از: مولانا محمدابرار کلیم القاسمی،کویت
دعا ایک عظیم نعمت اور انمول تحفہ ہے ، اس دنیا میں کوئی بھی انسان کسی بھی حال میں دعا سے مستغنی نہیں ہوسکتا ، دعا اللہ کی عبادت ہے، دعا اللہ کے متقی بندے اور انبیا ئے کرام علیہم السلام کے اوصافِ حمیدہ میں سے ایک ممتاز وصف ہے ، دعا اللہ تعالی کے دربارِ عالیہ میں سب سے باعزت تحفہ ہے ، اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : لَیْسَ شَیْءٌ أکْرَمَ عَلَی اللہِ عَزَّ وَجّلَّ مِنَ الدُّعاء (دعا سے بڑھ کر اللہ تعالی کے یہاں کوئی چیز باعزت نہیں) دعا اللہ تعالی کے یہا ں بہت پسندیدہ عمل ہے ، سَلُوا اللہَ مِنْ فَضْلِہ فَانَّہ یُحِبُّ أنْ یُسْأَلَ (اللہ سے اس کا فضل مانگو کیوں کہ وہ اپنے سے مانگنے کو پسند کرتاہے ) دعا شرحِ صدر کا سبب ہے ، دعا سے اللہ تعالی کے غصہ کی آگ مدھم پڑتی ہے، دعا اللہ تعالی کی ذا ت پر بھروسہ کی گائیڈ لاین ہے ، دعا آفت و مصیبت کی روک تھام کا مضبوط وسیلہ ہے، بلاشبہ دعا اپنی اثر انگیزی اور تاثیر کے لحاظ سے مومن کا ہتھیار ہے ، اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اَلدُّعَاءُ سِلاَحُ الْمُؤمِنِ وَعِمَادُ الدِّیْنِ وَنُوْرُ السَّمٰواتِ وَالأرْضِ (دعا موٴمن کا ہتھیار ، دین کا ستون اور آسمان وزمین کی روشنی ہے ، اللہ نے اپنے بندوں کو دعا کی تاکید کی ہے ، اس کی قبولیت کا وعدہ کیاہے نیز اس پر انبیاء کرام علیہم السلام اور رسولوں کی تعریف کی ہے ، اللہ کا ارشاد ہے: إنَّھُمْ کَانُوْا یُسَارِعُوْنَ فِیْ الْخَیْرَاتِ وَیَدْعُوْنَنَا رَغَبًا وَرَھَبًا وَکَانُوا لَنَا خَاشِعِیْن (بے شک وہ سب نیک کاموں میں جلدی کرنے والے تھے اور وہ ہمیں امید اور خوف سے پکارتے تھے اور وہ ہمارے سامنے عاجزی کرنے والے تھے)اللہ تعالی نے قرآن مجید میں صاف صاف اعلان کیا : وَإذَا سَألَکَ عِبَادِيْ عَنِّيْ فَإنِّي قَرِیْبٌ اُجِیْبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إذَا دَعَانِ(جب میرے بندے میرے بارے میں دریافت کریں ، تو میں قریب ہوں ، دعا کرنے والاجب مجھ سے مانگتا ہے تو میں اس کی دعا قبول کرتا ہوں ) یقینا یہ اللہ کا فضل اور کرم ہی ہے کہ بندوں کے ہر عمل سے بے نیازی کے باوجود وہ اپنے ہی سے مانگنے کا حکم کرتا ہے : یَأیُّھَا النَّاسُ اَنْتُمُ الْفُقَرَاءُ إلَی اللہِ وَاللہُ ھُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِیْد ( اے لوگو ، تم اللہ تعالی کے محتاج ہو اور اللہ تعالیٰ بے نیاز، بڑی تعریف والا ہے) سورہٴ فاطرمیں اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا : وَاللہُ الْغَنِيُّ وَأنْتُمُ الْفُقَرَاءُ (اللہ تعالی بے نیاز ہے اور تم محتاج ہو ) حدیثِ قدسی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: کُلُّکُمْ ضَالٌّ الاَّ مَنْ ھَدَیْتُہ فَاسْتَھْدُوْنِيْ اَھْدِکُمْ یَا عِبَادِيْ، کُلُّکُمْ جَائِعٌ الاَّ مَنْ أطْعَمْتُہ فَاسْتَطْعِمُوْنِيْ اُطْعِمْکُمْ، یَا عِبَادِيْ انَّکُمْ تَخْطَئُوْنَ بِاللَّیْلِ وَالنَّھَارِ، وَأنَا اَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعًا فَاسْتَغْفِرُوْنِیْ اَغْفِرْلَکُمْ ( اے میرے بندے! تم بے راہ ہو؛جب تک میں تمہیں ہدایت نہ دوں ، لہٰذا تم مجھ سے ہدایت طلب کرو ، میں تمہیں ہدایت دوں گا ، اے میرے بندے تم سب بھوکے ہو،سوائے اس شخص کے جسے میں کھلاؤں ، لہٰذا تم مجھ سے کھانا مانگو میں تمہیں کھلاؤں گا، اے میرے بندے، تم رات اور دن غلطیوں کا ارتکاب کرتے رہتے ہواور میں تمام گناہوں کو بخشنے والا ہوں ، لہٰذا تم مجھ سے مغفرت طلب کرو ، میں بخشش کرنے والا ہوں )۔
لہٰذا دعا کا حیاتِ انسانی سے گہرا تعلق ہے اور اپنے اثرات کے لحاظ سے ایک مسلمہ تاریخ ہے اور ربِ کریم کے نادیدہ خزانوں سے بھی اس کا عظیم ربط وتعلق ہے ، اللہ تعالی نے بہت کریمانہ انداز میں قرآنِ پاک میں حضرت موسی علیہ السلام کا تذکرہ کیا ہے : وَجَاءَ رَجُلٌ مِنْ اَقْصَی الْمَدِیْنَةِ یَسْعٰی قَالَ انَّ الْمَلاَ یَأتَمِرُوْنَ بِکَ لِیَقْتُلُوْکَ فَاخْرُجْ انِّيْ لَکَ مِنَ النّٰصِحِیْنَ ( اور ایک شخص شہر کے پرے سرے سے دوڑتا ہوا آیا ، اس نے کہا: اے موسی! بے شک سردار تیرے بارے میں مشورہ کررہے ہیں؛ تاکہ تجھے قتل کرڈالیں ، پس تو (یہاں سے ) نکل جا ، بے شک میں تیرے خیر خواہوں میں سے ہوں ۔ پس وہ نکلا وہا ں سے ڈرتے ہوئے اور انتظار کرتے ہوئے کہ دیکھیں کیا ہوتا ہے ) چنان چہ حضرت موسی علیہ السلام فرعون کی طاغوتیت وملوکیت کی حدود کو پارکرکے مدین جا پہونچے اور اللہ تعالی سے دعاکی: رَبِّ نَجِّنِيْ مِنَ الْقَوْمِ الظَّالِمِیْنَ (اے میرے پرورگار مجھے ظالم قوم سے بچالے ) اللہ نے حضرت شعیب کو ان کی معاونت کے لیے لاکھڑا کیا اور ان کی زبانی اعلان کروایا : قَالَ: لاَتَخَفْ نَجَوْتَ مِنَ الْقَوْمِ الظَّالِمِیْنَ (ڈرو نہیں تم ظالموں کی قوم سے بچ آئے ہو) حضرت موسی علیہ السلام بے نوا مسافر کی طرح تھکے ہارے ایک صحرائی درخت کی چھاؤں میں فروکش ہوئے اور آسمان کی طرف نگاہ اٹھائی اور دعاکی : اے ربِ کریم جو بھلائی میرے لیے نازل فرمائے میں اس کا شدید محتاج ہوں : رَبِّ إِنِّي لِمَا أنْزَلْتَ إلَيَّ مِنْ خَیْرٍ فَقِیْر () اسی لمحے رب کریم کے نادیدہ خزانوں کا منہ کھل گیا اور رزق حسنہ کے سوتے ابل پڑے ، : فجا ئتہ إحدھما تمشی علی استحیاء قالت إن ابی یدعوک لیجزیک اجر ما سقیت لنا فلما جاء ہ وقص علیہ القصص ، قال لاتخف نجوت من الظلمین، قالت إحدھما یابت استاجرہ إن خیر من استاجرت القوي الأمین، قال : إنی ارید انکحک إحدی ابنتي ھاتین علی ان تاجرنی ثمانی حجج فإن اتممت عشرا فمن عندک وماارید ان اشق علیک ستجدنی إن شاء اللہ من الصلحین، قال ذلک بینی وبینک ایما الأجلین قضیت فلاعدوان علي (پھر ان دونوں میں سے ایک اس کے پاس آئی شرم سے چلتی ہوئی( یعنی حضرت موسی علیہ السلام نے مدین کے کنوئیں پر دو عورتوں کو بالکل تمام پانی پلانے والے چرواہوں سے علیحدہ پایا تو انھوں نے معلوم کیا کہ آخر کیا ماجرہ ہے؟ تو اس نے بتا یا کہ ہم پانی نہیں پلاتے یہاں تک کے یہ چرواہے اپنے جانوروں کو پانی پلاکر واپس نہ لے جائیں اور ہمارے ابا بوڑھے ہیں تو حضرت موسی علیہ السلام نے بکریوں کو پانی پلانے میں مددکی) وہ بولی بے شک ہمارے والد تمہیں بلارہے ہیں کہ تمہیں اس کا صلہ دیں جو تونے ہمارے لیے بکریوں کو پانی پلایاہے پھر جب موسی علیہ السلام حضرت شعیب علیہ السلام کے پاس آئے اور ان سے احوال بیان کیا تو اس نے کہا ڈرونہیں تم ظالموں کی قوم سے نکل آئے ہو، ان(بیٹیوں) میں سے ایک نے کہا : اے میرے والد! اسے ملازم رکھ لیں ، بے شک جسے تم ملازم رکھو بہتر وہ ہے جو طاقت ور امانت دار ہو، شعیب علیہ السلام نے کہا : میں چاہتا ہوں کہ میں اپنی ان دوبیٹیوں میں سے ایک کا نکاح تم سے اس شرط پرکردوں کہ تم آٹھ سال میری ملازمت کرو، اگر دس سال پورے کرو تو وہ تمہاری طرف سے نیکی ہوگی ، میں نہیں چاہتا کہ میں تم پر مشقت ڈالوں ، اگر اللہ نے چاہا تو عنقریب مجھے خوش معاملہ لوگوں میں سے پاؤگے ، موسی علیہ السلام نے کہا: یہ میرے اور تمہارے درمیان ( عہد) ہے میں ان دونوں میں سے جومدت پوری کروں مجھ پر کوئی مطالبہ نہیں) لہٰذا اب موسی علیہ السلام کی دعا قبول ہوگئی ، روٹی کا بندوبست ہوگیا ، مکان کا انتظام کردیاگیا ، اہل وعیال والے بن گئے ، ریوڑ چرانے کے لیے مل گیا ، یعنی باروزگار ہوگئے ا ور تربیت کے لیے حضرت شعیب علیہ السلام سا مربی مل گیا ۔
اگر کوئی شعیب آئے میسر * شبانی سے کلیمی دوقدم ہے
حضرت موسی علیہ السلام کی دعاکی وجہ سے بنی اسرائیل پر نادیدہ خزانوں کے منہ وا ہوگئے اور صحرائے سنین میں وہ لطف اندوز ہوتے رہے ، من وسلوی کا نزول ہوتا رہا اور بادلوں کے سائے سایہ فگن رہے ، جب پیاس لگی تو لاٹھی ماری ۱۲ قبیلوں کے لیے بارہ چشمے جاری ہوگئے ۔
علماء نے لکھا ہے کہ خوشحالی اور بدحالی ہر حال میں اللہ تعالی سے مانگنا چاہیے ، اللہ تعالیٰ دونوں حالتوں میں یادکرنے والوں سے محبت کرتا ہے اور اس کو نوازتا ہے ، اس کی مثال حضرت یونس علیہ السلام ہیں کہ ہمیشہ اللہ تعالیٰ کو یادکرتے تھے ، اسی کی تسبیح وتحمید کیا کرتے تھے، انھیں اللہ تعالیٰ کی ذات پر کامل اعتماد تھا؛ چناں چہ جب مچھلی کے پیٹ میں بند ہوگئے، اس حالت میں بھی اللہ تعالیٰ کو یادکیا : لَاإلٰہَ إلّا أنْتَ سُبْحَانَکَ إِنِّيْ کُنْتُ مِنَ الظَّالِمِیْنَ (کوئی إلٰہ نہیں سوائے تیرے اور میں ظالموں میں سے ہوں ) بس اللہ تعالی نے اس سے نکلنے کی سبیل پیداکردی اور تین اندھیریوں کی گرفت سے نجات نصیب ہوئی ، فَلَوْلاَ أنَّہ کَانَ مشنَ الْمُسَبِّحِیْنَ لَلَبِثَ فِيْ بَطْنِہ الیٰ یَوْمِ یُبْعَثُوْنَ ( کہ اگر وہ تسبیح کرنے والے نہ ہوتے تو قیامت تک مچھلی کے پیٹ میں ہی رہتے اور وہی ان کے لیے قبر بن جاتی، اس کے برعکس فرعون نے دریائے نیل میں غرق ہوتے ہوئے اللہ میا ں کو یاد کیا : حَتّٰی إذَا أدْرَکَہ الْغَرْقُ قَالَ آمَنْتُ أنَّہ لاَ الٰہَ الاّ الَّذِيْ آمَنَتْ بَنُو اسْرَائِیْلَ وَأنَا مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ، آلآنَ وَقَدْ عَصَیْتَ قَبْلُ وَکُنْتَ مِنَ الْمُفْسِدِیْنَ، فَالْیَوْمَ نُنَجِّیْکَ بِبَدَنِکَ لِتَکُوْنَ لِمَنْ خَلْفَکَ آیَةً (یہاں تک کہ جب اس کو غرقآبی نے آپکڑا، اس نے کہا : میں ایمان لایاکہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں،جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے اور میں ہوں فرماں برداروں میں سے۔ کیا ایمان کی بات کرتاہے اور پہلے سے تونافرمانی کرتارہااورفساد کرنے والوں میں سے رہا۔ سوآج تجھے تیرے بدن سے بچادیں گے( غرق نہیں کریں گے)؛ تاکہ تو(تیری لاش) ان کے لیے جو تیرے بعد آئیں ( عبرت کی ) ایک نشانی رہے ) لیکن اب تک خوش حالی کے ایام میں کبھی بھی خدا کویاد نہیں کیا ؛ بل کہ وہ اتراتا رہا غرور اور سرکشی میں مبتلا رہا؛ اس لیے اللہ تعالی نے اس کی دعا قبول نہ کی اور وہ ہلاک وبرباد ہوگیا نیز اس نے براہِ راست دعا نہ کی؛ بل کہ ہارون اور موسی علیہما السلام کو واسطہ بنایا، لہٰذا دعا میں کسی کو واسطہ نہ بنائیں براہِ راست اللہ سے مانگے اللہ تعالی ہم سے بہت قریب ہے : وَ اذَا سَألَکَ عِبَادِيْ عَنِّيْ فَانِّيْ قَرِیْبٌ اُجِیْبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ اذَا دَعَانِ، اللہ تعالی نے براہِ راست مانگنے کی تاکید کی ہے : اُدْعُوْنِيْ اَسْتَجِبْ لَکُمْ ( تم مجھ سے مانگو میں تمہاری دعا قبول کروں گا ) ۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام ابوالانبیا ہیں اور احترام واکرام کے بلند وبالا مقام پر فائز ہیں ، ان کی دعاکی قبولیت نے روئے زمین پر گہرے اثرات چھوڑے ہیں ، حضرت ابراہیم علیہ السلام نے مکہ مکرمہ کے لیے امن اور پھلوں کا رزق ساتھ ہی باشندگان عالم کے قلوب کا التفات مانگاکہ اے ہمارے رب ، بے شک میں نے اپنی کچھ اولاد کو ایک بغیر کھیتی والے میدان میں بسایا ہے تیرے احترام والے گھر کے نزدیک ، اے ہمارے رب؛ تاکہ وہ نماز قائم کریں، پس لوگوں کے دلوں کو ایسا کردے کہ ان کی طرف مائل ہوں ، اور انھیں پھلوں سے رزق دے؛ تاکہ وہ شکر کریں) انھیں سب سے نوازا گیا ، آپ نے ہونہار وسعادت مند فرزند کے ہمراہ کعبہ کی دیوار بنائیں تو دعا کی: رَبَّنَا وَابْعَثْ فِیْھِمْ رَسُولاً مِّنْھُمْ یَتْلُوا عَلَیْھِمْ آیَاتِہ وَیُزَکِّیْھِمْ وَیُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَةَ کہ ان کی نسل میں ایک بہترین امت وجود میں آئے ، جس میں ایک رسول مبعوث ہو جو انھیں کلامِ الٰہی کی تعلیم دے، اس میں موجود حکمت کی باتوں سے انھیں روشناس کرائے اور ان کی زندگیا ں سنوارے ، اللہ تعالیٰ نے اپنے خلیل کی دعا قبول کی اور اس کرہ ارضی پر امت مسلمہ خیر کے ساتھ نمودار ہوئی ، جس نے تاریخ کا رخ موڑدیا ، اس امت کو خیرِامت کے لقب سے نوازا گیا ، اس امت کا وجود کائناتِ عالم کے لیے پیغامِ خیر ہے ، اس کا نبی رحمة للعالمین ہے ، جس کے فرمان لوگوں کے قلوب پر اور جن کا نقوشِ پا زمانے کے ریگستانوں پر یوں ثبت ہوئے ہیں کہ وقت کی تیزوتند ہوا اور خطرناک آندھیاں انھیں مدھم نہ کرسکیں، تاریخی حیثیت سے فتنہء تاتار ان نقوش کو مدھم کرتے کرتے خود بجھ گیا اور دنیا نے یہ منظر دیکھا کہ :
پاسباں مل گئے کعبہ کو صنم خانے سے
بقول کسے : دعائے ابراہیمی کی قبولیت کا ابدی انداز ملاحظہ ہو ، دن بہ دن رفع ذکر کے سامان ہوتے چلے جارہے ہیں اور اقرا کی ضیا پاشیوں میں اپنی منازل طے کرتا چلاجارہا ہے ۔
دعا انبیا ئے کرام علیہم السلام کی سنت ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا ہی تھی کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی تقدیر بدل گئی اور اسلام کے صفحہء اول میں داخل ہوگئے ،اَللّٰھُمَّ اَعِزَّ الْاسْلاَمَ بِأحَدِ الْعُمْرَیْنِ عُمَرَیْنِ الْخَطَّابِ أوْ عُمَرَ بْنَ ہِشَامٍ ( اے اللہ عمرین عمر بن خطاب یا عمر بن ہشام میں سے کسے ایک ذریعہ اسلام کو تقویت عطاکر) بدر کے سنگلاخ میدان میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا نے جبرئیلِ امین کو لا کھڑا کیا اور شیطان کو شکست کھانی پڑی ، اُحد میں فتح کے بعد فاتحِ لشکر کو مدینہ منورہ کے دروازے پردستک دینے کی ہمت نہ ہوئی؛ حالاں کہ ظاہری اعتبار سے اب کوئی رکاوٹ نہ تھی اور کوئی رکاوٹ تھی تو وہ نالہء نیم شب کی اثر انگیزی تھی کہ وہ بد قسمت لشکر مدینہ کے بجائے مکہ روانہ کردیاگیا ، جنگِ خندق میں دعاؤں نے افواج عرب کو ہواؤں اور ان دیکھے لشکروں کے ذریعے پسپا کردیا ، جنگ یرموک میں بھی وہی ہواؤں کا ریلا مدد کو موجود تھا ، اسی طرح قادسیہ کے مقام پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہٴ کرام کی پشت پرایرانیوں کے خلاف وہ تیزوتندہواؤں کا لشکر موجود تھا۔
یقینا دعا مومن کا ہتھیار ہے ، ربِ کریم کے نادیدہ خزانوں کی چابی ہے، دعا مومن کا بہت اہم خزانہ ہے ، دعا عبادت کا مغز ہے( الدعاء مخ العبادة ) لیکن اس کی حقیقت عقلیت پسندوں کی سمجھ میں نہیں آتی؛ جب کہ یہ تو جبلِ ہمالیہ سے کہیں بڑھ کر ٹھوس اور باوزن ہے اور بدیہی اعتبار سے ثابت بھی ہے ، اللہ تعالی کے نادیدہ خزانوں کا عظیم وعمیق ربط دعا سے ہے ، جس کی قبولیت کے مختلف انداز ہیں ، کبھی بعینہ وہی مل جائے ، یا اس کا بدل؛ بل کہ نعم البدل مل جائے ، جو ں کاتوں قبول نہ ہو؛ بل کہ اللہ تعالی حکیم ہے اور اس کا کوئی عمل حکمت سے خالی نہیں اور وہ انسان کے انجام سے بخوبی واقف ہے؛ چناں چہ اس کے ذریعہ کوئی مصیبت دور کردے ، یا یہ کہ اسے مومن کے لیے بطور توشہء آخرت محفوظ کردیاجائے؛ لیکن دعاکی قبولیت کے ان گونا گوں انداز کو عقلیت پسند ذہن تمسخر کا نشانہ بنانے سے نہیں چوکتے؛ لیکن انھیں یہ پتا ہو نا چاہیے کہ پُرخلوص کوشش اور دعا سے وہ نتائج نکلتے ہیں جن کی عقلی لحاظ سے بالکل امید نہیں ہوتی ۔
دعا کی قبولیت کے آداب میں یہ بات شامل ہے کہ انسان اللہ کی اطاعت وفرمانبرداری کرے خوب خوب بندگی کرے ، تقوی اور پرہیزگاری کی راہ اور روش اپنائے یقینا دعامیں تقوی کَالْمِلْحِ فِی الطَّعَامِکا درجہ رکھتا ہے ، جس کے بارے میں کسی نے لکھا ہے کہ:
یہ مخصوص اوقات میں محدود مقامات پر ایک خاص قسم کی پر تکلف کیفیت پیدا کرنے کانام نہیں ہے؛ بل کہ یہ خشیتِ الٰہی سے عبارت ہے اگر تقوی اور پرہیزگاری کی روح نہ رہے تو انسان کی زندگی میں امن وسکون عنقا ہو جاتا ہے اور پھر یہ صراطِ مستقیم سے منحرف ہو کر اپنی ناکامی اور نامرادی کا نوشتہء تقدیر خود اپنے ہاتھوں تیار کرلیتا ہے ، تقوی تو یہ ہے کہ کبرونخوت اور غرور وسرکشی سے عاری اور تواضع وانکساری کے جذبات سے سرشار ہو ، جس کے لیے خدا کی عطاکردہ نوازش کا احساس اور خالقِ دوجہاں کے منبعِ علم ہونے کا ایمان مہمیز کرتا ہے ۔
اسی طرح جوبھی صلاحیت ، لیاقت اور توانائیاں ہوں وہ راہِ خدا میں کھپادے ، پھر اللہ تعالی سے نصرت واعانت اور سرخروئی وفتح وکامرانی کی دعا کرے ، اللہ تعالیٰ کو تو پرخلوص جدوجہد اور صرف اسی پر توکل کرنا اور اسی سے مانگنا محبوب ہے ، اللہ تعالیٰ نے ایسے ہی لوگوں کو فاتح اور غالب کرنے وعدہ کیا ہے خواہ تعداد میں تھوڑے ہوں اور وسائل کی قلت ہو بقول علامہ اقبال :
قوتِ عشق سے ہر پست کو بالا کردے دہر میں اسمِ محمد سے اجالا کردے
دعا کی قبولیت میں بے شمارموانع ہیں، مثال کے طور پر حرام کھانا ، حرام پینا اور حرام لباس زیب تن کرنا ، اللہ کے رسول ﷺ نے یہ ارشاد فرمایا : اَلرَّجُلُ یُطِیْلُ السَّفَرَ اَشْعَثَ أغْبَرَ، یَمُدُّ یَدَہ الٰی السَّمَاءِ، یَارَبِّ، یَارَبِّ، وَمَطْعَمُہ حَرَامٌ، وَمَشْرَبُہ حَرَامٌ، وَمَلْبَسُہ حَرَامٌ، وَغُذِيَ بِالْحَرَامِ، فَأنّٰی یُسْتَجَابُ لَہ ( آدمی لمبا لمبا سفر کرے گا ، پراگندہ حال ، غبار آلود معلوم ہوگا، وہ آسمان کی طرف ہاتھ اٹھائے گا، یارب یارب (کہے گا) اور اس کا کھانا حرام ، اس کا پینا حرام ، اس کا لباس حرام اور اس کی پرورش حرام غذا سے ہو ئی ہو تو اس کی دعا کہا ں سے قبول کی جائے گی ؟) ایک دوسری حدیث میں ہے: اَطِبْ مَطْعَمَکَ تَکُنْ مُجَابَ الدَّعْوَةِ ( اپنے کھانے کو عمدہ کرو ۔ حلال کھانا کھاؤ۔ تمہاری دعا قبول کی جائے گی)۔
دوسری چیز جو موانعِ دعا میں سے ہے وہ اخلاص کی کمی ہے؛ اس لیے اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا: فَادْعُوا اللہَ مُخْلِصِیْنَ لَہ الدِّیْنَ ( پس اللہ تعالی کو پکارو ، اسی کے لیے عبادت کو خالص کرتے ہوئے ) ایک دوسری آیت اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا : فَلَاتَدْعُوْا مَعَ اللہِ أحَدًا ( اللہ تعالی کے ساتھ کسی اور کو مت پکارو) اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : تَعْرِفُ إلٰی اللہِ فِیْ الرَّخَاءِ یَعْرِفُکَ فِی الشِّدَّةِ ( اللہ تعالیٰ کو خوش حالی میں یاد کرو اللہ تعالیٰ تم کو سختی میں یادکرے گا ) یعنی یہ کہ جب بندہ اللہ تعالی سے ڈرتا ہے، اس کے حدود کی پاسداری کرتاہے اور خوش حالی میں اس کے حقوق کی رعایت کرتا ہے تو اس کی وجہ سے اسے معرفتِ خداوندی حاصل ہوجائے گی اور اللہ تعالی اس کو سختیوں سے بچائے رکھے گا اور حدیث میں ہے : بندہ مجھ سے نوافل کے ذریعہ قربت حاصل کرتاہے تو میں اس سے محبت کرتاہوں ، لہٰذا جب میں اسے محبوب سمجھتاہوں تو اس کا کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے ، اس کی آنکھ بن جاتا جس سے وہ دیکھتا ہے ، اس کا ہاتھ ہوجاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے اور اس کا پاؤں بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے اور اگر وہ کچھ مانگتا ہے تو میں اس کو ضرور دیتا ہوں اور اگر وہ مجھ سے پناہ مانگتا ہے تو میں اسے پناہ دیتا ہوں(بخاری شریف )۔
اللہ تعالی غافل کی دعا قبول نہیں کرتا ہے؛ چنا نچہ مستدرکِ حاکم میں مروی ہے کہ : اُدْعُوا اللہَ وَأنْتُمْ مُوْقِنُوْنَ بِالإجَابَةِ ( اللہ تعالی سے دعاکرو اور قبولیت کا یقین رکھو)یعنی اللہ تعالی غافل اور لاپرواہ دل سے نکلی ہوئی دعا کو قبول نہیں کرتاہے ۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : إنَّ اللہَ یُحِبُّ الْمُلْحِیْنَ فِی الدُّعَاءِ اللہ تعالی دعامیں بہت زیادہ تضرع اور خضوع وخشوع کرنے والے اور بہت زیادہ مانگنے والے کو پسند کرتاہے ۔
دعا عبادت ہے ، نجات کا ذریعہ ہے، لہٰذا جو بھی دعا سے اعراض کرے ، اللہ سے نہ مانگے اللہ ان سے ناراض ہوتا ہے اور اس کا ٹھکانہ جہنم ہے ، اللہ تعالی کا ارشاد ہے : وَقَالَ رَبُّکُمُ ادْعُوْنِيْ اَسْتَجِبْ لَکُمْ انَّ الَّذِیْنَ یَسْتَکْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِيْ سَیَدْخُلُوْنَ جَھَنَّمَ دَاخِرِیْنَ لیکن اس کے برعکس جو خوب اللہ تعالی سے مانگے گا اس کے سامنے آہ و فغاں اور خشوع وخضوع کرے گا وہ اس دعا کی وجہ سے جنت میں داخل کیا جائے گا، جیسا کہ قرآن میں ہے : اور ان میں سے ایک دوسرے کی طرف متوجہ ہوگا آپس میں پوچھتے ہوئے وہ کہیں گے بے شک ہم اس سے پہلے اپنے اہلِ خانہ میں ڈرتے تھے تو اللہ تعالی نے ہم احسان کیا اور گرم ہوا کے عذا ب سے بچالیا، بے شک وہ بہت ہی احسان کرنے والا اور رحم کرنے والاہے۔
ایک دوسری جگہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے : اُدْعُوْا رَبَّکُمْ تَضَرُّعاً وَخُفْیَةً انَّہ لاَیُحِبُّ الْمُعْتَدِیْنَ وَلاَ تُفْسِدُوْا فِي الْأرْضِ بَعْدَ اصْلاَحِھَا وَادْعُوْہُ خَوْفًا وَطَمَعًا انَّ رَحْمَتَ اللہِ قَرِیْبٌ مِنَ الْمُحْسِنِیْنَ ( اپنے رب کوپکاروگڑگڑاکر اور آہستہ سے ، بے شک وہ حد سے گزرنے والوں کو دوست نہیں رکھتا۔ اور فساد نہ مچاؤزمین میں اس کی اصلاح کے بعد ، اور اسے پکارو ڈرتے اور امید رکھتے ہوئے ، بے شک اللہ تعالی کی رحمت قریب ہے نیکی کرنے والوں سے ) بے شک اللہ تعالیٰ کی رحمت قریب ہےفَلاَ تَیْأَسُ مِنْ رَوْحِ اللہِ لہٰذا اسی سے سب کچھ ہونے کی لولگائیں، وہی حاجت روا مشکل کشا ہے، اس کی رحمت سے کبھی بھی مایوس نہ ہوں اور ہرلمحہ ، ہرپل اسی سے مانگیں ، وہ بہت نوازنے والا اورخوب دینے والا ہے۔
***
—————————————-
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ 1، جلد: 98 ، ربیع الاول 1435 ہجری مطابق جنوری 2014ء