از: مولانا محمداللہ خلیلی قاسمی
اسلام سے پہلے کے عرب کی تاریخ جو کچھ دستیاب ہے، اس سے عرب کی مجموعی سیاسی و سماجی اور اخلاقی و معاشرتی صورت حال کا اندازہ لگانا کوئی مشکل نہیں۔ اس وقت کی ترقی یافتہ قومیں عربوں کو نہایت جاہل، اجڈ اور گنوار سمجھتی تھیں۔ شام و یمن کے کچھ شمالی و جنوبی علاقوں کو چھوڑ کر پورا جزیرہ نمائے عرب کا صحرائی علاقہ دنیا کے فاتحین و حکمرانوں کے لیے کوئی کشش نہیں رکھتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ پوری معلوم تاریخ میں عرب کے علاقہ میں نہ کوئی باقاعدہ سیاسی نظام قائم ہوا اور نہ کسی سیاسی طاقت نے عربوں کو اپنے زیر نگیں رکھنے کی کوشش کی۔
شاید عرب وہ قوم تھی جسے اللہ نے تکوینی طور پر حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ذریعہ عرب کے سنگلاخ اور صحرائی علاقوں میں آباد کرایا اور نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغام کی عَلَم برداری کے لیے ان کو تیار کیا۔ یہی وجہ رہی کہ وہ فطری ماحول میں پرورش پاتے رہے اور ان کے اندر فطری صلاحتیں بدرجہٴ اتم موجود رہیں۔ نہ کسی سیاسی نظام نے ان کو متاثر کیا اور نہ کسی ثقافتی یلغار نے ان کی فطری صلاحیتوں کو گدلا کیا۔
عرب اپنے قدرتی اور فطری انداز میں زندگی گزار رہے تھے ۔ ان کی اس فطری اور آزاد زندگی میں جہاں کچھ قدرتی حسن موجود تھا ، ان کے اندر شجاعت و بہادری ، جرأت وبے باکی، سخاوت و فیاضی، غیرت و حمیت اور فصاحت و بلاغت، جیسے اوصاف موجود تھے، وہیں ان کے اندر اخلاق و کردار کی بہت ساری برائیاں بھی پیدا ہوگئی تھیں۔ ان کی شجاعت و بہادری کو صحیح رخ نہ ملنے سے ان کے اندر بے جا قتل و قتال ، خانہ جنگی اور قبائلی عصبیت کی قباحتیں پیدا ہوگئی تھیں ۔ ایسی ہی قبائلی عصبیت کی خونیں لڑائیاں بہت ہی معمولی باتوں پر چھڑ جاتی تھیں اور پشُتہا پشت چلتی تھیں۔ حرب بسوس ، حرب داجس اور حرب بعاث وغیرہ جیسی تقریباً سوا سو مشہور جنگوں میں ایسی کوئی جنگ نہیں ملتی جو کسی معقول اور اہم سبب کی بناء پر شروع ہوئی ہو۔
عربوں میں بے جا غیرت و حمیت کی وجہ سے بعض قبائل میں لڑکیوں کے قتل اور زندہ در گور کرنے کی وبا درآئی تھی۔ فصاحت و بلاغت کی اعلیٰ صلاحیت کو کسی تعمیری و اخلاقی پہلو میں استعمال کرنے کے بجائے وہ باہمی قبائلی منافست اور فخر وریا حتی کہ جنگ و جدال میں صرف کیا کرتے تھے۔ ان کی شعر و شاعری کی ساری توانائیاں فخر و مباہات میں صرف ہورہی تھیں۔ زبان و بیان کی ساری زور آزمائی کا محور ذاتی و قبائلی بڑائی تھا۔ ان کی نگاہوں کے سامنے ان کی ساری زندگی کا کوئی بڑا تعمیری مقصد نظر نہیں آتا جس کے لیے وہ اپنی فطری اعلی صلاحیتوں کو استعمال کرتے۔ فطری اور آزاد ماحول میں پرورش کی وجہ سے ان کے اندر اطاعت حق کا جوہر موجود تھا، لیکن ملت براہیمی کے صحیح خد وخال کے مٹ جانے کی وجہ سے ان کے اندر شرک و بت پرستی سرایت کر گئی تھی، یہی ان کی سب سے بڑی بیماری بن گئی۔ شرک و مظاہر پرستی نے ان کی قوت فکری کو مفلوج کرکے رکھ دیا اور وہ اپنے نفس اور قبیلہ سے اوپر اٹھ کر کچھ اور سوچنے سمجھنے کے قابل نہیں رہ گئے تھے۔
اسلام کی کردار سازی اور تعمیر شخصیت
اسلام نے سب سے پہلے عربوں کی اسی کمزوری کو نشانہ بنایا۔ شرک و بت پرستی کو سب سے بڑا جرم قرار دیا گیااور توحید کو تمام نیکیوں اور اچھائیوں کی اساس قرار دیا گیا۔ توحید سے عربوں کے فکری جمود کاپتھر چکنا چور ہوگیا۔اسلام کی دعوت توحید نے عربوں کے بے جان لاشہ میں حرکت و اضطراب اور جہد و عمل کی خوشگوار روح پھونک دی، جس سے ان کی خوابیدہ صلاحیتوں میں زندگی کی توانائیاں دوڑ گئیں۔اس طرح اسلام نے عربوں کو خواب غفلت سے بیدار کر کے مردم سازی کی بے نظیر تاریخ پیش کی ۔ اس نے غلاموں کو شہنشاہ، بوریہ نشینوں کو حاکم و مدبر اور وحشیوں کو اعلیٰ ترین تہذیب وتمدن کا علم بردار بنا دیا۔
عربوں میں بہت سی ایسی قابل قدر صفات موجود تھیں، جن کا وہ صحیح استعمال نہیں کرتے تھے۔ وہ جنگ جو واقع ہوئے تھے، ان کی صحرائی اور غیرتمدنی زندگی کا تقاضہ بھی یہی تھا ۔ جنگ ان کے لیے ایک ضرورت سے زیادہ تفریح اور دل بستگی کا سامان تھی۔ بہادری ان کے محل سرا کی کنیز تھی؛لیکن وہ جنگ کا غلط استعمال کرتے تھے، قبیلہ اور وطن کے نام پر لڑتے تھے۔ اسلام نے انھیں اعلاء کلمة اللہ اور اشاعتِ حق کے جذبہ سے لڑنے کا سبق دیا۔
وہ نہایت حق گو، بے باک، فیاض، تیز فہم اور عہد کے پکے تھے؛ مگر ان کے یہ اوصاف حمیدہ غلط رخ پر محو سفر تھے۔ قرآن نے آکر ان کی خرابیوں کو اچھائیوں سے بدل دیا اور اچھی صفات کو صحیح سمت پر ڈال دیا۔ اسلام نے اس طرح ان کو متحرک کیا کہ وہ دنیا کے اندھیروں کو ختم کرنے والے اور ہر طرف اجالا پھیلانے والے بن گئے، ان سے لوگوں کو رہ نمائی ملی۔ یہ اسلامی انقلاب کا تعمیری مرحلہ تھا۔
ان کی زندگی کا کوئی مقصد اور مطمح نظر نہ تھا۔ عربوں نے قرآن پڑھ کر اس میں عظیم ترین سچائی کو پالیا۔ قرآن نے ان کے سامنے اعلی مقصد آخرت کو پیش کیا؛ چنانچہ وہ ان کے لیے حقائق کی دریافت کا ذریعہ بن گیا۔ اسلام نے ان کے ذہن کے بند دروازوں کوکھول دیا۔ ان کے سینوں میں حوصلوں کے چشمے جاری کردیے۔ اسلام نے ان کی سوچ کی سطح کو بدل دیا اور اسی کے ساتھ کردار و عمل کے معیار کو بھی اونچا کردیا۔ اہل ایمان کو اسلام کا عطا کردہ مقصدِ حیات اتنا عظیم تھا کہ اس کی حد کہیں ختم نہیں ہوئی؛ اس لیے ان کی ذات سے ایسے کارنامے ظاہر ہوئے جو کسی حد پر بھی رکنا نہیں جانتے تھے۔ اسلام نے ان کے ذہن کو جگا کر اس کے اندر سوچ کی بے پناہ محبت بھردی ۔
اسلام کی معجزاتی تاثیر نے ہی اخلاق و اقدار سے بیگانہ عرب قوم کو تہذیب اور اعلی اخلاق کا آئیڈیل بنادیا۔ درس گاہ قرآنی کے اولین فضلاء یعنی صحابہ دین و اخلاق اور سیاست و قوت کے مکمل پیکر تھے۔ ان میں انسانیت کی اپنے تمام گوشوں، شعبوں اور محاسن کے ساتھ نمود تھی۔ ان کی اعلی روحانی تربیت، بے مثال اعتدال، غیر معمولی جامعیت اور وسیع عقل کی بنا پر ان کے لیے ممکن ہوا کہ وہ انسانی گروہ کی بہتر طور پر اخلاقی اور روحانی قیادت کرسکیں۔ ان کے اعلی اخلاقی نمونے معیار کا کام دیتے تھے اور ان کی اخلاقی تعلیمات عام زندگی اور نظام حکومت کے لیے میزان کا درجہ رکھتی تھیں۔ ان میں فرد وجماعت کا تعلق حیرت انگیز طور پر روادارانہ اور برادرانہ تھا۔ وہ ایک معیاری دور تھا جس میں عدل و انصاف، صدق و سادگی، خلوص ووفا اور محبت و الفت کی خوشگوار ہوائیں چلتی تھیں۔ اس سے زیادہ ترقی یافتہ دور کا انسان خواب نہیں دیکھ سکتا اور اس سے زیادہ مبارک و پُر بہار زمانہ فرض نہیں کیا جاسکتا۔
حضرات صحابہ کے حیرت انگیز انقلابی کارنامے
یہ اسلام کے عظیم الشان انقلابی پیغام کا کرشمہ تھا کہ صحابہٴ کرام کا ایک ایسا منتخب طبقہ دنیا میں پیدا ہوا جن کی نظیر روئے زمین پر کبھی موجود نہیں رہی۔ تمام انبیاء و رسل اور فلاسفہ و مفکرین میں یہ فخر صرف پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کو حاصل ہے ۔ دیگر بڑے بڑے انبیاء و رسل اور فلاسفہ و مفکرین کو اس کا عشر عشیر بھی نہیں ملا۔ تعداد کے اعتبار سے دنیا کے سب سے بڑے مذہب عیسائیت کے رہ نما حضرت عیسی (علیہ السلام) کو صرف چند حواری ملے، ان میں ایک ایسا بھی تھا جس نے دشمنوں سے خود ان کی مخبری کردی اور عیسائیوں کے عقیدہ کے مطابق ان کو صلیب پر چڑھا دیا گیا۔ حضرت موسی علیہ السلام کے اصحاب بنو اسرائیل نے میدان جنگ میں انھیں ٹکا سا جواب دیدیا کہ تم اور تمہارا خدا جاؤ اور لڑو ، اور ہم یہیں بیٹھے ہیں۔
اس کے برعکس اسلام کی بے مثال انقلابی تعلیمات سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسے جاں نثار پیروکاروں کی ایک جماعت میسرہوئی جس نے آپ سے محبت و تعلق کا حق ادا کیا اور آپ کے مشن کو آگے بڑھایا۔ حضرات صحابہ کے اندر وہ تمام صفات و کمالات بدرجہ اتم پیداہوئیں جن کی اس مشن کی تکمیل کے لیے ضرورت تھی۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کو جو قوم میسر آئی وہ جانبازی و جاں نثاری، قدسی صفات، اعلی انسانی اخلاقی، بلند کرداری اور شاندار فطری صلاحتیوں میں اپنا ثانی نہیں رکھتی تھی۔ پوری انسانی تاریخ میں ایسی عظیم الشان جماعت روئے زمین پر نہیں پائی گئی، اپنی تعداد کے اعتبار سے بھی اور اپنی گوناگوں خوبیوں اور خصوصیات کے اعتبار سے بھی۔ تاریخ عرب کا مشہور مصنف پروفیسر ’فلپ کے حتی ‘ (Philip K Hitti) اپنی کتاب میں لکھتا ہے کہ پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ وسلم) کے انتقال کے بعد عرب کی بنجر زمین گویا جادو کے ذریعہ ہیروٴں کی نرسری میں تبدیل ہوگئی۔ ایسے ہیرو کہ اتنی تعداد اور ان جیسی صفات کا حامل کہیں اور پایا جانا بہت مشکل ہے۔ اس کے الفاظ یہ ہیں:
After the death of the Prophet, the sterile Arabia seems to have been converted as if by magic into a nursery of heroes the like of whom both in number and quality is hard to find anywhere. (Philip K Hitti, History of Arabs, 142 (
حضرات صحابہ کی جاہلیت اور اسلام کی زندگی پر اگر نظر ڈالی جائے، تو معلوم ہوگا کہ ایام جاہلیت میں تمام اکابر صحابہ جن کی کوئی امتیازی شناخت نہیں تھی اور جو عام انسانوں کی طرح سمجھے جاتے تھے؛ لیکن قبول اسلام کے بعد ان کے اندر علم و عمل کی بے پناہ قوت ودیعت کردی گئی ۔ ان میں سے کتنے اسلام کے وسیع و عریض امپائر کے حکمراں ہوئے۔ کوئی مشہور عالم فوجی جرنیل، کوئی نامی گرامی فاتح، کوئی اولوالعزم اور طالع آزما مجاہد، کوئی میدان علم و تقوی کا شہسوار اور کوئی اعلی انسانی اخلاق کا پیکر۔ ایک ایک صحابی کی زندگی کا ورق اٹھا کردیکھ لیجیے کہ ان کی زندگی میں کتنے ہمہ گیر انقلابات آئے اور اسلام نے ان کی خوابیدہ فطری صلاحتیوں کو جگا کر انھیں کہاں سے کہاں پہنچادیا اور ان کا نام رہتی دنیا تک کی تاریخ میں انمٹ نقوش چھوڑ گیا۔ رضی اللہ عنہم وارضاہم ۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے زمانہٴ خلافت میں (۱۸ھ میں ) شام کے محاذ پر مسلمان فوج میں طاعون کی وبا پھیل گئی جو تاریخ میں طاعون عمواس کے نام سے مشہور ہے۔ علامہ شبلی نعمانی نے اپنی شہرہٴ آفاق اور معیاری تصنیف ”الفاروق“ میں لکھا ہے کہ پچیس ہزار مسلم فوج اس وبا کا نشانہ بن گئی ، ورنہ پچیس ہزار کی یہ جیالی فوج آدھی دنیا فتح کرنے کے لیے کافی ہوسکتی تھی۔
اسلام کی آفاقی تعلیمات نے شخصیات کی تعمیر اور کردار سازی میں جو انقلابی رول ادا کیا ہے وہ تاریخ کے ہر دور کاایک نمایاں باب ہے۔ اسلام نے خدا جانے کتنے لوگوں کی زندگی کی کایا پلٹ دی اور نہ جانے کتنے دلوں میں ہلچل مچادی۔ اسلام کی پوری تاریخ عبقری شخصیات سے پُر ہے۔ علم و اخلاق، فکر وفلسفہ اور سیاست و حکومت کے ہر میدان میں ایسی بے شمار عالمی شخصیات پیداہوئیں جن کی نظیر کسی اور مذہب میں مل ہی نہیں سکتی ۔ حضرات صحابہ کے بعد تابعین اور بعد کے ادوار میں عالم اسلام کے اندر کتنے عباقرہ ، اکابر علماء و زعماء، محدثین و مفسرین اور مشہور عالم شخصیات پیدا ہوئیں یہ یقینا اسلام کی انھیں انقلابی تعلیمات کی پیدوار تھیں۔ ان کی زندگی میں حرکت وعمل کی انقلاب آفریں روح تھی جو اسلام نے ہی ان میں پھونکی تھی اور ان کی زندگی میں جس رفتار سے برقی لہر دوڑرہی تھی اس کی سپلائی اسلام ہی کے پاور ہاؤس سے ہورہی تھی۔
پوری اسلامی تاریخ گواہ ہے کہ جب جب مسلمانوں نے خود کو اسلام کی انقلاب آفریں تعلیمات سے مکمل طور ہم آہنگ کیا ہے ان میں اسی طرح کی انقلابی روح پیدا ہوئی ہے اور ان سے حیرت انگیر انقلابی کارنامے وجود میں آئے ہیں۔ زوال و ادبار کا جو طوفانِ بلاخیز اس وقت مسلمانوں کو اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے ہے، اس کی بنیادی وجہ اسلامی تعلیمات سے دوری ہے۔ کاش یہ عظیم حقیقت ہمیں دریافت ہوجاتی کہ ہماری کامیابی کی کنجی مغرب کی خیرہ کن تہذیب میں نہیں؛ بلکہ ان سادہ اسلامی تعلیمات میں ہے جس کا ایک علم بردار (حضرت ربعی بن عامر) رستم ایران کے زرق برق ایوان کے قالینوں اور غالیچوں کو نیزہ کی نوک سے چھیدتے ہوئے پہنچا اور یہ اعلان کیا کہ مسلمان کی زندگی کا مقصد انسانوں کو دنیا کی تنگی سے کشادگی کی طرف اور باطل مذاہب کی بے اعتدالیوں سے اسلام کے عدل کی طرف لانا ہے۔ (الکامل فی التاریخ)
اسی دریا سے اٹھتی ہے وہ موج تند جولاں بھی
نہنگوں کے نشیمن جس سے ہوتے ہیں تہہ و بالا
اسلام جس طرح کل مسلمانوں کی عظمت و رفعت کا ضامن تھا ، اسی طرح آج بھی ہے، اس میں وہ قوت ہے کہ مسلم قوم کو ذلت و نکبت کے گڑھے سے نکال کر کامیابی و ترقی کی شاہراہ پر گامزن کردے۔
***
—————————————-
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ 8-9 ، جلد: 96 ، رمضان-ذیقعدہ 1433 ہجری مطابق اگست-ستمبر 2012ء