے زیادہ کون اس حقیقت سے واقف ہوگا کہ ہمارے نظامِ تعلیم میں بے شمار کمزوریاں درآئی ہیں جن کا ازالہ کرنا ہم سب کا فریضہ ہے، اس کے لیے چند چیزیں محتاجِ توجہ ہیں۔

                (۱)       نصابِ تعلیم: ظاہر ہے کہ نصابِ تعلیم، اس نظام میں بنیاد کی حیثیت رکھتا ہے، بعض مدارس نے نصاب میں غیرضروری اختصار یا کاٹ چھانٹ کردی ہے جس سے طلبہ کی استعداد بہتر بنانا مشکل ہورہا ہے، مناسب ہے کہ رابطہٴ مدارس سے مربوط مدارس، اُس نصاب تعلیم کو باقاعدگی سے نافذ کریں جو رابطہ ہی کے اجتماعات میں منظور ہوا ہے اور دارالعلوم دیوبند اور بہت سے مدارس میں عملاً نافذ بھی ہے۔ یہ گزارش درحقیقت ان مدارس سے ہے جہاں ابھی تک یہ نصاب نافذ نہیں ہے۔

                (۲)      نصاب کی تکمیل پر توجہ: بہت سے مدارس میں نصاب کی تکمیل پر توجہ نہیں ہے، یہاں تک کہ ابتدائی درجات کی کتابیں بھی باقاعدہ اور پوری پڑھانے کا اہتمام نہیں ہے۔ یہ چیز طلبہ کی استعداد کمزور ہونے کا بنیادی سبب ہے، ضروری ہے کہ تمام اساتذہٴ کرام نصاب کی تکمیل کا اہتمام کریں اور ذمہ دارانِ مدارس اس کی نگرانی کریں اوراس کام میں اساتذہ کا تعاون فرمائیں۔ ایامِ تعلیم میں غیرتدریسی ذمہ داریوں کا بار اُن پر کم سے کم ڈالیں تاکہ وہ نہایت عمدگی سے نصاب کی تکمیل کراسکیں۔

                (۳) امتحانات کا نظام بہتربنایا جائے: بہت سے مدارس میں امتحانات کو مطلوبہ اہمیت حاصل نہیں ہے۔ یہ نظام کی بڑی کمزوری ہے، ضرورت ہے کہ امتحانات، سنجیدگی اور باقاعدگی کے ساتھ ہوں اور سالانہ امتحان کے نتائج پر طلبہ کی ترقی وتنزل کا مدار بھی ہو، اچھے نمبرات والے طلبہ کی حوصلہ افزائی بھی ہو۔

                امتحانات کے ضمن میں یہ بھی عرض ہے کہ ابتدائی درجات میں ماہانہ جانچ کا نظام بھی بنایا جائے اس سے بنیادی تعلیم کا معیار بہتر بنانے میں بڑی مدد ملتی ہے۔

                (۴)         طلبہ کو اسباق میں حاضری کا پابند بنایا جائے، غیرحاضری پر کارروائی ہو، سالانہ امتحان میں شرکت کو حاضری کی ایک مخصوص مقدار مثلاً پچھتّر فی صد یا ستر فی صد کے ساتھ مشروط کیا جائے۔

                (۵)         تعلیم ہی کا ایک حصہ تحریر وتقریر کی مشق بھی ہے۔ طلبہ کی درسی مصروفیات کو محفوظ رکھتے ہوئے اساتذئہ کرام کی نگرانی میں تحریر وتقریر کی مشق کا نظام قائم کیا جائے۔

(۲)     نظامِ تربیت

                افراد سازی کے عمل میں دوسری بہت زیادہ توجہ کی مستحق چیز تربیت ہے؛ بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ صحیح تربیت کے بغیر تعلیم کا مقصد ہی فوت ہوجاتا ہے، بالخصوص موجودہ دور میں جب کہ ماحول میں بگاڑ کے اسباب روز افزوں ہیں، انٹرنیٹ اور ملٹی میڈیا موبائل نے فواحش ومنکرات کو معاشرے میں جرائم کی طرح عام کردیا ہے اور نئی نسل تیزی سے ان کا شکار ہورہی ہے، ایسے حالات میں طلبہ کی نگرانی اور تربیت پر پہلے سے کہیں زیادہ توجہ کی ضرورت ہے اور حالات کے مطابق اصول وضوابط مرتب کرنا اور سنجیدگی کے ساتھ ان کا نفاذ کرنا وقت کا تقاضا ہے۔

                اس بارے میں گزارش یہ ہے کہ دارالاقامہ کے نظام کو بہتر بنانے پر خاص توجہ فرمائی جائے جس کے تحت طلبہ کو نماز باجماعت کی پابندی، وضع قطع کی درستگی اور تمام غیرضروری اور غیرمناسب مشاغل سے اجتناب کا پابند بنایا جائے، ملٹی میڈیا موبائل اور انٹرنیٹ کے استعمال سے روکا جائے اور اگر مکمل پابندی لگانا ممکن نہ ہو تو صرف ضرورت کے تحت، اوقات تعلیم کے علاوہ میں سادہ موبائل کے استعمال کی اجازت دی جائے، طلبہ کو زندگی کے تمام کاموں میں اتباع سنت کا عادی بنایا جائے اور وقتاً فوقتاً اصلاحی بیانات اور تذکیر وموعظت کا اہتمام کیا جائے۔ اگر کسی طالب علم کا طرز عمل زیادہ خراب ہوتو اس کے سرپرستوں کو بھی اس کے احوال سے باخبر کیا جائے، نیز نئے داخلہ میں سرپرستوں کی طرف سے تصدیق نامہ کا اہتمام کیا جائے۔

                حضرات گرامی! تعلیم و تربیت سے متعلق یہ چند اشارات بطور ادائے فرض آپ حضرات کی خدمت میں عرض کیے گئے ہیں، ہمیں یقین ہے کہ آپ حضرات ان امور کے سلسلے میں پہلے ہی سے فکرمند ہوں گے۔ اس وقت مقصد یہ ہے کہ ان ضروری امور کے متعلق ہم سب میں ایک اجتماعی احساس بیدار ہوجائے اور پہلے سے زیادہ سرگرمی سے عملی اقدامات پر توجہ ہوجائے۔

اصلاحِ معاشرہ

                رہنمایانِ ملّت! مذکورہ بالا گذارشات تو طلبہ کی تعلیم و تربیت سے متعلق تھیں؛ لیکن آپ حضرات بخوبی واقف ہیں کہ موجودہ دور میں مدارس کا کردار صرف طلبہ کی تعلیم و تربیت تک محدود نہیں ہے؛ بلکہ مسلمانوں کے معاشرے کی اصلاح کے لیے جدوجہد کرنا بھی مدارس کے فرائض میں شامل ہے۔

                اس کے لیے ضروری ہے کہ علمائے مدارس، اپنے علاقہ کی دینی صورت حال کے بارے میں ہروقت فکرمند اور باخبر رہیں۔ غلط رسوم ورواج اور بدعات کے خاتمہ کے لیے مسلسل محنت جاری رکھیں، مسلمانوں کو دینی تعلیم کی ترغیب دلاتے رہیں۔ ان کی شادی بیاہ اور اجتماعی تقریبات کو شرعی دائرہ میں لانے کی عملی کوشش کریں اور ایسی تقریبات میں شرکت سے اظہار بیزاری اور اجتناب کریں جن میں غیرشرعی رسم و رواج انجام دیے جائیں، یا منکرات مثلاً ویڈیوگرافی یا بے پردگی کا ارتکاب کیا جائے۔

                معاشرہ کی اصلاح کا ایک اہم حصہ، مسلمانوں کے عقائد کی اصلاح ہے۔ اس پر خاص توجہ کی ضرورت ہے بالخصوص اس بات پر توجہ ضروری ہے کہ باطل فرقوں کی جانب سے مسلمانوں کے ہر طبقے پر محنت جاری ہے بہت ممکن ہے کہ پہلے صرف ناخواندہ اور سادہ لوح مسلمان اُن کا شکار ہوتے ہوں؛ لیکن موجودہ دور میں باطل افکار کی اتنی اور ایسی ایسی شکلیں سامنے آئی ہیں کہ تعلیم یافتہ ہوں یا ناخواندہ، ہر طبقے کے مسلمان اُن کی زد میں آرہے ہیں، اس لیے اہل حق علماء کی ذمہ داری پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ گئی ہے، اس کے لیے اپنے علاقہ پر گہری نظر رکھیں اور کوشش کریں کہ پنپنے سے پہلے ہی فتنے کا سدباب ہوجائے، اپنے اساتذہ کو مختلف فرقوں کے رد کے لیے علمی طور پر تیار رکھیں، اور حسب ضرورت، حکمت کے ساتھ کام کریں۔

                ایک خاص چیز جس پر ہم سب کی توجہ ازبس ضروری ہے، وہ نیت کی تصحیح کا اہتمام ہے۔ ہم چاہے طلبہ کی تعلیم و تربیت کا کام کریں یا مسلمانوں کے عقائد واعمال کی اصلاح کا، اُس میں ہماری نیت صرف خیرخواہی اور اخلاص پر مبنی ہونی چاہیے اور ساتھ ہی ہر کام کا حکیمانہ طریقہ ہی اختیار کرنا چاہیے، تبھی ہماری کوششوں کے اچھے اثرات برآمد ہوسکتے ہیں۔ ان مقاصد کے حصول کے لیے مدارس میں تزکیہ واصلاح کا ماحول پیدا کرنا بھی بے حد ضروری ہے، جو ہمارے اکابر رحمہم اللہ کا طرّئہ امتیاز تھا اور جس نے ان کی تمام خدمات میں تاثیر ومقبولیت کا رنگ پیدا کردیا تھا۔

مدارس کا نظام

                ذمہ دارانِ مدارس! مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس موقع پر مدارس کے نظام سے متعلق بھی چند باتیں تذکرے میں آجائیں۔ اس بات کو ہم میں سے ہر شخص سمجھتا ہے کہ اوپر کی گذارشات میں مدارسِ اسلامیہ کے جن فرائض کی بات آئی ہے اُن کی تکمیل اسی وقت ممکن ہے جب مدارس کا نظام درست ہو اور انتظامی خدمت کے ایک ذمہ دار کی حیثیت سے بندے کو یہ عرض کرنے کی اجازت دی جائے کہ نظام کی درستگی ہم سب کی توجہ کی سب سے زیادہ مستحق ہے۔

                اس سلسلے میں چند امور پیش خدمت ہیں:

                (۱) مدارس میں شورائی نظام کو پوری دیانت داری کے ساتھ نافذ کیا جائے۔

                (۲) اساتذہ وملازمین کی تنخواہوں کا معیار مناسب رکھا جائے جس سے کم از کم درمیانی انداز میں کارکنان کی ضرورتیں پوری ہوسکیں۔

                (۳) ذمہ دارانِ مدارس اپنے عملہ کے ساتھ اچھا برتاؤ رکھیں، ان کی عزتِ نفس کا لحاظ رکھیں اور اخلاقی تقاضوں کو نظر انداز نہ کریں۔

                (۴) مدارس کا حساب بالکل شفاف رکھا جائے اور آڈِٹ کرانے کا اہتمام کیا جائے۔

                (۵) مدارس کے رجسٹریشن اور جائدادوں کے کاغذات کی تکمیل ضابطے کے مطابق پوری ذمہ داری کے ساتھ کرالی جائے۔

                (۶) باصلاحیت اور محنتی اساتذہ وکارکنان کی حوصلہ افزائی کی جائے۔

                علمائے عالی مقام! اپنے فرائض کی تکمیل میں دو تین کام اور توجہ کے مستحق ہیں:

                (۱) مکاتب کا قیام! ہرمدرسہ اپنے دائرئہ کار میں ضرورت کے مقامات پر مکتب کا نظم کرے۔

                (۲) حسب ضرورت اپنے اساتذہ اور مقامی علماء وائمہ مساجد کو ضروری موضوعات، خصوصاً فرقِ باطلہ کے تعاقب کی تربیت دینے کے لیے پروگرام یا تربیتی کیمپ کا اہتمام کیا جائے۔

                (۳) نئے مدرسین کی تدریسی تربیت پر بھی توجہ دی جائے، نوآموز اساتذہ کا تقرر ہوتو قدیم اور باصلاحیت اساتذہ کے زیرنگرانی اُن کی تربیت کی جائے۔

موجودہ حالات

                قائدینِ ملت! چند گذارشات موجودہ حالات کی روشنی میں پیش خدمت ہیں، جن میں سب سے اہم اور ضروری بات یہ ہے کہ موجودہ عالمی یا ملکی حالات کے نتیجے میں کسی قسم کی منفی سوچ یا مایوسی کا شکار ہونے سے پرہیز کیا جائے اور مسلمانوں کو بھی مثبت اندازِ فکر کی تلقین کی جائے، برادرانِ وطن کے ساتھ رواداری اور پُرامن بقائے باہم کے اصول پر عمل کیا جائے، مدرسہ کی مصلحت کو ملحوظ رکھتے ہوئے غیرمسلم بھائیوں کو کسی مناسب پروگرام وغیرہ میں مدعو کرکے مدارس سے براہ راست واقفیت کا موقع فراہم کیا جائے، مسلمانوں کو دوسروں کے ساتھ حسن سلوک اور اسلامی اخلاق کا معاملہ کرنے کی تلقین کی جائے، واردین وصادرین پر نظر رکھی جائے، کسی مشتبہ شخص کو مدرسہ میں آمد ورفت اور قیام کی اجازت نہ دی جائے۔

رابطہٴ مدارس

                آخر میں یہ گزارش ہے کہ رابطہ مدارس اسلامیہ عربیہ کا یہ نظام جو حضرات اکابر کی توجہ کی برکت سے قائم ہوا تھا اس کو دستورالعمل کے مطابق مستحکم کرنے میں ہم سب اپنا کردار ادا کریں، بالخصوص تعلیم و تربیت کے حوالے سے پیش کی جانے والی تجاویز اور مشوروں پر عمل درآمد کا خاص اہتمام کیا جائے۔ خصوصاً اس لیے بھی کہ رابطہٴ مدارس کے اس نظام کا مقصد کوئی مادی تعاون نہیں ہے؛ بلکہ تعلیمی وانتظامی تعاون ورابطہ ہی اس کا مقصد ہے تاکہ مدارسِ اسلامیہ جو ملت کا سب سے قیمتی سرمایہ ہیں، اپنے مقاصدِ قیام کی تکمیل میں پہلے سے زیادہ سرگرم ہوکر عند اللہ وعند الناس سرخرو ہوسکیں۔ اس سے متعلق ایک ضروری گزارش یہ بھی ہے کہ رابطہ کی جانب سے دی جانے والی سند ارتباط ایک امانت کی حیثیت رکھتی ہے اس کی حفاظت فرمائیں تاکہ جس مدرسہ کو سند دی گئی ہے اسی کے لیے اُس کا استعمال ہو اور کسی کو غلط استعمال کا موقع نہ مل سکے۔

                یہاں یہ ذکر کردینا بھی مناسب معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ بالا معروضات میں جن موضوعات پر توجہ دلائی گئی ہے، اُن سے متعلق دو رسالے بھی آپ حضرات کی خدمت میں پیش کیے جارہے ہیں: ایک کا نام ہے ”اسلامی رواداری، قرآن وحدیث اور تاریخی شواہد کی روشنی میں“ اس میں اسلامی اخلاق و رواداری بالخصوص غیرمسلموں کے ساتھ کیا طرز عمل ہونا چاہیے، اس کی وضاحت کی گئی ہے۔ دوسرا رسالہ ہے ”مدارس اسلامیہ: حقیقی کردار اور نصب العین کا تحفظ، تجاویز اور مشورے“ اس میں رابطہٴ مدارس اسلامیہ کے گذشتہ بیس سالہ اجتماعات کی تجاویز کا خلاصہ آگیا ہے اور مدارس کے لیے تمام ضروری معاملات پر مناسب مشورے یک جا ہوگئے ہیں۔ یہ دونوں رسالے رابطہٴ مدارس اسلامیہ عربیہ کے ناظم عمومی جناب مولانا شوکت علی صاحب قاسمی بستوی استاذ دارالعلوم دیوبند نے مرتب کیے ہیں، آپ حضرات اُن کو بغور ملاحظہ فرمائیں۔

                گرامی قدر مہمانانِ کرام! آخر میں سمع خراشی کی معذرت چاہتے ہوئے درخواست گذار ہوں کہ ان معروضات پر بھرپور توجہ فرماکر شکرگذار فرمائیں اور یہاں تشریف آوری میں یادورانِ قیام کوئی زحمت ہوئی ہو یا ضیافت میں کوتاہی سامنے آئی ہو تو خدارا معاف فرمائیں۔

                ایک بار پھر دارالعلوم دیوبند اور اس کے تمام خدام کی جانب سے آپ حضرات کی خدمت میں ہدیہٴ تشکر پیش کرتا ہوں۔

                اللہ رب العزت اس اجلاس کو ہم سب کے لیے، تمام مدارس اور پوری ملت اسلامیہ کے لیے ذریعہ خیروبرکت بنائے، آمین!                                                                                                                                    والسلام

ابوالقاسم نعمانی غفرلہ

مہتمم دارالعلوم دیوبند

وصدر رابطہٴ مدارس اسلامیہ عربیہ

سکریٹری رپورٹ:

                حضرت صدرِ اجلاس دامت برکاتہم کے وقیع اور بصیرت افروز خطبہٴ صدارت کے بعد ناچیز راقم السطور (شوکت علی قاسمی بستوی) نے سکریٹری رپورٹ پیش کی۔ رپورٹ میں ناچیز نے عرض کیا: ”رابطہ مدارس اسلامیہ ایک ملک گیر موٴثر تنظیم ہے جس کے بنیادی مقاصد مدارس دینیہ کے نظام تعلیم وتربیت کو فعال بنانا اور درپیش مسائل ومشکلات کے ازالے کی کاوش کے ساتھ ساتھ مدارس کے خلاف کی جانے والی کوششوں اور سازشوں پر نظر رکھنا اور حتی الوسع ان کا سدباب کرنا ہے، نیز مدارس اسلامیہ عربیہ کے درمیان ہم آہنگی کو فروغ دینا، مدارس اسلامیہ کی بقاء وترقی کے لیے صحیح اور موٴثر ذرائع استعمال کرنا، جہاں ضرورت ہو وہاں مدارس ومکاتب کی جدوجہد کرنا اور مسلم معاشرے کی اصلاح اور شعائر اسلام کی حفاظت کرنا ہے۔“ نیز رپورٹ میں گذشتہ ۲۰ سالوں میں دارالعلوم دیوبند میں منعقد رابطہٴ مدارس اسلامیہ کے اجتماعات کی تجاویز اور پیش رفت کا جائزہ بھی پیش کیاگیا تھا اور مرکزی رابطہٴ مدارس اور ملک کے مختلف صوبوں میں سرگرم صوبائی رابطہٴ مدارس کی کارکردگی پر روشنی ڈالی گئی تھی۔

خطاب حضرت مولانا مفتی سعید احمد صاحب پالن پوری دامت برکاتہم

صدر المدرسین وشیخ الحدیث دارالعلوم دیوبند

                استاذ گرامی حضرت مولانا مفتی سعید احمد صاحب پالن پوری دامت برکاتہم صدرالمدرسین وشیخ الحدیث دارالعلوم دیوبند سے ”مدارسِ اسلامیہ کے نظامِ تعلیم“ کے موضوع پر خطاب کی درخواست کی گئی۔

                حمد وصلاة کے بعد حضرت والا نے رابطہ کے قیام کا پس منظر بیان فرمایا اور مدارس اسلامیہ کے نظام تعلیم میں درآئی کمزوریوں کی نشان دہی فرمائی اور اپنے طویل تعلیمی تجربات کی روشنی میں تعلیمی انحطاط کو دور کرنے کے لیے نہایت مفید مشوروں سے نوازا۔

                سلسلہٴ کلام جاری رکھتے ہوئے حضرت والا نے فرمایا کہ طلبہ میں ذاتی شوق کم ہوگیا ہے، پس کوشش کرکے ان میں ذاتی ذوق وشوق پیدا کرنا چاہیے۔

                دوسری بات: پہلے ایک نظام تھا، طلبہ اسباق کا مذاکرہ اور تکرار کرتے تھے، پھر تکرار کے لیے طلبہ مطالعہ کرتے تھے، اب اس میں کمی آگئی ہے، کیسے قابوپائیں اس پر؟ اس پر قابو پانے کی دوصورتیں ہیں، عربی چہارم تک کا ہرمدرس ہر طالب علم کا سبق سنے، چھوٹی جماعت بنادیں اور عربی چہارم تک ہر استاذ ہر طالب علم سے ہر کتاب کا سبق سنے تو جب ہوگا خواندہ یاد کرنا۔ اور عربی پنجم سے کیف ما اتفق کسی بھی طالب علم سے عبارت پڑھوائیں، حضرت علامہ کشمیری قدس اللہ سرہ کا طریقہ یہی تھا۔

                بہرحال! عربی چہارم تک قابو پانے کا صرف ایک راستہ ہے کہ جماعتیں دس سے زیادہ طالب علم کی نہیں ہونی چاہئیں اورہر استاذ طالب علم کا سبق سنے اور اس کے بعد پڑھائے اور پڑھانے میں بخاری کی طرح تقریر نہ کرے، طلبہ سے خود سبق نکلوائے کہ تم نے کیا مطالعہ کیا وہ بیان کرو، اور پھر عربی پنجم سے کیف ما اتفق کسی بھی طالب علم سے عبارت پڑھوائے۔ آج اس پر قابو پانا مشکل ہے، نیچے قابوپانے کی شکل ہے اور جب تک آپ اس پر قابونہیں پائیں گے، مطالعہ اور خواندہ یاد کرنا، ان دوپر آپ قابونہیں پائیں گے، تو بچے میں ذاتی شوق پیدا نہیں ہوگا۔

                تیسری صورت یہ ہے کہ استعداد کی پختگی کے بغیر طالب علم کو آگے نہ بڑھائیں، اگر آپ نے ایسا کیاتو طالب علم کو آپ نے کہیں کا نہیں رکھا، اس کا ستیا ناس کردیا اور استعداد کی صحیح جانچ کب ہوگی؟ جب کہ آپ امتحان میں صحیح نمبر دیں، استحقاق سے کم نمبر دینا یہ ظلم ہے اور استحقاق سے زائد نمبر دینا یہ بھی، گویا ”قَتَلْتَ عُنُقَ أخِیْکَ“ کا مصداق ہے، ایک صحابی تھے جنھوں نے دوسرے صحابی کی حضور کے سامنے تعریف کی، آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ ”قَتَلْتَ عُنُقَ أخِیْکَ“ اس لیے صحیح جانچ کے بعد جس نمبر کا طالب علم مستحق ہے وہی نمبر دینا چاہیے۔

                اس لیے اس طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ امتحان کا نظام مستحکم کریں، مستحکم کا مطلب یہ ہے کہ صحیح جانچ کرکے استحقاق کے مطابق نمبر دیں، طالب علم محنت کرے گا۔

                حضرت علامہ محمد ابراہیم صاحب بلیاوی قدس سرہ کے زمانے میں جب جب تبدیلی نصاب کا موضوع چھڑتا تھا تو حضرت فرماتے تھے: تعلیم کی خوبی کا مدار تین چیزوں پر ہے: (۱) طالب علم کی محنت (۲) استاذ کی مہارتِ فن (۳) اور نصاب کی خوبی۔

                یہ تین چیزیں اگر جمع ہیں تو نتیجہ شاندار نکلے گا، اب طالب علم اگر محنت نہ کریں تو طلبہ سے تو کچھ کہہ نہیں سکتے، یہ تو بھڑوں کا چھتہ ہے، کون ہاتھ ڈالے اس میں، اسٹرائک کردیں گے۔ دوسری چیز ہے اساتذہ کی مہارت فن، تو یہ توزبردست قوم ہے ان سے کوئی کیاکچھ کہہ سکتا ہے، ذرا ذراسی نزاکت پر ناراض ہوجاتے ہیں اساتذہ، ان سے کون کیا کہہ سکتا ہے، اب رہ گیا بے زبان نصاب، کبھی اس کتاب کو نکال دو کبھی اس کو داخل کردو، اس سے کوئی خاص نتیجہ برآمد نہیں ہوتا۔

                اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ تدریس کے لیے باصلاحیت اور ماہرِ فن اساتذہ کا تقرر کیاجائے، مگر اب صورت حال یہ ہے کہ مدرسے والے ایسا مدرس ڈھونڈتے ہیں، جو کم سے کم تنخواہ لے، جس درجہ کی کتابیں اس کو دی جارہی ہیں اس درجہ کی کتابیں پڑھانے کے قابل ہے بھی یا نہیں؟ اگر وہ اس کے قابل نہیں ہے تو وہ کیا علم منتقل کرے گا؟

                لہٰذا باصلاحیت اساتذہ رکھے جائیں، ان کی تربیت کی جائے، ایسے افراد کی آپ حضرت تربیت کریں، دارالعلوم دیوبند بھی تربیت کرے ایسے افراد کی، اور دوسرے مدرسے والے بھی تربیت کریں، دوسرے مدرسے والے کیسے تربیت کریں؟ انھوں نے اپنے یہاں کا ایک ذہین طالب علم دارالعلوم میں داخل کیا ہے، جب دارالعلوم سے فارغ ہوتو فوراً اس کو پکڑیں اور ہر طرح سے اس کی دست گیری کریں، اس درجہ دست گیری کریں کہ وہ دنیا کی فکر سے فارغ ہوجائے۔ ان امور کا لحاظ کرنے سے ان شاء اللہ نظامِ تعلیم میں بہتری اوراستحکام آئے گا۔

خطاب حضرت مولانا قمرالدین صاحب دامت برکاتہم، استاذ حدیث دارالعلوم دیوبند

                حضرت والا زیدمجدہم نے ”مدارسِ اسلامیہ کا نظامِ تربیت“ کے موضوع پر اپنے خطاب میں فرمایا :

                ”حضرت مولانا محمد منظور صاحب نعمانی نے ایک موقع پر فرمایا تھا کہ حجة الاسلام حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی اور دوسرے اکابر جو اس وقت موجود تھے، ہندوستان میں دوسری جگہ ویسے علم رکھنے والے اور علماء بھی تھے: حضرت مولانا عبدالحئی فرنگی محلی علیہ الرحمہ اور دوسرے حضرات بھی تھے، لیکن طرئہ امتیاز اس ادارے کا اور اپنے اکابر کا تقویٰ اور خشیت باری ہے۔

                ایک واقعہ مجھے یاد آیا، دارالعلوم دیوبند کے ایک مہتمم (حضرت مولانا منیراحمد) صاحب تھے، نانوتہ کے رہنے والے، دارالعلوم کے کام سے دہلی تشریف لے گئے رقم لے کر اور بلا ان کی تعدی کے وہ رقم چوری ہوگئی، سرخیل جماعت حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی موجود ہیں، جن کو فقیہ النفس کہا جاتا ہے، ہم نے شاہ وصی اللہ صاحب سے سنا تھا کہ اخلاص کے ساتھ جو حضرت کی مجلس میں بیٹھ جاتا تھا اسے بھی اللہ کی نسبت مل جاتی تھی، حضرت گنگوہی نے فرمایا کہ مہتمم صاحب سے یہ مال چونکہ بلاتعدی ضائع ہوا ہے، اس لیے ان پر ضمان اور تاوان نہیں ہے، لوگوں نے مہتمم صاحب سے کہا تو کہنے لگے: کہ اگر مولانا گنگوہی کے ساتھ یہ پیش آتاتو کیا مسئلہ پر عمل کرتے؟ میں اپنی جائیداد بیچوں گا اور پوری رقم مدرسے کے اندر داخل کروں گا اور انھوں نے ایسا کیا بھی، تو یہ طرئہ امتیاز تھا آپ کے اکابر کا، جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

                لاَ ایْمَانَ لِمَنْ لاَ اَمَانَةَ لَہُ، وَلاَ دِیْنَ لِمَنْ لاَ عَھْدَ لَہ․

                ”اگر آدمی میں امانت داری نہیں تو اس کے ایمان کا اعتبار نہیں اور جس شخص میں عہد کی پاسداری نہیں تو اس کے دین کا کوئی اعتبار نہیں۔“

                تو میرے بزرگو اور دوستو! اپنے اکابر میں خشیت، ایمان داری، دیانت داری، اتباع سنت کے جذبات تھے، تو ان کا فیض عام اور تام ہوا، دارالعلوم دیوبند سے جو اس زمانے میں فارغ ہوتا تھا اور اپنے علاقے میں جاتا تھا تو دور دراز سے لوگ اس کی زیارت کرنے جاتے تھے، تاکہ اس کی وضع قطع دیکھیں، اس کا چلنا پھرنا دیکھیں، وہ متبع سنت ہوا کرتا تھا اور میرے بزرگو اور دوستو! یہ اتباع سنت کا جذبہ، یہ امانت ودیانت کا جذبہ پیداہوتا ہے دیانت داروں کی صحبت سے، جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کو آپ دیکھئے۔ اللہ نے انھیں چن لیا تھا اپنے نبی کی صحبت کے لیے صحبت بڑی چیز ہے، اللہ والوں کی صحبت سے آدمی اللہ والا بنتا ہے۔

                تو میرے دوستو بزرگو! یہ خشیت، یہ دیانت، یہ امانت خشیت والوں کی صحبت سے آئے گی، متبعین سنت کے پاس رہنے سے آئے گی، قرآن کہتا ہے کہ: انّمَا یَخْشَی اللہَ مِنْ عِبَادِہِ العُلَمَاءُ․

                علم کے ساتھ خشیت ہونی چاہیے، اگر خشیت نہیں ہے، حلال وحرام میں تمیز نہیں کرتا، جو مال آتا ہے وہ لے لیتا ہے، میں نے سنا ہے کہ بعض چندہ کرنے والے بمبئی کے اندر فلموں میں کام کرنے والے لوگوں سے بھی چندہ لے لیتے ہیں، یہ نہیں دیکھتے کہ یہ جائز ہے یا ناجائز ہے، تو اس پہ لوگ پلیں گے تو ان کا کیاحال ہوگا؟ تو ہمیں ضرورت ہے کہ علم کے ساتھ ہمارے اندر خوفِ خدا ہو، ہماری جلوت اور خلوت دونوں صحیح ہوں، اس کا التزام کریں طلبہ بھی۔

                اس لیے طلبہ کو بھی اورہم سب کو بھی علم کی رغبت کرنی چاہیے اور خشیت ہونی چاہیے، اگر یہ بات ہوگی تو پھر راہیں کھلیں گی، کتابیں وہی ہم لوگ بھی پڑھتے ہیں جو اکابر نے پڑھیں؛ لیکن علم میں ان کے گہرائی اور گیرائی اس لیے تھی کہ وہ صاحبِ خشیت تھے، وہ ڈرنے والے تھے، اللہ سے خوف کرنے والے تھے، اس لیے ان کے علم میں گہرائی وگیرائی تھی۔“

خطاب حضرت مولانا ریاست علی صاحب بجنوری دامت برکاتہم، استاذ حدیث دارالعلوم

                موجودہ ملکی حالات میں مدارس کو درپیش مسائل اور لائحہٴ عمل کے موضوع پر حضرت والا دامت برکاتہم نے اپنے خطاب میں حمدوصلاة کے بعد فرمایا:

                صدرمحترم، علماء کرام اور آنے والے مخلص احباب!

                ”مولانا شوکت علی صاحب زیدمجدہم نے جس عنوان کا اعلان کیا ہے، اس کے تین جزو ہیں: ایک ٹکرا ہے ”موجودہ حالات“ ایک ٹکڑا ہے ”مدارس عربیہ کی مشکلات“ اور ایک تیسرا ٹکڑا ہے ”ان کا حل“۔ ہمیں جو مشکلات درپیش ہیں وہ کچھ تو ہیں سرکاری، اربابِ اقتدار کی جانب سے اور کچھ ہیں ہماری اندرونی اور نجی، سرکاری مشکلات میں تو ہے مدار س کی مخالفت، دینی مدارس کو سرکاری امداد وغیرہ۔ سرکار تو کہتی ہے کہ بھئی ہم تو مدد دے رہے ہیں، پچھلے اجلاسوں میں اس کا بہت تذکرہ آتا رہا، دنیا جانتی ہے کہ جن اداروں نے وہ مدد لی وہ اپنی کارکردگی کے اعتبار صفر ہوگئے، حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے ہی فرمادیا ہے کہ دنیا حاصل کرنے کے لیے لوگ امراء کے پاس جائیں گے، حضرت ابن عباس کی روایت ہے کہ لوگ قرآن کریم پڑھیں گے، تفقہ حاصل کریں گے اور وہ کہیں گے کہ امراء کے پاس جائیں، ان سے دنیا حاصل کرلیں، دین کو ہم بچالائیں گے، ہم تو دین کو بچانے میں تجربہ رکھتے ہیں، پیغمبر علیہ السلام کہتے ہیں ”لا یکون ذلک“ کہ ہوگا نہیں، آپ نے صاف کہہ دیا کہ اگر امراء کے پاس دنیا حاصل کرنے کے لیے گئے تو دین کی حفاظت ہونہیں سکتی ”لا یکون ذلک“۔ آپ نے مثال دی کہ جیسے کانٹے دار درخت سے کانٹے ہی ملتے ہیں پھل نہیں ملتے، اسی طرح امراء کی قربت سے نقصان ہی ملے گا، ہدایت ہاتھ نہیں آئے گی، تو اس لیے بہت سے مدارس والے بچتے ہیں اور بچنا ہی چاہیے، ایک تو مشکل ہماری یہ ہے، اصل میں ہمارے جو یہ ادارے ہیں ان اداروں میں اللہ کا فضل یہ ہے کہ جمہوری طور پر، آئینی طور پر ہر اقلیت اپنے مذہب کے مطابق اقلیتی ادارے قائم کرنے کی حقدار ہے، وہ حق ان کو ملا ہوا ہے اور اقلیتی ادارے قائم کرنے کا جو حق ہے، اس میں اقلیت خود خرچ کرے گی، اقلیت خود اس کا انتظام کرے گی، اگر یہ اقلیت انتظام نہیں کرتی اوراس کو سرکار سے مدد لینا پڑتی ہے تو سرکار مداخلت کرے گی، تو یہ رائے کہ ہم اپنے دینی ادارے قائم کریں دستور اساسی ہند کی بنیاد پر ہے، مگر دستورِ اساسی کی اس اجازت کے بعد جو تعاون کی پیش کش کرتے ہیں وہ ہے روح کو فنا کرنے کی کوشش اور یہ کرتے ہیں ہماری کمزوریوں سے فائدہ اٹھاکر، الزامات عائد کرکے، جھوٹے بھی الزام ہوتے ہیں سچے بھی الزام ہوتے ہیں، ان میں آتا ہے ہمارے حساب وکتاب کی کمزوری، ہمارے ایک دوسرے کے حقوق کو ادا نہ کرنے کی کمزوری، ہمارے انتظامیہ کے اندر پائی جانے والی کمزوری یہ اس کا سبب بنتی ہے، تو بھائیو! سرکاری مداخلت سے بچنے کے لیے تو ضروری ہے کہ آپ خود اپنا انتظام کریں، اُدھر نہ جائیں، اُدھر جائیں گے، آپ کی روح فنا ہوجائے گی، دینی تعلیم جو ان مدارس میں دے رہے ہیں وہ باقی نہیں رہے گی۔

                اس لیے ہمیں ہرمدرسے کا اپنا دستورِ اساسی بنانا چاہیے، رجسٹریشن کرانا چاہیے، دستورِ اساسی پر عمل کرنا چاہیے، شوریٰ قائم کرنی چاہیے، شوریٰ کے طریقے دو ہیں: ایک تو ہمارے دارالعلوم کی شوریٰ ہے، دارالعلوم میں شوریٰ ہیئت حاکمہ ہے، حضرت مہتمم صاحب شوریٰ کا مطابق عمل درآمد کریں گے، لیکن جو لوگ اس طرح کی شوریٰ سے بچنا چاہتے ہیں تو وہ شوریٰ قائم کریں اور اس کو ہیئت حاکمہ نہ بنائیں، لیکن مشورے کے لیے لوگوں کو بلایا کریں اور اس پر مشورہ کرکے اس کے مطابق عمل درآمد کریں اور یہ کہ حقوق، طلبہ اساتذہ کے، اساتذہ طلبہ کے، انتظامیہ طلبہ کے حقوق ادا کریں، ذمہ دارانِ مدارس اساتذہ اور ملازمین سے محنت لیتے ہیں؛ لیکن بھرپور معاوضہ دینے کے لیے تیار نہیں ہیں؛ اس لیے ذمہ دارانِ مدارس کو اساتذہ اور ملازمین کو تنخواہ کا معیار بھی بہتر بنانا چاہیے۔“

                اس کے بعد ناچیز راقم السطور نے (شوکت علی قاسمی بستوی) نے حضرت صدر اجلاس دامت برکاتہم کے حکم سے اجلاس کی پہلی تجویزپڑھ کر سنائی، (تمام تجاویز آخر میں ملاخطہ فرمائیں) پھر تجویز کی تائید سے متعلق اہم خطابات ہوئے۔

خطاب حضرت مولانا سیدمحمود اسعد مدنی زیدمجدہم، سابق ممبرپارلیمنٹ

                اجلاس کے مدعوخصوصی حضرت مولانا سید محموداسعد مدنی صاحب زیدمجدہم نے اپنے اہم خطاب میں فرمایا:

                ”موجودہ حالات میں مدارس کا کردار اور اس کے سامنے جو چیلنج ہیں، مولانا ریاست علی صاحب زیدمجدہم نے اس کی تقسیم بھی اچھے اندازسے فرمادی کہ ایک ہے سرکار کا معاملہ، دستوری طور پر ہم آزاد ہیں اور کوئی ہمارے اس حق کو بظاہر چھین نہیں سکتا، البتہ ہماری اندرونی جو کمزوریاں ہیں اگر ان کا ہم نے علاج نہیں کیا اور ایسے ہی کیف مااتفق معاملہ چلتا رہا، تو کچھ اداروں کو پریشانیاں مستقبل قریب میں بھی آسکتی ہیں، ان پریشانیوں میں ایک پریشانی ایسی ہے جس کا ذکر ابھی تک نہیں آیا ہے، وہ ہے خصوصاً مدارس میں یا مکاتب میں چھوٹے بچوں کے ساتھ ان کی تربیت کرنے کے لیے یا تعلیم دینے کے لیے جو سخت رویہ اختیار کیا جاتا ہے اور وہ مارپیٹ تک پہنچ جاتا ہے، تو اب ہندوستان میں قانون بن گیا ہے کہ بچے کو مارا نہیں جاسکتا اور اب تو والدین کے لیے بھی قانون بنانے جارہے ہیں، ہندوستان نہیں چاہتا؛ لیکن یونائٹیڈنیشن کاجوچارٹر ہے اس کے مطابق بچے کو زجر وتوبیخ کرنے کا اس حدتک کہ مارنے کی نوبت آئے والدین کو بھی حق نہیں ہے، تو اب بریلی کے کسی مدرسے میں اتنا مارا استاذ نے کہ طالب علم بے ہوش ہوگیا، اب استاذ صاحب فرار ہیں، ان کے خلاف ایف آئی آر ہوچکی ہے اور بچہ ہسپتال میں ہے، اس کی ریڑھ کی ہڈی پہ چوٹ آئی ہے، تو مارنے کا سلسلہ مدرسوں میں بالکل بند ہونا چاہیے، ورنہ مستقبل میں مدرسوں کو پریشانیاں آئیں گی اور میں یہ سمجھتاہوں، نفسیات کے اعتبار سے جتنا کچھ سنا ہے میں نے لوگوں سے کہ جس بچے کو مارکے پڑھایا جاتاہے اس بچے کے اندر شوق ختم ہوجاتاہے۔

                ہمارے حضرت پیرفقیر ذوالفقار علی صاحب نقشبندی دامت برکاتہم عجیب بات فرماتے ہیں، وہ فرماتے ہیں کہ اگراستاذ نے طالب علم کو ڈانٹ بھی دیا تو سمجھو اس کاہارٹ فیل ہے، ڈانٹنے سے بھی استاذ کی ناکامی ہے، استاذ کی کامیابی اس میں ہے کہ جیسا کہ حضرت مولانا شیخ سعیدصاحب پالن پوری دامت برکاتہم نے فرمایاکہ بچے کے اندر شوق پیدا کیا جائے، تو شوق تو سختی کے ذریعہ پیدا ہی نہیں کیاجاسکتا، نہ مارنے سے پیدا کیاجاسکتا ہے؛ بلکہ ختم کیاجاسکتا ہے، جس میں تھوڑا بہت شوق ہوگا بھی تو اگر مارپٹائی ہوگی یا ڈانٹ ہوگی تو وہ تو گیا۔

                تدریب المعلمین کے حوالے سے حضرت یہ فرمارہے تھے کہ ایک سال کا کورس ہوتا ہے، اب تک تو ایک سال کا ہوتا تھا تربیت کا اب وہ دوسال کا کردیا گیا ہے اور اس میں سب سے اہم موضوع جو ہوتا ہے وہ نفسیات کا ہوتا ہے،اگر ایک معلّم نفسیات نہیں سمجھتا، تھوڑی بہت بھی بنیادی شدبدبھی ہوجائے نفسیات کی تو بچے کو کامیاب کرنے میں کافی بڑا کردار ہوتا ہے نفسیات کا کہ بچے کو کس طرح سے موڑنا ہے، اس کے اندر کس طرح سے شوق پیدا کرنا ہے، تو پورے ایک سال کاکورس چلانا چاہیے اور وسیع پیمانے پر ہونا چاہیے، جو طالب علم ۴۴/اوسط نمبر سے کم بھی رہ گئے ہوں ان کو بھی موقع ملنا چاہیے، کیونکہ کم نمبروالوں میں بھی منتقل کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے، ان سے فائدہ اٹھایا جائے، ان کی صلاحیتوں کو جانچ لیا جائے داخلہ لینے سے پہلے؛ لیکن اس کو ذرا وسیع کرنا چاہیے۔

                ایک مسئلہ اور پیش آرہا ہے جو اسلام سے متعلق ہے، جو بچے اسکولوں اور کالجوں میں پڑھتے ہیں، ان میںآ ج کل ایک بڑا مسئلہ چلا ہوا ہے ”لوجہاد“ کا، اس کا نشانہ مسلمان ہیں۔ الزام ہے کہ مسلمان غیرمسلم لڑکیوں کو ورغلاکر شادی کررہے ہیں، یہ ایک مسئلہ ہے اور سیاسی ہے، لیکن حقیقت بھی اس میں کچھ ہے کہ کالجوں میں پڑھنے والے لڑکے اور لڑکیاں مذہب سے اوپر اٹھ کر، مذہب سے ان کا کوئی لینا دینا نہیں، وہ آپس میں شادیاں کررہے ہیں، تو یہ معاملہ صرف یک طرفہ نہیں ہے دوطرفہ ہے، مسلمان بچیاں بھی غیرمسلموں کے ساتھ جارہی ہیں اور ہر ضلع میں ایسے واقعات ہورہے ہیں اس کو چھپایا جاتاہے، خاندان والے چھپاتے ہیں اچھی بات ہے، لیکن ہمیں تو اس پر ضرور غور کرنا چاہیے، فکر کرنی چاہیے کہ ایسا ماحول ہوگیا ہے کہ مسلمان بچیاں بھی غیرمسلموں کے ساتھ جارہی ہیں اور ہر ضلع میں ہرعلاقے میں جارہی ہیں، تعداد ان کی چاہے پندرہ سترہ ہو ہر ضلع میں لیکن ہے اور کہیں ڈیڑھ دو سو بھی ہے، کچھ اضلاع ایسے ہیں، کچھ علاقے ایسے ہیں، کچھ شہر ایسے ہیں، یہ بات ڈائریکٹ مدارس سے متعلق نہیں ہے، لیکن یہ بات رابطہٴ مدارس کے صدرمحترم حضرت مہتمم صاحب دامت برکاتہم نے اپنے خطبہ صدارت میں جو فرمائی ہے دس فیصد اپنے بجٹ کا مکاتب پر خرچ کرنا، اس پر عمل نہیں ہورہاہے، بہت پہلے سے یہ تجویز ہے، اس پر بہت کوششیں ہوئی ہیں، اگر ہم نے مکاتب کی طرف توجہ نہیں دی تو پھر عام مسلمانوں کا یہی حال ہوگا، ارتداد بھی ہورہا ہے، ڈائریکٹ ارتداد بھی ہورہا ہے، عیسائی بھی بنائے جارہے ہیں، قادیانی بھی بنائے جارہے ہیں اوریہ جو بڑی بڑی مسلمانوں کی جو مضبوط آبادیاں ہیں، جہاں یہ نہیں ہوسکتا اس طرح سے وہاں اس طرح ہورہا ہے کہ لڑکے لڑکیاں اسکولوں اورکالجوں میں مخلوط تعلیم حاصل کرتے ہیں اور وہاں دوستی ہوجاتی ہے اور وہ بڑھ کرآگے تک چلی جاتی ہے، تو یہ مکاتب کی بات جو ہے وہ اسلام سے متعلق ہے اور اس کے اوپر ہمارے علماء کو خاص طور سے توجہ دینی چاہیے۔

                مکاتب کے لیے علماء نہیں ملتے ہیں، مکاتب میں پڑھانے والے لوگ نہیں ملتے ہیں، یہ شکایت سب جگہ ہے، سب کام کرنے والے کو جو بھی اس عنوان کے تحت کام کرتے ہیں ادارے یا تنظیمیں ہیں ان کی یہ شکایت ہے کہ ہمیں علماء نہیں مل رہے ہیں، علماء کی اتنی تعداد ہوگئی ہے پھر بھی نہیں مل رہے ہیں، کیونکہ دیہی علاقوں میں چھوٹی جگہوں پر کوئی چھوٹی کتابیں نورانی قاعدہ پڑھانے کے لیے تیار نہیں ہے، فضلاء کی خواہش ہوتی ہے بڑی کتاب بخاری وغیرہ پڑھانے کا موقع ملے، اگر نہیں موقع ملتا اپنا مدرسہ بنالیں گے، ایک مدرسے کے برابر میں دوسرا مدرسہ بنالیں گے، معیار گررہا ہے مدرسے بڑھ رہے ہیں، حالانکہ مدرسوں کی ضرورت ہے لیکن اس سے زیادہ ضرورت مکاتب کی ہے۔ اسی طرح مدارس اور مکاتب کے بچوں کی ورزش وغیرہ اور امورِ صحت کا لحاظ بھی ضروری ہے۔

خطاب حضرت مولانا اسرار الحق صاحب قاسمی دارمت برکاتہم

                مدعوخصوصی حضرت مولانا اسرار الحق صاحب قاسمی زیدمجدہم رکن پارلیمنٹ نے اپنے خصوصی خطاب میں فرمایا:

                ”قابل احترام صدر اجلاس اور دارالعلوم دیوبند کے مہتمم حضرت مولانا مفتی ابوالقاسم صاحب نعمانی دامت برکاتہم، اسٹیج پر تشریف فرمااکابر ملت، علمائے کرام، ملک بھر سے تشریف لائے ہوئے رابطہٴ مدارس کے عہدے داران اور طلبہٴ عزیز!

                تعلیم وتربیت اور مدرسے کو درپیش موجودہ مسائل اور لائحہٴ عمل پر مجھ سے پہلے بصیرت افروز باتیں آپ کے سامنے آچکی ہیں اور جتنی باتیں کہی گئیں ہیں سب سے پہلے میں ان سے اتفاق کرتاہوں، اس کے بعد اس میں کچھ جوڑنا چاہتا ہوں۔

                آپ اور ہم سب کو اس بات کا یقین ہے کہ اس دنیا میں انسان کے لیے ابدی ہدایت اسلام ہے، یہ ابدی رہنمائی ہے، اللہ تعالیٰ نے اسلام کی صورت میں ایسے تمام بنیادی اصول پیش فرمادیے ہیں کہ جن پر چل کر یہ انسان انصاف اور سچائی پر قائم رہ سکتا ہے۔ اس کے علاوہ دوسری چیز اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ ہوئی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت فرمائی اور یہ تمام اصول جو انھوں نے انسانیت کے لیے بیان کیے جو قرآن مجید کی شکل میں ہمارے پاس ہیں، ان تمام اصولوں کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں اس کو عمل کراکے ہمارے لیے ایک عملی نمونہ پیش کیا، تو ایک ہمارے پاس قرآن ہے اور ایک نبی کریم علیہ السلام کی سنت ہے، یعنی کہ ایک ہمارے لیے فکری رہ نمائی ہے اور ایک ہمارے لیے عملی رہ نمائی ہے، قرآن ہمارے لیے فکری رہ نمائی ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہمارے لیے عملی رہ نمائی ہے، یہ اہتمام اس امت کے لیے کیاگیا کہ اب تاجِ نبوت کی ذمہ داری اس امت کی ہے، انسانیت کے فلاح وبہبود کے لیے جو اصول اللہ نے نازل فرمائے اورنبی کریم کی سیرت کی شکل میں اس کا ایک عملی نمونہ ایک شاندار تاریخ کی حیثیت سے جو ہمارے سامنے موجود ہے انھیں دونوں کو سہارا بناکر اب یہ امت تا قیامت اللہ کے اس پیغام کو پہنچا بھی سکتی ہے، اس پر عمل بھی کرسکتی ہے۔

                رہ نمائی کے لیے دو چیزیں ضروری ہیں: ایک تو یہ کہ زبان طاقتور ہو، دوسرا یہ کہ ضمیر روشن ہو، اگر طاقتور زبان انسان کے پاس ہو اور روشن ضمیر نہ ہو تو وہ رہنمائی کا فریضہ انجام نہیں دے سکتا، یہ ایک قائدکے لیے، ایک رہ نما کے لیے زبان کا طاقتور ہونا بھی ضروری ہے اور ضمیر کا روشن ہونا بھی ضروری ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے نبی کے منصبِ نبوت کے لیے دونوں ذمہ داریوں کا ذکر کیا کہ ”یَتْلو عَلَیْھِمْ آیٰتِہ وَیُزَکِّیْھِمْ“ پیش کیا اور تزکیہ کے لیے نظامِ تربیت ہے، یہ نظامِ تعلیم و تربیت کو قیامت تک زندہ رکھنا اور اس کے ذریعہ اللہ کے پیغام کو پوری دنیا کے انسان تک پہنچانا یہ اس امت کی ذمہ داری ہے۔

                اب میں ہندوستان کے حوالے سے آپ سب سے عرض کررہاہوں، میں فخر کے ساتھ اس بات کو کہہ سکتا ہوں کہ ہندوستان میں اس ذمہ داری کو ہمارے علماء اور مشائخ نے ہر دور میں بہتر طریقہ پر انجام دیا، پوری اسلام کی تاریخ میں یعنی ایک ایجابی اقدام اور ایک دفاعی اقدام بھی کیاہے، ایک اشاعتِ دین اور ایک دفاعِ دین، اشاعت دین اور دفاع دین اس امت کی ذمہ داری ہے۔

                ہندوستان میں ایک وقت آیاکہ اکبر کے زمانے میں ”دین الٰہی“ آیاتو اس فتنہ کو مٹانے کے لیے مجدد الف ثانی حضرت شیخ احمد سرہندی کھڑے ہوئے، انھوں نے ایجابی اقدام بھی کیا اور دفاعی اقدام یہ کیا کہ جہانگیر کا نظام فنش (Finish) کرکے ان کو اپنی غلامی میں داخل کیا اور ایجابی اقدام یہ کہا کہ انھوں نے اس خاندان کے اندر تعلیم وتربیت کا نظام قائم کیا۔ آپ نے خواجہ معصوم کے ذریعہ شروع کرکے اورنگ زیب عالمگیر جیسا ولی اور بادشاہ پیدا کیا، اس تعلیم و تربیت کے نتیجہ میں پھر ہندوستان میں اشاعتِ دین بھی ہوتی رہی اور بقائے دین بھی ہوتا رہا اور ایک دو رآیا کہ عالمگیر کا انتقال ہوگیا تو وہ قوت پھر سامنے آئی کہ اللہ تعالیٰ نے عالمگیر کے انتقال کے بعد،۱۷۰۷/ میں اس کا انتقال ہوا، اور مرضی الٰہی یہ ہے کہ یہاں دین قائم رہے، ۱۷۰۳/ میں شاہ ولی اللہ پیداہوئے، اب شاہ ولی اللہ نے اشاعتِ دین اور دفاعِ دین کی خدمت انجام دی، چنانچہ حجة اللہ البالغہ لکھ کر انھوں نے دفاع کیا، اسلام کے خلاف جو اعتراضات تھے اورانھوں نے قرآن شریف کاترجمہ کرکے، قرآن کو عام کرکے یہ ایجابی اقدام کیا اور پھر ہندوستان میں اسلام کی بنیاد کو پھر کھڑاکردیا۔

                اس کے بعد حضرت شاہ ولی اللہ کے فکر کا ترجمان یہ دارالعلوم دیوبند، حاجی امداد اللہ اور حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی اور حضرت مولانا قاسم نانوتوی کی شکل میں یہ قافلہ آگے بڑھا اور ۱۸۵۷/ کے تمام حالات کا مقابلہ کرتے ہوئے ۱۸۶۶/ میں دارالعلوم کی بنیاد قائم کرکے ایجابی اقدام اٹھایا اور اس کے ذریعہ سے ہندوستان میں دین کو مستحکم کیا اوران شاء اللہ اس کی روشنی قیامت تک پھیلتی رہے گی۔

                آج ہم پر یہ ذمہ داری آگئی ہے، اب یہ ذمہ داری ہم اور آپ جو یہاں بیٹھے ہیں ہم پر آگئی ہے، بڑی ذمہ داری، اس کو جس طریقے پر جو حالات پیش آئیں ان حالات پر غور کرنا ہے، مایوس نہیں ہونا ہے، اسلام کا ایک مزاج ہے کہ جب ہم غفلت میں مبتلا ہوجاتے ہیں اور ہمارے یہاں افراد کی کمی ہوجاتی ہے، تو مکہ کا تیرہ سالہ دور آجاتا ہے؛ تاکہ صحابہ کرام جیسی جماعتوں کو تیار کرلیا جائے، اگر ہمارے اوپر حالات اس طرح سے آتے ہیں تو پھر ۱۸۵۷/ جیسا دور آجاتا ہے تاکہ ایک قافلہ، ایک جماعت تیار کرلی جائے،اگر آج اس طرح کے حالات اس ملک میں پیش آگئے ہیں تو پھر ہم کو گھبرانے کے بجائے اپنی طاقت اور زبان کے ذریعہ ان حالات کو بدلنے کے لیے اقدام کرنا ہے،اور اس کے لیے ایجابی قدم بھی اٹھانا ہے اور اس کے لیے ہم کو دفاعی قدم بھی اٹھانا ہے۔

                ہم کو مثبت طریقہ استعمال کرنا چاہیے اور مثبت طریقہ پر دلائل کو پیش کرکے اپنی بات پیش کرنا چاہیے اور ان کے ذہن ودماغ کو ٹھیک کرنا چاہیے، میں گزارش کروں گا رابطہٴ مدارس کے ذمہ داران سے کہ میری اس گزارش پر غور کریں۔

                دفاعی سلسلے میں میرے ذہن میں ایک تجویز ہے، میں کئی بار لکھ بھی چکا ہوں اپنے مضامین کے اندر، پھر میں آج آپ کے سامنے گزارش کررہا ہوں۔ اس وقت آرایس ایس نے پورے ملک کے اندر ہمارے مدارس میں تین باتیں پھیلادی ہیں، غیرمسلموں کے ایک ایک شخص کو ہمارے خلاف انھوں نے تین باتیں پہنچائی ہیں۔

                پہلی بات انھوں نے یہ پہنچائی ہے کہ ان مدارس کے اندر جو نصاب ہے، اس کے اندر کافروں کو قتل کرنے کی تعلیم دی جارہی ہے ”وَاقْتُلُوھُمْ حَیْثُ ثَقِفْتُمُوْھُم“ کی آیت کو وہ غلط طریقہ پر پیش کرتے ہیں، اس کے اندر جو ہے ”مارو دیکھتے ہی مارو“ اس کا ضمیر کا مرجع ظالم ہے کافر نہیں، کیونکہ یہ ان حالات کے پس منظر میں یہ آیات ہیں جب مکہ میں مسلمانوں پر ایک طرح کا سخت ظلم ہورہا تھا، صحابہ نے کسی عورت کی حرمت تک کو پامال نہیں کیا تھا، کسی کی جائداد نہیں حاصل کی تھی، لوٹا نہیں تھا۔

                دوسری بات انھوں نے سمجھا دی کہ ان مدرسوں کے اندر بم بن رہے ہیں، ان مدرسوں کے اندر تہہ خانے بنے ہوئے ہیں اور ان تہہ خانوں کے اندر ہتھیار رکھے ہوئے ہیں اور ان کو ٹریننگ دی جاتی ہے۔

                میں نے کئی بار لکھا کالم میں کہ پندرہ اگست میری تقریب ہے، اگر یہ مدارس نہیں ہوتے تو ہندوستان آزاد نہیں ہوتا، یہ میں کہتا ہوں کہ سب سے پہلے نقشہ آزادی کی جنگ کا جنھوں نے قائم کیا ہے وہ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ہیں، انھوں نے پہلے ٹیم بنائی ہے۔ ۱۸۰۳/ میں اسی خاکہ میں رنگ بھرنے کے لیے شاہ عبدالعزیز نے قدم بڑھایا اورآزادی کی پہلی تحریک چلائی جس کو سیداحمد شہید لے کر آگے بڑھے، اگر اس وقت ان لوگوں نے یہ محنت نہ کی ہوتی تو ہندوستان آزاد نہیں ہوتا، اس لیے آزادی کی تقریب منانے کا اس ملک میں سب سے زیادہ ہم کو حق ہے، مدارس کو حق ہے۔ آپ مدارس میں آئیے ۱۵/اگست کو اور آپ غیرمسلموں میں پڑھا لکھا طبقہ،اچھے لوگوں کوجمع کیجئے، سوکوپچاس کو جتنوں کو جمع کرسکتے ہوں اور ایک کلیدی خطبہ تیار کیجئے دس منٹ کا، یہ میری تجویز ہے،اگر آپ کو پسند ہوتو آپ کریں، آپ ایک کلیدی خطبہ تیار کیجئے اور اس کلیدی خطبہ کے اندر آزادی کا ذکر کرنے کے ساتھ ساتھ یہ تین شقوں کا جواب دیجئے، رحمة للعالمین اور رب العالمین کی روشنی میں آپ کا جو آفاقی اور انسانی نصاب ہے اس کا اس کے اندر ذکر کیجئے،جس طرح دلائل اندرونی آپ کے ہیں ان کا آپ ذکر کیجئے، مدرسے کے ذرائع آمدنی کیا ہیں؟ ان کا آپ ذکر کیجئے اور یہ دونوں چیزیں ان کو سمجھانے کے بعد ان سے کہیے کہ آپ ہمارے مدرسے میں آئے ہیں تو آپ ہمارے ساتھ گھوم لیں، ہمارا مدرسہ دیکھ لیں، آپ ان کو مدرسہ دکھادیجئے، آپ دیکھیں گے کہ کتنا فرق پڑتاہے۔

                ہمارے مدرسوں میں چار فیصد بچے جو پڑھ رہے ہیں، ہندوستان کے مسلمانوں کے بچوں میں ۱۰۰/میں سے ۴/بچے مدرسوں میں ہیں، باقی بچے مدرسے سے باہر ہیں، جو مدرسے سے باہر ہیں ان میں سے ۵۲ فیصد بچے اسکولوں میں پڑھ رہے ہیں، ابھی رپورٹ آئی ہے کہ نوسو نوے کروڑ بچے اسکول کے اندر ہیں، ان میں سے سات لاکھ باہر ہیں، ابھی پچھلے ہفتے رپورٹ آئی ہے، ان سات لاکھ بچوں میں ۲۵ فیصد بچے مسلمانوں کے ہیں، جو اسکول اور مدرسوں سے باہر ہیں، ہماری یہ ذمہ داری ہے کہ جو مدرسے کے بچے وہاں پڑھاتے ہیں، دین کی تعلیم کے ساتھ ان کا دینی مزاج بنائیں، میں دینی تعلیم دے رہا ہوں لیکن دینی مزاج نہیں بناسکتا ہوں، ہم کو یہ مزاج بنانا چاہیے کہ فجر کی نماز میں ہم ڈنڈا بجاکر نہ اٹھائیں؛ بلکہ اذان ہوتے ہی اسکی آنکھ کھل جائے، یہ مزاج بنانا چاہیے، اگر ہم ان کے دلوں میں گناہوں کی نفرت پیدا کردیں اورنیکیوں کی محبت پیدا کردیں، اسلامیات کی جو چیزیں ان کو نکال کر پڑھائیں، بے حیائی کی چیزوں کی طرف التفات نہیں جائے گا؛ اس لیے میرا خیال یہ ہے کہ ہم کو دینی تعلیم کے ساتھ دینی مزاج بنانے کی ضرورت ہے اور جو بچے اسکول میں پڑھتے ہیں ان کے لیے دینی تعلیم کا انتظام اپنے مساجد اور مدارس میں ہم کو کرنا چاہیے؛ تاکہ ۵۲ فیصد بچوں کے ایمان وعقیدہ کی حفاظت ہم کرسکیں، اگر ہم ان چیزوں کی طرف توجہ کرتے ہیں، تو آج کے حالات میں ان مدرسوں کو ہم محفوظ کرسکتے ہیں اور مدرسوں کو ہم آگے بڑھاسکتے ہیں۔“

خطاب حضرت مولانا ابراہیم ملک صاحب زیدمجدہم، رکن شوریٰ دارالعلوم دیوبند

                حضرت مولانا ابراہیم ملک صاحب زیدمجدہم رکن شوریٰ دارالعلوم دیوبند نے اپنے تائیدی بیان میں فرمایا:

                ”معزز سامعین حضرات! ہمارے اکابر واسلاف نے جن اصول وضوابط کے پیش نظر مدارس کے اس جال کو پھیلایا، ان مدارس کی بنیاد رکھی، اس کا مقصد ہی تھاکہ ہر آدمی کے اندر، ہر امتی کے اندر للہیت، روحانیت اور خوف خدا پیداہوجائے، اللہ کا ایک ڈر پیداہوجائے، جس سے امت کے اندر سارا فساد وبگاڑ، ساری مصیبت اور خرابیوں سے بچیں اور خرابیاں ختم ہوجائیں“۔

                مولانا موصوف نے اس پر افسوس کا اظہار فرمایاکہ بعض مدارس میں تصوف اوراحسان وسلوک پر جتنی توجہ ہونی چاہیے تھی نہیں دی جارہی ہے۔

                آج ہمارے مدرسوں میں جو سب سے بڑی کمی آرہی ہے، وہ ہے موبائل، انٹرنیٹ، الکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیا۔ مدراس کے اندر چار پانچ کالج ایسے ہیں جن میں چار ہزار پانچ ہزار طالب علم پڑھتے ہیں،اسٹوڈنٹ پڑھتے ہیں، انجینئرنگ کالج ہے، میڈیکل کالج ہے، آج ان کے رجسٹریشن فارم میں، داخلہ فارم میں لکھاہوا ہے کہ موبائل کے ساتھ کوئی طالب علم نہیں آسکتا، کسی لڑکی سے بات نہیں کرسکتا، لڑکی کے بغل میں بیٹھ نہیں سکتا، یہ قانون ان کے داخلہ فارم میں ہے، اس کے خلاف ورزی پر خارج کردیا جاتا ہے، کیا ہم ان غیروں سے گئے گذرے ہیں؟ ہم یہ قانون پاس نہیں کرسکتے کہ اپنے مدارس میں، درس گاہوں میں، اساتذہ ہوں یا طلبہ موبائل نہ لائیں؟

                حضرت مفتی شفیع صاحب رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں: ”مکی زندگی میں افراد سازی ہوئی اور مدنی زندگی میں جماعت سازی کا کام شروع ہوا، آج ہم جماعت سازی کی فکر میں تو پڑگئے ہیں، افراد سازی کا کام چھوڑدیا ہے، حالانکہ جماعت سازی اس وقت تک نہیں ہوسکتی جب تک افراد سازی نہ ہو، مکی زندگی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے افراد کو تیار کیا جب افراد بن گئے تو مدنی زندگی میں جماعت سازی کا کام شروع کیا۔“

                اس موقع پر حضرت اقدس مہتمم صاحب دامت برکاتہم نے اپنے وضاحتی بیان میں فرمایا:

                تین چیزیں ہیں: ایک ہے تعلیم، ایک تزکیہ اور ایک ہے دعوت۔ اس وقت ہمارے تمام فکرمند بزرگوں کی یہی کوشش ہے کہ تینوں نظام اس طرح چلنے چاہئیں کہ آپس میں ایک دوسرے کی حلیف بن کر رہیں، حریف بن کر نہ رہیں، دعوت کا کام بھی چلے، تعلیم کا کام بھی چلے اور تزکیہ کا کام بھی چلے اور اس کی صورت یہی ہے یہ ضروری نہیں ہے کہ تینوں فرد ہرکام کریں، لیکن اگر کوئی شخص ایک کام لے کر چل رہا ہے تو دوسرے کی قدردانی کرے، اس کا اعتراف کرے، اس کے خلاف کچھ نہ بولے، تو اس کی تعلیم کا ایک طریقہ ہے اوراس کی عام دعوت جو ہے چلائی جارہی ہے۔

                موبائل کے سلسلے میں پہلے بھی بات آچکی ہے، اربابِ مدارس، ذمہ دارانِ دارالاقامہ، اساتذئہ کرام طلبہ کو متوجہ کرتے ہیں، اصلاح کی کوشش کرتے ہیں، اصلاح ہوتی بھی ہے؛ لیکن جب خود طلبہ کے درمیان فکر پیدا نہیں ہوگی، اپنی ذمہ داری کا احساس پیدا نہیں ہوگا، صرف تنبیہ اور تعلیمی جکڑ بندیوں سے اس کو روکا نہیں جاسکتا، تو اس سلسلے میں طلبہ کے درمیان بھی احساس کرایا جائے، اس کو سمجھایا جائے اور جہاں کوتاہی ہورہی ہے اس کے سدباب کی کوشش کی جائے۔

خطاب حضرت مولانا مفتی محمدفاروق صاحب دامت برکاتہم

 خلیفہ حضرت فقیہ الامت علیہ الرحمہ

                ”معزز سامعین کرام!

                اللہ کا لاکھ لاکھ شکر واحسان ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہم کووارثین انبیاء سے وابستہ فرمایا، اللہ تعالیٰ نے اس عظیم جماعت میں ہم کو شامل فرمایا کہ جو حضرات انبیاء علیہم الصلوٰة والسلام کے وارث ہیں، ان کی کیا ذمہ داریاں ہیں اورکیا چیزیں ان کے ذمہ عائد ہوتی ہیں؟ یہ تفصیل کا وقت نہیں ہے؛ آج ہم اپنے اکابر کی زندگیوں سے دور ہوتے جارہے ہیں اوراپنے اکابر کی خدمات، ان کے حالات سے ناواقفیت کی حد تک یہ چیزیں ہمارے اندر آرہی ہیں اوراس وجہ سے بہت سی بے راہ روی بھی ہمارے اندر آرہی ہے کہ ہم اپنے اکابر کے حالات سے واقف نہیں ہیں، ان کا ہمیں مطالعہ بھی نہیں، ان کی سوانح حیات کے سلسلہ میں یا ان کی خدمات کے سلسلہ میں ہمارا مطالعہ بہت سطحی ہے اوران کی کوئی فکر ہم کو نہیں ہے۔ اس لیے بہت سی بے راہ روی آج ہمارے طبقے میں پیدا ہورہی ہے، اس کے لیے ضرورت ہے کہ ہم اپنے اکابر کو پڑھیں، ان کی خدمات کو پڑھیں، اب ہمارے نام کے ساتھ مثلاً قاسمی جڑا ہوا ہے اور ہر طالب علم اس کے اوپر فخر کرتا ہے اور کرنا بھی چاہیے؛ لیکن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ہماری نسبت حضرت مولانا قاسم نانوتوی نوراللہ مرقدہ سے ہے، ہمیں ان کی طرح زندگی گذارنا چاہیے اور ہمیں ان کی خدمات کو سامنے رکھنا چاہیے؛ لیکن آج ہمیں خود معلوم نہیں کہ حضرت نانوتوی رحمة اللہ علیہ کون تھے؟ اور ان کی خدمات کیا تھیں؟ ان کی تواضع کیا تھی؟ اور دنیا سے بے رغبتی، استغناء اور توکل علی اللہ یہ تمام چیزیں اب ہمارے ذہنوں میں نہیں، ان کے علوم کا کیا علم؟

                حضرت شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی نور اللہ مرقدہ نے فرمایا کہ حضرت نانوتوی کا علم براہِ راست قلب نبوت سے مستفاد ہے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب نبوت سے وہ علوم براہِ راست آتے ہیں حضرت نانوتوی کے قلب مبارک پر، میرٹھ کے اندر صرف دس روپیہ ماہوار پر تصحیح کتب کی ملازمت تھی، اسی موقع پر بھوپال سے ۵۰۰/روپے کی ملازمت آئی اور بھی بہت ساری مراعات ان کے لیے تھیں، لیکن حضرت نے انکار کردیا، جب حضرت کے بے تکلف لوگوں نے کہا کہ حضرت آپ چلے کیوں نہیں جاتے، فرمایا کہ لوگ مجھے قابل سمجھ کر بلارہے ہیں، حالانکہ میں قابل نہیں ہوں، تواضع اور عبدیت اور ان کے اندر اخلاص، دنیا سے بے نیازی، استغنا کا یہ عالم تھا۔

                حضرت نانوتوی کے جتنے شاگرد ہیں ان کو دیکھو، پھر ان کے شاگردوں کے شاگردوں کو دیکھو، حضرت شیخ الہند کو دیکھو، شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد صاحب مدنی نوراللہ مرقدہ کو دیکھو اورپھر ان کے بعدکا سلسلہ اب تک ہمارے اکابر کا آیاہے ہمیں ان اکابر کو دیکھنا چاہیے، ان کی للہیت، ان کے اخلاص کو دیکھنا چاہیے۔ اخلاص کے ساتھ ہمیشہ اپنے آپ کو دینی خدمات کے اندر لگائے رکھنا یہ ہمیشہ ان کا طرئہ امتیاز رہا ہے۔

                اس لیے ہم کو ہمارے ان اکابر سے مربوط رہنا ہے، ان کے حالات کو پڑھنا ہے اور اپنے اکابر کے طرزِ زندگی کو اپنی زندگی کے لیے اختیار کرنا ہے، بس ہم اپنے ان اکابر کی زندگی کو دیکھیں گے، اس کو مشعلِ راہ بنائیں گے، اسوہ بنائیں گے، اس پر عمل کریں گے توان شاء اللہ ہمارایہ سلسلہ چلتا رہے گا اور اللہ تعالیٰ کی نصرت، بے سروسامانی کے باوجود شامل حال ہوگی۔

                اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنے اکابر کے نقش قدم پر صحیح طور پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔

کارروائی اختتامی نشست

                دوسری اوراختتامی نشست بعد نماز مغرب متصلاً جامع رشید دارالعلوم میں شروع ہوئی، آغاز جناب قاری محمد آفتاب صاحب امروہوی زیدمجدہ، استاذ تجوید وقرأت دارالعلوم دیوبند کی تلاوت قرآن کریم سے ہوا، بعد ازاں جناب قاری محمد اقرار صاحب استاذ تجوید دارالعلوم دیوبند نے جناب مولانا ظفرعلی خاں مرحوم کی شاہ کار نظم ”شادباش وشاد زی اے سرزمین دیوبند“ پیش کی۔ پھر حضرت مولانا حبیب الرحمن صاحب دامت برکاتہم استاذ حدیث دارالعلوم ورئیس تحریر ”رسالہ دارالعلوم دیوبند“ نے اہم خطاب فرمایا۔

خطاب حضرت مولانا حبیب الرحمن صاحب دامت برکاتہم

استاذ حدیث دارالعلوم دیوبند ورئیس تحریر ”ماہنامہ دارالعلوم“

                حضراتِ اکابر، اساتذہٴ کرام، علمائے عظام وطلبہٴ عزیز!

                حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ”بعثت معلماً“ کہ میں معلّم بناکر بھیجا گیاہوں، تو جب آپ معلّم ہیں تو آپ کی امت متعلّم ہے، تو اب ہمارا کام ہی یہ ہے پڑھنا پڑھانا، حضرت ابراہیم علیہ السلام کو جب حکم ہوا خانہ کعبہ کی تعمیر کا، انھوں نے تعمیر کرنے کے بعد چند دعائیں کیں، اس دعا کے اخیر میں ایک دعا یہ تھی:

                ”رَبَّنَا وَابْعَثْ فَیْھِمْ رَسُوْلاً مِنْھُمْ یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ آیاتِہ وَیُعَلِّمُھُمُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَة وَیُزَکِّیْھِمْ اِنَّکَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْم“ (سورئہ بقرہ: ۱۴۹)

                حضرات علماء جانتے ہیں کہ قرآنی آیتوںآ یتوں کے ربط میں بڑے اسرار اور بہت سے معارف ہیں، اس سے پہلے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے دعا کی ہے:

                ”رَبَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَیْنِ لَکَ وَمِنْ ذُرِّیَّتِنَا اُمّةً مُسْلِمَةً لَکَ وَاَرِنَا مَنَاسِکَنَا وَتُبْ عَلَیْنَا اِنَکَ اَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِیْم“

                اس کے بعد ”رَبَّنَا وَابْعَثْ الخ“ یہ دعاکررہے ہیں رسول کے بھیجنے کی۔

                حضرت ابراہیم علیہ السلام جس نبی کے لیے دعا کررہے ہیں تواسی کے ساتھ ساتھ اس نبی کی خصوصیت بھی ذکر کررہے ہیں کہ ایسا نبی ہو جو ہماری ذریت پر آپ کی آیات کی تلاوت کرے، آپ جانتے ہیں کہ تلاوت الفاظ کی ہوتی ہے۔

                امام راغب اصفہانی نے لکھا ہے کہ کتاب اللہ کے علاوہ اور کسی کتاب کے لیے تلاوت کالفظ استعمال نہیں کیاجائے گا، قرأت کا لفظ استعمال کیا جائے گا، پڑھنے کا لفظ استعمال کیا جائے گا، تلاوت کا نہیں۔ ”تلا یتلو تلاوة“ پیروی کرنا، اس کا مطلب یہ ہوا کہ تلاوت اس لیے مخصوص ہے کہ جیسا قرآن نازل ہوا ہے ویساہی پڑھنا، اس میں کمی بیشی نقطہ کی، حرکت کی یہ جائز نہیں ہے۔ ”یتلو“ سے اسی طرف اشارہ ہوا کہ وہ جیسا نازل ہوا ہے ویسے ہی پڑھیں، اس نزول کی پیروی کریں، ظاہر ہے کہ تلاوت الفاظ کی کی جاتی ہے، ایک فریضہ اِس نبی کا یہ ہوا کہ قرآن کی تلاوت کرے، یعنی قرآن کے الفاظ امت تک پہنچائے،امت کو سکھائے۔

                اس کے بعد عطف کررہے ہیں ”وَیُعَلِّمُھُمُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَة“ تعلیم معانی کی دی جاتی ہے، تو الفاظ قرآن کے، یہ بھی مطلوب ہے اورمعانی، یہ بھی مطلوب ہیں۔

                اس کے بعد ”حکمة“ کا لفظ ہے، امام شافعی رحمہ اللہ نے، تابعین میں سے قتادہ نے، بلکہ بعض مفسرین تو کہتے ہیں کہ حکمت کے متعدد معانی ہیں، لیکن اس جگہ حکمت سے ”سنت“ کے معنی متعین ہیں، تو اب مطلب کیاہوا کہ قرآن کے معانی کی تعلیم دے اور سنت کی تعلیم دے۔ ”ویزَکِّیْہِمْ“ اور ان کا تزکیہ کرے، تزکیہ یعنی ان کے اخلاق کو پاک و صاف بنائے۔

                چنانچہ مسند احمد میں ایک روایت ہے، حضور علیہ السلام فرماتے ہیں کہ میں اپنی ابتدا کے معاملے کو تمہیں بتاتا ہوں کہ میں اپنے ابّا ابراہیم کی دعا اور حضرت عیسیٰ کی بشارت کا مظہر ہوں، اسی کو حالی نے کہاہے۔

ہوئے پہلوئے آمنہ سے ہویدا     $            دعائے خلیل اور نوید مسیحا

                میرے دوستو! متعین ہوگیا کہ اس دعا کے مصداق کون ہیں․․․․ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ․․․․ اسی آیت سے معلوم ہوا کہ حضور علیہ السلام کے رسالت کے فرائض میں سے کتاب اللہ کے الفاظ کی تعلیم دینا، اس کے معانی کی تعلیم دینا، سنت کی تعلیم دینا۔

                میرے دوستو! آج ہم مدارس میں اسی فریضہ کو انجام دے رہے ہیں اور یہ فریضہ جب تک دنیا میں جاری رہے گا اسلام جاری رہے گا اور جہاں یہ فریضہ ختم ہوا اسلام ختم ہوجائے گا، یہ متعین ہوا اس آیت سے۔ آپ جس کام کو کررہے ہیں بہت اہم ہے، کام جتنا اہم ہوتاہے، اسی اہمیت کے اعتبار سے اس میں مشکلات بھی پیش آتی ہیں، اس لیے ہمارے مدارس کو،اس سلسلہٴ تعلیم کتاب وسنت کو بڑی پریشانیوں سے نبردآزما ہونا پڑا، وقت نہیں ہے، میں بتاتا آپ کو کہ سلسلہٴ تعلیم آپ کے ملک میں کس طرح سے تھا؟ پھر جب انگریز آئے تو انھوں نے کس طریقے سے اس کو ختم کیا؟ پھر ہمارے اکابر نے اس سلسلہ کو کس طرح سے پھر زندہ کیا؟ ایک لمبی تاریخ ہے اورہم نے توچند الفاظ میں کہہ دیا کہ انگریزوں نے اس کو ختم کیا، پھر اکابر نے جاری کیا؟ لیکن اس ختم کی ایک لمبی چوڑی تاریخ ہے اوراس تاریخ کے اندر مختلف مراحل ہیں، اسی طرح اکابرنے جب پھر اس تعلیم کو زندہ کیا ہے، انھیں کتنے پاپڑ بیلنے پڑے ہیں، انھیں کتنی مصیبتیں جھیلنی پڑی ہیں، آپ اٹھاکر ان کی تاریخ کو دیکھئے، آپ توپڑھے لکھے لوگ ہیں، علماء ہیں، مجھ سے زیادہ جانتے ہیں۔

                اب اگر ہم پر کوئی مصیبت آتی ہے، اہل مدارس پر، تو ہمیں تسلی کرنا چاہیے، پریشان نہیں ہونا چاہیے، اطمینان کرنا چاہیے کہ ہمارے اکابر کی یہ سنت ہے، ان کو قرآن وحدیث کی اشاعت میں تکلیف پہنچی، ہمارے عمل بھی عند اللہ مقبول ہیں؛ اس لیے ہمیں بھی تکلیف پہنچ رہی ہے، اس لیے اگر حالات خراب ہوں گھبرانے کی بات نہیں، حضور علیہ الصلوٰة والسلام کو کتاب اللہ اور سنت کو پھیلانے میں کتنی اذیتیں پہنچیں، ہمارے اکابر کو کتنی اذیتیں پہنچیں؛ لیکن الحمدللہ جب سے اسلام آیا ہے، اس وقت سے قرآن وسنت کی تعلیم جاری ہے، انگریز نے ختم کرنا چاہا وہ ختم ہوگیا؛ لیکن کتاب اللہ کی تعلیم ابھی بھی باقی ہے، آج اگر کوئی اس کو ختم کرنے کی کوشش کرے گا کسی نہج پر بھی ، وہ ختم ہوجائے گا اوران شاء اللہ یہ کتاب اللہ اور مدارس باقی رہیں گے۔

                میرے دوستو! میں نے اشارہ کیاہے آپ کی طرف، آپ اپنی اس تاریخ کو پڑھیے، ضرور پڑھیے، آپ کو حوصلہ ملے گا اور پھر اس تاریخ کے اندر آپ کو راہیں ملیں گی، کام کرنے کا طریقہ معلوم ہوگا، پریشانیوں کے حالات میں کیسے کام کیا جائے گا اس کا ڈھنگ معلوم ہوگا، شاہ ولی اللہ سے لے کر اپنے اکابر کی تاریخ تک کو پڑھیے، کیسے ہمارے اکابر نے اس علم دین کو زندہ رکھا، پائندہ رکھا، اس سے آپ کو معلومات ہوگی تو آپ کا حوصلہ بڑھے گا، اس لیے میں نے بہت اختصار کے ساتھ مجھے حکم ہوا تھا کہ پندرہ منٹ کچھ کہہ دو، میں خالی الذہن تھا، آپ کی برکت سے کچھ باتیں میں نے آپ کے سامنے کہہ دیں۔

                اللہ تعالیٰ ہمیں بھی حالات کو سمجھنے کی اورحالات کے تقاضے کے مطابق عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے، حالات کیسے ہیں، کیسی کیسی سازشیں ہورہی ہیں آپ کو ختم کرنے کی، آپ نہیں ختم ہوں گے ان شاء اللہ، سازش کرنے والے ختم ہوں گے اوراگریہ سازش کامیاب ہوتی ہے تو ملک ختم ہوگا۔ اس لیے کان کھول کر لوگ سن لیں کہ ہم نہیں جائیں گے، ہم جائیں گے تو ہم سے پہلے تم جاؤگے۔

مختصروضاحتی خطاب حضرت مہتمم صاحب دارالعلوم، زیدمجدہم

                محترم حضرات! ابھی آپ کے سامنے حضرت مولانا رحمت اللہ صاحب میرقاسمی رکن شوریٰ دارالعلوم کا خطاب ہونے والا ہے، جن کا عنوان ہے ”فرقِ باطلہ اور ادیانِ باطلہ اور ان تحریکات کا تعاقب“ اسی سلسلے میں چند منٹ میں آپ کے لوں گا۔

                حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشین گوئی فرمائی تھی کہ ”ستکون فتن کقطع اللیل المظلم“ عنقریب ایسے فتنے سامنے آئیں گے جو تاریک رات کی طرح تہہ بہ تہہ وجود پذیر ہوتے رہیں گے، جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ اس میں ایک شخص صبح کو مسلمان ہوگا اورشام کو کافر ہوگا، صبح کو کافر ہوگا اور شام کو مسلمان ہوگا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ پیشین گوئی حرف بہ حرف صادق آرہی ہے اورروز کسی نہ کسی نئے فتنے کا ظہور ہورہا ہے، چنانچہ ابھی ماضی قریب میں چند نئی جماعتیں وجود پذیر ہوئی ہیں، جن میں ایک فتنہ صدیق دیندار کا ہے، ایک مہارکلیشور آندھرا پردیش حیدرآباد کے علاقے میں محمد حنیف کے نام سے نیا فتنہ کچھ دن پہلے سامنے آیا ہے، یہ سارے کے سارے بالکل منحرف لوگ ہیں جن کے نظریات اسلام کے بالکل خلاف ہیں۔

                ابھی بالکل تازہ ایک صورت حال سامنے آئی ہے، مسلم یونیورسٹی علی گڈھ میں دو سال پہلے ”برج کورس برائے فارغین مدارس“ کے نام سے ایک کورس شروع کیاگیا ہے، جس کا مقصد یہ ہے کہ مدارسِ اسلامیہ عربیہ سے فارغ ہونے والے علما اس میں داخلہ لیں اور مختصر وقت میں تیاری کرکے آگے وہ بی اے ایم اے یا جس کورس کو وہ پڑھنا چاہیں،اس میں اس کو داخلہ مل سکے، جو صاحب اس کورس کے ڈائرکٹر بنائے گئے ہیں ان کے بارے میں واقف کار لوگ بتاتے ہیں کہ ان کی کتابیں باطل افکار ونظریات کی ترجمان ہیں، ان کی تقریباً دو درجن کتابیں ہیں اور ان سے جو عقائد سامنے آتے ہیں،اس میں:

                تقدیر کا انکار، مسیح موعود کی آمد کا انکار، مہدی کے ظہور اور دجال کے آنے کا انکار، حدیث کا انکار، علماء پر طنز،اجماع کا انکار، شفاعت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا انکار، انزل القرآن علی سبعة احرفٍ کا انکار، قرآن میں نسخ کا انکار اور رجم کا انکار موجود ہے۔

                وہ کہتے ہیں کہ: ”مساجد ومدارس شرک کے اڈے ہیں“ اور محدثین وفقہا وعلماء ومصلحین زوالِ امت کا سب سے بڑا اور اصلی سبب ہیں اور جتنا نقصان ان سے پہنچا ہے امت کے دین کو کسی سے نہیں پہنچا، اب ایک عالمی کانفرنس ہورہی ہے، جس کا عنوان ہے ”امت مسلمہ کا فکری بحران“ اور اس میں پوری دنیا کے لوگ شریک ہورہے ہیں۔

                بالکل ابتداہی میں اس فتنہ کا سرکچل دیا جائے، قبل اس کے کہ یہ تناور درخت بنے، اس کی جڑیں زمین میں پیوست ہوں اور امت کے لیے کوئی بڑی مصیبت بنے، اس کا خاتمہ ہونا چاہیے اورہمارے رابطہ کا ایک اہم عنوان ہے ”فرقِ باطلہ اور ادیانِ باطلہ کا تعاقب“ تو اس میں نئی چیزیں سامنے آئی ہیں، اس کے سلسلے میں آپ حضرات کو بیدار رہنا چاہیے۔

                اور اسی کے ساتھ میں یہ عرض کروں گا کہ ہمارے وہ فضلاء جو دارالعلوم دیوبند کے دیگر بڑے مدارس سے فارغ ہونے کے بعد معلوم نہیں کس شوق میں یونیورسٹی میں داخلہ لینے کے لیے پہنچتے ہیں اور اس برج کورس سے گذرتے ہوئے اس کو جانا پڑتا ہے۔

                تو فضلاء اپنے ذہن کو بدلیں، دارالعلوم میں تعلیم حاصل کرلینے کے بعد اوراس علم کی دولت سے مالامال ہوجانے کے بعد وہ کون سا علم ہے کہ جس کی پیاس اس کے دل کے اندر باقی ہے، جس کو حاصل کرنے کے لیے عصری تعلیم گاہوں کا رخ کررہے ہیں، کیا ان کے پیش نظر ہے؟ جو سرپرست حضرات ہیں، وہ اپنے نونہالوں کو، نئے فضلاء کو اُدھر جانے سے روکیں اور خود فضلاء اپنے ذہن کو بچائیں۔

خطاب حضرت مولانا رحمت اللہ صاحب میردامت برکاتہم

رکن شوریٰ دارالعلوم وصدر رابطہٴ مدارس جموں کشمیر

                صدرِ گرامی قدر، اکابر اساتذہ اور اشاعت اور حفاظت دین کے لیے منجانب اللہ موفق حضرات علمائے کرام!

                حضرت مہتمم صاحب دامت برکاتہم نے موضوع کو مبرہن فرمایا، اب ان دس منٹ کے اندر آپ کا یہ ساتھی جو آپ کے ساتھ مادرِ علمی کا فرزند ہونے کا اپنے اوپر لیبل لگائے ہوئے ہے، وہ صرف دو چیزیں عرض کررہا ہے:

                پہلی چیز یہ کہ ہم شکرگذار ہیں مادرِ علمی کے ذمہ داران کے کہ وہ ہم کو بار بار یاد فرماتے ہیں اور اس کے بعد ہم لوگوں کو تازہ ترین تربیت سے مزین فرماتے ہیں، صبح جب خطبہٴ صدارت میں حضرت مہتمم صاحب دامت برکاتہم کی زبان مبارک سے شکرگزاری کے الفاظ آئے اور ایک بار نہیں دوبار معذرت اور معافی کے کلمات آئے، تو واقعی اس وقت یہ محسوس ہورہا تھا کہ شکرگزاری تو ہمیں اپنے اکابر کی کرنی ہے کہ انھوں نے ہمیں یاد فرمایا، مادرِ علمی کا سرمایہ ہمیں بلانے میں، ہم کو یہاں تعلیم دینے میں، تربیت کے لیے ہمارے اوپر خرچ فرمایا، لیکن اس کے برعکس کتنا وسیع دل ہے اور کتنا عالی ظرف ہے کہ ایک بار کے بجائے دو بار خطبہٴ صدارت میں کہاگیا ہے کہ آپ کی ضیافت اور میزبانی میں اگر کوئی کمی رہے تو خدارا معاف فرمائیں، ہمیں احساس ہے، ہم اس مادرِ علمی کے فرزند ہیں۔

                مادرِ علمی میں رہ کر ہم لوگوں نے اپنے اساتذہ سے سنا تھا کہ جیسے یہاں کا نصابِ تعلیم ممتاز ہے، نظامِ تربیت ممتاز ہے، اسی طرح ہم نے سنا تھا کہ دارالعلوم کے بانی حضرت نانوتوی علیہ الرحمہ کبھی عیسائیوں سے نبردآزما ہیں، کبھی شدی سنگٹھن کے مقابلے میں یہاں سے محنتیں ہورہی ہیں، ہماری مادرِ علمی کی گود میں رہتے ہوئے، ہماری تربیت کرتے ہوئے ہمارے اساتذہ نے ہم کو تربیت فرمائی کہ جب محاذ آرائی ہوئی ہے متنبیٴ قادیان سے، تو اس وقت مادرِ علمی نے اپنے اس علم وعمل کے نتیجے میں اپنے فرض کو محسوس کرکے تب تک چین نہیں لیا جب تک کہ مادرِ علمی کے فرزندوں نے اس کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک نہیں دی۔ شاید ہم نے اس وقت وعدہ کیا تھا مادرِ علمی سے کہ مادرِعلمی! تونے ہم کو پالاپوسا، ہمیں علم دیا، ہماری تربیت کی، ہم آج تجھ سے رخصت ہوتے ہیں، دیکھ لینا ہماری امّاں، جب بھی ملت میں اسلام کا کوئی تقاضا آئے گا، پھر دیکھ لینا تیرے سپوت کیسے تیرے دیے ہوئے سرمائے کو اللہ کی رضا کے لیے میدان میں استعمال کریں گے۔

                ہماری مادرِ علمی زبانِ حال سے ہم سے سوال کررہی ہے کہ فرزندو! یہ ہزاروں اور لاکھوں کی تعداد میں امت مسلمہ کے فرزند ضروریاتِ دین سے ناواقف کیسے ہیں۔ اس ام المدارس میں جو حضرات تیار ہوئے انھوں نے قوموں کی کایا پلٹ دی اور یہ صرف اس ملک کی حد تک محدود نہیں، بلکہ عالم میں جہاں آپ جائیں گے، جس ملک میں آپ جائیں گے، جس برّاعظم میں جائیں گے، ہمارے سارے حضرات اس حدیث کو سارے ملک میں نقل کرتے ہیں کہ ”یحمل ہذا العلم من کل خلفٍ عدولہ“ اور ہر جگہ اس کے بارے میں یاددہانی کرتے ہیں، جب بھی فرق باطلہ کے کیمپ ہوتے ہیں، تو یہاں پہ آئے ہوئے ہمارے اکابر بہت اہتمام کے ساتھ ہم کو سناتے ہیں، جو عالمی ختم نبوت کے امیر حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی علیہ الرحمہ نے نقل کیا ہے کہ فرقہٴ باطلہ کے مقابلے کے لیے جن چیزوں سے آدمی کو مالامال ہونے کی ضرورت ہے، ان کے لیے سب سے پہلی چیز ایمانی حس ہے، جیسے کہ کسی فن کا کوئی آدمی جہاں پہنچتا ہے، اس کی حس اس کو بتادیتی ہے کہ وہاں کوئی بات ہے، مادرعلمی کے فرزندوں کی حس یہ ہے کہ وہ جس راستے میں پہنچیں ان کواتنی مناسبت ہو اپنی مادرِ علمی سے کہ سونگھ کر وہ جان سکیں کہ فرقِ باطلہ میں سے کچھ ہے، یا عزائم باطلہ میں سے کچھ ہے، یا فرقہٴ ضالّہ کا یہاں کچھ اثر ہے۔

                اور دوسری چیز جو بیان کی جاتی ہے وہ فرمایا انھوں نے کہ ایمانی غیرت ہو، جس سے معلوم ہوگا معاملہ اوراس کے بعد غیرت سے آگے بڑھیں گے۔

                اور تیسری چیز جس کو بیان کیا کہا کہ علم وفضل کا سرمایہ ہو، یہ علم اس فرقے کا بھی، اس مذہب کا ہونا بھی ضروری ہے، جس کے بارے میں اس مادرِ علمی کے فرزند کو کام کرنا ہے اور آخری چیز کہ وہ اپنے علم وفضل پر بھروسہ نہ کرے، جتنا اس کے پاس انابت الی اللہ کا سرمایہ ہو۔

                ہم ایک بار پھر یہ عہد کرتے ہیں کہ ہم اپنی مادرِ علمی کے حقوق کو ادا کرتے ہوئے اللہ کی رضا کے لیے ہر جگہ کے باطل پرست اور ہرجگہ کے ادیانِ باطلہ کو اچھی طرح سمجھ کر ان کے تعاقب وتلافی اور ان کوانجام تک پہنچانے کے لیے پوری کوشش کریں گے، ان شاء اللہ۔

خطاب حضرت مولانا قاری سید محمد عثمان صاحب منصورپوری دامت برکاتہم

استاذ حدیث دارالعلوم دیوبند

                صدرِ محترم، حضرات علماء واساتذہٴ کرام! عزیز طلبہ!

                پروگرام کا ایک جزو ”تحفظ ختم نبوت“ ہے، نبوت کے معنی آپ حضرات جانتے ہیں، اللہ تعالیٰ نے حضرات انبیاء علیہم الصلوٰة والسلام کے ذریعہ اپنی بات پہنچانے کا جو سلسلہ شروع فرمایا تھا حضرت آدم علیٰ نبینا علیہ الصلوٰة والسلام سے، اس کو مکمل فرمایا ہے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر، ختم کے معنی یہی ہے، عربی محاورہ ہے ”ختم الشیء“ بلغ آخرہ ”ختم القرآن“ ای بلغ آخرہ قرآن پڑھتے پڑھتے اخیر میں پہنچ گیا، اس لیے خاتم النّبیین صرف آپ ہیں۔

                یہ لفظ آیا قرآنِ کریم میں، صرف ایک جگہ آیا ہے، سورئہ احزاب میں، لیکن اس مضمون کو قرآن کریم کی سوآیتوں میں بیان کیاگیاہے، اگر ایک جگہ بھی آتا، تو یہ مضمون قرآن کا ایک ایک جزو، قرآن کی ایک ایک آیت ہمارے عقیدے کا جزو ہے، تو یہ ہمارے عقیدے کا جزوبنتا، لیکن سومرتبہ سوجگہ پر مختلف انداز سے اللہ تعالیٰ نے اس مضمون کو بیان فرمایا اور پھر اس کی وضاحت میں جناب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دو حدیثوں میں نہیں، بے شمار حدیثوں میں اس مضمون کو سمجھایا، مثالوں سے سمجھایا، جو حدیثیں جمع ہوسکیں اس موضوع کی وہ دو سو سے زیاد ہیں، یہ محض استحضار کے لیے ہے، آپ سب جانتے ہیں، کوئی نئی بات نہیں پیش کی جارہی ہے، محض استحضار کے لیے ہے کہ جو مضمون سو آیتوں میں بیان کیا جارہا ہے اور جس کو جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بار بار نہ معلوم کتنی مرتبہ بیان فرمایا، دو سو تو وہ روایتیں ہیں جو جمع ہوئیں، اس سے اس کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔

                بعض لوگوں کی یہ عادت ہوتی ہے کہ جب بھی ختم نبوت کا مسئلہ آتا ہے تو فوراً ذہن اِدھر ہوجاتا ہے کہ قادیانی کے خلاف ہورہا ہے اورجب کوئی اس مسئلہ پر گفتگو کرنی ہوتی ہے تو کہہ دیتے ہیں کہ بھائی ہمارے ہاں تو کوئی قادیانی نہیں ہے، تو کیسی تقریر ہورہی ہے؟ ارے بھائی وحدانیت بیان نہیں کریں گے بار بار، ہمارے معاشرے میں کوئی وحدانیت کا انکار نہیں کررہا ہے؛ لیکن ہم وحدانیت کو بیان کرتے ہیں، بار بار بیان کرتے ہیں، ہمارے معاشرے میں کوئی آخرت کا انکار نہیں کررہا ہے، لیکن آخرت کو بیان کرتے ہیں، اسی طریقے پر ہمیں سمجھانے کے لیے، یاد رکھنے کے لیے اور خاص طور پر ان حالات میں جب ان کے خلاف کوئی فتنہ کھڑا ہوجائے،اس کو توبیان کرنا ضروری ہے، ہمارا جب پروگرام چلتا رہا تو بعض مسجدوں میں بعض نے یہ کہہ دیا کہ مسجد میں تو کوئی اس طرح سے بیان نہیں ہوگا، یہ اختلافی چیز ہے! شرک وکفر سے اختلاف نہیں کریں گے؟

                اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر گویا کہ نجات کا دارومدار ہے، آپ ہی کے ماننے پر دارومدار ہے، آپ ہی کی امت رہے گی قیامت تک، جب کوئی نبی آتا ہے تو امت بدلتی ہے، امت محمدیہ کو باقی رکھنے کے لیے اللہ نے انتظام کیا اوراس انتظام کی خبردی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے، مشکوٰة شریف کی آخری صفحہ پر ہے ”کف تھلک أمة أنا أوّلھا والمھدي وسطھا والمسیح آخرھا“ وہ امت کیسے مٹ سکتی ہے،کیسے ختم ہوسکتی ہے، جس کے شروع میں میں موجود ہوں، جس کے درمیان میں مہدی ہے، جس کے اخیر میں مسیح ہے، کیا مطلب؟ یہ تینوں شخصیات اس امت کو باقی رکھنے کے لیے ہیں، یہ بقا کیسا ہے عقیدوں کے اعتبار سے، صحیح عقائد پر باقی رکھنے کے لیے،کسی اور کو مان لیا تو کیا امت باقی رہے گی، امت کو باقی رکھنے کے لیے صحیح عقیدے کو باقی رکھنے کے لیے فرمایا سب سے پہلے تو میں ہی ہوں ”انا اوّلہا“ اور درمیان میں ایک بہت بڑی شخصیت آئے گی، جن کا لقب مہدی ہے، حضرت محمد بن عبداللہ اور انھیں کے زمانے میں آخری شخصیت آئے گی حضرت مسیح ابن مریم، ان سب کا کام یہ ہے کہ وہ امت محمدیہ کو امت محمدیہ باقی رکھیں، اللہ نے ہمیں اور آپ کو اسی لائن میں لگایا ہے، الحمدللہ!

                امت کو باقی رکھنے کے لیے امت محمدیہ رہیں، یہ اور کچھ نہ بن جائیں، ہماری اورآپ کی ذمہ داری بلاغ ہے ”اِنْ عَلَیْکَ اِلّاَ الْبَلَاغُ“ خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن کریم میں جابجا تسلی دی ہے اور فرمایا کہ ”اِنْ عَلَیْکَ اِلَّا الْبَلَاغُ“ آپ کی ذمہ داری صرف پہنچانے کی ہے، دل میں بات اتاردینا یہ آپ کی ذمہ داری نہیں ہے، ہماری ذمہ داری ہے، اگر آپ کرسکتے تھے، تو آپ اپنے محسن چچا ابوطالب کو کلمہ پڑھادیتے، لیکن نہیں پڑھواسکے۔اس لیے یہ کہنا کہ اتنی محنت توہورہی، کچھ فائدہ تو نہیں ہورہا ہے، بڑھتے ہی جارہے ہیں۔ میں جانتا ہوں کہ جو حضرات یہ کام پورے ملک میں کررہے ہیں اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ کچھ کرنہیں رہے ہیں، ایک ایک آدمی پورے علاقے کو سنبھالے ہوئے ہے۔

                اس لیے آپ حضرات کی محنت کارگر ہے، الحمد للہ آپ کام کررہے ہیں، ٹھیک ہے اس کے نتائج اگر جیسے آنے تھے ویسے نہیں آئے تو یہ آپ کی محنت رائیگاں جائے گی ایسا نہیں ہے، آپ کی محنت رائیگاں نہیں جائے گی۔ الحمدللہ کام ہورہا ہے، آگے بڑھ رہا ہے،کچھ پیچھے بھی ہٹ رہا ہے؛ لیکن ہمارا جو معاملہ ہے وہ ہے محنت کا، اللہ کے ہاں جو سوال ہوگا وہ محنت کا ہوگا، اس کا سوال نہیں ہوگا کہ آپ نے فلاں کو ہدایت پر کیوں نہیں لگایاتھا۔“

خطاب حضرت مولانا سیّدارشد مدنی صاحب دامت برکاتہم

استاذ حدیث دارالعلوم دیوبند

                صدرمحترم، اساتذئہ دارالعلوم دیوبند اور مادرِ علمی دارالعلوم دیوبند میں پورے ملک سے آنے والے علماء اور عزیز طلبہ!

                میں یہ چاہوں گا کہ مختصر سے وقت میں دو باتیں جن کی طرف میں اشارہ کرنا چاہتاہوں آپ کے سامنے پیش کرسکوں، کیونکہ ہم اور آپ رابطہٴ مدارس کے اس اجلاس میں اس حیثیت سے نہیں بیٹھے ہیں کہ یہ ایک عام اجلاس ہے دنیا میں جلسوں کی طرح سے؛ بلکہ دارالعلوم آپ کی مادرِعلمی ہے، ہماری مادرِعلمی ہے اور آپ اور ہم دارالعلوم دیوبند کی روحانی اور علمی اولاد ہیں، ملک کے حالات ہیں، مدارس کے اپنے حالات ہیں۔

                دوباتیں کہنا چاہتا ہوں، ایک بات تو وہ ہوگی جس میں مخاطب اگرچہ میں بھی ہوں، اپنی تمام تر نا اہلیوں کے باوجود دارالعلوم کا ایک نمک خوار ہوں، میں دارالعلوم سے کہوں گا، دارالعلوم کے ارباب حل وعقد سے کہوں گا، اس لیے کہ اکابر کی امانت ان کے ہاتھ میں ہے، ہمارے اس جگہ بیٹھنے کا مقصد یہ تھا اور ہے کہ مدارس کو اپنے لیے کون سی راہ اختیار کرنا چاہیے ملک کے بدلتے ہوئے حالات میں۔

                دوسرے یہ کہ دارالعلوم آپ کی اس سلسلے میں کیا مدد کرسکتا ہے، آپ دارالعلوم کے سپوت ہیں، دارالعلوم آپ کی مادرِعلمی ہے، دارالعلوم کو اپنے مربوط مدارس کے لیے کیا کرنا چاہیے، میں حضرت مہتمم صاحب دارالعلوم اور رابطہ مدارس کے ایک ممبر ہونے کی حیثیت حضرت صدرالمدرسین دارالعلوم دیوبند سے عرض کروں گا۔

                دیکھئے! دارالعلوم کے طلبہ آپ کا پیغام لے کر ساری دنیا میں پہنچتے ہیں، ہمارا ایک بنیادی پیغام ہوتا ہے کہ جہاں جاؤ مدارسِ اسلامیہ کو قائم کرو، ملک کی آزادی کے بعد خاص طورپر ہمارے اکابر نے اپنی زندگی کا نصب العین بنادیا کہ مدارس اسلامیہ کو قائم کیا جائے اور یہ انھوں نے سمجھا اپنی بصیرت ایمانی کی بنیاد پر کہ اب ملک کے اندر اگر اسلام کی حفاظت ہوسکتی ہے تو مدارسِ اسلامیہ ہی کے راستے سے ہوسکتی ہے، چنانچہ یہ بزرگ اپنی زندگی کا نصب العین بناکر آگے بڑھے اور الحمدللہ ملک کی آزادی سے پہلے جتنے مدارس تھے، آج اس سے کتنے گنا زیادہ ہیں ساری دنیا میں اور میں کہتاہوں کہ ۹۵ فیصد لوگ جو جاکر مدرسے قائم کرتے ہیں اسی مادرِعلمی سے نکلے ہیں اور پہنچے ہیں ساری دنیا کے اندر۔ ہم نے افریقہ کے جنگلات میں سفر کیا اورہم نے دیکھا ہمیں حیرت ہوتی ہے کہ آدمی بیٹھ کر پڑھا رہا ہے کالے بچوں کو جن کی زندگی ترقی یافتہ ملکوں کے جانوروں سے بھی بدتر ہے اور قرآن کی تعلیم دے رہے ہیں، ایک دو تین واسطوں سے دارالعلوم سے وابستہ ہیں، ساری دنیا کے اندر انقلاب پیدا کیا، آج بھی مدارسِ اسلامیہ ہندوستان کے اندر مسلکِ دیوبند، جس کے بارے میں ہمارا عقیدہ ہے کہ وہ وہی مسلک ہے، وہی نظریہ ہے جس کو جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو دیا تھا اور وہی نقطئہ نظر ہے جس کو صحابہ نے رسول اللہ سے لے کر تابعین کو دے دیا، ساری دنیاکے اندر دیوبندیت کی بنیاد کو مضبوط کرنے بالکل مرکزی نقطہ یہ مدارسِ اسلامیہ ہیں، ہماری اتنی بڑی طاقت ہے، آپ لوگ دارالعلوم دیوبند کی، اس کے مسلک اور اس کی علمی پہچان کو پہنچانے کے لیے کہ دارالعلوم دیوبند یا دیوبندی مکتب فکر کے علاوہ کسی اور مکتب فکر کے پاس اس کا پاسنگ بھی نہیں ہے، یہ ایسی چیز ہے،جس کو ہم اور آپ ہر جگہ اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں۔

                تعلیم وغیرہ میں انحطاط اور ا ضمحلال تو ہے، ہم سے پہلے لوگوں سے ہم نے زبان سے سنا ہے کہ دارالعلوم کا دربان بھی صاحب نسبت ہوتا تھا، جس زمانہ کو ہم نے دیکھا ہے آج جب ہم اس تصویر کو اپنے سامنے لاتے ہیں توہمیں محسوس ہوتا ہے کہ ہماری آنکھوں کے سامنے ویرانہ ہے؛ لیکن آنے والا زمانہ اس کے مقابلے میں اور بھی زیادہ تنگ وتاریک ہوگا، دارالعلوم دیوبند، اپنی مادرعلمی سے تعلق رکھنے والے مدارس اسی انقلاب سے زمانے کو روکنے کے لیے بنیادی کردار ادا کررہے ہیں، میں کہتاہوں علمی اعتبار سے بھی اور مسلکی اعتبار سے بھی آپ ہی حضرات کا کردار ہے جو دنیا میں اور خاص طریقے سے ہندوستان کی سرزمین میں مسلکِ حق کے جھنڈے کو بلند کیے ہوئے ہے اوران شاء اللہ کرتا رہے گا۔

                یہ صحیح ہے، میرے کچھ بزرگوں نے، دوستوں نے یہ بات کہی تھی کہ جس طریقے کی ٹریننگ ہونی چاہیے وہ ٹریننگ نہیں ہے، آپ کا فرض ہے کہ آپ ٹریننگ دیں اس کو،اگر اسے ختم نبوت کے لیے تیار کرنا ہے تو ہاں ٹریننگ دیجیے، اگر اس کو ردّعیسائیت کے لیے تیار کرنا ہے توہاں ٹریننگ دیجئے، اگر یہ طالب علم ذہین وفہیم ہے، اعلیٰ نمبرات سے کامیاب ہوا ہے آپ اس کو بہترین مفتی بنائیے اوراس کو ٹریننگ دیجئے، اگر اس کے دل کی خواہش معلّم اور مبلغ بننے کی، آپ اس کو دو تین سال کا کورس لگاکر بنائیے بہترین مدرس۔

                میں حضرت مہتمم صاحب سے بحیثیت رابطہ کے ممبر ہونے کے درخواست کرتا ہوں کہ آپ بہترین طلبہ کو تربیت وٹریننگ دے کر صورت حال پر قابوپاسکتے ہیں۔

                دوسری بات جو میں آپ سے کہنا چاہتا تھا کہ اس ملک کے حالات بالکل دگرگوں ہیں، میں اربابِ مدارس سے کہتاہوں اور میں نے یہ بات بہت بڑے اجتماع سے پرسوں جے پور میں جو دوڈھائی لاکھ سے کم کا مجمع نہیں ہوگا، راجستھان کی تاریخ میں ایسا مجمع کبھی نہیں دیکھا جیسا مجمع پرسوں جے پور کے اندر تھا، میں نے وہاں بھی یہ بات کہی تھی اور میں اربابِ مدرسہ سے کہتاہوں کہ اپنے مدرسے کے سرکل میں بیٹھ کر خوش نہ ہونا کہ حالات سے ہم بالکل محفوظ ہیں۔ حالات نے ملک کی آزادی کے سترسال بعد ایسی کروٹ لی ہے کہ اس کا تصور آج سے پہلے نہ وہ کرسکتے تھے نہ ہم کرسکتے تھے کہ اس طرح ملک کے اندر انقلاب آئے گا، یہ انقلاب آگیا اور اس انقلاب کے آنے کے بعد آپ یعنی خاص طور پر مسلمان اور کرسچین ان کے لیے بہت بڑی مشکلات کا سامنا ہے اور بڑے دروازے شرکے کھول رکھے ہیں، آپ کاکردار اس میں کیا ہوگا؟ آپ اس کو سوچیں اور آپ رشد وہدایت اور علومِ نبوت کی ان مراکز کی مکتب سے لے کر مدرسے تک کی حفاظت کس طرح کرسکتے ہیں؛ آپ کو یہ بات سوچنی ہوگی اوراس جنجال سے نکلنے کے لیے راستے بنانے پڑیں گے۔

                یاد رکھو! دنیا کے حالات کو دیکھو، فلسطین میں کیاہورہا ہے، دیکھو برما میں کیاہورہا ہے، وہ لوگ یہاں سے پڑھ پڑھ کے گئے تھے، ان کے مدرسے تھے، وہ سرسبز وشاداب تھے، ظلم وبربریت نے ان کے راستوں کو بند کردیا، ہم جو کچھ حکومتوں سے طلب کرتے ہیں، شکایتیں کرتے ہیں، ہماری مسجد نہیں بننے دیتے ہیں، مثال کے طریقے پر ہمارے مدرسے میں رکاوٹ ڈالتے ہیں، مثال کے طریقے پر ہم کواسکول کے اندر ملازمتوں میں حق نہیں ملتا، ہم شکایت کرتے ہیں اس کی بنیاد صرف اور صرف ملک کا سیکولر دستور ہے کہ دستور میں یہ لکھا ہے، ہمیں ہماراحق نہیں مل رہا ہے، یہ ہماری شکایت ہے، میرے بھائی آج ملک کے اندر مسئلہ اسی دستور کو آگ لگانے کا ہے،آج جو طاقت ابھر رہی ہے وہ کہتی ہے کہ ہمیں ملک کو ہندو اسٹیٹ بنانا ہے، اس کا مطلب ہے کہ اس دستور کو آگ لگانی ہے، آپ کے نیچے سے وہ زمین جس پر آپ کھڑے ہیں وہی نکل گئی تو آپ سوال کس چیز کا کریں گے؟ آپ کو جینے کا حق اس ملک کے اندر نہیں ہے اور ملک اسی طرف چل رہاہے، ہمیں مسلمان کو دوسرے درجہ کا شہری سمجھا جارہا ہے اور جب ہم مسلمانوں کو دوسرے درجہ کا شہری بنادیں گے تو اسے ووٹ دینے کا حق نہیں رہے گا، تو مسلمان برما اور فلسطین کی طرح اپنی زندگی گذاریں گے۔ کبھی ملک کے اندر اس طرح کے حالات نہیں آئے، آج آرہے ہیں اس طرح کے حالات، عورتیں،مرد گیروے رنگ کے کپڑے پہن کر ببانگ دہل کہہ رہے ہیں کہ جہاں مسلمان ملے اس کو قتل کردو اور ملک کی حکومتیں ایسی معلوم ہوتی ہے کہ منھ میں بتاشا رکھے ہوئے بیٹھی ہوئی ہیں۔

                میں یہ سمجھتا ہوں کہ ملک کی اکثریت ملک میں امن وامان رکھنا چاہتی ہے اور مذہب کے مسئلہ کے اندر خلفشار میں نہیں پڑنا چاہتی ہے، ہندو بھی مسلمان بھی، اکثریت بھی اقلیت بھی، اس کا زندہ ثبوت ہے دلّی کا الیکشن، ایسی مارماری ہے دونوں نے ملک کر کہ بی جے پی اس کا تصور بھی نہیں کرسکتی، اب اس کے سامنے بہار اوریوپی کا الیکشن ہے، اس نے یہ سمجھا کہ یہ نفرت کی سیاست زبان پر لانا ہمیں مہنگا پڑرہا ہے، اس لیے وہ پیارومحبت کی بات کہہ رہی ہے، ورنہ آرایس ایس کا کردار، اس کی طبیعت، اس کی سیاست ۷۰ سال سے مسلمان بھگت رہا ہے، اس کے اندر کیا کوئی ترمیم ہوسکتی ہے؟ کسی بھی ترمیم کی کوئی گنجائش نہیں ہے، اس کے اوپر جانا کہ وہ بڑی نرم باتیں کررہے ہیں، اگر کوئی کہتا ہے کہ یقینا وہ صحیح چل رہے ہیں، میں کہتاہوں کہ مسلمان کے ایشوہیں رزرویشن دیں اقلیت کو، فسادات کے خلاف قانون بنانا چاہیے، قانون بنادو، اگر مسلمان سے ہمدردی ہے؛ لیکن کون ہے مائی کا لال جو بنادے گا، آر ایس ایس بنائے گی؟ بی جے پی بنائے گی؟ چیف منسٹر اور پرائم منسٹر بنائیں گے؟ ہوم منسٹر؟ ہونہیں سکتا، ہونہیں سکتا۔

                ملک کے حالات کو دیکھو، میں ان حالات کے اندر آپ کو، اربابِ مدارس کو پیغام دیتا ہوں، آپ اپنی چہاردیواری کے اندر خوش ہیں، آپ مگن ہیں، مدرسے کو چلارہے ہیں، میرے بھائی غلط بات ہے، آپ اس پر خوش نہ ہوں،آپ کواپنی زندگی کا رخ تبدیل کرنا ہوگا اوراگر تبدیل نہیں کروگے تو یاد رکھو، ملک جدھر چل رہا ہے، جو طوفان اور ہوائیں چل رہی ہیں، آپ مدرسے میں بیٹھ کر اس کا مقابلہ نہیں کرپاؤگے، اس کے لیے آپ کو اپنے اندر تبدیلی لانی ہوگی اور وہ تبدیلی آپ کس طرح سے لائیں گے، میں بہت کھلی ہوئی بات کہتا ہوں، میں کہتاہوں کہ حالات بتارہے ہیں کہ ملک کی اکثریت ہندوملک میں امن کو چاہتاہے، پیار ومحبت کو چاہتا ہے اوراس کا بالکل زندہ ثبوت دلّی کا الیکشن ہے، آپ یہ سمجھتے ہیں کہ تنہا حکومت کو مسلمانوں نے تبدیل کردیا ہے، مسلمانوں کے اندر یہ طاقت نہیں ہے، ہندواورمسلم نے مل کر یہ محسوس کیا کہ ہم سے غلطی ہوئی مرکز کے الیکشن میں، حکومت کوئی پروگرام ملک کی ترقی کا آٹھ مہینے میں نہیں کرسکی اور جس طرح سے ہر آرایس ایس کا ورکر زبان کھول کر نفرت کاپیغام دے رہا ہے، اگر یہ چیز آگے بڑھی تو ملک میں امن وامان نہیں رہے گا، ملک فرقہ پرستی کی بنیاد پر ٹوٹ چکا ہے پھر ٹوٹے گا اور یہ گوارا نہیں ہے، مل جل کر اس طریقے کو اختیار کیا کہ بی جے پی کے وہم وگمان میں وہ چیزنہیں ہے، میرے بھائی اس نفرت کے زمانے کے اندر میں کہتاہوں کہ اربابِ مدارس کو کہ محبت کے اس پیغام کو آگے بڑھانا پڑے گا اوریہ بالکل کھلی ہوئی چیز ہے، وہ لوگ جن کے دلوں میں نفرت نہیں ہے، وہ آپ کے قریب آنا چاہتے ہیں۔

                ضروری ہوگا کہ آپ اس دیوار کو مہندم کریں اور وہ دیوار پیارومحبت کے بغیر منہدم نہیں ہوگی، میں کہتا ہوں کہ جس طرح آگ کو آگ سے نہیں بجھایا جاسکتا، یاد رکھئے فرقہ پرستی کو آگ سے نہیں مٹاسکتے،اگر آگ کو مٹانا ہے اوریقینا مٹانا ہے اسلام کو زندہ رکھنے کے لیے توآپ کو فرقہ پرستی کا مقابلہ پیارومحبت سے کرناہوگا اورمیں سمجھتا ہوں کہ آپ کو کرنا چاہیے۔ میں بحیثیت رابطہٴ مدارس کے ایک ممبر ہونے کے میں آپ سے یہ درخواست کرتاہوں کہ آپ جہاں جائیں چاہے وہ مکتب ہو چاہے وہ مدرسہ ہو آپ اکثریت کے اس طبقہ کو جو آپ کے معاشرے کے اندر وہاں کے رہن سہن کے اندر ہیں آپ ان کو بلائیے، آپ ان کو دکھلائیے مدرسے کو، آپ کیا پڑھاتے ہیں وہ بتلائیے، اپنے سے قریب کیجئے، کل کو کوئی پکار اٹھے گا توآپ کو کچھ ہمنوائی، آپ کی آواز میںآ واز ملانے والے اکثریت کے لوگ تو کچھ مل جائیں گے، ورنہ ان حالات میں میرے بھائی ملیں گے نہیں، میں یہ سمجھتا ہوں کہ مسلمانوں کو بلکہ علماء کو خاص طور پر اس مسئلے کے اندر اپنے رخ کو تبدیل کرنا چاہیے، آپ اگر تبدیل کریں گے تو زندہ رہیں گے، مدرسے آپ کے زندہ رہیں گے۔

                یہ صورت حال ملک کے اندر ایسی ہے کہ جس کا تصور نہیں کیا جاسکتا؛ مگر ہمیں اسی صورت حال کے اندر جینا ہے، ہمیں میدان کو بہتر کرنا ہے، تو میں اربابِ مدارس سے خصوصیت کے ساتھ کہتا ہوں کہ بھئی اپنے ہم نوا پیدا کرو شریعت کے اندر، پیار ومحبت کی فضا پیداکرو، اپنے پروگراموں کے اندر ان کو بلاؤ، وہ افراد جو مدرسوں سے مکتبوں سے متعلق نہیں ہیں، میں ان سے کہتاہوں کہ اپنی نجی زندگی کے اندر ان سے رابطہ کرو، ان کے دکھ سکھ میں شریک ہو، اپنے دکھ سکھ میں ان کو بلاؤ، شریک کرو، یہی ہماری تاریخ تھی۔

                میں نے سہارنپور میں ان لوگوں کو دیکھاہے جو جیل میں حضرت (شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنی) رحمہ اللہ کے ساتھ سہارنپور میں تھے اورروزانہ حضرت کے ساتھ بیٹھتے تھے، جیل میں کوئی کام نہیں تھا، بیٹھو بات چیت کرو، ایک صاحب تھے بوڑھے آدمی، آنا چھوڑ دیا انھوں نے، حضرت نے پیغام بھی بھیجا کہ بھئی کیوں نہیں آرہے ہیں، نہیں آئے، پھر دو چار دن کے بعد حضرت خود تشریف لے گئے، اس نے کہا کہ مولانا میں آپ کے ساتھ نہیں بیٹھوں گا، کیوں؟ کیاقصور ہوگیا؟ فرمایا کہ مجھے خطرہ ہے کہ میں کچھ دیر آپ کے ساتھ بیٹھوں گا تو میں اپنے مذہب کو چھوڑ دوں گا، اور میں اسے چھوڑنا نہیں چاہتا۔

                یہ کردار تھا علماء کا، ہمارے مدرسوں کے اندر یہ کردار نہیں، میں کہتاہوں کہ آپ کو ہرجگہ اس کردار کو پیدا کرنا چاہیے اور جو غلط فہمیاں فرقہ پرستوں نے پیدا کی ہیں اس غلط فہمی کی دیوار کو منہدم کرنا چاہیے، اگر آپ اس میں کامیاب ہوگئے تو آپ نے اپنے مستقبل کو محفوظ کرلیا، اپنی آنے والے نسلوں کو مستقبل کے لیے محفوظ کرلیا اور اللہ تعالیٰ ہم سب کو اسی راستہ پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے، میں معذرت چاہتا ہوں بات لمبی ہوگئی۔

تجاویز اوران سے متعلق اظہارِ خیال

                مجلس عمومی رابطہٴ مدارسِ اسلامیہ کے اس اہم ترین کل ہند اجلاس میں مختلف موضوعات پر ۷/اہم تجاویز پیش ہوکر اتفاق رائے سے منظور کی گئیں۔ اجلاس کی پہلی اہم ترین تجویزناچیز راقم السطور (شوکت علی قاسمی بستوی، خادم رابطہ مدارس) نے پیش کی، تجویز میں سرگرم فرقہ پرست عناصر کے غیرذمہ دارانہ بیانات واقدامات اورانتہاپسندانہ طرزِ عمل پر گہری تشویش کا اظہار کیاگیا ہے اور انھیں ملک کی فرقہ وارانہ یک جہتی اور ہم آہنگی کے لیے بڑا خطرہ قرار دیاگیا ہے اورحکومتِ ہند کے ذمہ داران کو متوجہ کیاگیاکہ وہ اپنی اپنی ذمہ داریاں پوری کرتے ہوئے اس صورت حال پر روک لگائیں اور سیکولرزم کے تحفظ اور تمام اقلیتوں کو مطمئن کرنے کے لیے ضروری اقدامات کریں۔

                اس تجویز کی تائید کے سلسلہ میں حضرت مولانا سیّدمحمود اسعد مدنی زیدمجدہم، حضرت مولانا اسرارالحق صاحب قاسمی زیدمجدہم کے اہم خطابات ہوئے اور جناب مولانا قاری شوکت علی صاحب یوپی، جناب مولانا غیاث الدین صاحب حیدرآباد، جناب مولانا صدیق اللہ صاحب چودھری مغربی بنگال،جناب مولانا زین العابدین صاحب کرناٹک، جناب مولانا محمد قاسم صاحب پٹنہ، جناب مولانا اسجد صاحب قاسمی ندوی مرادآباد، جناب مولانا الیاس صاحب پیپلی مزرعہ، جناب مولانا محمد خالد صاحب نوح، جناب مولانا عبدالشکور صاحب قاسمی کیرالا وغیرہ نے تائید کے سلسلے میں مختصر اظہارِ خیال فرمایا۔

                دوسری تجویز: ”موجودہ حالات میں مدارس کو درپیش مسائل ومشکلات اور ان کے حل“ سے متعلق جناب مولانا محمدسلمان بجنوری استاذ دارالعلوم دیوبند نے پیش کی، تجویزمیں ذمہ دارانِ مدارس کو متوجہ کیاگیا ہے کہ مدارس اپنی دینی اور ملکی ذمہ داریوں کو سمجھیں اور موجودہ ماحول میں نہ مایوسی کاشکار ہوں اور نہ مشتعل ہوکر منفی ذہنیت کا شکار ہوں۔

                تیسری تجویز: ”معیارِ تعلیم وتربیت اور مدارس کے داخلی نظام کو بہتر بنانے“ کے متعلق جناب مولانا مفتی شبیر احمد قاسمی صدرمفتی جامعہ قاسمیہ مدرسہ شاہی مرادآباد نے پیش کی، تجویز میں اہل مدارس پر زور دیاگیاہے کہ مدرسہ کے داخلی نظام کو بہتر بنائیں، اچھی تعلیم وتربیت کا نظم کریں اور مالیاتی نظام کو شرعی وقانونی پہلوؤں سے شفاف رکھیں۔

                چوتھی تجویز: ”معاشرہ کی اصلاح میں مدارس کا کردار“ جناب مفتی زین الاسلام قاسمی مفتی دارالعلوم دیوبند نے پیش کی، تجویز میں علماء کرام اور مدارس اسلامیہ کے ذمہ داران کو تاکید کی گئی ہے کہ وہ معاشرے کی اصلاح اور غیرشرعی رسوم ورواج کے قلع قمع پر خصوصی توجہ فرمائیں۔

                پانچویں تجویز: جناب مولانا متین الحق اسامہ کانپوری نے پیش کی، جس میں ملک کے طول وعرض میں مسلمانوں کے درمیان مختلف ادیانِ باطلہ اور فرقِ ضالہ کی جاری سرگرمیوں کے تعاقب پر زور دیاگیاہے۔

                 جناب مولانا عبداللہ معروفی استاذ دارالعلوم دیوبند نے چھٹی تجویز پیش کی جس میں ملک میں جاری ارتدادی سرگرمیوں کے تعاقب اور روک تھام کے لیے نظامِ کار بنانے کی ضرورت پر زور دیاگیا ہے۔

                آخر میں راقم الحروف نے تجویز تعزیت پیش کرتے ہوئے، خادم الحرمین الشریفین الملک عبداللہ بن عبدالعزیز آل سعود رحمہ اللہ اور ماضی قریب میں وفات پانے والی دیگراہم شخصیات حضرت مولانا زبیرالحسن کاندھلوی نظام الدین مرکز دہلی، حضرت مولانا محمد ادریس صاحب خلیفہ حضرت شیخ الاسلام بہار، حضرت مولانا محمد کامل صاحب گڈھی دولت مظفرنگر، جناب ڈاکٹر کلیم عاجز صاحب امیر تبلیغ صوبہ بہار، جناب مولانا حسین احمد صاحب رکن عاملہ رابطہ جموں کشمیر کے انتقال پر تعزیت پیش کی اوران کے لیے دعا مغفرت کی گئی۔ تمام تجویزوں کو حاضرین نے اتفاق رائے سے منظور کیا۔

                دیگراظہار خیال فرمانے والوں میں جناب مولانا مفتی محمد سلمان صاحب منصورپوری استاذ حدیث ومفتی جامعہ قاسمیہ مدرسہ شاہی مرادآباد، جناب مولانا جمیل صاحب قاسمی، ایم․ ایل․ اے یوپی، جناب مولانا محمد عفان صاحب قاسمی، صدرمدرس جامعہ اسلامیہ امروہہ، جناب مولانا ممتاز صاحب شملہ، مولانا محمداحمد خاں صاحب مدھیہ پردیش، مولانا مناظر احسن بہار کے اسماء شامل ہیں۔

                اجلاس میں صوبہ جات اترپردیش،اتراکھنڈ، آسام، دہلی، بہار، ہریانہ، پنجاب، ہماچل پردیش، جموں کشمیر، مغربی بنگال، جھارکھنڈ، چھتیس گڑھ، اڑیسہ،مدھیہ پردیش، راجستھان، گجرات، مہاراشٹر، آندھرا پردیش، تلنگانہ، تامل ناڈو، کرناٹک، کیرالا، میگھالیہ، منی پور، میزورم صوبوں کے ساڑھے تین ہزار سے زائد مدارسِ اسلامیہ کے نمائندگان، علمائے کرام نے شرکت فرمائی۔

رابطہٴ مدارس کی مجلس عاملہ کا اجلاس

                قابل ذکر ہے کہ ۲/جمادی الثانیہ ۱۴۳۶ھ مطابق ۲۳/مارچ ۲۰۱۵/ کو دارالعلوم دیوبند کے مہمان خانہ میں رابطہٴ مدارسِ اسلامیہ کی ۵۱ رکنی مجلس عاملہ کا اہم اجلاس حضرت مولانا مفتی ابوالقاسم صاحب نعمانی زیدمجدہم، مہتمم دارالعلوم دیوبند وصدر رابطہٴ مدارس کی زیر صدارت منعقد ہوا، جس میں حضرت والا نے افتتاحی خطاب فرمایا اور رابطہ کے اغراض ومقاصد پر روشنی ڈالی، ناظمِ عمومی رابطہٴ مدارسِ اسلامیہ جناب مولانا شوکت علی قاسمی نے نظامت کے فرائض انجام دیے اور رابطہٴ مدارس کی رپورٹ پیش کی اور مرکز اور صوبوں کی کارکردگی کاجائزہ پیش کیا۔

                مجلس عاملہ کے اجلاس میں مدارس اسلامیہ کو درپیش مسائل کا جائزہ اور حل، مدارس اسلامیہ کے نظام تعلیم وتربیت کی بہتری اوراستحکام کی تجاویز، رابطہ کی صوبائی شاخوں کو مزید فعال بنانے کی ضرورت وغیرہ امور پر تبادلہ خیال ہوا اور اہم فیصلے کیے گئے۔

                عاملہ کے اجلاس میں جو ارکانِ مجلس عاملہ رابطہ مدارس حضرت غور وخوض اور بحث میں شریک رہے ہیں ان میں حضرت مولانا سعیداحمد صاحب پالن پوری شیخ الحدیث دارالعلوم دیوبند، حضرت مولانا بدرالدین اجمل قاسمی، حضرت مولانا رحمت اللہ صاحب قاسمی ارکان شوریٰ دارالعلوم دیوبند، حضرت مولانا قمرالدین صاحب، حضرت مولانا عبدالحق صاحب، حضرت مولانا نعمت اللہ صاحب، حضرت مولانا سید ارشدمدنی صاحب، حضرت مولانا ریاست علی صاحب بجنوری، حضرت مولانا قاری سیدمحمد عثمان صاحب، حضرت مولانا عبدالخالق صاحب مدراسی، حضرت مولانا حبیب الرحمن صاحب اعظمی، حضرت مولانا نورعالم صاحب امینی، حضرت مولانا عبدالخالق صاحب سنبھلی، حضرت مولانا محمد احمد صاحب (اساتذہٴ کرام دارالعلوم) جناب مولانا اشہدرشیدی صاحب مرادآباد، جناب مولانا صدیق اللہ چودھری صاحب کولکاتہ، جناب مولانا قاری شوکت علی صاحب ویٹ، جناب مولانا محمد قاسم صاحب پٹنہ، جناب مولانا ظفرالدین صاحب دہلی، جناب مولانا محمداسجد صاحب قاسمی بستوی مرادآباد، جناب مولانا عبدالشکور صاحب کیرالا، جناب مولانا قاری محمدامین صاحب راجستھان، جناب مفتی محمد اشفاق صاحب سرائے میر، جناب مفتی خلیل الرحمن صاحب مہاراشٹر، جناب مفتی سراج الدین قاسمی صاحب منی پور، جناب مفتی زین العابدین صاحب کرناٹک، جناب مولانا ممتاز صاحب شملہ، جناب مولانا محمد الیاس صاحب ہریانہ، جناب مولانا محمد خالد صاحب ہریانہ، جناب مولانا متین الحق اسامہ صاحب کانپور، جناب مولانا ریاست علی صاحب اتراکھنڈ وغیرہ کے اسماء گرامی شامل ہیں۔

                اجلاس میں تشریف لانے والے تمام مندوبین کرام کو دارالعلوم دیوبند کی جانب سے فائل پیش کی گئی۔ فائل میں خطبہٴ صدارت اور سکریٹری رپورٹ کے علاوہ دو رسالے بھی شامل تھے، پہلا رسالہ تھا ”مدارس اسلامیہ، حقیقی کردار اور نصب العین کا تحفظ، تجاویز اور مشورے“ جو رابطہٴ مدارس اسلامیہ کے مختلف اجتماعات کی تجاویز وسفارشات کی روشنی میں ترتیب دیا گیا تھا۔ دوسرا کتابچہ تھا ”اسلامی رواداری، قرآن وحدیث اور تاریخی شواہد کی روشنی میں“ یہ دونوں رسالے گرامی قدر محترم حضرت مولانا مفتی ابوالقاسم صاحب نعمانی دامت برکاتہم، مہتمم دارالعلوم دیوبند وصدر رابطہٴ مدارس اسلامیہ عربیہ کی حسبِ ہدایت، راقم الحروف نے مرتب کیے تھے، اللہ کا شکر واحسان ہے کہ دونوں رسالے مندوبین کرام نے بطور خاص پسند کیے۔

                اجلاس کی تیاری کے لیے مختلف انتظامی کمیٹیاں تشکیل دی گئی تھیں، تمام کمیٹیوں کے کنوینر صاحبان، حضرات اساتذئہ دارالعلوم، ارکان وکارکنان پوری دل جمعی اورمستعدی کے ساتھ حضرت مولانا مفتی ابوالقاسم صاحب نعمانی زیدمجدہم مہتمم دارالعلوم دیوبند وصدر رابطہٴ مدارسِ اسلامیہ کی سرپرستی اور حضرت مولانا عبدالخالق صاحب مدراسی نائب مہتمم دارالعلوم اور حضرت مولانا عبدالخالق صاحب سنبھلی نائب مہتمم دارالعلوم کی زیرنگرانی، انتظامی امور کی انجام دہی میں مصروف رہے اوراجلاس کی کامیابی میں اہم کردار ادا کیا۔

                ذیل میں اجلاسِ مجلسِ عمومی کی تجاویز کا مکمل متن پیش کیاجارہا ہے۔

تجاویز منظور شدہ:

کل ہند اجلاس مجلسِ عمومی رابطہٴ مدارسِ اسلامیہ عربیہ دارالعلوم دیوبند

منعقدہ: ۳/ جمادی الثانیہ ۱۴۳۶ھ مطابق ۲۴/مارچ ۲۰۱۵/ بروزمنگل

—————————

تجویز ۱ : حکومتِ ہند کو اس کی ذمہ داریوں کی یاد دہانی

                مجلس عمومی کل ہند رابطہٴ مدارسِ اسلامیہ دارالعلوم دیوبند کا یہ عظیم الشان اجلاس، حکومت ہند کو اس کی ذمہ داریاں یاد دلانا ضروری سمجھتا ہے، خاص طور پر اس لیے کہ ملک کے طول و عرض میں مختلف ناموں سے سرگرم، فرقہ پرست عناصر کے غیرذمہ دارانہ بیانات واقدامات اور انتہاپسندانہ طرزِعمل کی وجہ سے ملک کی فرقہ وارانہ یک جہتی اور ہم آہنگی کو سخت خطرہ لاحق ہوگیا ہے اور بعض صوبائی حکومتوں کی جانب سے مخصوص مذہبی کتابوں کو نصاب میں شامل کرنے اور مخصوص طریقہٴ عبادت (مثلاً سوریہ نمسکار) کو اسکولوں میں لازم کرنے جیسے فیصلے آئین کے جمہوری کردار سے ہم آہنگ نہیں ہیں، جس سے اقلیتوں بشمول مسلمانوں کو اپنے آئینی حقوق سے محرومی کا احساس پیداہونا لازمی ہے، جو ملک وقوم کے حق میں بہتر نہیں ہے۔

                جب کہ یہ حقیقت بھی روز روشن کی طرح واضح ہے کہ ملک کی یک جہتی اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی ورواداری ہی نہیں؛ بلکہ ملک کے امن وامان کا تحفظ، ملک کے جمہوری اور سیکولر نظام کے ذریعہ ہی ہوسکتا ہے۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ملک کی آزادی سے لے کر اس کے استحکام وترقی میں ملک کی اقلیتیں بالخصوص مسلمانوں کی قربانیاں نیز وطن کے لیے قربانی اور وفاداری میں مسلمانوں اور مدارسِ اسلامیہ کا کردار ہر شک وشبہ سے بالاتر اور مثالی ہے، جس کا اعتراف ہر دور میں حکومت کے ذمہ داران کرتے رہے ہیں، لیکن فرقہ پرست طاقتیں آئے دن مسلمانوں اور ان کے دستوری حقوق بالخصوص مدارسِ اسلامیہ کے خلاف بیان بازی کرکے ملک کے امن وامان اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو تباہ کرنے کے درپے ہیں، جس سے عالمی سطح پر بھی ملک کی شبیہ خراب ہورہی ہے۔

                اس لیے یہ اجلاس حکومتِ ہند کو متوجہ کرنا ضروری سمجھتا ہے کہ وہ اپنی آئینی ذمہ داری پوری کرتے ہوئے اس صورتحال پر روک لگائے اور سیکولرزم کے تحفظ اور تمام اقلیتوں کو مطمئن کرنے کے لیے ضروری اقدامات کرے۔

تجویز ۲ : موجودہ حالات اور مدارس کو درپیش مسائل ومشکلات کا حل

                مجلس عمومی کل ہند رابطہٴ مدارسِ اسلامیہ دارالعلوم دیوبند کا یہ عظیم الشان اجلاس، مدارسِ اسلامیہ کو اس صورتِ حال کی طرف متوجہ کرنا ضروری سمجھتا ہے کہ گذشتہ چند سالوں کے دوران عالمی اور ملکی سطح پر رونما ہونے والی تبدیلیوں نے مدارس اسلامیہ اور تمام مسلمانوں کے لیے نئے چیلنج کھڑے کردیے ہیں، ایک طرف مسلمانوں کو مشتعل کرنے اور انھیں غیرضروری معاملات میں الجھانے کی ناروا کوششیں جاری ہیں، دوسری طرف ان کے شفاف کردار کو مشتبہ بنانے اور ہر قسم کا نقصان پہنچانے کی سازشیں ہورہی ہیں اور مجموعی اعتبار سے ایسا ماحول پیدا کیا جارہاہے جس میں مسلمان یا تو مایوسی کا شکار ہوکر پیچھے ہٹ جائیں یا مشتعل ہوکر منفی ذہنیت کا شکار ہوجائیں۔

                ایسے حالات میں مدارسِ اسلامیہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایک طرف تو مسلمانوں کی صحیح رہنمائی کریں اور قرآن وحدیث کی روشنی میں ان کو بتائیں کہ مسلمان کا کام نہ تو مایوس ہونا ہے اور نہ مشتعل ہونا، بلکہ ایک اچھا مسلمان ہر قسم کی صورت حال کاسامنا پورے تحمل وتدبر اور دانش مندی سے کرتا ہے اور اپنی ذمہ داری پوری کرتے ہوئے اپنے اللہ پر بھروسہ رکھتا ہے، اس لیے مسلمان کسی منفی پروپیگنڈہ کا شکار نہ ہوں اور اپنے بچوں کی دینی وعصری تعلیم پر بھرپور توجہ دیں اوراپنے حقوق کے لیے آئینی جدوجہد جاری رکھیں اوراپنے معاشرہ کو برائیوں سے پاک کرکے اللہ کی مدد کے مستحق بننے کی کوشش کریں۔

                دوسری طرف خود مدارسِ اسلامیہ اپنے نظام سے ہر قسم کی خامیوں کو دور کریں، اپنے تعلیمی وتربیتی نظام کو بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ اپنے تمام کاموں میں ایسی شفافیت لائیں کہ کسی کو انگلی اٹھانے کا موقع نہ مل سکے، مدارس کی جائیداد اور حساب کتاب کو قانونی اعتبار سے مستحکم رکھیں، مشتبہ عناصر سے ہوشیار رہیں، اپنے علاقہ کی دینی ضرورتوں کے ساتھ بلاتفریقِ مذہب عام انسانی ضرورتوں کی تکمیل میں بھی اپنا اخلاقی کردار ادا کریں، برادرانِ وطن سے مناسب تعلقات رکھیں اور حسب موقع ان کو مدارس میں دعوت دے کر مدارس کے پیغامِ امن وانسانیت سے واقف ہونے کا موقع دیں، غیرمتعلقہ مسائل میں دلچسپی لینے سے اجتناب کریں اور اپنے مجموعی کردار سے اسلام کی بہترین نمائندگی کا فریضہ انجام دیں۔

تجویز ۳ : معیارِ تعلیم وتربیت اور داخلی نظام بہتربنانے کی ضرورت

                مجلس عمومی رابطہٴ مدارسِ اسلامیہ عربیہ دارالعلوم دیوبند کا یہ اجلاس تمام مدارسِ اسلامیہ کو اس طرف متوجہ کرنا ضروری سمجھتا ہے کہ تعلیم وتربیت کی عمدگی مدارس کی روح ہے اور نظام کی بہتری اس کے لیے شرط ہے، مدارس کا مقصد ایسے رجالِ کار تیار کرنا ہے جو کمالِ علم وعمل سے متصف اور خشیت وانابت کی کیفیت سے مزین ہوں، جن کی دین سے وفاداری ہر دنیوی مفاد سے بالاتر ہو اور جو اپنے علمی رسوخ، عملی پختگی اور اخلاقی پاکیزگی کی بناپر ملت اسلامیہ کی بہترین رہنمائی کرسکیں۔

                ظاہر ہے ایسے افراد کی تیاری کے لیے تعلیم وتربیت کی عمدگی حددرجہ ضروری ہے،اس مقصد کے لیے ضروری ہوگا کہ تعلیم وتربیت کو مدرسہ کے نظام میں مقصد کی حیثیت سے اہمیت دی جائے، باصلاحیت اور محنتی اساتذہ کا تقرر کیا جائے، طلبہ کی بھرپور علمی وعملی تربیت کا نظام بنایاجائے اور مدرسہ کا ماحول ایسا بنایا جائے کہ دیکھنے والے کو پہلی نظر ہی میں ایک علمی اور دینی مہذب معاشرہ کا عکس نظر آئے، ساتھ ہی یہ بھی ضروری ہے کہ مدرسہ کا داخلی نظام بہتر بنایا جائے، اساتذہ وطلبہ کے ساتھ بہترین طرزِ عمل اختیار کیا جائے، حوصلہ افزائی کے لیے علمی وعملی کارگزاری کو معیار بنایا جائے، مالیاتی نظام کو شرعی وقانونی پہلوؤں سے شفاف رکھا جائے، نظام کی عمدگی کا ایک اہم حصہ امتحانات کا معیار بہتر بنانا ہے،اس پر سنجیدگی سے توجہ دی جائے، مجموعی اعتبار سے رابطہٴ مدارس اسلامیہ عربیہ دارالعلوم دیوبند کے طے کردہ نظامِ تعلیم وتربیت اور ضابطہٴ اخلاق کو نافذ کیا جائے۔

تجویز ۴ : معاشرہ کی اصلاح میں مدارس کا کردار

                مجلسِ عمومی رابطہٴ مدارسِ اسلامیہ عربیہ دارالعلوم دیوبند کا یہ اہم اجلاس،اس بات کی طرف ذمہ دارانِ مدارس کی توجہ مبذول کرانا ضروری سمجھتا ہے کہ مسلم معاشرہ کی اصلاح،مدارس کی ایک اہم ذمہ داری کی حیثیت رکھتی ہے، بالخصوص ہندوستان جیسے ملک میں مسلمانوں کے تمام دینی معاملات کی نگرانی بنیادی طور پر مدارس کا فرضِ منصبی ہے اور معاشرے میں بگاڑ جس تیزی سے آرہا ہے اس سے ہر شخص واقف ہے، بالخصوص انٹرنیٹ اور موبائل کے ذریعہ نوجوان طبقہ میں برائیاں جراثیم کی طرح سرایت کررہی ہیں اور بے حیائی، فحاشی وعریانیت عام ہورہی ہے، مزید یہ کہ دورِ جدید کی لائی ہوئی ان تمام برائیوں کے ساتھ ساتھ پہلے سے چلی آرہی خرابیاں اپنی جگہ برقرار ہیں، خاص طور پر شادی بیاہ کی رسومات، جہیز کے مطالبہ کی لعنت، شراب نوشی، حرام ذرائع سے مال کمانے کی ہوس، بے پردگی، دینی تعلیم سے دوری اور نماز سے غفلت جیسے بڑے گناہ آج بھی مسلم معاشرہ میں عام ہیں۔

                ایسے حالات میں مدارسِ اسلامیہ کے ذمہ داران اور تمام علمائے کرام کی ذمہ داری ہے کہ وہ پوری دل سوزی کے ساتھ معاشرے کی اصلاح میں اپنا کردار ادا کریں اوراس سلسلے میں باہمی مشورے سے ہر علاقہ کی ضرورت کے مطابق عملی اقدامات کریں اوراس میں ایک دوسرے کا تعاون کریں، نیز اس کے لیے صرف رسمی اور ضابطے کی کارروائیوں پر اکتفا نہ کریں؛ بلکہ اللہ سے رابطہ مضبوط بنانے کی فکر کریں اور تزکیہ واصلاح کا ماحول عام کریں۔

تجویز ۵ : ادیانِ باطلہ اور فرقِ ضالّہ کے تعاقب کی ضرورت

                مجلسِ عمومی رابطہٴ مدارسِ اسلامیہ عربیہ کا یہ اجلاس، شدت کے ساتھ اس بات کو محسوس کرتا ہے کہ موجودہ زمانے میں تمام باطل مذاہب اور گمراہ فرقے، پہلے سے زیادہ سرگرمی کے ساتھ میدانِ عمل میں آگئے ہیں اور وہ اپنے باطل افکار کو جس حوصلہ کے ساتھ پھیلانے کے لیے سرگرم ہیں وہ تمام اہلِ حق کے لیے لمحہ فکریہ ہے، اس لیے یہ اجلاس مدارسِ اسلامیہ کو دوباتوں کی طرف توجہ دلانا ضروری سمجھتا ہے:

                (۱) اسلام، اللہ رب العزت کا آخری اور پسندیدہ دین ہے، جس کے آنے کے بعد دیگر تمام مذاہب وادیان منسوخ ہیں، اب جو لوگ ان مذاہب کا دامن تھامے ہوئے ہیں ان کو حقیقت سے واقف کرانا مسلمانوں کی ذمہ داری ہے، بالخصوص اس صورت حال میں کہ وہ لوگ اپنے باطل مذاہب کی اشاعت کے لیے اس حد تک آگے بڑھ آئے ہیں کہ خود مسلمانوں کو نشانہ بنارہے ہیں، ایسے میں مدارسِ اسلامیہ کو پوری حکمت وسنجیدگی کے ساتھ اس میدان میں اپنا کردار ادا کرنا ضروری ہے، تاکہ دنیا کے سامنے اسلام کی خوبیاں آئیں اور نہ صرف مسلمان اپنے دین وایمان پر ثابت قدم رہیں، بلکہ دیگر مذاہب کی تنگنائیوں میں محصور طبقہ بھی اسلام کی وسعت اور عدل وانصاف سے مستفید ہوسکے۔

                (۲) مدارسِ اسلامیہ اور علماءِ امت کا یہ طبقہ جو مسلکِ اہل السنة والجماعة کا نمائندہ اور حضراتِ اکابر دیوبند رحمہم اللہ کی فکر مستقیم کا وارث ہے، اس کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ مسلمانوں میں شامل یا اسلام سے منسوب فرقِ ضالّہ کے تعاقب پر بھی پوری توجہ دیں اور اس بات کو محسوس کریں کہ موجودہ زمانے میں یہ تمام فرقے دوبارہ پوری شدت کے ساتھ میدان میں اترآئے ہیں اور مسلمانوں کے تمام طبقات میں اپنے باطل افکار کی اشاعت کے لیے محنت کررہے ہیں اور آزاد فکری کے اس دور میں مسلمانوں کی ایک تعداد ان کا شکار بھی ہورہی ہے، ایسے حالات میں ان کی مدلل تردید اور مسلکِ حق کی اشاعت بھی مدارس کے فرضِ منصبی کا حصہ ہے؛ اس لیے اربابِ مدارس اس میدان میں بھی منظم محنت پر توجہ مرکوز فرمائیں، خاص طور سے غیرمقلدیت، بریلویت اور شیعیت کی تردید کے لیے افراد سازی کی کوشش کی جائے۔

                اسی طرح قادیانیت کا فتنہ بھی حسب سابق سرگرم ہے اور اس میدان میں بھی ذمہ داری کے ساتھ کام کرنے کی ضرورت ہے۔

                ان موضوعات پر کام کرنے کے لیے دارالعلوم دیوبند کے شعبہٴ تحفظِ ختمِ نبوت، شعبہٴ تحفظِ سنت اور شعبہٴ محاضرات سے رہنمائی اور تعاون حاصل کیاجائے۔

تجویز ۶ : ارتدادی سرگرمیوں کے تعاقب اور روک تھام کے لیے نظام کاربنانے کی ضرورت

                مجلسِ عمومی رابطہٴ مدارسِ اسلامیہ عربیہ کا یہ اجلاس، مدارسِ اسلامیہ کو اس سنگین مسئلہ کی طرف بھی متوجہ کرنا ضروری سمجھتا ہے جو فرقہ پرست تنظیموں کی ارتدادی تحریک کی شکل میں سامنے آیا ہے، جس کا مقصد غریب نادار اور دینی اعتبار سے کمزور مسلمانوں کو ایمان سے محروم کرنا اور مرتد بنانا ہے، جو ایک مسلمان کے لیے دنیا وآخرت کا سب سے بڑا نقصان ہے۔ یہ فتنہ اگرچہ کچھ دنوں سے زیادہ نمایاں طور پر تذکرے میں نہیں آرہا ہے، لیکن بنیادی طور پر یہ اب بھی زندہ ہے؛ کیوں کہ یہ دراصل ایک مسلسل تحریک ہے،اس کا سب سے پہلا منظم مظاہرہ بیسویں صدی کی دوسری دہائی میں ”شدھی وسنگٹھن“ کی ارتدادی تحریک کی شکل میں ہوا تھا، جس کے مقاصد میں اس وقت تحریک خلافت کے نتیجہ میں پیداہونے والے ہندو مسلم اتحاد کو سبوتاژ کرنا تھا، حضرات اکابر دیوبند رحمہم اللہ نے پوری قوت سے اس کا مقابلہ کیا اور مسلسل جدوجہد کے ذریعہ اس طوفان کو روکا۔

                آج یہ تحریک دوبارہ سرابھاررہی ہے اوراس کی سنگینی کو نظرانداز کرنا فاش غلطی ہوگی؛اس لیے ضروری ہے کہ مدارسِ اسلامیہ اس کی سرکوبی کے لیے کوئی نظام مرتب کریں اور دارالعلوم دیوبند سے اس سلسلے میں تعاون ورہنمائی لے کر باقاعدہ تمام متعلقہ علاقوں میں محنت شروع کریں۔

تجویز ۷ : تجویز تعزیت

                مجلسِ عمومی رابطہٴ مدارسِ اسلامیہ عربیہ دارالعلوم دیوبند کا یہ اجلاس، درج ذیل حضرات کے حادثہٴ وفات پر اظہارِ رنج وغم کرتا ہے، جن سے ملتِ اسلامیہ کو ماضی قریب میں محروم ہونا پڑا، ان شخصیات کا تعلق مختلف میدانوں سے ہے، لیکن یہ سب اپنے اپنے میدان اور دائرئہ کار میں ملتِ اسلامیہ کے لیے اہم سرمایہ کی حیثیت رکھتے تھے۔ اللہ تعالیٰ ان حضرات کی خدمات کو قبول فرمائے اور ان کی مغفرت فرماکر قرب کے اعلیٰ درجات سے نوازے، آمین!

                (۱)          خادمِ حرمین شریفین شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز، سعودی عرب۔

                (۲)         حضرت مولانا زبیرالحسن صاحب کاندھلوی، بنگلہ والی مسجد نظام الدین دہلی۔

                (۳)         حضرت مولانا محمدادریس صاحب، خلیفہ حضرت شیخ الاسلام قدس سرہ (کشن گنج بہار)

                (۴)         حضرت مولانا محمد کامل صاحب، مہتمم مدرسہ بدرالعلوم گڑھی دولت (شاملی)

                (۵)         حضرت مولانا ذوالفقار احمد صاحب، چترا جھارکھنڈ۔

                (۶)          جناب ڈاکٹر کلیم عاجز صاحب، امیرِ تبلیغ صوبہ بہار۔

                (۷)         جناب مولانا محمد صاحب کاندھلوی، بنگلہ والی مسجد نظام الدین دہلی۔

                (۸)         جناب مولانا حسین احمد صاحب پونچھ، رکن مجلس عاملہ رابطہ۔

———————————–

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ7‏-8 ، جلد: 99 ‏، رمضان – شوال 1436 ہجری مطابق  جولائی -اگست  2015ء

Related Posts