از: مولانا رفیع الدین حنیف قاسمی
وادی مصطفی، شاہین نگر، حیدرآباد
انسانی زندگی سراسر مجموعہٴ اضداد ہے، خوشی ومسرت اور رنج وغم کا عجیب سنگم ہے، پل میں مصیبت، پل میں راحت؛ لیکن نہ یہاں کے فرحت وسرور کے لمحات کو دوام ہے اور نہ درد والم کے صدمات کو قرار، ساری زندگی ہی تغیر وتبدل سے عبارت ہے، یہ زندگی اپنی تمام ترمسرتوں اور غموں کے ساتھ پھول اور کانٹے، دھوپ وچھاوٴں کا حسین امتزاج معلوم ہوتی ہے؛ البتہ یہ ضرور ہے کہ خوشی کے لمحات غیر محسوس طریقے پر گزرجاتے ہیں، ایک لمبی مدت بھی خوشحالی وفارغ البالی، ہر طرح کے آسائش وآرام اور ہر طرح کے سامانِ راحت کے ساتھ بالکل معمولی سی نظر آتی ہے، اس کے بالمقابل مصائب ومشکلات کا معمولی سا وقفہ بھی بحرِحیات میں تلاطم اور ہلچل بپاکر دیتا ہے، مبتلائے دردکے لیے پل پل بھی کوہِ گراں اور بارِ خاطر ثابت ہوتا ہے، اسے انسانی فطرت کہیے کہ وہ آسانی اور خوشی کی خوگر اور عادی ہواکرتی ہے، امتحان وآزمائش ،درد والم اور رنج وغم کی ہلکی سی پُھوار بھی اس کے لیے ساون کی برسات، طوفانِ بلاخیر اور معمولی سے گھڑی بھی سوہانِ روح بن جاتی ہے اور وہ سراپا تصویرِ الم بن جاتا ہے، شکوہ وشکایت سے اس کی زبان معمور ہوجاتی ہے، وہ اپنی پھوٹی قسمت کو کوسنے لگتا ہے۔
لیکن ایک مومن کامل کا یہ شیوہ نہیں کہ وہ مصائب ومشکلات کی گھڑیوں میں صبر کے دامن کو ہاتھ سے جانے دے، اس کی قوتِ ایمانی، رب کائنات کے ساتھ اس کے لگاوٴ وتعلق کی مضبوط کیفیت اسے ان حالات کا پامردی واستقامت کے ساتھ مقابلہ کا سبق سکھاتی ہے، وہ ہر قسم کے منفی ومثبت احوال کو خدا کی مشیت گمان کرتا ہے، وہ اپنے وجود سمیت اس کو درپیش ہونے والے تمام احوال کو خدائے ذوالجلال اور اس کے مالک حقیقی کا تصرف گردانتا ہے، اس طرح اس کی زبان شکوہ وشکایت، ناشکری اور لعن وطعن کے کلمات سے خالی ہوتی ہے، اور وہ فانی وعارضی مصائب کا ہنسی خوشی مقابلہ کرتے ہوئے راہیِ عالم بقا ہوجاتا ہے۔یہ مصائب ومشکلات، زندگی کے یہ نشیب وفراز، حیاتِ انسانی کو درپیش یہ اونچ نیچ اور اتارچڑہاوٴ کی کیفیات، جو بظاہر ناکامی ونامرادی کی تصویر نظر آتے ہیں، اگر ان کے حقائق ومضمرات اور شرعی نقطہٴ نظر سے ان منفی احوال کا تجزیہ کیا جائے تو یہ مصائب مومن کے لیے خیر ہی خیر نظر آتے ہیں، ان ہی شرور وفتن کے بطن سے خیر وبھلائی کے پہلووجود میں آتے ہیں۔
ان مصائب ومشکلات اور غم ہائے زمانہ کے تعلق سے علماء نے اس کے خیر وشرہونے کا یہ معیار بتلایا ہے کہ اگر ان مصائب ومشکلات میں انسان کا رجوع ذاتِ خداوندی کی طرف روز افزوں ہے، اس کی عبادات واطاعات اور ذاتِ باری کے ساتھ اس کے لَواور لگاوٴ میں دن بہ دن اضافہ ہورہا ہے تو یہ مصائب وپریشانیاں اس کے حق میں رحمتِ خداوندی کے عناوین ہیں، اگر وہ گنہ گار ہے تو یہ مصائب اس کے لیے کفارئہ سےئات ہیں اور نیکو کار ہے تو بلندیِ درجات کا باعث ہیں، اس کے مقابل مشکل کی ان گھڑیوں میں اگر وہ معاصی اور گناہوں میں ہی دن بہ دن بڑھتا جارہا ہے تو اس کے حق میں عقاب وسزاہیں۔اسی دستورِ خداوندی اور قانونِ الٰہی کو آیتِ کریمہ میں یوں بیان کیا گیا ہے:”اور ہم ان کو قریب کا عذاب بھی اس بڑے عذاب سے پہلے چکھادیں گے، تاکہ یہ لوگ بازآویں“(السجدة: ۲۱)علامہ شبیر احمد عثمانی اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:”یعنی آخرت کے بڑے عذاب سے قبل دنیا میں ذراکم درجے کا عذاب بھیج دیں گے؛تاکہ جسے رجوع کی توفیق ہوڈر کر خدا کی طرف رجوع ہوجائے، کم درجہ کا عذاب یہ ہے کہ دنیا کے مصائب، بیماری، قحط، قتل، قید، مال واولاد وغیرہ کی تباہی، وغیرہ“۔
بہر حال انسان کو اس کی اس زندگی میں مختلف پریشانیوں اور مسائل سے دوچار ہونا پڑتا ہے وہ ان مصائب کو کیسے انگیز کرے اور کس طرح ان مسائل سے چھٹکارے اور نجات کی راہ اپنائے اس کے لیے درج ذیلباتیں لکھی جاتی ہیں:
یہ دنیا دارالامتحان ہے
ان مصائب کو انگیز کرنے اور ان کو آسان تربنانے کا سب سے بہترین طریقہ یہ ہے کہ مومن کے لیے ہر وقت یہ تصور پیشِ نظر رہے کہ یہ دنیادار الامتحان ہے، یہ دارالقرار یا دارالبقا (دائمی گھر) نہیں ہے، یہ عمل کی جگہ ہے اور آخرت دارالجزاء ہے، وہاں بدلہ ملے گا، مزدور صبح سے شام تک، کسان بویائی سے لے کر کٹائی تک تمام تکالیف، سردی کی شدت، دھوپ کی حدت، اور عمل کی محنت اس لیے برداشت کرتا ہے کہ مزدور کو شام ڈھلنے پر اجرت کی امید اور کسان کو کٹائی کے وقت پھل کی توقع ہوتی ہے، مومن بھی دین پر عمل کی راہ میں مصائب کی بھٹیوں میں اپنے آپ کو اس لیے جلاتا ہے کہ اسے گناہوں کے میل سے پاک صاف ہوکر دخولِ جنت کی توقع ہوتی ہے، آخرت کے آرام وراحت اور وہاں کی نعمتوں کے مقابلے میں دنیا کے مصائب؛ بلکہ یہاں کی اعلیٰ سے اعلیٰ درجہ کی نعمت بھی کوئی اہمیت نہیں رکھتی، خدا کا دستور اس دنیا میں یہ ہے کہ جو بندہ جس قدر اللہ عزوجل کا مقرب ومحبوب ہوتا ہے، اسی قدر اسے اس دنیا کے احوال وپریشانیوں سے دوچار ہونا پڑتا ہے، حدیث میں مومن کے لیے دنیا کو ”قید خانہ“ قرار دیا گیا ہے، ظاہر ہے کہ قید خانہ میں آدمی کو گھرکی طرح سہولیات وآرام نہیں مل سکتا۔
چنانچہ احادیث میں مصائب کو خدا سے تقرب ونزدیکی کی علامت قرار دیا گیا ہے۔حضرت سعد سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلمسے دریافت کیا گیا کہ مصائب وشدائد میں سب سے زیادہ کون ہوتے ہیں؟ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سب سے زیادہ مصائب وشدائد میں انبیاء ہوتے ہیں،پھر اس کے بعد درجہ بہ درجہ دوسرے افضل لوگ، آدمی کی اس کی دینداری کے لحاظ سے آزمائش ہوتی ہے، اگر وہ دین میں سخت ہوتا ہے تو اس کی آزمائش بھی سخت ورنہ ہلکی، آدمی پر مصائب کاسلسلہ اس وقت تک رہتا ہے کہ وہ روئے زمین پر بغیر گناہ چلتا ہے (یعنی مصائب کی وجہ سے اس کے سارے گناہ دھل جاتے ہیں)۔(مشکوٰة شریف ۱۳۶)ایک حدیث میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ بھی ارشاد ہے کہ بڑا بدلہ بڑی آزمائش کے ساتھ ہے، اللہ تعالیٰ جس قوم کو چاہتے ہیں اسے آزمائش میں مبتلا کرتے ہیں، جو شخص اس آزمائش پر اللہ سے راضی رہتا ہے اللہ تعالیٰ بھی اس سے راضی رہتے ہیں اور جو ناراض رہتا ہے اللہ تعالیٰ بھی اس سے ناراض ہوتے ہیں۔ (ریاض الصالحین: ۳۳ ادارہٴ اشاعت)جو شخص مصائب میں دنیا کی عدمِ پائیداری، اس کے مقابل آخرت کی زندگی کے دوام وبقا اور مصائب میں خدا سے قرب ونزدیکی کے تصور کو ذہن میں رکھے گا، اس کی مشکلیں اس کے لیے کسی حد تک ضرور کم ہوجائیں گی۔
مصائب گناہوں کی معافی کا ذریعہ ہیں
مصائب وآلام اور اس کے دردوکسک کو دور کرنے اور ان مصائب وپریشانیوں کے بادلوں سے لطفِ خداوندی اور عنایاتِ ایزدی کی بارش کے متلاشی کے لیے یہ بھی ایک آسان نسخہ ہے کہ وہ بیماریوں، پریشانیوں، تنگیوں وتنگ دستیوں میں اجرِ خداوندی، ثوابِ آخرت، گناہوں اور خطاوٴں سے پاکی کی بشارتوں کو بھی پیش نظر رکھے، اس طرح اس کے مصائب اس کے لیے ایمان ویقین کی تازگی، فکرِ آخرت میں اضافہ اور پائے ثبات واستقامت میں مضبوطی کا باعث ہوں گے۔ایک حدیث میں حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے:”مردِ مومن کو جو بھی دکھ درد، جو بھی بیماری وپریشانی،جو بھی رنج وغم اور جو بھی اذیت وتکلیف پہونچتی ہے؛ یہاں تک کہ جو کانٹا بھی اس کو چبھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے ذریعہ اس کے گناہوں کی صفائی کردیتا ہے“۔(ریاض الصالحین ۳۱،ادارہ اشاعت)ایک دوسری روایت میں ہے بندہٴ مومن کو جوبھی کانٹے وغیرہ کی تکلیف پہونچتی ہے، تو اللہ عزوجل اس اس طرح گناہوں کو جھاڑدیتے ہیں، جیسے سوکھا درخت اپنے پتوں کو جھاڑ دیتا ہے۔(حوالہ سابق)بعض مومن مرد اور بعض مومن عورتوں پر مصائب وحوادث کبھی ان کی جان ، کبھی ان کے مال اور کبھی ان کی اولاد پر اس طرح آتے ہیں کہ (اس کے نتیجے میں اس کے گناہ جھڑجاتے ہیں) اور وہ مرنے کے بعد اللہ عزوجل سے اس حال میں ملتا ہے کہ اس پر کوئی گناہ نہیں ہوتا۔(مشکوٰة شریف ۱۳۶)
دنیا کے مصائب اور آزمائشیں آخرت کے عذاب وعقاب کے مقابلے میں کوئی اہمیت اور حیثیت نہیں رکھتے، بسا اوقات اللہ عزوجل ان تکالیف وبلیات کے ذریعے بندہ کے ساتھ خیر خواہی کا ارادہ فرماتے ہیں، وہ اس طرح کہ اسے عذابِ آخرت سے بچانے کے لیے دنیا ہی میں اس کے گناہوں کی سزادے دیتے ہیں اور وہ آخرت کے ہولناک وخطرناک عذاب سے بچ جاتا ہے، اس کے بالمقابل جب اللہ عزوجل کسی بندے کے ساتھ برائی کا ارادہ فرماتے ہیں تو دنیا میں اس کے گناہوں کی سزاکو روک لیتے ہیں، اور اسے روزِ قیامت پوری طرح وصول فرماتے ہیں(ریاض الصالحین ۳۳، ادارہ اشاعت)
کبھی یوں ہوتا ہے کہ ایک بندہٴ مومن اخروی اعتبار سے ایک مقام ومرتبہ کاحامل ہوتا ہے، وہ اپنی صحت مند، آرام دہ زندگی کے ساتھ اس مقام ومرتبہ کی جانب اس قدر سبک روی اور تیزگامی کے ساتھ بڑھتا ہوا نہیں ہوتا ہے، اللہ عزوجل اسے اس کے طے شدہ مقام تک پہونچانے کا سامان یوں فرماتے ہیں کہ اس پر مصائب وحوادث کا بوجھ ڈال کر، اسے اندیشہ ہائے زمانہ اور غم ہائے زمانہ میں مبتلاکرکے اسے اس کے طے شدہ مقام تک پہونچادیتے ہیں۔اسی کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں فرمایا: جب بندہ اللہ تعالیٰ کے یہاں ایک مرتبے کا حامل ہوتا ہے، جسے وہ اپنے عمل کے ذریعہ حاصل نہیں کرسکتا تو اللہ تعالیٰ اسے اس کی جان یا مال یا اس کی اولاد میں مصیبت مبتلا کرتے ہیں، پھر اسے ان مصائب پر صبر کی توفیق دیتے ہیں، پھر اسے من جانب اللہ طے شدہ مقام تک پہونچادیتے ہیں۔ (مشکوٰة شریف ۱۳۷)مصائب کے نعمتِ خداوندی ہونے پر یہ روایت بھی دلالت کرتی ہے:جس وقت روزِ قیامت دنیا میں مصائب برداشت کرنے والوں کو ثواب دیا جارہا ہوگا، اس روز اہلِ عافیت بھی یہ چاہیں گے کہ کاش! ان کے جسم کی کھال دنیا میں قینچیوں سے کاٹی جاتی۔(مشکوٰة شریف ۱۳۷) ایک روایت میں مصائب ومشکلات کے گناہوں کے ازالہ میں اثر انگیزی کو بیان کرتے ہوئے حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی حدیثِ قدسی کی شکل میں یوں بیان کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ یوں فرماتے ہیں: میری عزت وجلال کی قسم! جس شخص کی میں مغفرت اور بخشش کاارادہ کرتا ہوں تو اس کے جسم کو بیماری میں ڈال کر اور اس کی روزی کو تنگ کرکے اس کی ہر غلطی اور گناہ کو مٹادیتا ہوں۔(مشکوٰة ۱۳۸)
مصائب میں دعاوٴں کا اہتمام
جیسا کہ مذکورہ بالا احادیث سے معلوم ہوا کہ مصائب میں بندہ کا رجوع اللہ تعالیٰ کی طرف بڑھ رہا ہے تو یہ مصائب اس کے حق میں رحمتِ خداوندی کے نزول کے عنوان ہیں؛ لیکن بندہ چونکہ کمزور وناتواں ہوتا ہے، وہ رحمتِ خداوندی کا ادراک نہیں کرسکتا، وہ اپنی آخرت کے بناوٴ وبگاڑکے پہلو سے واقف نہیں ہوتا، وہ دوسروں کے مانند اپنے کو بھی خوشحال وفارغ البال دیکھنا چاہتا ہے اور وہ حقیقت میں بھی مصائب کو انگیز کرنے کی سکت بھی اپنے اندر نہیں پاتا؛ اس لیے اللہ تعالیٰ سے عافیت کو طلب کرتا رہے، دعاوٴں کے اہتمام کے ذریعہ بارگاہِ خداوندی میں اس بات کی التجاکرتا رہے کہ اللہ تعالیٰ اس کی بیماری کی نعمت کو صحت کی نعمت اور بے روزگاری کی نعمت کو روزگاری کی نعمت سے بدل دے، دراصل اللہ تعالیٰ بندہ کو مبتلائے مصیبت کرکے اس کی عاجزی وبندگی کے مظاہرہ کو دیکھنا چاہتے ہیں، ظاہر ہے دعا سے بڑھ کر اپنی عاجزی وبے بسی کا اظہار بندہ اپنے دوسرے اعمال کے ذریعہ کہاں کرسکتا ہے؟ بلکہ دعا کو احادیث میں حاصلِ عبادات قرار دیا گیا ہے۔
مصائب میں مبتلا شخص ان دعاوٴں کا خوب اہتمام کرتا ہے:”اَللّٰھُمَّ رَحْمَتَکَ اَرْجُوْ فَلَا تَکِلْنِیْ الٰی نَفْسِیْ طَرْفَةَ عینٍ وَاَصْلِحْ لِیْ شَانِی کُلَّہ لااِلٰہَ اِلَّا اَنْتَ“اے اللہ! میں تیری رحمت کی امید کرتا ہوں تو مجھے پل بھر بھی میرے سپرد نہ کر اور میرا سارا حال درست فرمادے تیرے سوا کوئی معبود نہیں۔”یَاحَیُّ یَاقَیُّوْمُ بَرَحْمَتِکَ اَسْتَغِیْثُ“ اے زندہ اور اے قائم رکھنے والے! میں تیری رحمت کے واسطے سے فریاد کرتا ہوں۔”اَللہُ، اَللہُ رَبِّیْ، لَااُشْرِکُ بِہ شَیئًا۔“ اللہ! اللہ میرا رب ہے، میں اس کے ساتھ کسی کو بھی شریک نہیں بناتا۔ان دعاوٴں کو مصائب اور پریشانیوں کے دفاع میں خوب اثر ہے، حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضراتِ صحابہ کو مصائب اور مشکلات کے وقت انھیں دعاوٴں کی تلقین فرمائی تھی۔(حیاة الصحابہ عزلی :۳/۵۳۱) دعاوٴں کے ذریعہ بندہ اللہ تعالیٰ کے قریب ہوجاتا ہے، اس کے الطاف وعنایات، اور عطایاونوازشات کے دائرہ میں آجاتا ہے، اس طرح اس کے مصائب آسانیوں سے بدلنے شروع ہوجاتے ہیں۔
مصائب میں نیک لوگوں سے مشورہ کی اہمیت
آدمی خواہ جس قسم کی بھی پریشانی میں مبتلا ہو، خواہ بیماری یا تکلیف میں، یا افلاس وتنگدستی میں یا قرض وبیماری کی پریشانی میں، ان بیماریوں اور پریشانیوں میں آدمی اپنے آپ کو یکاوتنہا تصور کرتا ہے، وہ اپنی عقل وتدبیر اور بسااوقات ہر طرح کے ظاہری اسباب کے اختیار کرنے کے بعد بھی اسے پریشانیوں سے باہر نکلنے کی کوئی صورت یا راہ نظر نہیں آتی، دعاوٴں کے خوب اہتمام کے باوجود اس کے مصائب ختم ہونے کا نام نہیں لیتے، ان مصائب میں سکون وراحت کے متلاشی کے لیے ایک لازمی امر یہ بھی ہے کہ وہ اس بارے میں نیک لوگوں اور اللہ والوں سے مشورہ طلب کرے! ان کے بتائے ہوئے رہنمایانہ خطوط پر اپنی زندگی کی گاڑی کو آگے بڑھائے، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلمباوجودے کہ آپ کو مشورہ کی کوئی ضرورت نہیں تھی؛ لیکن دشوار گزار اور کٹھن مراحل میں صحابہ سے مشورہ طلب کرتے تھے، حضراتِ صحابہ، ائمہٴ اکرام اور بزرگانِ دین اور علماء وصلحاء کا بھی معمول رہا ہے کہ وہ مصائب میں اللہ والوں سے رجوع کرتے ہیں۔
مصائب میں تدبیر سے نہ چوکے
پریشان حال شخص اگر بیمارہے تو یوں ہی ہاتھ پر ہاتھ دھرا بیٹھا نہ رہے، تقدیر کا بہانہ بناکر تدبیر سے نہ چوکے؛ بلکہ علاج ومعالجہ کرے، اگر بے روزگار ہے تو حصولِ رزق کے لیے سعی وکوشش کرے، اگر اولاد کی نافرمانی سے دوچار ہے تو ان کی اصلاح کی راہیں اختیار کرے، غرضیکہ مصائب کو دور کرنے کے لیے آدمی مذکورہ بالا امور کے ساتھ اپنی مقدور بھر اسباب وذرائع کی دنیا میں کوشش بھی کرے؛ البتہ تمام محنت ومجاہدے اور علاج ومعالجہ کے بعد اس کے نتیجے صحت یابی اور رزق کی کشائش وغیرہ کو اللہ تعالیٰ کے حوالے کردے۔تدبیر یہ تقدیر سے فرار نہیں ہے؛ بلکہ بقول حضرت عمر کے تدبیر کرنا دراصل یہ اللہ کی تقدیر سے اسی کی تقدیر کی طرف بھاگنا ہے، جب حضرت عمر کو تدبیر کے اختیار کرنے پر تقدیر سے فرار کا طعنہ دیا گیا تو آپ نے فرمایاہم تقدیر سے فرار اختیار نہیں کررہے؛ بلکہ:”نفِرُّ مِن قَدْرِ اللہِ اِلٰی قَدْرِ اللہ“ہم اللہ کی تقدیر سے اس کی تقدیر ہی کی طرف بھاگ رہے ہیں۔(بخاری : باب ما یذکر فی الطاعون ، حدیث: ۵۳۹۷) توکل کی حقیقت بھی دراصل اسباب کو اختیار کرنے کے بعد نتیجہ کو ذاتِ خداوندی کے حوالہ کرناہے اورانھیں کو اللہ تعالیٰ نے محبوب قرار دیا ہے:”انَّ اللہَ یُحِبُّ اُلمُتَوَکِّلِیْن“ اللہ تعالیٰ توکل اختیار کرنے والوں کو پسند کرتاہے۔
دراصل اس تحریر کی روشنی میں یہ بتلانا مقصود ہے کہ انسان کو مصائب کیوں درپیش ہوتے ہیں، اور ان مصائب ومتاعب سے انسان اپنے آپ کو کیوں کرنکال سکتا ہے؟ اگر مصائب میں انسان مذکورہ بالا امور کو ملحوظ رکھے تو کچھ بعید نہیں کہ اس کے مصائب نعمتوں سے بدل جائیں یا ان مصائب میں ضرور کمی واقع ہو۔
$ $ $
———————————–
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ 6، جلد: 98 ، شعبان 1435 ہجری مطابق جون 2014ء