از: مولانا اختر امام عادل قاسمی مہتمم جامعہ ربانی منوروا شریف
اسلام ایک مکمل نظامِ حیات ہے، اس میں زندگی کے ہر شعبہ کے لیے پوری رہنمائی موجود ہے، سیاست وحکمرانی بھی دنیاوی زندگی کا اہم ترین باب ہے، یہ انسانی معاشرہ کی بنیادی ضرورت ہے، اس کے بغیر نہ نظم وضبط قائم ہوسکتا ہے، نہ رشتوں اور مرتبوں کا احترام باقی رہ سکتا ہے، نہ صلاحیتوں کا صحیح استعمال ہوسکتا ہے اور نہ روئے زمین جنت کا نمونہ بن سکتی ہے․․․ اسی لیے انسانی تاریخ کے ہر دور میں اس کو ایک اجتماعی ضرورت کے طور پر برتا گیا، ہر عہد کے بہترین دماغوں نے اس کے لیے اپنی صلاحیتیں صرف کیں، ہر علاقہ کی چنیدہ شخصیتوں نے اس میں حصہ لیا، اس کی تشکیل وتاسیس سے لے کر اس کی توسیع وترقی تک کے اصول وضوابط بنائے گئے، اور تاریخی ارتقا کے ساتھ اس تصور نے بھی ترقی کی، یہ فکر انسانی کی جولانگاہ رہی، یہی چیز انسانی معاشرہ کو دوسری تمام مخلوقات کے مقابلے میں قابلِ رشک عظمت عطا کرتی ہے، روئے زمین کا تمام تر حسن اسی اجتماعی نظام کی بدولت ہے اور یہی بات انسانوں کو ساری کائنات سے ممتاز کرتی ہے، رب کائنات نے جس وقت تخلیق انسانی کا فیصلہ فرمایا اسی وقت اس کی حیثیت کا تعین ان الفاظ میں فرمایا:
واذ قال ربک للملٰئکة انی جاعل فی الارض خلیفة (البقرة:۳۰)
ترجمہ: اور جس وقت تیرے پروردگار نے فرشتوں سے فرمایا کہ میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں۔
یہ قدرت کا بہت قیمتی عطیہ ہے، وہ لوگ بڑے صاحب نصیب ہیں جو انسانیت کی اس عظیم اجتماعی ضرورت کے لیے منتخب ہوتے ہیں، قرآنِ کریم کے اندازِ بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ اس ضرورت کے لیے تیار ہونے والے لوگ بہت ہی غیرمعمولی ہوتے ہیں، بشرطیکہ وہ اس کو اسی طرح برتیں جس طرح اس مقام کا حق ہے:
وعد اللہ الذین آمنوا منکم عملوا الصالحٰت لیستخلفنھم فی الارض کما استخلف الذین من قبلھم (النور:۵۵)
ترجمہ: ایمان والوں اور نیک عمل کرنے والوں سے اللہ پاک کا وعدہ ہے کہ ان کو روئے زمین کی خلافت عطا فرمائیں گے، جس طرح کہ ان سے پہلے لوگوں کو عطا فرمایا تھا۔
اسلام نے زندگی کے ہر مرحلے کی طرح اس باب میں بھی کافی ہدایات دی ہیں اوراسلامی تاریخ میں اس کے بیش قیمت عملی نمونے بھی موجود ہیں، حکومت کی تشکیل وتاسیس اور طریقہٴ انتخاب سے لے کر اس کی توسیع واستحکام تک اور آئینی اور اصولی نظریات سے عملی جزئیات تک ہر مرحلے کے لیے اسلامی تعلیمات میں مکمل ہدایات موجود ہیں، جن کی روشنی میں حقیقی بنیادوں پر پہلے بھی اسلامی حکومتیں قائم ہوئی ہیں اور آئندہ بھی قائم ہوسکتی ہیں۔
نظریاتی حکومت:
اللہ پاک نے جس زمینی خلافت کے لیے انسانوں کا انتخاب فرمایا وہ دراصل ایک نظریاتی حکومت ہے، جو مخصوص تصورات پر تشکیل پاتی ہے اور معروف اور مثبت اقدار پر فروغ پاتی ہے، حضرت داؤد علیہ السلام ان اولوالعزم پیغمبروں میں ہیں جن کو نبوت کے ساتھ ساتھ خلافت ارضی سے بھی سرفراز کیاگیا تھا، ان کو مخاطب کرکے رب العالمین نے ارشاد فرمایا:
یا داوٴد انا جعلناک خلیفة فی الارض فاحکم بین الناس بالحق ولاتتبع الھویٰ فیضلک عن سبیل اللہ (ص۲۶)
ترجمہ: اے داؤد! ہم نے آپ کو زمین کا خلیفہ بنایا ہے؛ اس لیے لوگوں کے لیے آپ کے فیصلے کی بنیاد خالص حق پر ہونا چاہیے، لوگوں کی خواہشات اور تقاضوں کے پیچھے نہ چلیں ورنہ وہ راہِ حق سے آپ کو دور کردیں گے۔
ایک جگہ قرآن کریم میں ارشاد ہے:
ثم جعلناکم خلائف فی الارض من بعدھم لننظر کیف تعملون (یونس:۱۴)
ترجمہ: پھر ہم نے خلافت ارضی ان کے بعد تم کو عطا کی تاکہ دیکھیں تم کیا کرتے ہو؟
ایک جگہ بعض ان بنیادی مقاصد کا ذکر کیاگیاہے جن کے لیے اسلامی حکومت وجود میں لائی جاتی ہے:
الذین ان مکناھم فی الارض أقامو الصلوٰة وآتوالزکوٰة وأمروا بالمعروف ونھوا عن المنکر (الحج:۴۱)
ترجمہ: یہ وہ لوگ ہیں جن کو اگر ہم زمین میں اقتدار بخشیں تونماز قائم کریں گے، زکوٰة دیں گے، نیکی کا حکم دیں گے اور برائی سے روکیں گے۔
سورة الحدید میں ہے:
لقد أرسلنا رسلنا بالبینات وأنزلنا معھم الکتٰب والمیزان لیقوم الناس بالقسط وأنزلنا الحدید فیہ بأس شدید ومنافع للناس (الحدید:۲۵)
ترجمہ: ہم نے اپنے رسولوں کو کھلی نشانیاں دے کر بھیجا اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان نازل کی؛ تاکہ لوگ انصاف پر قائم رہیں اورہم نے لوہا اتارا جس میں سخت قوت اور لوگوں کے لیے سامانِ نفع ہے۔
لوہا سے مراد یہاں سیاسی قوت ہے۔ (التفسیر الکبیر للرازی، ج۱۵، ص۲۴۳ نسخہ الشاملہ)
دوانتہاؤں کے درمیان:
قرآن کریم اور احادیث پاک میں ایسی متعدد ہدایات موجود ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام روئے زمین پر ایک ایسی آئینی حکومت قائم کرنا چاہتا ہے، جہاں حکمراں اور رعایا دونوں کسی بالاتر قانون کے پابند ہوں، جہاں قانون حکمراں طبقے کے لیے بازیچہٴ اطفال نہ بنے، جہاں انسانوں کی مرضی سے نہیں؛ بلکہ رب العالمین کے مقرر کردہ اصول وکلیات کی روشنی میں نظام العمل مرتب ہوسکے، جس پر کسی خاص طبقہ یا ٹولہ کی جاگیرداری نہ ہو، اور جس کے انتخاب سے لے کر انتظام تک میں ارباب حل وعقد اوراصحاب دانش کی آراء سے استفادہ کیا جائے۔
دنیا میں حکمرانی کی اب تک کی تاریخ دو الگ الگ انتہاؤں کو چھورہی ہے، یا تو وہ آمریت کے ذہن سے جنم لیتی ہے یا عوامی آزادی کے بطن سے، دوسرے لفظوں میں حکومت یا تو ایک فرد یا طبقہ کی غلام ہوجاتی ہے یا پھر ہر کس وناکس کے خیالات کی پابند، تمام تر اختیارات کسی فرد یا ٹولے کو مل جانا جتنا خطرناک ہے، ہر بوالہوس کو صاحب اختیار بنانا اس سے بھی زیادہ خطرناک اور مشکل ہے، اسلام ان دو انتہاؤں کے درمیان ایک ایسی آئینی حکومت کا طرفدار ہے، جہاں اختیارات کسی ایک فرد یا خاندان تک محدود نہ ہو اور نہ ریاست کے ہر ہر فرد کو شریک کرنے کی پابندی، اسلام یہ اختیار ہر علاقہ کے ارباب حل وعقد اور اصحابِ علم ودانش کو دیتا ہے کہ وہ باہم مشورہ سے امیر کا انتخاب کریں۔ فقہاء نے اہلیت امیر کا ایک معیار مقرر کیا ہے، جو شخص بھی اس معیار مطلوب پر پورا اترے اس کو یہ ذمہ داری دی جاسکتی ہے۔
اسلامی تصور حکومت:
اسی طرح اسلامی نظریہٴ حکومت عام نظریہٴ حکمرانی سے مختلف ہے، عام تصور یہ ہے کہ یہ ایک اعزاز ہے، جو خوش نصیب لوگوں کو حاصل ہوتا ہے، اسی لیے قرون قدیمہ میں اس کے لیے کچھ لوگ یا خاندان مخصوص ہوتے تھے، اور اس خصوصیت کو آسمانی باور کرایاجاتا تھا، اسی لیے عام خاندانوں کے لوگ کبھی یہ خیال بھی نہیں کرسکتے تھے کہ وہ بھی کبھی مسند اقتدار پر بیٹھ سکتے ہیں، اسلام کے آنے کے بعد جب انسانی رجحانات میں تبدیلی آئی اور اسلامی فتوحات نے عالمی تصورات میں انقلاب برپا کیا، تو وہ دنیا جو اسلامی تعلیمات کی نورانیت سے محروم ہے، وہاں یہ تو نہ ہوا کہ اسلامی نظریہٴ حکمرانی کو پذیرائی ملتی؛ لیکن اتنا ضرور ہوا کہ اس آسمانی امتیاز کا طِلِسم پارہ پارہ ہوگیا، اور ہر طبقہ کے لوگ اس کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے، ہر ایک نے اس کو اپنے استحقاق کا مسئلہ بنالیا، عورتیں بھی اس معاملے میں پیچھے نہیں رہیں، اس لیے کہ حق کے معاملے میں انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنا ضروری ہے، دنیا کی پوری تاریخ حکمرانی انہی حقائق کے گرد گھوم رہی ہے، غیراسلامی دنیا میں ایسے حکمراں شاید انگلیوں پر گنے جاسکیں، جنھوں نے ان سفلی جذبات سے بلندہوکر حکمرانی کے حقوق ادا کیے ہوں۔
اس کے بالمقابل اسلامی نظریہٴ حکومت یہ ہے کہ یہ کوئی پیدائشی اعزاز نہیں؛ بلکہ بہت بڑی ذمہ داری ہے، یہ مقام عزت نہیں، موقع خدمت ہے، یہ قدرت کامحض عطیہ نہیں؛ بلکہ فریضہ بھی ہے، یہ کامیابی نہیں آزمائش ہے، اس کی نہیں بلکہ اس سے بچنے کی آرزو کرنی چاہیے، قرآن وحدیث کی متعدد نصوص میں اس تصور کی ترجمانی کی گئی ہے، قرآن پاک میں اللہ پاک کا ارشاد ہے:
ان اللہ یأمرکم أن توٴدوا الأمانات الیٰ أھلھا واذا حکمتم بین الناس أن تحکموا بالعدل ان اللہ نعما یعظکم بہ ان اللہ کان سمیعاً بصیراً (النسا:۵۸)
ترجمہ: اللہ پاک تمہیں حکم دیتے ہیں کہ تم امانتیں اہل امانت کے حوالے کرو اور جب لوگوں کے درمیان فیصلے کی نوبت آئے تو عدل کے ساتھ فیصلہ کرو، اللہ پاک تمہیں اچھی نصیحت کرتے ہیں اور اللہ پاک سننے اور دیکھنے والے ہیں۔
ارشاد نبوی ہے:
ألا کلکم راع وکلکم مسوٴل عن رعیتہ فالامام الأعظم الذی علی الناس راع وھو مسوٴل عن رعیتہ (بخاری شریف، کتاب الاحکام، مسلم شریف کتاب الامارة)
ترجمہ: سنو! تم میں سے ہر شخص جواب دہ ہے اور ہر ایک سے اس کی ذمہ داریوں کے بارے میں پوچھ ہوگی پس حکمرانِ اعلیٰ بھی اپنی رعایا کے حق میں جواب دہ ہے۔
ایک اور حدیث میں ارشاد ہے:
من ولی لنا عملاً ولم تکن لہ زوجة فلیتخذ زوجة ومن لم یکن لہ خادم فلیتخذ خادماً اولیس لہ مسکن فلیتخذ مسکناً اولیس لہ دابة فلیتخذ دابة فمن أصاب سویٰ ذٰلک فھو غال أو سارق (کنزل العمال ج۶ ص۳۴۶)
ترجمہ: جس شخص کو حکومت کا کوئی منصب حوالے کیا جائے، اور اس کے پاس بیوی نہ ہوتو بیوی حاصل کرلے، خادم نہ ہوتو خادم بنالے، جس کے پاس گھر نہ ہو گھر بنالے، سواری نہ ہو تو سواری کا انتظام کرلے اس سے زیادہ جو حاصل کرتا ہے وہ خائن ہے یا چور۔
سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوذر غفاری کو مخاطب فرماکر ارشاد فرمایا:
یا أبا ذر! انک ضعیف وانھا أمانة وانھا یوم القیامة خزی وندامة الا من أخذ بحقھا وأدی الذی علیہ فیھا (کنز العمال ج۶ ح۱۲۲۶۸)
ترجمہ: اے ابوذر! تم ایک کمزور شخص ہو اور منصبِ حکومت ایک امانت ہے اور روز قیامت باعث ذلت وندامت، سوائے ان لوگوں کے جنھوں نے اس کے حق کا لحاظ رکھا اور ذمہ داریاں پوری کیں۔
امیر میں کیسی احساس ذمہ داری ہونی چاہیے اس کی ترجمانی حضرت عمر بن خطاب کے اس قول سے ہوتی ہے:
لوھلک حمل من ولد الضان ضیاعاً بشاطیٴ الفرات خشیت أن یسألنی اللہ (کنزالعمال ج۵ ح ۲۵۱۲)
ترجمہ: دریائے فرات کے کنارے ایک بکری کا بچہ بھی اگر ہلاک ہوجائے تو مجھے ڈرلگتا ہے کہ اللہ پاک مجھ سے باز برس نہ کرے۔
اعزاز نہیں آزمائش:
اسی لیے اسلامی تصور کے مطابق کوئی سمجھدار شخص عام حالات میں جان بوجھ کر اپنی گردن اس میں پھنسانا پسند نہیں کرسکتا؛ بلکہ جو شخص اس کا خواہش مند ہو یا اس کے لیے تگ ودو کرے اس کو ناپسندیدہ شخص قرار دیا جاتا ہے، اور اصولی طور پر اس کو یہ ذمہ داری نہیں دی جاسکتی، ارشاد نبوی ہے:
انا واللہ لانولی علٰی عملنا ھٰذا أحداً سألہ أو حرص علیہ (بخاری کتاب الاحکام، مسلم کتاب الامارة)
ترجمہ: بخدا ہم کسی ایسے شخص کو یہ منصب نہیں دے سکتے جو اس کا خواہشمند یا حریص ہو۔
ان أخونکم عندنا من طلبہ (أبوداوٴد کتاب الامارة)
ترجمہ: تم میں سب سے بڑا خائن وہ ہے جو منصب کا طلب گار ہو۔
حضرت عبدالرحمن بن سمرہ کو مخاطب فرماکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
یا عبدالرحمن بن سمرة لاتسأل الامارة فانک اذا أوتیتھا عن مسئلة وکلت الیھا و ان أوتیتھا عن غیرمسلة أعنت علیھا (کنز العمال ج۶ ح ۶۹)
ترجمہ: اے عبدالرحمن بن سمرہ! منصب کا سوال مت کرو اس لیے کہ اگر طلب پر تم کو یہ دیا جائے تو تم کو اسی کے حوالے کردیا جائے گا اور بلاطلب ملے تو نصرتِ الٰہی شامل حال ہوگی۔
عہدہ کا کوئی امیدوار نہیں:
یہ ہدایات اسلامی تصور حکومت کو سمجھنے کے لیے بہت کافی ہیں اور اسی تصور امارت کی بنا پر اسلامی سوسائٹی میں کسی شخص کا دعویٰ حکومت لے کر اٹھنا بہت مستبعد بات ہے، آج کی طرح امیدواروں کی بڑی تعداد، ترغیب و تحریص کے ہزار ہتھکنڈے، پروپیگنڈوں کی گرم بازاری کا اسلامی نظام حکومت میں تصور بھی نہیں کیاجاسکتا، عہد نبوت کے بعد اسلامی عہد حکومت کے لیے خلفاء اربعہ اور خلیفہٴ راشد حضرت عمر بن عبدالعزیز کا دور رہنما اور آئیڈیل ہے، اس پورے عہد میں ایک بھی ایسی مثال نہیں دکھائی جاسکتی کہ کسی خلیفہ یا حکمراں کو ان کی خواہش کی بنیاد پر حکومت سونپی گئی ہو، حضرت عمر بن عبدالعزیز کے پیش رو خلیفہ سلمان بن عبدالملک کا انتقال ہوا تو حضرت عمر بن عبدالعزیز کے حاشیہٴ خیال میں بھی نہ تھا کہ اگلے خلیفہ کے طور پر ان کا نام منتخب ہوگا، یہ تو اس وقت پتہ چلا جب مرحوم خلیفہ کی تحریر برسر مجلس پڑھی گئی، حضرت عمر بن عبدالعزیز اپنے نام کا انتخاب دیکھ کر حیران ہوگئے ، اسی وقت منبر پر تشریف لے گئے اور تقریر کی اوراس میں اعلان فرمایا:
انی واللہ ما استوٴمرت فی ھذا الأمر وأنتم بالخیار وفی روایة أخریٰ انی قد ابتلیت بھذا الأمر من غیر رای منی ولا طابة لہ ولا مشورة من المسلمین وانی قد خلعت ما فی أعناقکم من بیعتی فاختاروا لأنفسکم (الأحکام السلطانیة للماوردی ص۴)
ترجمہ: بخدا اس معاملہ میں مجھ سے کوئی مشورہ نہیں کیاگیا؛ اس لیے آپ تمام لوگوں کو اختیار ہے، ایک روایت میں ہے کہ اس معاملہ میں مجھے میری رائے اور مرضی اور مسلمانوں کے مشورہ کے بغیر مجھے مبتلا کردیاگیا ہے، اس لیے میں اپنی بیعت سے آپ سب کو آزاد کرتا ہوں، جس کو چاہیں آپ لوگ اختیار کرلیں۔
اسلامی طریقہٴ انتخاب:
(۱) یہ کام ریاست کے اربابِ حل وعقد کا ہے، کہ وہ پوری دیانت وامانت کے ساتھ اہل شخص کا انتخاب کریں جس میں اجتماعی اور انتظامی امور کی صلاحیت ہو اور دینی واخلاقی طور پر قوم کے نزدیک قابل اعتماد ہو، فقہاء نے اس ضمن میں بعض شرائط کا ذکر کیا ہے جن میں کچھ اتفاقی ہیں اور کچھ اختلافی:
شرائط اہلیتِ امامت:
(۱) مسلمان ہو، اس لیے کہ جواز شہادت کے لیے اسلام شرط ہے، مسلمانوں کے خلاف کافروں کی شہادت درست نہیں؛ جب کہ ولایت کا درجہ شہادت سے بلند ہے، اس شرط کا ماخذ یہ آیت کریمہ ہے: ولن یجعل اللہ للکافرین علی الموٴمنین سبیلاً (النساء:۱۴۱)
ترجمہ: اور اللہ پاک کافروں کو اہل ایمان پر ہرگز کوئی سبیل نہیں دے گا۔
ظاہر ہے کہ حکومت سے بڑھ کر سبیل کیا ہوسکتی ہے؟
(۲) عاقل وبالغ ہو، کسی بچے یا پاگل کی امامت درست نہیں؛ اس لیے کہ وہ خود اپنے معاملات میں دوسروں کے محتاج ہیں تو پوری ریاست اور قوم کے معاملات ومسائل کا بوجھ وہ کیا اٹھاسکتے ہیں؟ یہ تو بہت بنیادی بات ہے؛ بلکہ کم از کم اتنا صاحب فہم ہونا چاہیے کہ ریاست کے معاملات ومسائل کو سمجھے اور قومی وملکی امور میں دشمن کے فریب سے خود کو بچا سکے، ایک اثر صحابی سے اس پر روشنی پڑتی ہے:
تعوذوا باللہ من رأس السبعین․․․ وامارة الصبیان (أخرجہ أحمد ۲/۳۲۶ ط السلفیة واسنادہ ضعیف، المیزان للذھبی ۳/۴۰۲ ط الحلبی)
ترجمہ: ستر (۷۰) کے آغاز․․․ اور بچوں کی حکومت سے پناہ چاہو۔
(۳) مرد ہو، اسلام میں عورتوں کو خلافت کا بار دینے کی اجازت نہیں،اور نہ اس کی فطری ساخت اس جیسی بڑی ذمہ داریاں اٹھانے کی متحمل ہے، رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
لن یفلح قوم وَلّوأمرَھم امرأة (رواہ البخاری وأحمد والنسائی والترمذی فتح الباری ۸/۱۲۶ ط السلفیة)
ترجمہ: وہ قوم کبھی کامیاب نہیں ہوسکتی جو اپنے معاملات کی ذمہ داری کسی عورت کے حوالے کردے۔
(۴) آزاد ہو، غلام نہ ہو۔
(۵) اعضاء وحواس صحیح سالم ہوں،اور امور خلافت کی انجام دہی پر خود قدرت رکھتا ہو۔
بعض مختلف فیہ شرطیں:
(۶) عدالت واجتہاد؛ فقہاء مالکیہ، شافعیہ اور حنابلہ کے نزدیک امیرکے لیے عادل ہونا شرط ہے (یعنی ایسا شخص جو امانت ودیانت اور اخلاقِ فاضلہ کا حامل ہو، صادق القول ہو، گناہوں سے بچتا ہو، اعتماد اور وقار رکھتاہو، رضا اور غضب ہرحال میں قابلِ بھروسہ ہو، اس کی دینی اور اخلاقی حالت لوگوں میں معروف اورمسلم ہو) اور صاحبِ اجتہاد (یعنی اتنا علم وفہم کی مختلف مسائل وواقعات میں کسی نتیجے تک پہنچنے کی اس میں صلاحیت ہو) اسی لیے ان کے نزدیک صاحب عدل و اجتہاد شخصیت کے رہتے ہوئے کسی فاسق یا غیرمجتہد کو امیر بنانا درست نہیں ہے، حنفیہ کی رائے میں امیر میں یہ صفات بطور شرطِ صحت نہیں؛ بلکہ بطور اولویت مطلوب ہیں، یعنی اگر عادل ومجتہد شخصیت کی موجودگی میں کسی ایسے شخص کو یہ ذمہ داری دے دی جائے، جو ان صفات سے محروم ہوتو یہ انتخاب کا غیر مناسب طریقہ تو ہوگا، مگر منتخب شدہ امیر کی امارت باطل نہیں ہوگی۔ (حاشیہ ابن عابدین ۱/۳۸، ۴/۳۰۵، الأحکام السلطانیہ للماوردی ص۶، جواہر الاکلیل ۲/۲۲۱، شرح الروض ۴/۱۰۸، مغنی المحتاج ۴/۱۳۰، الانصاف ۱۰/۱۱۰)
(۷) سماعت وبصارت اور ہاتھ اور پاؤں سلامت ہوں، جمہور فقہاء کے نزدیک اس کے بغیر امامت منعقد ہی نہیں ہوتی؛ اس لیے ان کے نزدیک اندھے، بہرے، ہاتھ اور کان کٹے کو امام بنانا درست نہیں، اور اگر شروع میں صحیح سلامت تھا بعد میں یہ نقائص پیدا ہوگئے تو اس کی امامت باطل ہوجائے گی۔
(۸) بہتر نسب کا حامل ہو، جمہور فقہاء کے نزدیک امام کے لیے قریشی النسل ہونا ضروری ہے، بعض علماء اس کو ضروری قرار نہیں دیتے، جمہور کا مأخذ حدیث پاک ہے:
الائمة من قریش (أخرجہ الطیالسی ص۱۲۵ ط دائرة المعارف النظامیہ، واصلہ فی البخاری مع الفتح ۱۳/۱۱۴ ط السلفیة) بلفظ ان ھذا الأمر من قریش․․․
ترجمہ: ائمہ قریش سے ہوں گے۔
(۹) بعض علماء نے سیاسی بصیرت اور صاحب رائے ہونے کی بھی قید لگائی ہے، یعنی اسے سیاسی مسائل، ملکی اور قومی مصالح اور اجتماعی ضروریات اور تقاضوں کی خبر ہو، ماوردی کے الفاظ ہیں:
الرایٴ المفضي الیٰ سیاسة الرعیة وتدبیر المصالح (الأحکام السلطانیة ص۴)
اسی سے ملتی جلتی بات بعض دوسرے علماء نے بھی لکھی ہے، دیکھیے (اصول الدین للبغدادی ۲۷۷، مقدمہ ابن خلدون ۱۶۱، فصل ۲۶ ط المہدی)
(۱۰) بعض اصحاب علم نے مضبوط قوتِ ارادی، عزم وہمت، صلابت وجرأت، چیلنجوں کامقابلہ کرنے کی صلاحیت، ملک وملت کی حفاظت، مظلوموں کی داد رسی، شرعی قوانین اور نظامِ عدل ومساوات کے اجراء کی صلاحیت اور جذبہ کی بھی قید لگائی ہے۔ (حوالہ جات بالا، عقائد نسفیہ ۱۴۵)
خلیفہ کے انتخاب کا یہی اصل طریقہ ہے کہ قوم کے ارباب حل وعقد کے مشورے سے یہ عمل میں آئے، اور جس شخصیت کا انتخاب ہو پہلے یہ حضرات اس کے ہاتھ پر بیعت کریں، یہی اصل اسوہ ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا، آپ دنیا سے تشریف لے گئے اور امیر کے مسئلے کوامت کے حوالہ فرمادیا، یہ راستہ خطرات اوراندیشوں سے پاک ہے، یہ ہر زمانے میں سکہٴ رائج الوقت کی طرح چل سکتا ہے۔
ارباب شوریٰ کی صفات:
تمام علماء اہل سنت نے اس کو سب سے افضل طریقہ قرار دیا ہے؛ البتہ یہاں ایک ضمنی بحث یہ آتی ہے کہ اربابِ شوریٰ کس قسم کے لوگ ہونے چاہئیں اور ان کی کم از کم تعداد کیا ہوگی؟
اربابِ شوریٰ کے معیار کا تعین علماء نے اس طرح کیا ہے کہ وہ عادل یعنی دینی واخلاقی لحاظ سے قابلِ اعتماد، صاحبِ علم (کم از کم مسائل امارت اور اہلیت امارت کی تفصیلات جانتے ہوں)، صاحب رائے اور حکمت وتدبیر کے فن سے واقف ہوں، موقع ومحل کی نزاکت سے آشنا ہوں، ضروری حدتک لوگوں کی نفسیات سمجھتے ہوں۔ (حاشیہ الدسوقی ۴/۲۹۸، الاحکام السلطانیہ ص۳، ۴)
شافعیہ نے اس میں یہ اضافہ کیا ہے کہ اگر انتخاب کا اختیار فرد واحد کو ہوتو احکام امامت کے مسئلے میں اس کا مجتہد ہونا شرط ہے، اورار کئی لوگ مل کر یہ فریضہ انجام دیں تو ان میں کسی ایک کا مجتہد ہونا ضروری ہے۔ (مغنی المحتاج ۴/۱۳۱، اسنی المطالب ۴/۱۰۹)
اربابِ شوریٰ کی تعداد:
جہاں تک تعداد کا مسئلہ ہے تو اس میں علماء کے درمیان اختلاف ہے، بعض حنفیہ کی رائے میں فی الجملہ ایک جماعت ہونی چاہیے، کوئی خاص تعداد مقرر نہیں ہے۔ (حاشیہ ابن عابدین ۱/۳۶۹)
مالکیہ اورحنابلہ کی رائے یہ ہے کہ مجلس انتخاب میں اکثر ارباب حل وعقد کی شرکت وتائید ضروری ہے اور جو لوگ شرکت نہ کرسکیں وہ اپنا نمائندہ بھیجیں، اسی طرح ہر شہر سے نمائندگی ضروری ہے، اس کے بغیر امیرکا انتخاب غیرآئینی ہوگا؛ جب کہ شافعیہ کے نزدیک ہر شہر کے ارباب حل وعقد کی شرکت ونمائندگی ضروری نہیں ہے؛ اس لیے کہ اس میں بہت زحمت ہے، ایک تعداد ہونی چاہیے، پھر ان میں کئی آراء ہیں، بعض کی رائے ہے کہ پانچ کی تعداد کافی ہے، استدلال حضرت صدیق اکبر کی بیعت سے کیاگیا ہے، نیز حضرت فاروق اعظم نے جو چھ(۶) رکنی کمیٹی تشکیل دی تھی، اس میں ایک امیرکو چننے کے لیے پانچ کی تعداد ہی رہ جاتی ہے، بعض شافعیہ چالیس(۴۰) کے قائل نظر آتے ہیں، یہ جمعہ پر قیاس کرتے ہیں، مگر شافعیہ کا راجح مسلک یہ ہے کہ کوئی عدد مقرر نہیں ہے؛ بلکہ پوری ریاست میں اگر ایک ہی شخص حل وعقد کی اہلیت رکھتا ہوتو اسی ایک کے انتخاب سے امارت منعقد ہوجائے گی، اور پوری قوم پر اس کی تائید واتباع لازم ہوگی (مغنی المحتاج ۴/۱۳۰، ۱۳۱، روضة الطالبین ۱۰/۴۳، اسنی المطالب ۴/۱۰۹)
افضل کو چھوڑ کر غیرافضل کا انتخاب:
یہاں ایک بحث یہ آتی ہے کہ اگر شوریٰ کسی مصلحت کے تحت افضل ترین لوگوں کی موجودگی میں نسبتاً کم تر درجہ کے شخص کو منصب امارت کے لیے چن لے تو کیا یہ انتخاب درست ہوگا؟ ایک طبقہ کی رائے یہ ہے کہ یہ انتخاب غلط قرار دیا جائے گا (الفصل فی الملل والاہواء والنحل ۴/۱۸۳)
لیکن اکثر فقہا اور متکلمین کا مسلک یہ ہے کہ افضل کے رہتے ہوئے غیر افضل کا انتخاب اگرچہ بہتر نہیں ہے؛ لیکن اگر اس میں تمام شرائطِ اہلیت پائی جاتی ہوں تو انتخاب درست قرار دیا جائے گا، جس طرح کہ زیادہ لائق شخص کے رہتے ہوئے نسبتاً کم تر شخص کو منصب قضاء حوالہ کرنا درست ہے؛ اس لیے کہ اصل چیز اہلیت ہے، اور فضیلت محض وجہِ ترجیح بنتی ہے؛ البتہ ارباب شوریٰ کے لیے یہ ہدایت ہے کہ بلا عذر اس قسم کے غیرمتوازن انتخاب سے احتراز کریں؛ البتہ کوئی مجبوری ہو، مثلاً افضل شخص قطعی طور پر یہ ذمہ داری قبول کرنے کو آمادہ نہ ہو، یا وموجود نہ ہو، یا بیمار رہتا ہو، یا لوگوں میں زیادہ مقبول ومحبوب نہ ہو وغیرہ، تو ان صورتوں میں افضل کے رہتے ہوئے غیرافضل کو امیر بنانا درست ہے (الأحکام السلطانیہ ص۵۰)
انتخاب کا دوسرا طریقہ:
انتخاب امیر کا دوسرا طریقہ جس کو فقہاء نے بالاتفاق درست قرار دیا ہے، وہ یہ کہ خلیفہٴ وقت خود اپنی زندگی میں اپنے بعد کے لیے امیر نامزد کردے، علامہ ماوردی نے اس کے جواز پر اجماع امت نقل کیا ہے،اس کا سب سے بڑا مأخذ حضرت صدیق اکبر کا عمل ہے، کہ آپ نے اپنی وفات سے پیشتر حضرت عمر فاروق کو اپنا جانشین تجویز فرمایا اوراس کا اعلان بھی اپنی زندگی میں فرمادیا، حضرت صدیق کی وفات کے بعد مسلمانوں نے بالاتفاق حضرت عمر کو اپنا خلیفہ تسلیم کیا، کسی ایک شخص نے بھی حضرت صدیق کے اس انتخاب کی مخالفت نہیں کی، حضرت عمر بن خطاب نے اپنے جانشین کے انتخاب کا یہ طریقہ اختیار فرمایاکہ کسی ایک شخص کو نامزد کرنے کے بجائے معاملہ ارباب حل وعقد کی ایک جماعت کے حوالے کردیا، یہ ایک محفوظ راستہ تھا؛ البتہ اس میں امیر کے اس اختیار پر روشنی پڑتی ہے کہ امیر کے معاملے کو تمام مسلمانوں کے بجائے ایک مخصوص کمیٹی کے حوالے کرسکتا ہے، اس چیز کو بھی تمام صحابہ نے من وعن تسلیم کیا، چنانچہ حضرت عمر کی وفات کے بعد جس وقت اس مجلس منتخبہ کی میٹنگ ہورہی تھی حضرت عباس نے اس مجلس میں شرکت کی خواہش کی تو حضرت علی نے جو اس کمیٹی کے اہم رکن تھے سختی کے ساتھ ان کو روک دیا۔ (الموسوعة الفقہیہ)
حضرت صدیق کے عمل سے ولی عہدی کا دستور جاری ہوا، یعنی امیر کو یہ اختیار حاصل ہوا کہ وہ اپنی حیات میں اپنا جانشین نامزد کردے۔
یہاں یہ نکتہ زیربحث آیا ہے کہ آیا محض نامزدگی سے امارت قائم ہوجاتی ہے یا امیر کی وفات کے بعد دوبارہ تمام مسلمانوں کا اس سے بیعت کرنا ضروری ہے؟ بعض علماء بصرہ کا خیال ہے کہ ولی عہد خواہ کوئی ہو اپنا عزیز قریب ہو یا غیر، ہرحال میں محض نامزدگی کافی نہیں ہے؛ بلکہ امیر کی وفات کے بعد اس ولی عہدی کی تجدید دوبارہ مسلمانوں کی بیعت کے ذریعہ ضروری ہوگی، اگر مسلمان اس کے لیے راضی نہیں ہوئے تواس کی ولی عہدی منسوخ ہوجائے گی؛ لیکن صحیح قول یہ ہے کہ ولی عہد اگر امیر کا کوئی انتہائی قریب ترین رشتہ دار نہ ہوتو مسلمانوں کی رضامندی شرط نہیں ہے، اس لیے کہ حضرت عمر کے مسئلے میں صحابہ سے اس طرح کی کوئی رضامندی حاصل نہیں کی گئی تھی؛ البتہ ولی عہد اپنا بیٹا یا باپ اور کوئی انتہائی عزیز ترین قریب ہوتو اس صورت میں علماء کی آراء مختلف ہیں:
(۱) ایک رائے ہے کہ امیرکے لیے اپنے بیٹے یا باپ وغیرہ کو ارباب حل وعقد اور اصحاب علم وفہم کے مشورے کے بغیر تنہا اپنی مرضی سے ولی عہد بنانا جائزنہیں ہے؛ اس لیے کہ یہ یا تو شہادت کے زمرے میں آتا ہے یا حکم کے، اور دونوں صورتیں تہمت سے خالی نہیں۔
(۲) دوسری رائے یہ ہے کہ اس میں کوئی مضائقہ نہیں؛ اس لیے کہ وہ امیر ہے اور اس کی دیانت وامانت پر لوگوں نے اعتماد کیا ہے؛ اس لیے اپنے جانشین کے مسئلے میں بھی اس پر اعتماد کیا جانا چاہیے، اس صورت میں اس کے نسب سے زیادہ اس کے مقام کا لحاظ رکھنا مقدم ہوگا۔
(۳) تیسری رائے یہ ہے کہ امام کسی اجنبی کو جس سے اس کا باپ یا بیٹے کا رشتہ نہ ہو اپنی مرضی سے اہل مشورہ سے مشورہ کیے بغیر ولی عہد بناسکتا ہے؛ لیکن اپنے بیٹے یا باپ کے معاملے میں شوریٰ سے مشورہ ضروری ہے؛ اس لیے کہ اپنی اولاد یا اپنے والد کے حق میں انسان بالعموم کمزور ثابت ہوتا ہے، طبیعت کا میلان ادھر ہوتا ہے؛ اس لیے نفس کے لیے بڑے مواقع ہیں؛ البتہ بھائی یا اور کسی رشتہ دار کے معاملے میں توسع ہے وہ عام اجنبیوں کی طرح ہیں، یہ ایک معتدل رائے ہے، تفصیل کے لیے دیکھیے (الاحکام السلطانیہ للماوردی ص۱۰)
ولی عہدی کی شرائط قبولیت:
* البتہ جمہور فقہاء کے نزدیک ضروری ہے کہ ولی عہد میں وہ تمام شرائط اہلیت موجود ہوں جو امام کے لیے ضروری ہیں۔
* ولی عہد نے امیر کی زندگی میں یہ ذمہ داری قبول کرلی ہو، ورنہ یہ محض خلافت کی وصیت قرار پائے گی، اور احکامِ وصیت جاری ہوں گے (مغنی المحتاج ۴/۱۳۱)
* ولی عہد میں ولی عہدی قبول کرنے کے وقت سے خلافت کے سنبھالنے تک شرائطِ اہلیت مسلسل موجود رہی ہوں؛ اس لیے کسی نابالغ، مجنون یا فاسق کو ولی عہد بنانا درست نہ ہوگا، اور اگر ولی عہد بناتے وقت یہ عیوب نہ تھے؛ لیکن بعد میں پیدا ہوگئے تو بھی ولی عہدی باطل ہوجائے گی۔ (مغنی المحتاج ۴/۱۳۱،اسنی المطالب ۴/۱۰۹، ۱۱۰، الأحکام السلطانیہ لأبی یعلیٰ ص۹،۱۰)
حنفیہ کی رائے یہ ہے کہ نابالغ کو ولی عہد بنایا جاسکتا ہے، بشرطیکہ امام کی وفات کے بعد ملکی معاملات اور ذمہ داریوں کے لیے عارضی طور پر اس کا کوئی نائب مقرر کردیا جائے، جو ولی عہد کے بلوغ تک امورِ مملکت انجام دے، وعلی عہد کے بالغ ہونے کے بعد نائب خود بخود معزول ہوجائے گا۔ (حاشیہ ابن عابدین ۱/۳۶۹)
تیسرا طریقہ:
امارت کی تیسری صورت یہ ہے کہ کوئی صاحب قوت واختیار بالجبر پوری ریاست پر قبضہ کرلے، اور اپنی امارت کا اعلان کردے، تو جمہور فقہاء کے نزدیک اس کی امارت درست ہوگی، اور اس کی اقتداء میں نماز، جہاد وحج وغیرہ کرنا درست ہوگا اوراس کے خلاف بغاوت جائز نہ ہوگی؛ البتہ شافعیہ نے اس میں یہ شرط لگائی ہے کہ اس شخص میں اہلیت امارت کی جملہ شرائط موجود ہونی ضروری ہے، ورنہ اس کی خلافت جائز نہ ہوگی، محض غاصبانہ قبضہ قرار پائے گا۔ (الأحکام السلطانیہ لأبی یعلیٰ ص۷،۸، حجة البالغة ۲/۱۱۱، حاشیہ ابن عابدین ۳/۳۱۹، مغنی المحتاج ۴/۱۳۰، حاشیہ الدسوقی علی الشرح الکبیر ۴/۲۹۸)
اس کا ماخذ دراصل وہ حدیث پاک ہے جس میں ارشاد فرمایاگیا ہے کہ:
ان أمر علیکم عبد مجدع أسود یقودکم بکتاب اللّٰہ فاسمعوا لہ وأطیعوا (صحیح مسلم ۳/۹۴۴ ط عیسیٰ الحلبی)
ترجمہ: اگر تم پر کوئی کن کٹا غلام بھی امیر ہوجائے جو کتاب اللہ کے مطابق تم پر حکومت کرے تو اس کی سنو اور اطاعت کرو۔
* اسی طرح واقعہٴ حرہ کے موقعہ پر حضرت عبداللہ بن عمر کے بارے میں منقول ہے کہ انھوں نے اہل مدینہ کے ساتھ نماز پڑھی اور ارشاد فرمایا: ”نحن مع من غلب“ جو غالب آجائے ہم اس کے ساتھ ہیں۔ (الأحکام السلطانیہ لأبی یعلیٰ ص۷،۸)
* علا وہ ازیں اس صورت میں سخت فتنہ اور جان ومال کے ضیاع کا اندیشہ ہے؛ اس لیے عام مسلمانوں کے لیے عافیت اور سلامتی کا راستہ یہی ہے کہ قوت قاہرہ کے سامنے سرِتسلیم خم کردیا جائے، اس کی اطاعت قبول کرلی جائے؛ تاکہ ایک طرف مسلمانوں کے جان ومال کا بھی تحفظ ہو اور ملک وملت کے وہ داخلی مسائل معلق نہ رہ جائیں جو امیر کے بغیر انجام نہیں پاسکتے۔ (حوالہٴ بالا)
عوامی انقلاب:
جو حکمراں عوامی انقلاب اور افرادی قوت کے ذریعہ اقتدار میں آ تے ہیں وہ بھی اسی زمرہ میں آتے ہیں، الا یہ کہ خواص اور اہل علم وفضل کا طبقہ بھی اس کی تائید کررہا ہو ، اسلامی تاریخ میں ایسی کئی مثالیں ملتی ہیں جن میں عوامی طاقت کے ذریعہ حکومت کا تختہ پلٹنے کی کوشش کی گئی، اورمتعدد کامیابی بھی ملی، خود حضرت امام حسین کا سفر کوفہ اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی، حضرت عبداللہ بن زبیر نے عوامی انقلاب کے ذریعہ مکہ معظمہ میں اپنی حکومت قائم فرمائی، وغیرہ۔ بعد کے ادوار میں بھی ایسی کئی کوششوں کا تذکرہ ملتا ہے جن میں بعض کو ہمارے مشہور ائمہ کی تائید بھی حاصل ہوئی، مثلاً خلافتِ بنی امیہ کے زمانے۔ (صفر ۱۲۲ھ م ۷۴۰/) میں حضرت زید بن علی نے عوامی تحریض پر حکومت کا تختہ پلٹنے کی کوشش فرمائی، جس کو حضرت امام ابوحنیفہ کی تائید حاصل ہوئی، آپ نے ان کو مالی مدد بھی فراہم کی۔ (الجصاص:۱/۸۱، الخیرات الحسان للمکی:۱/۲۶۰)
عوامی انقلاب ایک قوتِ قاہرہ ہے، اور اس کے ذریعہ جو حکومت قائم ہوتی ہے وہ شرعاً درست ہوتی ہے اوراس کی قیادت میں وہ تمام امور انجام دئیے جاسکتے ہیں، جس کے لیے اسلامی حکومت کی ضرورت پڑتی ہے؛ البتہ عوامی انقلاب کے ذریعہ برسراقتدار آنے والے حکمراں کو چاہیے کہ وہ اربابِ علم وتقویٰ اور اصحابِ فضل و فہم پر مشتمل ایک شورائی نظام قائم کرے، عوامی ووٹنگ کی شریعت اسلامی میں کوئی حقیقت نہیں ہے، تاہم اسلام اس کے ذریعہ قائم ہونے والی حکومتوں کو ناجائز نہیں کہتا، اسلام کے پاس اپنا ایک نظام العمل ہے، ایک دستور اورآئین ہے، اور دنیا کو اس کی بہرحال ضرورت ہے؛ تاکہ اسلامی نظام کے وہ تمام شعبے قائم اور جاری ہوں، جن سے یہ روئے زمین جنت نظیر بن سکتی ہے؛ لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ اسلام اپنے نظام کے علاوہ دنیا کے تمام نظاموں کو غلط قرار دیتاہو، اوراگر عوام اور خواص کی شرکت سے حکومت عمل میں آتی ہے تو اس سے اگرچہ وہ مثبت نتائج حاصل نہیں ہوتے جو اسلامی نظام کا نصب العین ہیں؛ لیکن اس کے جواز اوراس سے حاصل شدہ ثمرات کی صحت شبہ سے بالاتر ہے، واللہ اعلم بالصواب وعلمہ اتم واحکم۔
***
————————————-
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ 8-9 ، جلد: 96 ، رمضان-ذیقعدہ 1433 ہجری مطابق اگست-ستمبر 2012ء