از:  مولانا محمداللہ خلیلی قاسمی

”فقہ“ علوم اسلامیہ میں سب سے زیادہ وسیع اور دقیق علم ہے۔ یہ ایک طرف قرآن و علوم قرآن ، حدیث و متعلقات حدیث، اقوال صحابہ، اجتہادات فقہاء ، جزئیات و فروع ، مرجوح و غیر مرجوح اور امت کی واقعی ضروریات کے ادراک کے ساتھ زمانے کے بدلتے حالات کے تناظر میں دین کی روح کو ملحوظ رکھ کر تطبیق دینے کا نام ہے۔ دوسری طرف فقہ ایسا علم ہے جو طہارت و نظافت کے جزوی مسائل سے لے کر عبادات، معاملات، معاشرت، آداب و اخلاق اور ان تمام امور کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے، جن کا تعلق حلال و حرام اور اباحت و حرمت سے ہے۔

                فتاوی کا میدان فقہ سے زیادہ وسیع ہے؛ اس لیے کہ فتاوی میں ایمانیات و عقائد، فرق وملل، تاریخ و سیرت، تصوف و سلوک، اخلاق و آداب، عبادات و معاملات، معاشرت و سیاسیات کے ساتھ قدیم و جدید مسائل کا حل، اصولی و فروعی مسائل کی تشریح و تطبیق وغیرہ جیسے امور بھی شامل ہوتے ہیں ۔

فتوی کیا ہے؟

                فتوی کے لغوی معنی ہیں: کسی سوال کا جواب دینا، سوال خواہ شرعی یا غیر شرعی ؛ لیکن بعد میں فتوی شرعی حکم معلوم کرنے کے معنی میں خاص ہوگیا۔ قرآن و حدیث میں فتوی، افتاء، استفتاء کے الفاظ متعدد مواقع پر وارد ہوئے ہیں۔ قرآن پاک میں سورہ یوسف آیت نمبر ۴۱، ۴۲، ۴۳ ، سورہ نمل آیت نمبر ۲۷ میں یہ الفاظ مطلق جواب حاصل کرنے کے لیے استعمال ہوئے ہیں، جب کہ سورئہ نساء آیت نمبر ۱۲، ۱۷۶میں شرعی حکم معلوم کرنے کے لیے اس کا استعمال ہوا ہے۔ مسند احمد کی حدیث 17313 (الاثم ما حَاکَ فِي صَدْرِکَ وَانْ أَفْتَاکَ الناسُ عنہ) اور مسند دارمی کی حدیث159 (أَجْرَوٴُکُمْ عَلی الْفُتْیَا أَجْرَوٴُکم عَلی النارِ)میں بھی فتوی کا لفظ مذکور ہے۔

                شریعت کی اصطلاح میں زندگی کے کسی بھی شعبہ سے متعلق پیش آمدہ مسائل میں دینی رہنمائی کا نام فتویٰ ہے، بالفاظِ دیگر کسی بھی مسلمان کو کوئی مشکل مسئلہ درپیش ہو تو اس کے استفسار پر قرآن و حدیث اور ان سے اخذ کیے ہوئے اصول و تشریحات کی روشنی میں علمائے دین اور مفتیانِ کرام جو حکمِ شرعی بتاتے ہیں،اسی کا نام فتوی ہے۔

                فتوی کسی عالم یا مفتی کی ذاتی رائے کا نام نہیں کہ جس پر عمل کرنا ضروری نہ ہو؛ بلکہ فتوی قرآن و سنت کی تشریح کا نام ہے ،جو ایک مسلمان کے لیے واجب العمل اور لائقِ تقلید ہے۔

فتوی کا تاریخی پس منظر

                دورِ رسالت مآب میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خود مفتی الثقلین تھے اور منصبِ افتاء پر فائز تھے۔ آپ وحی کے ذریعہ اللہ تعالی کی طرف سے فتوی دیا کرتے تھے۔ آپ کے فتاوی (احادیث) کا مجموعہ ، شریعتِ اسلامیہ کا دوسرا ماخذ ہے۔ ہر مسلمان کے لیے اس پر عمل ضروری ہے اور اس سے سرِ مو انحراف کی اجازت نہیں۔آپ نے فتاوی کے ذریعہ ہر باب میں رہ نمائی کی ہے۔ عبادات، معاملات، معاشرت، اخلاقیات و آداب وغیرہ میں آپ کے فتاوی مشعلِ راہ ہیں۔ آپ کے عہدِ زریں میں کوئی دوسرا فتوی دینے والا نہیں تھا؛ البتہ آپ کبھی کبھی کسی صحابی کو کسی دور دراز علاقہ میں مفتی بنا کر بھیجتے تو وہ منصب افتاء و قضا پر فائز ہوتے اور لوگوں کی رہ نمائی کرتے۔ جیسے حضرت معاذ بن جبل کو آپ نے یمن بھیجااور انھیں قرآن و حدیث اور قیاس و اجتہاد کے ذریعہ فتوی دینے کی اجازت مرحمت فرمائی۔

                آپ کے بعد فتوی کی ذمہ داری کو صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین نے سنبھالا اور احسن طریقے سے انجام دیا۔ حضرات صحابہ کرامؓ میں جو فتوی دیا کرتے تھے، اس کی مجموعی تعداد ایک سوتیس سے بھی زائد ہے ، جن میں مرد بھی شامل ہیں اور عورتیں بھی؛ البتہ زیادہ فتوی دینے والے سات تھے: حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ، حضرت علی رضی اللہ عنہ، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا، حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ، حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ، حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ، حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ۔

                اس کے بعد تعلیم و تربیت اور فقہ و فتوی کا سلسلہ حضرات صحابہؓ کے شاگردوں نے سنبھالا اور دل و جان سے اس کی حفاظت کر کے اسے اگلی نسلوں تک منتقل کیا۔ صحابہٴ کرامؓ کے زمانے میں فتوحات ہوئیں ، اسی وجہ سے وہ دور دراز علاقوں میں پھیل گئے؛چنانچہ ہر جگہ ان کے شاگرد تیار ہوئے۔ مدینہ میں حضرات سعید بن المسیب، عروة بن زبیر، عبید اللہ بن عبد اللہ بن عتبہ، قاسم بن محمد، سلیمان بن یسار، خارجہ بن زید ، ابوسلمہ بن عبد الرحمن بن عوف رحمہم اللہ تعالی۔ ان حضرات کو فقہائے مدینہ یا فقہائے سبعہ کہا جاتا تھا۔ مکہ مکرمہ میں عطاء بن ابی رباح، عبد الملک بن جریج، علی بن ابی طلحہ ۔ کوفہ میں ابراہیم نخعی، علقمہ، عامر بن شراحیل شعبی، بصرہ میں حسن بصری، یمن میں طاؤس بن کیسان، شام میں مکحول وغیرہ (رحمہم اللہ رحمة واسعة) ۔ ان حضرات کے فتاوی مصنفات، سنن اور مسندات وغیرہ میں موجود ہیں۔

                امام ابوحنیفہ تابعین میں سے ہیں۔ آپ کی پیدائش کے وقت متعدد صحابہٴ کرامؓ کوفہ میں موجود تھے۔ آپ نے آٹھ صحابہ سے روایت بھی فرمائی۔ (رد المختار 1:149) آپ استنباطِ مسائل میں حد درجہ احتیاط فرماتے تھے۔ آپ کے پاس علمائے کرام کی ایک جماعت جمع ہوتی اور اس میں ہر فن کے ماہرین ہوتے تھے، جو اپنے علم و فن میں کا مل رسوخ کے ساتھ خدا ترسی، فرض شناسی وغیرہ اوصاف حمیدہ سے متصف تھے۔ خود امام صاحب اس جماعت کے صدر کی حیثیت سے شریک ہوتے۔ کوئی مسئلہ پیش آتا تو سب مل کر بحث و مباحثہ اور غور و خوض کرتے۔ جب سب علماء ایک بات پر متفق ہوجاتے تو امام ابو حنیفہؒ اپنے تلمیذِ خاص امام ابویوسفؒ کو حکم دیتے کہ اس کو فلاں باب میں لکھ لو۔ اللہ تعالی نے آپ کو ایسے لائق شاگرد عطا فرمائے کہ جنھوں نے آپ کے علوم کو دنیا کے چاروں اطراف میں پھیلادیا۔ علامہ شامیؒ کی تحقیق کے مطابق یہ تعداد چار ہزار تک ہے؛ چناں چہ خلفائے عباسیہ کے دور سے لے کر گذشتہ صدی کے شروع ہونے تک اکثر اسلامی ممالک میں فقہِ حنفی قانونی شکل میں نافذ و رائج رہا۔

                ہندوستان میں سلطنت مغلیہ کے زوال اور برطانوی آبادکاروں کے تسلط کے بعد فتوی کا کام دینی مدارس کی طرف منتقل ہوگیا اوراب یہ کام دینی مدارس کے ذریعہ ہی انجام پارہا ہے۔ دینی مدارس نے فقہ و فتوی کی اس عظیم ذمہ داری نہات احسن طریقے سے نبھائی۔ فقہ و فتوی کے سلسلے میں مدارس کے علماء و مفتیان کرام خصوصاً حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی، حضرت مولانا خلیل احمد سہارن پوری، حضرت مفتی عزیز الرحمن عثمانی، حضرت مولانا اشرف علی تھانوی، حضرت مفتی کفایت اللہ دہلوی،حضرت مفتی محمد شفیع عثمانی، حضرت مفتی محمود حسن گنگوہی رحمہم اللہ نے فقہ و فتوی کے سلسلے میں عظیم الشان خدمات انجام دیں اور ان حضرات کے فتاوی اور فقہی رہ نمائی نے مسلمانان برصغیر؛ بلکہ عالم اسلام تک کو فائدہ پہنچایا۔

فتوی اور مفتی کی اہمیت و ذمہ داری

                ہرمسلمان کو اللہ تعالیٰ کی جانب سے یہ قطعی حکم ملا ہے کہ اپنے قول و عمل (جس کو وہ انجام دینا چاہتا ہے) کے متعلق اگر اسے نہیں معلوم کہ خدائی قانون (شریعت) کہاں تک اس کی اجازت دیتا ہے، اور اجازت کی صورت میں اس کے کیا حدود و شرائط ہیں تو اپنے عقلی گھوڑے دوڑانے کے بجائے اس کے لیے لازم ہے کہ قانونِ الٰہی کے ان واقف کاروں و تجربہ کاروں سے رجوع کرے جن کومسلم سماج میں اعتماد حاصل ہے، ان سے اپنے مسئلہ کی نوعیت بتلاکر حکمِ شرعی معلوم کرلے جس کو ”استفتاء“ کہتے ہیں۔

                قرآن کریم میں (سورة النساء 59 اور 83) اولو الامر کی طرف مراجعت اور ان کی اطاعت کو واجب اور ضروری قرار دیا گیا ہے۔ ایک تفسیر کے مطابق اولو الامر سے مراد حضرات علماء و فقہاء ہیں۔ علامہ ابوبکر جصاصؒ نے حضرات جابر بن عبد اللہؓ، عبد اللہ بن عباس وغیرہم سے نقل کیا ہے کہ اولوا الامر سے مراد علماء و فقہاء ہیں۔ (احکام القرآن 2:210)

                اسی طرح بعض دیگر آیات سے بھی علماء کی اتباع اور شرعی احکام کو معلوم کرنے کے لیے ان کی طرف مراجعت کو ضروری قرار دیا گیا ہے۔ قرآن کریم میں ہے: فَاسْاَلُوْا اَھْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْن ”سو پوچھو یاد رکھنے والوں سے اگر تم کو معلوم نہیں“ (سورة النحل43)۔ دوسری جگہ ارشاد ہے: وَاتَّبِعْ سَبِیْلَ مَنْ اَنَابَ اِلَيّ ”اور راہ چل اس کی جو رجوع ہوا میری طرف“ (سورة لقمان 15)

                لہٰذا ان آیات کی روشنی میں علمائے کرام نے لکھا ہے کہ عام مسلمان پر ضروری ہے کہ جب کسی معاملہ میں دینی رہ نمائی مطلوب ہوتو حکمِ خداوندی معلوم کرنے کے لیے مفتیانِ کرام کی طرف رجوع کریں؛ جیسا کہ حضراتِ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم درپیش دینی معاملات میں حضرت نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف رجوع کرتے تھے اور جس طرح حضرات صحابہؓ کے زمانہ میں دیگر صحابہ و تابعین فقہائے صحابہؓ سے دینی مسائل میں رہ نمائی حاصل کرتے تھے۔

                فتوی دینے کا منصب بہت اہم اور نازک ہے۔ فقہائے کرام اور مفتیان عظام کی وہ جماعت جنھوں نے خود کو استنباطِ احکام، استخراجِ مسائل کے لیے مختص کیا اور حلال و حرام کو معلوم کرنے کے لیے قواعد و ضوابط مرتب کیے ، وہ انبیائے کرام کے حقیقی وارث ہیں۔ (العُلَمَاءُ وَرَثَةُ الأنبِیَاءِ۔ ترمذی 2:97)

                فتویٰ دینے کے کچھ اصول و ضوابط ہیں، جن کی روشنی میں مرکزی دینی مدارس اور جامعات میں باقاعدہ تخصص کرایا جاتاہے۔ فتویٰ دینے کے لیے عملی مشق کرائی جاتی ہے، اور جب تک تخصص کرانے والے اساتذہ کو تخصص کرنے والوں کی صلاحیت پر اعتماد نہیں ہوجاتا، افتاء کی سند نہیں دی جاتی۔ مفتی کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ اپنی ذاتی زندگی میں متقی، پرہیزگار اور شریعت کا پابند ہو، ہرقابلِ ذکر مدرسہ فتویٰ دینے کے لیے ایسے ہی عالم کاانتخاب کرتا ہے، جو مذکورہ بالا صفات کا حامل ہوتا ہے۔ مفتی جو کچھ بھی فتویٰ دیتا ہے، اس میں پوری دیانت ملحوظ رکھتا ہے، وہ بحیثیت نائبِ رسول حکم شرعی کی نشاندہی کرنے والا ہوتا ہے۔ مفتی فتویٰ صادر کرکے کوئی نیا قانون نہیں بناتا، نہ وہ اس کی ذاتی رائے ہوتی ہے؛ بلکہ وہ تو صرف قانون اسلامی کی مقرر دفعہ کو بتلاتا ہے یا وضاحت کرتا ہے جو دفعات اپنے موقع پر کتب فقہ وفتاویٰ میں قرآن وحدیث سے ثابت ہوتی ہے؛ اس لیے اسلام کے جس قانون کو مفتی بتلاتا ہے، اس کا قرآن وحدیث اور کتبِ فقہ سے ثابت ہونا کافی ہے، لہٰذا اگر کوئی شخص مستند فتوے پر طعن کرتا ہے تو درحقیقت وہ قانونِ اسلام کو نشانہ بنارہا ہے۔

فتوی اور میڈیا

                عصرِ حاضر میں فتوی ہماری قومی اور عالمی میڈیا کا ایک اہم عنوان بن گیا ہے۔بسا اوقات میڈیا میں شائع ہونے والے فتاوی کو توڑ مروڑ کر پیش کیا جاتا ہے یا اس سے غلط اور بے بنیاد نتائج نکالے جاتے ہیں اور اس طرح فتوی کا اصل مفہوم خبروں کی بھیڑ میں کھوجاتا ہے اور اس سے غلط فہمیاں پیدا ہوتی ہیں۔ اس سلسلے میں میڈیا کو یہ بات محسوس کرنی چاہیے کہ فتوی کوئی ایسی چیز نہیں ہے جو آج منظرِ عام پر آیا ہے ؛بلکہ وہ فقہ اسلامی کی کوئی دفعہ ہے جو ہمیشہ سے مسلم اور منقح ہے۔ فتوی کوئی شاہی فرمان بھی نہیں کہ ہر کس و ناکس سے اس پر جبری طور پر عمل کروایا جائے۔ فتوی در اصل کسی شخص کے خاص معاملہ میں حکم شرعی دریافت کیے جانے کے وقت اس معاملے کے حکم شرعی سے آگاہ کرنے کا نام ہے۔ اس کا تعلق براہ راست اس شخص سے ہوتا ہے جو سوال کرتا ہے، فتوی کے ذریعہ اس شخص کی رہ نمائی کردی جاتی ہے۔

                میڈیا میں شائع ہونے والے فتاویٰ سے عام طور یہ تاثر قائم ہوتا ہے کہ یہ نیا فتوی اور فرمان ہے جو حال ہی میں جاری ہوا ہے ۔ اس سے عموماً یہ تاثر پھیلتا ہے کہ اب تک اسلام یا مسلمانوں کے یہاں اس سلسلے میں ایسی کوئی بات نہیں تھی؛ لیکن اب یہ کام منع ہے ۔ جب کہ حقیقتِ واقعہ اس کے بالکل برعکس ہے۔ فتوی کے ذریعہ اسلام کے ہمیشہ سے طے شدہ مسلمہ مسائل کی کسی دفعہ کو سامنے لایا جاتا ہے اور وہ کسی بھی معنی میں کوئی نیا معاملہ نہیں ہوتا۔

                تیسری بات یہ ہے کہ اگر میڈیا کسی فتوی کو شائع ہی کرنا چاہتا ہے تو یہ اس کی دیانت وامانت کا تقاضہ ہے کہ پورا فتویٰ من وعن مع سوال وجواب اور فتویٰ نمبر کے حوالے کے ساتھ پبلک کے سامنے پیش کرے۔ میڈیا کو سوال وجواب کے الفاظ میں تصرف کرنا یعنی کمی بیشی کرنا، تقدیم وتاخیر کرکے الٹ پلٹ کرنا، اپنے طورپر اس کا مفہوم متعین کرکے اپنے الفاظ میں پیش کرنا ہرگز درست نہیں؛ کیونکہ یہ خیانت ہے؛ بلکہ سوال وجواب کا پورا متن بعینہ شائع کرنا چاہیے ۔ اسی طرح کبھی کسی گفتگو یا موبائل پر بات چیت کو فتوی کے عنوان سے شائع کردیا جاتا ہے ، یہ بھی سراسر اصول صحافت سے انحراف اور زیادتی ہے۔

                اس سلسلے میں خصوصاً مسلمانوں کو چند باتیں ذہن میں ضرور رکھنی چاہئیں۔ میڈیا میں شائع ہونے والے ہر فتوی کو آنکھ بند کر کے صحیح اور مستند تسلیم نہیں کرنا چاہیے؛ بلکہ جب تک پورا فتوی مع حوالہ سوال و جواب سامنے نہ آجائے یا متعلقہ ادارہ کی طرف سے اس سلسلے میں کوئی وضاحت نہ آجائے ، اس وقت تک اس سلسلے میں کوئی رائے زنی یا تبصرہ نہیں کرنا چاہیے ۔ پورا فتوی یا اس کی وضاحت سامنے آجانے کے بعد جب کہ وہ مسئلہ قرآن و حدیث اور فقہ اسلامی کی روشنی میں ثابت و مسلم ہے، کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ بر سرِ عام اس فتوی کو تنقید کا نشانہ بنائے اور مفتیانِ کرام یا اسلامی ادارہ کو طعن و تشنیع کرے۔ ہاں ! کسی علمی و اجتہادی مسئلہ میں علمی اختلاف کا حق ان علماء و مفتیان کو ضرور ہے جو علم و اجتہاد کی ان شرائط کو پورا کرتے ہوں۔

***

——————————————-

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ 1 ، جلد: 96 ‏، صفر المظفر 1433 ہجری مطابق جنوری 2012ء

Related Posts