از: مولانا محمد مجیب الرحمن دیودرگی
استاذ دارالعلوم حیدرآباد
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے جس گوشے پر بھی نظر ڈالیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کامل ومکمل نظرآئیں گے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مربیانہ زندگی پر نظر کریں تو دنیا کے تمام ہی معلّمین آپ کے خوشہ چین نظر آئیں، آپ علیہ الصلاة والسلام کی ازدواجی زندگی کا جائزہ لیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیویوں کے لیے بہترین شوہر ہیں، آپ کی مجاہدانہ وسپاہیانہ زندگی پر نظر کریں تو دنیا کے بہادر آپ سے کوسوں دور ہوں گے، اسی طرح بچوں کے ساتھ آپ کے حسنِ سلوک کا جائزہ لیں تو آپ بہترین مربی بھی ہیں، نیز آپ سے زیادہ کوئی بچوں پر رحم کرنے والابھی نہ ہوگا، آپ نے بچوں کے ساتھ نرمی، محبت، عاطفت، ملاطفت کا درس نہ صرف اپنی تعلیمات ہی کے ذریعہ دیا؛ بلکہ اپنے عمل سے بھی اس کا ثبوت پیش فرمایا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: جو چھوٹوں پر رحم نہ کرے اور بڑوں کی تعظیم نہ کرے وہ ہم میں سے نہیں(سنن ابی داوٴد: ۴۹۴۳ باب فی الرحمة) اسی طرح آپ نے فرمایا: جو نرمی سے محروم ہے وہ تمام ہی خیر سے محروم ہے (مسلم: ۲۵۹۲ باب فضل الرفق) بچوں کے تئیں حسنِ سلوک کے عطر بنیر سیرت کے چند نمونے ذیل میں مذکور ہیں:
اولاد واحفاد کے ساتھ
آپ کے فرزند حضرت ابراہیم کا جب انتقال ہوا تو آپ بڑے غمزدہ تھے، آپ کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے، حضرت عبد الرحمن بن عوف نے تعجب خیز لہجہ میں استفسار کیا: آپ بھی رورہے ہیں؟ آپ نے جواب دیا، اے ابن عوف یہ رحمت ہے، بلا شبہ آنسو بہہ رہے ہیں، دل غم زدہ ہے؛ لیکن اس حالتِ غم میں بھی ہم وہی بات کہیں گے جس سے اللہ تعالیٰ راضی ہو، پھر آپ صنے فرمایا: اے ابراہیم ہم تمہاری جدائی سے غم زدہ ہیں، (بخاری: ۱۳۰۳، باب قول النبی انا بک الخ) اس صورتِ حال کو دیکھ کر حضرت انس نے فرمایا: اہل وعیال پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ مشفق میں نے کسی کو نہیں دیکھا (مسلم: ۲۳۱۶) بچپن کا زمانہ بے شعوری وبے خیالی کا زمانہ ہوتا ہے، اس زمانہ میں بچے بڑوں کے رحم وکرم کے محتاج ہوتے ہیں، بچے انھیں کو اپنا محسن سمجھتے ہیں جو انھیں اپنے قریب رکھتے ہیں، تربیت کا جو حسین موقع قربت وانسیت سے ممکن ہے، ڈانٹ ڈپٹ سے زجرو توبیخ سے اس کی توقع بھی نہیں کی جاسکتی ہے، اسی لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حسنِ عمل یہی رہا کہ بچوں کو بالکل اپنے سے قریب رکھا حتی کہ بچوں کے کھیل کا بھی لحاظ کیا، اگر کسی موقع پر وہ نماز میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر سوار ہوگئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی ضرورت کی تکمیل کا بھر پور خیال رکھا؛ چنانچہ اپنے نواسوں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھر پور محبت کا مظاہرہ فرمایا۔ حضرت عبد اللہ بن شداد اپنے والدسے نقل فرماتے ہیں: ایک دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں حضرت حسن یا حسین کو ساتھ لائے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھائی، درمیان نماز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سجدہ طویل فرمایا: حضرت شداد فرماتے ہیں کہ میں نے سر اٹھایا تو کیا دیکھتا ہوں کہ بچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پشت پر سوار ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ میں ہیں، لہٰذا میں دوبارہ سجدے میں چلا گیا، جب نماز مکمل ہوگئی تو صحابہ کرام نے سوال کیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم آپ نے دورانِ نماز سجدہ طویل فرمایا، ہمیں یہ گمان ہونے لگا تھا کہ کوئی معاملہ پیش آیا ہے یا یہ کہ آپ پر وحی اتررہی ہے، آپ نے فرمایا:ان میں سے کوئی بات نہ تھی؛ بلکہ میرا بیٹا میری پشت پر سوار تھا، میں نے مناسب نہ سمجھا کہ بچہ کی ضرورت کی تکمیل سے پہلے سجدہ ختم کروں (مسند احمد : ۱۶۰۳۳ حدیث شداد بن الہاد)
اقرع بن حابس نے دیکھا کہ آپ حضرت حسن کو چوم رہے ہیں، یہ دیکھ کر کہنے لگے کہ حضور میرے دس بچے ہیں، میں نے کبھی کسی کو نہیں چوما، آپ نے فرمایا: جو شخص رحم نہیں کرتا اس پر رحم نہیں کیا جاتا (بخاری: ۵۹۹۷، باب رحمة الولد وتقبیلہ ) ایک د فعہ آپ حضرت حسن کو چوم رہے تھے ایک دیہاتی نے حیرت کا اظہار کیا تو فرمایا کہ اگر اللہ نے تیرے دل سے رحمت کو نکال دیا تو میں کیا کرسکتا ہوں۔(بخاری: ۵۹۹۸ باب رحمة الولد وتقبیلہ)
غور کیجئے ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ صرف یہ کہ اپنی اولاد سے خود محبت فرمائی؛ بلکہ امت کو بھی اس کی تعلیم دی، اور رحیمانہ سلوک کے ترک پر دھمکی دی کہ وہ شخص عند اللہ بھی قابلِ رحم نہیں، لہٰذا بچوں کے ساتھ مشفقانہ برتاوٴ ہمارا وطیرہ ہونا چاہیے، حضرت ابو ہریرة فرماتے ہیں: ایک دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت فاطمہ کے گھر کے صحن میں بیٹھ کر حضرت حسن کے بارے میں دریافت کیا، تھوڑی ہی دیر میں وہ آگئے، آپ نے انھیں گلے سے لگایا، بوسہ دیااور فرمایا: اے اللہ! میں حسن سے محبت رکھتا ہوں تو بھی حسن سے محبت رکھنے والوں سے محبت رکھ (بخاری: ۳۷۴۹، باب مناقب الحسن)جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی حضرت زینب کا انتقال ہوا تو ان کی صاحبزادی امامہ سے آپ بہت زیادہ محبت کا اظہار فرماتے، ان پر بہت زیادہ شفقت فرماتے، بعض دفعہ اپنے ساتھ مسجد بھی لے آتے، وہ آپ پر حالت ِ نماز میں سوار بھی ہوجاتیں، جب آپ سجدہ میں جاتے تو انھیں نیچے اتار دیتے، جب قیام فرماتے تو کاندھے پر سوار فرمالیتے(بخاری: ۵۱۶ باب إذا حمل جاریة صغیرة)
بعض دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے نواسوں کے پاس آتے، انھیں گود میں بٹھاتے، انھیں چومتے ان کے لیے دعا فرماتے، آپ نے اپنے نواسوں کے ذریعہ اپنی آل واولاد کے ساتھ رہنے کا طریقہ سکھلایا۔
دیگر بچوں کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا طرزِ عمل
ہم بچوں سے محبت کرتے ہیں؛ صرف اپنے ہی بچوں سے، دوسروں کے بچوں سے محبت یکسر نا پید ہے، آپ نے اس تفریق کا خاتمہ فرمایا، جہاں آپ نے اپنے بچوں کے تئیں تعلق کا اظہار فرمایا، وہیں دیگر صحابہٴ کرام کی اولاد پر بھی نگاہِ شفقت ڈالی۔
ابو موسی اشعری فرماتے ہیں کہ میرے گھر ایک لڑکا تولد ہوا، میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے در پر حاضر ہوا، آپ نے اس کا نام ابراہیم رکھا، کھجورسے اس کی تحنیک (گھُٹّی) فرمائی، اور اس بچے کے لیے برکت کی دعافرمائی، (بخاری: ۵۴۶۷ باب تسمیة المولود) یہ ابو موسی اشعری کے بڑے صاحبزادے تھے، حضرات صحابہٴ کرام کی عادتِ طیبہ یہ تھی کہ کسی کے گھر بھی ولادت ہوتی تو اس کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے آتے آپ بچے کو لیتے، اسے چومتے اس کے لیے برکت کی دعا کرتے، اسی طرح جب بعض دفعہ دورانِ نماز بچے کے رونے کی آواز آتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں تخفیف فرمادیتے، (بخاری: ۷۰۷ باب من أخف الصلاة عند بکاء الصبی) اسی طرح ایک دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ام خالد کو بلایا، بذاتِ خود اس لڑکی کو خصوصی قمیص پہنائی، اور فرمایا: اس وقت تک پہنو کہ یہ پُرانی ہوجائے(بخاری: ۵۸۲۳ با ب الخمیصة السوداء) ایک دفعہ آپ نے ایک بچے کو گود میں اٹھالیا، بچے نے کپڑے پر پیشاب کردیا، آپ نے اس پر پانی بہا کر صاف کرلیا، (بخاری: ۶۰۰۲ با ب وضع الصبی فی الحجر) حضرت انس فرماتے ہیں کہ میرا ایک چھوٹا بھائی تھا، اس کانام ابو عمیر تھا، (اس کے پاس ایک چڑیا تھی) آپ صلی اللہ علیہ وسلم آئے ابو عمیر سے فرمانے لگے: ”یَا أبَا عُمَیْر! مَا فَعَلَ الْنُغَیر؟“ یعنی اے ابو عمیر تمہاری چڑیا کیا ہوئی؟ (بخاری:۶۱۲ باب الانبساط إلی الناس) آپ صلی اللہ علیہ وسلم مشغولیت ومصروفیت کے باوجود صحابہٴ کرام کی اولاد کے ساتھ نرمی، محبت، انسیت اور الفت کا معاملہ فرماتے، انھیں خوش کرنے کی ترکیبیں اپناتے، ان کے پرندوں کے تئیں استفسار کرتے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سوال کردہ اس محبت بھرے جملے سے فقہاء عظام نے کئی مسائل نکالے ہیں۔
حقوق میں بچوں کی تقدیم
آج تمام تر تنازعات کا حل حقوق کی ادائیگی پر موقوف ہے، ہر کوئی اپنے حق کا طالب ہے؛ لیکن دوسروں کے حقوق کی ادائیگی سے بیزار ہے ،آپ نے نہ صرف اکابر کے حقوق کی ادائیگی کی تعلیم دی؛ بلکہ آپ نے اصاغر کے حقوق تک کا لحاظ فرمایا، اور اصاغر کے حقوق ادا کرتے ہوئے امت کی توجہ اس جانب مبذول فرمائی کہ ہر ایک کے حقوق کی ادائیگی ضروری ہے،حضرت سہل بن سعد فرماتے ہیں : ایک دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں پینے کی کوئی چیز لائی گئی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے نوش فرمایا، اس کے بعد آپ نے دیکھا کہ آپ کی دائیں جانب ایک بچہ ہے، اور بائیں جانب صحابہٴ کرام ہیں، آپ نے اس بچے سے اجازت چاہی کہ اگر تم اجازت دو تو میں یہ مشروب ان بڑے حضرات کو عنایت کروں، اس بچے نے کہا، ہر گز نہیں، قسم بخدا میں (آپ کے تبرک میں) اپنے حق پر کسی کو ترجیح نہیں دے سکتا، یہ سنتے ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلمنے پیالہ اسے تھمادیا (بخاری:۲۳۶۶ باب من رأی أن صاحب الحوض الخ) اس حدیث میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ بچوں کے حقوق کی ادائیگی کا اہتمام ہو، بچوں کے حقوق معلوم کرکے انھیں ادا کرنے کی عادت ڈالنی چاہیے۔
یہودی بچے کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا طرزِ عمل
مسلمان بچوں کے ساتھ توہم کسی قدر نرمی کا مظاہرہ کر ہی لیتے ہیں؛ لیکن کفار کے بچوں کے ساتھ ہمارا جو طرزِ عمل ہوتا ہے ،وہ نا قابلِ بیان ہے، ان پر تو کوئی نظرِ التفات ہوتی ہی نہیں، قربان جائیے سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم پر جنہوں نے اپنے اُسوہ سے کفار کے بچوں کے ساتھ بھی نرمی کی تلقین کی،ایک یہودی شخص کا لڑکا آپ کی خدمت میں تھا، وہ ایک دفعہ بیمار ہوگیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ازخود تشریف لا کر اس کی عیادت فرمائی، اس بچے کے سر ہانے بیٹھے، پھر اس بچے سے فرمایا: اسلام قبول کرو، اس بچے نے اپنے والد پر نظر ڈالی، والد نے بھی کہا: ابوالقاسم (ا) کی اطاعت کر! لہٰذا وہ بچہ مسلمان ہوگیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ کہتے ہوئے نکلے، اَلْحَمْدُ لِلہِ الَّذِيْ أَنْقَذَہ مِنَ النَّار (بخاری : ۱۳۵۶ باب إذا أسلم الصبي فمات)کہ تمام تعریفیں اسی اللہ کے لیے ہیں جس نے اس کو آگ سے بچالیا، یہ حدیث بتارہی ہے کہ بچے پر شفقت ونرمی کی جائے، چاہے وہ بچہ کافر ہی کا کیوں نہ ہو!
لڑکی کا خصوصی مقام
زمانہٴ جاہلیت میں عرب لڑکی کی پیدائش کو اپنے لیے عارسمجھتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لڑکیوں کے حقوق کا تحفظ کیا، لڑکیوں کے اکرام کی تعلیم دی، اس کی تربیت اس پر خرچ کی تلقین کی، لہٰذا آپ علیہ السلام نے فرمایا: جس نے دو لڑکیوں کی بالغ ہونے تک پرورش کی، قیامت کے دن میں اور وہ ایک ساتھ ہونگے (مسلم :۲۶۳۱ با ب فضل الإحسان إلی البنات)۔
الغرض آپ علیہ السلام نے اپنے قول وعمل سے معاشرہ کے ایک کمزور طبقہ پر رحم وکرم کے عجیب وغریب نمونے پیش فرمائے، آنے والی امت کو تلقین کی کہ اس طبقہ کا لحاظ کرو، ان کے حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی سے پرہیز کرو؛ کیونکہ یہی بچے مستقبل کے اثاثہ ہیں، ان بچوں کے ساتھ حسنِ سلوک ان کی صحیح انداز میں تربیت روشن وتابناک مستقبل کی ضامن ہوگی، ابتدائی مراحل میں بچوں کے ساتھ بے اعتنائی وبے احتیاطی بچوں کے لیے غلط راہیں فراہم کریں گی، آج ضرورت اس بات کی ہے کہ معاشرہ میں بچوں کے ساتھ ہونے والی زیادتی کا خاتمہ کر کے سیرتِ طیبہ کی روشنی میں بچوں کے حقوق کی ادائیگی کا اہتمام کیا جائے!
$ $ $
——————————–
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ 6، جلد: 98 ، شعبان 1435 ہجری مطابق جون 2014ء