از: ڈاکٹر حمید اللہ مرحوم
دُنیا میں لا تعداد مذاہب ہیں، ان میں کئی توحید پرستی پر مبنی ہیں۔ متعدد مذاہب کے پیروکاروں کی تعداد کروڑوں میں ہے۔ ممکن ہے اسلام اپنے پیروکاروں کی تعداد کے اعتبار سے سب سے بڑا مذہب نہ ہو؛ مگر یہ ایک زندہ اور فروغ پذیر مذہب ہے۔ دُنیا کے تمام مذاہب اور لادینی عناصر اس کے خلاف مصروفِ عمل ہیں؛ کیونکہ یہ ایک آفاقی دین ہے اور کسی خطّے یا نسل تک محدود نہیں۔ اسلام میں کسی بھی قومیت میں سرایت کرنے کی صلاحیت بدرجہٴ اتم موجود ہے؛ تاہم ہمارا موضوع اسلام نہیں؛ بلکہ اس عظیم دین کا داعی ہے۔
ادیان کی تاریخ عالم میں یہ کلیہ ہے کہ ہر شخص اپنے مذہب کے بانی کی زندگی اور جدوجہد کے بارے میں بہت کم جانتا ہے۔ اللہ کے ان برگزیدہ بندوں کو اپنی دنیاوی زندگی کے دوران زیادہ کامیابی نصیب نہیں ہوئی، ان کے لائے ہوئے دین کو ان کی موت کے بعد ہی وسعت ملی اور ترقی حاصل ہوئی۔ ادیان کے ان بانی حضرات کی تعلیمات اپنی اصل شکل میں نہیں؛ بلکہ جستہ جستہ ہم تک پہنچی ہیں۔ ان مذاہب کے پیروکاروں نے تاریخ کے عمل کے دوران اپنے ادیان کو وقت کے تقاضوں کے مطابق بنانے کے زعم میں ان کے اصولوں اور عملی پہلوؤں میں کئی تبدیلیاں کردیں۔
محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس قاعدہ کے تمام اصول وضوابط میں ایک استثنا ہیں۔ ان کی زندگی کے بارے میں آنکھوں دیکھے احوال پر جلدوں کی جلدیں موجود ہیں جن میں ان کی پوری زندگی کے ایک ایک لمحے کی تفصیل درج ہے۔ ان کے ذاتی اعمال، ان کے دور اور معاشرہ کی ذرا ذرا سی تفصیل بھی بیان کردی گئی ہے۔ رسولِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم اپنی زندگی میں ہی عظیم ترین کامیابی سے ہم کنار ہوئے۔ جب حجة الوداع کے موقع پر انھوں نے ایک لاکھ چالیس ہزار سے زائد مسلمانوں کے عظیم اجتماع سے خطاب کیا جو مختلف علاقوں سے حج کا فریضہ ادا کرنے مکہ معظمہ آئے تھے، ان سے کئی گنا مسلمان اپنے گھروں میں موجود تھے؛ کیونکہ مسلمانوں پر ہر سال حج کرنا فرض نہیں۔ نہ ہی ان پر یہ فرض تھا کہ وہ کسی خاص سال کے موقع پر ضرور ہی حج کعبہ کو جائیں۔ بلاشبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد بھی اسلام کو زبردست کامیابی نصیب ہوئی؛ مگر اسلام کے داعی کی زندگی میں ان کی تعلیمات کو جو کامیابی حاصل ہوئی، تاریخ میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ جہاں تک رسولِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کا تعلق ہے قرآنِ حکیم لفظ بلفظ ہم تک پہنچا ہے۔ اس کی زبان وہی ہے جس میں وہ نازل ہوا تھا اور یہ جس انداز میں ہم تک آیا ہے وہ قابلِ اعتماد ہے۔ چودہ صدیاں گزرگئیں، اس دوران رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جائے پیدائش یادنیا میں کسی اور جگہ قرآن میں کسی قسم کی تبدیلی کرنے کی ضرورت کسی نے محسوس نہیں کی۔ ہم جانتے ہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کس طرح نماز ادا کرتے تھے، روزہ کیسے رکھتے تھے، اور اُنھوں نے حج کس انداز میں کیا تھا؛ چنانچہ تمام مسلمان آج بھی ان روحانی فرائض کو عین اسی طرح انجام دیتے ہیں جس طرح رسولِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے انجام دیے تھے۔ دوسرے متعدد مذاہب کے پیروکاروں کی طرح ایسے مسلمانوں کی بھی کمی نہیں جو اپنے دین پر عمل نہیں کرتے؛ بلکہ بعض تو محض نام کے مسلمان ہیں۔ اس کے باوجود کسی مسلمان نے خواہ وہ محض نام کا مسلمان ہی کیوں نہ ہو دینِ اسلام کو وقت کے تقاضوں کے مطابق بنانے کے لیے اس میں ترمیم وتنسیخ کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ خود ہمارے دور میں تمام مذاہب میں اصلاح کی تحریکیں سرگرمِ عمل ہیں؛ مگر یہ عجیب بات ہے کہ دوسرے مذاہب کو تو جدید دَور کے چیلنج کا مقابلہ کرنے کے قابل بنانے کے لیے ان میں ترمیم وتنسیخ کی ضرورت محسوس کی جارہی ہے؛ مگر مسلم مصلحین بیک زبان محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اصل تعلیمات کی طرف رجوع کی تلقین کررہے ہیں۔ کسی مذہب کے بانی کو اس سے بڑا خراجِ عقیدت بھلا اور کیا ہوسکتا ہے کہ اس کی تعلیمات آج بھی زندہ ومتحرک ہیں اور ان میں ذرہ برابر تبدیلی کی بھی ضرورت محسوس نہیں کی جارہی۔
دنیا کی مختلف زبانوں میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی سوانح پر ہزاروں کُتب موجود ہیں۔ ان کے مصنفوں میں اسلام کے دوست اور دشمن سبھی شامل ہیں۔ تمام مصنف خواہ وہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کو پسند کریں یا محض اس بات پر ناپسند کریں کہ ان مصنفوں کا تعلق اسلام کے مخالف مذاہب سے ہے، اِس بات پر متفق ہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ایک عظیم انسان تھے۔ جن مصنفوں نے جان بوجھ کر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی اور تعلیمات کو توڑ مروڑ کر پیش کیا ہے — اور ایسے مصنفوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے — دراصل وہ بھی انھیں بالواسطہ طور پر خراجِ عقیدت پیش کررہے ہیں۔ وہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کو مسخ کرکے پیش کرتے ہیں؛ کیونکہ وہ اس بات سے خوفزدہ ہیں کہ اگر انھوں نے اسلام کی صحیح تصویر پیش کردی تو ان کے ہم مذہب ”گمراہ“ ہوجائیں گے جنھیں وہ قبولِ اسلام سے روکنے کے لیے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق بے سروپا کہانیاں گھڑکرسناتے رہتے ہیں، اس طرح کی ذہنی بددیانتی آج بھی جاری ہے۔ یہ بات تحیرخیز ہے کہ جدید مغرب کے زبردست مادی اور دُوسرے وسائل کے باوجود حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کے خلاف پروپیگنڈہ کوئی نتائج پیدا کرنے میں ناکام رہا ہے، جن کی توقع اتنی بڑی تعداد میں کتابوں کی اشاعت، ریڈیو، ٹی وی نشریات اور فلموں کی نمائش کے بعد کی جاسکتی ہے۔ ہم نہیں جانتے کہ جتنے وسائل عیسائی مشنریوں اور کمیونسٹوں کو حاصل ہیں، اگر اسلام اتنے ہی وسائل سے بہرہ ور ہوتا تو دُنیا کا رُخ کیا ہوتا؛ لیکن اس کے باوجود یہ ایک عیاں حقیقت ہے کہ مسیحی اور کمیونسٹ مغرب دونوں میں اسلام نہایت تیزی سے پھیل رہا ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے خاتمہ کے بعد تیس سال کے دوران انگلستان میں کوئی ایک سو سے زاید مساجد تعمیر ہوئی ہیں۔ جرمنی اور فرانس بھی اس میدان میں انگلستان سے پیچھے نہیں۔ امریکی سفید فاموں میں بھی قبولِ اسلام کے واقعات کی کمی نہیں۔ چنانچہ اسلام کو گلے لگانے والوں میں سفرا، پروفیسر اور دیگر معزز پیشوں سے تعلق رکھنے والے افراد شامل ہیں۔ یہ کوئی تعجب خیز بات نہیں کہ ہر سال سیکڑوں سیّاح استنبول میں مشرف بہ اسلام ہوتے ہیں، جہاں اناطولیہ کی نسبت مذہبی جوش وخروش زیادہ نہیں ہے۔
محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کی ایک اور نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ ان کا رشتہ زندگی کے ہر شعبہ سے قایم ہے۔ وہ محض مافوق الطبعیات عقاید تک محدود نہیں۔ وہ انسان کی روحانی زندگی کے ساتھ ساتھ دُنیوی زندگی کے لیے بھی اصول و قواعد بیان کرتے ہیں؛ حتی کہ سیاسیات بھی ان کی تعلیمات کے دائرہ سے باہر نہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ اسلام انسان کی پوری زندگی کی تعمیر میں مدد دیتا ہے۔ دوسرے مذاہب کی طرح محض روحانی پہلو پر نظر نہیں رکھتا اور نہ ہی سیاست کو محض حکمرانوں کے رحم وکرم پر چھوڑتا ہے۔
ہم بہ آسانی کہہ سکتے ہیں کہ اسلام کے پیروکاروں کی زندگی اور ذاتی رویّہ پر دینِ اسلام کے اثرات دوسرے مذاہب کی نسبت نہایت گہرے ہیں۔ یہ مذاہب آفاقیت کے دعویدار تو ہیں، مگر وہ اپنے پیروکاروں میں نسل اور رنگ کا تعصب تک ختم کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ میں نے ۱۹۳۲/ میں انگلستان کی ایک مسجد میں ایک انگریز موٴذّن دیکھا۔ اس نے بڑے فخر سے اپنا نام بلال رکھا ہوا تھا جو پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے حبشی نژاد موٴذّن کا نام بھی تھا۔ یہ کتنی نرالی بات ہے کہ فِن لینڈ کے ایک شخص عقیل نے جو سویڈن میں آباد ہے محض مطالعہ کے بعد اسلام قبول کرلیا؛ حالانکہ قبل ازیں کسی مسلمان سے اس کا تعارف تک نہ تھا۔ پھر فرانسیسی نژاد گینن کو بھی اس نے مشرف بہ اسلام کیا۔ گینن کے پیروکار فرانس، سوئزر لینڈ اور دوسرے علاقوں میں پھیلے ہوئے ہیں اور سیکڑوں افراد کو حلقہٴ اسلام میں داخل کرچکے ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ مغرب والوں کو صرف فخرالدین رازی نے ہی نہیں، محی الدین ابن عربی نے بھی زبردست متاثر کیا ہے۔ یہ کوئی تعجب کی بات نہیں کہ کافر ہلاکوخاں نے عالمِ اسلام کو فتح کرلیا اور عباسیوں کے بغداد کی اینٹ سے اینٹ بجادی؛ مگر چند درویشوں نے اُس کے پوتے غزن خاں کو مشرف بہ اسلام کیا اور عالمِ اسلام کو تباہ وبرباد کرنے والوں کو اسلام کا عظیم علمبردار بناکر رکھ دیا۔
اگر دیگر مذاہب کے بانیوں نے ایک دوسرے پر بعض انسانی خوبیوں میں سبقت حاصل کی ہے تو پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اتنے شعبوں میں فضیلت حاصل کی ہے کہ طالب علم حیرت زدہ رہ جاتا ہے۔ وہ ایک عظیم اور جامع صفات قانون ساز تھے جنھوں نے تمام قانونی سوالات کے جواب میں قواعد مرتب کیے ہیں۔ وہ بہت بڑے منتظم تھے جنھوں نے مُشتِ خاک سے ایک عظیم مملکت قایم کی۔ وہ خود اس کے منتظم اعلیٰ تھے۔ انھوں نے فوجوں کی کمان کی اور بسا اوقات اپنی رضاکار فوج سے تین سے پندرہ گنا بڑی فوج تک کو شکست فاش دی۔ اُن کی اخلاقی تعلیمات پُرمغز ہیں اور ان تعلیمات کو محض مثالی؛ مگر ناقابلِ عمل بنانے کے لیے کسی مبالغہ سے کام نہیں لیاگیا۔ انھوں نے یہ نہیں کہا کہ اگر کوئی تمھارے دائیں گال پر چپت رسید کرے تو بایاں گال بھی اس کے آگے کردو؛ بلکہ وہ کہتے ہیں ”اگر تم ادلے کا بدلہ لو تو یہ بالکل درست اور جائز ہے؛ لیکن اگر تمام معاف کردو تو یہ اللہ کے نزدیک مستحسن ہے۔“ یوں ان کی تعلیمات عام آدمی کے لیے بھی اسی طرح قابلِ عمل ہیں جس طرح کسی ولی، رشی یا مُنی کے لیے۔ یہ تعلیمات عام آدمی کو ارتکابِ گناہ سے روکتی ہیں اور اسے معقول حدود کے اندر رکھتی ہیں۔ ان کی مذہبی تعلیمات کے مطابق ”بندہ خدا کا اور خدا بندے کا ہے۔“ یوں اُنھوں نے خدا اور بندے کے درمیان براہِ راست رابطہ قائم کرادیا ہے۔ خدا اور بندے کے درمیان کسی واسطے کی ضرورت نہیں اور نہ ہی یہ کسی کی اجارہ داری ہے۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات میں خدا کی وحدانیت، اس کی لاتعداد صفات اپنی مخلوق کے لیے اس کی محبت اور رحم کا کوئی اور مذہب ثانی پیش نہیں کرسکتا۔ اسلام میں خدا ”رب العالمین“ ہے۔ وہ ودود (محبت کرنے والا) ہے، رحیم (رحم کرنے والا) اور غفور (معاف کرنے والا) ہے۔ وہ قیامت کو سزادینے میں حق بجانب ہے؛ مگر اس کی رحمت اس کے غضب سے سوا ہے (سَبَقَتْ رَحْمَتِيْ عَلٰی غَضَبِيْ – حدیثِ رسول)
محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے نسلِ انسانی کو تمام اخلاق سکھایا اور جب وہ مطمئن ہوگئے کہ انھوں نے اپنا مشکل ترین مِشن بحسن وخوبی تمام کردیا ہے تو اُنھوں نے اس کی بلند رفاقت کو ترجیح دی (مع الرفیق الاعلیٰ)
اللّٰھم صل علٰی سیّدنا محمد وعلٰی اٰل سیدنا محمد واصحاب سیدنا محمد وبارک وسلِّم وصل علیہ․
————————————
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ 1، جلد: 99 ، ربیع الاول1436 ہجری مطابق جنوری 2015ء