از: مفتی مکرم محی الدین قاسمی، استاذ دارالعلوم حیدرآباد
انسانی معاشرے کا وہ حصہ جسے مادہ پرستی کے اس دور میں نظر انداز کردیا گیا ہے، ”معذورین“ کے عنوان سے جانا جاتا ہے، سماج کے اس طبقہ میں وہ افراد شامل سمجھے جاتے ہیں، جو رفتارِ زمانہ اور زندگی کی دوڑ میں اپنی طبعی دائمی اور پیدائشی مجبوریوں کی بناء پر پیچھے رہ گئے ہوں، بینائی، شنوائی سے محروم، بے دست وپا دماغی طور پر مفلوج، دائمی روگ میں مبتلا افراد عام طور پر اس میں داخل مانے جاتے ہیں۔
یوں تو دنیا بھر میں ان کے تعلق سے ہمدردی کی لہرچل پڑی ہے، ایک عالمی ادارہ باقاعدہ طور پر ان کا نگران سمجھاجاتا ہے، تاہم یہ حقیقت ہے کہ سماج کا یہ طبقہ جس قدرہمدردی اور توجہ کا مستحق ہے، فی الحال عملی طور پر محرومی کے شکوہ سے دوچار ہے، ان حضرات کا قضیہ وقتی عبوری اقدامات سے حل نہیں ہوسکتا، ان کے مستقل حل کے لیے مضبوط حکمتِ عملی اور بڑے دیرپا اقدامات ناگزیر ہیں، ویسے تو معذورین کے تعلق سے جذبہٴ ترحم انسانی فطرت کا تقاضا اور لازمہ ہے؛ لیکن صرف اسلام نے اس جذبہ کو صحیح رخ دیا ہے، معذورین کے مختلف حقوق ومراعات کووضاحت کے ساتھ بیان کیے ہیں، قانونِ اسلامی کا ایک معتدبہ حصہ ان کے حقوق سے متعلق مختص کردیا گیا ہے، ذیل میں اسلامی نقطہٴ نظر سے معذورین کے معاشی، معاشرتی، مذہبی اورسیاسی وحربی حقوق ومراعات پر قدرے تفصیل کے ساتھ گفتگو کی جاتی ہے۔
معاشی حقوق ومراعات:
اسلام نے معذور افراد پر کسی طرح کا معاشی بار نہیں رکھا ہے، کسبِ معاش کی الجھنوں سے انھیں آزاد رکھا ہے، وہ تمام قرآنی آیات اور احادیثِ مبارکہ جن میں کمزوروں، بے سہاروں کے ساتھ حسنِ سلوک اور ان پر انفاق کی تلقین کی گئی ہے، معذورین بھی ان کے مفہوم میں داخل ہیں، کتبِ فقہ میں نفقہٴ اقارب کے عنوان سے جو تفصیلات بکھری پڑی ہیں؛ ان کا حاصل بھی یہی ہے کہ ان معذورین کے معاش وزیست میں تعاون ہو، علامہ کاسانی رحمہ اللہ نفقہٴ اقارب کے وجوب (بعض رشتہ داروں کے نفقہ کا بعض رشتہ داروں پر وجوب) کی ایک نہایت ہی اہم اور بنیادی شرط کی وضاحت فرماتے ہوئے لکھتے ہیں:
”خاندان کے کچھ مفلس رشتہ دار، اپاہج ولاچار ہوں یامعذور ومفلوج ہوں یا مجنون واندھے پن کا شکاہوں، دست وپا بریدہ یا شل زدہ ہوں تو ان کا نفقہ معہود ترتیبِ فقہی کے اعتبار سے خاندان کے دیگر صحیح الاعضاء متمول رشتہ داروں پر واجب ہوتا ہے“ (بدائع الصنائع: ۴/۴۴۶)
معذورین کے حقوق کی یہ رعایت خاندانی سطح سے تھی، اسلامی دورِ درخشاں میں حکومتی سطح پر معذورین کی نگرانی اور دیکھ بھال کا جو نظم تھا وہ حددرجہ بے مثال اور قابلِ رشک تھا۔
علامہ شبلی ”الفاروق“ میں لکھتے ہیں: (حضرت عمر کے زمانے میں) عام حکم تھا اور اس کی ہمیشہ تعمیل ہوتی تھی کہ ملک کے جس قدر اپاہج، ازکاررفتہ، مفلوج وغیرہ ہوں سب کی تنخواہیں بیت المال سے مقرر کردی جائیں، لاکھوں سے متجاوز آدمی فوجی دفتر میں داخل تھے جن کو گھر بیٹھے خوراک ملتی تھی، بلاتخصیص مذہب حکم تھا کہ بیت المال سے ان کے روزینے مقرر کردیے جائیں (الفاروق: ۲/۱۹۶، ۱۹۷)
غرض حکومتی سطح پر جو معاشی مراعات مسلم معذورین کو حاصل تھیں، پوری رواداری کے ساتھ غیرمسلم معذور رعایا بھی نفع اندوز ہوتی تھی، ایک اور مقام پر علامہ موصوف رقمطراز ہیں:
یہ جو قاعدہ تھا کہ جو مسلمان اپاہج اور ضعیف ہوجاتا تھا اور محنت ومزدوری سے معاش نہیں پیدا کرسکتا تھا، بیت المال سے اس کا وظیفہ مقرر ہو جاتا تھا، اسی قسم کی؛ بلکہ اس سے زیادہ فیاضانہ رعایت ذمیوں کے ساتھ بھی تھی (الفاروق: ۲/۱۵۷)
سید قطب شہید مرحوم رحمہ اللہ تحریر فرماتے ہیں:
”حضرت عمر نے ایک بوڑھے نابینا کو ایک دروازے پر بھیک مانگتے دیکھا، دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ وہ یہودی ہے، آپ نے اس سے پوچھا: تمھیں کس چیز نے اس حالت تک پہنچایا؟ اس نے جواب دیا: جزیہ، ضرورت اور بڑھاپا، عمر اس کا ہاتھ پکڑ کر اپنے گھر لے گئے اور اتنا کچھ دیا جو اس وقت کی ضروریات کے لیے کافی تھا، پھر آپ نے بیت المال کے خزانچی کو کہلا بھیجا کہ اس شخص اور اس جیسے دوسرے اشخاص کی طرف توجہ کرو، خدا کی قسم یہ انصاف کی بات نہیں کہ ہم اس کی جوانی کی کمائی کھائیں اور بڑھاپے میں اسے دُھتکار دیں․․․․ آپ نے اس فرد اور اس جیسے دوسرے افراد کو جزیہ سے بری قرار دے دیا، جب آپ نے دِمَشق کا سفر کیا تو ایک ایسی بستی سے گذرے جہاں کچھ جُذام کے مریض عیسائی بستے تھے، آپ نے حکم دیا کہ ان کو زکوٰة کی مد سے امداد دی جائے اور ان کے لیے راشن جاری کیے جائیں (العدالة الاجتماعیة فی الاسلام اردو: ۳۷۸)
ایک صحابی جن کی بینائی میں نقص تھا اور کچھ ذہن بھی متاثر تھا وہ خریدوفروخت میں اکثر دھوکا کھاجاتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی اور ان جیسے افراد کی خاطر، خریدوفروخت میں خیارِ شرط مشروع فرمایا، جس کی رو سے بیچنے والے یاخریدنے والے کو بیع کی قطعیت کے لیے تین دن کی مہلت مل جاتی ہے (تکمہ فتح الملھم: ۱/۳۷۸، ۳۸۲)
معاشرتی حقوق ومراعات:
اسلام نے معذور افراد کو الگ تھلگ کسمپرسی کی زندگی گذارنے کے بجائے اجتماعی معاشرت کا حوصلہ دیا، ان کے مقام ومرتبہ کے مناسب معاشرتی کام بھی تفویض کیے، احساسِ کمتری اور معاشرتی سردمہری کا شکار بننے سے ان کو تحفظ فراہم کیا، عبداللہ بن ام مکتوم ایک نابینا صحابی تھے، ایک دفعہ وہ بغرضِ دریافت مسئلہ بارگاہِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم میں ایک ایسے وقت حاضرہوئے جب کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بعض اعیانِ قریش سے اسلام پر گفتگو فرما رہے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کا یہ بے وقت سوال پوچھنا ناگوار ہوا، بس اتنا ہونا تھا کہ سورہٴ عبس کا نزول ہوا، جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر اس رویہ کے تعلق سے ہلکا سا عتاب کیا گیا، روایات میں ہے کہ اس کے بعد جب وہ نابینا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم بہت تعظیم وتکریم سے پیش آتے اور فرماتے: خوش آمدید اے وہ ساتھی جس کے بارے میں پروردگار نے مجھ پر تنبہ فرمایا۔
رسولِ پاک صلی اللہ علیہ وسلم جب غزوہٴ احد کے لیے روانہ ہوئے تو اپنی جگہ انہی نابینا ابن ام مکتوم کو اپنا نائب فرمایا (السیرة النبویة لابن ہشام: ۳/۱۷) غور کیجیے کتنا بڑا منصب ایک نابینا شخصیت کے سپرد کیا جارہا ہے اور تو اور ایک جُذامی آدمی کو بھی آپ نے اپنے ساتھ کھانے میں شریک فرمایا ہے (تکملہٴ فتح الملہم: ۴/۳۷۲، نزھة النظر فی توضیح نخبة الفکر: ۴۵) سعید بن یربوع ایک صحابی تھے جن کی آنکھیں جاتی رہی تھیں، حضرت عمر نے ان سے کہا کہ آپ جمعہ میں کیوں نہیں آتے انھوں نے کہا: میرے پاس آدمی نہیں کہ مجھ کو راستہ بتائے، حضرت عمر نے ایک آدمی مقرر کردیا جو اُن کے ساتھ رہتا تھا (الفاروق: ۲/۲۰۵) حضرت ابوبکر کی خلافت کے زمانے میں حضرت عمر مدینہ کی ایک اندھی عورت کی خبرگیری کیا کرتے تھے، پھر ایسا ہونے لگا کہ جب بھی آپ پہنچتے یہ دیکھتے ہیں کہ ابوبکر آکر اس کے کام کر جاتے ہیں (اسلام میں عدلِ اجتماعی: قطب شہید: ۳۸۶)
مذہبی حقوق ومراعات:
بہت سی وہ عبادات جو جسمانی تعب ومشقت کی متقاضی ہیں، اسلام نے معذور حضرات کو یا تو ان سے بالکلیہ مستثنیٰ رکھا ہے یا پھر ان کا متبادل تجویز کیا ہے، جمعہ وجماعات کی لازمی حاضری سے معذور حضرات مستثنیٰ ہیں، مالدار ہوں؛ مگر اپاہج ولاچار ہوں تو عبادتِ حج میں، حجِ بدل اور روزہ میں فدیہ کی شکل رکھی گئی ہے، جہاد جیسی عظیم عبادت سے بھی یہ حضرات مستثنیٰ رکھے گئے ہیں، ارشادِ باری ہے: اندھے پر کوئی حرج نہیں ہے اور نہ لنگڑے پر کوئی حرج ہے اور نہ بیمار پر کوئی حرج ہے (سورہٴ فتح: ۱۷)
بصارت سے محرومی اور لنگڑے پن کی وجہ سے چلنے پھرنے سے معذوری ہے، یہ دونوں عذر تو لازمی ہیں، ان اصحابِ عذر یا ان جیسے دیگر معذورین کو جہاد سے مستثنیٰ کردیا گیا، حد تو یہ کہ یہ معذور حضرات جو اپنی معذوری کے سبب جہاد سے پیچھے رہ گئے، ان کے لیے بھی مجاہدین کے برابر اجروثواب کا وعدہ گھر بیٹھے حاصل ہے۔
عزوہٴ تبوک کے موقع سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے معذورین کے بارے میں جہاد میں شریک لوگوں سے یہ ارشاد فرمایا تھا کہ تمہارے پیچھے مدینہ میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں کہ تم جس وادی کو بھی طے کرتے ہو اور جس راستے پر بھی چلتے ہو تمہارے ساتھ وہ اجر میں برابر کے شریک ہیں، صحابہٴ کرام نے پوچھا یہ کیوں کر ہوسکتا ہے جب کہ وہ مدینہ میں بیٹھے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: حَبَسَھُمُ الْعُذْرُ: عذر نے ان کو وہاں روک دیا ہے (بخاری شریف: کتاب الجہاد)
سیاسی وحربی حقوق ومراعات:
اسلام سے قبل جنگ میں مقاتلین اور غیرمقاتلین کے درمیان کوئی امتیاز نہ تھا، دشمن قوم کے ہرفرد کو دشمن سمجھا جاتا تھا اور اعمالِ جنگ کا دائرہ تمام طبقوں اور جماعتوں پر یکساں محیط تھا، عورتیں، بچے، بوڑھے، بیمار، زخمی کوئی بھی اس ہمہ گیر دست درازی سے مستثنیٰ نہ تھا (الجہاد فی الاسلام: ۱۹۸) اسلام نے اس سلسلہ میں سب سے پہلی چیز یہ کی کہ محاربین (Belligerents) کو دوطبقوں میں تقسیم کردیا، ایک اہلِ قتال (Combatants) دوسرے غیر اہلِ قتال (Non Combatants) اہل قتال وہ ہیں جو عملاً جنگ میں حصہ لیتے ہیں یا عقلاً وعرفاً حصہ لینے کی قدرت رکھتے ہیں یعنی جوان مرد اور غیراہلِ قتال وہ ہیں جو عقلاً وعرفاً جنگ میں حصہ نہیں لے سکتے، یا عموماً نہیں لیا کرتے، مثلاً عورتیں، بچے، بوڑھے، بیمار، زخمی، اندھے، مقطوع الاعضاء، مجنون، سیاح، خانقاہ نشین زاہد، معبدوں اور مندروں کے پجاری اور ایسے ہی دوسرے بے ضرر لوگ، اسلام نے طبقہٴ اوّل کے لوگوں کو قتل کرنے کی اجازت دی ہے اور طبقہٴ دوم کے لوگوں کو قتل کرنے سے منع کردیا ہے (الجہاد فی الاسلام: ۲۲۳)
آج معذورین کے حقوق کے علمبردار اور دعویدار طاقتیں اپنی طاقت کے نشہ میں نہ صرف معذورین سمیت بستی کی بستی اور ملک کے ملک اجاڑ رہی ہیں؛ بلکہ ہلاکت خیز کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کے ذریعہ، نسلوں؛ معذورین کی افزائش وآبادی میں اضافہ کا سامان بہم پہنچارہی ہیں، ناطقہ سربہ گریباں اور خرد معرکہٴ حیرت بنی ہوئی ہے کہ ان کے قول وعمل کے اس تفاوت وتضاد کی آخر کیا توجیہ کی جائے۔
اس کائناتِ ارضی وسماوی میں اسلام ہی وہ واحد مذہب ہے جس کی تعلیمات وہدایات تضاد ونفاق کے جراثیم سے مکمل پاک ہیں اور اسلام ہی روئے زمین پر وہ اکیلا مذہب ہے جو معذورین سمیت پوری انسانیت کا مسیحا ہے؛ آج شرط ہے اس کے نظام کو اپنانے اور برتنے کی ہے۔
***
————————————-
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ 5 ، جلد: 97 ، رجب 1434 ہجری مطابق مئی 2013ء