دینی تعلیم سے بے توجہی – ایک لمحہٴ فکریہ!

از:مولانا محمد تبریز عالم قاسمی‏، استاذِ دارالعلوم حیدرآباد

                کیا انسان کے لیے اتناکافی ہے کہ وہ معاشرے میں، مذہبی اور دینی تعلیم وتربیت سے عاری ہوکر زندگی کے قیمتی لمحات گذارے، یا پھر اسے تعلیم وتربیت، تہذیب و شائستگی اور اخلاق وآداب کی بھی ضرورت ہے؟ واقعی اور یقینی بات یہ ہے کہ دوسری شِقانسان کی نافعیت کے لیے ناگزیر ہے، اس کا انکار، دن میں آفتاب کے انکار کے مترادف ہوگا، ہر زمانے میں تعلیم یافتہ شخص کی قدر وقیمت رہی ہے۔ تعلیم کے بغیر ترقی کی خواہش، خواہ مخواہ کی بات ہے، کوئی معاشرہ، سوسائٹی اور ملک، ترقی کی صف میں، اس وقت تک کھڑا نہیں ہوسکتا؛ تاآں کہ وہاں کے لوگ، زیورِتعلیم سے آراستہ نہ ہوں، تعلیم وہ نسخہٴ کیمیا ہے، جس سے مُردے، مسیحا بن جاتے ہیں۔

                خالقِ کائنات نے، انسان کو کامل ومکمل بنانے کے لیے، ہر طرح کا انتظام کیا ہے، انبیاء ورسل کی بعثت کا سلسلہ قائم فرمایا، ساتھ میں قوانین وضوابط اور دستورِ حیات اُتارے؛ تاکہ انھیں اپنا کر وہ ”خیرالناس“ کی فہرست میں شامل ہوسکے، دنیا میں امن وشانتی کی پُربہار ہوا چلتی رہے اور صالح وصحت مند معاشرے کی تشکیل ہو، اللہ رب العزت کی جانب سے بھیجے ہوئے قوانین اورانبیاء ورُسل کے ذریعہ، ان کی تلقین و تشریح ہی کا دوسرا نام ”دینی تعلیم“ ہے، اب اگر کوئی قوم اپنی بنیادی دینی تعلیم سے منھ پھیرکر، عصری تعلیم کے حصول میں رات دن ایک کردے اوراسے ہی ترقی کی معراج تصور کرنے لگے، تو اسے وقتی اور دنیوی فوائد اور عہدے ومناصب یقینا حاصل ہوں گے؛ مگر دیرپا اور اخروی فوائد سے نہ صرف ہاتھ دھونا پڑسکتا ہے؛ بلکہ آئندہ کی دائمی حیات خطرے میں پڑسکتی ہے۔

                ہم مسلمان قوم ہیں، ہماری الگ شریعت وسماج ہے، ہماری الگ روشن تعلیمات ہیں، جن پر غیر اقوام بھی رشک کرتی ہیں، جن کے بارے میں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”طَلَبُ الْعِلْمِ فَرِیْضَةٌ عَلٰی کُلِّ مُسْلِمٍ“ اور علم کی فرضیت کا مطلب، اس کے سوا اور کیا ہوسکتا ہے کہ؛ اتنا علم اوراتنی دینی تعلیم ہر مسلم مرد وعورت کے لیے بے حد ضروری ہے، جن سے وہ دین پر صحیح طور سے عمل پیرا ہوسکیں اور شریعت کے مطالبات کو روبہ عمل لاکر نگاہِ شریعت میں معتبر بن سکیں، پھر خدا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے محبوب بن کر، اپنی عاقبت سدھارکر، زندگی گذارسکیں، جو ایک مسلمان کانصب العین ہے۔

صورتِ حال کیاہے؟

                آج دینی تعلیم سے بے رغبتی روز افزوں ہے؛ جس مذہب نے دینی تعلیم کو تمام مردوں وعورتوں کے لیے فرض قرار دیاہو،اور جس مذہب میں علم وحکمت سے پُرقرآن جیسی عظیم کتاب ہو اور جس مذہب کی شروعات ہی ”اقرأ“ یعنی تعلیم سے ہوئی ہو، اسی مذہب کے ماننے والے دینی تعلیم کے میدان میں سب سے پیچھے ہیں، قانونِ وراثت کو نصف علم بتانے والے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں، اس کا علم رکھنے والے کھانے میں نمک کے برابر بھی نہیں، علامہ اقبال نے تعلیم کو، امراضِ ملت کی دوا اور خونِ فاسد کے لیے مثل نشتر بتایا ہے؛ لیکن اس دوا کی فکر کتنے لوگوں کو ہے؟ کہتے ہیں کہ ماں کی گود، بچے کے لیے پہلا مکتب ہوتا ہے،اب اگر ماں ہی دینی تعلیم سے بیزار ہے تو اندازہ کرنا مشکل نہیں کہ بچے پر کیا اثرات پڑیں گے،اگر گھر کے بزرگ وبرتر افراد ہی دینی تعلیم سے تہی دامن ہوں، تو وہ اپنے نونہالوں کی کیا ذہن سازی کریں گے، مسلمانوں کے گھروں میں، دینی تعلیم کی کمی تشویش ناک حد تک ہے، آج مسلمانوں کو اور ان کے بچوں کو قرآن وحدیث کے مطالعہ کی فرصت ہی نہیں، لوگ اپنے بچوں کو دینی تعلیم سے آراستہ کرنے کی فکر ہی نہیں کرتے؛ جو زندگی گذارنے کے لیے ضروری ہے، اب وہ بچے جو کل کا مستقبل اور سرمایہ ہیں، جب ہوش کی عمر کو پہنچیں گے تو ان سے دین کی عزت وتکریم کی توقع بے سود ہے، ہر طرف دنیاوی علوم کے حصول کاشور ہے، ہر فرد اسی تاک میں ہے کہ کیسے، اعلیٰ دنیاوی تعلیم حاصل کرکے نوکری (Job) کرلے،اور زیادہ تنخواہ حاصل کرے، اسلام اس کی راہ میں حائل نہیں ہے، ہاں مگراتنا ضرور ہے کہ دینی تعلیم کو فراموش کرکے، عصری تعلیم کا حصول خدائی گرفت کا موجب ہے، دینی تعلیم تو بنیاد ہے اور عصر ی تعلیم دیواریں، بنیاد کے بغیر، دیوار کا تصور، احمقانہ تصور کہلائے گا اور وہ حضرات جن کی رگوں میں، دینی غیرت وحمیت کا خون بالکل سرد نہیں ہوا ہے، ان میں سے کچھ لوگ اپنے بچوں کو دینی تعلیم دینا چاہتے ہیں؛ لیکن طریقہٴ کار غلط ہوتا ہے؛ کہ دن بھر میں صرف ایک گھنٹہ ٹیوشن کے نام پر کسی نامکمل مولوی یا استانی کو مامور کردیتے ہیں، جن کی معلومات ہی ناقص ہوتی ہے؛ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بچوں کی بنیادی تعلیمات بھی نقص کا شکار ہوجاتی ہے۔

افسوس ناک سرد مہری

                آج مسلمانوں کا بہت بڑا طبقہ ایسا ملے گا؛ جسے سیرتِ رسول  صلی اللہ علیہ وسلم کی موٹی موٹی باتیں معلوم نہیں؛ لیکن کھلاڑیوں اور فلمی دنیا سے متعلق باتوں کے حوالے سے ان کی معلومات اعلیٰ درجے کی ہوتی ہیں، بہت سے لوگوں کو نماز ودیگر عبادات کے فرائض وسنن کا علم نہیں، اسلام کے بنیادی عقائد کی معرفت نہیں، ہمارے بہت سے مسلم بچے ایسے ملیں گے کہ وہ کلمہ تک نہیں جانتے، دینی تعلیم کے ترک کا ہی منفی نتیجہ یہ نکلا کہ مسلمانوں کی اکثریت نماز پنج گانہ سے غافل ہوکر، دربارِ الٰہی میں پانچ وقت کی حاضری سے محروم ہوگئی،اوراس کی حاضری جمعہ وعیدین تک محدود ہوگئی، اس کے چہرے سے حضور علیہ السلام کی سنت (داڑھی) غائب ہوگئی، اس کے جسم سے اسلامی لباس رخصت ہوگیا، یعنی اس کی زندگی سے اسلامی رنگ ختم ہوگیا اور بات یہاں تک پہنچ گئی کہ کارواں کے دل سے احساسِ زیاں رخصت ہوگیا، لوگ بزبانِ حال یہ کہہ رہے ہیں کہ دینی تعلیم کے حصول میں، سیم وزر کے حصول کی گارنٹی نہیں ہے، سوال یہ ہے کہ دینی تعلیم اسی کے لیے ہے اور کیا دینی تعلیم کے حصول میں منہمک رہنے والا طبقہ بھوکوں مررہا ہے؟ یہ تو بزدلانہ خیال ہے۔ وہ حضرات خوش نصیب ہیں، جو دینی تعلیم کے حصول میں مشغول ہیں، کچھ نہیں تو وہ قرآن ونماز درست پڑھتے ہیں، آج عموماً اس کا رونا ہے کہ بچے والدین کی عزت نہیں کرتے، من مانی کرتے ہیں، اسراف کا شکار ہیں اور غلط راہ پر گام زن ہیں تواس بیماری کا واحد حل، بچوں کو دینی تعلیم اور اسلامی اخلاق سے آراستہ کرنا ہے، اسی میں گھر اور معاشرے کا سکون پنہاں ہے؛ کچھ حضرات یہ کہتے ہیں، مغربی تعلیم وتہذیب نے، اسلامی تعلیم و تہذیب کو متاثر کیا ہے، ہم کیاکرسکتے ہیں،یقینا یہ صحیح ہے؛ لیکن یہ کہہ کر پلہ جھاڑ لینا مسئلہ کا حل نہیں، اپنا قصور بھی ماننا پڑے گا، ہم کیوں متاثر ہوئے، ہم نے اپنے دامن کو محفوظ کیوں نہیں رکھا، اسلام کے اندر تو غیروں کو جذب کرنے کی صلاحیت ہے، نہ یہ کہ خود اسے ہی ہضم کرلیاجائے، غالباً اکبر نے کہا ہے اور سچ کہا ہے:

اسلام کی تعلیم سے بیزار ہوئے تم

ہم کو تو گلہ تم سے ہے، یورپ سے نہیں ہے

                ذرا غور کیجیے: ہر مذہب کے لوگ اپنے اپنے مذہب پر مضبوطی سے قائم ہیں،اور ہم مسلمان من حیث القوم کہاں جارہے ہیں؟ ہماری منزل کیاہے؟ ہمارا انتخاب کیا ہے؟ ہمارا نصب العین کیاہے اور کیا ہونا چاہیے؟ کچھ پتہ نہیں! دینی تعلیم سے بے توجہی کا گلہ کس سے کیاجائے، اس سے بے التفاتی کا شکوہ کس کے سامنے کیا جائے؟ کیا ہماری بربادی، تنزل اور مغلوبیت کا باعث، دینی علوم کا ترک نہیں ہے؟ ہم نے یہ سوچنا کیوں چھوڑدیا کہ دینی علوم، ایک ایسا چراغ ہے، جس کی روشنی سے، تنگ و تاریک دل کشادہ اور روشن ہوجاتے ہیں، ہم یہ خیال کیوں نہیں کرتے کہ دینی تعلیم کی بساط پر ہی ہماری دنیا وآخرت سنور سکتی ہے، ہم کیوں نہیں غور کرنے کی کوشش کرتے کہ دینی تعلیم کے ذریعہ ہی ہم اپنی زندگی کے پیچ وخم سلجھاسکتے ہیں، ہم کیوں نہیں یقین کرتے کہ دینی تعلیم کے بل پر ہی، ہماری نَیَّا منجھدار سے نکل کر ساحلِ سکون پر لگ سکتی ہے، ہم کیوں نہیں اپنے اس عقیدے کو تازہ کرتے ہیں کہ دینی تعلیم ہی دنیا وآخرت میں فلاح پانے کی شاہ کلید ہے، ہم کیوں یہ بھول رہے ہیں کہ روزی روٹی کا مسئلہ بھی اس سے حل ہوجائے گا، ہم دینی تعلیم کے بغیر، شریعت کے تقاضے، مطالبات اور پیغامات کو کیسے سمجھیں گے، کیا ہمیں قرآن کو قرآن کی طرح پڑھنے کی فکر نہیں کرنی چاہیے، کیا ہم دینی تعلیم کے بغیر نماز وروزے اور دیگر عبادات کی روح کو سمجھ سکتے ہیں، کیا ہم دینی علوم کے بنا حلال وحرام کے درمیان صحیح فرق کرسکتے ہیں؟ ہمارے لیے یہ لازم ہے کہ ہم علمِ دین خود سیکھیں اور اپنی اولاد ومتعلقین کو سکھلائیں اور اس کی نشر واشاعت اور گھر گھر پہنچانے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں، وقت کا تقاضا بھی یہی ہے ، وقت کی پکار بھی یہی ہے اور شریعت بھی یہی چاہتی ہے۔

***

————————————–

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ 8-9 ‏، جلد: 96 ‏، رمضان-ذیقعدہ 1433 ہجری مطابق اگست-ستمبر 2012ء

Related Posts