حرفِ آغاز
مولانا حبیب الرحمن اعظمی
تاریخ عالم گواہ ہے کہ یہود ونصاریٰ نے دین اسلام اور اس کے حلقہ بگوشوں کو کبھی بھی برداشت نہیں کیا ہے، اپنی تاریخ کے ہر دور میں ان دونوں قوموں نے اسلام کی بیخ کنی اور قوم مسلم کے وجود کو صفحۂ ہستی سے حرفِ غلط کی طرح مٹادینے کے لیے اپنی طاقت اور بس کی حد تک کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی۔
تہذیب وتمدن کے ان مدعیوں نے اسلام دشمنی میں نہ صرف یہ کہ اپنی حیثیت عرفی کا پاس ولحاظ نہیں کیا؛ بل کہ انسانی روایات اور آدمیت کی جوہری صفات سے انحراف اور گریز سے بھی ننگ وعار محسوس نہیں کی، آغاز اسلام کی روداد سے واقف کون نہیں جانتا کہ محسنِ انسانیت رحمت عالم اور خدائے بزرگ وبرتر کے سب سے برگزیدہ پیغمبر محمد عربی فداہ روحی وابی وامیﷺ تک کو (نعوذ باللہ) قتل کردینے کی انتہائی مذموم وملعون سازش سے ان کی تاریخ داغدار ہے، انھیں جب کبھی بھی قوت وغلبہ میسر آیا ہے تو خدا کی اس زمین کو خدا کے پرستاروں کے خون سے رنگین کردیا ہے؛ چناںچہ ایک عیسائی سیرت نگار ’’جان بیکٹ‘‘ اپنی کتاب میں لکھتا ہے:
’’۱۰۹۹ء میں جب عیسائیوں نے ’’یروسلم‘‘ کو فتح کیاتو ستر ہزار سے زائد مسلم مردوں، عورتوں اور بچوں کو تہ تیغ کردیا، ایک عینی شاہد کا بیان ہے کہ ’’مسجد عمر‘‘ کے صحن میں خون سواروں کے ٹخنوں اور گھوڑوں کی رکابوں تک پہنچ رہا تھا۔‘‘
اسی طرح ۱۴۹۲ء میں جب اسپین سے اسلامی حکومت کا خاتمہ ہوا تو، ساڑھے تین لاکھ مسلمانوں کو عیسائی مذہبی عدالت میں پیش کیاگیا، ان میں سے تقریباً تیس ہزار کو سزائے موت دی گئی اور بارہ ہزار کو زندہ آگ میں جھونک دیاگیا؛ الغرض اسلام اور مسلمانوں کے خلاف یہودیت ونصرانیت کے دہشت گردانہ کردار کا سلسلہ کسی نہ کسی شکل میں اسلام کے ابتدائی زمانہ سے جاری ہے، یہ جارحیت پسند، امنِ عالم کے دشمن، امن وآشتی کے پیغامبر اور خدائے ہردوسرا کے پسندیدہ مذہبِ اسلام کو خدا کی سرزمین پر آباد دیکھنا ہی نہیں چاہتے ہیں۔
ادھر حالیہ دس گیارہ سالوں سے تو ان کی اسلام دشمنی میں ایک اُبال سا آگیاہے، امریکہ اور اس کے چشم وابرو پر رقصاں یورپ اسلام اور مسلمانوں کو ہر جہت سے گھیرنے اور ان کے دائرئہ اثر ونفوذ؛ بل کہ صحیح معنوں میں عرصۂ حیات کو تنگ سے تنگ تر کردینے کے لیے ہر طرح جائز وناجائز ہتھ کنڈے استعمال کررہے ہیں، بین الاقوامی حالات پر نظر رکھنے والے اس حقیقت سے چشم پوشی نہیں کرسکتے کہ اس وقت عالم اسلام (انڈونیشیا سے مراکش، اور اندلس سے یمن تک) مغربی طاقتوں کے نرغے میں ہے، مسلم ممالک کو تباہ وبرباد اور مسلم قوم کو نیست ونابود کردینے کے لیے یکسر جھوٹے الزامات اور بے بنیاد افترا پردازیوں سے بھی یہ اسلام دشمن طاقتیں دریغ نہیں کرتیں۔
اس سچائی سے کس حقیقت پسند کو انکار ہوگاکہ افغانستان پر امریکہ اور اس کے حواریوں کی یورش محض کذب وجبر پر ہی مبنی تھی، جس کا سلسلہ آج تک جاری ہے، افغانستان پر بزور طاقت مسلط اس جنگ میں ایسے بم بھی برسائے گئے، جس سے میلوں فضا کی آکسیجن ختم ہوجاتی تھی اور انسانوں سمیت ہرذی روح دم گھٹ کر ختم ہوگیا، اب تک لاکھوں انسان جس میں مرد، عورت، بوڑھے، بچے سب شامل ہیں، امریکہ اور اس کے ہم نوائوں کی ہٹلرشاہی کی قربان گاہ کی نذر ہوچکے ہیں اور بدحال افغانستان کی اس مظلومیت پر امن عالم کے نام نہاد ٹھیکداروں کی جبین پر شکن تک نہیں آئی۔
افغانستان کی تباہی پر امریکہ اور یورپ کے یہودیوں اور عیسائیوں کا کلیجہ ٹھنڈا نہیں ہوا تو عراق اور اس کے مصلحت ناآشنا حکمراں صدام حسین کے خلاف ایک جھوٹی سازش رچی گئی اور گلا پھاڑ پھاڑ کر شورمچایاگیا کہ ’’عراق‘‘ کے پاس ایسے کیمیاوی مہلک ہتھیار ہیں، جس سے نہ صرف شرق اوسط کو خطرہ ہے؛ بل کہ یورپ اور امریکہ بھی اس کی زد سے محفوظ نہیں ہے، اور اسی جھوٹے اور یکسر جھوٹے پروپیگنڈے کے تحت نہ صرف عراق حکومت کے صدر صدام حسین کو تختۂ دار پر لٹکادیا گیا؛ بل کہ پورے عراق کو آگ وخون کے دریا میں غرق کردیاگیا۔
اگر واقعی ان ایٹمی ہتھیاروں پر دسترس رکھنے والی حکومتیں دنیا کے لیے ایسی ہی خطرناک ہیں، جس کا پروپیگنڈہ امریکہ اور یہودیت زدہ میڈیا نے عراق سے متعلق پوری طاقت سے کیا تھا، تو پھر اس بات میں شک کی کیا گنجائش رہ جاتی ہے کہ آج عالم انسانیت کو سب سے زیادہ خطرہ امریکہ، اسرائیل، فرانس وبرطانیہ وغیرہ سے ہے؛ کیوں کہ ان ہتھیاروں کے سب سے بڑے تاجر اور تیار کرنے والے یہی ممالک ہیں،آخر ایک حقیقت پسند، منصف مزاج، غیرجانب دار مبصر اس رویہ کو مبنی برانصاف کیسے باور کرسکتا ہے، کہ یہ طاقتیں خود تو ایٹمی ہتھیاروں کا انبار لگائیں؛ مگر کسی دوسرے ممالک بالفاظ واضح مسلم حکومتوں کے بارے میں اگر بے بنیاد شبہ ہوجائے کہ یہ ایٹمی ہتھیار بنانے یا حاصل کرنے کی فکر میں ہیں، تویہ جارحیت پسند، دہشت گرد، مجرم انسانیت اور بلا تاخیر لائق گردن زدنی ہیں۔
کیا آج اسی جھوٹے شبہ کو بنیاد بناکر ایران کو گھیرنے اور اسے اپاہج بنادینے کی اسکیمیں نہیں بنائی جارہی ہیں؟ اسلام اور قوم مسلم پر مذہبی انتہا پسندی، بنیادپرستی اور دہشت گردی کی بھپتیاں کسنے والے یہ امریکہ اور اس کے حمایتی اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھیں اور حقیقت پسندی کی کچھ بھی رمق اگر ان میں ہے تو بتائیں کہ مذہبی انتہا پسند، بنیادپرست، دہشت گرد اور جنونی کون ہے؟ امریکہ اور اس کے اتحادی یا عالم اسلام؟
آج جو پاسکتان سے لے کر لیبیا تک مسلم ممالک میں اضطراب وبے چینی پھیلی ہوئی ہے، یہ بھی ’’اے باد صبا ایں ہمہ آوردہٴ تُست‘‘ ہی ہے، ظاہرپسند سمجھتے ہیں کہ حسنی مبارک کو ان کی زندگی بھر کی امریکہ اور اسرائیل نوازی کا صلہ مل گیا ہے؛ لیکن جو لوگ یہودی سازشوں سے کسی حد تک آشنا ہیں، وہ بخوبی جانتے ہیں کہ عالم اسلام میں برپا اس اتھل پتھل کے پیچھے اسی سازشی گروہ کا خفیہ ہاتھ ہے، جس کے ذریعہ وہ افغانستان اور عراق کی طرح پاکستان، ایران، شام، لیبیا وغیرہ مسلم ممالک پر کرزئی اور مالکی جیسے کرداروں کو مسلط کرنا چاہتے ہیں، یہ ایک قدیم خفیہ منصوبہ کی تکمیل کی طرف پیش قدمی ہے اور خود مسلم حکمرانوں نے عیش پسندی، غفلت شعاری اور اپنے فرائض کی طرف سے لاپرواہی کی بنیاد پر اس کا موقع فراہم کیا ہے۔ عالم اسلام کی یہ موجودہ صورت حال اگرچہ بے حد مایوس کن، انتہائی تشویشناک، اور اضطراب انگیز ہے؛ لیکن یہ بھی ایک زندہ حقیقت ہے کہ دنیاکے نقشہ میں قوم مسلم اور مذاہب وملل کی فہرست میں اسلام کوئی ذہنی وفکری مفروضہ نہیں ہے؛ بل کہ واقعی حقیقت ہے اور حقائق کو آج تک نہ مٹایا جاسکا ہے اور نہ آئندہ مٹایا جاسکے گا؛ اس لیے حقیقت سے آنکھیں چرانے کی بجائے کھلے دل سے اسے تسلیم کیا جانا چاہیے، اور تکرار، آویزش اور فریب و سازش کی بجائے پرامن بقائے باہمی کی راہیں ہموار کرنے کی کوشش کی جانی چاہیے، یہی امن وسلامتی کا راستہ ہے، اس کے برخلاف اگر مذہبی، سیاسی، معاشرتی اور اقتصادی لحاظ سے قوم مسلم کے آگے رکاوٹیں کھڑی کی جائیں گی اور دنیا کے نقشے سے انھیں مٹادینے کے منصوبے بنائے جائیں گے تو اس لاحاصل سعی سے صرف دنیا کا امن وامان ہی تباہ ہوگا، قوم مسلم تو ختم ہونے سے رہی۔
جہاں میں اہلِ ایماں صورتِ خورشید جیتے ہیں
اُدھر ڈوبے اِدھر نکلے، اِدھر ڈوبے اُدھر نکلے
—————————————
دارالعلوم ، شماره 6، جلد: 95 رجب 1432ہجری مطابق جون 2011 ء