از: مولانا اختر امام عادل قاسمی
مہتمم جامعہ ربانی منوروا شریف، سمستی پور، بہار
ادھر کچھ عرصہ سے عوام میں ایک مسئلہ دلچسپی کا موضوع بنا ہوا ہے،اور اہل ذوق کی طرف سے اس ضمن میں سوالات بھی آتے رہتے ہیں،مسئلہ یہ ہے کہ گھڑی کس ہاتھ میں باندھی جائے ؟ دائیں ہاتھ میں یا بائیں ہاتھ میں ؟بہتر اور سنت سے قریب تر طریقہ کیا ہے ؟
نئے مسائل کو حل کرنے کا طریقہ
اس ضمن میں سب سے پہلے یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ اسلامی تاریخ کی اب تک کی روایت یہ رہی ہے کہ جب بھی کوئی نئی صورت حال پیش آئی ہے اورامت کسی نئے مسئلے سے دوچار ہوئی ہے تو اس کو حل کرنے کے لیے بنیادی طور پر دو طریقے اختیار کیے گئے ہیں:
(۱) اس ضمن میں اسلام کی اصولی ہدایات کیا ہیں ؟
(۲) سلف کا تعامل کیا رہا ہے ؟
اسلام کی چودہ سو(۱۴۰۰) سالہ تاریخ گواہ ہے کہ ہر دور کے علماء نے اپنے عہد کے مسائل کو اسی اصول پر حل کیا ہے ،اور آج بھی جب کسی مسئلہ پر غور کیا جائے گا تو اسی روشنی میں غور کیا جائے گا۔
گھڑی کس ہاتھ میں باندھیں؟
ہاتھ میں گھڑی باندھنے کارواج عہد نبوت میں نہیں تھا اور نہ قدیم عہد اسلامی میں اس کا وجود ملتا ہے؛اس لیے ظاہر ہے کہ نہ قرآن وحدیث میں اس سلسلے میں صریح ہدایت مل سکتی ہے اور نہ ہمارے فقہاء کے یہاں اس ضمن میں کسی صراحت کی امیدہے ،․․․․ہاتھ گھڑی خالص عہد جدید کی پیدا وار ہے ،پچھلے ادوار میں دھوپ گھڑی کارواج تھا ،․․․․پھر بڑے ٹاوروں کی شکل میں ”گھنٹہ گھر“ بنائے گئے ،جس کا نظام حکومت یا کسی امیر کبیر کے ہاتھ میں ہوتا تھا عام لوگوں کو اس کے انتظام سے کوئی سروکار نہیں ہوتا تھا ،وہ صرف اس سے استفادہ کرتے تھے ،پھر آہستہ آہستہ یہ عام لوگوں کے دسترس میں آئی تو دیوار گھڑی اورپھر ٹیبل گھڑی وجود میں آئی ،مگر اس عہد تک اس کا استعمال انفرادی نہیں؛ بلکہ اجتماعی تھا ،یعنی ایک پوری جماعت (چھوٹی یا بڑی )اس سے استفادہ کرتی تھی ،لیکن اس کے بعد سائنس نے اور ترقی کی اور انفرادی استعمال کے لیے جیب گھڑی وجود میں آگئی، ان تمام ادوار میں یہ سوال کبھی منظر عام پر نہیں آیا کہ گھڑی دائیں دیوار پر لگائی جائے یا بائیں دیوار پر ،گھڑی دائیں جیب میں رکھی جائے یا بائیں جیب میں ؟اس کا استعمال ہر شخص اپنی سہولت کے لحاظ سے کرتا تھا؛ لیکن سائنس کی بے پناہ ترقی کے بعد جب ہاتھ گھڑی وجود میں آئی تو مدت ایجاد سے کافی عرصہ کے بعد یہ سوال ابھر کر سامنے آیا کہ گھڑی دائیں ہاتھ میں باندھی جائے یا بائیں ہاتھ میں ؟ اس کے اسباب خواہ کچھ بھی ہوں؛ لیکن بہر حال یہ سوال اپنی جگہ اہمیت رکھتا ہے کہ گھڑی کے استعمال کا افضل طریقہ کیا ہے ؟
ایک رائے
اس تعلق سے ایک بالکل ابتدائی رائے جو کسی بھی عام مسلمان کے ذہن میں پہلی بارآتی ہے یہ ہے کہ دائیں ہاتھ میں باندھنا چاہیے؛ اس لیے کہ دائیں کو بائیں پرفضیلت حاصل ہے ، ․․․․دراصل اس فکر کی بنیاد وہ روایات ہیں جن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا پسندیدہ معمول دائیں سے شروع کرنا بتایا گیا ہے ، یہ روایات بہت سی کتب حدیث میں موجود ہیں ،مثلاً :
حضرت عائشہ صدیقہ روایت کرتی ہیں کہ
کان النبی صلی اللہ علیہ وسلم یعجبہ التیمن فی تنعلہ وترجلہ وطھورہ وفی شانہ کلہ․
(صحیح البخاری ج ۱ ص ۷۴ حدیث نمبر ۱۶۶، ط دارابن کثیر الیمامة بیروت ۱۹۸۷ء وغیرہ)
ترجمہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے نعل مبارک اورکنگھاکے استعمال اورطہارت وغیرہ؛ بلکہ ہرمعاملے میں دایاں کو پسند فرماتے تھے ۔
اصل ضابطہ
مگر میرے نزدیک یہ خیال ہر معاملے کے لیے درست نہیں ہے ،اور نہ اس کو پوری زندگی کے لیے دائمی قانون کا رنگ دیا جاسکتا ہے :
* اس لیے کہ قانون اسلامی میں کہیں بھی اس کوقاعدہٴ کلیہ کے طور پر پیش نہیں کیا گیا ہے؛ بلکہ کئی چیزیں اس کے برعکس موجود ہیں ،جن میں دایاں کے بجائے بائیں سے شروع کرنے کو ترجیح دی گئی ہے ،اور کئی ایسی چیزیں بھی آپ کو نظر آئیں گی جن میں دایاں اور بایاں میں سے کسی کوبھی ترجیح حاصل نہیں ہے ،․․․․
علامہ ابن الحاج المالکی نے مذکورہ حدیث میں تین چیزوں کے ذکر کو علامتی قرار دیا ہے ،ان کے بقول انسان کے جائز اعمال یا تو واجب ہونگے یا مستحب یامباح ،حدیث میں طہور سے جنس واجبات کی طرف ،ترجل سے جنس مندوبات کی طرف اور تنعل سے جنس مباحات کی طرف اشارہ ہے ،یعنی واجبات ،مستحبات اور مباحات تمام میں دائیں سے ابتدا کرنا پسندیدہ ٴ نبوی ہے (المدخل لابن الحاج (م ۷۳۷ھ )ج ۲ ص ۲۸۰)
فقہاء ومحدثین نے اس سلسلے کی تمام روایات وآثارکو سامنے رکھ کر ایک عمومی ضابطہ مقررکیا ہے ،اور اس ضمن میں کچھ اعمال وافعال کی نشاندہی بھی کی ہے ،اس کی مختصر تفصیل یہ ہے :
ایسے اعمال جن میں دائیں بائیں کی تخصیص نہیں
(۱) ایسے اعمال جن کو دائیں اور بائیں دونوں جانب بیک وقت انجام دیا جانا ممکن ہو ،ان میں کسی جانب کو ترجیح حاصل نہ ہوگی؛بلکہ دونوں کو عمل میں یکساں طورپر شامل کیا جائے گا ،مثلاً وضو میں دونوں ہتھیلیاں اور دونوں رخسارساتھ دھلے جائیں گے ،،سر کا اوردونوں کانوں کا مسح ساتھ کیا جائے گا،وغیرہ(عمدة القاری شرح البخاری للعینی ج۴ص ۲۷۴)
دائیں سے شروع ہونے والے اعمال
(۲)ایسے اعمال جن میں درج ذیل شرائط پوری ہوتی ہوں ان کو دائیں جانب سے شروع کیا جائے گا :
* دائیں اور بائیں کوبیک وقت کرنا ممکن نہ ہو۔
*عمل قابل تکریم ہویعنی اس سے فضیلت وشرف کااظہار ہوتا ہو۔
*یا وہ عبادات کے قبیل سے ہو اور بذات خود مطلوب ہو،یعنی زندگی یا دین کی دائمی ضروریات میں شامل ہو․․․․
اس کی مثال میں بعض ان اعمال کی نشاندہی کی جاتی ہے، جن کا تذکرہ حدیث یافقہ اسلامی کی کتابوں میں صراحت کے ساتھ آیا ہے :
مسجد یا گھر میں داخل ہونا
صحابیِ رسول حضرت انس فرماتے ہیں کہ :
من السنة إذا دخلت المسجد أن تبدأ برجلک الیمنیٰ وإذاخرجت أن تبدأ برجلک الیسریٰ (اخرجہ الحاکم ج۱ ص ۲۱۸ ط، دائرة المعارف العثمانیة )
ترجمہ : سنت طریقہ یہ ہے کہ جب مسجد میں داخل ہو ں تو دائیں پاؤں سے شروع کریں اور جب نکلیں تو بائیں پاؤں سے شروع کریں ۔
جوتا چپل پہننا
حضرت ابوہریرہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
إذا انتعل احدکم فلیبدأ بالیمین وإذا نزع فلیبدأ بالشمال(صحیح بخاری مع الفتح ج ۱۰ ص۳۱۱ ط السلفیة ،صحیح مسلم ج ۳ ص ۱۶۶۰ ط الحلبی)
ترجمہ : کوئی جوتا پہنے تو دائیں سے شروع کرے اور اتارے تو بائیں سے شروع کرے ۔
کنگھا استعمال کرنا
حضرت عائشہ والی روایت میں کنگھا کا صاف ذکر ہے ۔
وضو میں ہاتھ پاؤں دھونا
حضرت ابوہریرة سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
إذا لبستم وإذا توضأتم فابدؤا بمیامنکم(ابوداؤد ج ۴ ص ۳۷۹ ط عزت عبید دعاس، نووی نے ریاض الصالحین میں اس کو صحیح قرار دیا ہے (ص ۳۳۷ ط الرسالة )
ترجمہ : جب تم کپڑے پہنو اور وضو کرو تو دائیں سے شروع کرو ۔
اعضاء تیمم پر مسح کرنا
حضرت انس کی روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے دائیں طرف کے اعضاء پر مسح فرمایا الحدیث ۔(سنن ابی داؤد باب التیمم ج ۱ ص ۱۲۶ حدیث نمبر ۳۲۱ ط دارالکتاب العربی بیروت )
نماز کی صفوں میں شامل ہونا
حضرت براء بن عازب بیان فرماتے ہیں کہ :
کنا إذاصلینا خلف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم أحببنا أن نکون عن یمینہ یقبل علینا بوجھہ (صحیح مسلم ج ۱ ص ۴۹۲ ط الحلبی )
ترجمہ : جب ہم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھتے تھے تو ہم چاہتے تھے کہ آپ کی دائیں طرف کھڑے ہوں ۔
کھا نا پینا
حضرت حفصہ بیان فرماتی ہیں:
أن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کان یجعل یمینہ لطعامہ وشرابہ وثیابہ ویجعل شمالہ لما سویٰ ذلک (ابوداؤد ج ۱ ص ۳۲)
ترجمہ :رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنا دایاں ہاتھ کھانے ،پینے اور کپڑوں کے لیے استعمال فرماتے تھے، اور بایاں ہاتھ ان کے علاوہ دیگر کاموں کے لیے ۔
کپڑے پہننا
حضرت ابوہریرة سے مروی ہے کہ :
کان النبی صلی اللہ علیہ وسلم قمیصاً بدأ بمیامنہ (ترمذی ج ۴ ص ۲۳۹ط الحلبی ،)
ترجمہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم قمیص کو دائیں جانب سے پہنتے تھے ۔
خف یا موزہ کا استعمال بھی دائیں طرف سے ہونا چاہیے،(بدائع الصنائع للکاسانی ج۱ص ۱۴۹،مغنی المحتاج ج ۱ ص ۶۷ ،المغنی لابن قدامة ج ۱ ص ۲۹۸)
مسواک کا ذکر بھی احادیث میں آیا ہے ،(سنن ابی داؤد ج ۴ ص۱۱۸ط دارالکتاب العربی بیروت)اس کو دایاں ہاتھ سے پکڑنا اور منہ میں دائیں طرف سے شروع کرنا مسنون ہے ،(مغنی المحتاج ج۱ ص ۱۵۵،المغنی لابن قدامة ج۱ص۹۶)
ناخن کاٹنا
ہاتھوں اور پاؤں کے ناخن کاٹنے میں بھی دائیں سے آغاز کرنا مسنون ہے ،(تحفة المحتاج بشرح المنہاج ج۳ ص ۴۷۶،مغنی المحتاج ج ۴ ص ۲۹۶،المغنی لابن قدامة ج ۱۰ ص ۸۷)
سر مونڈانا
حضرت انس سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کے موقعہ پر رمی اور نحر کے بعد حلاق کو طلب فرمایا اور پہلے دائیں اور پھر بائیں جانب حلق فرمایا اور پھر وہ بال لوگوں میں تقسیم کرنے کے لیے عنایت فرمایا (دیکھیے صحیح مسلم ج ۲ ص ۹۴۷ ط الحلبی )
نماز میں سلام پھیرنا
حضرت عبداللہ بن مسعود روایت فرماتے ہیں کہ :
أن النبی صلی اللہ علیہ وسلم کان یسلم عن یمینہ السلام علیکم ورحمة اللہ حتی یریٰ بیاض خدہ الایمن وعن یسارہ السلام علیکم ورحمة اللہ حتیٰ یریٰ بیاض خدہ الایسر (نسائی ج۳ ص۶۴ ط المکتبة التجاریة، التلخیص لابن حجر ج ۱ ص ۲۷۰ط شرکة الطباعة الفنیة المتحدة )
ترجمہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دائیں طرف سلام پھیرتے تھے یہاں تک کہ آپ کا دائیں رخسار نظر آتا تھا پھر بائیں جانب سلام پھیرتے تھے یہاں تک کہ بائیں رخسار نظر آنے لگتا تھا ۔
اذان
*موٴذن حیعلتین میں پہلے دائیں جانب التفات کرے گا پھر بائیں جانب ،حضرت بلال کا معمول یہی تھا (بدائع الصنائع ج ۱ ص ۱۴۹)
*نومولود بچہ کے کان میں جو اذان دی جاتی ہے اس کا بھی یہی حکم ہے کہ دائیں کان سے پہلے دی جائے ،(تحفة المحتاج ج۹ص۳۷۶،مغنی المحتاج ج۴ ص ۲۹۶)
غسل میت
میت کو غسل دیتے وقت دائیں جانب سے آغاز کرنا مسنون ہے ،حضرت ام عطیہ روایت کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی صاحبزادی حضرت زینب کے انتقال کے موقعہ پر طریقہٴ غسل کے تعلق سے ہدایات دیتے ہوئے فرمایا :
إبدأن بمیامنھا ومواضع الوضو منھا(اخرجہ البخاری ،فتح الباری ج۳ ص ۱۳۰ ط:السلفیة ،صحیح مسلم ج ۲ ص ۶۴۷ ط الحلبی )
ترجمہ : دائیں جانب اور مقامات وضو سے شروع کرو ۔
مجلس میں کسی چیزکی تقسیم
مجلس میں کسی مشروب یا کھانے پینے کی چیزکی تقسیم میں بھی دائیں سے ابتدا کی جائے گی، اگر چہ بائیں جانب زیادہ اہل شرف لوگ موجود ہوں ،حضرت انس سے روایت ہے کہ :
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں دودھ پیش کیا گیا آپ نے اسے تناول فرمایا ،آپ کی دائیں طرف ایک اعرابی بیٹھے ہوئے تھے ،اور بائیں طرف حضرت ابوبکر تشریف فرما تھے حضرت عمر نے دریافت فرمایا، یا رسول اللہ ! کیا ابوبکر کی خدمت میں پیش کروں ؟ لیکن دودھ اعرابی کو پیش کیا گیا اور آپ نے ارشاد فرمایا ” الایمن فالایمن“ دایاں تو دایاں ہے (فتح الباری مع البخاری ج ۱۰ ص ۸۶ ط السلفیة )
سونے کی حالت
سونے میں بھی دائیں کروٹ لیٹنا مستحب ہے ،حضرت براء بن عازب روایت کرتے ہیں :
کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کان إذا آوی إلیٰ فراشہ نام علیٰ شقہ الایمن (بخاری مع الفتح ج ۱۱ ص ۱۱۵ط السلفیة )
ترجمہ : رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم جب بستر پر تشریف لے جاتے تو اپنی دائیں کروٹ آرام فرماتے تھے ۔
*طواف بھی خانہٴ کعبہ کے دائیں سے شروع کیاجائے گا ،فقہاء نے اس کو واجبات میں شمار کیا ہے(الموسوعة الفقہیة ج ۴۵ ص ۲۹۶)
*اسی طرح مسجد میں بیٹھنا ،*سرمہ لگانا ،*مونچھ تراشنا،*زیر بغل صاف کرنا، *مصافحہ کرنا*حجر اسودکو بوسہ دینا *رمی جمار کرناوغیرہ ان تمام اعمال کو، دائیں طرف سے شروع کرناافضل ہے (تفصیلات کے لیے دیکھیے :مغنی المحتاج ج ۳ ص ۲۵۰،فتح الباری علی شرح صحیح البخاری لاحمد بن حجر العسقلانی ج ۱ ص ۲۶۹ ،۲۷۰ط دارالمعرفة بیروت ۱۳۷۹ھ ،حاشیة محمد بن عبدالہادی السندی (۱۱۳۸ھ )ج ۱ ص ۳۶۵،عمدة القاری شرح صحیح البخاری لبدرالدین العینی (م۸۵۵ھ )ج ۴ص ۲۷۳ ،۳۷۴)
بائیں سے شروع ہونے والے اعمال
ایسے اعمال جو قابل تکریم نہ ہوں ،جن میں ازالہ وترک کا مفہوم پایا جاتا ہو ،ان میں بائیں جانب کو ترجیح حاصل ہوگی ،مثلاً مسجد سے باہرنکلنا ،بیت الخلا جانا ،استنجا کرنا ،ناک صاف کرنا ،بدن سے کپڑے اتارنا،پاجامہ ،جوتے ،اور خف نکالنا ،وغیرہ ،․․․․ان میں سے اکثر باتوں کا تذکرہ احادیث اور کتب فقہ میں آیا ہے (مکمل ضابطہ اور اصولی بحث کے لیے دیکھیے :،حاشیة الالبانی علیٰ ابن ماجة ج۱ ص ۱۴۱ط دارالفکر بیروت ،فتح الباری علی شرح صحیح البخاری لاحمد بن حجر العسقلانی ج ۱ ص ۲۶۹ ،۲۷۰ط دارالمعرفة بیروت ۱۳۷۹ھ ،حاشیة محمد بن عبدالہادی السندی (۱۱۳۸ھ )ج ۱ ص ۳۶۵،عمدة القاری شرح صحیح البخاری لبدرالدین العینی (م ۸۵۵ھ )ج ۴ص ۲۷۳ ،۳۷۴)
بذات خود غیر مطلوب اعمال
*اسی ضمن میں وہ اعمال بھی آتے ہیں جو بذات خود مطلوب نہیں ہیں؛ بلکہ کسی وقتی ضرورت یا عذر کی بناپران کی اجازت دی گئی ہے ،علامہ بدرالدین عینی رقمطرازہیں :
ومایستحب فیہ التیاسر لیس من الافعال المقصودة بل ہی إما تروک وإما غیر مقصودة (عمدة القاری ج۴ ص ۲۷۴ )
ترجمہ : جن اعمال کوبائیں سے شروع کرنا مستحب ہے وہ افعال بذات خود مقصود نہیں ہوتے؛ بلکہ یا تو وہ تروک کے قبیل سے ہیں یا بذات خودغیر مقصود ہیں ۔
اس کی مثال میں انگوٹھی یا گھڑی وغیرہ کے استعمال کو پیش کیا جاسکتا ہے؛اس لیے کہ فقہا ء نے انگوٹھی کے بارے میں تصریح کی ہے کہ مردوں کے لیے اس کی اجازت ضرورت کی بناپر دی گئی ہے؛کیونکہ یہ دھات کا استعمال ہے ،جو قباحت سے خالی نہیں ،اسی لیے سلطان ،قاضی اور صاحب ضرورت کے علاوہ دیگر اشخاص کے لیے اس کے استعمال کومکروہ یا کم از کم خلاف افضل قرار دیا گیا ہے ، (دیکھیے :حاشیة ردالمحتار علی الدرالمختارلابن عابدین ج ۶ ص ۳۶۱ ط دار الفکر بیروت ۲۰۰۰ء، مجمع الانہر فی شرح ملتقی الابحر لعبدالرحمن شیخی زادہ (م ۱۰۷۸ھ)ص ۱۹۷ج ۴ ط دارالکتب العلمیة بیروت ۱۹۹۸ء وغیرہ)
ظاہر ہے کہ گھڑی تو اس سے بھی فروتر چیز ہے اور عہد نبوت کے بہت بعد کی ایجاد ہے، انگوٹھی پر قیاس کرکے بوجہ ضرورت مردوں کے لیے اس کی اجازت دی گئی ہے۔
دائیں یا بائیں سے شروع ہونے والے اعمال کی حقیقت
*دوسری بات یہ ہے کہ دائیں یا بائیں سے شروع ہونے والے اعمال کی جو بحث آتی ہے وہ مرکّب قسم کے اعمال میں آتی ہے،یعنی ایسے افعال جو دائیں اور بائیں دونوں جانب پر بالترتیب مکمل ہوں ،اس بحث میں وہ اعمال داخل نہیں ہیں جن کو اصطلاح میں عمل بسیط کہا جاسکتا ہے، یعنی جس کی تکمیل کے لیے دونوں جانب کی ضرورت نہیں ہوتی؛ بلکہ صرف ایک جانب پر مکمل ہوجاتا ہو ،مثلاً ہاتھ میں انگوٹھی پہننا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے ،اور یہ آپ کے مستقل معمولات میں شامل تھا؛لیکن بیک وقت دونوں ہاتھوں میں آپ انگوٹھیاں نہیں پہنتے تھے؛بلکہ کسی ایک ہاتھ میں پہنتے تھے اور روایات سے ثابت ہے کہ زیادہ تر بائیں ہاتھ میں پہنتے تھے۔
اسی طرح اس بحث میں وہ اعمال بھی نہیں آتے جس کو ایک ساتھ دونوں جانب کیا جا سکتا ہو،مثلاوضو میں دونوں رخسارایک ساتھ دھونا،اسی طرح دونوں کانوں پر ایک ساتھ مسح کرنا ممکن ہے ،ایسے اعمال میں دائیں یا بائیں کسی جانب کو ترجیح نہ ہوگی؛ بلکہ دونوں کو ایک ساتھ کیا جائے گا، چنانچہ وضو کرتے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول یہی تھا کہ دونوں رخسار کو ایک ساتھ دھوتے تھے وغیرہ․․․․اسی لیے شارحین حدیث نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ابتدا بالیمین کے مسئلے میں صرف ایسے اعمال داخل ہیں جن کو دائیں اور بائیں ایک ساتھ انجام دینا ممکن نہ ہو، علامہ سندھی رقمطراز ہیں :
یحب التیمن ای الابتداء بالیمین ای لم یعھد فیہ المقارنة ویکون من باب التشریف (حاشیة السندی علیٰ سنن ابن ماجة ج ۱ ص ۳۶۵)
ترجمہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دایاں سے آغاز کرنا پسند فرماتے تھے یعنی ایسے اعمال میں جن کو ایک ساتھ کرنا متعارف نہ ہو اور قابل تکریم ہوں۔
اسی لیے حضرت عائشہ والی روایت میں ”فی شانہٖ کلہٖ“کا جملہ اگرچہ کہ بظاہر عام ہے؛ لیکن باتفاق محدثین اس کا مصداق عام نہیں ہے؛بلکہ اس میں صرف وہ اعمال داخل ہیں ،جن کا تذکرہ بحث نمبر ۲ کے ضمن میں کیا گیا ۔
تیمن کا مفہوم
*اسی لیے روایت عائشہ میں ”تیمن“ کا معنیٰ ”دائیں کو اختیا ر کرنا نہیں“ بلکہ” دائیں سے شروع کرنا “ہے،اصحاب لغت نے اس کی وضاحت کی ہے (دیکھیے الصحاح للجوہری ،المصباح المنیر ،غریب القرآن للراغب الاصفہانی ،لسان العرب لابن منظور مادہ یمن )
شارحین حدیث نے بھی اسی معنیٰ کو ترجیح دی ہے”(دیکھئے ،حاشیة الالبانی علیٰ ابن ماجة ج۱ ص ۱۴۱ط دارالفکر بیروت،فتح الباری علی شرح صحیح البخاری لاحمد بن حجر العسقلانی ج ۱ ص ۲۶۹، ۲۷۰ط دارالمعرفة بیروت ۱۳۷۹ھ ،حاشیة محمد بن عبدالہادی السندی (۱۱۳۸ھ )ج ۱ ص ۳۶۵، عمدة القاری شرح صحیح البخاری لبدرالدین العینی (م ۸۵۵ھ )ج ۴ص ۲۷۳ ،۳۷۴)
ہاتھ میں انگوٹھی یا گھڑی پہننے کا مسئلہ
ہاتھ میں انگوٹھی یا گھڑی پہننے کا مسئلہ اس عام ضابطے میں داخل نہیں ہے جس کے تحت کو ئی قابل تکریم عمل دائیں جانب سے شروع کیا جا تا ہے؛اس لیے کہ یہ عمل بسیط ہے عمل مرکب نہیں، یعنی یہ عمل دائیں اور بائیں دونوں جانب نہیں کیا جاتا؛ بلکہ کسی ایک جانب ہی پوراہوجاتا ہے ،اور دائیں یا بائیں سے شروع کرنے کی بحث وہاں آتی ہے جہاں عمل ایک جانب سے شروع ہوکردوسری جانب ختم ہو ۔
(۲) دوسری وجہ یہ ہے کہ انگوٹھی یا گھڑی کااستعمال بظاہر قابل تکریم عمل ہے ،مگر بلاضرورت اس کے استعمال کو پسند نہیں کیا گیا ہے ،اس لیے کہ یہ دونوں چیزیں عموماً دھات سے تیار ہوتی ہیں، اسی لیے فقہاء اسلام نے مردوں کے لیے بلاضرورت اس کے استعمال کو مکروہ یا کم ازکم خلاف افضل قرار دیا ہے ،(عورتوں کا استثنا ہے )اس لیے عام قابل تکریم اعمال کے زمرہ میں اس کو نہیں ڈالا جاسکتا بلکہ اصول کے مطابق ناپسندیدہ ہونے کی بناپر اس کا استعمال بائیں جانب ہی مناسب ہے ،یہی وجہ ہے کہ زیادہ تر روایات کے مطابق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم انگوٹھی بائیں ہاتھ میں استعمال فرماتے تھے۔
انگوٹھی کے تعلق سے روایات
*حضرت عبداللہ بن عمر روایت کرتے ہیں :
أن النبی صلى الله عليه وسلم کان یتختم فی یسارہ وکان فصہ فی باطن کفہ․
(سنن ابی داؤد ج ۴ ص ۱۴۶ حدیث نمبر ۴۲۲۹ ط دارالکتاب بیروت ،السنن الکبریٰ للبیہقی ج ۴ ص ۱۴۲ ط دائرة المعارف حیدرآبادطبع اول ۱۳۴۴ھ)
ترجمہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے بائیں ہاتھ میں انگوٹھی پہنتے تھے اور اس کا نگینہ ہتھیلی کی جانب ہوتا تھا ۔
*حضرت انس بن مالک سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی انگوٹھی بائیں ہاتھ میں ہوتی تھی(صحیح مسلم ج ۶ص۱۵۲حدیث نمبر ۵۶۱۰ط دارالجبل بیروت،السنن الکبریٰ للبیہقیج ۴ ص۱۴۲ حدیث نمبر ۷۸۱۸ ط دائرة المعارف حیدرآباد۱۳۴۴ھ ،شعب الایمان للبیہقی ج ۸ ص ۳۶۹ حدیث نمبر ۵۹۵۳ط مکتبة الرشد ریاض بتعاون الدار السلفیة ممبئی طبع اول ۲۰۰۳ء)
اس مضمون کی متعدد روایات کتب حدیث میں موجود ہیں ،بعض روایات میں دائیں ہاتھ میں بھی انگوٹھی پہننے کا تذکرہ موجود ہے (دیکھیے سنن ترمذی ج ۴ ص ۲۲۸ حدیث نمبر ۱۷۴۲ ط احیاء التراث العربی بیروت )
معمولات صحابہ وسلف صالحین
*روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ زیادہ ترصحابہٴ کرام کا معمول بائیں ہاتھ میں انگوٹھی پہننے کا تھا ،مثلاً :
* حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر فاروق ،حضرت عثمان غنی اورحضرت علی کے بارے میں معتبر طور پر ثابت ہے کہ وہ بائیں ہاتھ میں انگوٹھی پہنتے تھے (البحرالرائق لابن نجیم (م ۹۷۰ھ) ج ۲۲ ص ۱۲۷،حاشیة العدوی علیٰ کفایة الطالب الربانی لعلی الصعیدی العدوی المالکی (م۱۱۸۹ھ) ج ۸ص ۹۶ط دارالفکر بیروت ۱۴۲۱ھ)
*حضرت عبداللہ بن عمر ،حضرت حسن بن علی اور حضرت حسین بھی بائیں ہاتھ میں انگوٹھی استعمال کرتے تھے ،(السنن الکبریٰ للبیہقی ج ۴ ص ۱۴۲ ط دائرة المعارف حیدرآبادطبع اول ۱۳۴۴ھ، المعجم الکبیر للطبرانی ج ۳ ص ۲۳،۱۰۱ حدیث نمبر ۲۵۴۰،۲۷۹۸ط مکتبة العلوم والحکم موصل ۱۹۸۳ء)
*البتہ صحابہٴ کرام میں صرف حضرت عبداللہ بن عباس کے بارے میں منقول ہے کہ وہ دائیں ہاتھ میں انگوٹھی پہنتے تھے ( سنن ترمذی ج ۴ ص ۲۲۸ )
*یونس بن اسحاق کا بیان ہے کہ انہوں نے حضرت قیس بن ابی حازم،حضرت عبدالرحمن بن اسود ،اور امام شعبی جیسے متعدد اکابر کو دیکھا کہ ان کے بائیں ہاتھ میں انگوٹھی ہوتی تھی،(حاشیة ردالمحتار لابن عابدین ج ۶ ص ۳۶۱ ط دارالفکر للطباعة والنشر بیروت ۲۰۰۰ء )
* حضرت امام مالک بھی بائیں ہاتھ میں انگوٹھی پہنتے تھے (حاشیة العدوی علیٰ کفایة الطالب الربانی ج ۲ ص ۳۶۰)
علامہ علاء الدین کاسانی (م ۵۸۷ھ )اور دیگر کئی فقہاء کا مشاہدہ یہ ہے کہ عرف دونوں طرح کا رہا ہے ،بعض لوگ دائیں ہاتھ میں انگوٹھی پہنتے ہیں اور بعض لوگ بائیں ہاتھ میں (بدائع الصنائع ج ۱۳ ص ۴۳۶ ط دارلکتب العلمیة بیروت ۱۹۸۶ء)
انگوٹھی کے بارے میں فقہاء کا مسلک
جہاں تک فقہی روایات کا معاملہ ہے ،تو جمہورفقہاء یعنی حنفیہ ، مالکیہ اور حنابلہ کے نزدیک مرد کے لیے بائیں ہاتھ میں انگوٹھی پہننا افضل ہے؛بلکہ بعض علماء احناف نے دائیں ہاتھ میں انگوٹھی کے استعمال کو مکروہ کہا ہے ،اور بعض نے اس کواہل فسادکی علامت قرار دیا ہے؛لیکن حق بات یہ ہے کہ حنفیہ کے نزدیک دائیں ہاتھ میں بھی انگوٹھی پہننا بلاکراہت جائز ہے ، گو افضل یہ ہے کہ بائیں ہاتھ میں استعمال کی جائے(دیکھیے :ردالمحتار علی الدرالمختار ج ۶ ص۳۶۱ط دارالفکر بیروت ۲۰۰۰ء،تبیین الحقائق للزیلعی ج ۱۶ ص ۳۵۱، البحرالرائق لابن نجیم (م ۹۷۰ھ)ج ۲۲ص۱۲۷، المحیط البرہانی فی الفقہ النعمانی لبرہان الدین مازہ ج۵ ص۲۰۱ ط داراحیاء التراث بیروت، دررالحکام شرح غرر الاحکام لملاخسرو (م ۸۸۵ھ)ج ۳ ص ۴۷۱،مجمع الانہر فی شرح ملتقی الابحرلشیخی زادہ (م ۱۰۷۸ھ)ج ۴ ص ۱۹۷ط دارالکتب العلمیة بیروت۱۹۹۸ء وغیرہ )
*مالکیہ کے نزدیک نہ صرف یہ کہ بائیں ہاتھ میں انگوٹھی پہنناافضل ہے؛ بلکہ دائیں ہاتھ میں انگوٹھی پہننا ان کے نزدیک مکروہ ہے۔
”قاضی ابوبکر ابن العربی نے موطا کی شرح القبس میں لکھا ہے کہ اگر چہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دونوں ہاتھوں میں انگوٹھی پہننا ثابت ہے؛ لیکن اکثر روایات اس طرف ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بائیں ہاتھ میں انگوٹھی پہنتے تھے؛اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع میں بائیں ہاتھ میں پہننا مسنون ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ بائیں ہاتھ میں انگوٹھی کے استعمال سے عجب کم پیدا ہوتا ہے،نیز دائیں ہاتھ میں انگوٹھی پہننے کی صورت میں دیگر امور میں دشواری پیش آسکتی ہے، ((حاشیة العدوی علیٰ کفایة الطالب الربانی لعلی الصعیدی العدوی المالکی (م۱۱۸۹ھ) ج ۲ ص ۵۸۸ط دارالفکر بیروت ۱۴۲۱ھ، الفواکہ الدوانی علیٰ رسالة ابن ابی زید القیروانی (م۱۱۲۶ھ)ج ۱ ص ۹۶ ط مکتبة الثقافة الدینیة،البیان والتحصیل لابن رشد القرطبی (م ۴۵۰ھ)ج۱ ص ۳۱۳ط دارالغرب الاسلامی بیروت ۱۹۸۸ء،شرح مختصر الخلیل للخرشی (م ۱۱۰۱ھ)ج ۱ ص ۴۵۶ )
*حنابلہ بھی پوری طرح حنفیہ کے ہم خیال ہیں ، امام احمد بن حنبل کے بقول انہوں نے دائیں ہاتھ والی روایات حدیث کواس لیے چھوڑدیا کہ وہ کمزور یا منسوخ ہیں (دیکھئے الانصاف فی معرفة الراجح من الخلاف علی مذہب الامام احمد بن حنبل لعلاء الدین المرداوی الدمشقی (م۸۸۵ھ) ج ۳ ص ۱۰۳طبع اول ۱۴۱۹ھ داراحیاء التراث بیروت ،کشاف القناع ج۲ ص ۲۳۶ ،مطالب اولی النہیٰ ج ۲ص ۹۲)
البتہ اکثرفقہاء شافعیہ کے نزدیک دائیں ہاتھ میں انگوٹھی پہننے کی فضیلت زیادہ ہے ،اگر چہ کہ بائیں ہاتھ میں بھی پہننا جائز ہے؛لیکن دائیں ہاتھ کی عمومی شرافت کا تقاضا یہ ہے کہ اس کو یہ خصوصیت حاصل ہو؛جبکہ بعض شافعیہ کی رائے یہ بھی ہے کہ بائیں ہاتھ میں ہی انگوٹھی پہننا افضل ہے ، ان حضرات کے پیش نظر حضرت عبداللہ بن عمر کی روایت ہے کہ وہ بائیں ہاتھ میں انگوٹھی پہنتے تھے(دیکھیے :المجموع شرح المہذب ج ۴ ص ۴۶۲ ،۴۶۳،الاقناع ج ۱ ص۲۲۱للخطیب الشربینی (م ۹۷۷ھ)ط دارالفکر بیروت ۱۴۱۵ھ، حواشی الشروانی والعبادی ج۳ ص ۲۷۶، روضة الطالبین وعمدة المفتین للنووی (م ۶۷۶ھ)ج ۲ ص ۶۹ ط المکتب الاسلامی ۱۴۰۵ھ،مغنی المحتاج للشربینی ج ۱ص ۳۰۹ ط دارالفکر بیروت،نہایة المحتاج للرملی (م ۱۰۰۴ھ)ج۳ ص۹۲ط دارالفکر بیروت ۱۹۸۴ء،الحاوی للفتاویٰ للسیوطی ج۱ ص۲۷۵ط دارالکتب العلمیة ۲۰۰۰ء،اسنی المطالب للانصاری ج۱ ص ۲۷۸ ط دارالکتب العلمیة ۲۰۰۰ء،حاشیة اعانة الطالبین للدمیاطی (م بعد ۱۳۰۲ھ) ج ۲ ص۱۵۶ ط دارالفکر بیروت ،وغیرہ )
انگوٹھی اور گھڑی کا حکم ایک ہے
یہ تصریحات گو انگوٹھی کے بارے میں ہیں لیکن گھڑی کا حکم بھی اس سے مختلف نہیں ہے ،اس لیے کہ اپنی ساخت اور معنویت کے لحاظ سے دونوں میں بڑی یکسانیت ہے ،دونوں کی ساخت ایسی دھات سے ہوتی ہے جس کا استعمال عام حالات میں بلا ضرورت مردوں کے لیے پسندیدہ نہیں ہے ، بعض علماء عرب نے اس کی صراحت کی ہے اور انہوں نے اپنے مسلک حنبلی کے مطابق گھڑی بھی بائیں ہاتھ میں استعمال کرنے کو افضل قرار دیا ہے۔
شیخ محمد بن صالح بن محمد العثیمین ( م ۱۴۲۱ھ) ماضی قریب کے اکابر علماء عرب میں گزرے ہیں،تحریر کرتے ہیں :
ھل یسن الخاتم فی الیسار او الیمین؟ الجواب : قال الامام احمد الیسار افضل لثبوتہ وضعف الاحادیث الواردة عن الرسول صلى الله عليه وسلم أنہ کان یتختم بالیمین، ویوخذ من ھٰذہ المسئلة أن وضع الساعة فی الید الیمنیٰ لیس افضل من وضعھا فی الید الیسریٰ، لان الساعة اشبہ ماتکون بالخاتم صلی اللہ علیہ وسلم (الشرح الممتع علیٰ زاد المستنقع لمحمد بن صالح العثیمین ج۶ ص۱۱۰ ط دار ابن الجوزی طبع اول ۱۴۲۲-۱۴۲۸ھ)
ترجمہ : سوال : انگوٹھی بائیں ہاتھ میں مسنون ہے یا دائیں میں ؟الجواب : امام احمد فرماتے ہیں کہ بائیں میں افضل ہے؛اس لیے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کاثبوت موجود ہے ،اور دائیں ہاتھ میں انگوٹھی پہننے والی روایات کمزور ہیں،اور اسی سے گھڑی کا مسئلہ بھی نکلتا ہے کہ دائیں کے بجائے بائیں ہاتھ میں پہننا افضل ہے؛اس لیے کہ گھڑی انگوٹھی سے بڑی مماثلت رکھتی ہے ۔
شیخ عثیمین نے عقل وفکر کے اعتبار سے بھی اس پر روشنی ڈالی ہے ،وہ کہتے ہیں کہ بائیں ہاتھ میں گھڑی کے استعمال میں زیادہ راحت و آسانی ہے ،․․․․گھڑی دیکھنا آسان ہوتا ہے ،․․․․اسی طرح دائیں ہاتھ میں گھڑی کے خراب ہونے کا اندیشہ زیادہ ہے؛ اس لیے کہ دائیں ہاتھ اکثر اوقات حرکت میں رہتا ہے (حوالہ بالا)
معانقہ کا مسئلہ
معانقہ دائیں طرف کرنا مسنون ہے یا بائیں طرف ؟․․․․احادیث پاک ،آثار صحابہ اور سلف صالحین کی تعلیمات میں کہیں اس کی طرف اشارہ موجودنہیں ہے ۔
دراصل عہدنبوت میں معانقہ کا عام رواج نہیں تھا ،خاص موقعوں پر ہی کوئی کسی سے معانقہ کیا کرتا تھا ،عام طور پر سفر سے واپسی پر یا طویل وقفہ کے بعد ملاقات پر معانقہ کیا جاتا تھا ،خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی صرف چند بار ہی معانقہ کا ثبوت ملتا ہے ،مثلاً:
*ایک روایت حضرت عائشہ صدیقہ کی ہے بیان فرماتی ہیں :
قدم زید بن حارثة المدینة ورسول اللہ صلى الله عليه وسلم فی بیتی فأتاہ فقرع الباب فقام إلیہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عریاناً یجر ثوبہ واللہ مارأیتہ عریاناً قبلہ ولابعدہ فاعتنقہ وقبلہ (سنن ترمذی مع الالبانی ج ۶ ص ۷۶ ط داراحیاء التراث العربی بیروت)
ترجمہ : زید بن حارثہ مدینہ واپس ہوئے اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے گھرمیں تشریف فرما تھے ،انہوں نے آکر دروازہ پر دستک دی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے لیے اپنے کپڑے کھینچتے ہوئے ننگے ہی اٹھ کھڑے ہوئے،(یعنی کاندھے اور پیٹھ پر کپڑے نہیں تھے ) میں نے اس طرح برہنہ حالت میں باہر نکلتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ اس سے قبل دیکھا اور نہ اس کے بعد دیکھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے معانقہ فرمایا اور بوسہ دیا ۔
امام ترمذی نے اس حدیث کو حسن غریب قراردیا ہے ۔
*دوسری روایت حضر ت ابوذر غفاری سے ہے ،وہ فرماتے ہیں کہ :
مالقیتہ قط إلا صافحنی وبعث إلیَّ ذات یوم ولم اکن فی اھلی فلماجئت اخبرت أنہ أرسل إلیَّ فأتیتہ وھو علیٰ سریرہ فالتزمنی فکانت تلک اجود واجود (سنن ابی داؤد ج ۴ ص ۵۲۲ ط دارالکتاب العربی بیروت)
ترجمہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر ملاقات پر مجھے مصافحہ کا شرف عنایت فرماتے تھے ،ایک بار آپ نے مجھے بلا بھیجا؛لیکن میں اپنے گھر میں موجود نہیں تھا ،گھر واپس آیا، تو خبر ملی ،میں دوڑا ہوا خدمت عالیہ میں حا ضر ہوا ،آپ چارپائی پر تھے ،آپ نے مجھے سینے سے لگا لیا ،پس اس سے اچھی کیابات ہوتی۔
* تیسری روایت حضرت عبداللہ بن جعفرکی ہے وہ اپنے والد حضرت جعفر کے حوالہ سے بیان فرماتے ہیں کہ :
لما قدمنا علی النبی صلی اللہ علیہ وسلم من عند النجاشی تلقانی فاعتنقنی (شرح معانی الآثار للطحاوی ج ۴ ص ۲۸۱ ط دارالکتب العلمیة بیروت ۱۳۹۹ھ)
ترجمہ :جب ہم لوگ نجاشی کے پاس سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئے تو آپ نے مجھ سے ملاقات کی اور معانقہ فرمایا ۔
*حضرت ابوہریرة بیان فرماتے ہیں کہ حضرت حسن بن علی سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے معانقہ فرمایا (شرح السنة للامام البغوی ج ۱۲ ص ۲۹۰ ط المکتب الاسلامی دمشق بیروت ۱۹۸۳ء)
ان روایات سے معانقہ کا ثبوت ملتا ہے؛جبکہ اس کے برعکس حضرت انس کی ایک روایت میں معانقہ سے منع کیا گیا ہے :
حضرت انس بن مالک فرماتے ہیں کہ :
قلنا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! أینحنی بعضنا لبعض قال لا قلنا أیعانق بعضنا بعضاً قال لا ولکن تصا فحوا (ابن ماجة مع حاشیة السندی (م ۱۱۳۸ھ)ج ۷ ص۱۰۷)
ترجمہ : ہم نے عرض کیا یارسوال اللہ !کیا کوئی کسی کے لیے بوقت ملاقات جھک سکتا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ،نہیں،ہم نے پوچھا،کیا ہم ایک دوسرے سے معانقہ کرسکتے ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں؛البتہ مصافحہ کرو۔
علامہ سندھی نے اس پر حاشیہ لگایا ہے کہ معانقہ کی ممانعت مطلق نہیں ہے؛ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ معانقہ کبھی کبھی خاص مواقع پراظہارِ مسرت یا اظہارِ خصوصیت کے لیے کیاجاتا ہے، ہمیشہ نہیں ،(حوالہ بالا )
امام ابو منصور ماتریدی نے یہ تاویل کی ہے کہ جو معانقہ سفلی جذبات کے تحت کیا جا ئے وہ ممنوع ہے اور جو بطور عزت وکرامت اور پاکیزہ جذبات کے ساتھ ہو،وہ درست ہے (تبیین الحقائق شرح کنز الدقائق للزیلعی ج ۶ ص ۲۵ ط دارالکتب الاسلامی بیروت ۱۳۱۳ھ )
بعض صحابہ اور تابعین سے بھی معانقہ ثابت ہے؛ مگر عموماً یہ معانقہ کسی سفر سے واپسی پر یا خاص موقع پرہوتا تھا ،امام شعبی بیان فرماتے ہیں کہ صحابہٴ کرام باہم ملاقات پر صرف مصافحہ کرتے تھے؛ البتہ سفرسے واپسی پر ملاقات ہوتی تو معانقہ کرتے تھے ( (شرح معانی الآثار للطحاوی ج ۴ ص ۲۸۱ ط دارالکتب العلمیة بیروت ۱۳۹۹ھ)
بعض حضرات کے ناموں کی بھی صراحت ملتی ہے مثلاً :
*حضرت عمر بن الخطاب نے حضرت حذیفہ بن الیمان سے معانقہ کیا(مصنف ابن ابی شیبة ج ۶ ص ۱۳۹)
*حضرت جابر بن عبد اللہ نے شام کاسفر کیا اور وہاں حضرت عبداللہ بن انیس سے ملاقات ہوئی تو دونوں نے ایک دوسرے سے معانقہ کیا (الادب المفرد للبخاری ج ۱ ص ۳۳۷ط دارالبشائرالاسلامیة بیروت ۱۹۸۹ء)
*حضرت سلمان فارسی (غالباً کسی سفر سے ) تشریف لائے اور مسجد میں داخل ہوئے، حضرت ابوالدرداء نے دیکھا تو اٹھ کر معانقہ کیا (شرح السنة للامام البغوی ج ۱۲ ص ۲۹۰ ط المکتب الاسلامی دمشق بیروت ۱۹۸۳ء)
*حضرت عمرو بن میمون اور اسود بن یزید کی ملاقات ہوئی تو دونوں نے ایک دوسرے سے معانقہ کیا۔
*ابومجلز اور خالد الاثبج نے بوقت ملاقات ایک دوسرے سے معانقہ کیا ۔
*حضرت صلة بن اشیم کے اصحاب جب آپس میں ملتے تو ایک دوسرے سے معانقہ کرتے تھے وغیرہ ۔(مصنف ابن ابی شیبة ج ۶ ص ۱۳۹)
یہ معانقہ کے قلیل الوقوع ہونے کی علامت ہے کہ جب کوئی ممتاز شخص کسی سے معانقہ کرتا تو اس کو محسوس کیا جاتا تھا۔
اسی لیے امام مالک جیسے عظیم شخص کومرکز علم وایمان میں رہتے ہوئے یہ معلوم نہ ہوسکا کہ یہ حکم عام ہے ،اور نہ حضرت جعفر کے علاوہ کسی سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے معانقہ کی ان کو خبر ہوسکی ؛اسی لیے ایک ملاقات پر جب حضرت سفیان بن عیینہ نے ان سے معانقہ کرنا چاہا تو انہوں نے صاف معذرت کردی اور اس کو بدعت قرار دیا ، حضرت سفیان نے حضرت جعفر والے واقعہ کا حوالہ دیا تو اس کو امام مالک نے ان کی خصوصیت قرار دیا ،ابن عیینہ نے اس کے جواب میں کہا کہ خصوصیت کی کوئی دلیل موجودنہیں ہے اور کسی بھی حکم میں اصل یہ ہے کہ وہ عام ہو خاص نہ ہو ،اس پر امام مالک خاموش ہوگئے (عمدة القاری شرح البخاری للعینی ج ۱۷ص ۴۱۷ ،شرح صحیح البخاری لابن بطال القرطبی ج ۹ ص ۴۹ط مکتبة الرشد الریاض ۲۰۰۳ء)
خود حضرت امام اعظم ابوحنیفہ اور حضرت امام محمد کو اس باب میں کافی تذبذب تھا ، انہوں نے اس کو مکروہ قرار دیا،گو اس معاملہ میں مفتیٰ بہ قول حضرت امام ابویوسف کا ہے ،ان کے نزدیک معانقہ کی اجازت ہے ،(شرح معانی الآثار للطحاوی ج ۴ ص ۲۸۱ ط دارالکتب العلمیة بیروت ۱۳۹۹ھ،بدائع الصنائع للکاسانی ج ۱۱ص ۳۶۲ط دارالکتب العلمیہ بیروت ۱۹۸۶ء،تبیین الحقائق للزیلعی ج ۶ ص ۲۵ط دارالکتب الاسلامی قاہرہ ۱۳۱۳ھ)
معانقہ کا طریقہ
ان تفصیلات سے ظاہر ہوتا ہے کہ معانقہ دراصل کسی سے اپنی بے پناہ محبت اور شدت جذبات کے اظہارکا ایک وسیلہ ہے ،جو زیادہ سے زیادہ جواز کی حدتک جاسکتا ہے؛مگر اس کے لیے وہ فضائل ومناقب نہیں ہیں جو مصافحہ کے لیے وارد ہوئے ہیں ،اور اسی لیے معانقہ کے تعلق سے ہمیں وہ تفصیلات دستیاب نہیں ہیں جو مصافحہ کے تعلق سے موجودہیں، مصافحہ کا طریقہ اور کیفیت بھی کتابوں میں موجود ہے؛اس لیے کہ اس کی فضیلت بھی ہے اور ضرورت بھی(دیکھیے ردالمحتار لابن عابدین ج۶ ص ۳۸۲ط دارالفکر بیروت ۲۰۰۰ء )؛لیکن معانقہ کے سلسلے میں حدیث وفقہ اور اخلاقیات کی ساری کتابیں خاموش ہیں؛اس لیے معانقہ کاطریقہ کیا ہوگا ؟معانقہ ایک بار کافی ہے یا تین بار ؟وغیرہ اس طرح کے تمام سوالات کا جواب دینے سے عہد جدید کے اکثرمحقق علماء نے اپنی بے بسی کا اظہار کیا ہے اوران کو عرف وعادت اور صوابدیدکے حوالہ کردیا ہے؛اس لیے کہ شریعت میں جس عمل کے لیے کوئی مخصوص ہیئت موجود نہیں ہے ،اس کو ظن وتخمین کے ذریعہ کسی خاص شکل کا پابند نہیں کیا جاسکتا ۔
علماء عرب کی ایک جماعت نے اس خیا ل کا اظہار کیا ہے کہ شروحات حدیث اور لغت کی کسی کتاب میں معانقہ کا طریقہ ہمیں نہیں ملا،اگر کسی صاحب کو معلوم ہو توبراہ کرم ہماری رہنمائی کریں (الدررالسنیة ومسائل نجدیة لمجموعة من علماء نجد الاعلام ج ۸ ص ۲۳۱)
فتاویٰ الشبکة الاسلامیة میں ہے کہ معانقہ میں کسی عدد کی صراحت نہیں ہے؛ اس لیے حدود کی رعایت کرتے ہوئے ایک بار بھی کرسکتے ہیں اور ایک سے زائد بار بھی (ج ۹ ص ۱۰۰۸)
مکہ مکرمہ کے محکمہٴ قضا کے قاضی ہانی بن عبداللہ الجبیر نے ایک سوال کے جواب میں لکھا کہ ہمیں نہیں معلوم کہ عہد نبوی میں معانقہ کس طرح کیا جاتا تھا ؟یہ اعمال تعبدیہ میں سے نہیں ہے ،اس لیے عرف اور احوال زمانہ کے مطابق اس کی مختلف شکلیں ہوسکتی ہیں (فتاویٰ واستشارات موقع الاسلام الیوم ج ۱۳ ص ۱۰۷)
اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے معانقہ توثابت ہے؛ لیکن اس کا طریقہ نہیں،اس لیے جس عرف میں جو طریقہ رائج ہو اس کو سند جواز دی جائے گی ،رہا یہ کہ بہتر طریقہ کیا محسوس ہوتا ہے ؟ تو یہ احساس بھی ذوق ومزاج اور زمان ومکان کے فرق سے مختلف ہوسکتا ہے۔
*کچھ لوگ کہہ سکتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کواکثر اعمال میں دائیں سے آغاز کرنا پسند تھا، اس لیے معانقہ دائیں جانب ہونا چاہیے۔
*لیکن کچھ لوگ اس کے مقابلے میں یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ کوئی دائمی اصول نہیں ہے۔ علاوہ ازیں دائیں سے ابتدا عموماً ایسے اعمال میں پسندیدہ مانی گئی ہے جو باعث فضیلت ہو؛جبکہ معانقہ صرف درجہٴ جواز کی چیز ہے درجہٴ فضیلت کی نہیں؛بلکہ بعض فقہاء اس کی کراہت کے بھی قائل ہیں، اس کا تقاضا ہے کہ اس کو بائیں جانب انجام دیا جائے۔
میر اپنا احساس اس ضمن میں اپنے مطالعات اور اکابر کے مشاہدات کی روشنی میں یہ ہے کہ معانقہ کو بائیں طرف سے کرنا زیادہ قرین قیاس اور معانقہ کی روح ومزاج سے قریب تر ہے ،اس لیے کہ گذشتہ صفحات میں عرض کیا جاچکا ہے کہ ملاقات کی ابتدا سلام سے اور اس کی تکمیل مصافحہ سے ہوتی ہے ،اس سے آگے کوئی مرحلہ باقی نہیں ہے؛البتہ کسی انتہائی محبوب شخصیت کو رخصت کرتے وقت ،یا سفر سے واپسی یا لمبے عرصہ کی ملاقات پر دل میں جو محبت کے جذبات امنڈ پڑتے ہیں معانقہ ان کی تسکین کابڑا ذریعہ بنتاہے،اس کا تقاضا ہے کہ معانقہ اس طرح انجام دیا جائے کہ قلب قلب سے مل جائے اور یہ اسی وقت ممکن ہوگا جب معانقہ بائیں طرف کیا جائے،یہ طریقہ میرے نزدیک معانقہ کی روح اورمقاصد ملاقات کے زیادہ قریب ہے،واللہ اعلم بالصواب ۔
***
———————————————
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ 9 – 10 ، جلد: 97 ، ذیقعدہ – ذی الحجہ 1434 ہجری مطابق ستمبر – اکتوبر 2013ء