از:مولانا محمد اسجد قاسمی ندوی، استاذ دارالعلوم الاسلامیہ بستی
صبر اور شکر دونوں اسلامی تعلیمات میں کلیدی مقام کے حامل اوصاف و اخلاق ہیں، اسلام نے ان کو اپنانے پر بہت زور دیا ہے، قرآن و حدیث میں ان دونوں کے تعلق سے جابجا تاکیدی و ترغیبی ہدایات ملتی ہیں۔
علماء میں ایک بحث زمانہٴ قدیم سے یہ رہی ہے کہ صبر اور شکر میں افضل کون ہے اور اہمیت کسے زیادہ حاصل ہے؟
امام ابوالفرج ابن الجوزی نے اس سلسلے میں علماء کے تین اقوال بیان کئے ہیں:
(۱) صبر شکر سے افضل ہے۔ (۲) شکر صبر سے افضل ہے۔ (۳) دونوں کا درجہ یکساں ہے، اسی لئے حضرت عمر فاروق نے فرمایا تھا ﴿لو کان الصبر والشکر بَعیرَین ما بالیت أیہما رکبت﴾ اگر صبر و شکر دونوں سواریاں ہوتے تو مجھے پرواہ نہ ہوتی کہ میں کس پر سوار ہوجاؤں (یعنی دونوں کا مقام بالکل برابر ہے)
ہم ذیل میں اس کی مزید تفصیل پر روشنی ڈالیں گے۔
(۱) صبر شکر سے افضل ہے
قرآن کریم میں تقریباً ایک سو تین آیات میں صبر و اہل صبر کی اہمیت، فضیلت اور مقام و مرتبہ، اور صبر کی ترغیب و تاکید اور فوائد و نتائج و ثمرات کا ذکر وضاحت سے آیا ہے، اسی طرح صبر کی اہمیت و افضلیت کے تعلق سے بے شمار احادیث موجود ہیں جن سے صبر کے افضل و اعلیٰ ہونے کا اندازہ کیاجاسکتا ہے، ایک حدیث میں وارد ہوا ہے ﴿الطاعم الشاکر بمنزلة الصائم الصابر﴾ (بخاری: باب الاطعمة) شکرگذار کھانے والا صابر روزے دار کی مانند ہے، اس حدیث میں شاکر کو صابر کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے اور مقام و مرتبہ کے لحاظ سے شکرگذار کو صابر کے ساتھ لاحق کیاگیا ہے، اس سے صابر کی افضلیت سمجھی جاسکتی ہے کیونکہ اسے مشبہ بہ اوراصل قرار دیاگیا ہے اور شکر گذار کو مشبہ اور تابع و لاحق بتایاگیا ہے، اورمشبہ بہ و اصل کا مقام مشبہ اور تابیع و لاحق سے بڑھا ہوا ہوتا ہے۔
ذخیرئہ احادیث میں صبر سے متعلق احادیث شکر کی احادیث سے کئی گنا زائد ہیں، اسی طرح صبر کا تعلق بلاواسطہ ہر شعبہٴ زندگی اور ہر مسئلہ ایمان سے ہے،اور دین میں اس کو وہی مقام حاصل ہے جو جسم انسانی میں سَر کو حاصل ہوتا ہے۔
قرآنی اسلوب سے بھی یہی مترشح ہوتا ہے کہ صبر شکر سے برتر ہے، چنانچہ شکر کے بارے میں آیا ہے ﴿لئن شکرتم لأزیدنکم﴾ (ابراہیم/۷) اگر تم شکر ادا کروگے تو ہم تم کو مزید عطا کریں گے، جب کہ صبر کے بارے میں بے حساب اجر کا ذکر ہے ﴿انما یوفی الصابرون أجرہم بغیر حساب﴾ (الزمر/۱۰) صبر کرنے والوں کو تو ان کا اجر بے حساب دیا جائے گا۔ شکرگذاروں کے ذکر میں آیا ہے ﴿وسیجزی اللّٰہ الشاکرین﴾ (آل عمران/۱۴۴) اللہ تعالیٰ شکر گذاروں کو بدلہ دے گا، اور اہل صبر کے بیان میں یہ فرمایاگیا ﴿ولنجزین الذین صبروا أجرہم بأحسن ما کانوا یعملون﴾ (النحل/۹۶) ہم صبر کرنے والوں کو ان کے اچھے اعمال کا بدلہ ضرور دیں گے۔ اسلوب بیان کا یہ نمایاں فرق صبر کی برتری کی طرف واضح اشارہ کررہا ہے۔
حدیث میں آیا ہے ﴿کل عمل ابن آدم یضاعف لہ الحسنة بعشر أمثالہا الا الصوم فانہ لی و أنا أجزی بہ﴾ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ فرزندِ آدم کے ہر عمل پر دس گنا ثواب ملتا ہے، سوائے روزہ کے، کیونکہ وہ میرے لئے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ (بے حد و نہایت) دوں گا، روزے کے اس امتیاز کی وجہ بھی حدیث میں آئی ہے ﴿یدع شہوتہ وطعامہ وشرابہ من أجلی﴾ (متفق علیہ) وہ اپنی شہوت پر عمل کرنا اور کھانا پینا میری وجہ سے چھوڑ دیتا ہے، معلوم ہوا کہ کھانے پینے اور تقاضائے شہوت پورا کرنے سے صبر ہی روزے کا ثواب بے حد و حساب بنادیتا ہے، اسی لئے احادیث میں رمضان کو ﴿شہر الصبر﴾ صبر کا مہینہ بھی بتایا گیا ہے، بعض سلف کے بقول صبر شہوت اور غضب کے محرکات سے بچنا ہے، چونکہ روزے میں شہوت کے محرکات سے بچنا ہوتا ہے، اس لئے روزہ نصفِ صبر ہے۔
قرآن میں اہل صبر کے بارے میں آیا ہے ﴿انی جزیتہم الیوم بما صبروا أنہم ہم الفائزون﴾ (المومنون/۱۱۱) آج میں نے ان کے صبر کا پھل یہ دے دیا ہے کہ وہی کامیاب ہیں، یعنی ان کی کامیابی ان کے صبر کا صلہ ہے، اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے، ان کا مددگار، حامی و ناصر ہے، ان کا محافظ، و نگہبان ہے، اہل صبر خدا کی رحمتوں، عنایتوں، برکتوں اور نوازشوں سے بہرہ مند ہیں، وہ ہدایت یافتہ اور سعادت مند ہیں، ان حقائق کا اظہار قرآن میں اللہ نے فرمایا ہے اور صبر کو سب سے اعلیٰ مقام قرار دیا ہے۔
زہد اور دنیا سے بے نیازی بلا شبہ مالداری کے مقابلے میں افضل ہے، زاہد کامقام صابر کی طرح ہے، اور نیک مالدار کا مقام شاکر کی طرح ہے، حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے پوچھا گیا کہ دو آدمی خزانے کے پاس سے گذرے، ایک نے خزانے کو لے لیا، اور دوسرا بے نیاز و بے توجہ چلتا رہا، ان دونوں میں سے کون افضل ہے؟ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ جس نے خزانے کی طرف بالکل توجہ نہ کی وہ افضل ہے۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر روئے زمین کے تمام خزانوں کی کنجیاں پیش کی گئیں، اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم لے لیتے تواسے اللہ کی مرضی میں صرف کرتے مگر آپ نے ایک دن بھوکا رہنا اور ایک دن آسودہ رہنا پسند کیا، یعنی صبر و زہد کو ترجیح دی، اس تفصیل سے یہ آشکارا ہوتا ہے کہ صبر شکر سے افضل ہے۔
(۲) شکرصبر سے افضل ہے
علماء کا دوسرا طبقہ یہ کہتا ہے کہ شکر صبر سے برتر ہے، اس لئے کہ شکر اصل ہے اور صبر وسیلہ، خادم اور تابع کا درجہ رکھتا ہے، قرآن کریم میں شکر کو ایمان کے ساتھ مربوط کرکے بیان کیاگیا ہے ﴿ما یفعل اللّٰہ بعذابکم ان شکرتم و آمنتم﴾ (النساء/۱۴۷) اگر تم شکر ادا کروگے اور موٴمن رہوگے تو اللہ تجھ کو عذاب دے کر کیا کرے گا؟
اللہ کے نزدیک سب سے محبوب شکر اور اہل شکر ہیں اور سب سے مبغوض کفر اور اہل کفر ہیں، قرآن میں انسانوں کی دو قسمیں بیان ہوئی ہیں ﴿انا ہدیناہ السبیل اما شاکرًا و اما کفورًا﴾ (الدہر/۳) ہم نے انسان کو راستہ دکھایا، اب چاہے وہ شکر کرنے والا بنے یا کفر کرنے والا بنے، مزید فرمایاگیا ﴿ومن شکر فانما یشکر لنفسہ، ومن کفر فان ربی غنی کریم﴾ (النحل/۴۰) جو کوئی شکر ادا کرتا ہے اس کا شکر اس کے اپنے ہی لئے مفید ہے، ورنہ کوئی ناشکری کرے تو میرا رب بے نیاز اور اپنی ذات میں بزرگ ہے، ارشاد ربانی ہے ﴿لئن شکرتم لأزیدنکم، ولئن کفرتم ان عذابی لشدید﴾ (ابراہیم/۷) اگرتم شکر گذار بنوگے تو میں تم کو اور زیادہ نوازوں گا اوراگر کفرانِ نعمت کروگے تو میری سزا بہت سخت ہے۔
قرآن کہتا ہے ﴿ان تکفروا فان اللّٰہ غنی عنکم، ولا یرضیٰ لعبادہ الکفر، وان تشکروا یرضہ لکم﴾ (الزمر/۷) اگر تم کفر کرو تو اللہ تم سے بے نیاز ہے، لیکن وہ اپنے بندوں کے لئے کفر پسند نہیں کرتا، اور اگر تم شکر کرو تو وہ اسے تمہارے لئے پسند کرتا ہے۔
قرآن میں متعدد مقامات پر شکر اور کفر کا تقابل و موازنہ کیاگیا ہے،اور شکر و اہل شکر کی عنداللہ محبوبیت و مقبولیت،اور ان کے استحقاقِ اجر و نعمت و رحمتِ باری کا ذکر آیا ہے۔
اسلوب قرآن بھی شکر کی افضلیت کی وضاحت کرتا ہے، رزق، مغفرت، معافی، توبہ کی قبولیت وغیرہ کے بیان میں اللہ نے یہ فرمایا ہے کہ اللہ جسے چاہے گا رزق دے گا، معاف کرے گا، توبہ قبول کرے گا، مگر اہل شکر کے باب میں مشیت کی قید کے بغیر مطلقاً یہ فرمایا کہ ﴿وسیجزی اللہ الشاکرین﴾ (آل عمران/۱۴۴) اللہ شکرگذاروں کو بدلہ دے گا۔
دشمن خدا ابلیس کو شکر کی اہمیت اوراس کی مقبولیت عند اللہ کا ادراک تھا، تب ہی اس نے اللہ سے یہ کہا تھا کہ میں انسانوں کی گھات میں لگ کر آگے پیچھے دائیں بائیں ہر طرف سے ان کو گھیروں گا اور ﴿لا تجد أکثرہم شاکرین﴾ (الاعراف/۱۷) تو اُن میں سے اکثر کو شکرگذار نہ پائے گا۔
قرآن میں انسان کو مخاطب کرکے فرمایاگیا کہ تم ان لوگوں کی اولاد جنہیں ہم نے نوح کے ساتھ کشتی پر سوار کیا، یہ سنوکہ ﴿انہ کان عبدًا شکورًا﴾ (بنی اسرائیل/۳) حضرت نوح ایک شکرگذار بندے تھے، لہٰذا تم ان کی پیروی میں شکرگذار بنو۔
قرآن میں یہ وضاحت کی گئی ہے کہ اللہ کے شکرگذار بندے ہی اس کی بندگی کرتے ہیں، جو شکرگذار نہیں وہ عبدیت سے محروم ہے، فرمایاگیا کہ ﴿واشکروا اللّٰہ ان کنتم ایاہ تعبدون﴾ (البقرة/۱۷۲) اگر تم اللہ کی عبادت کرتے ہو تو تم اس کا شکر ادا کرو، حضرت موسیٰ علیہ السلام کو نبوت و رسالت کے اعزاز سے نوازا گیا اور شرف ہم کلامی بخشا گیا اور حکم دیاگیا ﴿وکن من الشاکرین﴾ (الاعراف/۱۴۴) آپ شکرگذاروں میں سے ہوجائیے۔
انسان کو عقل و شعور کے میدان میں قدم رکھنے کے بعد پہلا حکم قرآنی یہی ہے کہ ﴿أن اشکر لی ولوالدیک﴾ (لقمان/۱۴) تم میرا (اپنے رب کا) اور اپنے والدین کا شکر ادا کرو، حضرت ابراہیم کا امتیازی وصف یہ بتایاگیا ﴿شاکرًا لأنعمہ﴾ (النحل/۱۲۱) وہ اللہ کی نعمتوں کے شکرگذار تھے، قرآن میں تخلیق انسانی کی غرض وغایت شکر بتائی گئی ہے، فرمایاگیا ﴿واللّٰہ أخرجکم من بطون أمہاتکم، لا تعلمون شیئًا، وجعل لکم السمع والأبصار والأفئدة لعلکم تشکرون﴾ (النحل/۷۸) اللہ نے تم کو تمہاری ماؤں کے پیٹوں سے اس حالت میں نکالا کہ تم کچھ نہ جانتے تھے، اس نے تمہیں کان دئیے، آنکھیں دیں اور سوچنے والے دل دئیے، اس لئے کہ تم شکرگذار بنو۔
حضرت عمر فاروق نے ایک بار کسی کو یہ دعا کرتے ہوئے سنا کہ ﴿اللہم اجعلنی من الأقلین﴾ اے اللہ مجھے ان میں سے بنائیے جو کم ہیں، حضرت عمر نے پوچھا کہ اس کا کیا مطلب ہے؟ اس نے عرض کیا کہ اللہ کا فرمان ہے ﴿وما آمن معہ الا قلیل﴾ (ہود/۴۰) حضرت نوح پر بہت کم لوگ ایمان لائے، مزید فرمایا ﴿وقلیل من عبادی الشکور﴾ (سبا/۱۳) میرے بندوں میں شکرگذار کم ہیں، اور فرمایا ﴿وقلیل ماہم﴾ (ص/۲۴) ایمان و عمل صالح والے بہت کم ہیں، تو اہل ایمان، اہل عمل صالح اور اہل شکر تینوں کم ہیں، اللہ سے میں دعا کررہا ہوں کہ انہیں کم لوگوں میں مجھے شامل کردے۔(۱)
ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ شکر بذاتِ خود مقصود اور اصل عبادت ہے، جب کہ صبر بالواسطہ ضمناً عبادت ہے، وہ شکر کا خادم ہے اور شاکرانہ روح پیدا کرنے کا وسیلہ اور ذریعہ ہے۔
روایات میں آتا ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم راتوں کو نماز میں اتنا لمبا قیام فرماتے تھے کہ آپ کے مبارک پیروں میں ورم آجاتا تھا، صحابہ نے آپ سے عرض کیا کہ اللہ نے آپ کے الگے پچھلے سب قصور بخش دئیے ہیں پھر آپ اتنی عبادت کیوں کرتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ﴿أفلا أکون عبدا شکورًا﴾ کیا میں اللہ کا شکرگذار بندہ نہ بنوں (بخاری و مسلم) یعنی یہ عبادتیں شکر خداوندی کا اظہار ہیں۔
ایک بار حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ بن جبل سے فرمایا ﴿واللّٰہ انی لأحبک، فلا تنسیٰ أن تقول دبر کل صلاة، اللہم أعنی علی ذکرک وشکرک وحسن عبادتک﴾ (ترمذی) بخدا میں تم سے محبت کرتا ہوں، تو تم ہر نماز کے بعد یہ دعا کرنا نہ بھولو کہ اے اللہ! اپنے ذکر، شکر اور اپنی اچھی عبادت پر میری مدد فرمائیے۔
حضرت حسن بصری کا فرمان ہے ﴿ان اللہ لیمتع بالنعمة ما شاء، فاذا لم یشکر علیہا قلبہا عذابًا﴾ (۲) اللہ جب تک چاہتا ہے اپنی نعمتوں سے نوازتا ہے، پھر جب نعمتوں کا شکر ادا نہیں کیا جاتا تو اللہ انہیں عذاب سے بدل دیتا ہے۔
اسی لئے سلف نے شکر کا نام ”حافظ“ (موجودہ نعمتوں کی حفاظت کرنے والا) اور ”جالب“ (غیر موجود نعمتوں کو لانے والا) رکھا ہے۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز کے بقول ﴿قیدوا نعم اللہ بشکر اللہ﴾ (۴) اللہ کی نعمتوں کو شکر کے ذریعہ قید کرلو (تاکہ وہ کبھی ختم نہ ہوں)۔
امام شعبی کا قول ہے ﴿الشکر نصف الایمان، والیقین الایمان کلہ﴾ (العادیات /۶) انسان اپنے رب کا بڑا ناشکرا ہے، بقول حسن بصری مصائب کو شمار کرنے والا اور احسانات کو فراموش کردینے والا ہے، اسی لئے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عورتیں جہنم میں زیادہ جائیں گی، کیونکہ وہ ناشکری کرتی ہیں اور ﴿لو أحسنت الی احداہن الدہر ثم رأت منک شیئًا قالت، ما رأیت منک خیرًا قط﴾(۵) اگر تم عورت کے ساتھ زمانے بھر احسان کرو پھر کبھی تمہاری طرف سے کوئی ناگوار چیز اسے نظر آجائے تو وہ فورًا کہہ دے گی کہ میں نے تو کبھی تم سے کوئی خیر دیکھا ہی نہیں۔
جب شوہر کی ناشکری کا عذاب جہنم ہے تو اللہ کی ناشکری تو یقینا اس سے بڑا جرم ہے، عربی شاعر کے بقول۔
یا أیہا الظالم فی فعلہ والظلم مردود علی من ظلم
الی متیٰ أنت و حتیٰ متیٰ تشکوا المصیبات و تنسیٰ النِعم
اے ظالم وستمگر: ظلم کا خمیازہ ظالم کو بھگتنا پڑتا ہے، کب تک اور کہاں تک تم مصائب کا شکوہ اور احسانات کو فراموش اور نعمتوں کی ناشکری کرتے رہوگے؟ (اب تو بیدار ہوجاؤ)
حضرت نعمان بن بشیر کی روایت میں ارشاد نبوی ہے ﴿التحدث بالنعمة شکر، وترکہا کفر، و من لایشکر القلیل لا یشکر الکثیر، ومن لا یشکر الناس لایشکر اللہ، والجماعة برکة، والفرقة عذاب﴾ (۶) اظہارِ نعمت شکر ہے اور اخفاء ناشکری ہے، جو کم کا شکر ادا نہیں کرتا وہ زیادہ کا شکر بھی ادا نہ کرے گا، جو لوگوں کا شکر گذار نہیں وہ اللہ کا شکر گذار نہیں، اجتماعیت برکت و رحمت ہے اور اختلاف و انتشار عذاب ہے۔
شکر کی افضلیت و اولیت کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ﴿سلوا اللہ العافیة فانہ لم یعط عبدًا بعد الیقین خیرًا من العافیة﴾ (ترمذی) اللہ سے عافیت کا سوال کرو، کیونکہ ایمان و یقین کے بعد عافیت سے بڑی نعمت کسی بندے کو نہیں عطا کی گئی، اس مضمون کی متعدد احادیث ہیں جن سے یہ آشکارا ہوتا ہے کہ عافیت کی حالت مصیبت کی حالت سے بدرجہا بہتر ہے،اور شکر کا تعلق چونکہ حالتِ عافیت سے اور صبر کا حالتِ مصیبت سے ہے، اس لئے شکر کا درجہ افزوں ہوجاتا ہے۔
مشہور تابعی حضرت مُطرف بن عبداللہ کا فیصلہ کن ارشاد ہے ﴿لأن أعافی فأشکر أحب الی من أن ابتلیٰ فأصبر﴾ (۷) حالتِ عافیت میں رہ کر ادائیگی شکر حالتِ مصیبت میں صبر کے مقابلے میں مجھے زیادہ محبوب ہے۔
اس تفصیل سے یہ آشکارا ہوتا ہے کہ شکر کا مقام صبر سے بڑھا ہوا ہے۔
(۳) صبروشکر یکساں اہمیت کے حامل ہیں
صبروشکر دونوں کے فضائل اور ترغیبی ارشاداتِ قرآنیہ و نبویہ کی روشنی میں ایک طبقہ نے دونوں کو یکساں مقام دیا ہے، اور یہ واضح کیا ہے کہ کسی کو کسی پر برتری اور فوقیت نہیں دی جاسکتی، دونوں کا مرتبہ اور درجہ برابر ہے، اس نقطئہ نظر کی تائید میں بھی متعدد دلائل ہیں، جن میں سے چند کا ذکر یہاں کیا جاتا ہے۔
(۱) قرآن میں چار مقامات پر صبر اور شکر کو ایک ساتھ بیان کیاگیا ہے اور فرمایا گیا ہے ﴿ان فی ذلک لآیات لکل صبار شکور﴾(۸) بلا شبہ اس میں ہر صبر کرنے والے شکرگذار کے لئے بڑی نشانیاں ہیں۔
صبر اور شکر کو ایک دوسرے کے ساتھ جوڑنا اور تذکرہ کرنا دونوں میں مساواتِ مرتبت کی طرف مشیر ہے۔
(۲) حضرت عبداللہ بن عباس کی روایت میں ارشادِ نبوی ہے ﴿أربع من أعطیہن فقد اعطی خیر الدنیا والآخرة قلبًا شاکرًا ولسانًا ذاکرًا، بدنًا علی البلاء صابرًا، وزوجةً لاتبغیہ خونًا فی نفسہا ومالہ﴾(۹) جس کو چار چیزیں عطا ہوئیں اسے دنیا و آخرت کی خیر عطا ہوئی، شکر گذاردل، ذکر سے تَر زبان، مصائب پر صبر کرنے والا جسم اور جان ومال وآبرو میں خیانت نہ کرنے والی بیوی۔
(۳) فرمانِ نبوی ہے ﴿خصلتان من کانتا فیہ کتبہ اللہ صابرًا وشاکرًا، من لم یکونا فیہ لم یکتبہ اللہ صابرًا شاکرًا، من نظر فی دینہ الی من ہو فوقہ فاقتدیٰ بہ، ومن نظر فی دنیاہ الی من ہو دُونہ فحمد اللہ علی ما فضلہ بہ علیہ، کتبہ اللہ صابرًا شاکرًا، ومن نظر فی دینہ الی من ہو دونہ، ونظر فی دنیاہ الی من ہو فوقہ فأست علی ما فاتہ منہ، لم یکتبہ اللہ صابرًا و شاکرًا﴾ (۱۰)
دو خصلتیں جس میں ہوتی ہیں اللہ اسے صابر شاکر لکھتا ہے، اور جس میں یہ دو خصلتیں نہیں ہوتی ہیں اللہ اسے صابر و شاکر نہیں لکھتا ہے، جو شخص اپنے دینی معاملات میں اپنے سے اعلیٰ (زیادہ دیندار) کو دیکھ کر اس کی اقتدا کرلے، اور دنیوی معاملات میں اپنے سے کمتر (غریب) کو دیکھ کر اپنے ساتھ اللہ کے امتیازی فضل کے معاملے پر اللہ کی حمد کرے تو اللہ اسے صابر و شاکر لکھتا ہے، اور جو اپنے دینی معاملات میں اپنے سے کمتر (کم دیندار) کو دیکھے، اور اپنے دنیوی معاملات میں اپنے سے برتر (زیادہ مالدار) کو دیکھے اور اپنی (کم مالداری والی) حالت پرافسوس کرے تو اللہ اسے صابر وشاکر نہیں لکھتا ہے۔
(۴) حضرت صہیب سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ﴿عجبًا لأمر الموٴمن، ان أمرہ کلہ لہ خیر، ولیس ذلک لأحد الا للموٴمن، ان أصابتہ سراء شکر فکان خیرًا لہ، وان أصابتہ ضراء صبر فکان خیرًا لہ﴾ (مسلم)
بندئہ موٴمن کا معاملہ بھی عجیب ہے، اس کے ہر معاملہ اورہر حال میں اس کے لئے خیر ہی خیر ہے، اگراس کو خوشی اور راحت و آرام پہنچے تو وہ اپنے رب کا شکر ادا کرتا ہے، اور یہ اس کے لئے خیر ہی خیر ہے، اوراگراُسے کوئی دکھ اور رنج پہنچتا ہے تو وہ اس پر صبر کرتا ہے، اور یہ صبر بھی اُس کے لئے سراسر خیر اور موجبِ برکت ہوتا ہے۔
(۵) حضرت معاذ بن جبل کے صاحبزادے کی وفات پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ایک تعزیتی مکتوب لکھوایا جس میں یہ الفاظ بھی تھے ﴿فأعظم اللّٰہ لک الأجر وألہمک الصبر و رزقنا وایاک الشکر﴾ (الطبرانی فی الکبیر) اللہ آپ کو اس صدمہ کا اجر عظیم دے اور آپ کے دل کو صبر عطا فرمائے اور ہم کو اور آپ کو نعمتوں پر شکر کی توفیق عطا فرمائے۔
(۶) حضرت عبداللہ بن مسعود کا فرمان ہے ﴿الایمان نصفان: نصف صبر، ونصف شکر﴾(۱۱) ایمان کے دو حصے ہیں، ایک حصہ صبر ہے اور دوسرا حصہ شکر ہے۔
(۷) حضرت عمر بن خطاب کاارشاد ہے ﴿لو کان الصبر والشکر بَعیرین ما بالیت أیہما رکبت﴾(۱۲) اگر صبر دو اونٹ ہوتے تو مجھے پرواہ نہ ہوتی کہ میں کس پرسوار ہوجاؤں (یعنی دونوں مرتبے میں بالکل مساوی ہیں)
(۸) ابوسلیمان دارانی کا قول ہے ﴿جلساء الرحمٰن یوم القیامة من جعل فیہ خصالاً : الکرم، والسخاء، والحلم، والرأفة، والرحمة، والشکر، والبر، والصبر﴾(۱۳) قیامت کے روز رحمن کے ہم نشین وہ ہوں گے جن میں اللہ نے یہ خصلتیں رکھی ہوں، شرافت، سخاوت، بردباری، شفقت و رحمت، حسن سلوک اور شکر و صبر۔
ان تمام نصوص سے یہ واضح ہوتا ہے کہ صبر و شکر دونوں ایمانی گاڑی کے دو پہیے ہیں، ان میں سے کسی ایک کے بغیر نہ ایمان معتبر ہوتا ہے اور نہ مکمل، ایمان کی تکمیل و ترقی کے لئے صبر و شکر دونوں سے یکساں طور پر آراستگی ضروری ہے۔
تینوں آراء کا تجزیہ
تینوں نقاطِ نظر اور دلائل و نصوص کے تجزیے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ صبر اور شکر دونوں میں تلازم ہے، دونوں میں چولی دامن کا ساتھ ہے، دونوں ایک دوسرے میں داخل ہیں، معاصی سے صبر (بچاؤ) اور طاعات پر صبر (التزام) ہی شکر ہے، صبر کے بغیر شکر پایا ہی نہیں جاسکتا، اسی طرح شکر کے بغیر صبر کا وجود نہیں ہوتا، تقویٰ (جس کا مطالبہ متعدد آیات میں آیا ہے) کی اساس بھی صبر اور شکر ہی ہے، دین کی تکمیل انہیں سے ہوتی ہے، ایمان کی گاڑی انہیں دونوں پہیوں پر چل سکتی ہے۔
ہاں موافق حالات کے لئے شکر زیادہ موزوں و مطلوب ہے اور ناموافق حالات کے لئے صبر زیادہ موزوں و مطلوب ہے، ایک بندئہ مومن اپنے ایمان کی معتبریت اور تکمیل کے لئے صبر و شکر دونوں اوصاف سے یکساں طور پر متصف ہونے کا محتاج ہے۔
حواشی
(۱) عدة الصابرین وذخیرة الشاکرین لابن القیم، ص:۱۵۲۔ (۲،۳) عدة الصابرین /۱۵۵۔ (۴)ایضاً/۱۵۷۔ (۵) صحیح بخاری: باب کفران العشیر، کتاب الایمان۔ (۶) عدة الصابرین /۱۵۸۔(۷) ایضاً /۱۵۶۔ (۸) ابراہیم/۵، لقمان/۳۱، سبا/۱۹، الشوریٰ/۳۳۔ (۹) عدة الصابرین/۱۵۵۔ (۱۰) ایضاً /۱۸۵۔ (۱۱) عدة الصابرین /۱۴۰۔ (۱۲) ایضاً /۱۴۴۔ (۱۳) ایضاً/۱۸۲۔
______________________________
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ4، جلد: 89 ،صفر، ربیع الاول 1426ہجری مطابق اپریل 2005ء