از: ڈاکٹر علامہ خالد محمود
اللہ تعالیٰ نے جس دین کو حضور ختمی مرتبت پر مکمل فرمایا اس کی تاریخ اصحابِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے شروع ہوتی ہے۔ حضرت ابوبکر صدیق سے اسلام کی گنتی شروع ہوئی اور حضرت عمر پر اسلام کا پہلا چلہ پورا ہوا۔ سیدنا حضرت عثمان بنو اُمیہ کی سیادت اور وجہات سے رسولِ ہاشمی کے خدمت گزار بنے اور حضرت علی المرتضیٰ نبوت کے زیرسایہ جوان ہوئے۔ ان چار حضرات کے علاوہ اور کئی صحابہ بھی برسراقتدار آئے (جیسے حضرت حسن، حضرت امیرمعاویہ اور حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہم) لیکن ان پہلے چار بزرگوں میں خلافت افضلیت کے ساتھ ساتھ چلی اس لیے ان چار حضرات کو جو شرف وکمال ملا وہ عقائد اہل السنة والجماعت کی اساس ہے اور اس کے گرد پہرہ دینا وہ اپنا دینی فرض سمجھتے ہیں۔ ان کے ذمہ ہے کہ وہ ان پاکبازوں کے گرد بچھائے گئے کانٹوں کو ایک ایک کرکے چنیں اور ابن آدم کو بتائیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان حضرات کو بطور طبقہ اخلاق فاضلہ کی جلا بخشی تھی اور انہیں کفر گناہ اور نافرمانی سے دوری صرف از حکم شریعت نہیں ازراہ طبیعت حاصل ہوچکی تھی۔ شریعت کے تقاضے ان کی طبیعت بن چکے تھے اور اللہ تعالیٰ نے ایمان کو ان کے دلوں کی طلب اور زینت بنادیا تھا۔ ہمارے اس عقیدہ پر قرآن کریم کی کھلی شہادت موجود ہے۔
ولٰکن اللّٰہ حبب الیکم الایمان وزیّنہ فی قلوبکم وکرّہ الیکم الکفر والفسوق والعصیان أولئک ہم الراشدون․ (پ:۲۲، الحجرات)
ترجمہ: پر اللہ تعالیٰ نے محبت ڈال دی تمہارے دلوں میں ایمان اور کھبادیا اس کو تمہارے دلوں میں اور لائق نفرت بنادیا تمہارے دلوں میں کفر گناہ اور نافرمانی وہ ہیں راشدین․
ان تمام پیش بندیوں کے باوجود اگر اتفاق سے مسلمانوں کی دو جماعتیں باہم لڑپڑیں تو وہ رہیں گی مومن ہی۔ ان کے اختلاف کا منشاء غلط فہمی تو ہوسکتا ہے لیکن بدنیتی نہیں، سوء اعتقاد نہیں، ایمان اپنی بنیادی شان سے ان کے دلوں میں جگہ پاچکا ہے ان میں خون ریزی تک دیکھو تو بدگمانی کو راہ نہ دو۔ یہ سب بھائی بھائی ہیں بدگمانی سے انتہا تک بچو۔
ان میں سے کسی بڑے سے بڑا گناہ دیکھو تو بھی بدگمانی نہ کرو۔ اس کا ظہور بتقاضائے فسق نہیں ہوا۔ محض اس حکمت سے وجود میں آیا ہے کہ اس پر شریعت کی ہدایت اُترے اور یہ لوگ تکمیل شریعت کے لیے استعمال ہوجائیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا کسی وقت نماز کی رکعتوں میں بھولنا از راہ غفلت نہیں تھا اس حکمتِ الٰہی کے تحت تھا کہ لوگوں پر سجدہ سہو کا مسئلہ کھلے اور شریعت اپنی پوری بہار سے کھلے۔
سو ایسے جو اُمور شانِ نبوت کے خلاف نہ تھے ان کے حالات حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر ڈالے گئے اور جو گناہ کی حد تک پہنچتے تھے انہیں بعض صحابہ پر ڈالا گیا اور حضرت اس طرح تکمیل شریعت کے لیے بطور سبب استعمال ہوگئے ان حالات سے گزرنے کے بعد ان کا وہ تقدس بحال ہے جو انہیں بطور صحابی کے حاصل تھا اور ان کی بھی بدگوئی کسی پہلو سے جائزنہیں۔ اعتبار ہمیشہ اواخر امور کا ہوتا ہے۔ اس کے بغیر ان اُمور اور واقعات کی قرآن کریم سے تطبیق نہیں ہوتی۔ یہ بات بالقطع و الیقین حق ہے کہ صحابہ میں ایک بھی ایسا نہ تھا جو غیر ثقہ ہو یا جو دین میں کوئی غلط بات کہے۔ سرخیل محدثین حضرت علامہ عینی (۸۵۷ھ) لکھتے ہیں:
لیس فی الصحابة من یکذب وغیر ثقة․(۱)
جب کوئی حدیث کسی صحابی سے مروی ہو اور اس کے نام کا پتہ نہ چلے تو وہ راوی کبھی مجہول الحال نہ سمجھا جائیگا، صحابی ہونے کے بعد کسی اور تعارف یا تعدیل کی حاجت نہیں۔
علامہ ابن عبدالبر مالکی (۴۶۳ھ) لکھتے ہیں:
ان جمعیہم ثقات مامونون عدل رضی فواجب قبول ما نقل کل واحد منہم وشہدوا بہ علٰی نبیّہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم․(۲)
ترجمہ: سب صحابہ ثقہ اور امانت دار ہیں عادل ہیں اللہ ان سے راضی ہوا ان میں سے ہر ایک نے جو بات اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کی اور اس کے ساتھ اپنے نبی کے عمل کی شہادت دی (لفظاً ہو یا عملاً) وہ واجب القبول ہے۔
صحابیت میں سب صحابہ راشد اور مہدی تھے، مگر ان میں سے ایسے حضرات بھی ہوئے جو نظم اُمور سلطنت میں بھی راشد اور مہدی ہوئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بعد اپنی امت کو ان کے نقش پاپر چلنے کی دعوت دی۔
علیکم بسنتی وسنة الخلفاء الراشدین المہدیین او کما قال النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم․
یہ حضرات وہی نفوسِ قدسیہ ہیں جنہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے چار یار کہا جاتا ہے۔ حضرت مولانا اسماعیل شہید لکھتے ہیں۔ دیکھئے صراط مستقیم، ص:۱۱۵
طالب کو چاہیے کہ اپنے تہ دل سے اعتقاد کرلے کہ انبیاء علیہم الصلوٰة والسلام کے بعد حضرت سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے چار بڑے یار رضی اللہ عنہم اجمعین تمام بنی آدم سے بہتر ہیں اور اہل سنت کے عقیدہ کے مطابق ان کی آپس میں ایک دوسرے پر فضیلت خلافت کی ترتیب کے موافق ہے مسلمان کو چاہیے کہ اسی ترتیب پر افضلیت کا اعتقاد رکھے اور وجوہ تفضیل کو نہ ڈھونڈے کیوں کہ وجوہ تفضیل کو ڈھونڈنا دین کے واجبوں اور مستحبوں میں سے بھی نہیں۔
ان چار یار کے علاوہ باقی صحابہ میں تفضیل کی یہ بحث نہیں۔ آسمان ہدایت کے سب ستارے ہیں اور یہ بات ظاہر ہے کہ ستارے ایک جیسے نہیں چمکتے، چمک ہر کسی کی اپنی اپنی ہے لیکن ہے ہرکسی میں روشنی اور تاب اندھیرا ان میں سے کسی میں نہ ملے گا۔
انبیاء علیہم السلام کے بعد صحابہ ہیں جو بطور طبقہ محمود ومنصور ہیں۔ عام طبقات انسانی میں اچھے بُرے کی تقسیم ہے، علماء تک میں علماء حق اور علماء سوء کی دو قطاریں لگی ہیں، لیکن صحابہ میں یہ تقسیم نہیں۔ صحابہ سارے کے سارے اچھے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے باطن کی خبر دی ہے اور فرمادیا کہ کلمہ تقویٰ ان میں اُتاردیاگیا اور بیشک وہ اس کے اہل تھے:
والزمہم کلمة التقویٰ وکانوا احق بہا واہلہا․ (پ:۲۶، الفتح، ع:۳)
حدیث میں کلمة التقویٰ کی تفسیر لاالہ الا اللہ سے کی گئی ہے۔ سو یہ بات ہر شک اور شبہ سے بالا ہے کہ کلمہ اسلام ان کے دلوں میں اُتاراگیا تھا اوراس کے لیے ان کے دل کی دُنیا بلاشبہ تیار اور استوار تھی کہ اس میں یہ دولت اُترے اور انہی کا حق تھا کہ یہ دولت پاجائیں۔
سو یہ حضرات ہم احاد امت کی طرح نہیں۔ ان کا درجہ ہم سے اُوپر اور انبیاء کرام کے نیچے ہے۔ انہیں درمیانی مقام میں سمجھوکہ یہ حضرات ہم پر اللہ کے دین کے گواہ بنائے گئے ہیں اور اللہ کا رسول ان پر اللہ کے دین کا گواہ ہے جس طرح کعبہ قبلہ نماز ہے یہ حضرات قبلہ اقوام ہیں:
وکذلک جعلناکم امّة وسطاً لتکونوا شہداء علی الناس ویکون الرسول علیکم شہیدًا․ (پ:۲، البقرہ، ع:۱۷، آیت:۱۴۳)
خطیب بغدادی (۴۶۳ھ) لکھتے ہیں کہ صحابہ کرام مخلوق میں سے کسی کی تعدیل کے محتاج نہیں۔ یہ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ جو اُن کے باطن پر پوری طرح مطلع ہے ان کی تعدیل کرچکا ہے:
فلا یحتاج احد منہم مع تعدیل اللّٰہ لہم المطلع علٰی بواطنہم الٰی تعدیل احدٍ من الخلق لہ․ (۳)
ترجمہ: صحابہ میں سے کوئی بھی مخلوقات میں سے کسی کی تعدیل کا محتاج نہیں اللہ تعالیٰ جو اُن کے قلوب پر مطلع ہے اس کی تعدیل کے ساتھ اور کسی کی تعدیل کی ضرورت نہیں۔
ہر وہ قول اور فعل جو اُن سے منقول نہیں بدعت ہے۔ سو یہ حضرات خود بدعت کا موضوع نہیں ہوسکتے ان کے کسی عمل پر بدعت کا حکم نہیں کیاجاسکتا۔ حافظ ابن کثیر (۷۷۴ھ) لکھتے ہیں:
کل فعل وقول لم یثبت عن الصحابة رضی اللّٰہ عنہم ہو بدعة․(۴)
ترجمہ: دین کے بارے میں کوئی قول اور کوئی فعل جو صحابہ سے ثابت نہ ہو بدعت ہے۔
صحابی رسول حضرت حذیفہ بن الیمان (۳۶ھ) فرماتے ہیں:
کل عبادة لم یتعبدہا اصحاب رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فلا تعبدوہا․(۵)
ترجمہ: دین کا ہر وہ عمل جسے صحابہ نے دین نہیں سمجھا اسے تم بھی دین نہ سمجھنا۔
جب دین انہی سے ملتا ہے تو ان حضرات کی تعظیم اس امت میں حق کی اساس ہوگی۔ انہی سے قافلہٴ امت آگے بڑھاہے اور پوری امت جمعہ اور عید کے ہر خطبہ میں ان کی ثناخوانی کرتی آئی ہے۔ یہ حضرات حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ایسے وفادار رہے کہ ان کی مثال نہیں ملتی۔ بقول مولانا ابوالکلام آزاد:
دنیا میں انسانوں کے کسی گروہ نے کسی انسان کے ساتھ اپنے سارے دل اور اپنی ساری روح سے ایسا عشق نہیں کیا ہوگا جیساکہ صحابہ نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے راہِ حق میں کیا۔ انھوں نے اس محبت کی راہ میں وہ سب کچھ قربان کردیا جو انسان کرسکتا ہے اور پھر اس راہ سے انہوں نے سب کچھ پایا جو انسانوں کی کوئی جماعت پاسکتی ہے۔
اہل حق ہمیشہ سے صحابہ کی عظمتوں کے گرد پہرہ دیتے آئے ہیں جہاں کسی نے شک کا کوئی کانٹا لگایا، اہل حق نے ان کے تزکیہ کی کھلی شہادت دی، جہاں کہیں تبرّا کی آواز اٹھی اہل حق تولا کی دعوت سے آگے بڑھے اور نفاق کے بُت ایک ایک کرکے گرادئیے۔
—————–
(۱) عینی علی البخاری، ج:۲، ص:۱۰۵ ۔ (۲) کتاب التمہید، ج:۴، ص:۲۶۳۔ (۳) الکفایہ،ص:۴۶۔
(۴) تفسیر ابن کثیر، ج:۴، ص:۵۵۶ (۵) االاعتصام للشاطبی، ص:۵۴۔
***
ماہنامہ دارالعلوم ، شماره 5 ، جلد: 94 ، جمادی الاول – جمادی الثانی 1431ہجری مطابق مئی 2010 ء