حضرت آپا جان رحمةُ اللہِ عَلَیْہَا زوجہٴ محترمہ شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی نَوَّرَاللہ مَرْقَدَہ

از:قاری تنویر احمد شریفی، کراچی‏، ناظم مجلس یادگار شیخ الاسلام رحمہ اللہ ، پاکستان

                امامُنا و سَیِّدُنا شیخُ الاسلام مولانا سید حسین احمد صاحب مدنی نوراللہ مرقدہ کی ”تیسری اہلیہ محترمہ (والدہ ماجدہ مرشدی فدائے ملت حضرت مولانا سید اسعد صاحب مدنی قُدِّسَ سِرُّہ کا انتقال ۱۸،۱۹/شعبان المعظم ۱۳۵۵ھ/ ۴،۵/نومبر ۱۹۳۶/ کی درمیانی شب میں دہلی میں ہوا، حضرت شیخ الاسلام میت دہلی سے دیوبند لائے اور قبرستانِ قاسمی میں تدفین ہوئی۔

                اس حادثے کے ایک ہفتے بعد حضرت شیخ الاسلام دیوبند سے سلہٹ کے لیے روانہ ہوگئے، رمضان المبارک عموماً سلہٹ میں گزارتے تھے، راستے میں اپنے آبائی وطن ٹانڈہ میں دو ایک روز کے لیے قیام فرمایا، اسی دوران اپنے چچازاد بھائی کے یہاں چوتھا عقد مسنون ہوا۔ اس کی تفصیل حضرت شیخ الاسلام کے قلم مبارک سے اس طرح ہے:

”میں جناب (مولانا عبدالماجد دریابادی) سے ریل میں جدا ہوکر شب میں ٹانڈہ پہنچا، وہاں میرے تائے زاد بھائی محمد بشیر صاحب کی لڑکی دوسال سے بیوہ تھی، اس کو نکاح کے دو تین سال کے بعد بیوگی کا منہ دیکھنا پڑگیا تھا۔ صرف ایک بچی پیدا ہوئی تھی، جوکہ تھوڑے ہی دونوں زندہ رہ کر راہیِ ملکِ بقا ہوگئی تھی۔ اس بیوہ کے نکاح کا عرصے سے جھگڑا چلا آتا تھا، مختلف مقامات پر اس کے نکاح کے لیے گفتگو ہوئی تھی؛ مگر کوئی جگہ مناسب ہاتھ نہ آئی تھی۔ میرے احباب نے بغیر میری منشا اور تحریک اس میں تحریک شروع کردی تھی؛ کیوں کہ بھائی محمد ظہیرصاحب جو کہ بھائی محمدبشیر صاحب کے بڑے بھائی ہوتے ہیں، بہ طورِ تعزیت دیوبند گئے تھے۔ اگرچہ اس وجہ سے کہ میں اس وقت ساٹھ برس کی عمر کو پہنچ رہا ہوں اور لڑکی کی عمر تقریباً بائیس سال ہے، عدم تناسب بھی تھا؛ مگر اتحاد خاندانی اور اس کی بیوگی اور کسی موزوں جگہ کا ہاتھ نہ آنا؛ کیوں کہ جن جگہوں سے اس کے رشتے آرہے تھے، ان کی بیویاں موجود تھیں؛ مگر وہ اپنی بیویوں سے خوش نہ تھے، وغیرہ امور اس امر کے متقاضی ہوئے کہ اس کو منظور کروں۔ میں نے استخارہ کیا، اس سے پہلے دیوبند میں اور دوسری جگہوں میں آٹھ نو جگہ سے پیغام کنواری اور بیوہ لڑکیوں کے لیے آیا تھا؛ مگر میں نے توقف کیا تھا۔ بہرحال صبح بہ روز دوشنبہ (پیر) ۳۰/شعبان میرے سامنے یہ مسئلہ پیش ہوا، لڑکی کے تائے نے ظاہر کیا کہ گھر میں سب لوگ راضی ہیں، جب تو (مولانا حسین احمد مدنی) سلہٹ سے واپس ہوتو عقد کرکے ساتھ لیتے جانا۔ میں نے ان کو نشیب وفرازپر متنبہ کیا، بالخصوص اپنی عمر کے متعلق، چوں کہ وہ ہمارے خاندان میں مردوں میں سب سے زیادہ عمر والے ہیں، ہم بھائی ان کے سامنے بچے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ میں بہ خوبی واقف ہوں اور جملہ امور پر کافی غور کرچکا ہوں،اور گھر میں بھی عورتوں، مردوں نے غور کرلیا ہے، تب میں نے کہا کہ اگر لڑکی اور اس کی ماں وغیرہ راضی ہیں تو کیوں نہ عقد ابھی کردیاجائے۔ میں عقد کردینے کے بعد اسی وقت چلا جاؤں گا اور واپسی پر لیتا جاؤں گا، جو لوگ مجھ کو اپنی محبت کی وجہ سے مختلف مقامات سے پیغام دیتے اور تحریک کررہے ہیں ان لوگوں کو مزید حاجت نہ رہے گی۔ بہت سے جھگڑے بند ہوجائیں گے۔ انھوں نے کہا کہ اس کا تذکرہ نہیں آیا ہے، میں مشورہ کرکے خبر دیتا ہوں۔ الحاصل انھوں نے مشورہ لیا اور چھوہارے منگاکر اس مجمع میں جس میں کچھ احباب ملنے کی غرض سے آئے تھے، مہرِفاطمی پر عقد کردیا، اس کے بعد وحید(۱) اور اس کے خُسر وغیرہ کا اصرار ہوا کہ ایک شب یہاں قیام کرلیاجائے۔ زیادہ اصرار پر بجز اس کے کوئی چارہ نظر نہ آیا؛ چنانچہ یکم رمضان سہ شنبہ (منگل) کو میں ٹانڈہ سے روانہ ہوگیا، جو حالت مشاہدہ ہوئی مجھ کو قوی امید ہے کہ یہ عقد باعث طمانیت خاطر ہوگا۔ آیندہ جو قضائے الٰہی ہو،اس میں دم مارنے کی جگہ نہیں ہے۔

                اسعد بہ خیریت ہے، اپنی نئی اماں سے بہت زیادہ مانوس ہوگیا ہے، حتیٰ کہ اس نے یہاں کی عورتوں سے کہا کہ مجھ کو اپنی نئی اماں سے اس قدر محبت ہوگئی ہے کہ اب مجھ کو پہلی اماں کی یاد نہیں ستاتی،اور اس کو بھی اسعد(۲) کے ساتھ گرویدگی ایسی معلوم ہوئی جوکہ اپنے بچے سے ہوتی ہے۔ اللّٰھم زد فزد“ (۲۲/رمضان المبارک ۱۳۵۵ھ/ ۶/دسمبر ۱۹۳۶/) (مکتوبات شیخ الاسلام، ج:۱، ص:۱۶۵،۱۶۶، مطبوعہ کراچی ۱۹۹۴/)

                حضرت شیخ الاسلام نوراللہ مرقدہ جیل میں مقید تھے، مرشدی حضرت مولانا سید اسعدمدنی کی شادی کی فکر حضرت کو ہوئی تو اپنی اہلیہ محترمہ (آپاجان) کو تحریر فرمایا:

                ”میری رفیقہٴ حیات! تم کو اللہ تعالیٰ ہمیشہ سلامت اور خوش وخرم رکھے، آمین!

                تمہارا خط ۱۳/رجب (۱۳۶۳ھ / ۴/جولائی ۱۹۴۴/) کا پہنچا۔ اس سے پہلے میں نے ۲۲/رجب کو خط لکھا ہے وہ پہنچا ہوگا، جس میں اطلاع دی تھی کہ اس وقت ممکن نہیں ہے کہ میں آسکوں؛ اس لیے تم میرا انتظار ہرگز مت کرو اور جلد دیوبند روانہ ہوجاؤ، اگر ابھی تک یعنی اس خط کے پہنچنے تک تم روانہ نہ ہوئی ہو تو اب جلد روانہ ہوجاؤ۔ بھاؤج صاحبہ (تمہاری اماں) کا ساتھ جانا بہت بہتر اور مناسب ہے۔ تمام امور میں آسانیاں رہیں گی؛ مگر ان کو کم از کم عید تک وہاں ہی رہنا چاہیے۔ ایسی کیاجلدی ہے کہ شادی ہونے کے بعد ہی واپس ہوجائیں، الہداد پور میں تمام ضروریات تمہاری بھاؤج اور بوبو انجام دیتی رہیں گی۔ تم غلط اور فضول خیال کرتی ہوکہ شادی میں میراموجودہونا ضروری ہے، تمہارا موجود ہونا اسعد اور عائشہ(۳) دونوں کے لیے کافی ہے۔ شادیوں کا تمام انتظام عورتیں ہی کرتی ہیں۔ تم اسعد کی بھی ماں ہو اور عائشہ کی بھی۔ بیرونی انتظامات قاری(۴) صاحب اور منشی شفیع صاحب اور دوسرے لوگ کرلیں گے۔ میرا موجود ہونا نہ ہونا دونوں برابر ہیں اور بالخصوص اس مہنگای کے وقت میں تو کوئی خاص انتظام ہو بھی نہیں سکتا۔ سب کام نہایت اختصار اور سادگی سے ہونا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ کو جو منظور ہو اس پر انسان کو خوشی سے راضی رہنا چاہیے، ورنہ بہ مجبوری راضی ہونا پڑے گا۔ اللہ تعالیٰ کے حکم کے سامنے تو انبیاء علیہم السلام کو سرجھکانا پڑتا ہے اور بغیر ماننے کے چارہ نہیں ہوتا، اولیاء اللہ کو کون پوچھتا ہے اور جب ایسے ایسے بڑوں کایہ حال ہے توہم جیسے گنہگار دنیا کے کتے کس شمار میں ہوسکتے ہیں، تمہارا یہ کہنا کہ تو دعا نہیں کرتا، تو خود ہمارے پاس آنا نہیں چاہتا، تو خود رہائی نہیں چاہتا،بالکل غلط ہے۔ کوئی معمولی عقل کا آدمی بھی کسی دنیاوی اور آخرت کی مصیبت پر خوش نہیں ہوسکتا، جب کہ ایک معمولی سمجھ کا بچہ بھی گوارا نہیں کرسکتا ہے کہ اس کے ہاتھ پیر باندھ دیئے جائیں یا کسی مکان میں اس کو مقفل کردیاجائے، تو میں کس طرح اس پر خوش ہوجاؤں گا اور مصائب کو گوارا کروں گا۔ دُعا نہ کروں گا۔ ایسی صورتوں میں تو اگر نہ بھی چاہے تب بھی دل سے دُعا نکلے گی؛ مگر واقعہ یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے آگے جب کہ بڑوں بڑوں کی پیش نہیں جاتی تو ہم جیسے نالائق لوگوں کی بات کس طرح چل سکتی ہے۔ غرضیکہ تمہارا خیال صحیح نہیں ہے؛ مگر اللہ تعالیٰ کو منظور ہے تو انشاء اللہ ہم جلد آئیں گے تم اطمینان اور خوشی وخرمی کے ساتھ رہو اور تمام کاموں کو اس طرح انجام دو کہ گویا کسی قسم کا تکدر اور حزن وملال کی بات پیش ہی نہیں آئی آنے والی اور ملنے والی عورتوں پر ہرگز کسی قسم کی پریشانی کا اظہار نہ ہونے دو، کوئی تذکرہ بھی کرے تو ہنس کر ٹال دو۔

                حاجی صاحب کو ہندوستانی کپڑوں کے بنانے کے لیے مجھ کو لکھنے کی ضرورت نہیں ہے، تم ہی ان کو کہلوادینا اور یہ بھی کہلوادینا کہ حسین احمد اور اسعد دونوں یہی پسند کرتے ہیں جیسا دیس ویسا بھیس۔ یہاں رہ کر یہاں کا ہی لباس ہونا چاہیے، ایسی بات نہ ہونی چاہیے جس سے ہنسائی کا موقعہ ملے یا کسی کو حرف گیری کی نوبت آئے۔ رشتہ داروں میں مجبوری طور پر تحمل کرنا اور میل جول رکھنا غصہ اور غم کو تھوک دینا پڑتا ہی ہے۔ رشتہ ناتا خدا نے بنایا ہے آدمی کے توڑنے سے ٹوٹ نہیں سکتا، ابا، بابا، اماں، بھاوج، بوبو سب سے سلام کہہ دو، ارشد، ریحانہ، عتیق، عبید، رشید، بریرہ سب کو دعاء وپیار پہنچے۔ (۲۷/رجب المرجب ۱۳۶۳ھ/۱۸/جولائی ۱۹۴۴/) (مکتوبات شیخ الاسلام، ج:۴،ص:۳۰۱ تا ۳۰۳)

                اس مکتوب کی خوبیوں پر مرتب ”مکتوبات شیخ الاسلام“ حضرت مولانا نجم الدین اصلاحی یہ حاشیہ تحریر فرماتے ہیں:

”اس والانہ نامہ پر حاشیہ لکھنا چاہا؛ مگر آنکھوں نے مجبور کردیا کہ اس کو اسی طرح رہنے دو۔ سطر سطر سے عبدیت اور عزیمت کی شان ظاہر ہے، اللہ اکبر! تعلیم دی جارہی ہے کہ کوئی تذکرہ بھی کرے تو ہنس کر ٹال دو، کیسا نازک موقع ہے اور کتنی نازک پوزیشن ہے اور کون مخاطب ہے پھر بھی دامان خدا ہاتھ ہی کے اندر ہے۔ ذرا بھی کمزوری نہیں۔“

                حضرت آپا جان نوراللہ مرقدہ کے نام حضرت شیخ الاسلام دوسرے خط میں تحریر فرماتے ہیں:

                ”تمہارا خط ۱۷/جولائی کا لکھاہوا ملا، اسی کے ساتھ مولوی فضل الرحمن صاحب کا کارڈ ۱۹/جولائی کا مل گیا کہ مولوی حمید تم سبھوں کو لے کر ڈاک گاڑی سے دیوبند روانہ ہوگئے۔ امید قوی ہے کہ تم سب بخیروعافیت دیوبند پہنچ گئے ہوگے اور ہرطرح وہاں اطمینانی صورتیں پائی ہوں گی۔ قاری صاحب کا ۱۹/جولائی کا خط ملا ہے وہ کہتے ہیں کہ بحمداللہ مرض میں اب تخفیف ہے، البتہ ضعف بہت زیادہ ہے․․․․ تم کو ۱۵/جولائی پر میرے نہ پہنچنے کا صدمہ نہ کرنا چاہیے اللہ تعالیٰ کو جو منطور ہوتا ہے وہی ہوکر رہتا ہے۔ اسی میں خیر ہوگی۔ بندہ کو آقا (اور وہ بھی ایسا کریم و رحیم آقا) کا ہر حکم نہایت خوشی سے ماننا چاہیے، بالخصوص جب کہ ہمارے جیسے ہزاروں آدمی ایسی ہی بلاؤں میں مبتلا ہوں، تم اطمینان اور سکون سے وہاں کے کاروبار انجام دو۔ امید قوی ہے کہ اللہ تعالیٰ قاری صاحب کو شفاء کامل جلد عطا فرمادے تو وہ فوراً دیوبند پہنچ جائیں گے اور ایسا نہ بھی ہوا تو وہاں مولانا اعزاز علی صاحب مولوی محمد عثمان صاحب منشی محمد شفیع صاحب کو تمام کام وہ سپرد کرآئے ہیں، یہ سب حضرات نہایت ہمدردی اور خیرخواہی اور جدوجہد سے تمام کام انجام دیں گے۔ اسعد بھی امتحان سے فارغ ہوکر ہر قسم کی خدمات انجام دے گا، تم کو ذرا بھی پریشان نہ ہونا چاہیے۔

                تم دریافت کرتی ہو کہ کن خاص عورتوں کو بلاؤں؟ تم کو خود اندازہ ہے، مجھ کو لکھنے کی ضرورت نہیں۔ الغرض جہاں تک ممکن ہو اختصار کے ساتھ اور سادگی سے معاملہ کرو․․․ راجوپور لے جانے کے لیے میں کچھ نہیں بتاسکتا۔ سوائے جوڑوں اور سہاگ پورہ اور زیوروں کے، اور کیا چیزیں جاتی ہیں؟ مجھ کو کچھ معلوم نہیں۔ وہاں ہی دریافت کرلینا، رسمی چیزیں کچھ نہ ہونی چاہئیں، جو امور حاجی صاحب فرمائیں اور مولانا اعزاز علی صاحب کی رائے ہو اس کو کرو۔ ریحانہ(۵) اب دیوبند پہنچ کر ہم کو بالکل بھول جائے گی، وہاں اس کی دل بستگی کا سامان بہت ہے، اپنی اماں کوکم از کم عید تک ضرور رکھنا۔ آج ۲۹/جولائی کو بابو اور مولانا عبدالمومن صاحب(۶) تشریف لائے، بابو سے یہ معلوم ہوا کہ عقد کے لیے ۱۴-۱۵/شعبان مقرر ہے۔ امید یہ کہ تم تمام تفصیلی باتیں خط میں لکھوگی۔ بنارس سے خط آیا ہے کہ وہاں سے ۲۳/جولائی کو کپڑے روانہ ہوگئے۔ ان تھانوں میں سے آدھا آدھا ان دو جوڑوں کے لیے لے لو جو کہ اسعد کی بیوی کے لیے بناؤگی اور آدھا آدھا فرید(۷) کے لیے رکھ لو، اس کی شادی بھی انشاء اللہ عید کے بعد ہوجائے گی۔ فقط دو دوپٹوں کی کمی رہ جائے گی، میں دوجانمازوں کو بنواکر بوبو بتول اور بوبو حسینہ کے لیے بھیجتا ہوں، اسعد لے جاکر ان کی خدمت میں پیش کردے۔ اپنی اماں سے بہت بہت سلام کہہ دو، والسلام۔“ (مکتوبات شیخ الاسلام، ج:۴،ص:۳۰۴،۳۰۵)

                حضرت آپا جان رحمة اللہ علیہا کے متعلق یہ معلومات حضرت شیخ الاسلام قدس سرہ کے مبارک قلم سے تھیں، جن سے گھریلو ماحول کی پاکیزگی اور سیرت کے احوال مل جاتے ہیں۔

                حضرت شیخ الاسلام کے گھر کا دسترخوان بڑا وسیع تھا، اپنے اور پرائے سب اس سے مستفید ہوتے تھے، میں اپنی آنکھوں دیکھا حال بیان کروں: ۱۹۸۷/ میں اپنے جد امجد حضرت مولانا قاری شریف احمد صاحب نوراللہ مرقدہ کے ساتھ ہندوستان گیا، اس سفر میں دارالعلوم دیوبند اور بعض اکابر دیوبند کی زیارت نصیب ہوئی۔ میرے مرشد ثانی حضرت مولانا سید ارشدصاحب مدنی مدظلہم کے ہاں ”مدنی منزل“ میں قیام ہوا۔ جیسے ہی دیوبند پہنچے مدنی منزل حاضر ہوئے۔ حضرت مولانا کے متعلق ان کے صاحب زادے نے بتایا کہ مظفرنگر ایک طالب علم کے ولیمے میں تشریف لے گئے ہیں۔ ظہر تک آجائیں گے، حضرت قاری صاحب نے فرمایا ٹھیک ہے، ہم ظہر کی نماز کے بعد آجائیں گے، انھوں نے جاکر گھر میں حضرت پیرانی صاحبہ آپاجان کو بتایا، انھوں نے کہلوادیا کہ آپ بغیر کھانا کھائے نہیں جاسکتے۔ حضرت قاری صاحب نے ہم سے فرمایا: حضر پیرانی صاحبہ کا حکم ماننا پڑے گا؛ اس لیے بیٹھ جاؤ، چند ہی منٹ میں دستر خوان لگ گیا اور ہم نے کھانا کھایا۔ حضرت قاری صاحب نے ہمیں بتایا کہ حضرت مدنی علیہ الرحمہ کے زمانے میں بھی بالکل اسی طرح کھانا آتا تھا اور دسترخوان لگنے کا یہی طریقہ تھا۔ فرق اتنا ہے کہ آج حضرت مدنی اس دسترخوان پر نہیں ہیں۔

                خاص بات یہ ہے کہ ہم سے یہ نہیں پوچھا گیا کہ تم کون ہو؟ کیا کام ہے؟ بس! کھانا کھاکے جائیں۔ اس طرح مجھے یہ سعادت اورنعمت نصیب ہوئی کہ اس گھر کا نمک کھایا۔

                حضرت شیخ الاسلام کے متوسلین اور سلسلہٴ مدنی کے منتسبین کے لیے بڑے رنج وغم کا موقع ہے کہ حضرت شیخ الاسلام کی اہلیہ محترمہ (جو حضرت مدنی کی چوتھی زوجہ تھیں) حضرت آپا جان ۱۳، اور ۱۴/شعبان المعظم ۱۴۳۳ھ / ۴،۵/جولائی ۲۰۱۲/ کی درمیانی شب اس دنیا سے رخصت ہوگئیں۔ انا للہ وانا الیہ راجعون! حضرت مرحومہ کی جدائی جہاں خاندان مدنی کے لیے عظیم حادثہ ہے وہیں ہمارے لیے بھی غم کا باعث ہے، گوکہ خاندان مدنی کو حضرت شیخ الاسلام سے ورثے میں یہ بھی ملا ہے، جسے حضرت مولانا سیدفرید الوحیدی اس طرح بیان کرتے ہیں:

”حضرت کی زندگی میں نہ مسرت کی کوئی قیمت تھی اور نہ صدمے کی کوئی اہمیت تھی، کوئی بھی حالت ہو ان کے شب وروز یکساں صبر و شکر اور وقار کے ساتھ گزرتے تھے۔“ (شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی – ایک تاریخی مطالعہ، ص:۴۲۶، مطبوعہ ملتان، ۲۰۰۵/)

                راقم الحروم نے مرشدی حضرت مولانا سیدارشدمدنی دامت برکاتہم (صدرجمعیة علمائے ہند) کو تعزیت کے لیے فون کیا تو درج بالا صفت پر کامل پایا۔ اللہ تعالیٰ حضرت والا مدظلہم، صاحب زادئہ شیخ الاسلام حضرت مولانا سیداسجد مدنی مدظلہم اور خاندان مدنی کے دیگر اکابر و اصاغر کو صبر جمیل عطا فرمائے، حضر آپا جان کی کامل مغفرت فرمائے اور جنت الفردوس عطا فرمائے، آمین!

                دارالعلوم دیوبند میں سالانہ امتحان ہورہے تھے،اس وجہ سے خاندان مدنی کے اکابر نے فیصلہ کیاکہ گیارہ بجے پرچہ ختم ہوگا تو فوراً احاطہ مولسری دارالعلوم دیوبند میں جنازہ ہوگا؛ چنانچہ ایسا ہی ہوا، ساڑھے گیارہ بجے دن جانشین حضرت شیخ الاسلام وجانشین حضرت فدائے ملت حضرت مولانا سیدارشد صاحب مدنی مدظلہم نے نمازِ جنازہ پڑھائی۔ ہزارہا افراد اس میں شریک تھے۔ اس کے بعد ”قبرستانِ قاسمی“ میں حضرت فدائے ملت مولانا سید اسعدصاحب مدنی قدس سرہ کی پائینتی تدفین عمل میں آ ئی۔ شام کو دارالعلوم میں تعزیتی اجتماع مہتمم دارالعلوم حضرت مولانا ابوالقاسم نعمانی مدظلہ کی صدارت میں ہوا،اور تعزیتی تقاریرہوئیں۔

                حضرت آپا جان کے بطن سے حضرت شیخ الاسلام کے صاحب زادوں اور صاحب زادیوں کی تفصیل اس طرح ہے:

                ۱- حضرت مولانا سیدارشد صاحب مدنی مدظلہم: آپ ۱۳۶۰ھ/۱۹۴۱/ میں پیداہوئے۔ ۱۹۴۵/ میں تعلیمی مراحل شروع ہوئے۔ ۱۳۸۳ھ/۱۹۶۳/ میں دارالعلوم دیوبند سے فراغت پائی۔ ۱۹۶۵/ میں جامعہ قاسمیہ گیا میں تدریس شروع کی۔ ۱۹۶۷/ میں مدینہ طیبہ تشریف لے گئے، چودہ ماہ وہاں قیام رہا اور پھر واپس تشریف لائے۔ ۱۳۸۹ھ/۱۹۶۹/ میں مدرسہ شاہی مرادآباد میں خدمت تدریس پر مامور ہوئے۔ دارالعلوم دیوبند کی نشأة ثانیہ کے بعد دارالعلوم کی طلب پر ۱۴۰۳ھ/۱۹۸۳/ میں دارالعلوم دیوبند کی مسند تدریس پر فائز ہوئے اور احادیث مبارکہ کے اسباق سپرد ہوئے۔ ۱۹۸۷/ سے ۱۹۹۰/ تک اور پھر ۱۹۹۶/ سے ۲۰۱۰/ تک ناظم تعلیمات بھی رہے۔ حضرت مولانا سیداسعدمدنی کے خلیفہ اعظم ہیں۔ ان کی وفات کے بعد ۲۸/فروری ۲۰۰۶/ کو جمعیة علمائے ہند کا صدر آپ کو منتخب کیاگیا اور تاحال اسی منصب پر فائزہیں۔ جون ۲۰۱۲/ میں ”رابطہٴ عالم اسلامی“ کے تاحیات رکن منتخب ہوئے۔ اللہ تعالیٰ آپ کا سایہٴ عافیت سلامتی کے ساتھ قایم رکھے اور حاسدوں کے حسد سے محفوظ رکھے آمین۔

                حضرت مولانا سید ارشد صاحب مدنی مدظلہم کے چھ لڑکے اور پانچ لڑکیاہیں۔

                ۲- حضرت مولانا سید اسجد صاب مدنی مدظلہم: فاضل دیوبند ہیں، تصوف میں اپنے برادراکبر حضرت مولانا سید اسعدمدنی سے تربیت حاصل کی۔ جھارکھنڈ میں کئی مدارس آپ کی زیرنگرانی چل رہے ہیں، اس کے علاوہ ”مولانا مدنی ایجوکیشنل ٹرسٹ“ کے تحت رفاہی امور انجام دے رہے ہیں۔ جمعیة علمائے ہند کے ناظم بھی رہے اور فعّال رہنما ہیں۔ حفظہم اللہ تعالیٰ۔

                ۳- صاحب زادی عمرانہ مدظلہا (زوجہ جناب مولانا قاری محمد عثمان صاحب منصورپوری مدظلہ)

                ۴- صاحب زادی صفوانہ مدظلہا (زوجہ حضرت مولانا محمد نعیم صاحب خان جہاں پور)

                ۵- صاحب زدای فرحانہ مدظلہا (غیرشادی شدہ)

                حضرت آپا جان کی سن پیدائش ۱۳۳۲ھ/۱۹۱۴/ ہے، اس طرح ایک سو ایک سال عمر پائی۔

***

حواشی:

(۱)           حضرت مولانا وحیداحمد مدنی برادر زادئہ حضرت شیخ الاسلام (شریفی)

(۲)           مرشدی حضرت مولانا سید اسعدمدنی کی عمر اس وقت تقریباً ساڑھے سات سال تھی۔ (شریفی)

(۳)          حضرت فدائے ملت کی پہلی زوجہ۔

(۴)          حضرت مولانا قاری اصغرعلی صاحب خادم خاص وخلیفہٴ مجاز حضرت شیخ الاسلام (شریفی)

(۵)          حضرت شیخ الاسلام کی بڑی صاحب زادی محترمہ، جو حضرت مولانا رشیدالدین حمیدی (خلیفہ شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندھلوی وسابق مہتمم مدرسہ شاہی مرادآباد) کے نکاح میں تھیں۔ (شریفی)

(۶)           ابن امام اہل سنت حضرت مولانا عبدالشکور لکھنوی۔ حضرت مولانا عبدالموٴمن فاروقی مُرشدی حضرت مولانا سیدارشد صاحب مدنی دامت برکاتہم کے خسر ہیں۔ (شریفی)

(۷)          حضرت مولاناسید فریدالوحیدی (مصنف: ”مولانا سید حسین احمد مدنی – ایک تاریخی مطالعہ“۔ حضرت مولانا وحیداحمد مدنی کے صاحبزادے تھے۔ حضرت شیخ الاسلام کے رشتہ کے پوتے تھے۔ ان کی پرورش حضرت شیخ الاسلام نے کی تھی۔ (شریفی)

***

—————————————

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ 8-9 ‏، جلد: 96 ‏، رمضان-ذیقعدہ 1433 ہجری مطابق اگست-ستمبر 2012ء

Related Posts