از: مولانا محمد تقی عثمانی، کراچی، پاکستان
اکابر دیوبندکیا تھے؟ اس کا جواب مختصرلفظوں میں یوں بھی دیاجاسکتا ہے کہ وہ خیرالقرون کی یادگار تھے، سلف صالحین کا نمونہ تھے، اسلامی مزاج ومذاق کی جیتی جاگتی تصویر تھے، لیکن ان مختصر جملوں کی تشریح وتفصیل کرنے بیٹھیں تواس کے لیے دفتر کے دفتر بھی ناکافی ہیں اور سچی بات تو یہ ہے کہ ان کی خصوصیات کو لفظوں میں سمیٹنا مشکل ہی نہیں تقریباً ناممکن ہے۔ اس لیے کہ ان کی خصوصیات کا تعلق درحقیقت اس مزاج ومذاق سے ہے جو صحابہٴ کرام (رضوان اللہ علیہم) کی سیرتوں اور اُن کے طرزِ زندگی سے مستنیر تھا اور مزاج ومذاق وہ چیز ہے جسے محسوس تو کیا جاسکتا ہے لیکن الفاظ کے ذریعے ٹھیک ٹھیک بیان نہیں کیا جاسکتا۔ جس طرح گلاب کی خوشبو کو سونگھا تو جاسکتا ہے لیکن اس کی پوری کیفیت کو الفاظ میں ڈھالنا ممکن نہیں۔ اسی طرح اُن حضرات کے مزاج ومذاق کو ان کی صحبتوں اور ان کے واقعات سے سمجھاجاسکتا ہے مگر اس کی منطقی تعبیر ناممکن ہے۔
لہٰذا اس مضمون میں اکابر دیوبند کی خصوصیات وامتیازات کو نظری طور سے بیان کرنے کے بجائے اُن کے چند متفرق واقعات سنانے مقصود ہیں جن سے ان کی خصوصیات زیادہ واضح اور آسان طریقے سے سمجھ میں آسکیں گی … وباللّٰہ التوفیق!
علم وفضل اور اُس کے ساتھ تواضع وللہیت
اگر صرف وسعت مطالعہ، قوتِ استعداد اور کثرتِ معلومات کا نام علم ہوتو یہ صفت آج بھی ایسی کمیاب نہیں لیکن اکابر دیوبند کی خصوصیت یہ ہے کہ علم وفضل کے سمندر سینے میں جذب کرلینے کے باوجود اُن کی تواضع،فنائیت اور للہیت انتہا کو پہنچی ہوئی تھی۔ یہ محاورہ زبان زدِ عام ہے کہ ”پھلوں سے لدی ہوئی شاخ ہمیشہ جھکتی ہے“ لیکن ہمارے زمانے میں اس محاورے کا عملی مظاہرہ جتنا اکابر دیوبند کی زندگی میں نظر آتا ہے اور کہیں نہیں ملتا۔ چند واقعات ملاحظہ فرمائیے:
۱- بانیٴ دارالعلوم دیوبند حجة الاسلام حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمة اللہ علیہ کے علوم بحر ناپیداکنار تھے۔ اُن کی تصانیف آبِ حیات، تقریر دلپذیر، قاسم العلوم اور مباحثہ شاہجہاں پور وغیرہ سے اُن کے مقامِ بلند کا کچھ اندازہ ہوتاہے اور ان میں سے بعض تصانیف تو ایسی ہیں کہ اچھے اچھے علماء کی سمجھ میں نہیں آتیں۔ حد یہ ہے کہ ان کے ہم عصر بزرگ حضرت مولانا محمد یعقوب صاحب نانوتوی رحمة الله عليه کا یہ جملہ دارالعلوم میں معروف تھا کہ ”میں نے آبِ حیات کا چھ مرتبہ مطالعہ کیا ہے، اب وہ کچھ کچھ سمجھ میں آئی ہے۔“
اور حکیم الامت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی رحمة الله عليه فرماتے ہیں کہ:
”اب بھی مولانا (نانوتوی رحمة الله عليه) کی تحریریں میری سمجھ میں نہیں آتیں اور زیادہ غور وخوض کی مشقت مجھ سے برداشت ہوتی نہیں، اس لیے مستفید ہونے سے محروم رہتا ہوں اور اپنے دل کو یوں سمجھالیتاہوں کہ ضروریات کا علم حاصل کرنے کے لیے اور سہل سہل کتابیں موجود ہیں پھر کیوں مشقت اٹھائی جائے“۔(۱)
ایسے وسیع وعمیق علم کے بعد، بالخصوص جب کہ اس پر عقلیات کا غلبہ ہو، عموماً علم وفضل کا زبردست پندار پیدا ہوجایا کرتا ہے لیکن حضرت نانوتوی رحمة الله عليه کا حال یہ تھا کہ خود فرماتے ہیں:
”جس طرح صوفیوں میں بدنام ہوں اسی طرح مولویت کا دھبہ بھی مجھ پر لگا ہوا ہے، اس لیے پھونک پھونک کر قدم رکھنا پڑتا ہے، اگر یہ مولویت کی قید نہ ہوتی تو قاسم کی خاک کا بھی پتہ نہ چلتا۔“(۲)
چنانچہ اُن کی بے نفسی کا عالم یہ تھا کہ بقول مولانا احمد حسن صاحب امروہوی رحمة اللہ علیہ:
”حضرت مولانا محمد قاسم صاحب رحمة الله عليه جس طالب علم کے اندر تکبردیکھتے تھے اُس سے کبھی کبھی جوتے اُٹھوایا کرتے تھے اور جس کے اندر تواضع دیکھتے تھے اُس کے جوتے خود اُٹھالیا کرتے تھے“۔(۳)
۲- یہی حال حضرت مولانا رشید احمد صاحب گنگوہی رحمة اللہ علیہ کا تھا۔ انھیں اُنکے تفقّہ کے مقامِ بلند کی بناء پر حضرت مولانا نانوتوی رحمة الله عليه نے ”ابوحنیفہٴ عصر“ کا لقب دیا تھا اور وہ اپنے عہد میں اسی لقب سے معروف تھے۔ حضرت علامہ انور شاہ صاحب کشمیری رحمة الله عليه جیسے بلند پایہ محقق جو علامہ شامی رحمة الله عليه کو ”فقیہ النفس“ کا مرتبہ دینے کے لیے تیار نہ تھے، حضرت گنگوہی رحمة الله عليه کو ”فقیہ النفس“ فرمایا کرتے تھے۔ ان کے بارے میں حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی رحمة الله عليه واقعہ سناتے ہیں کہ:
”حضرت مولانا گنگوہی رحمة اللہ علیہ ایک مرتبہ حدیث کا سبق پڑھارہے تھے کہ بارش آگئی۔ سب طلبہ کتابیں لے لے کر اندر کو بھاگے مگر مولانا رحمة الله عليه سب طلباء کی جوتیاں جمع کررہے تھے کہ اُٹھاکر لے چلیں۔ لوگوں نے یہ حالت دیکھی تو کٹ گئے“(۴)
۳- شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن صاحب قدس سرہ کے علم وفضل کا کیا ٹھکانا؟ لیکن حضرت تھانوی رحمة الله عليه راوی ہیں کہ ”ایک مرتبہ مراد آباد تشریف لے گئے تو وہا ں کے لوگوں نے وعظ کہنے کے لیے اصرار کیا۔ مولانا رحمة الله عليه نے عذر فرمایا کہ مجھے عادت نہیں ہے مگر لوگ نہ مانے تو اصرار پر وعظ کے لیے کھڑے ہوگئے اور حدیث ”فقیہ واحد أشدّ علی الشیطٰن من ألف عابد“ پڑھی اور اس کا ترجمہ یہ کیا کہ:
”ایک عالم شیطان پر ہزار عابد سے زیادہ بھاری ہے۔“
مجمع میں ایک مشہور عالم موجود تھے۔ انھوں نے کھڑے ہوکر کہا کہ: ”یہ ترجمہ غلط ہے اور جس کو ترجمہ بھی صحیح کرنا نہ آوے اس کو وعظ کہنا جائزنہیں۔“
حضرت شیخ الہند رحمة الله عليه کا جوابی ردِّ عمل معلوم کرنے سے پہلے ہمیں چاہیے کہ ذرا دیر گریبان میں منہ ڈال کر سوچیں کہ اگر اُن کی جگہ ہم ہوتے تو کیا کرتے؟ ترجمہ صحیح تھا اور اُن صاحب کااندازِ بیان توہین آمیز ہی نہیں، اشتعال انگیز بھی تھا۔ لیکن اس شیخ وقت کا طرزِ عمل سنیے، حضرت تھانوی رحمة الله عليه فرماتے ہیں کہ یہ سن کر:
”مولانا فوراً بیٹھ گئے اور فرمایاکہ میں تو پہلے ہی کہتاتھا کہ مجھے وعظ کی لیاقت نہیں ہے مگر ان لوگوں نے نہیں مانا۔ خیر اب میرے پاس عذر کی دلیل بھی ہوگئی، یعنی آپ کی شہادت۔“
چنانچہ وعظ تو پہلے ہی مرحلے پر ختم فرمادیا، اس کے بعد اُن عالم صاحب سے بطرزِ استفادہ پوچھا کہ ”غلطی کیا ہے؟ تاکہ آئندہ بچوں“ انھوں نے فرمایا کہ أشدّ کاترجمہ أثقل (زیادہ بھاری) نہیں بلکہ أضرّ (زیادہ نقصان دہ) کا آتا ہے۔“ مولانا رحمة الله عليه نے برجستہ فرمایا کہ ”حدیث وحی میں ہے یاتینی مثل صلصلة الجرس وہو أشدّ علیّ“ (کبھی مجھ پر وحی گھنٹیوں کی آواز کی طرح آتی ہے اور وہ مجھ پر سب سے زیادہ بھاری ہوتی ہے) کیا یہاں بھی أضرّ (زیادہ نقصان دہ) کے معنی ہیں؟ اس پر وہ صاحب دم بخود رہ گئے۔(۵)
۴- حکیم الامّت حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی رحمة الله عليه جب کانپور میں مدرس تھے، انھوں نے مدرسہ کے جلسہ کے موقع پر اپنے استاذ حضرت شیخ الہند رحمة الله عليه کو بھی مدعو کیا، کانپور میں بعض اہل علم معقولات کی مہارت میں معروف تھے اور کچھ بدعات کی طرف بھی مائل تھے۔ادھر علمائے دیوبند کی زیادہ توجہ چونکہ خالص دینی علوم کی طرف رہتی تھی، اس لیے یہ حضرات یوں سمجھتے تھے کہ علمائے دیوبند کو معقولات میں کوئی درک نہیں ہے۔ حضرت تھانوی رحمة الله عليه اُس وقت نوجوان تھے اور اُن کے دل میں حضرت شیخ الہند رحمة الله عليه کو مدعو کرنے کا ایک داعیہ یہ بھی تھا کہ یہاں حضرت رحمة الله عليه کی تقریر ہوگی تو کانپور کے ان علماء کو پتہ چلے گا کہ علمائے دیوبند کا علمی مقام کیا ہے؟ اور وہ منقولات و معقولات دونوں میں کیسی کامل دستگاہ رکھتے ہیں۔ چنانچہ جلسہ منعقد ہوا اور حضرت شیخ الہند رحمة الله عليه کی تقریر شروع ہوئی، حسن اتفاق سے تقریر کے دوران کوئی معقولی مسئلہ زیر بحث آگیا۔ اس وقت تک وہ علماء جن کو حضرت تھانوی رحمة الله عليه شیخ الہند رحمة الله عليه کی تقریر سنانا چاہتے تھے، جلسہ میں نہیںآ ئے تھے۔ جب حضرت رحمة الله عليه کی تقریر شباب پر پہنچی اور اُس معقولی مسئلہ کا انتہائی فاضلانہ بیان ہونے لگا تو وہ علماء تشریف لے آئے جن کا حضرت تھانوی رحمة الله عليه کو انتظار تھا۔ حضرت تھانوی رحمة الله عليه اس موقع پر بہت مسرور ہوئے کہ اب ان حضرات کو شیخ الہند رحمة الله عليه کے علمی مقام کا اندازہ ہوگا۔ لیکن ہوا یہ کہ جونہی حضرت شیخ الہند رحمة الله عليه نے اُن علماء کو دیکھا۔ تقریر کو مختصر کرکے فوراً ختم کردیا اور بیٹھ گئے۔ حضرت مولانا فخرالحسن صاحب گنگوہی رحمة الله عليه موجود تھے، انھوں نے یہ دیکھا تو تعجب سے پوچھا کہ:
”حضرت! اب تو تقریر کا اصل وقت آیا تھا، آپ بیٹھ کیوں گئے؟“
شیخ الہند رحمة الله عليه نے جواب دیا: ”ہاں! دراصل یہی خیال مجھے بھی آگیا تھا۔“
حضرت علی رضى الله تعالى کا واقعہ مشہور ہے کہ کسی یہودی نے ان کے سامنے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں کوئی گستاخی کردی تھی تو وہ اس پر چڑھ دوڑے اور اُسے زمین پر گراکر اس کے سینے پر سوار ہوگئے۔ یہودی نے جو اپنے آپ کو بے بس پایا تو کھسیانا ہوکر اُس نے حضرت علی رضى الله تعا لى عنه کے روئے مبارک پر تھوک دیا۔ دیکھنے والوں نے دیکھا کہ حضرت علی رضى الله تعا لى عنه اُس کو چھوڑ کر فوراً الگ ہوگئے اور پوچھنے پر بتایا کہ میں پہلے آنحضرت صلى الله عليه وسلم کی محبت کی بناء پر اس یہودی سے اُلجھاتھا۔ اگر تھوکنے کے بعد کوئی اور کارروائی کرتا تو یہ اپنے نفس کی مدافعت ہوتی۔
حضرت شیخ الہند رحمة الله عليه نے اپنے اس عمل سے حضرت علی رضى الله تعا لى عنه کی یہ سنت تازہ فرمادی۔ مطلب یہی تھا کہ اب تک تو تقریر نیک نیتی سے خالص اللہ کے لیے ہورہی تھی لیکن یہ خیال آنے کے بعد اپنا علم جتانے کے لیے ہوتی، اس لیے اسے روک دیا۔(۶)
۵- مدرسہ معینیہ اجمیر کے معروف عالم حضرت مولانا محمدمعین الدین صاحب معقولات کے مسلّم عالم تھے۔ انھوں نے شیخ الہند حضرت مولانامحمود حسن صاحب قدس سرہ کی شہرت سن رکھی تھی، ملاقات کا اشتیاق پیدا ہوا تو ایک مرتبہ دیوبند تشریف لائے اور حضرت شیخ الہند رحمة الله عليه کے مکان پر پہنچ گئے۔ گرمی کا موسم تھا۔ وہاں ایک صاحب سے ملاقات ہوئی جو صرف بنیان اور تہبند پہنے ہوئے تھے۔ مولانا معین الدین صاحب رحمة الله عليه نے اُن سے اپنا تعارف کرایا اور کہا کہ ”مجھے حضرت مولانا محمود حسن صاحب رحمة الله عليه سے ملنا ہے“ وہ صاحب بڑے تپاک سے مولانا اجمیری رحمة الله عليه کو اندر لے گئے، آرام سے بٹھایا اور کہاکہ ”ابھی ملاقات ہوجاتی ہے“ مولانا اجمیری رحمة الله عليه منتظر رہے، اتنے میں وہ شربت لے آئے اور مولانا کو پلایا۔ اس کے بعد مولانا اجمیری نے کہا کہ ”حضرت مولانا محمود حسن صاحب کو اطلاع دیجیے“ اُن صاحب نے فرمایا ”آپ بے فکر رہیں اورآرام سے تشریف رکھیں“ تھوڑی دیر بعد وہ صاحب کھانا لے آئے اور کھانے پر اصرار کیا، مولانا اجمیری رحمة الله عليه نے کہا کہ ”میں مولانا محمود حسن صاحب سے ملنے آیا ہوں، آپ اُنھیں اطلاع کردیجیے“۔ ان صاحب نے فرمایا ”اُنھیں اطلاع ہوگئی ہے آپ کھانا تناول فرمائیں ابھی ملاقات ہوجاتی ہے“ مولانا اجمیری رحمة الله عليه نے کھانا کھالیا تو اُن صاحب نے اُنھیں پنکھا جھلناشروع کردیا۔ جب دیر گزرگئی تو مولانا اجمیری رحمة الله عليه برہم ہوگئے اور فرمایا کہ آپ میراوقت ضائع کررہے ہیں، میں مولانا سے ملنے آیاتھا اوراتنی دیر ہوچکی ہے، ابھی تک آپ نے اُن سے ملاقات نہیں کرائی۔ اس پر وہ صاحب بولے کہ:
”دراصل بات یہ ہے کہ یہاں مولانا تو کوئی نہیں۔ البتہ محمود خاکسار ہی کا نام ہے۔“
مولانا معین الدین صاحب یہ سن کر ہکا بکا رہ گئے اور پتہ چل گیا کہ حضرت شیخ الہند رحمة الله عليه کیا چیز ہیں؟“(۷)
۶- امام العصر حضرت علامہ سید محمد انور شاہ صاحب کشمیری رحمة اللہ علیہ علم وفضل میں یکتائے روزگار تھے۔ حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی رحمة الله عليه نے اپنی ایک مجلس میں نقل کیا کہ ایک عیسائی فیلسوف نے لکھا ہے کہ ”اسلام کی حقانیت کی ایک دلیل یہ ہے کہ غزالی رحمة الله عليه جیسا محقق اور مدقق اسلام کو حق سمجھتا ہے۔“ یہ واقعہ بیان کرکے حکیم الامت رحمة الله عليه نے فرمایا: ”میں کہتا ہوں کہ میرے زمانہ میں مولانا انور شاہ صاحب کا وجود اسلام کی حقانیت کی دلیل ہے کہ ایسا محقق اور مدقق عالم اسلام کو حق سمجھتا ہے اور اس پر ایمان رکھتا ہے۔“(۸)
انہی حضرت شاہ صاحب رحمة الله عليه کا واقعہ حضرت مولانا محمد انوری صاحب رحمة الله عليه بیان فرماتے ہیں کہ مقدمہ بھاولپور کے موقع پر جب حضرت شاہ صاحب رحمة الله عليه نے قادیانیوں کے کفر پر بے نظیر تقریر فرمائی اوراس میں یہ بھی فرمایاکہ ”جو چیز دین میں تواتر سے ثابت ہو اُس کا منکرکافر ہے“ تو قادیانیوں کے گواہ نے اس پر اعتراض کیا:
”آپ کو چاہیے کہ امام رازی رحمة الله عليه پر کفر کا فتویٰ دیں کیونکہ فواتح الرحموت شرح مسلم الثبوت میں علامہ بحرالعلوم رحمة الله عليه نے لکھا ہے کہ امام رازی رحمة الله عليه نے متواتر معنوی انکار کیاہے۔“
اس وقت بڑے بڑے علماء کا مجمع تھا، سب کو پریشانی ہوئی کہ فواتح الرحموت اس وقت پاس نہیں ہے، اس اعتراض کا جواب کس طرح دیا جائے؟ مولانا محمد انوری رحمة الله عليه جو اس واقعے کے وقت موجود تھے، فرماتے ہیں:
”ہمارے پاس اتفاق سے وہ کتاب نہ تھی۔ مولانا عبداللطیف صاحب ناظم مظاہر العلوم سہارنپور اور مولانا مرتضی حسن صاحب رحمة الله عليه حیران تھے کہ کیا جواب دیں گے؟“
لیکن اسی حیرانی کے عالم میں حضرت شاہ صاحب رحمة الله عليه کی آواز گونجی: ”جج صاحب! لکھیے، میں نے بتیس سال ہوئے، یہ کتاب دیکھی تھی، اب ہمارے پاس یہ کتاب نہیں ہے۔ امام رازی رحمة الله عليه دراصل یہ فرماتے ہیں کہ حدیث لاتجتمع امتی علی الضلالة تواتر معنوی کے رُتبے کو نہیں پہنچی، لہٰذا انھوں نے اس حدیث کے متواتر معنوی ہونے کا انکار فرمایاہے، نہ کہ تواتر معنوی کے حجت ہونے کا۔ ان صاحب نے حوالہ پیش کرنے میں دھوکے سے کام لیا ہے۔ ان کو کہو کہ عبارت پڑھیں۔ ورنہ میں ان سے کتاب لے کر عبارت پڑھتا ہوں۔“
چنانچہ قادیانی شاہد نے عبارت پڑھی۔ واقعی اس کا مفہوم وہی تھا جو حضرت شاہ صاحب رحمة الله عليه نے بیان فرمایا۔ مجمع پر سکتہ طاری ہوگیا اور حضرت شاہ صاحب رحمة الله عليه نے فرمایا:
”جج صاحب! یہ صاحب ہمیں مُفحم (لاجواب) کرنا چاہتے ہیں۔ میں چونکہ طالب علم ہوں، میں نے دوچار کتابیں دیکھ رکھی ہیں، میں ان شاء اللہ مُفحم نہیں ہونے کا۔“(۹)
ایک طرف علم وفضل اور قوت حافظہ کا یہ محیرالعقول کارنامہ دیکھیے کہ بتیس سال پہلے دیکھی ہوئی کتاب کا ایک جزوی حوالہ کتنی جزرسی کے ساتھ یاد رہا، دوسری طرف اس موقع پر کوئی اور ہوتا تو نہ جانے کتنے بلند بانگ دعوے کرتا، لیکن خط کشیدہ جملہ ملاحظہ فرمائیے کہ وہ تواضع کے کس مقام کی غمازی کررہا ہے؟ اور یہ محض لفظ ہی نہیں ہیں، وہ واقعتا اپنے تمام کمالات کے باوصف اپنے آپ کو ایک معمولی طالب علم سمجھتے تھے اوراس دعائے نبوی کے مظہر تھے کہ اللّٰہم اجعلنی فی عینی صغیرا وفی أعین النّاس کبیرا.
۶- حضرت مولانا محمد انوری رحمة الله عليه ہی راوی ہیں کہ ایک دفعہ حضرت شاہ صاحب رحمة الله عليه کشمیر تشریف لے جارہے تھے، بس کے انتظار میں سیالکوٹ اڈّے پرتشریف فرماتھے، ایک پادری آیا اور کہنے لگا کہ آپ کے چہرے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ مسلمانوں کے بڑے عالم دین ہیں۔ فرمایا ”نہیں! میں طالب علم ہوں“ اس نے کہا ”آ پ کو اسلام کے متعلق علم ہے؟“ فرمایا ”کچھ کچھ“ پھر اُن کی صلیب کے متعلق فرمایاکہ ”تم غلط سمجھے ہو۔ اس کی یہ شکل نہیں ہے۔“ پھر نبی کریم صلى الله عليه وسلم کی نبوت پر چالیس دلائل دیے۔ دس قرآن سے دس تورات سے،دس انجیل سے اور دس عقلی۔ وہ پادری آپ کی تقریر سن کر کہنے لگا کہ اگر مجھے اپنے مفادات کا خیال نہ ہوتاتو میں مسلمان ہوجاتا، نیز یہ کہ مجھے خود اپنے مذہب کی بہت سی باتیں آپ سے معلوم ہوئیں۔(۱۰)
۷- احقر کے والد ماجد حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب مدظلہم نے بار بار یہ واقعہ بیان فرمایا کہ جب میں دارالعلوم دیوبند میں ملاّحسن پڑھاتا تھا تو ایک روز اس کی عبارت پر کچھ شبہ ہوا جو حل نہیں ہورہا تھا۔ میں نے سوچاکہ حضرت شاہ صاحب رحمة الله عليه سے اس کے بارے میں استفسار کرنا چاہیے۔ چنانچہ میں کتاب لے کران کی تلاش میں نکلا، وہ اپنی جگہ پر نہیں تھے اور جب وہ اپنی جگہ پرنہ ہوں تو ان کا کتب خانہ میں ہونا متعین تھا۔میں کتب خانہ میں پہنچا تو وہ کتب خانے کی بالائی گیلری میں بیٹھے مطالعہ میں مشغول تھے۔ میں ابھی نیچے ہی تھا کہ انھوں نے مجھے دیکھ لیا اور اوپر ہی سے میرے آنے کی وجہ پوچھی۔ میں نے عرض کیا کہ ”ملاحسن کے ایک مقام پر کچھ اشکال ہے وہ سمجھنا تھا۔“ وہیں بیٹھے بیٹھے فرمایا ”عبارت پڑھیے“ میں نے عبارت پڑھنی شروع کی تو بیچ ہی میں روک کر فرمایا: ”اچھا ! یہاں آپ کو یہ شبہ ہوا ہوگا“ اور پھر بعینہ وہی اشکال دُہرادیا جو میرے دل میں تھا۔ میں نے تصدیق کی کہ واقعی یہی شبہ ہے، اس پر انھوں نے اس کے جواب میں وہیں سے ایسی تقریر فرمائی کہ تمام اشکال کافور ہوگئے۔
اب ظاہر ہے کہ حضرت شاہ صاحب رحمة الله عليه عرصہ دراز سے حدیث کی تدریس میں مصروف تھے اور منطق کی کتابوں سے واسطہ تقریباً ختم ہوگیا تھا لیکن اس کے باوجود یہ حافظہ اوریہ استحضار کرشمہٴ قدرت نہیں تو اورکیا ہے؟
۸- احقر نے اپنے والد ماجد سے بھی سنا ہے اور شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد یوسف صاحب بنوری مدظلہم سے بھی کہ حضرت شاہ صاحب رحمة الله عليه نے ۱۳۲۱ھ میں علامہ ابن الہمام رحمہ اللہ کی مشہور شرح ہدایہ ”فتح القدیر“ اور اس کے تکملہ کا مطالعہ بیس سے کچھ زائد ایام میں کیا تھا اور کتاب الحج تک اس کی تلخیص لکھی تھی اور انھوں نے صاحب ہدایہ پر جو اعتراضات کیے ہیں اُن کا جواب بھی لکھا تھا۔ اس کے بعد مدت العمر ”فتح القدیر“ کی مراجعت کی ضرورت نہیں پڑی اور کسی تازہ مطالعہ کے بغیر اس کی نہ صرف باتوں بلکہ طویل عبارتوں تک کا حوالہ سبق میں دیا کرتے تھے۔ حضرت مولانا بنوری مدظلہم فرماتے ہیں کہ انھوں نے ۱۳۴۷ھ میں ہم سے یہ واقعہ بیان کیااور فرمایا:
”چھبیس سال ہوئے پھر مراجعت کی ضرورت نہیں پڑی اور جو مضمون اس کا بیان کروں گا، اگر مراجعت کروگے تفاوت کم پاؤگے۔“(۱۱)
۹- حضرت مولانا محمد منظور نعمانی صاحب مدظلم حضرت شاہ صاحب رحمة الله عليه کے شاگرد ہیں۔ وہ فرماتے ہیں کہ درس سے فراغت کے بعد میں جب بھی حضرت شاہ صاحب رحمة الله عليه کی خدمت میں حاضر ہوتا تو پہلے سے لکھے ہوئے متعدد سوالات کے جواب اُن سے معلوم کیاکرتا تھا۔ ایک دفعہ کی حاضری میں ترمذی شریف کی ایک عبارت کا حوالہ میں نے دیا اور عرض کیا کہ اس عبارت میں یہ اشکال ہے، بہت غور کیا لیکن حل نہیں ہوسکا۔ فرمایا ”مولوی صاحب! آپ کو یاد نہیں رہا، مجھے خوب یاد ہے کہ جس سال آپ دورہ میں تھے اس موقع پر میں نے بتایا تھا کہ یہاں ترمذی کے اکثر نسخوں میں ایک غلطی واقع ہوگئی ہے لیکن لوگ سرسری طور پر گزرجاتے ہیں اور انھیں پتہ نہیں چلتا، ورنہ یہ اشکال سب کو پیش آنا چاہیے“ پھر فرمایا کہ ”صحیح عبارت اس طرح ہے“ مولانا نعمانی مدظلہم لکھتے ہیں:
”اللہ اکبر! یہ بات بھی یاد رہتی تھی کہ فلاں سال اس موقع پر سبق میں یہ بات فرمائی تھی“۔(۱۲)
۱۰- حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب مدظلہم فرماتے ہیں کہ مجھے اپنی ایک تصنیف کے سلسلہ میں ابوالحسن کذاب کے حالات کی ضرورت تھی۔ مجھے ان کی تاریخ نہ ملی۔ چنانچہ میں حسب معمول حضرت شاہ صاحب رحمة الله عليه کے درِ دولت پر پہنچ گیا۔ اس وقت مرضِ وفات اپنی آخری حد پر پہنچ چکا تھا اور دوتین ہفتے بعد وصال ہونے والا تھا۔ کمزور بے حد ہوچکے تھے۔ابتدائی گفتگو کے بعد میں نے آنے کی غرض بتائی تو انھوں نے فرمایاکہ ادب اور تاریخ کی کتابوں میں فلاں فلاں مواقع کا مطالعہ کرلیجیے اور تقریباً آٹھ دس کتابوں کے نام لے دیے۔ میں نے عرض کیاکہ حضرت! مجھے تو کتابوں کے اتنے اسماء یاد بھی نہ رہیں گے۔ نیز انتظامی مہمات کے بکھیڑوں میں اتنی فرصت بھی نہیں کہ چند جزوی مثالوں کے لیے اتنا طویل وعریض مطالعہ کروں۔ بس آپ ہی اس شخص کی دروغ گوئی کے متعلقہ واقعات کی دوچار مثالیں بیان فرمادیں، میں اُنہی کو آپ کے حوالہ سے جزوِ کتاب بنادوں گا۔ اس پر مسکراکر ابوالحسن کذاب کی تاریخ، اُس کے سن ولادت سے سن وار بیان فرمانی شروع کردی جس میں اس کے جھوٹ کے عجیب وغریب واقعات بیان فرماتے رہے۔ آخر میں سن وفات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ شخص مرتے مرتے بھی جھوٹ بول گیا پھر اُس جھوٹ کی تفصیل بیان فرمائی۔
حیرانی یہ تھی کہ یہ بیان اس طرز سے ہورہا تھا کہ گویا حضرت ممدوح نے آج کی شب میں مستقلاً اسی کی تاریخ کا مطالعہ کیا ہے جو اس بسط سے سن وار واقعات بیان فرمارہے ہیں چنانچہ میں نے تعجب آمیز لہجے میں عرض کیا کہ ”حضرت! شاید کسی قریبی زمانے ہی میں اس کی تاریخ دیکھنے کی نوبت آئی ہوگی؟“ سادگی سے فرمایا ”جی نہیں! آج سے تقریباً چالیس سال کا عرصہ ہوتا ہے جب میں مصر گیا ہوا تھا۔ خدیوی کتب خانہ میں مطالعہ کے لیے پہنچا تو اتفاقاً اسی ابوالحسن کذاب کا ترجمہ سامنے آگیا اور اس کا مطالعہ دیر تک جاری رہا، بس اسی وقت جو باتیں کتاب میں دیکھیں حافظہ میں محفوظ ہوگئیں اور آج آپ کے سوال پر مستحضر ہوگئیں جن کا میں نے اس وقت تذکرہ کیا“۔(۱۳)
۱۱- یہی حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب مدظلہم فرماتے ہیں کہ تحریک خلافت کے دور میں جب امارتِ شرعیہ (عوام کی طرف سے قاضی مقرر کرنے) کامسئلہ چھڑا تو مولوی سبحان اللہ خاں صاحب گورکھپوری نے اپنے بعض نقاطِ نظر کی تائید میں بعض سلف کی عبارت پیش کی جو ان کے نقطئہ نظر کی تو موٴید تھی مگر مسلک جمہور کے خلاف تھی۔ یہ عبارت وہ لے کر خود دیوبند تشریف لائے اور مجمع علماء میں اُسے پیش کیا۔ تمام اکابر دارالعلوم حضرت شاہ صاحب رحمة الله عليه کے کمرے میں جمع تھے۔ حیرانی یہ تھی کہ نہ اس عبارت کو ردّ ہی کرسکتے تھے کہ وہ سلف میں سے ایک بڑی شخصیت کی عبارت تھی اور نہ اُسے قبول ہی کرسکتے تھے کہ مسلک جمہور کے صراحتاً خلاف تھی۔ یہ عبارت اتنی واضح اور صاف تھی کہ اُسے کسی تاویل وتوجیہہ سے بھی مسلک جمہور کے مطابق نہیں کیا جاسکتا تھا۔
حضرت شاہ صاحب رحمة الله عليه استنجا کے لیے تشریف لے گئے تھے وضو کرکے واپس ہوئے تو اکابر نے عبارت اور مسلک کے تعارض کا تذکرہ کیا اور یہ کہ ان دونوں باتوں میں تطبیق بن نہیں پڑتی۔ حضرت ممدوح رحمة الله عليه حسب عادت ”حسبنا اللہ“ کہتے ہوئے بیٹھ گئے اور عبارت کو ذرا غور سے دیکھ کر فرمایا کہ اس عبارت میں جعل اور تصرف کیاگیا ہے۔اُسی وقت کتب خانہ سے کتاب منگائی گئی۔ دیکھاتو واقعی اصل عبارت میں سے پوری ایک سطر درمیان سے حذف ہوئی تھی۔ جونہی اس سطر کو عبارت میں شامل کیاگیا عبارت کا مطلب مسلک جمہور کے موافق ہوگیا اور سب کا تحیر رفع ہوگیا۔(۱۴)
۱۲- حضرت مولانا محمد یوسف بنوری مدظلہم فرماتے ہیں کہ طلاق کے ایک مسئلہ میں کشمیر کے علماء میں اختلاف ہوگیا۔ فریقین نے حضرت شاہ صاحب رحمة الله عليه کو حکم بنایا۔ حضرت شاہ صاحب رحمة الله عليه نے دونوں کے دلائل غور سے سنے۔ اُن میں سے ایک فریق اپنے موقف پر فتاویٰ عمّادیہ کی ایک عبارت سے استدلال کررہا تھا۔ حضرت شاہ صاحب رحمة الله عليه نے فرمایا:
”میں نے دارالعلوم کے کتب خانے میں فتاویٰ عمادیہ کے ایک صحیح قلمی نسخہ کا مطالعہ کیاہے۔ اس میں یہ عبارت ہرگز نہیں ہے لہٰذا یا تو ان کا نسخہ غلط ہے یا یہ لوگ کوئی مغالطہ انگیزی کررہے ہیں۔“(۱۵)
ایسے علم وفضل اور ایسے حافظہ کا شخص اگر بلند بانگ دعوے کرنے لگے تو کسی درجہ میں اس کو حق پہنچ سکتا ہے، لیکن حضرت شاہ صاحب رحمة الله عليه اُس قافلہٴ رُشد و ہدایت کے فرد تھے جس نے مَنْ تَوَاضَعَ لِلّٰہِ کی حدیث کا عملی پیکر بن کر دکھایا تھا۔ چنانچہ اسی واقعہ میں جب انھوں نے حضرت مولانا بنوری مدظلہم کو اپنا فیصلہ لکھنے کا حکم دیا تو انھوں نے حضرت شاہ صاحب رحمة الله عليه کے نام کے ساتھ ”الحبر البحر“ (عالم متبحر) کے دو تعظیمی لفظ لکھ دیے۔ حضرت شاہ صاحب رحمة الله عليه نے دیکھاتو قلم ہاتھ سے لے کر زبردستی خود یہ الفاظ مٹائے اور غصہ کے لہجہ میں مولانا بنوری سے فرمایا:
”آپ کو صرف مولانا محمد انور شاہ لکھنے کی اجازت ہے“۔(۱۶)
پھر ایسا شخص جو ہمہ وقت کتابوں ہی میں مستغرق رہتا ہو، اُس کا یہ جملہ ادب وتعظیم کتب کے کس مقام کی نشان دہی کرتا ہے کہ:
”میں مطالعہ میں کتاب کو اپنا تابع کبھی نہیں کرتا بلکہ ہمیشہ خود کتاب کے تابع ہوکر مطالعہ کرتا ہوں۔“
چنانچہ حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب مدظلہم فرماتے ہیں:
”سفر وحضر میں ہم لوگوں نے کبھی نہیں دیکھا کہ لیٹ کر مطالعہ کررہے ہوں یا کتاب پر کہنی ٹیک کر مطالعہ میں مشغول ہوں، بلکہ کتاب کو سامنے رکھ کر موٴدّب انداز میں بیٹھتے، گویا کسی شیخ کے آگے بیٹھے ہوئے استفادہ کررہے ہوں۔“
اور یہ بھی فرمایاکہ:
”میں نے ہوش سنبھالنے کے بعد سے اب تک دینیات کی کسی کتاب کا مطالعہ بے وضو نہیں کیا۔“(۱۷)
۱۳- دارالعلوم کی تاریخ میں یہ جملہ بہت معروف ہے کہ دارالعلوم کی ابتداء دو ایسے بزرگوں سے ہوئی جن دونوں کا نام محمود تھا اور دونوں قصبہٴ دیوبند کے باشندے تھے۔ ان میں شاگرد تو وہ محمود تھے جو شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن صاحب رحمة الله عليه کے نام سے معروف ہوئے اور استاد حضرت ملا محمود صاحب رحمة الله عليه تھے۔ راقم الحروف کے جد امجد حضرت مولانا محمد یٰسین صاحب رحمة اللہ علیہ کی روایت ہے کہ ایک مرتبہ ملا محمود صاحب رحمة الله عليه نے فرمایا کہ سنن ابن ماجہ پر جو حاشیہ حضرت شاہ عبدالغنی صاحب رحمة الله عليه محدث دہلوی رحمة الله عليه کے نام سے چھپا ہوا ہے اس کا بڑا حصہ حضرت شاہ عبدالغنی صاحب رحمة الله عليه نے مجھ سے لکھوایاہے۔ ان کی سادگی کا یہ عالم تھا کہ طلباء نے اس پر تعجب کا اظہار کیا۔ وجہ یہ تھی کہ علم کے دعوے اور نام ونمود کی خواہشات سے اللہ تعالیٰ نے اس فرشتہٴ خصلت بزرگ کو ایساپاک رکھاتھا کہ عام آدمی کو یہ پہچاننا بھی مشکل تھا کہ یہ کوئی بڑے عالم ہیں۔
اپنا گھریلو سوداسلف اور گوشت ترکاری خود بازار سے خرید کر لاتے اور گھر میں عام آدمیوں کی طرح زندگی گزارتے تھے مگر علوم کے استحضار اور حفظ کا عالم یہ تھاکہ راقم کے جدِّ امجد حضرت مولانا محمد یٰسین صاحب رحمة الله عليه کی ایک بڑی کتاب (جو غالباً منطق یا اصولِ فقہ کی کتاب تھی) اتفاقاً درس سے رہ گئی تھی، انھیں یہ فکر تھی کہ دورئہ حدیث شروع ہونے سے پہلے یہ کتاب پوری ہوجائے چنانچہ انھوں نے مُلاّ محمود صاحب رحمة الله عليه سے درخواست کی۔ ملا صاحب رحمة الله عليه نے فرمایاکہ اوقاتِ مدرسہ کے علاوہ بھی میرے تمام اوقات اسباق سے بھرے ہوئے ہیں، صرف ایک وقت ہے کہ جب میں گھر کا گوشت ترکاری لینے کے لیے بازار جاتا ہوں، یہ وقت خالی گزرتا ہے، تم ساتھ ہوجاؤ تو اس وقفے میں سبق پڑھادوں گا۔ احقر کے دادا حضرت مولانا محمد یٰسین صاحب رحمة الله عليه فرماتے تھے کہ کتاب بڑی اور مشکل تھی جس کو دوسرے علماء غور ومطالعہ کے بعد بھی مشکل سے پڑھا سکتے تھے۔ مگر مُلاّ محمود صاحب رحمة الله عليه نے کچھ راستہ میں کچھ قصاب کی دوکان پر یہ تمام کتاب ہمیں اس طرح پڑھا دی کہ کوئی مشکل ہی نظر نہ آئی۔(۱۸)
۱۴- حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی رحمة اللہ علیہ کے علم وفضل کے بارے میں کچھ کہنا سورج کو چراغ دکھانا ہے، حضرت رحمة الله عليه طالب علمی کے زمانے ہی سے اپنی قوتِ استعداد، ذہانت وفطانت اور علم وعمل میں مصروف تھے لیکن جب ۱۳۰۰ھ میں آپ دارالعلوم سے فارغ التحصیل ہوئے، اور دستاربندی کے لیے دیوبند میں بہت بڑا اور شاندار جلسہ منعقد کرنے کی تجویز ہوئی تو حضرت تھانوی رحمة الله عليه اپنے ہم سبقوں کو لے کر حضرت مولانا محمد یعقوب صاحب نانوتوی رحمة الله عليه کی خدمت میں پہنچے اور عرض کیا کہ ”حضرت! ہم نے سنا ہے کہ ہم لوگوں کی دستاربندی کی جائے گی اور سند فراغ دی جائے گی۔ حالانکہ ہم اس قابل ہرگز نہیں لہٰذا اس تجویز کو منسوخ فرمادیا جائے ورنہ اگر ایسا کیاگیا تو مدرسہ کی بڑی بدنامی ہوگی کہ ایسے نالائقوں کو سند دی گئی۔“ حضرت نانوتوی رحمة الله عليه کو یہ سن کر جوش آگیا اور فرمایاکہ تمہارا یہ خیال بالکل غلط ہے، یہاں چونکہ تمہارے اساتذہ موجود ہیں اس لیے ان کے سامنے تمہیں اپنی ہستی کچھ نہیں آتی اور ایساہی ہونا چاہیے، باہر جاؤگے تب تمہیں اپنی قدر معلوم ہوگی، جہاں جاؤگے بس تم ہی تم ہوگے۔(۱۹)
سادگی اور مخلوقِ خدا کا خیال
۱۵- حضرت مولانا مظفرحسین کاندھلوی رحمة اللہ علیہ کا شمار بھی اکابرِ دیوبند میں ہے۔ ان کے علم وفضل کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ وہ حضرت شاہ محمد اسحق صاحب رحمة اللہ علیہ کے بلاواسطہ شاگرد اور حضرت شاہ عبدالغنی صاحب محدث دہلوی رحمة الله عليه کے ہم سبق ہیں۔ وہ ایک مرتبہ کہیں تشریف لے جارہے تھے کہ راستہ میں ایک بوڑھا ملاجو بوجھ لیے جارہا تھا، بوجھ زیادہ تھا اور وہ بمشکل چل رہا تھا، حضرت مولانا مظفرحسین صاحب رحمة الله عليه نے یہ حال دیکھاتو اس سے وہ بوجھ لے لیا اور جہاں وہ لے جانا چاہتا تھا وہاں پہنچادیا۔ اس بوڑھے نے اُن سے پوچھا! ”اجی! تم کہاں رہتے ہو؟“ انھوں نے کہا: ”بھائی! میں کاندھلہ میں رہتا ہوں“۔ اس نے کہا: ”وہاں مولوی مظفرحسین بڑے ولی ہیں“ اور یہ کہہ کر ان کی بڑی تعریفیں کیں، مگر مولانا رحمة الله عليه نے فرمایا: ”اور تو اس میں کوئی بات نہیں ہے، ہاں نماز توپڑھ لے ہے“۔ اس نے کہا ”واہ میاں! تم ایسے بزرگ کو ایسا کہو؟“ مولانا رحمة الله عليه نے فرمایا: ”میں ٹھیک کہتا ہوں“ وہ بوڑھا اُن کے سرہوگیا، اتنے میں ایک اور شخص آگیا جو مولانا رحمة الله عليه کو جانتا تھا،اس نے بوڑھے سے کہا ”بھلے مانس! مولوی مظفرحسین یہی ہیں“ اس پر وہ بوڑھا مولانا سے لپٹ کر رونے لگا۔(۲۰)
۱۶- انہی مولانا مظفرحسین صاحب رحمة الله عليه کی عادت یہ تھی کہ اشراق کی نماز پڑھ کر مسجد سے نکلا کرتے تھے اور اپنے تمام رشتہ داروں کے گھر تشریف لے جاتے جس کسی کو بازار سے کچھ منگانا ہوتا اس سے پوچھ کر لادیتے اور طُرّہ یہ کہ اس زمانے میں لوگوں کے پاس پیسے کم ہوتے تھے، عموماً چیزیں غلّے کے عوض خریدی جاتی تھیں چنانچہ آپ گھروں سے غلّہ باندھ کر لے جاتے اوراس سے اشیاء ضرورت خرید کر لاتے تھے۔(۲۱)
۱۷- یہی حال دیوبند کے مفتی اعظم حضرت مولانا مفتی عزیز الرحمن صاحب رحمة الله عليه کا تھا۔ علم وفضل کا تو یہ عالم کہ آج ان کی ”عزیز الفتاویٰ“ عہد حاضر کے تمام مفتیوں کے لیے مآخذ بنی ہوئی ہے اور فتویٰ کے ساتھ شغف کا یہ حال کہ وفات کے وقت بھی ایک استفتاء ہاتھ میں تھا جسے موت ہی نے ہاتھ سے چھڑاکر سینے پر ڈال دیا تھا۔(۲۲) لیکن سادگی، تواضع اور خدمت خلق کا یہ مقام کا والد ماجد حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب مدظلہم تحریر فرماتے ہیں:
”کوئی کیسے سمجھے کہ یہ کوئی بڑے عالم یا صاحب کرامات صوفی اور صاحب نسبت شیخ ہیں جب کہ غایت تواضع کا یہ عالم ہوکہ بازار کا سودا سلف نہ صرف اپنے گھر کا بلکہ محلے کی بیواؤں اور ضرورت مندوں کا بھی خود لاتے، بوجھ زیادہ ہوجاتا تو بغل میں گٹھڑی دبالیتے اور پھر ہر ایک کے گھرکا سودا مع حساب کے اس کو پہنچاتے۔“(۲۳)
راقم الحروف نے والد ماجد حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب مدظلہم ہی سے زبانی سنا کہ اسی سودا سلف لانے میں کبھی ایسا بھی ہوتا کہ جب حضرت مفتی صاحب رحمة الله عليه کسی عورت کو سودا دینے کے لیے جاتے تو وہ دیکھ کر کہتی: ”مولوی صاحب! یہ تو آپ غلط لے آئے ہیں، میں نے یہ چیز اتنی نہیں اتنی منگائی تھی۔“ چنانچہ یہ فرشتہ صفت انسان دوبارہ بازار جاتا اور اس عورت کی شکایت دور کرتا۔
۱۸- حضرت مولانا سیداصغرحسین صاحب رحمة اللہ علیہ جو دیوبند میں حضرت میاں صاحب رحمة الله عليه کے لقب سے معروف تھے۔ دارالعلوم دیوبند کے درجہ علیاء کے استاد تھے، ان سے ابوداؤد پڑھنے والے اب بھی برصغیر میں ہزاروں ہوں گے، علومِ قرآن وسنت کے بہت بڑے ماہر اور جملہ علوم وفنون کے کامل محقق، مگر بہت کم گو، حدیث کے درس میں نہایت مختصر مگر جامع تقریر ایسی ہوتی تھی کہ حدیث کا مفہوم دل میں اُتر جائے اور شبہات خود بخود کافور ہوجائیں۔
انہی کا واقعہ ہے کہ آپ کا زنانہ مکان اور نشست گاہ کچی مٹی کی بنی ہوئی تھیں، ہر سال برسات کے مواقع پر اس کی لپائی پتائی ناگزیر تھی جس میں کافی پیسہ اور وقت خرچ ہوتا تھا۔ ایک مرتبہ راقم الحروف کے والد ماجد (حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب مدظلہم) نے حضرت میاں صاحب رحمة الله عليه سے کہا کہ: ”حضرت! جتنا خرچ سالانہ اس کی لپائی پر کرتے ہیں، اگر ایک مرتبہ پختہ اینٹوں سے بنانے میں خرچ کرلیں تو دوتین سال میں یہ خرچ برابر ہوجائے اور ہمیشہ کے لیے اس محنت سے نجات ہو۔“
یہ سن کر پہلے تو فرمایا: ”ماشاء اللہ بات تو بہت عقل کی کہی، ہم بوڑھے ہوگئے ادھر دھیان ہی نہ آیا۔“ پھر کچھ توقف کے بعد جو حقیقت حال تھی وہ بتائی اور تب پتہ چلا کہ یہ حضرات کس مقام سے سوچتے تھے؟ فرمایاکہ:
”میرے پڑوس میں سب غریبوں کے کچے مکان ہیں، اگر میں اپنا مکان پکا بنوالوں تو غریب پڑوسیوں کو حسرت ہوگی اور اتنی وسعت نہیں کہ سب کے مکان پکے بناؤں“۔
حضرت والد صاحب مدظلہم تحریر فرماتے ہیں:
”اس وقت معلوم ہوا کہ یہ حضرات جو کچھ سوچتے ہیں وہاں تک ہر ایک کی رسائی نہیں ہوسکتی، چنانچہ انھوں نے اس وقت تک اپنے مکان کو پختہ نہیں کیا جب تک پڑوسیوں کے مکان پکے نہیں بن گئے۔“(۲۴)
۱۹- انہی حضرت میاں صاحب رحمة الله عليه کا واقعہ ہے کہ ایک مرتبہ حضرت والد صاحب مدظلہم ان کے گھر تشریف لے گئے تو انھوں نے آموں سے تواضع کی جب آم چوس کر فارغ ہوگئے تو والد صاحب مدظلہم گٹھلیوں اور چھلکوں سے بھری ہوئی ٹوکری اُٹھاکر باہر پھینکنے کے لیے چلے، حضرت میاں صاحب رحمة الله عليه نے دیکھا تو پوچھا: ”یہ ٹوکری کہاں لے کر چلے“؟ عرض کیا: ”چھلکے باہر پھینکنے جارہا ہوں“ ارشاد ہوا ”پھینکنے آتے ہیں یا نہیں“؟ والد صاحب نے کہا کہ ”حضرت! یہ چھلکے پھینکنا کون سا خصوصی فن ہے جسے سیکھنے کی ضرورت ہو؟“ فرمایا: ہاں! تم اس فن سے واقف نہیں، لاؤ، مجھے دو“، خود ٹوکری اُٹھاکر پہلے چھلکے گٹھلیوں سے الگ کیے، اس کے بعد باہر تشریف لائے اور سڑک کے کنارے تھوڑے تھوڑے فاصلے سے معین جگہوں پر چھلے رکھ دیے اور ایک خاص جگہ گٹھلیاں ڈال دیں، والد صاحب کے استفسار پر ارشاد ہوا کہ: ”ہمارے مکان کے قرب وجوار میں تمام غرباء ومساکین رہتے ہیں، زیادہ تر وہی لوگ ہیں جن کو نانِ جویں بھی بمشکل ہی میسر آتی ہے، اگر وہ پھلوں کے چھلکے یکجا دیکھیں گے تو ان کو اپنی غریبی کا شدت سے احساس ہوگا اور بے مایگی کی وجہ سے حسرت ہوگی اور اس ایذا دہی کا باعث میں بنوں گا اس لیے متفرق کرکے ڈالتا ہوں اور وہ بھی ایسے مقامات پر جہاں جانوروں کے گلے گزرتے ہیں، یہ چھلکے ان کے کام آجاتے ہیں اور گٹھلیاں ایسی جگہ رکھی ہیں جہاں بچے کھیلتے کودتے ہیں، وہ ان گٹھلیوں کو بھون کر کھالیتے ہیں، یہ چھلکے اور گٹھلیاں بھی بہرحال ایک نعمت ہیں، اُن کو بھی ضائع کرنا مناسب نہیں۔“ راقم الحروف کے برادرِ مرحوم مولانا محمد زکی کیفی صاحب جو اس واقعے کے وقت موجود تھے تحریر فرماتے ہیں:
”یہاں یہ بات بھی پیش نظر رہنے کی ہے کہ میاں صاحب رحمة الله عليه خود تو شاید ہی کبھی کوئی آم چکھ لیتے ہوں، عموماً مہمانوں ہی کے لیے ہوتے تھے اور محلے کے غریب بچوں کو بلابلا کر کھلانے میں استعمال ہوتے تھے، اس کے باوجود چھلکے گٹھلیوں کا یکجا ڈھیر کردینے سے گریز فرماتے تھے کہ غریبوں کی حسرت کا سبب نہ بن جائیں۔“(۲۵)
(باقی آئندہ)
حواشی:
(۱) اشرف السوانح،ص:۱۳۶،۱۳۷،ج۱۔ (۲) ارواحِ ثلاثہ،ص:۱۷۶، نمبر۲۳۰۔ (۳) ایضاً،ص:۲۰۶، نمبر۲۸۸۔ (۴) ارواحِ ثلاثہ، ص:۲۸۶، نمبر۴۳۶۔ (۵) یہ واقعہ مذکورہ تفصیل کے ساتھ احقر نے اپنے والد ماجد حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب مدظلہم سے سنا ہے اور انھوں نے حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی صاحب قدس سرہ سے اور اسی کا خلاصہ حضرت میاں صاحب رحمة الله عليه نے حیاتِ شیخ الہند،ص:۱۶۷ میں بھی کیا ہے۔ (۶) یہ واقعہ احقر نے اپنے والد ماجد حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب مدظلہم سے سنا ہے اور انھوں نے اپنے ایک ہم سبق عالم مولانا مغیث الدین صاحب سے سنا تھا جو دیوبند سے فارغ ہوکر معقولات پڑھنے کے لیے اجمیر چلے گئے تھے اور آخر میں مدینہ طیبہ ہجرت کرگئے لیکن چونکہ واقعہ سنے ہوئے کافی عرصہ ہوگیا تھا۔ اس لیے چند سال پہلے حضرت والد صاحب مدظلہم نے ان سے حرمِ نبوی صلى الله عليه وسلم میں اس کی تصدیق فرمائی۔ (۷) حیاتِ انور،ص:۱۱۹ بروایت مولانا محمد ادریس کاندھلوی رحمة الله عليه۔(۸) انوارِ انوری، موٴلفہ مولانا محمد انوری رحمة الله عليه،ص:۳۲۔ (۹) ایضاً،ص:۳۶۔ (۱۰) نفحة العنبر،ص:۲۷ طبع مجلس علمی کراچی۔ (۱۱) حیاتِ انور،ص:۱۳۹۔(۱۲) حیاتِ انور،ص:۲۲۵ تا ۲۲۸۔ (۱۳) حیاتِ انور،ص:۲۲۹،۲۳۰۔ (۱۴) نفحة العنبر،ص:۲۷۔ (۱۵) حیاتِ انور،ص:۲۳۳۔ (۱۶) حیاتِ انور،ص:۲۳۳۔ (۱۷) ”میرے والد ماجد“ موٴلفہ حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب مدظلہم: ص۵۴،۵۵۔ (۱۸)ارواحِ ثلاثہ،ص:۱۴۸، نمبر۱۸۸۔ (۱۹) ارواح ثلاثہ،ص:۱۵۳، نمبر ۱۹۷۔ (۲۰) نقوش وتاثرات، موٴلفہ حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب مدظلہم،ص:۳۴۔ (۲۱) مقدمہ فتاویٰ دارالعلوم دیوبند، ج:۱،ص:۴۳۔ (۲۲) نقوش وتاثرات،ص:۴۰۔ (۲۳) ماہنامہ البلاغ کراچی ۔ ربیع الثانی ۱۳۸۷ھ، ص:۳۸،۳۹، ج:۱، مضمون ”حضرت میاں صاحب رحمة الله عليه“۔(۲۴) ماہنامہ البلاغ کراچی۔ ربیع الثانی ۱۳۸۷ھ،ص:۳۹،ج:۱۔ (۲۵) یہ واقعہ احقر نے اپنے والد ماجد حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب مدظلہم سے سنا ہے اور ان کو خود حضرت مولانا محمود صاحب رامپوری رحمة اللہ علیہ نے سنایا تھا۔
—————————-
ماهنامه دارالعلوم ، شماره 9-10 ، جلد: 94 رمضان – ذيقعده 1431 ھ مطابق ستمبر – اكتوبر 2010 ء