از: مولانا محمد انعام الحق قاسمی‏، ریاض، سعودی عرب

اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے: ﴿اَلرِّجَالُ قَوَّامُوْنَ عَلٰی النِّسَاءِ بِمَا فَضَّلَ اللہُ بَعْضَھُمْ عَلیٰ بَعْضٍ وَبِمَا اَنْفَقُوا مِنْ أمْوَالِھِمْ﴾ (سورة النساء : ۳۴) مرد عورتوں پر حاکم ہیں اس وجہ سے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے اور اس وجہ سے کہ مردوں نے اپنا مال خرچ کیا ہے۔ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ﴿اِنِّيْ لَأخْشَاکُمْ لِلہِ وَأتْقَاکُمْ لَہ لٰکِنِّيْ أصُوْمُ وَأفْطِرُ وَأصَلِّيْ وَ أرْقُدُ وَأتَزَوَّجُ النِّسَاءَ فَمَنْ رَغِبَ عَنْ سنَّتِيْ فَلَیْسَ مِنِّيْ﴾ (رواہ البخاری ومسلم) ترجمہ: میں تم لوگوں کے مقابلے میں اللہ سے ڈر اور تقوی میں بہت آگے ہوں؛ لیکن میں روزہ رکھتاہوں ، افطارکر تاہوں ، نمازپڑھتاہوں، سوتاہوں اور عورتوں سے شادی کرتا ہوں، پس جو کوئی بھی میری سنت سے منہ موڑے وہ مجھ میں سے نہیں ہے۔

مہرکی شرعی حقیقت:

            ارشادباری ہے ﴿وَآتُوا النِّسَآءَ صَدُقَاتِھِنَّ نِحْلَةَ﴾ (سورة النساء:۴) اور عورتوں کے مہر بخوشی ادا کردیاکرو۔ ﴿فَمَا اسْتَمْتَعْتُمْ بِہ مِنْھُنَّ فَاٰتُوْھُنَّ اُجُوْرَھُنَّ فَرِیْضَةً﴾ (النساء :۲۴) پس جو لطف تم نے ان سے اٹھایاہے اس کے بدلے ان کے مہر کو ایک فرض کے طورپر اداکرو۔ حدیث میں ہے کہ جس نے کسی عورت سے نکاح کیا اور نیت یہ رکھی کہ مہر دینا نہیں ہے تو وہ زانی ہے اور جو مہر اداکیے بغیر مرجائے وہ قیامت کے دن زانیوں کے ساتھ اٹھایا جائے گا۔مقدارِ مہر کی تعیین میں بے اعتدالی نہ برتی جائے اس کی مقدار اتنی ہوکہ مرد بہ آسانی بغیر قرض لیے اسے ادا کردے ﴿لَاتَغْلُوْا فِیْ مُھُوْرِ النِّسَآءِ لِتَکُوْنَ عَدَاوَةً﴾ (مسند احمد) عورتوں کے مہر کے معاملے میں اتنا غلو نہ کرو کہ عداوت کاسبب بن جائے۔ حضرت عائشہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتی ہیں ﴿اِنَّ اَعْظَمَ النِّسَاءِ بَرَکَةً أیْسَرُھُنَّ صَدَاقاً﴾ (مسنداحمد ، بیہقی)سب سے زیادہ برکت والی خاتون وہ ہے جس کا مہر سہل اور آسان ہو۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ زیادتی مہر کے بہت خلاف تھے مہر کی زیادتی نہ عزت و شرف کی چیز ہوتی ہے، نہ ہی اللہ کے نزدیک تقوی وپرہیزگاری کا عمل ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بارہ اوقیہ سے زیادہ کسی بیوی یا بیٹی کا مہر مقرر نہیں فرمایا۔سوائے ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کے جن کے مہر کو نجاشی نے طے کیاتھا۔ اور اسے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ہدیہ کے طور پر ادا کردیا تھا۔

            قرآن کریم اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے یہ صراحتاً ثابت ہے کہ مہرمحض عورت کا حق ہے اور اسے نکاح کے بعدادا کرنا فرض ہے، اگریہ باقی رہ گیاتو یہ ایک قرض ہے جس کا ادا کرنا فرض ہوگا۔جو معاف نہیں کیا جاسکتا یہاں تک کہ ایک حدیث کے مطابق قرض رکھنے والے شہید کو بھی معافی نہیں ہے۔مہر کی ادائیگی میں اصل جلدازجلد ادا کرناہے۔ مہر کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا کہ مہر کی مقدار اتنی زیادہ مقرر کردی جائے کہ مرد کبھی بھی اپنی عورت کو طلاق دینے کی ہمت نہ کرسکے اور خدانخواستہ اگر طلاق دیتاہے تو بطور جرمانہ اسے یہ بھاری بھرکم رقم ادا کرنی پڑیگی، یہ قرآن کریم اور احادیث کی روح کے بالکل خلاف ہے۔

جہیزکی شرعی حقیقت:

            رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی لاڈلی صاحبزادی حضرت فاطمہ  کو چار چیزیں عنایت فرمائی تھیں، جیساکہ صحیح احادیث میں ہے ﴿اِنَّ رَسُوْلَ اللہِ صلی اللہ علیہ وسلم لَمَّا زَوَّجَ فَاطِمَةَ بَعَثَ مَعَھَا بِخَمِیْلَةٍ وَ وِسَادَةٍ مِنْ أدَمٍ حَشْوُھَا لِیْفٌ وَ رَحَیَیْنِ وَسِقَاءً وَجَرَّتَیْنِ﴾(مسند احمد، الحاکم، والنسائی) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب حضرت فاطمہ  کانکاح کیا تو ان کے ساتھ ایک مخملی چادر ، چمڑے کا تکیہ جس کے اندر کھجور کی چھال بھری تھی، دو چکیاں، ایک مشکیزہ اور دو چھوٹے گھڑے۔ جہاں تک معاملہ اس کے سنت ہونے کا ہے تو کسی طورپر اسے سنت کہنا درست نہیں ہے؛ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دو بیٹیوں حضرت رقیہ اور ام کلثوم  کو حضرت عثمان  کے نکاح میں دیاتھا اور ان دونوں کو کوئی جہیز دینااحادیث میں وارد نہیں ہے؛ البتہ حضرت خدیجہ کا ہار حضرت ز ینب  کودینا احادیث میں آتا ہے، اگر جہیز دینا سنت ہوتا توآپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی تمام بیٹیوں کوبلاتفریق جہیز سے نوازتے۔ حضرت علی  کے نکاح کے وقت نہ آپ کا اپنا کوئی ذاتی گھر تھا اور نہ ہی کوئی سازو سامان ۔جب آپ  کے نکاح کی خبر حضرت حارث بن نعمان  نے سنی تو بخوشی اپنی سعادت سمجھتے ہوئے، اپنا ایک گھر حضرت علی کو رہنے کے لیے پیش کردیا۔ حضرت علی اور فاطمہ دونوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کفالت میں تھے۔ عبد اللہ بن عباس، حضرت علی سے روایت کرتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فاطمہ کا نکاح فرمایا تومیں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا : یارسول اللہ!مجھے میری بیوی کے پاس جانے کی اجازت دیجیے تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ھل عندک شیء تعطیھا؟ اسے مہر میں دینے کے لیے تمہارے پاس کچھ ہے۔ میں نے عرض کیا: جی نہیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:تمہاری حطمیہ زرہ کہاں ہے؟ میں نے عرض کیاکہ میرے پاس ہے، تو فرمایا وہ اسے مہر میں دے دو (رواہ احمد، ابوداود ، بیہقی) حضرت علی  نے اپنی زرہ حضرت عثمان سے۴۸۰ درہم میں فروخت کردی اور جاتے وقت حضرت عثمان  نے وہ زرہ حضرت علی  کو ازراہِ محبت تحفے میں مرحمت کردی۔ اسی زرہ کے پیسے سے حضرت فاطمہ  کے گھر گرہستی کا سامان خریدا اور حضرت عائشہ اور ام سلمہ  کو حکم دیاکہ حضرت علی اور فاطمہ  کے ساتھ ان کے گھر تک جاوٴ۔ اس حدیث سے صرف یہ ثابت ہوتاہے کہ یہ سارے سامان حضرت علی کے پیسے سے خریدے گئے تھے، نہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت فاطمہ کو جہیز میں دیاتھا اس کو جہیزلینے اور دینے کے لیے کسی طرح حجت نہیں بنایا جاسکتاہے ۔جولوگ داماد اور اس کے گھر والوں کو بغیرمطالبہ کے اپنی استطاعت کے مطابق بیٹی کو جو سامان دیتے ہیں وہ تحفہ اور ہدیہ ہے ۔ مہرکے ساتھ جہیز میں دیے گئے تمام سامان کی مالک لڑکی ہے،اسے بلاشرکت غیر تصرف کا حق ہے۔

جہیز کی سماجی تباہ کاریاں:

            آج ہمارا معاشرہ طرح طرح کی برائیوں کی آماجگاہ بنتاجارہاہے۔ جس کی وجہ سے امن وسکون ، انسانیت ، رواداری ، انسان دوستی ، آپسی الفت و محبت اور بھائی چارگی کی لازوال دولت رخصت ہوتی جارہی ہے۔ آج ہمارے سماج کو جن داخلی برائیوں کا سب سے بڑا چیلنج ہے، ان میں سے ایک ”جہیز کی لعنت“ بھی ہے۔ جہیز ایک خطرناک کیڑے اور ناسور کی طرح بڑی تیزی کے ساتھ ہماری سماجی زندگی کی ہڈیوں کو گھلاتاجارہاہے۔ جس کا ہمیں ذرہ برابر بھی احساس نہیں۔ رسمِ جہیز نے اپنے ساتھ سماجی تباہ کاری وبربادی کا جو نہ تھمنے والا طوفان برپا کیاہے ، اس نے بر صغیر ہندو پاک کے معاشرہ کا جنازہ نکال کر رکھ دیاہے۔آج ہماری سوسائٹی جہیز کی وجہ سے جن مصیبتوں میں گرفتار ہوتی جارہی ہے، وہ مختلف النوع ہونے کے ساتھ ساتھ بڑے ہی ضرر رساں پہلووٴں پر محیط ہیں۔ جن کو ہم ان مختلف قسموں میں بانٹ سکتے ہیں:

(۱) خانہ تباہی:

            اگر لڑکی اپنی حیثیت سے زیادہ جہیز لاتی ہے تو اس کے والدین اس قدر مقروض ہوجاتے ہیں کہ اس سے سبکدوشی کے لیے دن رات ایک کرکے اپنا چین و سکون برباد کرلیتے ہیں۔ اگر جہیز لڑکے والوں کے حسب منشا نہیں ہے تو لڑکی کو بے جا تشدد کا نشانہ بنایا جاتاہے اور طعن وتشنیع کی بوچھاڑ کرکے اس کا جینا دو بھر کردیتے ہیں اگر لڑکی والے طاقتور ہیں تو پھر مقدمہ بازی کا ایک لامحدود سلسلہ شروع ہوجاتاہے جس میں بسا اوقات کتنے ہی گھر تباہ و برباد ہوجاتے ہیں۔

(۲) مہر کی زیادتی :

            جہیز کی لعنتوں کی ما رجھیل رہا سماج اب کثرت مہر کی پریشانیوں سے دو چار ہوتا جارہاہے؛ اس لیے کہ جب لڑکے والے جہیزکی خاطر اپنی حمیت و غیرت کا سودا کرنے پر بضد ہوجاتے ہیں تو پھر نکاح کے وقت لڑکی والے کی جانب سے مہر کی ایک خطیر رقم کی فرمائش ہوتی ہے؛ چونکہ لڑکے والے اپنی بے شرمی و بے حیائی کی وجہ سے مواقع گنوا چکے ہوتے ہیں ، لہٰذا لڑکے کو مجبوراً قبول کرنی پڑتی ہے جوکہ لڑکے کی حیثیت سے زیادہ اور اس کی طاقت کے باہر ہوتی ہے۔اور شریعت کے خلاف ہے۔ حضرت عمر بن خطاب  فرماتے ہیں کہ خبر دار عورتوں کے مہر میں زیادتی نہ کیاکرو؛ کیونکہ اگر یہ دنیا میں عزت اور اللہ کے نزدیک پرہیزگاری ہوتی تو اس کے سب سے زیادہ مستحق نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہوتے مجھے نہیں معلوم کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بارہ اوقیہ سے زیادہ پر اپنی کسی بیوی سے نکاح کیا یا اپنی کسی بیٹی کا نکاح کرایاہو۔ اگر کوئی عورت دھوکہ سے بھی مہر کا مطالبہ کر بیٹھتی ہے تو پھر اس کی خیریت نہیں ہے، شوہر کی ناراضگی اور غصہ کا سامناتو اس کو کرنا ہی پڑتاہے اوپر سے ساس، سسر، نند اور دیگر اہلِ خانہ کی جلی بھُنی بھی اس کو سننی پڑتی ہے؛کیونکہ اس وقت اس کا مطالبہ شوہر اور اس کے اہل خانہ کی ناک اور انا کامسئلہ چھیڑدیتاہے۔لہٰذا کوئی عورت بھول سے بھی اس غلطی کو دہرانا نہیں چاہتی؛ حالانکہ مہر عورت کا شوہر پر جبری حق ہے، جس کا ادا کرناشوہر پر واجب ہے، اگر اداکیے بغیر شوہر مرجاتاہے تو قیامت کے دن اس مرد سے اس کے بارے میں بازپرس ہوگی۔بعض حالات میں زوجین کے مابین مزاج کی عدم موافقت یا بیوی کی بدچلنی اور بداخلاقی کے باوجود شوہر کثرت مہر کی وجہ سے اپنی بیوی کو طلاق نہیں دے سکتا، پھر شوہر ایک مقید پنچھی کی طرح پھڑپھڑا کر صبر وتحمل کا راستہ اختیار کرلیتاہے ۔ اگر کوئی باغیرت انسان اس طرح کی بدچلن عورت سے نجات حاصل کرنے کے لیے عزم مصمم کرلیتاہے تو مہر کی اس خطیر رقم کو ادا کرنے میں اپنی ہر کوشش صرف کردیتاہے، پھر نوبت مفلسی اور محتاجگی تک آپہنچتی ہے ۔جس کا حاصل خانہ بربادی کے سوا کچھ نہیں ہے۔

(۳) کثرت طلاق:

            رسم جہیز نے جوہمارے سماج میں تباہی و بربادی کے دروازے کھولے ہیں، ان میں سے ایک کثرت طلاق ہے۔آج کثرتِ جہیز کی لالچ میں طلاق دے کر اصول اسلام کا کھلا مذاق اڑایا جارہا ہے۔اسلام نے ناگزیر حالت میں مرد کو طلاق کا اختیار دیاہے، اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اپنے ناجائز مطالبات کومنوانے کے لیے اس کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جائے ۔حدیث میں ہے ﴿قَالَ رَسُوْلُ اللہِ صلی اللہ علیہ وسلم مَا أحَلَّ اللہُ شَیْئاً أبْغَضَ مِنْ طَلَاقٍ﴾( سنن ابوداود ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالی نے جن چیزوں کو حلال کیا ہے، ان میں اللہ کے نزدیک طلاق سب سے زیادہ ناپسندیدہ ہے ۔

 (۴) جہیز کے ڈر سے شکم مادر میں لڑکیوں کی نسل کشی :

            جس جاہلانہ رسم و ظلم کو اسلام نے آج سے چودہ سوسال پہلے ختم کردیا تھا، آج اس ترقی یافتہ دور میں جس تیزی کے ساتھ شکم مادر میں لڑکیوں کی نسل کشی کی جارہی ہے، وہ انسانیت کا بڑاہی شرمناک پہلوہے ۔ارشادِ باری ہے : ﴿اذَا الْمَوْوٴدَةُ سُئِلَتْ بِأَیِّ ذَنْبٍ قُتِلَتْ﴾ (سورئہ تکویر:۸؛۹) اس زندہ درگور لڑکی سے پوچھاجائے گا کہ تو کس گناہ کی پاداش میں قتل کی گئی تھی؟

(۵) جنسی بے راہ روی:

            اس ترقی پذیر سماج میں جنسی بے راہ روی میں جہاں مغربی تہذیب کا اہم رول ہے، وہیں رسم جہیز کا بھی بہت بڑا دخل ہے۔جن کے دو بہت بڑے اسباب ہیں، ان میں سے ایک یہ ہے کہ شکمِ مادر میں لڑکیوں کی مسلسل قتل کی وجہ سے لڑکیوں کی تعداد میں حیرت انگیز کمی آتی جارہی ہے،اور اس کے مقابلہ میں لڑکوں کی تعدا د میں دوگنا اضافہ ہورہا ہے۔

            ایک رپورٹ کے مطابق پنجاب و ہریانہ میں ۲۰۰۰ لڑکوں کے مقابلے میں لڑکیوں کی تعداد صرف ۱۲۰۰ ہے، کرناٹک میں ۱۰۰۰ لڑکوں کے مقابلے ۹۶۵لڑکیاں ہیں اور جھارکھنڈ میں ۱۵۰۰ لڑکوں کے مقابلے میں ۱۱۲۲ لڑکیاں ہیں، ایسے حالات میں جوانی کی حد کو پار کرنے والے کنوارے نوجوان اپنے جنسی جذبات سے مغلوب ہوکر راستہ چلتے ، چوک چوراہے یا جہاں موقع ملے سماج کی عفت مآب بیٹیوں کی عصمت تار تار کرتے ہیں۔دوسرے بعض غریب لوگ اپنی لڑکیوں کی شادی کے لیے جہیز اکٹھا کرنے میں اس قدر محو ہوجاتے ہیں کہ اسی درمیان لڑکی حدِ بلوغ کا آنگن چھلانگ چکی ہو تی ہے پھر جب اس کی جنسی خواہشات سر ابھارتی ہے تو بعض لڑکیاں پاکیزگی لٹاکر اپنے دامنِ عفت کو داغدار کرلیتی ہیں،ان میں سے بعض خودکشی بھی کرلیتی ہیں۔

(۶) لڑکیوں کی کالا بازاری:

            اس جہیز کے بھیڑیئے سے چھٹکارا پانے کے لیے بہت سے والدین اپنی لخت جگر کو بیچنے پر مجبورہوجاتے ہیں اور انسانی بھیڑیئے انھیں جیتے جی کوٹھوں کی سولی پر بھینٹ چڑھادیتے ہیں۔ اس طرح کے واقعات سے آج کل کے اخبارات بھرے پڑے ہیں۔

 (۷) موت کی سوداگری:

            آج جہیز کے نام پر ملت کی بے گناہ بیٹیوں کوجس طرح ہراساں کیا جارہاہے ، وہ انسانیت کابڑا ہی شرمناک پہلوہے، روزانہ صبح صبح آپ جب اخبار کی ورق گردانی کرتے ہیں تو جلی حرفوں میں دل دہلانے والی سرخیاں زینتِ نگاہ بنتی ہیں کہ فلاں جگہ کم جہیز لانے کے جرم میں بدن پر تیل ڈال کر آگ لگا دیاگیا تو فلاں مقام پر گلا گھونٹ کر قتل کردیا گیا اور فلاں جگہ جہیزی بھیڑیوں کی ایذا رسانی سے تنگ آکر عورت نے خود ہی موت کو گلے لگا لیا۔دخترانِ ملت کی نسل کشی کا یہ سلسلہ زور پکڑتا جارہاہے، نہ ملک کا قانون ان بے گناہوں کا مداوا بن رہاہے اور نہ ہی حقوقِ نسواں کے علم بردار ادارے تحفظ فراہم کررہے ہیں۔ہندوستان میں جہیزی چیتا کی بھینٹ چڑھنے والے صنفِ نازک کی جو تعداد ہمارے سامنے ہے، کسی ہوشمند اور حساس انسان کو تڑپادینے کے لیے کافی ہے۔ ایک سروے کے مطابق ہمارے ہندوستان میں روزانہ ۱۹ عورتیں جہیز کی بلی چڑھ جاتی ہیں۔ ۲۰۰۵ء کی رپورٹ کے مطابق ہر ۷۷ منٹ پر ایک عورت جہیز کی سولی پر دم توڑتی نظر آتی ہے۔کم جہیز لانے کی پاداش میں جوعورتیں موت کے گھاٹ اتار دی گئیں، ان کی ممکنہ اعداد شمار ذیل میں درج ہے: ۲۰۰۳ء میں ۶۲۰۸ عورتیں، ۲۰۰۴ء میں ۷۰۲۶عورتیں اور ۲۰۰۵ء میں ۶۷۸۷ عورتیں ان میں سے اکثر قتلکے واقعات اترپردیش، بہار، مدھیہ پردیش، آندھراپریش، راجستھان، کرناٹک ، اڑیسہ ، ہریانہ اور تمل ناڈومیں واقع ہوئے، جہاں جہیزی اموات کی شرح بہت زیادہ ہے۔سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ۲۰۱۰ء سے لے کر آج تک ہر سال تقریباً ۹۰۰۰ نوہزار سے زیادہ خواتین کو جہیز کے معاملے کے باعث قتل کردیاگیا۔

(۸) عورتوں کی حق وراثت سے محرومی:

            جہیز کے پیسے کو حلال بنانے کے لیے یہ بہانہ بنایا جاتاہے کہ جو ہم جہیز میں لے رہے ہیں لڑکی اپنے والدین کے مال میں اتنے کا حق رکھتی ہے۔یہ بالکل واہیات فلسفہ ہے۔ ترکہ تو مرنے کے بعد تقسیم ہوتا ہے، زندگی میں نہیں۔

            ہندو لڑکی کے لیے وراثت کا حق تسلیم نہیں کرتے ، اس لیے انہوں نے ڈوری اور تلک کی رسم ایجاد کرلی، مگر دینِ محمدی میں لڑکی بھی وراثت کا حق رکھتی ہے۔ پھر ہندووٴں کے طرز کو اپنانااور خود کو مسلمان کہنا کہاں تک درست ہے؟

            مسلمانوں میں جو لوگ بااثر ، دین دار اور قومی جذبہ رکھنے والے ہیں انھیں حتمی طور پر اس جہیزکی لعنت کے خلاف صف آرا ہونا پڑے گا اور خصوصاً نوجوانوں کو اس راہ میں قربانی دینی پڑے گی اور جہیز خوروں کومانگ سے روکنا پڑے گا؛ تاکہ بہت ساری دوشیزائیں بن بیاہی اپنے والدین کے کمزور کاندھوں پر بوجھ بن کر بیٹھی نہ رہ جائیں ، آ ئیے ہم سب اس لعنت سے توبہ کریں اور اپنے گھر کو نمونہ عمل بنائیں!

و ما علینا الاّ البلاغ

***

————————————————-

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ 7 – 8 ‏، جلد: 97 ‏، رمضان – شوال 1434 ہجری مطابق جولائی – اگست 2013ء

Related Posts