مدارس عربیہ کے طلبہ سے چند ہمدردانہ گذارشات

از:  مولانا میرزاہد مکھیالوی قاسمی، جامعہ فلاح دارین الاسلامیہ بلاسپور

خدا تجھے کسی طوفان سے آشنا کردے             *             کہ تیرے بحر کی موجوں میں اضطراب نہیں

تجھے کتاب سے ممکن نہیں فراغ کہ تو             *             کتاب خواں ہے، مگر صاحبِ کتاب نہیں

                اس مختصر نظم میں اقبالؔ مسلمان طالب علموں سے مخاطب ہوکر یہ کہتے ہیں کہ چونکہ تیرے دل میں صحیح طریق پر دنیا میں ترقی اور سربلندی حاصل کرنے کی اب تک کوئی امنگ پیدا نہیں ہوئی، اس لیے میں دعاء گو ہوں کہ خدا تیرے دل میں اسلام کو سربلند کرنے کا جذبہ پیدا کردے۔

                دوسرے شعر میں ”کتاب خواں“ اور ”صاحب کتاب“ کی ترکیب لاکر بہت اہم نکتہ ذہن نشیں کراتے ہیں، وہ یہ کہ طالب علم سے کہتے ہیں کہ تجھے ساری عمر کتابیں پڑھنے سے تو چھٹکارا نہیں ملے گا؛ مگر پھر بھی کتاب خوانی سے تجھے اپنی زندگی کا مقصد کبھی تجھ پر واضح نہ ہوسکے گا اس لیے کہ تو صاحب کتاب نہیں۔

                ”صاحب کتاب“ اصطلاح میں اس شخص کو کہتے ہیں جس پر اللہ کی طرف سے کوئی کتاب نازل ہو، مگر یہاں اقبالؔ نے مجازی معنی مراد لیا ہے، یعنی ایسا شخص جس نے اپنے دل کو پاک وصاف کرلیا ہوتاکہ اللہ تعالیٰ اس پر فیضانِ سماوی نازل فرمائے، اور یہ نعمت اسی وقت حاصل ہوتی ہے جب مسلمان اللہ سے رابطہ اور قلبی لگاؤ پیدا کرے، اس لیے اقبالؔ طالب علم سے یہ کہتے ہیں کہ اگر تو واقعی صاحبِ کتاب بن کر یعنی اللہ تعالیٰ کی نازل کی ہوئی کتاب کا مطالعہ کرکے اپنے دل کو اللہ کی محبت سے منور کرے تو ترقی اور سربلندی کے راستہ پر گامزن ہوسکتا ہے۔ (اقبال کا پیام ص۲۶)

                ڈاکٹر اقبال کی مذکورہ نظم اوراس کے پس منظر کے ساتھ کاتب الحروف مدارس عربیہ کے ان طالبانِ علوم دینیہ سے مخاطب ہونا چاہتا ہے، جو طلب علم کا ارادہ لے کر اپنے اہلِ خانہ، اعزاء واقارب کو خیرباد کہہ کر گھر کے ہرقسم کے آرام وسکون اور ہر طرح کی راحت کو قربان کرکے علم کی جستجو اور تلاش کے لیے مدرسوں کی چہاردیواری میں اقامت پذیر ہیں۔

                اے عزیز طلبہ کی جماعت! فتنوں کے اس نازک دور میں جبکہ ہر طرف اسلام اور مسلمانان عالم پر یلغار کی جارہی ہے، اسلام دشمن عناصر جدید ذرائع ابلاغ کو استعمال کرکے اسلامی تعلیمات کے خلاف زبردست پروپیگنڈہ کررہے ہیں، قسم قسم کے داخلی وخارجی فتنوں کا ایک سیل رواں ہے جو رکتا ہوا نظر نہیں آتا، ایسے پُرنزاکت دور میں ملت اسلامیہ کرب واضطراب کے ساتھ مخلص افرادِ کارکی متلاشی ہے اور اس کو ایسے بافیض متدین علماء کی اشد ضرورت ہے جو عالمانہ بصیرت رکھتے ہوں، جن کے علم میں گہرائی ہو، جو دشمنوں کی آنکھ میں آ نکھ ڈال کر انہیں چیلنج کرسکتے ہوں۔

                ظاہر ہے کہ اسباب کے درجہ میں امت مسلمہ کے مستقبل کی قیادت وسیادت کا بار گراں آپ ہی لوگوں کے کندھوں پر آنے والا ہے اور آپ ہی کو اس اہم ذمہ داری کا خود کو لائق اور اہل بنانا ہوگا۔ بے کاری، وقت گذاری، فضول مشغولیتوں سے بہت دور رہ کر اپنے طالب علمانہ فرائض کی ادائیگی میں مستعد رہنا ہوگا، بزدلی، کم ہمتی، پست حوصلگی سے متوحش ہوکر جواں ہمتی کا ثبوت دینا ہوگا۔

                مہمانانِ رسول ﷺ ! آپ مدرسوں میں ایک عظیم مقصد کو لے کر داخل ہوئے ہیں، ایسا بلند مقصد کہ اس سے اونچا کوئی مقصد نہیں ہوسکتا۔ یعنی وراثتِ رسول ﷺ  کے حصول کا مقصد، خود کو علوم ظاہرہ وباطنہ سے آراستہ کرنے کا مقصد، علم وعمل اوراخلاص وللہیت کے پیکر بننے کا مقصد لہٰذا آپ کے لیے ہر اس طرز عمل اور ہر اس راستہ سے دور رہنا ضروری ہوگا، جو آپ کو آپ کے مقصد سے دور کرنے والا ہو۔

                طالبان علوم نبوت! مدارس میں زیر تعلیم آپ کو بعض ایسے افراد سے بھی سابقہ پڑے گا جو اپنے فرائض ومقاصد سے غافل ہوکر محض وقت گذاری کررہے ہوں گے حصول علم کے شوق، جدوجہد اور طالب علمانہ لگن وتڑپ سے کوسوں دور نام کے طلبہ جو فی الواقع اپنے سرپرستوں کو نہیں بلکہ خود کو دھوکہ دے رہے ہیں، آپ ایسے لوگوں کے طور وطریق، چال چلن اور طرز عمل سے ہرگز متاثر نہ ہوں؛ بلکہ اسباق کی حاضری، کتابوں کے مطالعہ کا شغل آپ کے مدنظر ہو، غیرتعلیمی وقت میں آپ اپنے اساتذہ کے پاس حاضری کا معمول بنائیں، امکانی حد تک سعی کی جائے کہ کسی بھی کتاب کے درس میں غیرحاضری نہ ہو اپنے ابتدائی قدیم استاذوں سے نیازمندانہ مراسم قائم رکھنے میں کسی قسم کی غفلت نہ کی جائے ۔

                ایک ضروری اور آخری ہمدردانہ گذارش جو احقر اپنے عزیز طلبہ سے کرنا چاہے گا کہ مدرسہ میں دارُالاقامہ کے قیام کے دوران ہی نہیں؛ بلکہ اپنے وطن میں رہتے ہوئے بھی آپ موبائل فون سے خود کو بہت دور رکھیں کہ یہ صرف ضیاعِ وقت کا نہیں بلکہ اخلاقیات کو متاثر اور خراب کرنے کا ایک ایسا آلہ ہے کہ جس سے خال خال افراد ہی محفوظ رہ پاتے ہیں، موبائل فون کی وبا مدارس کے طلبہ میں کچھ ایسی برق رفتاری سے پھیلی ہے کہ شاید وباید ہی کوئی طالب علم اس سے خالی ہو پھر سادہ موبائل بدرجہ ضرورت پاس رکھنے کی گنجائش ہوسکتی ہے؛ لیکن کیمرے کا رنگین موبائل جس کی چپ میں وہ سب خرافات جمع کرلی جاتی ہیں جو ایک ٹی وی اور وی سی آر وغیرہ میں ہوتی ہیں ظاہر ہے کہ ایسے فحش مجمع الخبائث کو ساتھ رکھ کر جو نتیجہ برآمد ہوگا وہ کسی بھی ذی شعور سے مخفی نہیں ایسے بچے اپنا دین اور دنیا دونوں کو برباد کررہے ہیں علمی صلاحیت کا پیدا ہونا یا اس کا باقی رہنا تو کُجا صالحیت ودینداری کا صفایاہوجاتا ہے۔

                عزیز طلبہ اپنے وقار کومحسوس کریں، اپنی نسبت کو ملحوظ خاطر رکھیں اور ڈاکٹر اقبال نے مسلمان طالب علموں کو جو ان کا بھولا ہوا سبق یاد دلایا ہے اس میں غور کریں، پھر اس کے ذیل میں جو گذارشات عرض کی گئی ہیں ان کو پیش نظر رکھیں، تو یقینا آپ اپنے مقصد میں کامیاب وکامران ہوں گے۔ عزت و سرخروئی آپ کا ہرموڑ پر خیرمقدم کرے گی، علمی صلاحیت کے ساتھ آپ کی صالحیت خود آپ کا مقام بنائے گی پھر آپ جہاں بھی جائیں گے، رہیں گے مانند بدروقمر ہوں گے اور آپ کی علمی نورانی شعاؤں سے خلقِ خدا مستفیض ہوگی۔ ان شاء اللہ۔ اَللّٰھُمَّ أحْسِنْ عاقبتَا فی الأمور کلِّھا․

*             *             *

———————————————

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ 10 ، جلد: 95 ‏، ذي قعده 1432 ہجری مطابق اكتوبر 2011ء

Related Posts