از: مولانا محمدنجیب سنبھلی قاسمی، ریاض
حضرت امام اعظم کا اسم گرامی ”نعمان“ اور کنیت ”ابوحنیفہ“ ہے۔ ولادت ۸۰ ھ میں عراق کے کوفہ شہر میں ہوئی۔ آپ فارسی النسل تھے۔ والد کا نام ثابت تھا اور آپ کے دادا نعمان بن مرزبان کابل کے اعیان واشراف میں بڑی فہم وفراست کے مالک تھے۔ آپ کے پردادا مرزبان فارس کے ایک علاقہ کے حاکم تھے۔ آپ کے والد حضرت ثابت بچپن میں حضرت علی کی خدمت میں لائے گئے تو حضرت علی نے آپ اور آپ کی اولاد کے لیے برکت کی دعا فرمائی اور دعا اس طرح قبول ہوئی کہ امام ابوحنیفہ جیسے عظیم محدث وفقیہ اور عابد و زاہد شخصیت پیدا ہوئی۔
آپ نے زندگی کے ابتدائی ایام میں ضروری علم کی تحصیل کے بعد تجارت شروع کی؛ لیکن آپ کی ذہانت کو دیکھتے ہوئے علمِ حدیث کی معروف شخصیت شیخ عامر شعبی کوفیؒ (۱۷ھ- ۱۰۴ھ) -جنہیں پانچ سو سے زیادہ اصحابِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کا شرف حاصل ہے- نے آپ کو تجارت چھوڑکر مزید علمی کمال حاصل کرنے کا مشورہ دیا؛ چنانچہ آپ نے امام شعبی کے مشورہ پر علم کلام، علم حدیث اور علم فقہ کی طرف توجہ فرمائی اور ایسا کمال پیدا کیا کہ علمی وعملی دنیا میں ”امام اعظم“ کہلائے۔ آپ نے کوفہ، بصرہ اور بغداد کے بے شمار شیوخ سے علمی استفادہ کیا اور حصول علم کے لیے مکہ مکرمہ، مدینہ منورہ اور شام کے متعدد اسفار کیے۔
ایک وقت ایسا آیا کہ عباسی خلیفہ ابو جعفر منصور نے حضرت امام ابوحنیفہ کو عہدئہ قضا پیش کیا؛ لیکن آپ نے معذرت چاہی تو وہ اپنے مشورہ پر اصرار کرنے لگا؛ چنانچہ آپ نے صراحةً انکار کردیا اور قسم کھالی کہ وہ یہ عہدہ قبول نہیں کرسکتے، جس کی وجہ سے ۱۴۶ہجری میں آپ کو قید کردیا گیا۔ امام صاحب کی علمی شہرت کی وجہ سے قید خانہ میں بھی تعلیمی سلسلہ جاری رہا اور امام محمدجیسے محدث وفقیہ نے جیل میں ہی امام ابوحنیفہ سے تعلیم حاصل کی۔امام ابوحنیفہ کی مقبولیت سے خوفزدہ خلیفہٴ وقت نے امام صاحب کو زہر دلوادیا۔ جب امام صاحب کو زہر کا اثر محسوس ہوا تو سجدہ کیا اور اسی حالت میں وفات پاگئے۔ تقریباً پچاس ہزار افراد نے نمازِجنازہ پڑھی، بغداد کے خیزران قبرستان میں دفن کیے گئے۔ ۳۷۵ھ میں اس قبرستان کے قریب ایک بڑی مسجد ”جامعُ الامام الاعظم“ تعمیر کی گئی جو آج بھی موجود ہے۔ غرض ۱۵۰ھ میں صحابہ وبڑے بڑے تابعین سے روایت کرنے والا ایک عظیم محدث وفقیہ دنیا سے رخصت ہوگیا اور اس طرح صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کے خوف سے قاضی کے عہدہ کو قبول نہ کرنے والے نے اپنی جان کا نذرانہ پیش کردیا؛ تاکہ خلیفہٴ وقت اپنی مرضی کے مطابق کوئی ایسا فیصلہ نہ کراسکے جس سے مالکِ حقیقی ناراض ہوں۔
حضرت امام ابوحنیفہ کے بارے میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بشارت:
مفسر قرآن شیخ جلال الدین سیوطی شافعی مصری (۸۴۹ھ-۹۱۱ھ) نے اپنی کتاب ”تبییض الصحیفة فی مناقب الامام ابی حنیفہ رحمة اللہ“ میں بخاری ومسلم ودیگر کتب حدیث میں واردنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال: ﴿اگر ایمان ثریا ستارے کے قریب بھی ہوگا تواہل فارس میں سے بعض لوگ اس کو حاصل کرلیں گے۔(بخاری) اگر ایمان ثریا ستارے کے پاس بھی ہوگا تواہلِ فارس میں سے ایک شخص اس میں سے اپناحصہ حاصل کرلے گا۔ (مسلم) اگر علم ثریا ستارے پر بھی ہوگا تو اہل فارس میں سے ایک شخص اس کو حاصل کرلے گا۔ (طبرانی) اگر دین ثریا ستارہ پر بھی معلق ہوگا تو اہل فارس میں سے کچھ لوگ اس کو حاصل کرلیں گے۔ (طبرانی)﴾ ذکر کرنے کے بعد تحریر فرمایا ہے کہ میں کہتا ہوں کہ حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے امام ابوحنیفہ (شیخ نعمان بن ثابت) کے بارے میں ان احادیث میں بشارت دی ہے اور یہ احادیث امام صاحب کی بشارت وفضیلت کے بارے میں ایسی صریح ہیں کہ ان پر مکمل اعتماد کیا جاتا ہے۔ شیخ ابن حجر الہیتمی المکی الشافعی (۹۰۹ھ-۹۷۳ھ) نے اپنی مشہور ومعروف کتاب "الخیرات الحِسان فی مناقبِ امام أبی حنیفہ” میں تحریر کیا ہے کہ شیخ جلال الدین سیوطی کے بعض تلامذہ نے فرمایا اور جس پر ہمارے مشائخ نے بھی اعتماد کیا ہے کہ ان احادیث کی مراد بلاشبہ امام ابوحنیفہ ہیں؛ اس لیے کہ اہلِ فارس میں ان کے معاصرین میں سے کوئی بھی علم کے اس درجہ کو نہیں پہنچا جس پر امام صاحب فائز تھے۔
﴿وضاحت﴾: ان احادیث کی مراد میں اختلاف رائے ہوسکتا ہے؛ مگر عصرِ قدیم سے عصرِحاضر تک ہر زمانہ کے محدثین وفقہاء وعلماء کی ایک جماعت نے تحریر کیا ہے کہ ان احادیث سے مراد حضرت امام حنیفہ ہیں۔ علماء شوافع نے خاص طور پر اس قول کو مدلل کیا ہے، جیساکہ شافعی مکتبہٴ فکر کے دو مشہور جید علماء کے اقوال ذکر کیے گئے۔
حضرت امام ابوحنیفہ کی تابعیت:
حافظ ابن حجر عسقلانی ( جو فنِ حدیث کے امام شمار کیے جاتے ہیں) سے جب امام ابوحنیفہ کے متعلق سوال کیا گیا تو انہوں نے فرمایا کہ امام ابوحنیفہ نے صحابہٴ کرام کی ایک جماعت کو پایا ، اس لیے کہ وہ ۸۰ ہجری میں کوفہ میں پیدا ہوئے، وہاں صحابہٴ کرام میں سے حضرت عبداللہ بن اوفی موجود تھے، ان کا انتقال اس کے بعد ہوا ہے۔ بصرہ میں حضرت انس بن مالک تھے اور ان کا انتقال ۹۰ یا ۹۳ہجری میں ہوا ہے۔ ابن سعد نے اپنی سند سے بیان کیا ہے کہ اس میں کوئی حرج نہیں کہ کہا جائے کہ امام ابوحنیفہنے حضرت انس بن مالک کو دیکھا ہے اور وہ طبقہٴ تابعین میں سے ہیں۔ نیز حضرت انس بن مالک کے علاوہ بھی اس شہر میں دیگر صحابہٴ کرام اس وقت حیات تھے۔
شیخ محمد بن یوسف صالحی دمشقی شافعی نے "عقود الجمان فی مناقبِ الامام ابی حنیفہ "کے نویں باب میں ذکر کیا ہے کہ اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ امام ابوحنیفہ اس زمانہ میں پیدا ہوئے جس میں صحابہٴ کرام کی کثرت تھی۔
اکثر محدثین (جن میں امام خطیب بغدادی، علامہ نووی، علامہ ابن حجر، علامہ ذہبی، علامہ زین العابدین سخاوی، حافظ ابونعیم اصبہانی، امام دار قطنی، حافظ ابن عبدالبر اور علامہ ابن الجوزی کے نام قابل ذکر ہیں) کا یہی فیصلہ ہے کہ امام ابوحنیفہ نے حضرت انس بن مالک کو دیکھا ہے۔
محدثین ومحققین کی تشریح کے مطابق صحابی کے لیے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرنا ضروری نہیں ہے؛بلکہ دیکھنا بھی کافی ہے، اسی طرح تابعیت کا معاملہ بھی ہے کہ تابعی کہلانے کے لیے صحابیِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرنا ضروری نہیں ہے؛ بلکہ صحابی کا دیکھنا بھی کافی ہے۔ امام ابوحنیفہ نے تو صحابہٴ کرام کی ایک جماعت کو دیکھنے کے علاوہ بعض صحابہٴ کرام خاص کر حضرت انس بن مالک سے احادیث روایت بھی کی ہیں۔
غرضے کہ حضرت امام ابوحنیفہ تابعی ہیں اور آپ کا زمانہ صحابہ، تابعین اور تبعِ تابعین کا زمانہ ہے اور یہ وہ زمانہ ہے جس دور کی امانت ودیانت اور تقوی ٰ کا ذکر اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم (سورہٴ التوبہ آیت نمبر ۱۰۰) میں فرمایا ہے۔ نیز نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق یہ بہترین زمانوں میں سے ایک ہے۔ علاوہ ازیں حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حیات میں ہی حضرت امام ابوحنیفہ کے متعلق بشارت دی تھی، جیسا کہ بیان کیا جاچکا، جس سے حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کی تابعیت اور فضیلت روزِ روشن کی طرح واضح ہوجاتی ہے۔
صحابہٴ کرام سے امام ابوحنیفہ کی روایات:
امام ابومعشر عبد الکریم بن عبدالصمد طبری مقری شافعی (متوفی ۴۷۸ھ) نے ایک رسالہ تحریر فرمایا ہے جس میں انہوں نے امام ابوحنیفہ کی مختلف صحابہٴ کرام سے روایات نقل کی ہیں۔ (۱)حضرت انس بن مالک (۲) حضرت عبد اللہ بن جزاء الزبیدی (۳) حضرت جابر بن عبداللہ (۴) حضرت معقل بن یسار (۵) حضرت واثلہ بن الاسقع (۶) حضرت عائشہ بنت عجر ۔
﴿وضاحت﴾: محدثین کی ایک جماعت نے ۸ صحابہٴ کرام سے امام ابوحنیفہ کا روایت کرنا ثابت کیا ہے؛ البتہ بعض محدثین نے اس سے اختلاف کیا ہے؛ مگر امام ابوحنیفہ کے تابعی ہونے پر جمہور محدثین کا اتفاق ہے۔
فقہاء ومحدثین کی بستی- شہر کوفہ:
حضرت عمر فاروق کے عہدِ خلافت میں ملک عراق فتح ہونے کے بعد حضرت سعد بن ابی وقاص نے آپ کی اجازت سے ۱۷ ہجری میں کوفہ شہر بسایا، قبائل عرب میں سے فصحاء کو آباد کیا گیا۔ حضرت عمر فاروق نے حضرت عبد اللہ بن مسعود جیسے جلیل القدر صحابی کو وہاں بھیجا؛ تاکہ وہ قرآن وسنت کی روشنی میں لوگوں کی رہنمائی فرمائیں۔ صحابہٴ کرام کے درمیان حضرت عبداللہ بن مسعود کی علمی حیثیت مسلّم تھی، خود صحابہٴ کرام بھی مسائلِ شرعیہ میں ان سے رجوع فرماتے تھے۔ ان کے متعلق حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کتبِ حدیث میں موجود ہیں: ابن ام عبد (یعنی عبداللہ بن مسعود) کے طریق کو لازم پکڑو․․․․ جو قرآن پاک کو اُس انداز میں پڑھنا چاہیے، جیسا نازل ہوا تھا تو اُس کو چاہیے کہ ابن ام عبد (یعنی عبداللہ بن مسعود) کی قرات کے مطابق پڑھے․․․․ حضرت عمر فاروق نے حضرت عبداللہ بن مسعود کے بارے میں فرمایا کہ وہ علم سے بھرا ہوا ایک ظرف ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود نے حضرت عمر فاروق اور حضرت عثمان غنی کے عہدِ خلافت میں اہل کوفہ کو قرآن وسنت کی تعلیم دی۔ حضرت علی مرتضی کے عہدِ خلافت میں جب دارالخلافہ کوفہ منتقل کردیا گیا تو کوفہ علم کا گہوارہ بن گیا۔ صحابہٴ کرام اور تابعین عظام کی ایک جماعت خاص کر حضرت عبد اللہ بن مسعود اور ان کے شاگردوں نے اس بستی کو علم وعمل سے بھر دیا۔ صحابہٴ کرام کے درمیان فقیہ کی حیثیت رکھنے والے حضرت عبداللہ بن مسعود کا علمی ورثہ حضرت امام ابوحنیفہ کے مشہور استاذ شیخ حماد اور مشہور تابعی شیخ ابراہیم نخعی وشیخ علقمہ کے ذریعہ امام ابوحنیفہ تک پہونچا۔ شیخ حماد صحابیِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم حضرت انس بن مالک کے بھی سب سے قریب اور معتمد شاگرد ہیں۔ شیخ حماد کی صحبت میں امام ابوحنیفہ تقریباً ۱۸ سال رہے اور شیخ حماد کے انتقال کے بعد کوفہ میں ان کی مسند پر امام ابوحنیفہ کو ہی بٹھایا گیا۔ غرضے کہ امام ابوحنیفہ حضرت عبداللہ بن مسعود کے علمی ورثہ کے وارث بنے۔ اسی وجہ سے امام ابوحنیفہ حضرت عبداللہ بن مسعود کی روایات اور ان کے فیصلہ کو ترجیح دیتے ہیں، مثلاً کتبِ احادیث میں وارد حضرت عبداللہ بن مسعود کی روایات کی بناء پر امام ابوحنیفہ نے نماز میں رکوع سے قبل وبعد رفعِ یدین نہ کرنے کو سنت قرار دیا۔
حضرت عمر بن عبدالعزیز کے عہدِ خلافت میں تدوینِ حدیث اورامام ابوحنیفہ:
خلیفہ حضرت عمر بن عبد العزیزؒ (۶۱ھ-۱۰۱ھ) کے خاص اہتمام سے وقت کے دو جید محدِّث شیخ ابوبکر بن الحزم (متوفی ۱۲۰ھ) اور محمد بن شہاب زُہری (متوفی ۱۲۵ھ) کی زیر نگرانی احادیثِ رسول کو کتابی شکل میں جمع کیا گیا؛ اب تک یہ احادیث منتشر حالتوں میں سینوں میں محفوظ چلی آرہی تھیں۔ اسلامی تاریخ میں ان ہی دونوں محدث کو حدیث کا مدوِّنِ اوَّل کہا جاتا ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حیاتِ طیبہ میں عمومی طور پر احادیث لکھنے سے منع فرمادیا تھا؛تاکہ قرآن وحدیث ایک دوسرے سے مل نہ جائیں؛ البتہ بعض فقہاءِ صحابہ (جنہیں قرآن وحدیث کی عبارتوں کے درمیان فرق معلوم تھا) کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ میں بھی احادیث لکھنے کی محدود اجازت تھی۔ خلفاء راشدین کے عہد میں جب قرآن کریم تددین کے مختلف مراحل سے گزرکر ایک کتابی شکل میں امتِ مسلمہ کے ہر فرد کے پاس پہونچ گیاتو ضرورت تھی کہ قرآنِ کریم کے اصل مفسر و خاتم النّبیین وسید المرسلین حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی احایث کو بھی مدون کیا جائے؛ چنانچہ احادیثِ رسول کا مکمل ذخیرہ جو منتشر اوراق اور زبانوں پر جاری تھا، انتہائی احتیاط کے ساتھ حضرت عمر بن عبدالعزیز کی عہدِ خلافت (۹۹ھ- ۱۰۱ھ)میں مرتب کیا گیا۔ احادیثِ نبویہ کے اس ذخیرہ کی سند میں عموماًدو راوی تھے ایک صحابی اور تابعی، بعض احادیث صرف ایک سند یعنی صحابی سے مروی تھیں۔ ان احادیث کے ذخیرہ میں ضعیف یا موضوع ہونے کا احتمال بھی نہیں تھا۔ نیز یہ وہ مبارک دور تھا، جس میں اسماء الرجال کا علم باضابطہ وجود میں نہیں آیا تھا اور نہ اس کی ضرورت تھی؛ کیونکہ حدیثِ رسول بیان کرنے والے صحابہٴ کرام اور تابعین عظام یا پھر تبع تابعین حضرات تھے اور ان کی امانت ودیانت اور تقوی ٰ کا ذکر اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم (سورہٴ التوبہ آیت نمبر ۱۰۰) میں فرمایا ہے۔
حضرت امام ابوحنیفہ کو انھیں احادیث کا ذخیرہ ملا تھا؛ چنانچہ انہوں نے قرآنِ کریم اور احادیث کے اس ذخیرہ سے استفادہ فرماکر امتِ مسلمہ کو اس طرح مسائلِ شرعیہ سے واقف کرایا کہ ۱۳۰۰ سال گزرجانے کے بعد بھی تقریباً ۷۵ فیصد امت مسلمہ اس پر عمل پیرا ہے اور ایک ہزار سال سے امتِ مسلمہ کی اکثریت امام ابوحنیفہ کی تفسیر وتشریح اور وضاحت وبیان پر ہی عمل کرتی چلی آرہی ہے۔ امام ابوحنیفہ کو احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم صرف دو واسطوں (صحابی اور تابعی) سے ملی ہیں؛ بلکہ بعض احادیث امام ابوحنیفہ نے صحابہٴ کرام سے براہ راست بھی روایت کی ہیں۔ دو واسطوں سے ملی احادیث کو احادیث ثنائی کہا جاتا ہے، جو سند کے اعتبار سے حدیث کی اعلیٰ قسم شمار ہوتی ہے۔ بخاری ودیگر کتبِ حدیث میں ۲ واسطوں کی کوئی بھی حدیث موجود نہیں ہے، ۳ واسطوں والی یعنی احادیث ثلاثیات بخاری میں صرف ۲۲ ہیں، ان میں سے ۲۰ احادیث امام بخاری نے امام ابوحنیفہ کے شاگردوں سے روایت کی ہیں۔
۸۰ھ سے ۱۵۰ھ تک اسلامی حکومت اور حضرت امام ابوحنیفہ :
امام ابوحنیفہ کی ولادت ۸۰ہجری میں اُموی خلیفہ عبدالملک بن مروان کے دورِ حکومت میں ہوئی، جس کا انتقال ۸۶ہجری میں ہوا،اس کے بعد اس کا بیٹا ولید بن عبد الملک تخت نشین ہوا۔ ۱۰ سال حکمرانی کے بعد ۹۶ ہجری میں اس کا بھی انتقال ہوگیا پھر اس کا بھائی سلیمان بن عبد الملک جانشین بنا۔ ۳ سال کی حکمرانی کے بعد ۹۹ ہجری میں یہ بھی رخصت ہوا؛ لیکن سلیمان بن عبدالملک نے اپنی وفات سے قبل حضرت عمر بن عبدالعزیز کو اپنا جانشین مقرر کرکے ایسا کارنامہ انجام دیا جس کو تاریخ کبھی نہیں بھلا سکتی۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز کا دورِ خلافت (۹۹ھ-۱۰۱ھ) اگرچہ نہایت مختصر رہا؛ مگر خلافتِ راشدہ کا زمانہ لوگوں کو یاد آگیا حتی کہ رعایا میں ان کا لقب خلیفہٴ خامس (پانچواں خلیفہ) قرار پایا۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز کے دورِ خلافت میں امام ابوحنیفہکی عمر (۱۹-۲۱) سال تھی۔حضرت عمر بن عبدالعزیز کے کارناموں میں ایک اہم کارنامہ تدوینِ حدیث ہے جس کی تدوین کا مختصر بیان گزرچکا غرضے کہ تدوین حدیث کا اہم دور امام ابوحنیفہ نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ امام ابوحنیفہ نے اسلامی دور کی دو بڑی حکومتوں (بنوامیہ اور بنو عباس) کو پایا۔ خلافتِ بنو امیہ کے آخری دور میں حضرت امام ابو حنیفہ کا حکمرانوں سے اختلاف ہوگیا تھا، جس کی وجہ سے آپ مکہ مکرمہ چلے گئے اور وہیں سات سال رہے۔ خلافت بنو عباس کے قیام کے بعد آپ پھر کوفہ تشریف لے آئے۔ عباسی خلیفہ ابوجعفر منصور حکومت کی مضبوطی اور پائیداری کے لیے امام ابوحنیفہ کی تایید ونصرت چاہتا تھا، جس کے لیے اس نے ملک کا خاص عہدہ پیش کیا؛ مگر آپ نے حکومتی معاملات میں دخل اندازی سے معذرت چاہی؛ کیونکہ حکمرانوں کے اغراض ومقاصد سے امام ابوحنیفہ اچھی طرح واقف تھے۔ اسی وجہ سے ۱۴۶ ہجری میں آپ کو جیل میں قید کردیا گیا؛ لیکن جیل میں بھی آپ کی مقبولیت میں کمی نہیں آئی اور وہاں بھی آپ نے قرآن وحدیث اور فقہ کی تعلیم جاری رکھی؛ چنانچہ امام محمد نے امام ابوحنیفہ سے جیل میں ہی تعلیم حاصل کی۔ حکمرانوں نے اس پر ہی بس نہیں کیا؛ بلکہ روزانہ ۲۰ کوڑوں کی سزا بھی مقرر کی (خطیب البغدادی ج ۱۳ ص ۳۲۸)۔ ۱۵۰ہجری میں امام صاحب دارِ فانی سے دار بقاء کی طرف کوچ کرگئے۔ امام احمد بن حنبل امام ابوحنیفہ کے آزمائشی دور کو یاد کرکے رویا کرتے تھے اور ان کے لیے دعاء رحمت کیا کرتے تھے۔ (الخیراتُ الحِسان ج ۱ ص ۵۹)
حضرت امام ابوحنیفہ اور علمِ حدیث:
امام ابو حنیفہ سے احادیث کی روایت کتبِ حدیث میں کثرت سے نہ ہونے کی وجہ سے بعض لوگوں نے یہ تأثر پیش کیا ہے کہ امام ابو حنیفہ کی علم حدیث میں مہارت کم تھی؛ حالانکہ غور کریں کہ جس شخص نے صرف بیس سال کی عمر میں علم حدیث پر توجہ دی ہو، جس نے صحابہ، تابعین اور تبع تابعین کابہترین زمانہ پایا ہو، جس نے صرف ایک یا دو واسطوں سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث سنی ہوں، جس نے حضرت عبد اللہ بن مسعود جیسے جلیل القدر فقیہ صحابی کے شاگردوں سے ۱۸سال تربیت حاصل کی ہو، جس نے حضرت عمربن عبد العزیز کا عہدِ خلافت پایا ہو جو تدوینِ حدیث کا سنہرا دور دیکھاہو ، جس نے کوفہ ،بصرہ،بغداد،مکہ مکرمہ،مدینہ منورہ اور ملک شام کے ایسے اساتذہ سے احادیث پڑھی ہو جو اپنے زمانے کے بڑے بڑے محدث تھے، جس نے قرآن وحدیث کی روشنی میں ہزاروں مسائل کا استنباط کیا ہو، قرآن وحدیث کی روشنی میں کیے گئے جس کے فیصلے کو تقریباً ہزارسال کے عرصہ سے زیادہ امت مسلمہ نیز بڑے بڑے علماء ومحدثین ومفسرین تسلیم کرتے چلے آئے ہوں ، جس نے فقہ کی تدوین میں اہم رول ادا کیاہو، جو صحابیِ رسول حضرت عبداللہ بن مسعود کا علمی وارث بناہو، جس نے حضرت عبداللہ بن عباس، حضرت عبداللہ بن عمر اور حضرت عبداللہ بن مسعود جیسے فقہاء صحابہ کے شاگردوں سے علمی استفادہ کیا ہو، جس کے تلامذہ بڑے بڑے محدث ،فقیہ اور امامِ وقت بنے ہوں تو اس کے متعلق ایسا تأثر پیش کرنا صرف اور صرف بغض وعنا د اور علم کی کمی کا نتیجہ ہے۔ یہ ایسا ہی ہے کہ کوئی شخص حضرت ابوبکرصدیق ، حضرت عمر فاروق اور حضرت عثمان غنی کے متعلق کہے کہ ان کو علمِ حدیث سے معرفت کم تھی؛ کیونکہ ان سے گنتی کی چند احادیث‘ کتبِ احادیث میں مروی ہیں؛ حالانکہ ان حضرات کا کثرتِ روایت سے اجتناب دوسرے اسباب کی وجہ سے تھا، جس کی تفصیلات کتابوں میں موجود ہیں۔ غرضے کہ اما م ابوحنیفہ فقیہ ہونے کے ساتھ ساتھ عظیم محدث بھی تھے ۔
حضرت امام ابوحنیفہ اور حدیث کی مشہور کتابیں:
احادیث کی مشہور کتابیں (بخاری، مسلم، ترمذی، ابوداوٴد، نسائی، ابن ماجہ، طبرانی، بیہقی، مسند ابن حبان، مسند احمد بن حنبل وغیرہ) امام ابوحنیفہ کی وفات کے تقریباً۱۵۰ سال بعد مدون ہوئی ہیں۔ ان مذکورہ کتابوں کے مصنّفین امام ابوحنیفہ کی حیات میں موجود ہی نہیں تھے، ان میں سے اکثر امام ابوحنیفہ کے شاگردوں کے شاگرد ہیں۔ مشہور کتب حدیث کی تصنیف سے قبل ہی امام ابوحنیفہ کے مشہور شاگردوں (قاضی ابویوسف اور امام محمد) نے امام ابوحنیفہ کے حدیث اور فقہ کے دروس کو کتابی شکل میں مرتب کردیا تھاجو آج بھی دستیاب ہیں۔ مشہور کتبِ حدیث میں عموماً چار یا پانچ یا چھ واسطوں سے احادیث ذکر کی گئی ہیں؛ جب کہ امام ابوحنیفہ کے پاس زیادہ تر احادیث صرف دو واسطوں سے آئی تھیں، اس لحاظ سے امام ابوحنیفہ کو جو احادیث ملی ہیں، وہ اصحُ الاسانید کے علاوہ احادیثِ صحیحہ ، مرفوعہ، مشہورہ اور متواترہ کا مقام رکھتی ہیں۔ غرضے کہ جن احادیث کی بنیاد پر فقہِ حنفی مرتب کیا گیا، وہ عموماًسند کے اعتبار سے اعلیٰ درجہ کی ہیں۔
حضرت امام ابوحنیفہ کے اساتذہ:
امام ابوحنیفہ نے تقریباً چار ہزار مشائخ سے علم حاصل کیا، خود امام ابوحنیفہ کا قول ہے کہ میں نے کوفہ وبصرہ کا کوئی ایسا محدث نہیں چھوڑا جس سے میں نے علمی استفادہ نہ کیا ہو، تفصیلات کے لیے سوانح امام ابوحنیفہ کا مطالعہ کریں، امام ابوحنیفہ کے چند اہم اساتذہ حسب ذیل ہیں:
شیخ حماد بن ابی سلیمان (متوفی ۱۲۰ھ): شہر کوفہ کے امام وفقیہ شیخ حماد حضرت انس بن مالک کے سب سے قریب اور معتمد شاگرد ہیں، امام ابوحنیفہ ان کی صحبت میں ۱۸ سال رہے۔ ۱۲۰ ہجری میں شیخ حماد کے انتقال کے بعد امام ابوحنیفہ ہی ان کی مسند پر فائز ہوئے۔ شیخ حماد مشہور ومعروف محدث وتابعی شیخ ابراہیم نخعی کے بھی خصوصی شاگرد ہیں۔ علاوہ ازیں شیخ حماد حضرت عبداللہ بن مسعود کے علمی وارث اور نائب بھی شمار کیے جاتے ہیں۔
امام ابوحنیفہ کی دوسری بڑی درس گاہ ”شہر بصرہ“ تھی جو امام المحدثین شیخ حسن بصری (متوفی ۱۱۰ھ) کے علومِ حدیث سے مالا مال تھی؛ یہاں بھی امام ابوحنیفہ نے علمِ حدیث کا بھرپور حصہ پایا۔
شیخ عطا بن ابی رباح (متوفی ۱۱۴ھ): مکہ مکرمہ میں مقیم شیخ عطا بن ابی رباح سے بھی امام ابوحنیفہ نے بھرپور استفادہ کیا۔ شیخ عطا بن ابی رباح نے بے شمار صحابہٴ کرام خاص کر حضرت عائشہ، حضرت ابوہریرہ، حضرت ام سلمہ،حضرت عبداللہ بن عباس، حضرت عبداللہ بن عمر سے استفادہ کیا تھا۔ شیخ عطاء بن ابی رباح صحابی رسول حضرت عبد اللہ بن عمر کے خصوصی شاگرد ہیں۔
شیخ عکرمہ بربری (متوفی ۱۰۴ھ): یہ حضرت عبداللہ بن عباس کے خصوصی شاگرد ہیں۔ کم وبیش ۷۰ مشہور تابعین ان کے شاگرد ہیں، امام ابوحنیفہ بھی ان میں شامل ہیں۔مکہ مکرمہ میں امام ابوحنیفہ نے ان سے علمی استفادہ کیا۔
مدینہ منورہ کے فقہاءِ سبعہ میں سے حضرت سلیمان اور حضرت سالم بن عبداللہ بن عمر سے امام ابوحنیفہ نے احادیث کی سماعت کی ہے۔ یہ ساتوں فقہاء مشہور ومعروف تابعین تھے۔ حضرت سلیمان ام الموٴمنین حضرت میمونہ کے پروردہ غلام ہیں جب کہ حضرت سالم حضرت عمر فاروق کے پوتے ہیں، جنہوں نے اپنے والد صحابیِ رسول حضرت عبد اللہ عمر سے تعلیم حاصل کی تھی۔
ملک شام میں امام اوزاعی اور امام مکحول سے بھی امام ابوحنیفہ نے اکتسابِ علم کیا ہے۔
دیگر محدثین کے طرز پر امام ابوحنیفہ نے احادیث کی سماعت کے لیے حج کے اسفار کا بھرپور استعمال کیا؛ چنانچہ آپ نے تقریباً ۵۵ حج ادا کیے۔ حج کی ادائیگی سے قبل وبعد مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں قیام فرماکر قرآن وسنت کو سمجھنے اور سمجھانے میں وافر وقت لگایا۔ بنوامیہ کے آخری عہد میں جب امام ابوحنیفہ کا حکمرانوں سے اختلاف ہوگیا تھا تو امام ابوحنیفہ نے تقریباً ۷ سال مکہ مکرمہ میں مقیم رہ کر تعلیم وتعلم کے سلسلہ کو جاری رکھا۔
حضرت امام ابوحنیفہ کے تلامذہ:
"سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم” کے مصنف اول "علامہ شبلی نعمانی ” نے اپنی مشہور ومعروف کتاب "سیرة النعمان” میں لکھا ہے کہ امام ابوحنیفہ کے درس کا حلقہ اتنا وسیع تھا کہ خلیفہٴ وقت کی حدودِ حکومت اس سے زیادہ وسیع نہ تھیں۔ سیکڑوں علماء ومحدثین نے امام ابوحنیفہ سے علمی استفادہ کیا۔ امام شافعی فرمایا کرتے تھے کہ جو شخص علمِ فقہ میں کمال حاصل کرنا چاہے اس کو امام ابوحنیفہ کے فقہ کا رخ کرنا چاہیے، اور یہ بھی فرمایا کہ اگر امام محمد(امام ابوحنیفہ کے شاگرد) مجھے نہ ملتے تو شافعی، شافعی نہ ہوتا؛ بلکہ کچھ اور ہوتا۔ امام ابوحنیفہ کے چند مشہور شاگردوں کے نام حسب ذیل ہیں جنہوں نے اپنے استاذ کے مسلک کے مطابق درس وتدریس کا سلسلہ جاری رکھا۔ قاضی ابویوسف، امام محمد بن حسن الشیبانی، امام زفر بن ہذیل، امام یحییٰ بن سعید القطان، امام یحییٰ بن زکریا، محدث عبد اللہ بن مبارک، امام وکیع بن الجراح، اور امام داوٴد الطائی وغیرہ۔
قاضی ابویوسف (متوفی ۱۸۲ھ): آپ کا نام یعقوب بن ابراہیم انصاری ہے۔ ۱۱۳ھ یا ۱۱۷ھ میں کوفہ میں پیدا ہوئے۔ امام ابویوسف کو معاشی تنگی کی وجہ سے تعلیمی سلسلہ جاری رکھنا مشکل ہوگیا تھا؛ مگر امام ابوحنیفہ نے امام یوسف اور ان کے گھر کے تمام اخراجات برداشت کرکے ان کو تعلیم دی۔ ذہانت، تعلیمی شوق اور امام ابوحنیفہ کی خصوصی توجہ کی وجہ سے قاضی ابویوسف ایک بڑے محدث وفقیہ بن کر سامنے آئے۔فقہ حنفی کی تدوین میں قاضی ابویوسف کا اہم کردار ہے۔ عباسی دورِ حکومت میں قاضی القضاة کے عہدہ پر فائز ہوئے۔ یہ پہلا موقع تھا جب کسی کو قاضی القضاة کے عہد پر فائز کیا گیا۔ امام ابوحنیفہ سے بعض مسائل میں اختلاف بھی کیا؛ لیکن پوری زندگی خاص کر قاضی القضاة کے عہدہ پر فائز ہونے کے بعد فقہ حنفی کو ہی نشر کیا۔ مسلکِ امام ابو حنیفہ پر اصولِ فقہ کی اوّلین کتاب تحریر فرمائی۔ ۱۸۲ھ میں وفات ہوئی۔
امام محمد بن الحسن الشیبانی (متوفی ۱۸۹ھ): آپ ۱۳۱ھ میں دِمَشق میں پیدا ہوئے، پھر فقہاء ومحدثین کے شہر کوفہ چلے گئے، وہاں بڑے بڑے محدثین اور فقہاء کی صحبت پائی۔ امام ابوحنیفہ سے تقریباً دو سال جیل میں تعلیم حاصل کی۔ امام ابوحنیفہ کی وفات کے بعد قاضی ابویوسف سے تعلیم مکمل کی، پھر مدینہ منورہ جاکر امام مالک سے حدیث پڑھی۔ صرف بیس سال کی عمر میں مسندِ حدیث پر بیٹھ گئے۔ یہ فقہ حنفی کے دوسرے اہم بازو شمار کیے جاتے ہیں، اسی لیے امام ابویوسف اور امام محمد کو صاحبین کہا جاتا ہے۔امام محمد کے بے شمار شاگرد ہیں؛ لیکن امام شافعی کا نام خاص طور پر ذکر کیا جاتا ہے۔ امام محمد کی حدیث کی مشہور کتاب "موطا امام محمد” آج بھی ہر جگہ موجود ہے۔ امام محمد کی تصنیفات بہت ہیں، فقہ حنفی کا مدار انھیں کتابوں پر ہے، ان کی درج ذیل کتابیں مشہور ومعروف ہیں جو فتاویٰ حنفیہ کا مآخذ ہیں۔
المبسوط۔ الجامع الصغیر۔ الجامع الکبیر۔ الزیادات۔ السیر الصغیر۔ السیر الکبیر۔
امام زفر (متوفی ۱۵۸ھ): امام زفربن ہذیل ۱۱۰ ہجری میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی عمر میں علمِ حدیث سے خاص شغف وتعلق تھا، علامہ نووی نے ان کو اصحابُ الحدیث میں شمار کیا ہے، پھر علم فقہ کی جانب توجہ کی اور اخیر عمر تک یہی مشغلہ رہا۔ بصرہ میں قاضی کے عہدہ پر بھی فائز رہے۔ امام ابوحنیفہ کے خاص شاگردوں میں سے ہیں، آپ فقہ حنفی کے اہم ستون ہیں۔
امام یحییٰ بن سعید القطان (متوفی ۱۹۸ھ): آپ ۱۲۰ ہجری میں پیدا ہوئے۔ علامہ ذہبی نے تحریر کیا ہے کہ فن اسماء الرجال (سند حدیث پر بحث کا علم) سب سے پہلے انہوں نے ہی شروع کیا ہے۔ پھر اس کے بعد دیگر حضرات، مثلاً امام یحییٰ بن معین نے اس علم کو باقاعدہ فن کی شکل دی۔ امام یحییٰ بن سعید القطان نے امام ابوحنیفہ سے علمی استفادہ کیا ہے۔
امام عبداللّٰہ بن مبارک (متوفی ۱۸۱ھ): یہ بھی امام ابوحنیفہ کے شاگردوں میں سے ہیں۔ علم حدیث میں بڑی مہارت حاصل کی، یہاں تک کہ امیر الموٴمنین فی الحدیث کا لقب ملا۔ ۱۱۸ ہجری میں پیدا ہوئے اور ۱۸۱ ہجری میں وفات پائی۔ امام عبداللہ بن مبارک کا قول ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ ابوحنیفہ اور سفیان ثوری کے ذریعہ میری مدد نہ فرماتے تو میں ایک عام انسان سے بڑھ کر کچھ نہ ہوتا۔
تدوینِ فقہ:
عصر قدیم وجدید میں علم فقہ کی تعریف مختلف الفاظ میں کی گئی ہے؛ مگر اُن کا خلاصہٴ کلام یہ ہے کہ قرآن وحدیث کی روشنی میں احکامِ شرعیہ کا جاننا فقہ کہلاتا ہے۔ احکام شرعیہ کے جاننے کے لیے سب سے پہلے قرآن کریم اور پھر احادیث کی طرف رجوع کیا جاتا ہے۔ قرآن وحدیث میں کسی مسئلہ کی وضاحت نہ ملنے پر اجماع اورقیاس کی طرف رجوع کیا جاتا ہے۔
فقہ کو سمجھنے سے قبل‘ امام ابوحنیفہ کے ایک اہم اصول وضابطہ کو ذہن میں رکھیں کہ میں پہلے کتاب اللہ اور سنتِ نبوی کو اختیار کرتا ہوں، جب کوئی مسئلہ کتاب اللہ اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں نہیں ملتا تو صحابہٴ کرام کے اقوال واعمال کو اختیار کرتا ہوں۔ اس کے بعد دوسروں کے فتاویٰ کے ساتھ اپنے اجتہاد وقیاس پر توجہ دیتا ہوں۔ اسی طرح امام ابوحنیفہ کا یہ اصول ہے کہ اگرمجھے کسی مسئلہ میں کوئی حدیث مل جائے خواہ اس کی سند ضعیف بھی ہو تو میں اپنے اجتہاد وقیاس کو ترک کرکے اس کو قبول کرتا ہوں۔ یہ امام ابوحنیفہ کا اپنا خود بنایا ہوا اصول نہیں ہے؛ بلکہ اُس مشہور حدیث کی اتباع ہے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ بن جبل کو وصیت فرمائی تھی۔
فقہ حنفی کا مدار صحابیِ رسول حضرت عبداللہ بن مسعود کی ذات اقدس پر ہے اور اس فقہ کی بنیاد وہ احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جن کو حضرت عبداللہ بن مسعود روایت کرتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ہی حضرت عبداللہ بن مسعود سے صحابہٴ کرام مسائلِ شرعیہ معلوم کرتے تھے۔ کوفہ شہر میں حضرت عبداللہ بن مسعود قرآن وحدیث کی روشنی میں لوگوں کی رہنمائی فرماتے تھے۔ حضرت علقمہ بن قیس کوفی اور حضرت اسودبن یزید کوفی حضرت عبداللہ بن مسعود کے خاص شاگرد ہیں۔ حضرت عبداللہ بن مسعود خود فرماتے تھے کہ جو کچھ میں نے پڑھا لکھا اور حاصل کیا وہ سب کچھ علقمہ کو دیدیا، اب میری معلومات علقمہ سے زیادہ نہیں ہے۔ حضرت علقمہ اور حضرت اسود کے انتقال کے بعد حضرت ابراہیم نخعی کوفی مسند نشین ہوئے اور علم فقہ کو بہت کچھ وسعت دی یہاں تک کہ انھیں "فقیہِ عراق” کا لقب ملا۔ حضرت ابراہیم نخعی کوفی کے زمانے میں فقہ کا غیر مرتب ذخیرہ جمع ہوگیا تھا جو ان کے شاگردوں نے خاص کر حضرت حماد کوفی نے محفوظ کررکھا تھا۔ حضرت حماد کے اس ذخیرہ کو امام ابوحنیفہ کوفی نے اپنے شاگردوں خاص کر امام ابو یوسف، امام محمد اور امام زفر کو بہت منظم شکل میں پیش کردیاجو انہوں نے باقاعدہ کتابوں میں مرتب کردیا، یہ کتابیں آج بھی موجود ہیں۔ اس طرح امام ابوحنیفہ حضرت عبداللہ بن مسعود کے دو واسطوں سے حقیقی وارث بنے اور امام ابوحنیفہ کے ذریعہ حضرت عبداللہ بن مسعود نے قرآن وسنت کی روشنی میں جو سمجھا تھا وہ امت مسلمہ کو پہونچ گیا۔ غرضے کہ فقہ حنفی کی تدوین اُس دور کا کارنامہ ہے جس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمنے خیر القرون قرار دیا اور احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم مکمل حفاظت کے ساتھ اسی زمانہ میں کتابی شکل میں مرتب کی گئیں۔
﴿وضاحت﴾: ان دنوں بعض ناواقف حضرات فقہ کا ہی انکار کرنا شروع کردیتے ہیں حالانکہ قرآن وحدیث کو سمجھ کر پڑھنا اور اس سے مسائل شرعیہ کا استنباط کرنا فقہ ہے۔نیز قرآن وحدیث میں متعدد جگہ فقہ کا ذکر بھی وضاحت کے ساتھ موجود ہے۔ مشہور کتب حدیث (بخاری، مسلم، ترمذی، ابوداوٴد، نسائی، ابن ماجہ، طبرانی، بیہقی، مسند ابن حبان، مسند احمد بن حنبل وغیرہ) کی تالیف سے قبل ہی امام ابوحنیفہ کے شاگردوں نے فقہ حنفی کو کتابوں میں مرتب کردیا تھا۔ اگر واقعی فقہ قابل رد ہے تو مذکورہ کتبِ حدیث کے مصنفوں نے اپنی کتاب میں فقہ کی تردید میں کوئی باب کیوں نہیں بنایا؟ یا کوئی دوسری مستقل کتاب فقہ کی تردید میں کیوں تصنیف نہیں کی؟ غرضے کہ یہ ان حضرات کی ہٹ دھرمی ہے ورنہ قرآن وحدیث کو سمجھ کر مسائل کا استنباط کرنا ہی فقہ کہلاتا ہے جسے جمہور محدثین ومفسرین وعلماء امت نے تسلیم کیا ہے۔
﴿نقطہ﴾: فقہ حنفی کا یہ خصوصی امتیاز ہے کہ سابقہ حکومتوں (خاص کر عباسیہ وعثمانیہ حکومت) کا ۸۰ فیصد قانونِ عدالت وفوجداری فقہ حنفی رہا ہے اور آج بھی بیشتر مسلم ممالک کا قانون عدالت فقہ حنفی پر قائم ہے، جو قرآن وحدیث کی روشنی میں بنائے گئے ہیں۔
امام ابوحنیفہ کی کتابیں:
امام ابوحنیفہ نے دوران ِدرس جو احادیث بیان کی ہیں انھیں شاگردوں نے ”حَدَّثَنَا“ اور ”اَخْبَرَنَا“ وغیرہ الفاظ کے ساتھ جمع کردیا۔امام ابوحنیفہ کے درسی افادات کا نام "کتاب الآثار” ہے، جو دوسری صدی ہجری میں مرتب ہوئی، اس زمانہ تک کتابوں کی تالیف بہت زیادہ عام نہیں تھی۔ "کتاب الآثار”اس دور کی پہلی کتاب ہے جس نے بعد کے آنے والے محدثین کے لیے ترتیب وتبویب کے راہ نما اصول فراہم کیے۔ علامہ شبلی نعمانی نے "کتاب الآثار”کے متعدد نسخوں کی نشاندہی کی ہے؛ لیکن عام شہرت چار نسخوں کو حاصل ہے۔ ان نسخوں میں سے امام محمد کی روایت کردہ کتاب کو سب سے زیادہ شہرت ومقبولیت حاصل ہوئی۔
مشہور محقق عالم مولانا عبدالرشید نعمانی نے ”کتابُ الآثار“ کے مقدمہ میں قوی روایتوں کی روشنی میں لکھا ہے کہ کتاب الآثار براہِ راست امام ابوحنیفہ کی تالیف ہے، امام محمد، امام ابویوسف، امام زفر وغیرہ اس کے راوی ہیں۔ (مرتب)
"کتابُ الآثار” بہ روایت امام محمد
"کتابُ الآثار” بہ روایت قاضی ابویوسف
"کتابُ الآثار” بہ روایت امام زفر
"کتابُ الآثار” بہ روایت امام حسن بن زیاد
مسانید امام ابوحنیفہ:
علماء کرام نے امام ابوحنیفہ کی پندرہ مسانید شمار کی ہیں جن میں ائمہ دین اور حفاظِ حدیث نے آپ کی روایات کو جمع کرکے ہمیشہ کے لیے محفوظ کردیا، ان میں سے مسند امام اعظم علمی دنیا میں مشہور ہے ، جس کی متعدد شروحات بھی تحریر کی گئی ہیں۔ اس سلسلہ میں سب سے بڑا کام ملک شام کے امام ابوالموائد خوارزمی (متوفی ۶۶۵ھ) نے کیا ہے جنہوں نے تمام مسانید کو بڑی ضخیم کتاب ”جامع المسانید“کے نام سے جمع کیا ہے۔
حضرت امام ابوحنیفہ کے مشہور شاگرد امام محمد کی مشہور ومعروف کتابیں بھی فقہ حنفی کے اہم مآخد ہیں۔
المبسوط۔ الجامع الصغیر۔ الجامع الکبیر۔ الزیادات۔ السیر الصغیر۔ السیر الکبیر۔
حضرت امام ابوحنیفہ کا تقویٰ :
کتاب وسنت کی تعلیم اور فقہ کی تدوین کے ساتھ امام صاحب نے زہد وتقویٰ اور عبادت میں پوری زندگی بسر کی۔ رات کا بیشتر حصہ اللہ تعالیٰ کے سامنے رونے، نفل نماز پڑھنے اور تلاوت قرآن کرنے میں گزارتے تھے۔ امام صاحب نے علم دین کی خدمت کو ذریعہٴ معاش نہیں بنایا ؛ بلکہ معاش کے لیے ریشم بنانے اور ریشمی کپڑے تیار کرنے کا بڑا کارخانہ تھا جو صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عمروبن حریث کے گھر میں چلتا تھا۔ امام ابوحنیفہ کا تعلق خوشحال گھرانے سے تھا اس لیے لوگوں کی خاص طور سے اپنے شاگردوں کی بہت مدد کیا کرتے تھے۔ آپ نے ۵۵ حج ادا کیے۔
حضرت امام ابوحنیفہ کی شان میں بعض علماء امت کے اقوال:
* امام علی بن صالح (متوفی ۱۵۱ھ) نے امام ابوحنیفہ کی وفات پر فرمایا: عراق کا مفتی اور فقیہ گزر گیا۔ (مناقب ذہبی ص ۱۸)
* امام مسعر بن کدام (متوفی ۱۵۳ھ) فرماتے تھے کہ کوفہ کے دو کے سوا کسی اور پر رشک نہیں آتا۔ امام ابوحنیفہ اور اور ان کا فقہ، دوسرے شیخ حسن بن صالح اور ان کا زہد وقناعت۔ (تاریخ بغداد ج ۱۴ ص ۳۲۸)
* ملک شام کے فقیہ ومحدث امام اوزاعی (متوفی ۱۵۷ ھ)فرماتے تھے کہ امام ابوحنیفہ پیچیدہ مسائل کو سب اہل علم سے زیادہ جاننے والے تھے۔ (مناقب کردی ص ۹۰)
* امام داوٴد الطائی (متوفی ۱۶۰ھ) فرماتے تھے کہ امام ابوحنیفہ کے پاس وہ علم تھا جس کو اہل ایمان کے دل قبول کرتے ہیں۔ (الخیرات الحسان ص ۳۲)۔
* امام سفیان ثوری (متوفی ۱۶۷ھ) کے پاس ایک شخص امام ابوحنیفہ سے ملاقات کرکے آیا۔ امام سفیان ثوری نے فرمایا تم روئے زمین کے سب سے بڑے فقیہ کے پاس سے آرہے ہو۔ (الخیرات الحسان ص ۳۲)
* امام مالک بن انس (متوفی ۱۷۹ھ) فرماتے ہیں کہ میں نے ابوحنیفہ جیسا انسان نہیں دیکھا۔ (الخیرات الحسان ص ۲۸)
* امام وکیع بن الجراح (متوفی ۱۹۵ ھ) فرماتے ہیں کہ امام ابوحنیفہ سے بڑا فقیہ اور کسی کو نہیں دیکھا۔
* امام یحییٰ بن معین (متوفی ۲۳۳ھ) امام ابوحنیفہ کے قول پر فتویٰ دیا کرتے تھے اور ان کی احادیث کے حافظ بھی تھے۔ انہوں نے امام ابوحنیفہ کی بہت ساری احادیث سنی ہیں۔ (جامع بیان العلم، علامہ ابن عبد البر، ج ۲ ص ۱۴۹)
* امام سفیان بن عینیہ (متوفی ۱۹۸ھ) فرماتے تھے کہ میری آنکھوں نے ابوحنیفہ جیسا انسان نہیں دیکھا۔ دو چیزوں کے بارے میں خیال تھا کہ وہ شہر کوفہ سے باہر نہ جائیں گی؛ مگر وہ زمین کے آخری کناروں تک پہنچ گئیں۔ ایک امام حمزہ کی قرأت اور دوسری ابوحنیفہ کا فقہ۔ (تاریخ بغداد۔ ج۱۳ ص ۳۴۷)
* امام شافعی (متوفی ۲۰۴ھ) فرماتے ہیں کہ ہم سب علم فقہ میں امام ابوحنیفہ کے محتاج ہیں۔ جو شخص علم فقہ میں مہارت حاصل کرنا چاہے وہ امام ابوحنیفہ کا محتاج ہوگا۔ (تاریخ بغداد ج ۲۳ ص ۱۶۱)
* امام بخاری کے استاذ امام مکی بن ابراہیم فرماتے ہیں کہ امام ابوحنیفہ پرہیزگار، عالم آخرت کے راغب اور اپنے معاصرین میں سب سے بڑے حافظ حدیث تھے۔ (مناقب الامام ابی حنیفہ ۔ شیخ موفق بن احمد مکی)
* امام موفق بن احمد مکی ‘ امام بکر بن محمد زرنجری (متوفی ۱۵۲ھ) کے حوالہ سے تحریر کرتے ہیں کہ امام ابوحنیفہ نے کتاب الآثار کا انتخاب چالیس ہزار احادیث سے کیا ہے۔ (مناقب امام ابی حنیفہ)
حضرت امام ابوحنیفہ کے علوم کا نفع:
حضرت امام ابوحنیفہ کے انتقال کے بعد آپ کے شاگردوں نے حضرت امام ابوحنیفہ کے قرآن وحدیث وفقہ کے دروس کو کتابی شکل دے کر ان کے علم کے نفع کو بہت عام کردیا،خاص کر جب آپ کے شاگرد قاضی ابویوسف عباسی حکومت میں قاضی القضاة کے عہدہ پر فائز ہوئے تو انہوں نے قرآن وحدیث کی روشنی میں امام ابوحنیفہ کے فیصلوں سے حکومتی سطح پر عوام کو متعارف کرایا؛ چنانچہ چند ہی سالوں میں فقہ حنفی دنیا کے کونے کونے میں رائج ہوگیا اور اس کے بعد یہ سلسلہ برابر جاری رہا حتی کہ عباسی وعثمانی حکومت میں مذہب ابی حنیفہ کو سرکاری حیثیت دے دی گئی؛ چنانچہ آج ۱۴۰۰ سال گزرجانے کے بعد بھی تقریباً ۷۵ فیصد امت مسلمہ اس پر عمل پیرا ہے اور اب تک امت مسلمہ کی اکثریت امام ابوحنیفہ کی قرآن وحدیث کی تفسیر وتشریح اور وضاحت وبیان پر ہی عمل کرتی چلی آرہی ہے۔ ہندوستان، پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان کے مسلمانوں کی بڑی اکثریت جو دنیا میں مسلم آبادی کا ۶۰ فیصد سے زیادہ ہے، اسی طرح ترکی اور روس سے الگ ہونے والے ممالک نیز عرب ممالک کی ایک جماعت قرآن وحدیث کی روشنی میں امام ابوحنیفہ کے ہی فیصلوں پر عمل پیرا ہیں۔
مصادر ومراجع:
حضرت امام ابوحنیفہ کی شخصیت پر جتنا کچھ مختلف زبانوں خاص کر عربی زبان میں تحریر کیا گیا ہے وہ عموماً دوسرے کسی محدث یا فقیہ یا عالم پر تحریر نہیں کیا گیا۔ یہ امام ابوحنیفہ کی علمی وعملی خدمات کے قبول ہونے کی بہ ظاہر علامت ہے۔ حضرت امام ابوحنیفہکی شخصیت کے مختلف پہلوں پر جو کتابیں تحریر کی گئی ہیں،ان میں سے بعض کے نام حسب ذیل ہیں۔ شیخ جلال الدین سیوطی کی کتاب”تبییض الصحیفة فی مناقب الامام ابی حنیفہ” سے خصوصی استفادہ کرکے اس مضمون کو تحریر کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان تمام مصنفوں کو اجرِ عظیم عطا فرمائے۔ آمین، ثم آمین۔
امام ابوحنیفہ کی سوانح حیات سے متعلق بعض عربی کتابیں:
مناقب الامام الاعظم: شیخ ملا علی قاری (متوفی ۱۰۱۴ھ)
ترجمة الامام الاعظم ابی حنیفة النعمان بن ثابت: امام خطیب بغدادی (متوفی ۳۹۲ھ)
تبییض الصحیفة بمناقب ابی حنیفة: علامہ جلال الدین سیوطی مصری شافعی ( متوفی ۹۱۱ھ)
تحفة السلطان فی مناقب النعمان : شیخ قاضی محمد بن الحسن بن کاس ابوالقاسم( متوفی ٰ ۳۲۴ھ)
عقود المرجان فی مناقب ابی حنیفہ النعمان: شیخ ابوجعفر احمد بن محمد مصری الطحاوی (متوفی ۳۲۱ھ)
عقود الجمان فی مناقب الامام الاعظم ابو حنیفة النعمان: شیخ محمد بن یوسف صالحی (متوفی ۹۴۳ھ)
عقود الجمان فی مناقب الامام الاعظم ابو حنیفة النعمان: رسالہ مقدمہ لنیل درجة المانجستر ۔ مولوی محمد ملا عبد القادر الافغانی
اخبار ابی حنیفة واصحابہ: شیخ قاضی ابی عبد اللہ حسین بن علی الصیمری (متوفی ۴۳۶ھ)
فضائل ابی حنیفة واخبارہ ومناقبہ : شیخ ابو القاسم عبد اللہ بن محمد(المعروف ب ابی عوام) متوفی ۳۳۰ھ
الانتقاء (ایک باب) : حافظ ابن عبدالبر
شقائق النعمان فی مناقب ابی حنیفة النعمان: جار اللہ ابو القاسم الزمخشری (متوفی ۵۳۸ھ)
الخیرات الحسان فی مناقب الامام الاعظم ابی حنیفة النعمان: شیخ مفتی الحجاز شیخ شہاب الدین احمد بن حجر ہیتمی مکی (متوفی ۹۷۳ھ)
کتاب منازل الائمة الاربعة: امام ابو زکریا یحی بن ابراہیم ( متوفی ۵۵۰ھ)
مناقب الامام ابی حنیفة وصاحبیہ ابی یوسف ومحمد بن الحسن: امام حافظ ابی عبد اللہ محمد بن احمد عثمان ذہبی (متوفی ۷۴۸ھ)
کتاب مکانة الامام ابی حنیفہ فی علم الحدیث: شیخ محمد عبدالرشید النعمانی الہندی۔ تحقیق شیخ عبدالفتاح ابوغدہ
ابوحنیفہ النعمان وآرائہ الکلامیہ: شیخ شمس الدین محمد عبداللطیف مصری
ابوحنیفہ النعمان (امام الائمہ الفقہاء): شیخ وہبی سلیمان غاوجی
تانیب الخطیب علی ما ساقہ فی ترجمة ابی حنیفہ من الاکاذیب: شیخ محمد زاہد بن الحسن الکوثری
ابوحنیفہ ۔ حیاتہ وعصرہ ۔ آرائہ وفقہہ: شیخ محمد ابوزہرہ
مناقب الامام الاعظم ابی حنیفة (الجزء الاول والثانی): موفق بن احمد المکی ، محمد بن محمد بن شہاب ابن البزار الکردی ۔
ائمة الفقہ الاسلامی: ابوحنیفہ، شافعی، مالک، ابن حنبل: شیخ نوح بن مصطفی رومی حنفی
مناقب الامام الاعظم ابی حنیفہ: شیخ موفق بن احمد الخوارزمی
الجواہر المضےئة فی تراجم الحنفیہ: شیخ عبدالقادر القرشی
حیاة ابی حنیفہ: شیخ سید عفیفی
نشر الصحیفة فی ذکر الصحیح من اقوال ائمة الجرح والتعدیل فی ابی حنیفة: شیخ ابی عبد الرحمن مقبل بن ہاوی الوادی (متوفی ۱۴۲۲ھ)
تحفة الاخوان فی مناقب ابی حنیفة : علامہ احمد عبد الباری عاموہ الحدیدی
التعلیقات الحسان علی تحفة الاخوان فی مناقب ابی حنیفة : علامہ محمد احمد محمد عاموہ
عقود الجواہر المنیفة فی أدلة مذہب الامام ابی حنیفة : علامہ محدث السید محمد مرتضیٰ الزبیدی حسینی حنفی (متوفی ۱۲۰۵ھ)
امام ابوحنیفہ کی سوانح حیات سے متعلق بعض اردو کتابیں:
سیرة النعمان: علامہ شبلی نعمانی
سیرة ائمہ اربعة: قاضی اطہر مبارکپوری
حضرت امام ابوحنیفہ کی سیاسی زندگی: مولانا مناظر احسن گیلانی
مقام ابی حنیفہ : مولانا سرفراز صفدر خان
امام اعظم اور علم الحدیث: مولانا محمد علی صدیقی کاندھلوی
امام اعظم ابو حنیفة : حالات وکمالات ،ملفوظات: ڈاکٹر مولانا خلیل احمد تھانوی (ترجمة تبییض الصحیفة فی مناقب الامام ابی حنیفة )
تقلید ائمہ اور مقام امام ابوحنیفہ: مولانا محمد اسمٰعیل سنبھلی (راقم الحروف کے حقیقی دادا محترم)
امام اعظم ابو حنیفة ، حیات وکارنامے: مولانا محمد عبد الرحمن مظاہری
حضرت امام ابوحنیفہ پر ارجاء کی تہمت : مولانا نعمت اللہ اعظمی صاحب
علم حدیث میں امام ابو حنیفہ کا مقام ومرتبہ: مولانا حبیب الرحمن اعظمی صاحب ایڈیٹر ماہ نامہ دارالعلوم دیوبند
امام اعظم ابوحنیفة اور معترضین (کشف الغمة بسراج الائمة): مولانا مفتی سید مہدی حسن شاہجہان پوری سابق صدرمفتی دارالعلوم دیوبند
فقاہت امام اعظم ابو حنیفہ : مولانا خدا بخش صاحب ربانی
ملفوظات امام حنیفة : مفتی محمد اشرف عثمانی
حدائق الحنفیة (امام ابوحنیفہ سے ۱۳۰۰ ہجری تک دنیا بھر کے ایک ہزار سے زائد حنفی علماء وفقہاء کا ذکر): مولوی فقیر احمد جہلمی
حضرت امام ابوحنیفہ کے ۱۱۰ سو قصے: مولانا محمد اویس سرور
امام اعظم ابوحنیفہ کے حیرت انگیز واقعات: مولانا عبد القیوم حقانی
امام ابوحنیفہ کی تابعیت اور صحابہ سے ان کی روایت: مولانا عبد الشہید نعمانی
امام اعظم ابوحنیفہ شہید اہل بیت : مفتی ابو الحسن شریف اللہ الکوثری
الطریق الاسلم اردو شرح مسند الامام الاعظم : مولانا محمد ظفر اقبال صاحب
امام ابو حنفیہ کی محدثانہ حیثیت : مولانا سید نصیب علی شاہ الہاشمی ۔ مولانا مفتی نعمت حقانی ۔
امام ابو حنیفہ کا عادلانہ دفاع (علامہ کوثری کی کتاب تانیب الخطیب کا اردو ترجمہ): حافظ عبدالقدوس خان
حیات حضرت امام ابوحنیفہ (شیخ ابوزہرہ مصری کی عربی کتاب کا ترجمہ): پروفیسر غلام احمد حریری
امام ابوحنیفہ کی سوانح حیات سے متعلق انگریزی زبان میں بھی متعدد کتابیں شائع ہوئی ہیں؛ لیکن علامہ شبلی نعمانی کی کتاب Imam Abu Hanifah: Life and Worksکا مطالعہ انتہائی مفید ہے۔
اعلاء السنن:
ماضی قریب کے جید عالم ومحدث شیخ ظفر احمد عثمانی تھانوی نے حضرت امام ابوحنیفہ اور ان کے شاگردوں سے منقول تمام مسائل فقیہہ کو ۲۲ جلدوں میں احادیث نبویہ سے مدلل کیا ہے۔ملک شا م کے مشہور حنفی عالم شیخ عبدالفتاح ابوغدہ (متوفی ۱۴۱۷ھ) نے اس کتاب کی تقریظ تحریر فرمائی ہے۔ عربی زبان میں تحریر کردہ اس عظیم کتاب کی ۲۲ ضخیم جلدیں ہیں جو عرب وعجم میں آسانی سے حاصل کی جاسکتی ہیں حتی کہ انٹرنیٹ کے ذریعہ مفت Download کرنا بھی ممکن ہے۔ (http://www.waqfeya.com/book.php?bid=2378)
اللہ تعالیٰ اس خدمت کو قبول فرماکر اجر عظیم عطا فرمائے۔ آمین ، ثم آمین۔
***
——————————————
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ 12 ، جلد: 96 ، صفر 1434 ہجری مطابق دسمبر 2012ء