از: مولانا محمد اقبال گجرات
شعیب: السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ۔
ہارون: وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ، بھائی صاحب کیا بات ہے بہت دنوں سے نظر نہیں آتے؟ کسی سفر میں گئے تھے یا کسی اچھے جوب میں لگ گئے ہو، اور یہ کاغذات اور فائلیں لے کر کہاں جارہے ہو؟
شعیب: بھائی صاحب! میں کہیں نہیں گیا تھا نہ کسی جوب میں لگا ہواہوں، بلکہ اس وقت یہ ہندوستان کے مسلمانوں کا سب سے اہم مسئلہ مسلم گرلز اسکول (Muslim Girl’s School) کے چکر اور دوڑ دھام میں پڑا ہوا ہوں۔
ہارون: بھائی صاحب آخر مسلم اسکول کی کیا ضرورت ہے؟ سرکار ہمارے تمام مسائل روزی، روٹی، نوکری وغیرہ کو حل کرتی ہے، اور تمام سہولتیں ہم کو مہیا کرتی ہے، پھر ہم کو اپنی ڈیڑھ اینٹ کی علیحدہ اسکولیں کھول کر اپنے کو ہندوستانی کلچر اور تہذیب سے الگ رکھنے کی کیا ضرورت ہے؟ نیز مسلم سماج کے اور بھی بہت سے مسائل ہیں۔ قوم کی گاڑھی محنت سے کمائی ہوئی کتنی بڑی رقومات عمارتوں کی تعمیراور اس کے اسٹاف کی تنخواہوں میں صرف ہونگیں،اور پھر بھی ہمارا تعلیمی معیار سرکاری اسکولوں کے برابر نہیں ہوگا۔
شعیب:
جس علم کی تاثیر سے زن ہوتی ہے نازن * کہتے ہیں اسی علم کو ارباب نظر موت
بھائی! ہم اس ملک میں ایک جانور کی طرح صرف چرنے کے لئے نہیںآ ئے ہیں، ہم مسلمان ہونے کی حیثیت سے ایک انقلابی اور دعوتی پیغام لے کر اس ملک میں آئے ہیں، کھانے کمانے اور جسمانی راحت کے سارے نقشوں کے ساتھ روحانی وقلبی غذا یعنی اسلامی احکامات واخلاقیات کا ایک بہت بڑا خزانہ ہمارے پاس ہے، جو ہر زمانہ میں ڈوبتی ہوئی انسانیت کو کنارے پہونچانے اور کسی جاں بلب سوسائٹی کو بچانے کی عملی صلاحیت رکھتا ہے۔ ماضی میں ہماری شاندار مسلم سوسائٹی نے دنیاکو بڑے بڑے فتنوں اور مصیبتوں سے نجات دلائی ہے۔ اور آج بھی قرآن کریم، سیرت نبوی صلى الله عليه وسلم، فقہ وقانون اور اخلاقیات کا بیش بہا مستند ریکارڈ موجود ہے، لہٰذا اس ذہنی وقلبی سکون والی تعلیم ہماری نئی نسل خاص کرکے ہماری لڑکیوں (Girls)کو جو مستقبل کے سماج کی ماں کی حیثیت سے تربیت کی اہم ذمہ داری سنبھالنے والی ہیں۔ ان کے لئے نہایت ہی ضروری ہے اس کے لئے گاڑھے پیسے کی کمائی تو کیا؟ بلکہ قرض لے کر بھی ان کی اصلاح اور اسلامی کلچر پر ان کو باقی رکھا گیا، تو بھی ہمارا بہت بڑا کارنامہ ہوگا اور اس ملک کو اسپین بنانے والوں کا خواب شرمندئہ تعبیر نہ ہوگا۔
بہت افسوس ہے کہ آپ کو یورپی تہذیب، ان کے سماج کی پریشانیوں اور مسائل کا علم نہیں، ان کے مسائل اس قدر پریشان کن ہیں کہ بظاہر اس کا کوئی علاج خود یورپین عقلمندوں کی سمجھ میں نہیں آرہا ہے۔اور ہزاروں نت نئے مسائل نے ان کی سوسائٹی کے نظام کو مکمل طور پر بے کار کردیا ہے۔
ہارون: آپ بہت بڑا الزام یورپی سوسائٹی (Western Culture) پر لگارہے ہو، اگر آپ کا دعویٰ سچا ہے تو ذرا تفصیل سے صحیح حوالوں اور ٹھوس ثبوت کے ساتھ اپنے دلائل پیش کریں۔
شعیب: ماشاء اللہ آپ نے تو میرے دل کی پکار سن لی، تو اب ذرا یورپی تہذیب کے اتار چڑھاؤ سننے کے لئے کان کے پردے کھول دیجئے، یورپ میں مرد عورت کے ایک دوسرے کے ساتھ اسکول کالج، کلب اور پارٹیوں میںآ زادانہ اختلاط اور ننگے پن نے شہواتی جذبات کو اس طرح ابھارا کہ نکاح کا طریقہ ناکافی ثابت ہوا، چنانچہ آہستہ آہستہ آزاد جنسی تعلقات والا ذہن پیدا ہوا، نیا لٹریچر بڑے پیمانے پر شائع ہونے لگا،جس میں مرد عورت کے درمیان آزاد جنسی تعلقات کو فطری (Natural)اور بے ضرر قرار دیا،جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ لوگ نکاح کو بوجھ سمجھ کر اس سے دور بھاگنے لگے، نوجوان لڑکے لڑکیوں نے نکاح کے بغیر ایک دوسرے کے ساتھ جنسی تعلقات قائم کرکے رہنا شروع کردیا، نکاح کا بندھن ٹوٹ گیا، تو محبت والا تعلق نہیں رہا، بلکہ ہر ایک نے دوسرے سے اپنے فائدہ کی چیز تلاش کرنی شروع کی، جس کے نتیجہ میں کڑواہٹ پیدا ہوکر ایک دوسرے سے علیحدگی پیدا ہوئی۔ عورت کے معاشی استقلال نے طلاق کی کثرت میں اور زیادہ اضافہ کیا، انسائیکلوپیڈیا آف برٹانیکا ۱۹۸۴/ نے بتایا کہ دنیا کے صنعتی ملکوں میں طلاق کی شرح میں اضافہ کی وجہ عورتوں کا کمانے میں مردوں کا محتاج نہ ہونا ہے، ایک امریکی اخبار (The Plain Truth 1987) کے مطابق فرانس میں ۵۰ فیصد شادیاں طلاق پر ختم ہوتی ہیں، کناڈا میں ۴۰ فیصد اور امریکہ میں ۵۰ فیصد شادیاں طلاق پر ختم ہوتی ہیں، امریکہ کی دس عورتوں میں سے چھ وہ ہیں جو طلاق کا تجربہ کرچکی ہیں۔
زندہ کرسکتی ہے ایران وعرب کو کیونکر
یہ فرنگی مدنیت کہ جو ہے خود لب گور
اور مزید سنئے: برطانیہ میں جو بچے پیدا ہورہے ہیں، ان میں ہر پانچ میں ایک بچہ وہ ہوتا ہے، جوناجائز جنسی تعلق کے نتیجہ میں پیدا ہوتا ہے، اسی طرح ہر تین حمل میں سے ایک حمل غیرشادی شدہ جوڑوں کے ذریعہ قرار پارہا ہے۔
یہ ناجائز بچے اس حال میں دنیا میں آتے ہیں کہ انہیں نہ اپنے باپ کا علم ہوتا ہے، اور نہ اپنی ماں کا۔ وہ سرکاری اداروں میں پلتے ہیں۔ اور پھر جانور کی طرح سماج میں داخل ہوجاتے ہیں۔ مغربی ملکوں میں طلاق کی کی کثرت نے بھی یہی صورت حال پیدا کی ہے، مغربی ملکوں میں نکاح کا رشتہ بے حد کمزور ہوگیا ہے، معمولی معمولی باتوں میں عورت اور مرد کے درمیان طلاق ہوجاتی ہے، ان طلاقوں نے بہت بڑے پیمانہ پر وہ مسئلہ پیداکیا ہے جس کو اجڑے ہوئے گھر (Broken homes) کا مسئلہ کہاجاتا ہے، عورت اور مرد جب طلاق لے کر جدا ہوتے ہیں تو عین اسی وقت وہ اپنے بچوں کو بھی ماں اور باپ کے سایہ سے محروم کردیتے ہیں۔ یہ تمام بچے معاشرہ میں جانوروں کی طرح پلتے ہیں۔اور پھر انہیں کے اندر سے مجرمانہ کردار ابھرتے ہیں۔
انسائیکلوپیڈیا آف برٹانیکا (۱۹۸۴ء) نے کم سن مجرمین کے موضوع پر بحث کرتے ہوئے لکھا ہے کہ بیسویں صدی عیسوی کے بوکھلادینے والے سماجی روگوں میں سے ایک روگ وہ ہے جس کو کم سنی کا جرم کہا جاتا ہے، یہ ایک عالمی روگ ہے اگرچہ کیفیت اور رفتار کے اعتبار سے ایک ملک اور دوسرے ملک میں فرق پایا جاتا ہے۔ انسائیکلوپیڈیا آف برٹانیکا ۱۹۸۴ء میں لکھا ہوا ہے کہ اس قسم کے بچے اکثر نفسیاتی بے اعتدالی (Psychophysical) میں مبتلاء ہوتے ہیں، امریکہ میں ہر سال تقریباً ۳۰۰ بچے اپنے ماں باپ کو قتل کرتے ہیں
آسٹریلیا کی مشہور آزادی پسند خاتون محترمہ جرمین گرئر (Ms Germaine Greer)نے بڑی عمر کو پہنچ کر یہ اعتراف کیا ہے کہ نوجوانی کی عمر میں آزادیٴ نسواں کے لئے ان کا جوش وخروش حقیقت پسندانہ نہ تھا، انھوں نے ایک انٹرویو (انڈین اکسپریس ۱۴/جنوری ۱۹۸۷) میں کہا:
آج جو چیزپریشان کن ہے وہ آزاد صنفی تحریک کے نتائج ہیں، کم عمر لڑکیاں جو ۱۲، اور ۱۳ سال کی عمر میں مانع حمل گولیوں پر رہنے لگتی ہیں، اور وہ لڑکیاں جو ۱۵، اور ۱۶ سال کی عمر میں حاملہ ہوجاتی ہیں، مرد عورت کے ایک دوسرے کے ساتھ غلط تعلقات نے ایڈز جیسی مہلک بیماری کو جنم دیا ہے۔
ایڈز کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ وہ ایک متعدی مرض ہے، چنانچہ یہ مرض اب نئے قسم کے اچھوت پیدا کرنے کا سبب بن رہا ہے، جو مرد یا عورت ایک بار ایڈز میں مبتلا ہوجائے، لوگ ان سے دور بھاگنے لگتے ہیں، کیوں کہ انھیں اندیشہ ہوتا ہے کہ انہیں بھی یہ مرض لگ جائے گا، بعض مغربی ملکوں میں باربر شاپ پر اس قسم کے نشانات نظر آنے لگے ہیں جن کے اوپر لکھا ہوا ہوتا ہے کہ شیو کے لئے یہاں نہ آئیں:No shaves here. ؛حکومتی ذمہ داروں نے اس کو ایڈز ہسٹریا کہا ہے، تاہم باربر حضرات کا کہنا ہے کہ مریض کے چہرے کا پسینہ یا شیو کرتے ہوئے معمولی سا خون نکل آنا بھی بیماری کے پھیلنے کا سبب بن سکتا ہے، اس لیے احتیاطی طور پر ایسے مریضوں سے بچنا ضروری ہے۔
ٹائمس کے محققین کی جماعت نے تفصیلات پیش کرتے ہوئے اعتراف کیا ہے کہ اس مہلک مرض کا سب سے بڑا سبب آزادانہ جنسی تعلق ہے،اسی بنا پر اس مرض کو رنڈی کا مرض کہا جاتا ہے، یہ مرض بہت تیزی سے پھیلتا ہے، ایڈز کی ہلاکت خیزی کو دیکھ کر ایک مبتلائے مرض نے کہا: آہ! اس دنیا کا کیا ہوگا؛ اگر ہمارا حال یہ ہوجائے کہ ہم کو محبت کرنے کے لئے مرجانا پڑے، ایڈز اس صدی کی آفت ہے۔
تنگ آجائے گی خود اپنے چلنے سے دنیا
تجھ سے سیکھے گا زمانہ تیرے انداز کبھی
آزادانہ جنسی تعلق، جس کو مغرب میں خوبصورت طور پر آزادانہ محبت کہا جاتا ہے، وہ اب لوگوں کے لیے عذاب بنتا جارہا ہے، ۱۹۹۱ تک امریکہ میں ۰۰۰,۷۰,۲ افراد اس مرض میں مبتلا ہوچکے ہیں، جن کا علاج کرنا امریکی ڈاکٹروں کے قابو سے باہر ہے۔
قرآن مجید میں ہدایت کی گئی تھی کہ عورتوں کے ساتھ جنسی تعلق قید نکاح میں لاکر کرو، نہ کہ بدکاری کے طور پر کرنے لگو (محصنین غیر مسافحین، مائدہ:۵) مفسرین نے قرآن کی اس آیت کی تفسیر ان الفاظ میں کی ہے کہ عورتوں کے ساتھ نکاح کے ذریعہ تعلق قائم کرو، نہ کہ زانی بن کر (یعنی متزوجین غیر زانین) تجربات نے بتایا کہ یہی طریقہ صحیح فطری طریقہ ہے، مناکحت اور مسافحت میں اتنا زیادہ فرق ہے کہ ایک اگر زندگی ہے تو دوسرا موت، ایک طریقہ انسانی سماج کے لئے رحمت ہے، تو دوسرا طریقہ انسانی سماج کے لئے عذاب۔
ہارون: آج کی موڈرن دنیا میں عورت کا گھر سے باہر نکلنا اور مردوں کے ساتھ مل کر کام کرنا ضروری ہے۔ آج مسلمانوں کے علاوہ تمام قوموں کی عورتیں حکومت اور پارلیمنٹ کے ایوان میں، آفسوں اور فیکٹریوں میں مردوں کے شانہ بہ شانہ ملازمت کی وجہ سے ترقی پر گامزن ہے، جب تک مسلمان عورتیں آگے نہیں آئیں گی وہاں تک مسلم قوم ترقی نہیں کرسکتی ہے۔
شعیب: بھائی! آزادیٴ نسواں کے دلفریب نعروں نے ہی یورپ کی عورتوں کو گھسیٹ کر سڑکوں پر لاکھڑا کیا، اسے دفتروں میں کلرک اور اجنبی مردوں کی پرائیویٹ سیکریٹری کا اعزاز بخشا گیا، تجارت چمکانے کے لئے سیلز گرلز او رماڈل گرلز کا شرف بخشا گیا، اس کے ایک ایک عضو کو برسرِبازار رسوا کرکے گاہکوں کو مال خریدنے کی دعوت دی گئی، تجارتی اداروں کے لئے ایک شوپیس (Show Piece)اور مرد کی تھکن دور کرنے کا تفریحی کھلونا بنایاگیا، دنیا بھر کے تمام نچلے درجے کے کام عورت کے سپرد کئے گئے، پروپیگنڈے کی قوتوں سے یورپی تہذیب نے یہ عجیب وغریب فلسفہ لوگوں کے ذہنوں پر مسلط کردیا کہ عورت اگر گھر میں اپنے شوہر، ماں باپ، بھائی اور اولاد کے لئے گھر کے کام کاج کرے تو یہ قید اور ذلت ہے، لیکن وہی عورت اجنبی مردوں کے لئے کھانا پکائے، ان کے کمروں کی صفائی کرے، ہوٹلوں اور جہازوں میں ایئرہوسٹس بن کر سینکڑوں انسانوں کی ہوسناک نگاہوں کا نشانہ بنے، دکانوں پر اپنی مسکراہٹوں سے گاہکوں کو متوجہ کرے، دفتر میں افسروں کی ناز برداری کرے، تو اس کا نام آزادی اور اعزاز ہے، اس کے بعد بھی عورت تو مردوں کے ظلم کا بدستور شکار رہی،آفس اور گھر کے دوسرے بوجھ تلے دبنے کے بعد بھی مرد ان کی پٹائی کررہے ہیں، زنا بالجبر ان کے ساتھ ہورہا ہے۔
آزادی نسواں کے بعض عَلَم برداروں کا کہنا ہے کہ امریکہ میں ایک بدکاری کلچر پیدا ہوچکا ہے، جس میں مردوں کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے کہ وہ عورتوں کے ساتھ جارحانہ برتاؤ کریں۔
فساد قلب ونظر ہے فرنگ کی تہذیب
کہ روح اس مدنیت کی رہ سکی نہ عفیف
ایک جائزہ کے مطابق امریکہ میں ہر ۱۸ سیکنڈ میں ایک عورت ماری جاتی ہے،کبھی اپنے شوہر کے ہاتھوں اور کبھی اپنے دوست لڑکے کے ہاتھوں۔
ٹائم میگزین امریکہ کی ۱۹۷۲ کی رپورٹ کا خلاصہ یہ تھا کہ سائنس کے تمام متعلقہ شعبوں کی تحقیق کے مطابق مرد ہی جنس غالب (Dominant Sex)ہے، مرد عورت کے درمیان جو فرق پایا جاتا ہے وہ محض جنسی اعضاء کی خاص شکل، رحم کی موجودگی، حمل یا طریقہٴ تعلّم کی وجہ سے نہیں ہے، بلکہ نسیجوں کی بناوٹ سے پیدا ہوتے ہیں جو پورے نظام جسمانی میں خصوصی کیمیائی مادّے کے سرایت کرنے سے ہوتے ہیں، جو کہ خصیت الرحم سے نکلتے ہیں، عورت کے جسم کے ہر خلیے میں زنانہ پن کا اثر موجود ہوتا ہے۔
امریکی سرجن Edgar Berman کا فیصلہ ہے کہ عورتیں اپنی ہارمون کیمسٹری کی وجہ سے اقتدار کے عہدے کے لئے جزبانی ثابت ہوسکتی ہیں میل ہارمون اور فیمل ہارمون کا فرق دونوں میں پیدائشی ہے۔
موجودہ زمانہ میں خالص علمی طور پر یہ بات تسلیم کرلی گئی ہے کہ مرد اور عورت کے درمیان بنیادی پیدائشی فرق پائے جاتے ہیں، انسائیکلوپیڈیا آف برٹانیکا ۱۹۸۴ میں خواتین کی حالت پر ایک مفصل مقالہ ہے اس مقالہ کا ایک ذیلی عنوان یہ ہے: Scientific studies of male-female differences (مرد اور عورت کے فرق کا علمی مطالعہ) مقالہ کے اس حصہ میں مقالہ نگار نے دکھایا ہے کہ جدید تحقیقات ثابت کرتی ہیں کہ عورت اور مرد کے درمیان عین پیدائشی بناوٹ کے اعتبار سے فرق پایا جاتا ہے۔
ہارون: ماشاء اللہ، آپ نے تو یورپی تہذیب و کلچر کے بارے میں ایسی باتیں بتائیں جس سے میں اتنا واقف نہیں تھا، لیکن میرا آپ سے یہ دریافت کرنا ہے کہ کیا اہل یورپ کو ان باتوں کا شدید احساس ہے؟ کیا انکا سنجیدہ طبقہ اپنے سماجی بگاڑ کا سبب مرد عورت کے مخلوط نظام تعلیم کو مانتا ہے؟
شعیب: جی ہاں، اب یورپ اورامریکہ کو معلوم ہوچکا ہے کہ فطرت اور نیچر کی خلاف ورزی نے ایسے ایسے مسائل پیدا کئے ہیں جن کا حل موجودہ یورپی تہذیب وحکومتوں کے پاس نہیں ہے، اب خود وہی لوگ اس طریقہ کے مخالف ہیں، جو پہلے عورتوں کی آزادی کے حامی تھے۔
یہی بات انگلینڈ کی ایک ماہر نفسیات Psychologist اولیور جیمز Oliver James نے مس ڈیانا کی موت کے پس منظر میں تفصیل سے لکھتے ہوئے کہا ہے کہ انگلینڈ اور ویلز کے پولیس ریکارڈ کے مطابق ۱۹۵۰ میں تشدد آمیز جرائم کی تعداد ۶۰۰۰ تھی، جبکہ ۱۹۹۶ میں یہ تعداد دو لاکھ انتالیس ہزار(۰۰۰,۳۹,۲) ریکارڈ ہوئی ہے، آج کا نوجوان افسردگی (Depression)کا شکار ہے، ماں باپ میں فاصلے بڑھ گئے، والدین اور بچوں کے تعلقات میں فرق ہوگیاہے، بوڑھے ماں باپ اور اولاد کے بندھن ٹوٹ گئے، مس اولیور (Oliver)آگے لکھتی ہیں کہ مس ڈیانا بھی بدمزہ شادی اور پھر طلاق کے قصوں کے علاوہ ہماری سوسائٹی کی عورتوں والے انہیں مسائل کا شکار تھی،اور اس کے لئے یادگاری رجسٹروں میں دستخط کرنے والی بھی ۸۰ فیصدر عورتیں ہی تھی۔
یورپی آقاؤں کی داستان غم اور سنئے، ترقی کے بجائے تنزل:
امریکی میگزین ٹائم ۲۹ دسمبر ۱۹۸۶ کی ایک اسپیشل نمبر میں لکھا ہے کہ امریکی عورت نے ماں کی ذمہ داری اور گھر کی ذمہ داری کو پندرہ سال پہلے چھوڑ دیا تھا تاکہ وہ روزگار کے بازار میں اپنی جگہ بناسکے، اب وہ ان تینوں ذمہ داریوں کو سنبھالنے کے نازک کام کی کوشش کررہی ہے، امریکی مرد اپنے آپ کو ایک نئی سخت دنیا میں پارہا ہے اور بمشکل ہم آہنگی کی کوشش کررہا ہے،جب امریکی مرد اور عورت ایک دوسرے سے جدا ہوتے ہیں،جیساکہ شادی شدہ جوڑوں کی نصف تعداد آج کل کرتی ہے، تو امریکی بچہ اپنے سرپرستوں سے محروم ہوکر ایسا محسوس کرتا ہے کہ وہ کسی سہارے کے بغیر پروان چڑھ رہا ہے۔
بیسویں صدی کے آخر میں پہنچ کر امریکہ کا دانشور طبقہ اس بات کا اعتراف کررہا ہے کہ بیسویں صدی کے آغاز میں امریکہ نے جس چیزکو ترقی کا زینہ سمجھ کر اختیار کیا تھا، وہ اس کے لیے صرف بربادی کا زینہ ثابت ہوا ہے، عورت کو گھر سے باہر نکالنے کا نتیجہ یہ ہوا کہ امریکہ کا خاندانی نظام بالکل منتشر ہوکر رہ گیا، مزید یہ کہ عورت کو ”آزاد“ کرانے کا خوش نما منصوبہ عملاً ازدواجی زندگی کو غیرمستحکم بنانے کا ذریعہ ثابت ہوا، اور اس کے نتیجہ میں بے شمار معاشرتی خرابیاں پیدا ہوگئیں۔
اب امریکہ میں اس سابقہ فکر پر نظر ثانی کا ذہن پیدا ہورہا ہے، مگر جدید عورت چونکہ دوبارہ گھریلو عورت بننے کے لیے تیار نہیں ہے، اس لیے جو عورت نئی زندگی اختیار کرتی ہے اس کے حصہ میں صرف یہ آرہا ہے کہ وہ باہر کی ذمہ داریوں کے ساتھ گھر کی ذمہ داریوں کا بوجھ بھی اٹھائے، کیسی عجیب ہے وہ ترقی جس کا نتیجہ بربادی کی صورت میں ظاہر ہو، کیسی عجیب ہے وہ آزادی جو عملاً غیر آزادی بن جائے۔
ہارون: اچھا تو اسلام نے عورتوں اور مردوں کے آپسی تعلقات کے سلسلہ میں کیا تعلیم دی ہے، اور عورتوں کے متعلق کیا احکام ہیں؟
شعیب: بھائی! قرآن اور حدیث میں نہایت تفصیل کے ساتھ عورت کے متعلق احکام ہیں، نیز عورت اور مرد کے باہمی تعلقات کے بارہ میں واضح تعلیمات درج ہیں، میں ان میں سے کچھ آیتیں اور حدیثیں بیان کرتا ہوں۔
وعاشروہن بالمعروف فان کرہتموہن فعسی ان تکرہوا شیئا ویجعل اللّٰہ فیہ خیرا کثیرا (النساء : ۱۹)
اور عورتوں کے ساتھ اچھی طرح گزرکرو، اگر وہ تم کو ناپسند ہوں توہوسکتا ہے کہ ایک چیز تم کو پسند نہ ہو،مگر اللہ نے اس میں تمہارے لیے بہت بڑی بھلائی رکھ دی ہو۔
ولہن مثل الذی علیہن بالمعروف وللرجال علیہن درجة واللّٰہ عزیز حکیم (البقرة: ۲۲۸)
اور عورتوں کے لیے بھی معروف طریقہ وہی ہے جو مردوں کے لیے ہے، اور مردوں کو ان پر ایک درجہ حاصل ہے، اور اللہ غالب ہے حکیم ہے۔
للرجال نصیب مما ترک الوالدان والاقربون وللنساء نصیب مما ترک الوالدان والاقربون مما قل منہ او کثر نصیبا مفروضا (النساء:۷)
مردوں کیلئے اس میں حصہ ہے جو ماں باپ اور رشتہ داروں نے چھوڑا، اور عورتوں کے لیے اس میں حصہ ہے جو ماں باپ اور رشتہ داروں نے چھوڑا، خواہ تھوڑا ہو یا زیادہ، یہ حصہ مقرر ہے۔
ومن آیاتہ ان خلق لکم من انفسکم ازواجا لتسکنوا الیہا وجعل بینکم مودة ورحمة (الروم:۲۱)
اور اللہ کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ اس نے تمہارے لیے تمہاری جنس سے بیویاں پیدا کی تاکہ تم ان کے پاس سکون حاصل کرو، اور اس نے تمہارے درمیان محبت اور رحمت رکھ دی۔
اور احادیث مبارکہ میں بھی اس سلسلے کی بہت سی ہدایات مذکور ہیں، آپ صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا:
ما اکرم النساء الا کریم وما اہانہن الا لئیم (حدیث)
عورتوں کی عزت وہی شخص کرے گا جو شریف ہو اور عورتوں کو وہی شخص بے عزت کرے گا جو کمینہ ہو۔
خیرکم خیرکم لاہلہ وانا خیرکم لاہلی (حدیث)
تم میں سب سے اچھا وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے ساتھ اچھا ہو، اور میں اپنے گھر والوں کے لیے تم میں سب سے اچھا ہوں۔
لا یفرک موٴمن موٴمنة ان کرِہ منہا خُلقا رضی منہا آخر (مسلم)
کوئی موٴمن مرد کسی موٴمن عورت سے نفرت نہ کرے اگر اس کی کوئی خصلت اس کو ناپسند ہوگی تو کوئی دوسری خصلت اس کی پسند کے مطابق ہوگی۔
اکمل الموٴمنین ایمانا احسنہم خلقا وخیارکم خیارکم لنسائکم (ترمذی)
موٴمنین میں سب سے کامل ایمان والا وہ ہے جو اخلاق میں سب سے اچھا ہے، اور تم میں سب سے اچھا وہ ہے جو اپنی عورتوں کے لیے اچھا ہو۔
ایک حدیث میں اچھی عورت کی تعریف ان الفاظ میں کی گئی ہے، حضرت ابوہریرہ رضى الله تعالى عنه کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم سے پوچھا گیا: سب سے بہتر عورتیں کون ہیں؟ فرمایا: وہ عورت کہ مرد جب اسے دیکھے تو وہ اس کو خوش کردے، اور مرد جب کسی کام کے لیے کہے تو وہ اس کی اطاعت کرے اور اپنے نفس اور اپنے مال میں وہ مرد کی مرضی کے خلاف کچھ نہ کرے۔
تمام آیات و احادیث کاحاصل یہ ہے کہ عورتوں سے معاملہ کرتے ہوئے ہمیشہ یہ ذہن میں رکھو کہ عورتیں فطری طور پر نازک اور جذباتی ہوتی ہیں، اللہ نے مخصوص مصالح کے تحت انہیں بالارادہ ایسا ہی بنایا ہے، اس لیے تم ان کے ساتھ ہمیشہ نرم برتاؤ کرو۔ کوئی بات بتانا ہوتو نرمی اور خوش اسلوبی کے ساتھ بتاؤ اگر تم ان کے ساتھ سختی کروگے تو ان کی شخصیت اس کا تحمل نہ کرسکے گی، ان کا دل اسی طرح ٹوٹ جائے گا جس طرح پسلی سیدھا کرنے میں ٹوٹ جاتی ہے۔
یہ ہے عورت کے بارے میں اسلامی اخلاق و تعلیم، جو دنیا کے کسی بھی مذہب، سماج اور قانون میں اس کو آج تک میسر نہیں ہوسکے۔
ہارون: کیا اسلام کی یہ اعلیٰ اور اخلاقی تعلیم یورپ کی عورتوں تک نہیں پہنچی ہے؟ جس سے وہ بھی فائدہ اٹھائیں اور یورپی سوسائٹی کے بگاڑ کو دور کرسکے، یا پھر ان کو جان بوجھ کر اس سے دور رکھا جاتا ہے؟
شعیب: بھائی! صحیح بات یہ ہے کہ ان کو اسلام سے دور رکھا جارہا ہے، اور ان کے سامنے یہ پروپیگنڈہ کیا جارہا ہے کہ اسلام عورتوں کا دشمن ہے، ان کی حق تلفی کررہا ہے، حالانکہ اسلام نے ۱۴۰۰ سال قبل سب سے پہلے عورت کو وراثت میں شریک کرکے مال ودولت کا اس کو حق دار بنایا، جبکہ پورپ نے پچھلے سوسال سے اس کو وراثت میں حصہ دار بنایا، حضرت ہاجرہ عليها السلام کے ایک عمل کی یاد میں صفا مروہ کے چکر لگاکر عورت کی قربانی کو قیامت تک باقی رکھا، یورپ کی عورتیں اب الحمدللہ اسلامی تعلیمات سے واقف ہوکر اسلام میں خوف کثرت سے داخل ہورہی ہیں، یہ دیکھئے لندن ٹائمز کے حوالے جس میں عورتیں اسلام لاکر بہت خوش ہیں۔
برطانیہ کی جن نومسلم خواتین سے ”لندن ٹائمز“ کے نمائندہ نے گفتگو کی اس کو ان خواتین نے بتایا کہ ہمارے لئے اسلام میں کشش کا سبب یہ ہواکہ اسلام مرد اور عورت دونوں کے لئے الگ الگ دائرئہ کار تجویز کرتا ہے، جو دونوں کی جسمانی اور حیاتیاتی سانچوں کے عین مطابق ہے، ان کے نزدیک مغرب کی ”تحریک نسواں“ Feminism درحقیقت عورت کے ساتھ بغاوت تھی۔ تحریک آزادیٴ نسواں پر تبصرہ کرتے ہوئے ان خواتین نے کہا کہ اس کا مطلب سوائے اس کے کچھ نہیں کہ عورتیں مردوں کی نقالی کریں، یہ ایک ایسا عمل ہے جس میں نسوانیت کی اپنی کوئی قدر وقیمت باقی نہیں رہتی۔
لندن ٹائمز لکھتا ہے کہ بہت سی نومسلم خواتین نے اسلام اور مغرب کا تقابل کرتے ہوئے یہ تبصرہ کیاکہ اسلامی تعلیمات میں عورت کو زیادہ تقدس اور عظمت حاصل ہے جو مغرب میں عورت کو حاصل نہیں اور ان کے نزدیک مغرب کی تحریک آزادی نسواں کا اس کے سوا نتیجہ نہیں ہوا کہ عورت دوہرے بوجھ تلے دب گئی ہے۔
ہارون: بھائی آپ کا بہت بہت شکریہ کہ آپ نے عورتوں کے سلسلے میں اسلامی صحیح تعلیم اور یورپ کی طرف سے عورتوں کے ساتھ منافقانہ چالبازیوں کا پردہ فاش کرکے ”دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی“ الگ کردیا۔
السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ
***
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ 7 ، جلد: 94 ، رجب- شعبان 1431 ہجری مطابق جولائی 2010 ء