از: مولانامفتی رشید احمد فریدی
قرأت اور تلاوت کا فرق:
قرأت کے حقیقی لغوی معنی ”جمع الحروف“ یا ”ضم الکلمات بعضھا الی بعض“ ہے، یعنی پڑھنا، خواہ اس کے ساتھ معنی کا تدبر ہو یا نہ ہو اور اس کے مقتضی پر عمل ہویا نہ ہو؛ جبکہ تلاوت کی حقیقت میں تبعیّت اور اتباع کے معنی شامل ہیں امام راغب لکھتے ہیں: والتلاوة تختصُّ باِتِّبَاعِ کُتُبِ اللہِ المنزلةِ تارةً بالقرأةِ وتارةً بالارتسام مطلب یہ ہوا کہ تلاوت اس کتاب کے پڑھنے کو کہیں گے جس کا اتباع تالی پر واجب ہے، یہ اتباع کبھی قرأت کے ذریعہ اورکبھی عمل کے ذریعہ اور چونکہ کتبِ الٰہیہ سماویہ کا اتباع جواب صرف قرآن مجید کے لیے ضروری ہے؛ اس لیے تلاوت کالفظ قرآن ہی کے پڑھنے پر بولاجائے گا اور قرأت عام ہے، ہر کتاب کے پڑھنے پر بولا جاتاہے(۱)۔
تلاوتِ قرآن کی اہمیت:
تلاوتِ کلام پاک کی اہمیت کا کچھ اندازہ اس سے لگائیے کہ اللہ رب العزت نے نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کو جب مبعوث فرمایا، تو آپ کے فرائض منصبی کو بیان کرتے ہوئے ”تلاوت“ کو سب سے مقدم رکھا(۲)؛ بلکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جب امتِ مسلمہ کے ظہور اور ان میں ایک رسول کی بعثت کی درخواست کی تو فرائضِ رسالت کی نشاندہی کرتے ہوئے سب سے پہلے تلاوت کو ذکر کیا(۳) اور جہاں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذمہ داریوں کو نبھانے کا ذکر کیا تو دیکھیے تلاوت کتاب ہی کو پیش پیش رکھاجاتا ہے(۴)، پھر یہ کہ تلاوت خود اللہ رب العزت کا فعل ہے(۵) اور حبیب پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا محبوب عمل ہے، حضرات صحابہ کرام کا پسندیدہ مشغلہ ہے(پ۲۶) مزید براں اللہ تعالیٰ نے اس کے پڑھنے کا حکم بھی دیا ہے اور کلام اللہ کی تلاوت کرنے والوں کی تعریف فرمائی ہے اور حق تلاوت اداکرنے پر خصوصی نوازش کی ہے، تو جس چیز کی یہ شان واہمیت ہو اس کے آداب وطریقے اور اس پر مرتب ہونے والے فوائد وثمرات بھی کیا کچھ ہوں گے۔
سرکاری وشاہی القاب:
مسلمان تمام قوموں میں اس اعتبار سے بھی ممتاز اور بڑے خوش نصیب ہیں کہ احکم الحاکمین نے رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل میں اپنے مخصوص شاہی وسرکاری القاب بھی اُن کو مرحمت فرمائے ہیں، حکیم الاسلام قاری محمد طیب صاحب سابق مہتمم دارالعلوم دیوبند رحمہم اللہ فرماتے ہیں: حقیقت میں پڑھنے اور پڑھانے والے حق تعالیٰ ہیں: فاذا قرأنہ فاتبع قرآنہ، سنقرئک فلا تنسیٰ․ معلوم ہوا قاری حق تعالیٰ ہیں۔ تلاوت کرنے والے وہی نتلو علیک من نبا موسیٰ، ذلک نتلوہ علیک من الآیٰت والذکر الحکیم، معلوم ہوا کہ اصل تلاوت کرنے والے حق تعالیٰ ہیں۔ حفاظت کرنے والے وہی۔ انا نحن نزلنا الذکر وانا لہ لحٰفظون․ ذکر (قرآن) ہم نے اتارا اور ہمیں حافظ ہیں، تو قاری بھی وہ ، تالی بھی وہ، حافظ بھی وہ۔ بس یہ اللہ کا فضل ہے کہ جو حفظ کرلیتا ہے تو کہتے ہیں کہ آج سے جو لقب ہمارا تھا تمہارا بھی ہے، کوئی قرأت سیکھ لیتا ہے تو فرماتے ہیں کہ قاری تو ہم ہیں؛ لیکن آج سے ہم نے اپنا لقب تمہیں دے دیا۔ اسی طرح تلاوت کرنیوالے ہم ہیں؛ مگر جب تم تلاوت کررہے ہوتو تم بھی یہ لقب استعمال کرسکتے ہو۔
حالانکہ سرکاری القاب کوئی اختیار نہیں کرسکتا، جب تک سرکار ہی کسی کو کوئی لقب یا خطاب نہ دے، اس کے بغیر وہ سرکاری مجرم شمار ہوگا اور پروانہٴ گرفتاری اس کے نام آجائے گا، تو یہ اللہ کا کرم اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا طفیل ہے کہ جس نے قرآن کو سینے میں محفوظ کرلیا اس نے شاہی لقب پالیا، جس نے قرآنی حروف کے مخارج اور صفات پر محنت کرکے اس کی ادائیگی صحیح کرلی وہ قاری (سرکاری آدمی) بن گیا جس نے شاہی فرامین تلاوت کرکے دوسروں کو سنائے وہ شاہ سے قریب اور اس سے مناجات کرنے والا ہوگیا۔ (خطبات حکیم الاسلام،ج:۱،ص:۲۰۵)
ذکر ودعاء سے تلاوتِ قرآن افضل ہے :
فضائلِ قرآن کی احادیث سے واضح ہوتا ہے کہ سب سے اعلیٰ شغل قرأتِ قرآن ہے انّ افضل عبادة امتی قرأة القرآن(۶) فضائلِ ذکر کی روایات سے نمایاں ہوتا ہے کہ بہترین مشغلہ ذکر اللہ ہے۔ اور درود شریف کے فضائل اس قدر ہیں کہ سب سے عمدہ فعل درود شریف کا پڑھنا ہی معلوم ہوتا ہے اور دعا کی اہمیت وفضیلت بھی اتنی ہے کہ دعا کرنا ہی سب سے اچھا عمل نظر آتا ہے، مثلاً الدعاء ھو العبادة(۷) اور لیس شيء اکرم علی اللہ من الدعاء(۸)۔
مگر ان چاروں میں ارجح کیا ہے سو اس کی ترجیح میں علماء کا ذوق مختلف رہا ہے۔ امام نووی فرماتے ہیں: البتہ پسندیدہ قول جس پر کبار علماء اعتماد کرتے ہیں، یہ ہے کہ تسبیح وتہلیل (اور ادعیہٴ ماثورہ) وغیرہ تمام اذکار سے قراء تِ قرآن افضل ہے (۹) اس کی تائید ایک حدیثِ قدسی سے ہوتی ہے جو حضرت ابوسعید خدری سے مروی ہے قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: یقول الرب تبارک وتعالیٰ: من شَغَلَہ القرآنُ عن ذکری ومسئلتی اعطیتُہ افضلَ ما اُعطی السائلین وفضل کلام اللہ علی سائر الکلام کفضل اللہ علی خلقہ (ترمذی بحوالہ فضائل قرآن،ص:۸) اس حدیث سے تلاوتِ قرآن کا ذکر ودعاء سے افضل ہونا تو صاف معلوم ہوگیا اور آخری جملہ کی تعبیر نے کلام اللہ کا درود شریف سے بھی افضل ہونا سمجھا دیا۔
اس موقع پر جناب محشیِ ”التبیان“ نے بہت اچھی تفصیل کی ہے کہ ”تلاوت میں مشغول ہونا ایسے ذکر میں مشغول ہونے سے افضل ہے جو کسی محل یا وقت کے ساتھ خاص نہ ہو، اگر وقت یا محل کے ساتھ مخصوص ہو یعنی شریعت میں اس کی فضیلت وارد ہوتو مخصوص ذکر میں مشغول ہونا افضل ہوگا، جیسے شب جمعہ میں درود شریف کا پڑھنا مطلوب ہے، تو درود شریف کا شغل اُس قرأت سے افضل ہوگا جو اس رات میں مطلوب نہیں ہے۔ (جیسے مدینہ منورہ میں حاجی کے لیے درود شریف کی کثرت، خاص کر روضہٴ اقدس علی صاحبہا الصلاة والسلام کے پاس افضل ہے، یا جیسے نماز کے فوراً بعد یا میدانِ عرفہ میں دعا کا اہتمام اولیٰ ہے، یا جیسے فجر وعصر کے بعد اور مکہ مکرمہ میں ذکرکی خاص اہمیت ہے) اوراگر کسی وقت یا محل میں اذکار مخصوصہ میں تعارض ہوجائے تو جس کا وقوع قلیل ہے اس کی رعایت کی جائے گی“ قال صاحب ”فتح العلام“: الاشتغالُ بھا افضلُ من الاشتغالِ بذکرِ لم یَخُصَّ بمحلٍ أو وقتٍ معینٍ فانْ خُصَّ بِہ بأن وَرَدَ الشرع بہ فیہ فالاشتغالُ بہ افضلُ، مثلاً الصلاة علی النبی صلی اللہ علیہ وسلم طَلَبَتْ لیلةَ الجمعة فالاشتغال بھا افضلُ من الاشتغال بقرأة لم تطلب لیلة الجمعة․․ ولو تعارضا خاصًّا ․․․ روعی الأقلُّ وقوعاً(۱۰) اس سے معلوم ہوا کہ اذان کے وقت اس کا جواب دینا شرعاً مامور اور مطلوب ہے، تلاوت سے افضل ہوگا، فقط۔
قرآن دیکھ کر پڑھنا افضل:
مصحف شریف میں دیکھ کر پڑھنا افضل ہے زبانی پڑھنے سے، چونکہ قرآن میں نظر کرنا بھی عبادت ہے، اس لیے دیکھ کر پڑھنے کی صورت میں دو عبادتیں جمع ہوجاتی ہیں لِأنَّ النَّظْرَ فی المصحفِ عبادةٌ مطلوبةٌ فتجتمعُ القرأةُ والنظرُ(۱۱) بلکہ ایسی حالت میں قرآن کو ہاتھ میں اٹھانا یا ہاتھ لگانا بھی پایا جاتا ہے اوریہ بھی باعثِ اجر ہے، امام غزالی لکھتے ہیں: قرأةُ القرآن مِنَ المصاحِفِ افضلُ اِذْ یَزِیْدُ فی العملِ النظرُ وتأملُ المصحف وحَمْلُہ فیزیدُ الأجرُ(۱۲) دیکھ کر پڑھنا افضل ہے کہ اس میں کئی عمل پائے جاتے ہیں۔ دیکھنا، غور کرنا، قرآن کا اٹھانا؛ لہٰذا اجر بھی زائد ہوگا۔ ایک روایت میں ہے کہ دیکھ کر قرآن پڑھنے کی فضیلت زبانی پڑھنے پر ایسی ہے جیسے فرض کی فضیلت نفل پر(۱۳) امام غزالی فرماتے ہیں کہ بہت سے صحابہٴ کرام قرآن دیکھ کر پڑھا کرتے تھے اور پسند نہیں کرتے تھے کہ کوئی دن ان کا ایسا گذرے جس میں انھوں نے قرآن میں نظر نہ ڈالی ہو․․․ ویکرہونَ اَنْ یخرج یومٌ ولم ینظروا فی المصحف(۱۴) اور بہت سے سلف کا بھی معمول یہی رہا ہے۔
البتہ محدثین کی ایک جماعت نے دوسری احادیث کی روشنی میں چونکہ حفظ پڑھنا زیادتِ خشوع کا سبب ہے، ریاء سے دور ہے، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت شریفہ حفظ پڑھنے کی تھی، حفظ پڑھنے کو ترجیح دی ہے(۱۵) امام نووی نے عمدہ بات کہی ہے کہ یہ اختلاف دراصل اشخاص کا اختلاف ہے جس کی تفصیل یہ ہے کہ حفظ ونظر دونوں حالتوں میں خشوع وتدبر یکساں قائم رہتا ہے تو دیکھ کر پڑھنا پسندیدہ ہے اور اگر دیکھ کر پڑھنے سے خشوع کامل نہ ہو تو زبانی پڑھنا افضل ہے اور اگر دیکھ کر پڑھنے سے خشوع وتدبر میں اضافہ ہوتا ہے تو یہی افضل ہے۔ آگے لکھتے ہیں کہ سلف کے اقوال وافعال کو اسی تفصیل پر محمول کرنا چاہیے۔(۱۶)
کثرتِ تلاوت افضل ہے یا فہم وتدبر سے پڑھنا:
قرآن مجید کے حقوق میں سے ایک اہم حق اس کی تلاوت ہے اور تلاوت افضل الاذکار ہے ، حضرت نعمان بن بشیر فرماتے ہیں ان أفضلَ عبادةِ امتی قرأةُ قرآن(۱۷) اور مشہور حدیث کہ دو شخص قابل رشک ہیں ایک وہ جو رات دن تلاوت میں مشغول رہتا ہے اور اللہ رب العزت نے شب وروز کی گھڑیوں میں تلاوت کرنے والوں کی توصیف فرمائی ہے، اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے وارزقنی تلاوتَہ اناءَ اللیلِ واناءَ النھار کے ذریعہ کثرت تلاوت کی دعا فرمائی ہے۔ اور دیگر فضائلِ قرآن کی احادیث کی وجہ سے علماء فرماتے ہیں یُستحبُّ الاکثارُ مِنْ قرأةِ القرآنِ وتلاوتِہ (۱۸) چنانچہ امت کے بے شمار افراد نے کثرت تلاوت کو اپنا مشغلہ بنایا؛ البتہ تلاوت کلام پاک میں ترتیل وتدبر بھی مطلوب ومقصود ہے؛ اس لیے کہ قرآن کا نزول ترتیل کے ساتھ ہوا اور ترتیل سے پڑھنے کا حکم دیاگیا ہے (قرآن مجید) حضرت ابن عباس فرماتے ہیں لَاَن أقرأ البقرةَ وآل عمران أرتِّلُھما وأتدبَّرُھما أحبُّ اِلیَّ مِن اَن اقرأ القرآنَ کلَّہ ھذرمة(۱۹) یعنی ترتیل وتدبر کے ساتھ سورئہ بقرہ وآل عمران پڑھوں یہ مجھے پسند ہے اس سے کہ تیز رفتاری سے پورا قرآن پڑھوں۔ حضرت عبیدہ مکی مرفوعاً نقل کرتے ہیں یَا أھلَ القرآنِ لا توسَّدوا القرآنَ واتلوہ حقَّ تلاوتِہ آناءَ اللیلِ وآناءَ النھارِ وافشوہ وتدبَّروا ما فیہ لعلکم تُفلحون(۲۰) حضرت عبداللہ بن عمرو کی روایت ہے لا یفقہُ مَنْ قرأ القرآنَ فی اقلِّ من ثلثٍ(۲۱) ہَذْرَمَةٌ کے معنی ”کثرة الکلام“ اور ”السرعة فی القرأة والکلام والمشی“ ہے جیسے ابن عباس سے منقول ہے لأن اقرأ القرآنَ فی ثلثٍ احبُّ اِلیَّ مِنْ أنْ اقرأہ فی لیلةِ ہذرمةً(۲۲) اس لیے دیگر اصحابِ ذوق فہم وتدبر سے پڑھنے کو افضل قرار دیتے ہیں۔
مذکورہ دونوں نظریوں کے تحت صحابہٴ کرام میں ایک دن رات میں قرآن ختم کرنے سے لے کر دوماہ تک میں ختم کا معمول پایا جاتا ہے۔
البتہ دونوں میں کون راجح ہے مطلقاً فیصلہ مشکل ہے، امام نووی نے اس موقع پر بھی بہت عمدہ تفصیل پیش کی ہے کہ افضلیت میں اختلاف لوگوں کے( فہم وذکاوت میں) اختلاف کی وجہ سے ہے پس جو شخص ایسا ہوکہ دقیق فکروں سے قرآن کے لطائف اور معارف اس پر ظاہر ہوتے ہوں تو اس کو چاہیے کہ تلاوت کی اتنی مقدار پر اکتفاء کرے جس سے اس کو اپنی قرأت میں کمال فہم وتدبر حاصل رہے۔ اسی طرح جو شخص علم کے نشر (جیسے تدریس، تصنیف اور تذکیر) میں، مقدمات خصومات کافیصلہ اور دیگر دینی وملی امور کی انجام دہی میں مشغول ہوتو اسے چاہیے کہ اتنی مقدارِ تلاوت پر اکتفاء کرے جس سے اس کے ضروری کاموں میں خلل واقع نہ ہو اور اگر کوئی مذکورہ لوگوں میں سے نہ ہو تو پھر جتنا زیادہ ممکن ہو تلاوت کرے بشرطیکہ اکتاہٹ پیدا نہ ہو اور نہ ایسی رفتار سے کہ حروف مخلوط ہونے لگیں اور پڑھا ہوا سمجھ میں نہ آئے(۲۳)۔
قرأتِ قرآن بغیر فہم معانی کے بھی مفید ہے:
دنیا بھر میں کوئی کتاب ایسی نہیں جس کا نفع بغیر سمجھے حاصل ہو سوائے ”قرآن مجید“ کے کہ یہ ایک ایسی ممتاز کتاب ہے جو ہر حال میں مفید اور نفع بخش ہے۔ تلاوتِ قرآن کا ایک بڑا فائدہ اجر وثواب کا حصول ہے جو معانی کے فہم وتدبر پر موقوف نہیں ہے(۲۴) اس لیے کہ (۱) ہر عاقل اس بات کو خوب سمجھتا ہے کہ معانی تک رسائی الفاظ و نقوش کے بغیر ممکن نہیں اور الفاظ ونقوش کا حصول اس کے بغیر بھی ہوتا ہے۔ (۲) دوسری چیز اللہ کی ایک حکمت یہ بھی ہے کہ مخلوق کو اپنی ذات سے قریب کرنے کے لیے سب سے پہلے اسے محض قرأت کی ترغیب دے کر اپنے کلام کا گرویدہ بنایا جائے،کلام کی یہ محنت رفتہ رفتہ اسے فہم وتدبر کی طرف لے جائے گی، اس طرح کلام اللہ کا اصل مقصود بتدریج حاصل ہوجائے گا اور یہی شانِ ربوبیت کا تقاضہ بھی ہے۔ ورنہ اگر پہلے ہی قدم پر قرأت کے لیے فہم معنی کو شرط ولازم قرار دے دیا جائے اور بغیر فہم کے قرأت کو لغو ٹھہرائیں تو بہت ممکن ہے کہ مخلوق قریب ہونے کے بجائے دور ہی رہیں گے اسی کو کسی حکیم نے خوب کہا ہے ذکر میں اگر حضور مع اللہ (دھیان) حاصل نہ ہوتو ذکر کو مت چھوڑو؛ اس لیے کہ ذکر سے غافل ہوجانا ذکر میں دھیان نہ ہونے سے زیادہ سخت ہے(۲۵)،(۳) تیسری چیز یہ ہے کہ شریعت نے محض تلاوت کو بھی ایک عبادت قرار دیا ہے ان افضل عبادة امتی قرأة القرآن(۲۶) اور عبادت کہتے ہیں ایسے افعال کو جن سے مقصود بندگی کا اظہار ہو خواہ عقلاً اس کی نوعیت سمجھ میں آئے یا نہ آئے اور اس کا منشا قرآن کی حفاظت کے اسباب اور تحریف وتبدیل جس کا کتبِ سابقہ شکار ہوچکی ہیں اس سے محفوظ رکھنے کے عوامل کو بڑھانا ہے(۲۷)۔
اگرچہ کمال نفع اور کما حقہ استفادہ کے لیے کلام کا فہم وتدبر ضروری ہے؛ لیکن فہم کے نہ ہونے سے قرآن مجید کا ایک عظیم نفع یعنی اجر وثواب اور خوشنودیِ رب الارباب کے حصول میں کوئی خلل نہیں آتا ہے۔ حضرت ابن عمر فرماتے ہیں ”جس شخص نے قرآن سمجھ کر پڑھا تو ہر حرف پر بیس نیکیاں ملیں گی اور جس نے بغیر سمجھے پڑھا توہر حرف پر دس نیکیاں“۔ حضرت عبداللہ بن مسعود نے فرمایا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے مَن قرأ حرفا من کتاب اللہ فلہ حسنةٌ والحسنةُ بعشر امثالِھا لا أقول ا لم حرفٌ بل الفٌ حرفٌ، ولام حرفٌ، ومیم حرفٌ(۲۸)(ترمذی)
معلوم ہوا کہ کتاب اللہ کے ہرحرف کے پڑھنے پر کم از کم دس نیکیاں متعین ہیں؛ لہٰذا ”الٓم“ کے پڑھنے پر تیس نیکیاں ہوئیں،اس ارشاد نبوی پر غور فرمائیے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بطور مثال جس حرف کو ذکر کیا ہے، وہ مسمّیٰ نہیں؛ بلکہ اسم ہے یعنی ہر حرف کو الگ الگ اس کے نام سے پڑھا جاتا ہے اور اس طرح کے حروف چند سورتوں کے شروع میں ہیں جنھیں ”حروف مقطعات“ کہتے ہیں تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر حرف پر دس نیکیوں کے حصول کی مثال ایسے حرف سے دی جس کے معنی اور مراد آج تک کسی امتی کو معلوم نہ ہوسکے اور نہ کسی حکیم وفلسفی کو اس کا سراغ لگ سکا اورنہ ہی قیامت تک کوئی اسے سمجھ سکتا ہے، حتیٰ کہ مختار قول کے مطابق نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اس کی حقیقت کا علم نہیں دیاگیا ۔(اتقان،ج:۲،ص:۱۱)
پھر یہ کہ محض تلاوت کے لیے نہ وضوء شرط ہے اور نہ نظر فی القرآن، جبکہ قرآن کا دیکھنا مستقل باعثِ اجر ہے اور خشوع وخضوع اور شرفِ احوال کی وجہ سے ثواب میں اضافہ امر یقینی ہے۔
امام غزالی نے حضرت علی کا قول نقل کیا ہے کہ ”جس نے نماز میں کھڑے ہوکر قرآن پڑھا تواس کو ہر حرف پر سو نیکیاں ملیں گی اور جس نے نماز میں بیٹھ کر پڑھا توپچاس نیکیاں، اور جس نے بغیر نماز کے باوضو پڑھا تو پچیس نیکیاں اور جس نے بلا وضو پڑھا تواس کے لیے دس نیکیاں(۲۹) یہ اجر وثواب اُس دار آخرت میں ہے، جہاں کا سکّہٴ رائج یہی نیکیاں ہوں گی، دنیا کے سکّے سیم وزر کے ڈھلے ہوئے یا کاغذ کے بنے ہوئے کیا کام آئیں گے، پس جس کتاب کے پڑھنے پر اس قدر عظیم نفع کا وعدہٴ حق ہے کیاکوئی دانش مند یہ کہنے کی جرأت کرے گا کہ ”قرآن بغیر سمجھے پڑھنے سے کیا فائدہ“؟ ہرگز نہیں۔ پھر یہ بھی ذہن نشین کرتے چلیے کہ تلاوت کے بعض منافع (جیسے محبوب کے کلام سے لذت اندوز ہونے) کا تعلق اصل میں نفس کلام سے ہے، اگرچہ فہم معانی کی وجہ سے لذت دوبالا ہوجاتی ہے۔ غرض یہ کہ تلاوت کا مطلق فائدہ ایک امر مسلّم ہے خواہ معانی سمجھ میں نہ آئیں، لہٰذا جو لوگ کہتے ہیں کہ ”قرآن بغیر سمجھے پڑھنے سے کیا فائدہ“ ان کا یہ نظریہ عقل سلیم اور شرع مستقیم سے دور ہے اور ضلالت سے قریب ہے۔ دراصل یہ اعتراض بھی مستشرقین (مشرقی علوم کے ماہرین یہود ونصاری) کا ایک رکیک اور خوشنماحملہ ہے جس کا عصری تعلیم یافتہ لوگ شکار ہیں۔
پس حسی طور پر جس طرح دِق (ٹی، بی) کے مریض کا ازالہ ہو؛ بلکہ صحت مند حضرات بھی سیرسمندر کونشاط کے لیے پسند کرتے ہیں؛ حالانکہ مقصود بحر کی غواصی اور لوٴلوٴ وجواہر کی برآمد ہے؛ لیکن کوئی بھی اِس سَیر کو بے فائدہ نہیں کہتا، تو قرآن کی تلاوت جو بحرِمعانی کی سطح الفاظ کی سَیر ہے آخر کیوں بے فائدہ ٹھہرے گی (اشرف الجواب حصہ چہارم)
مزید اطمینان کے لیے ایک خواب بھی سن لیجیے: علامہ ابن الجوزی کتاب ”مناقب احمد بن حنبل“ میں منامات کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ امام احمد بن حنبل فرماتے ہیں کہ میں نے اللہ رب العزت کو خواب میں دیکھا تو میں نے پوچھا اے رب کونسی چیز سب سے افضل ہے جس سے آپ کا قرب حاصل کرنے والے قرب حاصل کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ نے جواب دیا میرا کلام اے احمد! فرماتے ہیں کہ پھر میں نے کہا: اے رب سمجھ کر پڑھنے سے یا بغیر سمجھے، تو اللہ تعالیٰ نے کہا سمجھ کر یا بغیر سمجھے۔(الفوائد علی التبیان، احیاء العلوم)
اخلاص اور تلاوت کی اغراض دنیویہ:
قرآن پاک کی تلاوت افضل القربات ؛ بلکہ عبادت ہے اور ہر طاعت وقربت کا اجر وثواب نیت پر موقوف ہے(۳۰) اورنیت میں اخلاص مقصود ومطلوب ہے اور اسی کے بقدر اجر دیا جائے گا عن ابن عباس: انما یعطیٰ الرجل علی قدر نیتہ(۳۱) پس تلاوت میں بھی نیت خالص ہونی چاہیے، یعنی تلاوت کی غایت اور اس سے مطلوب اللہ کی رضاء ہو، حدیث میں ہے کہ جو شخص اللہ کی خوشنودی کے لیے تلاوت کرتا تھا، کل قیامت کے دن وہ مشک کے ٹیلوں پر ہوگا۔
اخلاص کسے کہتے ہیں؟
علامہ ابوالقاسم قشیری فرماتے ہیں: اخلاص یہ ہے کہ طاعت سے محض اللہ کا تقرب مقصود ہو کوئی دوسری غرض، مثلاً مخلوق کے لیے تصنع، یا لوگوں کے نزدیک ستائش یا مخلوق کی طرف سے محبوبیت وغیرہ کی تحصیل نہ ہو(۳۲) حضرت ذوالنون مصری فرماتے ہیں کہ اخلاص کی تین علامتیں ہیں: (۱) لوگوں کی تعریف مذمّت برابر ہو یعنی اس کی پروا نہ ہو، (۲) لوگ اُس کے عمل کو دیکھیں اِس کا تصور نہ ہو، (۳) آخرت میں ثواب کا طلب گار ہو(۳۳) حضرت سہیل بن عبداللہ تستری فرماتے ہیں کہ اہل بصیرت نے اخلاص کی تفسیر یوں بیان کی ہے کہ بندے ہر حرکت وسکون ظاہر وباطن میں صرف اللہ کے لیے ہو اس میں نفس یا خواہش یا دنیا کی قطعاً آمیزش (ملاوٹ) نہ ہو(۳۴)۔
شارحِ مسلم شریف علامہ نووی لکھتے ہیں: یعنی قرأتِ قرآن سے مقصود دنیا کی اغراض میں سے کوئی غرض نہ ہونا چاہیے جیسے (۱) مال کا حصول (۲) ریاست وسرداری کی طلب (۳) جاہ ومنصب کی خواہش (۴) عزت ووجاہت کی آرزو (۵) ہمعصروں پر فوقیت (۶) لوگوں کے نزدیک تعریف وستائش (۷) لوگوں کی توجہ اپنی طرف مبذول کرنا، وغیرہ۔ (۸) خدمت کی تمنا (۹) ہدیہ وتحفہ کی طمع (۱۰) سمعہ و شہرت (۱۱) مقابلہ آرائی (۱۲) مخلوق کے لیے تصنع وبناوٹ(۳۵)۔
حاصل یہ کہ تلاوت کا مقصد رضائے الٰہی ہو اس میں کسی قسم کی دنیا کی ملاوٹ نہ ہو۔
تلاوت کے مقاصدِ حَسَنہ:
تلاوت کے مذکورہ بالا اغراض دنیویہ کے سواء وہ امور جو دینی اعتبار سے مطلوب ہیں وہ سب تلاوت کے مقاصد حسنہ ہیں، ان میں بعض منافع وثمرات ایسے بھی ہیں، جن کا حصول دنیا میں مقصود ہے، مگر اغراضِ دنیویہ کی طرح رضائے الٰہی کے خلاف نہیں ہیں؛ بلکہ مقاصد اخروی کے حق میں معاون اور اللہ کی رضاء کی طرف پہونچانے والے ہیں اور یہ سب منافع قرأتِ قرآن کے لیے اسباب ہوا کرتے ہیں، جن کو فضائل کی احادیث وآثار میں ذکر کیاگیا ہے۔ مثلاً جلائے قلب یعنی دل کا زنگ دور ہونے کے لیے تلاوت کرنا۔(۳۶)
علم اور معلومات کے حصول کے لیے تلاوت کرنا:
حضرت عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں: مَنْ ارادَ العلمَ فَعلیہ بالقرآنِ فانَّ فیہ خبرُ الأولینَ والآخرین(۳۷)․
گھر میں خیروبرکت اور نورانیت کے لیے قرأتِ قرآن:
حضرت انس سے مروی ہے نوِّرُوا منازلکم بالصلاة وقرأة القرآن(۳۸)
موت کی سہولت کے لیے قرأتِ قرآن:
حضرت ابوذرغفاری سے روایت ہے: مَا مِن میّتٍ یموتُ فیقرأ یٓسن الا ھوَّن اللہ علیہ(۳۹)۔
شیطان سے حفاظت کے لیے تلاوت:
حضرت علی مرتضیٰ کا ارشاد ہے: مَن یقرأ القرآنَ لا یزالُ فی حِرَزٍ وحِصْن(۴۰)۔
شفائے مرض اور دفع اثر ونظر کے لیے بھی قرآن کا پڑھنا ثابت ہے، جیساکہ ہم آئندہ مستقل مضمون کے تحت پیش کریں گے۔ اس کے علاوہ بھی دینی، واخروی، روحانی وجسمانی فوائد وثمرات ہیں جو تلاوتِ قرآن سے حاصل ہوتے ہیں۔ یہاں اُن سب کا ذکرکرنا مقصود نہیں ہے، البتہ بطور نمونہ اشارہ کیا جاتا ہے۔
(۱) حصولِ اجر وثواب، (۲) مغفرت ذنوب، (۳) نزول رحمت وسکینت، (۴) انبیاء وصدیقین کے ساتھ حشر (۵) مستحق جہنم کی سفارش (۶) دخول جنت (۷) دوزخ سے حفاظت (۸) دل کا بیدار ہونا (۹) جلائے قلب (۱۰) حصول علم (۱۱) قوت حافظہ (۱۲) بینائی کا تیز ہونا (۱۳) غنائے قلب (۱۴) شیطان سے محفوظ رہنا (۱۵) گھر میں خیروبرکت کا ہونا (۱۶) نشاط و انبساط کا نصیب ہونا (۱۷) طمانیتِ قلب (۱۸) ایمان کی تازگی (۱۹) موت کے وقت آسانی (۲۰) ظاہری جسمانی مرض سے شفاء (۲۱) باطنی امراض سے پاکیزگی (۲۲) استحقاقِ شفاعت (۲۳) حیاتِ سعید (۲۴) موتِ شہادت (۲۵) عذاب سے نجات (۲۶) وزن نامہٴ اعمال (۲۷) خوف کے دن امن (۲۸) آنکھوں کی ٹھنڈک (۲۹) ازالہٴ حزن وغم (۳۰) محشر کے دن سایہ (۳۱) دینی واخروی ضروریات کی تکمیل (۳۲) عذاب میں تخفیف (۳۳) اللہ تعالیٰ کی عنایتِ خاص حاصل ہوتی ہے (۳۴) گمراہی کے دن رہنمائی (۳۵) سفر میں مددگار کا ملنا (۳۶) اثر جن اور نظر بد سے محفوظ رہنا (۳۷) فاقہ سے حفاظت (۳۸) گھر کا آباد ہونا (۳۹) اللہ تعالیٰ کی یاد (۴۰) اللہ کی خوشنودی حاصل ہوتی ہے(۴۱)۔
قرأتِ قرآن برائے ایصال ثواب:
اہل السنة والجماعة کا اتفاق ہے کہ نفل عبادت مالی ہو یا بدنی اس کا ثواب ہدیہ کرنا یعنی دوسرے کو پہنچانا درست ہے اور اسے پہنچتا ہے۔ چنانچہ حضرت ابن عمر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے عمرہ کیاکرتے تھے۔ ابن مُوفَّق نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ستر(۷۰) حج کیے ہیں۔ ابن السراج نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے دس ہزار مرتبہ قرآن ختم فرمائے اور اسی کے بقدر قربانی کی ہے(۴۲) دراصل اہداءِ ثواب کے ذریعہ میت کو نفع پہونچانا ایک مقصد شرعی ہے اور اعمال صالحہ اسی مقصد کے حصول کے طُرُق ہیں؛ چنانچہ قرأتِ قرآن کا معمول اس مقصد کے لیے بھی امت میں تسلسل کے ساتھ قائم ہے؛ بلکہ حضرات صحابہٴ کرام سے اس کا ثبوت موجود ہے، علامہ ابن القیّم جوزی نے اپنی کتاب ”الرُّوح“ میں امام شعبی سے نقل کیا ہے: کانت الانصارُ اذا ماتَ لھم المیتُ اختلفوا الی قبرہ ویقرء ون عِنْدَہ القرآنَ اور امام نووی نے یوں نقل کیا ہے کانت الانصارُ اذا حضروا عندَ المیت قرء وا سورةَ البقرة(۴۳) اور اتنا تو خود صاحبِ شریعت صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہے ․․․ ویقرأ عند رأسِہ فاتحةَ الکتاب وعند رجلَیْہ بخاتمةَ البقرة(۴۴) اِس قرأتِ قرآن للمیت کے سلسلہ میں احادیث وآثار کا حاصل اور امت کا عمل کیا رہا ہے مُلا علی قاری کے الفاظ ملاحظہ فرمائیے: الاحادیثُ المذکورةُ وہی اِن کانتْ ضعیفةً فمجموعُھا یَدُلُّ علی أن لذلک أصلاً واَن المسلمین ما زالوا فی کلِ عصرٍ و مصرٍ یجتمعونَ ویقرء ونَ لِموتاھُمْ مِنْ غیرِ نَکِیْرٍ فکان ذلک اِجماعاً(۴۵) پس تلاوتِ قرآن برائے ایصالِ ثواب اجتماعاً کی اصل خیرالقرون میں موجود ہے اورامت کا اس پر عمل بھی رہا ہے؛ لہٰذا بغیر کسی چیز کے التزام کے اجتماعی تلاوت کو ۔ نہ تو بدعت کہہ سکتے ہیں اورنہ ہی رسم قبیح۔ حضرت فقیہ الامت مفتی محمود حسن گنگوہی ایصال ثواب کے لیے قرآن خوانی بآواز بلند یا پست کے جواب میں لکھتے ہیں ”الجواب حامداً ومصلیا: افضل تو یہی ہے کہ جب ایک جگہ مجمع قرآن شریف پڑھے تو سب آہستہ پڑھیں الخ ، ایک دوسری جگہ لکھتے ہیں: یہ سب قید (تاریخ، دن، چیز، ہیئت اورآیت وسورة کی تخصیص) ختم کردیا جائے کہ یہ شرعاً بے اصل ہے صحابہ نے بغیر ان قیدوں کے ثواب پہنچایا ہے“(۴۶)۔
***
حواشی:
(۱) مفردات،ص۷۵، فرائد اللغة،ج۱،ص۴۶۔ (۲) آل عمران آیت۱۶۴، سورئہ جمعہ آیت۲۔
(۳) بقرة آیت ۱۲۹۔ (۴) بقرہ آیت۱۵۱۔
(۵) بقرہ آیت ۲۵۲۔ (۶) اتقان،ج۱،ص۱۳۷۔
(۷،۸) الاذکار للنووی،ج۲۔ (۹) التبیان،ص۲۴۔
(۱۰) التبیان،ص۲۵۔ (۱۱) التبیان،ص۱۰۰۔
(۱۲) احیاء العلوم،ج۱،ص۳۲۹۔ (۱۳) اتقان،ج۱،ص۱۴۲۔
(۱۴) التبیان۔ (۱۵) فضائل قرآن للشیخ،ص۲۷۔
(۱۶) التبیان۔ (۱۷) اتقان۔
(۱۸) اتقان۔ (۱۹) التبیان،ص۸۹۔
(۲۰) اتقان،ج۱،ص۱۳۷۔ (۲۱) التبیان عن ابی داؤد۔
(۲۲) لسان العرب،ج۱۵،ص۶۶۔ (۲۳) اتقان،ج۱،ص۱۳۸ عن التبیان۔
(۲۴) مناہل العرفان،ج۲،ص۱۴۰۔ (۲۵) مناہل العرفان، ج۲،ص۱۴۱۔
(۲۶) بیہقی بحوالہ اتقان،ج۱،ص۱۳۷۔ (۲۷) مناہل،ج۲،ص۱۴۰۔
(۲۸) التبیان للنووی۔ (۲۹) فضائل قرآن للشیخ،ص۲۶۔
(۳۰) بخاری شریف۔ (۳۱) التبیان،ص۳۲۔
(۳۲،۳۳،۳۴) التبیان۔ (۳۵) التبیان،ص۳۴۔
(۳۶) احیاء،ج۱،ص۳۲۲ عن البیہقی۔ (۳۷) اتقان،ج۲،ص۱۶۰ عن سعید بن منصور۔
(۳۸) اتقان،ج۱،ص۱۳۷ عن البیہقی۔ (۳۹) اتقان،ج۲،ص۲۱۰ عن دارمی۔
(۴۰) کنز العمال،ج۱،ص۲۷۲۔
(۴۱) الاتقان، التبیان، الاحیاء، کنز العمال وغیرہ۔ (۴۲) شامی،ج۳،ص۱۵۲۔
(۴۳) الروح،ص۹۳، البتیان، مرقاة المفاتیح،ج۴،ص۱۹۸۔ (۴۴) مشکوة المصابیح۔
(۴۵) مرقاة،ج۴،ص۱۹۹۔ (۴۶) فتاوی محمودیہ،جلد اوّل قدیم۔
***
————————————–
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ 5 ، جلد: 97 ، رجب 1434 ہجری مطابق مئی 2013ء