از: ڈاکٹر اجمل فاروقی
شیطانی فلم کے خلاف امریکی حکمرانوں اور ترجمانوں نے انتہائی گستاخانہ طنز آمیز بیانات جاری کرکے اپنی شیطنت پر پردہ ڈالنا چاہا ہے، اور انھیں کی لَےْ میں لَےْ ہمارے کچھ علما ، نام نہاد دانشور اور اردو میڈیا کے بعض حضرات بھی ملارہے ہیں۔ ایک گھر یا ایک ادارہ کے آپ ذمہ دار ہیں، آپ کے کارکنوں میں سے ایک خلافِ قانون یا خلافِ تہذیب حرکت کرتاہے، مثلاً ایک راہ گیر کے پتھر ماردیتا ہے، وہ آپ کے پاس شکایت لے آتا ہے، آپ کہتے ہیں: مجھے افسوس ہے کہ میں آپ کے دکھ پر افسوس کرتا ہوں، آپ کہتے ہیں اپنے ملازم کو سزا دیجیے، وہ آئندہ سے ایسا نہ کرے، وہ کہتاہے یہ نہیں ہوسکتا، یہ تواس کی آزادی پر پابندی لگانے والی بات ہے۔ ہماری تہذیب میں ایسا نہیں ہوتا۔ بتائیے ایسے میں شکایت کرنے والا فرد کیاکرے گا؟ ہمارے نام نہاد دانشوران نے ایک جملہ رٹ لیاہے ”یہ تو ان کی سازش ہے، وہ اشتعال دلانا چاہتے ہیں، ہماری امیج خراب کرنا چاہتے ہیں، دنیا کو بتانا چاہتے ہیں کہ مسلمان خونخوار ہیں، دہشت گرد ہیں، ہمیں صبر وضبط وحکمت اور ہوش سے کام لینا چاہیے۔“ حالاں کہ امریکی حکمرانوں نے اپنے بیانات سے اپنی نیت صاف کردی ہے۔ یورپ کے بڑے مسلم آبادی والے ملک فرانس میں کارٹون کی اشاعت اورحکومتی سطح پر اس کی حمایت اور احتجاج پر پابندی کے ذریعہ اپنا عندیہ واضح کردیا ہے کہ وہ آئندہ بھی اس طرح کی مذموم حرکتیں جاری رکھنے پر پابندی نہیں لگائیں گے۔ اس مسئلہ پر خاص طورپر اقوامِ متحدہ میں اوبامہ اور اس کے نمائندہ الان چیمبرلن (Allen Chamberlain) نے جلے ہوئے پر نمک چھڑکتے ہوئے کہا کہ ”ہمیں افسوس ہے مگر ہم دنیا میں ہر جگہ انسانی حقوق اور حقِ اظہار رائے کی حفاظت کریں گے۔“ اور اس طرح طنز بھی کیاکہ جہاں اظہارِ رائے کی آزادی نہیں ہے، وہیں تشدد، غریبی اورانتہا پسندی پائی جاتی ہے۔ میں اپنے دانشور علماء اور بزرگان سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ مندرجہ بالا بیان پڑھ کر انصاف سے بتائیں کہ اس میں افسوس کا اظہار ہے یا اپنی جہالت اور شرارت پر اصرار اور ملتِ اسلامیہ پر طنز ہے۔ یہ مغربی بھیڑیے کتنے جمہوریت پسند، انسانی حقوق کے دل دادہ اور حقِ اظہار رائے کے حمایتی ہیں، اس پر الجیریا سے لے کرہندوستان تک کروڑوں بے گناہوں کا خون اور صدیوں کی غلامی گواہ ہے۔ ان کی جمہوریت نے کتنی جمہوریتوں کا گلا گھونٹا ہے اورآج بھی گلا گھونٹوارہے ہیں۔ ساری دنیا میں مسلمانوں کے احتجاج میں چار امریکی ہلاک ہوگئے تو سارے میڈیا آسمان سر پراٹھائے ہوئے ہیں؛ مگر عراق پر بُش کے اقوامِ متحدہ کی اجازت کے بغیرکیے گئے حملے میں پانچ لاکھ سے زیادہ معصوم بچے، بوڑھے، خواتین شہید کیے گئے تب میڈیاچپ رہا؟ جو میڈیا اور مسلم دانشور اس وقت چپ بیٹھے رہے، جب گوانتا موبے اور ابوغریب میں امریکی حکومت کی مرضی قرآن پاک کی بے حرمتی کو ایک تعذیبی ہتھکنڈہ (Torture Tool) کی طرح بار بار استعمال کیاگیا۔ قرآن کو جوتوں کی ٹھوکریں ماری گئیں اوراسے فلش بھی کیاگیا؛ تاکہ قیدی برداشت نہ کرکے اپنے راز اُگل دیں۔ یہ سب ریکارڈ میں محفوظ ہے۔ وکی لیکس میں بھی محفوظ ہے۔ گردنوں میں پٹہ ڈال کر خبیث امریکی خاتون فوجی کی فوٹولوگوں کو ابھی بھی یاد ہے۔ اس وقت یہ واعظین اور صبر اور حکمت کی تلقین کرنے والے کہاں تھے؟ مسلمانوں کو گردن جھکاکر جینے اور شعائرِ اسلام اور پیغمبرِ آخرالزماں صلی اللہ علیہ وسلم کی کردار کشی پر مظاہرہ کرنے والوں کوجذباتی، بیوقوف اور صبر وحکمت سے عاری بتانے والے کہاں تھے؟ اور ابھی یہ سلسلہ رکا کہاں ہے؟ پچھلے ہی دنوں افغانستان میں قرآن سوزی امریکی فوجیوں کے ذریعہ کی گئی۔ اس پر دنیا میں کوئی ہنگامہ نہیں ہوا۔ افغانستان کو چھوڑ کر دنیا نے مسلمانوں کو کیا تمغے عطا کیے۔ کتنے غیرمسلم اسلام لے آئے کہ مسلمانوں نے بڑے اونچے اخلاق کا مظاہرہ کیا اور قرآن سوزی کے واقعات کے باوجود آرام سے قورمہ، نہاری کھارہے ہیں اور T-20 کا مزہ لے رہے ہیں؟
علم وحکمت کے ٹھیکیداروں سے سوال یہ ہے کہ ۵۶ ملکوں اور ڈیڑھ ارب آبادی والی اُمّتِ مسلمہ پر شعائرِ اسلام کی بے حرمتی ہونے پر کوئی شرعی ذمہ داری حکومتی اور اجتماعی سطح پر عائد ہوتی ہے یا نہیں؟ جس طرح امریکہ عافیہ صدیقی، خالد شیخ، ابوحمزہ مصری کو زبردستی اغوا کرکے قانوناً ملک بدر کرالیتا ہے۔ یہ ۵۶ مسلم ملک ایسا کیوں نہیں کرتے؟ اگر یہ ایسا نہیں کرتے تب ملت میں مایوسی، بے مائیگی اور انتشار پھیلتا ہے۔ جب اجتماعیت کے سربراہ مجرمانہ خاموشی یادکھاوے والی کارروائیاں کرکے عوام کو بے وقوف بنانا چاہتے ہیں، تب عوام اپنے طور پر فیصلہ کرتی ہے۔ خواص اور نام نہاد دانشوروں اور صحافیوں کے امریکی دوروں اور مدرسوں اور جامعہ ملیہ ومسلم یونیورسٹی اور اسلامک کلچر سینٹر دہلی وغیرہ میں امریکی سفارت کاروں کی بار بار کی آمد اور نوازشوں کے طفیل عراق پر امریکی حملہ کے بعد سے لگاتار مسلم قائدین اور اردو صحافت میں ایمانی بے حسی بڑھی ہے۔ گوکہ اس کے عنوانات بہت خوشنما صبر، حکمت اور ہوش مندی وغیرہ کے ہی ہیں۔ اگر یہ مغرب کی سازش کا ایک پہلو ہوسکتا ہے کہ وہ ہمیں چھیڑکر اس کے ردعمل کے ذریعہ ہماری منفی تصویر دکھانا چاہتا ہے تو کیا ایک پہلو یہ نہیں ہوسکتا کہ وہ دھیرے دھیرے ملت کے اندر سے ایمانی غیرت، حمیت، حس اور اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم، قرآن، کعبہ کی بے توقیری کا ماحول پیدا کردے۔ آج رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے کارٹون اور کردارکشی پر ہم چپ رہیں تو خدا نخواستہ جب کل کعبہ مشرفہ پر حملہ ہو، جیسا کہ امریکی فوج کے تربیتی اسکول میں حال تک تربیت کی جاتی رہی ہے تو اس وقت بھی کچھ ”جذباتی، بے صبروں اور بے وقوفوں“ کے علاوہ ساری امت، ”صبر“، ”حکمت“ اور ”دانائی“ کے ساتھ ﴿انَّا ھٰھُنا قٰعِدون﴾ ”ہم تو یہاں بیٹھے رہنے والوں میں سے ہیں“ کا ورد کرتی رہے گی، تو کیا اللہ تعالیٰ کے حضور بھی یہ پوری ملت، حکومتیں، جماعتیں اور علماء ودانشوران جواب دہی کرپائیں گے؟
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بھی غزوات میں بعض صحابہٴ کرام سے ڈسپلن کی خلاف ورزی یا اجتہادی غلطی وغیرہ ہوئی ہے۔ مثلاً ایک مقابل کو کلمہ پڑھنے کے باوجود قتل کردیا کہ یہ جان بچانے کے لیے کلمہ پڑھ رہا ہے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے افسوس بھی کیا۔ صحابی رضی اللہ عنہ کوپھٹکار لگائی؛ مگر کیا آئندہ ایسا پھر نہ ہوجائے کہ اندیشہ سے جہاد کو ہی ختم کردیا کہ بس اب صرف دعوت اور تبلیغ ہوگی؟ دنیا بھر کے احتجاج میں جو بھی غیرقانونی حرکتیں اورنقصانات مسلمانوں نے کیے اس کا قانونی اورمالیاتی جرمانہ، سزا اور تاوان کی شکل میں متاثرین کو دیا جانا چاہیے؛ مگر مغرب سے بھی حساب چکانا ضروری ہے، اس نے مسلم دنیا میں جو لوٹ مار کی ہے، عراق سے تو تیل چرایا جارہا ہے، جو لاکھوں بے گناہ شہید کیے گئے ہیں ۴۵ سالوں سے لاکھوں فلسطینی مہاجرین کی زندگی گزار رہے ہیں، خود امریکی حکومت کے اعتراف کے مطابق ڈرون حملوں میں ہزاروں بے گناہ بچے، عورتیں متوازی نقصان Collateral damage کے طور پر مارے گئے ہیں، ان سب کا جرمانہ بھی لیا جانا ضروری ہے۔ ان کا یاد دلایا جانا ضروری ہے۔ مغرب کے ان بے شرم قائدین اور ان کے مشرقی غلاموں کو جمہوریت کی دہائی دیتے ہوئے شرم نہیں آتی کہ الجیریا میں جمہوریت کا گلا گھوٹنے کی وجہ سے اب تک ۲۵ لاکھ انسانی جانیں ضائع ہوگئیں؛ کیونکہ امریکہ اسلام پسند اسلامک سالوشن فرنٹ کو الیکشن میں منتخب ہوکر اقتدار میں آنے نہیں دینا چاہتا تھا اور آج ۲۰ سال سے قتل وخون جاری ہے۔ یہ سوال اوباما اور اس کے غلاموں سے کون پوچھے گا؟ جو مسلمانوں کو انسانی حقوق کے عدمِ تحفظ اور تشدد کے فروغ کا طعنہ دیتا ہے! آج فلسطین میں حماس کی جمہوری جیت کے خلاف فتح کو مغرب کیوں حمایت دے رہا ہے۔ یہ کس جمہوریت کا اصول ہے؟ آج سعودی عرب کی بادشاہی کی طرف سے آنکھیں کیوں بند رکھی جارہی ہیں۔ بادشاہی اور جمہویت میں کیا تعلق ہے؟
آزادی اظہار رائے کی حقیقت سب کو معلوم ہے کہ یہودیوں کو بدنام کرنا جرم ہے۔ لندن کے مئیرکین لیونگسٹن کو عہدہ سے ہاتھ دھونا پڑا۔ تاریخ دان ارون کو جیل ہوگئی۔ احمدی نژاد کے خلاف میڈیا میں طوفان کھڑا کیاگیا، برٹش شہزادی کے برہنہ فوٹو کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے کارٹون کے اگلے دن کورٹ کے آرڈر سے شائع نہیں ہونے دیا اور امریکہ اور یوروپ میں سیکورٹی کے نام پر انسانی حقوق کی دھجیاں اڑائی جارہی ہیں۔ ہوائی اڈوں پر اسکیننگ سے لے کر ننگی تلاشیاں لینے والے پر ہر مسجد میں FBI کے مخبر گھسیڑنے والے ہر امریکی کی E-Mail اور فیس بک پرنظر رکھنے والے کس منھ سے انسانی حقوق کی بات کرتے ہیں؟ ضرورت ہے اس منافقت کو برہنہ کرکے سامنے لانے کی۔ ان کے انصاف کے پیمانے بھی ملاحظہ ہوں۔ پادری ٹیری جونز قرآن پاک کو جلاکر بے حرمتی کرتا ہے، اسے ایک دن کی سزا یہ مکارحکومت دیتی ہے۔ کیا دنیا میں ڈیڑھ ارب مسلمانوں کے حقوق کی قیمت ان ظالموں نے اتنی ہی لگائی ہے؟ اس سے چھوٹے چھوٹے جرائم میں مسلم علماء، عمرقید، تنہائی کی سزا کاٹ رہے ہیں۔ گذشتہ روز ہی ایک امریکی عدالت نے 11/9 کے مشکوک پراَسرار واقعہ کے لیے القاعدہ اور ایران پر ۶/ارب ڈالر کا جرمانہ صرف ۴۵ متاثرین کے خاندانوں کے لیے کیا ہے؟ مگر عراق پر غیرقانونی امریکی حملہ کے ۵ لاکھ متاثرین لوگوں سے الٹا ان کا پیٹرول بطورِ خرچہ وصول کیا جارہا ہے؟
یہ ہے اس انسانی حقوق اور آزادی اظہار رائے کی حقیقت جس کا شور مچاکر اپنی ذہنی خباثت اور مذہبی دشمنی کو روبہ عمل لایا جارہا ہے۔ اقوامِ متحدہ ماحولیات کے خلاف نشہ آور ادویہ کے خلاف، بچہ مزدوری کے خلاف، سر پر غلاظت ڈھونے کے خلاف، تمباکو نوشی کے خلاف قوانین بناتی ہے؛ مگر اہانتِ دین کے قانون کو یہ ظالم مغربی ممالک پاس نہیں ہونے دیتے کہ اس کا غلط استعمال ہوگا۔ غلط استعمال تو دنیا کے ہرقانون کا ہورہا ہے۔ سیکورٹی کے قوانین ہوں، جہیز کے خلاف قانون ہو یا زنا یا خواتین کے خلاف دست درازی کے قوانین ہوں؛ مگر اس کے باوجود یہ قوانین جاری وساری ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف خصوصی قوانین کی زد میں ہندوستان سمیت دنیا بھر میں ہزاروں بے گناہوں کی جو جوانیاں برباد کردی گئیں اور گھر اجاڑدیے گئے؛ مگر قوانین زندہ ہیں؛ کیونکہ ممالک کے تحفظ کا سوال ہے۔ اسی طرح بلکہ اس سے بھی زیادہ اہلِ ایمان کے لیے اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم، قرآن، کعبہ عزیز ہے۔ وہ ان کی بے ادبی پر تمام قانونی کارروائیاں کرے گی، چاہے دشمنان دین کو کتنا ہی ناگوار گذرے۔ جس جس طرح کی کارروائیاں اہلِ مغرب دینِ اسلام کے خلاف کررہے ہیں، وہ علمی نوعیت کی ہے ہی نہیں کہ ان کا علمی جواب دیا جائے۔ وہ سب کے سب ہتک اور توہین کے زمرہ میں آتی ہیں۔ امت مسلمہ کے لیے فی الوقت ترجیحات میں سب سے ضروری کاموں میں الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا کو وجود میں لانے کا ہے۔ کروڑوں روپیہ کے کانفرنس، سیمینار، اجتماعات، امریکہ، برطانیہ کے تبلیغی دوروں کے ساتھ ساتھ صبر، حکمت، طویل المدتی پالیسی کے تحت اپنا میڈیا کیوں نہیں کھڑا کیاجاتا؟ غیرمسلموں نے E-TV اور Z. Salam شروع کردیا اور ہمارے دانشور بھی انھیں کے بھروسہ بیٹھے رہتے ہیں، جو حضرات بڑی حکمت و دانائی کی باتیں کررہے ہیں وہ ایمان داری کے ساتھ بتاسکتے ہیں کہ احتجاج یا مظاہرہ کے بجائے کتنے غیرمسلموں تک نبیِ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت سے متعلق مواد پہنچاسکے؟ اب تک طویل المدتی پالیسی کے تحت وہ کتنے غیرمسلموں تک دعوتی ربط کرپائے؟
آج وطن پرستی کے نام پر اس کی حفاظت کے لیے اس کے پرچم، قومی نشان، قومی ترانہ، قومی جانور تک کی بے عزی پر سزا ہوتی ہے، اور ہمارے دانشور ہمیں بتارہے ہیں کہ رحمةٌ للعالمین کی بے حرمتی کی سزا قرآن مجید میں بیان ہی نہیں ہوئی ہے؛ جب کہ قرآن تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز سے بلند آواز کرنے پر سارے اعمال غارت ہونے کی خوفناک تنبیہ کرتا ہے، اور ہم رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی کردارکشی کوپی جانے پر آمادہ کیے جارہے ہیں۔ کیا خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے شاتم رسول صلی اللہ علیہ وسلم کعب بن اشرف کے خلاف کارروائی نہیں کروائی تھی؟ جھوٹے داعیانِ نبوت کے خلاف مسلح کارروائی نہیں کی تھی؟ یہ کام عوام نے نہیں کیے تھے؛ مگر حکومتیں کیوں نہیں کرتیں؟ جمہوریت کس چڑیا کا نام ہے؟ قیامت کے دن اللہ دلوں کے راز کھول کر سب سے حساب لے گا اس حساب سے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور پیشی کا خیال کرکے اپنے خیال کا اظہار کرنا چاہیے۔ حالات کا جبر، غلط رجحانات وخیالات کی اشاعت کا ذریعہ نہ بنادے، اس بدنصیبی سے ہمیں پناہ مانگنی چاہیے۔
***
—————————————–
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ 12 ، جلد: 96 ، صفر 1434 ہجری مطابق دسمبر 2012ء