از: مولانا غیاث الدین دھامپوری، خادم جامعہ عربیہ ہتھورا، باندہ
قادیانیوں کے بارے میں دنیا کے تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے کہ وہ اپنے اسلام مخالف مخصوص خیالات ونظریات کی وجہ سے مسلمان کہلانے کے حق دار نہیں ہیں، ان کا گہرا ربط یہود اور حکومت اسرائیل سے ہے، درحقیقت قادیانی تحریک یہودیوں ہی کی ایک شاخ ہے، اسلام کو بدنام کرنے اور مسلمانوں کے حقوق پر غاصبانہ قبضہ جمانے کے لیے اسلام مخالف طاقتوں کے سہارے پوری دنیا میں قادیانیوں نے اپنی ناپاک تحریک چھیڑ رکھی ہے۔ واضح ہو کہ فتنہٴ قادیانیت کوئی نیا فتنہ نہیں ہے، اب اس ناسور کی عمر سواسو سال سے اوپر ہوچکی ہے، تقسیمِ ملک سے پہلے سے قادیانیوں کا ارتدادی مرکز قادیان (پنجاب انڈیا) رہا ہے اور اسی سرزمین میں منحوس مرزا غلام احمد قادیانی اور اس کے خلفاء کو زمین کھود کر گاڑ رکھا ہے اور موصیین قادیان (یعنی قادیان میں دفن ہونے کی وصیت کرنے والے قادیانی) خواہ وہ کہیں بھی مرا ہو، اس کی لاش کو یہیں لاکر گاڑا جاتا ہے؛ مگر اس کے لیے موصی ہونا شرط ہے اور ہر قادیانی موصی کے لیے مرکز قادیان سے مقرر کردہ سالانہ چندہ شرط ہے اور تقسیم ملک کے بعد چنیوٹ (پاکستان) کے قریب دریائے چناب کے مغربی کنارے پر مرزائیوں نے اپنا ایک مستقل مرکز رَبوہ کے نام سے قائم کیا، پاکستان میں یہ ان کی ارتدادی اور تخریبی سرگرمیوں کا مرکز ہے، جس میں تعلیم، علاج، ملازمت، رشتہ وغیرہ کے لالچ اور دیگر مختلف ہتھکنڈوں سے مسلمانوں کو مرتد بنایا جاتا ہے، قادیان انڈیا میں بھی اور ربوہ پاکستان میں بھی ان کا ایک مستقل ادارہ ”نظارت اصلاح وارشاد“ کے نام سے قائم ہے، جس کے تحت مرزا غلام احمد قادیانی کی جھوٹی نبوت کی اشاعت وتبلیغ اور مسلمانوں کو مرتد بنانے کے لیے مبلغ تیار کرکے اندرونِ ملک اور بیرونِ ملک بھیجے جاتے ہیں، ہر زبان میں گمراہ کُن لٹریچر چھاپ کر لاکھوں کی تعداد میں مفت تقسیم کیا جاتا ہے، ان دونوں اداروں کا سالانہ بجٹ لاکھوں روپے ہوتا ہے؛ مگر پاکستان کی مارشل لا حکومت نے ۱۹۷۴/ میں اپنے آرڈی نینس کے ذریعہ جب سے قادیانیوں کے غیرمسلم ہونے کی توثیق کی ہے، تب سے پاکستان میں تو قادیانیت محدود ہوکر رہ گئی ہے، مگر ہندوستان میں تقریباً دس سال سے پھر سے اس کی ارتدادی سرگرمیاں عروج پر ہیں، قادیانی فرقہ وفتنہ تاریخِ اسلامی کا سب سے خطرناک فتنہ ہے؛ کیونکہ قادیانیت ایک مستقل دین اور متوازی امت کی دعوت ہے، یہاں پورا نظام ترتیب دیاگیا ہے، شعائر کے مقابلے میں شعائر، مقدسات کے مقابلہ میں مقدسات، مرکز کے مقابلہ میں مرکز، قبلے کے مقابلہ میں قبلہ، کتابوں کے مقابلے میں کتاب، مسجد کے مقابلے میں مسجد، نبی کے مقابلہ میں نبی، صحابہ کے مقابلہ میں صحابہ، جنت کے مقابلہ میں جنت، ہر چیز کا قادیانی دنیا میں بدل مہیا ہے؛ یہاں تک کہ اسلامی تقویم کے قمری وہجری مہینوں کے مقابلہ میں مہینوں کے بھی نئے نام رکھے ہیں، جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ قادیانیت نبوتِ محمدی کے خلاف ایک سازش ہے۔
قادیانیوں کے آر ایس ایس سے تعلقات
کثیر الاشاعت ہفت روزہ اردو نئی دہلی میں اپنی ۳ تا ۹/اکتوبر ۲۰۱۱ء کی اشاعت میں قادیانیت کے تعلق سے بعنوان ”قادیانی نئے جال لائے پرانے شکاری“ تحقیقاتی رپورٹ نمایاں طور پر بیان کرتا ہے کہ قادیانیوں کے تعلقات ہندو تنظیم RSSسے ہیں اور RSSکے بعض لیڈر قادیانیوں کے ایجنٹ ہیں اور دہشت گردی کی پُشت پر دونوں کی سانٹھ گانٹھ ہے، نیز نئی دنیا کی دوسری اشاعت میں نئی دنیا کے ایڈیٹر شاہد صدیقی نے برسرورق دو منھے سانپ کی تصویر بناکر جس میں ایک منھ قادیانیت کا اور دوسرا RSSکا ہے۔ دونوں کے گہرے تعلقات کا خلاصہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ: ہریانہ کے جھنجھولی میں مسلم راشٹریہ منچ کے سالانہ جلسہ کی صدارت آر ایس ایس کے بڑے لیڈر اندریش کمار کررہے تھے، جس میں مسلمانوں کی قابلِ ذکر تعداد نظر آرہی تھی، جس میں داڑھی ٹوپی میں ملبوس مولانا قسم کے افراد بھی خاصی تعداد میں شامل تھے، دنیا حیران تھی کہ اجمیر شریف، مکہ مسجد، اور سمجھوتہ ایکسپریس میں بم دھامکے کروانے والوں سے اتنے سارے مسلمان ہدایات لے رہے تھے؛ لیکن اب یہ راز پختہ شواہد کے ساتھ ہمارے سامنے موجود ہیں کہ اندریش کمار اور راشٹریہ مسلم منچ کی اصل طاقت مسلمان نہیں؛ بلکہ قادیانی ہیں، گذشتہ چند برسوں میں آرایس ایس اور قادیانیوں کا رشتہ زیادہ گہرا اور پُراسرار ہوگیا ہے، سنگھ پریوار نہایت ہی شاطرانہ انداز میں قادیانیوں کو مسلمانوں کے خلاف استعمال کررہا ہے، حتیٰ کہ مسلم راشٹریہ منچ کے پرانے کارکنوں اور عہدیداروں پر نووارد قادیانیوں کو ترجیح دی جارہی ہے، یہ حقیقت کسی سے مخفی نہیں کہ قادیانی مسلمانوں کے خلاف کس حد تک جاسکتے ہیں، قرآن کریم کی آیات واحادیث کریمہ کی من مانی تاویلات وتشریحات، ہو یا قرآن کریم میں کھلی تحریف کو نشانہ بناکر مسلمانوں سے مطالبہ کرنا کہ پہلے وہ ان آیاتِ جہاد کو قرآن سے نکالیں پھر بات ہوگی، آرایس ایس کی مدد قادیانی علماء اور ان کی کتابیں کرتی آئی ہیں، یہی لوگ RSSکو اسلام اور مسلمانوں کے خلاف مواد فراہم کرتے آئے ہیں، قادیانیوں پر RSS کے اعتماد کا ثبوت اس سے بھی ملتا ہے کہ جن ریاستوں میں B.J.P. اقتدار میں ہیں، وہاں وقف بورڈ اور حج کمیٹیوں میں قادیانیوں کو بٹھایا گیاہے، مسلم راشٹریہ منچ کا ایک لیڈر کہتا ہے کہ اندریش کمار جیسے لوگوں کو قرآن کی آیات کا استعمال کرنے میں قادیانی ہی مدد کرتے ہیں اور وہی ان کو اپنی مرضی کا معنی پہنانے میں مدد کرتے ہیں، قادیانیوں اور RSSکا یہ رشتہ بہت ہی پرانا ہے، یہ دونوں جماعتیں انگریزوں کے دور میں بھی ایک ہی مشن پر عمل پیرا تھیں، اگر ہماری حکومت اور سیکورٹی ایجنسیوں نے اپنی آنکھیں نہیں کھولیں تو یہ خطرناک گٹھ جوڑ ملک وقوم کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچادے گا، لہٰذا حکومت کو چاہیے کہ RSSاور قادیانیوں کے رشتوں کی تحقیقات کرائے۔
نئی دہلی میں قادیانیوں کا نام نہاد (قرآن ایگزہی بیشن)
موَرَّخہ ۲۳ تا ۲۵/ستمبر ۲۰۱۱/ کو نئی دہلی کے ”کانسٹی ٹیوشن کلب“ کے اسپیکر ہال میں قادیانیوں نے سہ روزہ قرآن کی نمائش کا پروگرام متعین کیا، دراصل یہ قرآن کریم کی نہیں؛ بلکہ یہ قادیانیت کی نمائش کی ایک کڑی تھی، مرزا غلام احمد قادیانی کی خودساختہ نبوت کا پرچار تھا، کانسٹی ٹیوشن کلب میں (احمدیہ مسلم کمیونٹی انڈیا، نئی دہلی) کے ذریعہ لگائے جانے والے قرآن ایگزہی بیشن کا دعوت نامہ ہفتوں پہلے تقسیم کیا جارہا تھا، پنجاب کے ایک کانگریسی ممبرآف پارلیمنٹ نئی دہلی کی معرفت کانسٹی ٹیوشن کلب کا اسپیکرہال بک کرایا گیا تھا، یہ نمائش دراصل بسلسلہٴ فروغِ قادیانیت منعقد کی جانی تھی؛ کیونکہ اس نمائش کے شاندار دعوت نامہ میں پورے دو صفحات پر قادیانیت کا مکمل تعارف، قادیانیت کی تاریخ وسن پیدائش درج تھا، قبل ازیں اس فتنہ نے یہ جرات نہیں کی تھی، جو اس نے اس بار کانسٹی ٹیوشن کلب میں نام نہاد نمائش کی آڑ میں کی تھی، نئی دنیا کی رپورٹ کے مطابق قادیانیوں نے قرآن پاک کے ترجمہ میں تحریف کرکے اور اس پر مرزا غلام احمد قادیانی کی پاسپورٹ سائز تصویر چھاپ کر دہلی کی کئی مساجد میں رکھ دیے ہیں، افسوس ہمارے قائدین کی یہ پرانی عادت ہے کہ وہ اس وقت تک نہیں جاگتے؛ جب تک ان کو جگایا نہ جائے، اگر اس فتنہ کی ریشہ دوانی پر دہلی میں پہلے ہی توجہ کرلی جاتی تو قادیانی قرآن نمائش کی آڑ میں اپنا کھیل شروع ہی نہیں کرسکتے تھے، لائقِ صد مبارک ہیں جامع مسجد دہلی کے شاہی امام سید احمد بخاری اور رابطہ کمیٹی جامع مسجد کے نمائندے اور اسلامک پیس فاؤڈیشن کے کارکنان ومسلم پرسنل لا بورڈ کے بعض ارکان جنھوں نے ہزاروں مسلمانوں کے ساتھ کانسٹی ٹیوشن کلب پہنچ کر انتظامیہ سے رابطہ اور پھر دباؤ بناکر قادیانیوں کی اس ناپاک نمائش کو بند کروایا۔
مرزا غلام احمد انگریزوں کا خاص ایجنٹ تھا
درحقیقت مرزا انگریزوں کا خاص ایجنٹ اور زرخرید غلام تھا اور نئی نسل کو گمراہ کرنے کی سازش کا ایک حصہ تھا، پوری اسلامی دنیا میں دھتکارے جانے اور مرتد وزندیق قرار دیے جانے کے باوجود قادیانی پھر بھی دعویٰ کرتے ہیں کہ آج دنیا کے پردہ پر بنی نوع انسان کے عموماً اور مسلمانوں کے خصوصاً خیرخواہ اور ہمدرد سوائے قادیانیوں کے دوسرا کوئی نہیں، نیز خود کو اپنے اپنے ملکوں کی حکومتوں کا انتہائی وفادار باور کراتے ہیں، حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے، جو شخص نبی کریم … کی نبوت پر ڈاکہ ڈالنے کی جسارت کرچکا ہو، وہ اور اس کی ذریت کیا کچھ نہیں کرسکتی، یہ بات بھی ریکارڈ پر رہنی چاہیے کہ ہمارے اکابرین نے ہمیشہ عدمِ تشدد کو ملحوظ رکھتے ہوئے قادیانیوں کے خلاف پوری قوت سے تحریک چلائی۔
قادیانیوں اور اسرائیل کے باہمی تعلقات
قادیانی مذہبی نہیں؛ بلکہ خالص سیاسی جماعت ہے اور یہودی ٹکڑوں پر پلنے والا استعماری پٹھو ہے، یہودی کبھی خسارے کا سودا نہیں کرتا، اسرائیل نے قادیانیوں کو اپنے نظریاتی ملک میں اپنے اصول وقواعد کے خلاف اپنے مفاد کی خاطر مذہبی آزادی دے رکھی ہے، قادیانیوں اور اسرائیل کے باہمی تعلقات اور روابط کا اندازہ قومی اخبارات میں ۲۲/فروری ۱۹۸۵/ کے ”یروشلم پوسٹ“ کے حوالے سے چھپنے والی اس تصویر سے لگایا جاسکتا ہے، جس میں دو قادیانیوں کو اسرائیلی صدر کے ساتھ نہایت مہذب انداز میں ملاقات کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے، یہ تصویر قادیانیوں کی اسلام دشمنی اور یہودی دوستی کا منھ بولتا ثبوت ہے، ہندوستان میں بٹالہ کے قریب واقع قادیان اور پاکستان میں ربوہ کے بعد ان کا سب سے منظم مرکز اسرائیل کے شہر ”حیفا“ میں ہے، اس وقت بھی جب کہ اسرائیل میں مسلمانوں کا رہنا دوبھر ہے، قادیانیوں کو اسرائیل میں کام کرنے کی پوری آزادی ہے، فلسطینی عرب مسلمانون آزادی کی جنگ لڑرہے ہیں اور قادیانی، اسرائیلی وزیراعظم، صدر وغیرہ سے ملاقاتیں کررہے ہیں، اسرائیل کا مسلمانوں پر ظلم وستم اور قادیانیوں پر اتنی عنایات آخر کس صہیونی منصوبے کا حصہ ہے۔ (Our Foreign Misson) آور فارن مشن جو قادیانی جماعت کے زیر اہتمام ربوہ میں چھپی تھی، اس کے صفحہ ۹۷ پر قادیانیوں کے اسرائیل میں ”حیفا“ کے مقام پر قادیانی مشن کی تفصیلات مذکور ہیں، اسرائیل سے قادیانیوں کے گٹھ جوڑ کی مصدقہ کہانی خود قادیانیوں کے رسائل وجرائد سے ثابت ہے، ان شرمناک سرگرمیوں اور استحصالی ہتھکنڈوں کا سلسلہ بہت پرانا اور طویل ہے؛ تاہم ایک واقعہ ملاحظہ فرمائیں ”تحریرک جدید کے مبلغ فلسطین رشید احمد چغتائی اسرائیل سے پاکستان ارسال کردہ ماہ اگست تا اکتوبر ۱۹۴۸/ اپنی رپورٹ میں لکھتے ہیں: ”فلسطین کے شہر ”صور“ اپنے ”حیفا“ کے احمدی بھائیوں تک پہونچنے کے سلسلہ میں گیا، جہاں فلسطینی پناہ گزینوں میں تبلیغ کی احمدی بھائیوں کی خواہش پر دو روز قیام رہا، تبلیغ کے علاوہ ان کی تربیت کے لیے بھی وقت صرف کیا؛ یہاں ۲۹ کس کو تبلیغ کی، انھیں کتب بھی مطالعہ کے لیے دی گئیں“ (اخبار الفضل ۱۲/مارچ ۱۹۴۹ء) اسرائیلی مشن قادیان کے ماتحت ہے، قادیانی جماعت کی تمام تنظیمیں اسی مرکزسے وابستہ ہیں، بہرحال اسرائیل میں قادیانی مشن کی موجودگی اور ان کے اسرائیلی حکومت کے ساتھ سفارتی تعلقات اور روابط کی قلعی تاریخی دستاویزات اور حقائق سے کھل جاتی ہے۔
ہندوستان میں قادیانی فتنہ
قادیانی فتنہ ہندوستان میں عرصہ سے محوِ خواب تھا، ہندوستان چونکہ قادیانیت کا منشاء ہے؛ اس لیے وہ اس کے منحوس سایہ سے کیسے محروم رہتا؛ چناں چہ ہندوستان ایک بار پھراس فتنہ کی آماجگاہ بن گیا، واضح رہے کہ انڈونیشیا کے بعد مسلمانوں کی سب سے زیادہ آبادی والا ملک ہندوستان ہی ہے، کیرالا،حیدرآباد، مدراس، جنوبی ہند کے مرکزی شہروں، مغربی بنگال تو ان کی سرگرمیوں کے میدان پہلے ہی سے تھے، اب کچھ کشمیر کے مرکزی علاقے اور دہلی، ہریانہ، راجستھان، لکھنوٴ، کانپور، امروہہ، وغیرہ میں بھی قادیانیوں کی ارتدادی سرگرمیاں بڑھتی جارہی ہیں اور وہیں سے اپنی ناپاک مساعی میں مشغول ہیں، یہ لوگ ناخواندہ، نیم خواندہ، اور پسماندہ مسلمانوں کے طبقے کو لالچ اور دھوکہ دے کر خود کو اسلام کا نمائندہ بتلاتے ہیں اور نہایت عَیّاری سے ان کے دین وایمان پر ڈاکہ زنی کرتے ہیں، ہندوستان کے جمہوری مزاج کا فائدہ اٹھاکر یہ فتنہ ازسر نو پھر ابھر رہا ہے، جس کی بیخ کَنی کی فی الفور ضرورت ہے؛ مگر افسوس کے ساتھ لکھنا پڑرہا ہے کہ حضرات علماء کرام کی توجہ اس طرف ناکے برابر ہے اور بعض علماء اورائمہٴ مساجد کو تو فتنہٴ قادیانیت سے متعلق صحیح معلومات بھی نہیں ہے، اس کے برعکس قادیانی مبلغین کھلے بندوں ہندوستان کے طول وعرض میں اپنی ارتدادی سرگرمیاں پوری قوت کے ساتھ جاری رکھے ہیں، اوراس کے لیے وہ پوری تیاری کرکے آتے ہیں، جس کا ثبوت دہلی میں قادیانیوں کی طرف سے کانسٹی ٹیوشن کلب میں نام نہاد نمائش قرآن ہے، عہدِ حاضر میں قادیانی فتنہ منکرینِ ختم نبوت کا منظم گروہ ہے، جو حکومتِ برطانیہ کے زیرسایہ پروان چڑھا، جس کا واحد مقصد اسلام کی بنیادوں کو مسخ کرنا نیز امتِ مسلمہ میں انتشار وتفریق پیدا کرنا اور انگریزوں کے مفادات کے لیے کام کرنا تھا، اس کی تخلیق مسلمانوں کی نظریاتی سرحدوں پر ایک سنگین اور منظم حملہ ہے اور یہ فتنہ اسلام کے لیے ایک مستقل خطرہ ہے، قادیانی اپنے افکار وعقائد کے اعتبار سے شیاطین وابلیس سے بڑھ کر ہیں، یہ لوگ جھوٹ کو سچ سے بدلنے میں ماہر فن ہیں، ان کی شرارتوں میں توہینِ اسلام کا وہ فاسد خون ہے، جس کی بناء پر انھیں ملک وملت کے لیے سرطان کہا جاسکتا ہے، ہندوستان میں قادیانی جماعت کی جملہ تنظیمیں قادیان سے وابستہ ہیں اور اسی کے زیر اہتمام چلتی ہیں، تعجب کی بات ہے کہ ایک اقلیتی گروہ سامراجی اسلام دشمن طاقتوں کی شہ پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عظیم نبوت کے مقابلہ میں اپنی نئی زرخرید نبوت قائم کرے اور پھر یہ مطالبہ بھی کرے کہ انھیں ان کے عقائد کی تبلیغ و تشہیر کی مکمل اجازت دی جائے، ہمارے بعض نام نہاد دانشور ایک خاص ذہنیت کے تحت انھیں مظلوم قرار دیتے ہیں، انھیں درج ذیل مثال سے سبق حاصل کرنا چاہیے، اس تمثیل سے قادیانیوں کو بخوبی سمجھا جاسکتا ہے، تین قصائی ہیں: (۱) سکھ جس کے پاس کوئی بھی مسلمان گوشت خریدنے نہیں جاتا (۲)عبداللہ: نام کا مسلمان خنزیر کو ذبح کرکے لٹکائے ہوئے ہے اور لوگوں سے کہتا ہے کہ یہ بکرے کا گوشت ہے، اس دھوکہ میں بکرے کا گوشت سمجھ کر بہت سے لوگ خنزیر کا گوشت خرید لیتے ہیں (۳) حبیب احمد: خالص مسلمان۔ نمبر ایک والا مجرم نہیں ہے، نمبر تین والا بھی مجرم نہیں ہے؛ لیکن نمبر ۲ قانوناً وشرعاً بدترین مجرم ہے اور قید وسزا کا مستحق ہے، یہی مثال ہے قادیانی امت کے دجّالوں کی۔ اگر قادیانی امت دوسروں کو دھوکہ دینے کا ارادہ نہیں رکھتی تو وہ اپنے لیے نئے القاب وغیرہ کیوں وضع نہیں کرلیتے، انھیں اس بات کا یقین ہے کہ ان کا نیا مذہب اپنی طاقت اور صلاحیت کے بل بوتے ترقی نہیں کرسکتا اسی لیے انھیں جعل سازی وفریب کاری پر انحصار کرنا پڑرہا ہے، ہم یہ بھی نہیں سمجھتے کہ قادیانیوں کو اپنی شخصیات، مقامات، اور معمولات کے لیے نئے خطاب، القاب یا نام وضع کرنے میں کسی دشواری کا سامنا کرنا پڑے گا،آخر کار ہندؤں، عیسائیوں، سکھوں اور دیگر جماعتوں نے بھی تو اپنے بزرگوں کے لیے القاب وخطاب وضع کررکھے ہیں، قادیانی فتنہ کو علمی وتحقیقی انداز میں سمجھانے اوراس کے تعاقب وتردید کی مشق کرانے کے لیے مرکزی دفتر ”کل ہند مجلسِ تحفظِ ختمِ نبوت“ دارالعلوم دیوبند میں باقاعدہ انتظام ہے، ہر سال دو فاضلِ دارالعلوم کا داخلہ منظور کرکے سال بھر ان کو ردِ قادیانیت پر مطالعہ کرایا جاتا ہے، مضامین لکھائے جاتے ہیں، مرکزی دفتر میں ردِ قادیانیت کی کتابوں کے ساتھ خود مرزا قادیانی اور اس کے گروہ کی اصل کتابیں موجود ہیں، بہرکیف! امت کے سربرآوردہ لوگوں پر واجب ہے کہ وہ قادیانیت کا تعاقب کرکے اس کی بیخ کَنی کو اپنا مذہبی فریضہ سمجھیں اور عوام ُالناس کو ان کی ارتدادی سرگرمیوں سے بچانے کی پوری کوشش کریں۔
***
—————————————
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ 3-4 ، جلد: 96 ، ربیع الثانی ، جمادی الاولی 1433 ہجری مطابق مارچ ، اپریل 2012ء