از: مولانا محمد مبین سلیم ندوی ازہری

                کسی کام کو کرنے سے پہلے اس کا پروگرام بنانا، اہداف و مقاصد طے کرنے کے ساتھ طریقہٴ کار اور وسائل متعین کرنا، اس کے فوائد و نقصانات سے واقفیت و معرفت کام کو آسان، محکم اور کامیاب بنانے میں اہم رول ادا کرتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ پلاننگ و منصوبہ بندی کی ہر میدان میں بڑی اہمیت ہے، خواہ وہ سیاسی ہو یا اقتصادی، علمی ہو یا عملی، دینی ہو یا دنیاوی ، انتظامی ہو یا دعوتی۔ عصرِ حاضر کے تقاضوں نے اسے مستقل بالذات فن کا درجہ عطا کردیا ہے، یونیورسٹیوں ، مینجمنٹ کے اداروں ، سرکاری محکموں میں اس نام سے مستقل شعبے قائم ہیں؛ یہاں تک کہ پرسنالٹی ڈولپمنٹ و گھریلو زندگی میں بھی اس طریقہٴ کار کی تربیت ضروری سمجھی جاتی ہے۔ نیز یہ ایک بامقصد ترقی یافتہ منظم قوم کا شعار بھی ہے۔

پلاننگ عربی زبان میں:

                عربی زبان میں پلاننگ کو تخطیط کہا جاتا ہے، اس کے معنی ہیں، کسی کام کو انجام دینے کا منصوبہ وخاکہ تیار کرنا (ملاحظہ ہو:القاموس المحیط،از مجد الدین محمد بن یعقوب (۸۱۷ ھ) ۲/۳۵۸، دار الفکر، بیروت ۱۹۸۳ ء)۔

پلاننگ کی اصطلاحی تعریف:

                 مستقبل میں سوسائٹی یا اسکی کسی (اکائی) یونٹ کے عمل وسرگرمی کی ترقی کی شکل متعین کرنا، اور اس کو انجام دینے کے لیے پہلے سے طے شدہ منصوبہ کو بروئے کار لانا، مقاصد تک پہونچانے والے ضروری وسائل و ذرائع کی تحدید کو منصوبہ بندی (پلاننگ) سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ یاد رہے کہ یہ پلاننگ جامع و شامل بھی ہوسکتی ہے اور جزئی بھی (دیکھئے: الصحاح فی اللغة والعلوم مرتب: مرعشلی: ندیم و اسامہ، ص:۳۵۵، مادة خطط،دار الحضارة العربیة بیروت، ۱۹۷۴ ء)۔

                 یعنی کسی ایک حصہ کی بھی پلاننگ ہوسکتی ہے اور پورے کام کی بھی، اس طرح منصوبہ بندی و پلاننگ زندگی کے ہر پہلو و مرحلہ کے لیے ناگزیر ضرورت ہے۔

پلاننگ اور اسلام:

                اسلام زندگی کا مکمل نظام ،محکم طریقہ، جامع منہج ہے، اس کی ہر تعلیم میں پلاننگ و منصوبہ بندی نمایاں طور پر نظر آتی ہے؛ چنانچہ اگر خالقِ کائنات کے نظام کون ومکاں پر غور کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ وہ ایک مکمل منصوبہ بندی کے تحت رواں دواں ہے، جس میں نہ کوئی لچک ، نہ ہی کوئی جھول ہے، ” مَّا تَرَی فِیْ خَلْقِ الرَّحْمَنِ مِن تَفَاوُتٍ فَارْجِعِ الْبَصَرَ ھَلْ تَرَی مِن فُطُورٍ، ثُمَّ ارْجِعِ الْبَصَرَ کَرَّتَیْنِ یَنقَلِبْ إِلَیْکَ الْبَصَرُ خَاسِأً وَھُوَ حَسِیْرٌ ،، (الملک:۳،۴)۔ تفسیری ترجمہ : اے مخاطب! دیکھنے اورغور کرنے والے ! ) رحمن کی پیدا کردہ چیز (آفرینش) میں کوئی بے ضابطگی و فرق نہ دیکھے گا، دوبارہ نظر اٹھاکر دیکھ،کیا کوئی شگاف و دراڈ پاتا ہے!! پھر دوبارہ یکے بعد دیگر نظر (غور) کر،(ہر بار) نظر عاجز ہو کر واپس ہوگی،اسے (بے ضابطگی ) کہیں نہ ملے گی۔

ربانی منصوبہ :

                باری تعالی نے خلقِ انسان سے پہلے اس کا منصوبہ تیار کیا اور وہی صحیح انداز سے پایہ تکمیل تک پہونچاتا ہے :” وَخَلَقَ کُلَّ شَیْء ٍ فَقَدَّرَہُ تَقْدِیْراً “ تفسیری ترجمہ: اور اس نے ہر چیز پیدا فرمائی پیھر مکمل منصوبہ بندی فرمائی ،اسطرح کہ ہر چیز کو صحیح اندازہ پر رکھا اور مقدر فرمادیا۔ ”وَکَانَ أَمْرُ اللہِ قَدَراً مَّقْدُوراً“(الاحزاب : ۳۸)، اور اللہ کا امر باضابطہ مقدر کردہ ہے،جس میں نہ کوئی کمی ہے ،نہ ہی کوئی عیب، ارشاد ربانی ہے: ”إِنَّا کُلَّ شَیْء ٍ خَلَقْنَاہُ بِقَدَرٍ وَمَا أَمْرُنَا إِلَّا وَاحِدَةٌ کَلَمْحٍ بِالْبَصَر “(القمر:۴۹ ۔ ۵۰)۔ حقیت میں ہم نے ہر چیز پہلے سے طے شدہ منصوبہ سے پیدا کی،ہمارا معاملہ و کام تو ایک دم میں پلک جھپکنے کی طرح ہوتا ہے،یعنی مقررہ منصوبہ و تقدیر کو وجود میں لانا ایک دم کا کام ہے، جیسے آنکھ جھپکنے میں زیادہ دیر کی ضرورت نہیں، اسی طرح ہمارے کام میں بھی کسی طرح کی دیری نہیں ہوتی۔

                ذرا چاند و سورج کے نظامِ محکم کا جائزہ لیجیے،یہی کلینڈر وحساب کا ذریعہ ہے،اسی پر مختلف سائنسی شعبوں کا انحصار ہے، اگر اس محکم الٰہی سسٹم میں استقرار نہ ہوتا تو دنیا اور قوانین عالم کا استحکام کیسے ممکن ہوتا؟!

 # ” ھُوَ الَّذِیْ جَعَلَ الشَّمْسَ ضِیَاء وَالْقَمَرَ نُوراً وَقَدَّرَہُ مَنَازِلَ لِتَعْلَمُواْ عَدَدَ السِّنِیْنَ وَالْحِسَابَ مَا خَلَقَ اللّہُ ذَلِکَ إِلاَّ بِالْحَقِّ یُفَصِّلُ الآیَاتِ لِقَوْمٍ یَعْلَمُون“ (یونس: ۵)۔وہی ہے جس نے سورج کو چمکدار اور چاند کو روشن بنایا،،اور اس کی منزلیں مقدر کیں؛ تاکہ تم سالوں اور برسوں کی گنتی اور حساب کو جانو سمجھو،اللہ نے (یہ سب نظام فلکی کو) صرف حق و تدبیر سے وجود بخشا ہے،وہ سب نشانیاں و دلائل جاننے والے سمجھدار لوگوں کے لیے تفصیلی طور پر بیان فرماتا ہے۔

                 کائنات میں ہر چیز ایک محکم نظام ومنصوبہ بندی سے رواں دواں ہے، تخلیق انسانی بھی اللہ تعالی کی مکمل منصوبہ بندی کی علامت ہے،ایک موٴمن کا ایمان اسوقت تک قابل قبول نہیں یہاں تک کہ وہ اللہ کی تقدیر پر ایمان لائے،حدیث جبریل میں یہ الفاظ وارد ہیں ”وتُوٴمِنُ بالقدرِ خیرِہ وشَرِہ“ (صحیح مسلم،کتاب الایمان، باب بیان الایمان والاسلام والاحسان)۔

قضا و قدرِ الٰہی اور انسانی منصوبہ بندی میں موافقت :

                تقدیر(الٰہی منصوبہ بندی، ربانی پلان) پر ایمان لانے کا مطلب ہر گز یہ نہیں کہ انسان اللہ کی نازل کردہ شریعت ، احکام و اعمال سے غفلت برتے؛ بلکہ اس پر فرض ہے کہ ربانی منصوبہ بندی و پلاننگ کی سنت سے استفادہ کرتے ہوئے ،اوامرِ الٰہی،احکام شریعت،اسباب کامیابی کو پوری منصوبہ بندی وپلاننگ سے بخوبی انجام دے،اخلاص و دلچسپی کا پاس ہو، عمارت و خلافت ارض کے تمام اعمال ، مدد الٰہی سے منظم و مخطط ہوں، فرمان نبوی ہے عن علی رضی اللہ عنہ قال:کُنَّا جُلوسًا مع النبیِّ صلی اللہُ علیہ وسلم ومَعَہ عُوْدٌ یَنْکُتُ فِي الأرضِ وقال: ”مَا مِنْکُمْ مِنْ أحدٍ الاَّ قد کُتِبَ مَقْعَدُہ مِنَ النَّارِ أو مِنَ الجنةِ فقال رجلٌ مِنَ القومِ: ألا نَتَّکِلَ یا رسولَ اللہِ؟ قال: لاَ، اعمَلُوا فَکُلٌّ مُیَسَّرٌ“ لِمَا خُلِقَ لَہ‘(صحیح بخاری، کتاب القدر،باب وکان امر اللہ قدرا مقدورا،حدیث:۶۶۰۵ و ۶۵۹۶) ،حضرت علی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے،آپ کے ساتھ موجود چھڑی سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم زمین کو کرید رہے تھے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے ہر ایک کا جہنم یا جنت کا ٹھکانہ لکھا جا چکا ہے،(اس فرمان پر موجود )حاضرین میں سے ایک شخص نے کہا: یا رسول اللہ !کیا ہم اسی پر تکیہ نہ کرلیں(پھر کام و اسباب عمل کی کیا ضرورت ؟ اس غلط فہمی کا ازالہ کرتے ہوئے ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: نہیں (ایسا نہ کرو؛ بلکہ ) عمل کرو،ہر شخص کو جس کے لیے پیدا کیا گیا ہے ،اسی پر آسانی مہیا کی جائے گی۔

                مسلمان پر فرض ہے کہ وہ کامیابی حاصل کرنے اور نقصان و برائی سے بچنے کے تمام اسباب و اعمال کو اختیار کرے،اسی کے ساتھ اسے اس کا بھی یقین کامل ہو کہ یہ سب صرف اللہ کے حکم و مشیت سے ہی ممکن ہے، وہ تو صرف اسباب اور احکامِ شریعت پر عمل کرکے ایک عبادت و رضائے الٰہی کے کام میں مشغول ہے،کامیابی و ناکامی کے اسباب و علل پر بھی محاسبہ کرتا رہے، مسلسل کوشش میں لگا رہے،نئے نئے طریقے اوروسائل اختیار کرے، گناہوں ،غلطیوں پر ندامت و توبہ و استغفار کا سہارا لے کر دوبارہ جستجو کرے اور بہتر سے بہتر منصوبہ تیار کرے پھر دوبارہ عمل پیہم کو اپنا شیوہ بنائے۔قاعدہ ہے کہ مصائب پر قضا وقدر سے دلیل و صبر حاصل کیا جاتا ہے، نہ کے عیوب و گناہوں پر؛بلکہ ان سے تو فورا توبہ وا ستغفار کا حکم ہے۔

                یہ معتدل و متوازن عقیدہ مایوس کن حالات میں امید کی کرن،مقابلہ کے وقت عزیمت، خطرہ کے وقت بہادری،پریشانی و مصیبت کے وقت صبر اور دیناوی عزت میں فرقِ مراتب کے وقت اپنی حالت پر قناعت و رضامندی کے ساتھ نفسیاتی سعادت و سکون کا باعث ہوگا۔

تقدیر پر ایمان اور انسانی اعمال،حضرت عمر کی نظر میں:

                ذرا فقہ عمر کی گہرائی پر نظر ڈالیے،تقدیرِ الٰہی کے(Intelligent plan)،اورانسانی اعمال کے نظریہ توازن پر غور کیجیے تو یقین ہوگا کہ دونوں ایک ہی سمت کی طرف رواں دواں ،مشیت الٰہی کے ارادوں کی تکمیل کا ذریعہ ہیں،دونوں میں نہ ہی کوئی تعارض ہے ،نہ ہی کوئی ٹکراوٴ،واقعہ یہ ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ ملک شام کے سفر پر تھے ؛یہاں تک کہ جب آپ مقام سرغ پہونچے فوجی کمانڈرس ابوعبیدہ اور انکے ساتھیوں نے اطلاع دی کہ ملکِ شام تو وبائی (طاعون ) سے دوچار ہے، آپ نے مشورہ کیاکہ ایسی صورت میں کیا کرنا بہتر ہے،؟،مختلف آراء سامنے آئیں، مہاجرین و انصار میں سے کچھ نے کہا کہ آپ جس مقصد کے وجہ سے آئے ہیں، اسے مکمل فرمائیں، واپس نہ جائیں ،کچھ نے واپسی کو بہتر بتایا،حضرت عمر نے پھر مہاجرین کے قرشی بزرگوں سے مشورہ کیا، سب نے متفقہ طور پر ایک ہی بات کہی کہ آپ سب لوگوں کے ساتھ واپس تشریف لیجائیں،انھیں اس وباء میں نہ جانے دیں،حضرت عمر نے اس رائے کو پسند کیا اور اس کا اعلان کرادیا،اس پر حضرت ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ نے کہا:” أَ فَرارٌ مِنْ قَدْرِ اللہ“؟کیا اللہ کی مقدر کی ہوئی چیز سے بھاگ رہے ہو؟اس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اے ابو عبیدہ ! کاش یہ بات آپکے علاوہ کسی اور نے کہی ہوتی!پھر فرمایا: ” نِعْمَ نَفَرٌ مِنْ قَدْرِ اللہِ الی قَدْرِ اللہِ“ جی ہاں ہم اللہ کی مقدرکردہ چیز سے اس کی ہی مقدر چیز کی طرف بھاگ رہے ہیں،آپ کیا سمجھتے ہو کہ آپ کے پاس اونٹ ہوں،پھر آپ ایسی وادی میں جائیں ،جس کے دو حصے یا گوشے ہوں،ایک بہت سرسبز وشاداب، دوسرا چٹیل،آپ سرسبز حصے میں چراوٴ توکیا آپ اللہ کی قضاو قدر سے نہیں چراتے؟ (صحیح بخاری،کتاب الطب ،باب ما یذکر فی الطاعون)

                اسی طرح کا ایک اور واقعہ آپ سے مروی ہے کہ چور نے اپنی چوری کی صحت پر قضاوقدر سے دلیل دی ”سَرِقْتُ بِقَضَاءِ اللہِ قَدْرِہ “ تو آپ نے فرمایا:میں بھی تمہارے ہاتھوں کو قضاوقدر سے ہی کاٹ رہا ہوں ”وَأنَا أَقْطَعُ یَدَکَ بِقَضَاءِ اللہِ قَدْرِہ “۔ صحابہ کرام کی یہ صحیح سمجھ ، انبیاء کرام علیہم السلام کی سنت سے مأخوذ ہے۔

تقدیر پر ایمان اور انبیاء علیہم السلام کی منصوبہ بندی:

                 انبیاء کرام علیہم السلام نے تقدیر پر ایمانِ جازم کے ساتھ دعوت و تعلیم،دینی و دنیاوی سرگرمیوں کو مکمل پلان،منظم منصوبہ بندی سے انجام دیا، آپ ان کے کسی کام میں ہیجانی کیفیت، اضطراب، بد نظمی، نہ پائیں گے، ہر ہر مرحلہ اور ہر ہر شعبہ میں وحی الٰہی کے زیر نگرانی پوری مستعدی و منصوبہ بندی ان کی سنت و طریقہ تھا، حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر آخری نبی حضرت محمد ﷺ تک کی سیرت و تاریخ کو پڑھ جائیے،کہیں کوئی بات اس کے خلاف نہ پاوٴگے۔

                 یہ نوح علیہ السلام ہیں،ان کی دعوت و صبر،مخالفوں سے مکالمات و گفتگو،کشتی کی صناعت، طوفانی موجوں پر سواروں کی تنظیم، سب پلاننگ و منصوبہ بندی کو پایہٴ تکمیل تک پہونچانے میں ایک بہترین صبر و شکر کی مثال ہے ۔

                 ابراہیم علیہ السلام نے کس طرح پلاننگ و منصوبہ بند طریقہ سے دعوتی فرائض انجام دیے، پھر بتوں کو توڑنے ، مخالفوں سے بحث و مباحثہ میں اس کوکس حسن و خوبی سے عملی جامہ پہنایا؟ یہ وہ ہنر ابراہیمی ہے،اسکا انکار مخالف کے پاس بھی نہیں !!

                حضرت موسی علیہ السلام نے فرعون جیسے ظالم و جابر بادشاہ کے نقشوں کو خاک میں ملادیا، کیا اللہ پر بھروسہ ،وحی کی نگرانی میں ایک بہتر منصوبہ و پلان کے بغیر یہ ممکن ہوسکا ؟!

                حضرت یوسف علیہ السلام کا سات سالہ اقتصادی پلان کسی سے مخفی نہیں،پھر نظام امور خزانہ، بچپن کے خواب کی تعبیرکا منظر خود ایک اعلی انتظامی صلاحیت اورمعیاری منصوبہ بندی کا واضح نمونہ ہے۔

                آخری نبی،رحمت عالمین، سید مرسلین محمد ﷺ کی جامع،کامل،تاریخی سیرت، تمام دعوتی،تعلیمی ، سیاسی ،اجتماعی،اخلاقی سرگرمیاں منصوبہ بندی کی اعلیٰ معیاری مثالیں ہیں۔ سری دعوت کے ابتدائی مراحل سے لے کر جہری دعوت کے تمام مراحل میں اس سنت الٰہی کا مکمل پاس و لحاظ ہے(تفصیل ملاحظہ ہو:السیرة النبویة،عرض وقائع و تحلیل احداث، از ڈاکٹرعلی محمد صلابی،ج:۱، ص: ۱۰۰ تا ۳۱۹، دار التوزیع و النشر الاسلامیة، القاھرة الطبعة الاولی ۲۰۰۱ ء۔ السیرة النبویة فی ضوء القرآن والسنة ، از محمد شھبہ ،ج:۱ ص: ۲۸۳،۲۹۱)۔

                یہ منصوبہ بندی ایک ایسا نبوی عمل ہے جو زندگی کے ہر شعبہ پر محیط ہے۔ ہجرتِ نبی کی منصوبہ بندی خود ایک معجزہ سے کم نہیں، اس پروجیکٹ کو آخری انجام تک پہونچانا ، اسی طرح مدینہ پہونچ کر اعتقادی و دعوتی امور کے ساتھ قانونی و سیاسی منصوبہ بندی رہتی دنیا تک کے لیے نمونہٴ پلاننگ ہے، ”لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُولِ اللہِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ“ (الاحزاب:۲۱) اللہ کے رسول ﷺ تم سب کے لیے بہترین نمونہ ہیں۔

                ذرا دیکھئے کہ مہاجرین کے مسئلہ کو اقتصادی و اجتماعی ، رہائشی و معاشی منصوبہ بندی، اخوت کے ذریعہ کیسے بحسن و خوبی انجام دی؟(سیرت ابن ھشام،ج:۱ ص: ۲۶۹)، اور آج پوری دنیا میں مہاجرین کے مسائل کا جائزہ لیجئے !!

                ایک ہی ملک میں رہنے والے مختلف مذاہب و قبائل کے افراد کے درمیان امن و سلامتی کے ساتھ خوشگوار زندگی کا منصوبہ، میثاقِ مدینہ کے ذریعہ کیسے مکمل فرمایا؟ (ابن ھشام: ج:۱ ص: ۳۶۷)۔

                مجموعی طور پر محمد ﷺ نے پختہ نبوی منصوبہ بندی کے ذریعہ فرد انسانی سے لے کر خاندان اور پوری سوسائٹی کو تبدیلی امم کے قوانین کی رعایت کے ساتھ جاہلیت سے نکال کر اسلامی نظام حیات میں شامل فرمایا، کیا قانونِ الٰہی ، منہجِ انبیاء ، اسوہٴ رسول ﷺ ہمیں پلاننگ،منصوبہ بندی،کام سے پہلے اس کا خاکہ تیار کرنے؛ نیز اسے مرحلہ وار صبر و احتساب سے انجام دینے کے لیے کافی نہیں؟

                یہ کوئی معقول بات نہیں کہ پوری کائنات تو پلاننگ و منصوبہ بند طریقے سے چل رہی ہو، صرف اسلامی سوسائٹی نظام وجود سے خالی رہے، افراتفری ، بد نظمی، بے اصولی و انتشار کا شکار رہے، اور منصوبہ بندی جیسی نعمتِ عظمی سے محروم رہے جو معاشرہ و ملک کی چال کی درستگی کا پیمانہ ہے، اور محاسبہ کے ساتھ صحیح انجام تک پہونچانے کا واحد سبب ہے ۔(اثر التخطیط النبوی ص:۲۸)

                مذکورہ ربانی قوانین، منہجِ انبیاء اور اسوہٴ رسول ﷺ سے یہ بات واضح ہو گئی کہ منصوبہ بندی، پلاننگ، کام کرنے سے پہلے خاکہ،پروجیکٹ سے پہلے نقشہ بنانا، پھر اسے روبہ عمل لانا، نیز درمیان میں محاسبہ واصلاح کے قوانین پر عمل کرنا امتِ مسلمہ پر اجتماعی وانفرادی دونوں اعتبار سے فرض ہے۔

                ہمیں چاہیے کہ ہم اپنی زندگی کو منصوبہ بند طریقہ سے گذاریں، شریعت کی روشنی میں دنیا و آخرت کی کامیابی کا منصوبہ بنائیں، خاندانی ادارہ کا منصو بہ ،بچوں کی تعلیم و تربیت کا منصوبہ، معاشی و اقتصادی منصوبہ، سیاسی و سماجی منصوبہ، قانونی منصوبہ الخ الغرض ہر کام کا منصوبہ، اس کی پختگی ہی الٰہی احکام کی تنفیذ کے ساتھ دنیا وآخرت کی فلاح وبہبود کا زینہ ، نیز کامیاب عمل کی بنیاد ہے۔

                قرآنِ کریم صراحت کے ساتھ اس کی دعوت دیتاہے ،مثال کے طور پر ارشاد ربانی ہے: ”وَأَعِدُّواْ لَھُم مَّا اسْتَطَعْتُم مِّن قُوَّةٍ“ (الانفال: ۶۰) تفسیری ترجمہ: تم سب اپنی طاقت و حیثیت کے مطابق ان سے مقابلہ کی تیاری کرو۔”وَقُلِ اعْمَلُواْ فَسَیَرَی اللہُ عَمَلَکُمْ وَرَسُولُہُ وَالْمُؤْمِنُونَ وَسَتُرَدُّونَ إِلَی عَالِمِ الْغَیْبِ وَالشَّھَادَةِ فَیُنَبِّئُکُم بِمَا کُنتُمْ تَعْمَلُون“ (التوبة:۱۰۵)آپ کہہ دیجیے! کام کرو چونکہ اللہ تعالی، اس کے رسول اور مسلمان تمہارے کاموں پر نظر رکھے ہوئے ہیں، پھر تمہیں حاضر و غائب کے جاننے والے کے پاس دوبارہ لوٹایا جائے گا پھر وہ تمہارے کیے ہوئے کاموں کی خبردے گا۔

                فرمان نبوی کا مفہوم ہے:کہ طاقتور موٴمن اللہ کوکمزور موٴمن سے زیادہ پسند ہے، ہر ایک میں خوبی و بھلائی ہے، جو تمہارے لیے مفید ہو اسی کو حاصل کرنے کا حرص کرو،اور اس کی کامیابی پر اللہ سے مدد حاصل کرو،ہار کر مت بیٹھو،عاجزی کا بہانہ نہ بناوٴ، اس سب کوشش و جدوجہد کے باوجود اگر پھر بھی مصیبت پہونچ ہی جائے تو یہ نہ کہو کہ اگر میں یوں کرلیتا تو یوں ہوجاتا، اگر میں یوں کرلیتا تو یوں ہوجاتا؛بلکہ یہ بولو: اللہ نے یہی مقدر فرمایا،اور جو چاہا وہ کیا؛ چونکہ اگر کہنا شیطان کو اپنا کام کرنے کا موقعہ فراہم کرتا ہے۔ اس کی عربی نص یہ ہے:

             عن ابی ھریرة رضی اللہ عنہ قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: الموٴمنُ القویُّ خیرٌ و أحبُّ الی اللہِ من الموٴمنِ الضعیفِ، و فی کلٍ خیرٌ، اَحْرِصْ علی ما ینفعُک واسْتَعِنْ باللہِ ولا تَعْجِز، و ان أصابَکَ شیءٌ فلا تَقُلْ لَوأنَّی فعلتُ کانَ کذاو کذا، ولکن قُلْ: قَدَّرَ اللہُ وماشاء فَعَلَ، فَان ”لو“ تفتح عَمَلَ الشیطانِ“ (صحیح مسلم،کتاب القدر،باب فی الامر بالقوة وترک العجز، والاستعانة باللّٰہ وتفویض المقادیر للہ)

                اس طرح یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے کہ کتاب و سنت کے مطابق منصوبہ بندی، عملِ پیہم، جہدِمسلسل ، کارِ خیر ، محاسبہ و احتسابِ نفس فردو ملت پر اسلامی فریضہ ہے؛ چنانچہ اسے چاہیے کہ اپنی ضرورتوں کو سمجھے،اور دنیاوی و آخرت کی کامیابیوں کا خاکہ و پلان بنائے، پھر حکمت و استقامت کے ساتھ اس پر عمل کرے۔

وما علینا الاَّ البلاغ

#             #             #

———————————

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ 7 ، جلد: 95 ‏، شعبان  1432 ہجری مطابق جولائى 2011ء

Related Posts