سیکولرزم کی تباہ کاریاں اوراس سے بچنے کی تدابیر

از: (مولانا) حذیفہ وستانوی

استاذ جامعہ اسلامیہ اشاعت العلوم، اکل کوا، نندور بار

سیکولرزم، اصل میں لاطینی زبان کالفظ ہے، جسس کا عربی میں ”علمانیة“ اور اردو میں ”لادینیت“ ترجمہ ہوتاہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ رب العزت نے ایسے حیرت انگیز اور معجزانہ علمِ وحی سے مالامال کیا تھا کہ جس کی روشنی میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کی بعثت مبارکہ سے لے کر قیامت تک آنے والے تمام فتنوں سے امت کو باخبر کردیا تھا، تاکہ امت ضلالت اور گمراہی سے مکمل اجتناب کرے، الحاد اور بے دینی جو سیکولرزم کے نام سے اس وقت دنیا میں فتنہ برپا کیے ہوئے ہے، اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ روایت منطبق ہوتی ہے، جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ”دعاة علی ابواب جہنم من اجابہم الیہا قذفوہ فیہا“ یعنی ایک زمانہ میں امت پر ایسا وقت آئے گا جس میں شرپسندوں کے ٹولے جو جہنم کے دروازے پر کھڑے ہوں گے، انسانوں کو اور خاص کر مسلمانوں کو اس کی طر ف بلائیں گے، جو ان کی بات تسلیم کرلے گا، وہ اسے اس میں یعنی جہنم میں جھونک دیں گے، قربان جائیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعبیر بیان پر، کتنے مختصر الفاظ میں کتنی عظیم خبردی، لفظ ”دعاة“ کے ذریعہ بے دین ملحد، زندیق، سیکولر دین دشمنوں کی کثرت کی طرف اشارہ کیا، جس کا دنیا مدتوں سے مشاہدہ کررہی ہے، غالب گمان یہ ہے کہ اس حدیث سے اسی سیکولرزم کے داعیوں کی طرف اشارہ ہے، لہٰذا ہم سردست سیکولرزم کے بارے میں مختصر معلومات پیش کرنے جارہے ہیں، امید ہے کہ دل کے آنکھوں سے اس کا مطالعہ کر کے سیکولرزم کے فتنے سے اپنے آپ کو اور پورے معاشرہ کو بچانے کی فکر کریں گے، اللہم وفقنا لما تحب وترضی واجعل آخرتنا خیرا من الاولیٰ۔

سیکولرزم کیا ہے؟

 سیکولرزم در اصل ایک ماسونی یہودی تحریک ہے، جس کا مقصد حقوقِ انسانی، مساوات، آزادی، تحقیق و ریسرچ، قانون دولی (International Law) اور تعلیم کے نام پر، دین کو زندگی کے تمام شعبہ جات حیات سے نکال دینا، اور مادیت کا گرویدہ بنا کر، روحانیت سے بے زار کر دینا ہے، یہ کہہ کر کہ دین کی پیروی انسانی آزادی کے منافی ہے، لہٰذا سیاست اور دین، معیشت اور دین و معاشرت اور دین یہ سب الگ الگ ہیں ۔ دین، طبیعت اور فطرت کے خلاف ہے، لہٰذا کسی بھی دین کی پیروی درست نہیں، ان کی صورت حال ایسی ہی ہے، جیسا کہ قرآن کا ارشاد ہے: و اذا قیل لہم تعالوا الی ما انزل اللہ و الی الرسول رایت المنافقین یصدون عنک صدودا۔ (سورة النساء: پ۵/۶۱) یعنی جب ان سے کہا جاتاہے آجاوٴ اس چیز کے طرف جو اللہ نے نازل کی ہے ( یعنی دین اسلام) اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی (تعلیمات) کی طرف (یعنی شریعت پر مکمل طور پر عمل پیرا ہونے کی طرف تو (اے مسلمان) تو دیکھے گا، منافقوں کو کہ وہ لوگوں کو آپ (یعنی شریعت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم) پر عمل کرنے سے روک رہے ہوں گے۔

یہاں قرآن کریم کا مضارع کا صیغہ ”یصدون“ لا نا اس بات کی طرف اشارہ ہے، کہ یہ صرف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ تک خاص نہیں بلکہ استمرار کے ساتھ ہر زمانہ میں ایسا ہوگا، اور پھر آگے”صدودا“کہہ کر اشارہ کیا کہ وہ اس پر مصر بھی ہوں گے۔

سیکولرزم کا آغاز کہاں اور کیسے

سسیکولرزم دراصل یورپ کی پیداوار ہے، اس کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ جب اسلام نے آکر علم کے دروازے کھولے اور اسلام کا اثر ورسوخ مشرق سے نکل کر مغرب میں غرناطہ اور بوسنیا تک پہنچا، تو اہل مغرب کی آنکھیں کھلیں، اس لیے کہ سولہویں صدی عیسوی تک یورپ میں کنیسا اور چرچ کو مکمل اثر و رسوخ حاصل تھا، جب سترھویں صدی میں اہلِ یورپ نے مسلمانوں کی علمی آزادی اور ترقی کو دیکھا اور عیسائی پادریوں اور بادشاہوں کی تنگ نظری اور تعصب کو دیکھا اور اس کے نتیجہ میں علمی تحقیقات پر پابندی اور کوئی رائے پیش کرنے والے کو ظلم کا شکار ہوتے دیکھا تو انہیں ایسا محسوس ہوا کہ عیسائیت ہی دراصل ہماری ترقی کے لیے روڑا اور رکاوٹ ہے، لہٰذا سترھویں صدی میں اہلِ مغرب نے مذہب سے بے زاری کا اعلان کردیا، اور یہ پسِ پردہ دنیا کی خفیہ ترین تخریبی تحریک ماسونیت کی کارستانیوں اور سازشوں کا نتیجہ تھا، اس طرح جب ان سیکولرزم کے حاملین کو کامیابی ملی، تو انہوں نے اعلان کیا کہ ”اب عقل کو آزادی ہوگی اور مذہب کے قید وبند سے انسان آزاد ہوگا اور طبیعت اور نیچریت کا بول بالا ہوگا“۔

جب یورپ میں سیکولرزم کو غلبہ حاصل ہوا، تو اب وہ دنیا پر راج اور سلطنت کے خواب دیکھنے لگے، اس طرح انہوں نے مشرق کا رُخ کیا اور ۱۷۸۹ء میں مصر پر حملہ کیا اور انیسویں صدی کے آنے تک پورے مشرق کو اپنی لپیٹ میں لے لیا، کچھ ناعاقبت اندیش، مادہ پرست مسلمانوں کو بھی اپنے چنگل میں لے لیا۔

 مشرق و مغرب میں سیکولرزم کے علمبردار

سیکولرزم کو پھیلانے میں جن بدباطن اور کج فکر، لوگوں نے اہم رول اور کردار ادا کیا، ان میں سے، مغرب میں ڈارون جس نے تحقیق کے نام پر ”نظریہٴ ارتقاء“ کی بنیاد ڈالی، جو دنیا کا سب سے بڑا فریب شمار کیا جاتا ہے، اسی طرح فرائیڈ نے”نظریہٴ جنسیت“ پیش کیا، اسی طرح ڈارکا یم نے ”نظریہٴ عقلیت “پیش کیا، جان پول سارترنے ”نظریہٴ وجودیت “کی تحدیدکی، پھرآدم اسمٹھ نے ”کیپٹل ازم“سرمایہ دارانہ نظام کی بنیادڈالی، کارل مارکس نے ”کمیونزم“کی بنیادڈالی، جوپچھلے تمام مادی افکار کا نچوڑاورخلاصہ تھا اور مشرق میں کمال اتاترک، طہٰ حسین، جمال عبدالناصر، انور سادات، علی پاشا، سرسید، چراغ علی، عنایت اللہ مشرقی، غلام پرویز، غلام قادیانی وغیرہ نے انہیں افکار کو مشرق میں عام کرنے کا بیڑا اٹھایا، اوراب اسی کو گلوبلائیزیشن یعنی”عالمگیریت“کانام دیدیاگیاہے، دیکھنااب کیاہوتاہے، اللہ ہماری حفاظت فرمائے۔ آمین یارب العالمین!

سیکولرزم کا ہدف

سیکولرزم کا اصل ہدف امتِ مسلمہ کو موجودہ دورمیں اسلام سے بے زارکر کے، مادیت سے وابستہ کرناہے، تاکہ مغرب کی بالادستی، برابراس پر باقی رہے، اس لیے کہ اسلامی فکر، اسلامی روحانیت اوراسلام سے وابستگی یہی مسلمانوں کی کامیابی اوربالادستی کی شاہِ کلید ہے، لہٰذامسلمانوں کو اپنی پوری توجہ، ایمان اور اس کے تقاضوں پرمرکوزکرناچاہیے، نہ کہ مادیت کے مکروفریب کے جال میں پھنسنا۔ اللہم انانسئلک العفو والعافیة فی الدین و الدنیا و الاخرة۔

سیکولر فکررکھنے والوں کی اقسام وانواع

سیکولرزم سے متأثرافرادکوتین قسموں میں تقسیم کیاجاسکتاہے:

(۱)          پہلی قسم: ان کافراوربے دین لوگوں کی، جوصراحةًاوراعلانیةً اسلام کا ہی نہیں،کسی دین کا انکارکرے، اگروہ مسلمان ہو اورایسی بات کرے تو مرتدشمارہوگا۔

(۲)         دوسری قسم:ان منافقوں کی، جونام کے مسلمان ہویعنی بظاہراسلام کو تسلیم کرتے ہوں، مگر دل میں کفرکوچھپائے ہوئے ہوں، ان کا پورامیلان اندر سے اسلام مخالف، بلکہ اسلام دشمن نظریات کی جانب ہوں، اس وقت مسلم معاشرہ میں یہ لوگ بکثرت پائے جاتے ہیں، چند نشانیوں سے ان کو پہچانا جاسکتا ہے، وہ نشانیاں یہ ہیں :

(الف)    وہ اپنے آپ کو مصلحِ ملت، مفکرِاسلام یامجددٹھہراتے ہوں، حالاں کہ اسلام اور اسلام کی بنیادوں کوڈھانے کی کوشش  کررہے ہیں، ان کی حالت اسلامی تعلیمات اورمطالبات کے بالکل برعکس ہو، یہی لوگ اسلام اورمسلمانوں کے لیے سب سے زیادہ نقصان دہ ثابت ہوتے ہیں۔

(ب)       وہ یہ آواز لگاتے ہوں کہ اسلامی تعلیمات، عصرِحاضرمیں جاری کرنے کے قابل نہیں، اس لیے کہ (العیاذباللہ)وہ فرسودہ ہیں، وہ قابلِ اعتبار نہیں، لہٰذاعالمی قانون کو مسلمان تسلیم کرلے، اس لیے کہ (العیاذباللہ)وہی مسلمانوں کے لیے شریعتِ اسلامیہ کے مقابل زیادہ نفع بخش اورمفیدہے۔

(ج)        وہ اباحیت پسندی کے شکارہوں،حرام کو حلال کرنے اورحلال کوحرام کرنے کے درپے ہوں، اوراس کواپنے گناہ کی سنگینی کا احساس بھی نہ ہو۔

(د)          دین پر عمل کرنے والوں کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہوں اوردینی شعائرمثلاً،ڈاڑھی، ٹوپی، کرتہ وغیرہ کا مزاق اڑاتے ہوں اوردیندارکوکم عقل تصور کرتے ہوں۔

(ھ)         اس کے فکری رجحان کی کوئی سمت متعین نہ ہو، جدھرکی ہواادھرکا رُخ، اس کی طبیعت ثانیہ ہو، مثلاًجب تک روس کوغلبہ تھاکمیونزم کے حامی، اور اب امریکہ کو غلبہ حاصل ہے، تو سرمایہ داریت اورجمہوریت کے شیدائی ہوں۔

(۳)         تیسری قسم: ان مسلمانوں کی ہے، جوسیکولرزم اورجمہوریت،حقوقِ انسانی،آزادیٴ نسواں،آزادیٴ رائے،دین اورسیاست میں تفریق جیسے اصطلاحات سے متأثرہوں،جن کو آج کل مغربیت زدہ مسلمان، کہاجاتاہے، یہ اسلام کو مانتے ضرور ہیں، اس کی حقیقت کے بھی قائل ہیں، مگردینی علم سے دوری یاکمی کی وجہ ان خوشنمااصطلاحات سے متأثرہوگئے ہوں۔

سیکولرزم کو عام کرنے کے اسالیب

اسلام دشمن طاقتوں نے خاص طورپر صہیونی، صلیبی اشتراک، جس کوماسونیت بھی کہاجاسکتاہے، سیکولرزم کومسلمانوں میں عام کرنے کے مختلف طریقے اپنائے۔

(۱)          الیکڑانک اورپرنٹ میڈیا کے ذریعہ یہ پروپیگنڈہ کرنا کہ اسلام، یہ دور انحطاط کی کھوج ہے، اور اس کی تعلیمات، روایات قدیمہ کی حامل ہے، (العیاذ باللہ) مادی ترقی کے دور میں قابل عمل نہیں رہا، حالاں کہ ایسا ہرگز نہیں، الحمدللہ! کسی بھی زمانہ میں انسان کی حقیقی ترقی، جس کو روحانی ترقی سے بھی تعبیر کیا گیا ہے، اس کا حامل اگر ہے تو یہی اسلام، اس لیے کہ انسان کی حقیقی ترقی یہ ہے کہ وہ اپنے خالق و مالک کو راضی کرلے ، اور دنیا میں اس کا تقرب حاصل کرلے، قرآن کا اعلان ہے ”ان اکرمکم عنداللّٰہ اتقٰکم“ (سورة الحجرات:پ۲۶، آیت۱۳)تم میں سب سے زیادہ مکرم و معزز و برگزیدہ اللہ رب العزت کے نزدیک وہ ہے، جو سب سے زیادہ پرہیزگار ہو یعنی گناہوں سے اسی طرح لوگوں کو اور مخلوق کو تکلیف دینے سے مکمل اجتناب کرتا ہو، یہ ہے اصل ترقی کا زینہ۔

(۲)         العیاذ باللہ یہ پروپیگنڈہ کرنا کہ اسلام خونی مذہب ہے، یعنی اس کی تاریخ ظلم و جور سے بھری ہوئی ہے، حالاں کہ حقیقت اس کے برعکس ہے، اگر تاریخ کا غائرانہ مطالعہ کریں، تو معلوم ہوگا کہ پچھلے سو سال میں جمہوریت اور سیکولرزم کے نام پر دنیا میں جتنا ظلم ہوا اور قتل و غارت گیری ہوئی، اسلام میں، اس کی ایک بھی نظیر نہیں ملتی، ایک سروے کے مطابق ”اوریا مقبول جان“ مشہور صحافی تحریر فرماتے ہیں کہ پچھلے سو سال میں تقریباً سترہ کروڑ انسانوں کو جمہوریت کے بھینٹ چڑھا دیا گیا، اس سے سولہویں صدی میں ریڈ اینڈینز کو سو ملین کی تعداد میں نئی دنیا کی دریافت کے نام بے قصور موت کے گھاٹ اتار دیا گیا، غرناطہ میں تیس لاکھ مسلمانوں کو صلیبیت کے نام پر قربان کردیا گیا، فلسطین میں لاکھوں مسلمانوں اور یہودیوں کو عیسائیوں نے بلاجرم قتل کردیا، جب کہ اسلامی تاریخ میں مسلمان امراء کی فراخ دلی، رعایا سے ہمدردی اور انصاف کوئی پوشیدہ چیز نہیں، نیک مسلمان سلطانوں اور امراء نے تو ظلم کیا ہی نہیں، بل کہ فاسق و فاجروں بھی نے کیا بھی ہوگا، تو وہ اس ظلم کے سویں حصہ کیا، یا ہزارویں حصہ کے برابر بھی نہیں ہے، ہماری تاریخ خونی اور ظالمانہ نہیں، اگر ظالمانہ تاریخ ہے، تو تاریخ، انہی سیکولرزم کی نعرہ دینے والوں کی ہے، مگر اپنا عیب چھپانے کے لیے وہی اپنا قصور مسلمانوں پر تھوپ دیا ”فانتظروا انا معکم منتظرون“۔ (سورہٴ یونس:پ۱۱،آیت۳)

(۳)         قرآن و حدیث کے بارے میں یہ پروپیگنڈہ کرنا کہ وہ ایک خاص جماعت او ر نسل کے لیے نازل کیا گیا تھا، یا یہ کہنا کہ قرآن و حدیث کی، العیاذ باللہ کوئی حقیقت نہیں ، وہ تو انسان ہی کا مرتب کردہ ہے، جب کہ حقائق اس کا صراحت کے ساتھ انکار کرتے ہیں، قرآن کا اعلان ہے ”کتاب اَنزلنٰہ الیک۔ (سورة ابراہیم:پ۱۳،آیت۱) و ما ینطق عن الہوی ان ہو الا وحی یوحیٰ“ وغیرہ۔(سورة النجم:پ۲۷،آیت۲،۳)

(۴)         ایمان بالغیب کا انکار کرنا اور اس کا مزاق اڑانا اور یہ کہنا کہ نیچریت اور طبیعت اس کو تسلیم نہیں کرتی، اور اس کے بارے میں یہ کہنا کہ ملائکہ، جن، جنت، دوزخ ،حساب، برزخ، قدر، معراج، معجزات، انبیاء وغیرہ، یہ سب محض خرافات ہیں، اس کی کوئی حقیقت نہیں، حالاں کہ قرآن نے پہلے پارے کے پہلے ہی رکوع میں متقی مسلمانوں کا وصف بیان کرتے ہوئے کہا ”یوٴمنون بالغیب“ (سورة البقرة:پ۱، آیت۳) وہ غیب پر ایمان رکھتے ہیں۔اور اس طرح نقل کو عقل پر ترجیح کے قائل ہیں۔

(۵)         مسلمان معاشرہ میں موجود اخلاقی قدروں کو ملیامیٹ کرنا اور اباحیت پسندی کو فروغ دینا، تعلیمی نصاب میں ایسا مواد سمو دینا، جس سے ابناء قوم طفولیت ہی سے ایمان باللہ، ایمان بالقیامة سے محروم رہے ،اور جنسیت، مادیت، فیشن پرستی کا دلدادہ ہو جائے، ماحول ایسا بنا دیا جائے کہ عشق بازی، حیاسوزی، نوجوانوں کی عادت بن جائے، ایسی ایسی فلمیں اور سیریلیں بنائی جائیں، جس میں مار پیٹ، لڑائی، جھگڑا، فتنہ، فساد، عشق و محبت، بداخلاقی و بدکرداری کو فروغ حاصل ہو ، حالاں کہ بداخلاقی، بدکرداری، عشق بازی، فتنہ فساد سے، تعلیمات اسلامیہ مکمل اجتناب کا درس دیتی ہیں۔

(۶)          توحید کے مقابلہ میں روشن خیالی، مزعوم اعتدال پسندی کو جس کو دوسرے لفظوں میں Modernism کہاجاسکتا ہے، ہر طبقہ میں عام کرنے کی مکمل کوشش کی جارہی ہے، جو سراسر اسلامی تعلیمات کے منافی اور معارض ہے۔

(۷)         اسلام کے خلاف جاری فکری یلغار کو ثقافت اور تبادلہٴ ثقافت کا نام دیا جارہا ہے، تاکہ فکری یلغار کا احساس زندہ نہ ہو، اور مسلمان مِن و عَن مغربی ثقافت کو دلجمعی کے ساتھ قبول کرلے۔

(۸)         بلادلیل و برہان اسلام کو ”دہشت گرد“ اور مسلمانوں کو متعصب اور ظالم، قاتل و سفاک اور بے رحم ثابت کیا جارہا ہے، تاکہ لوگ اسلام اور مسلمان سے متنفر رہے، اور اسلام کو فروغ حاصل نہ ہو۔

(۹)          شراب، جوا، سود اور محرمات کو خوشنما اور نئے نئے ناموں سے مسلمانوں میں متعارف اور عام کیا جارہا ہے، تاکہ حلال و حرام کی تمیز باقی نہ رہے، اور مسلمان بے دھڑک اس کی خرید و فروخت اور استعمال میں مشغول ہو جائے۔

(۱۰)        اسلام اور اس کی تعلیمات مثلاً حدود، تعزیرات وغیرہ اور اسلامی شخصیات، مثلاً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، صحابہ، مجاہدین وغیرہ سے استہزاء اور ان کی زندگیوں کو توڑ مروڑ کر پیش کرکے مشکوک کرنا وغیرہ، اللہ ان ملعون حرکات کرنے والوں کو غارت کرے اور مسلمانوں کے دلوں کو اسلام ، اسلامی شخصیات اور اس کی تعلیمات کی محبت سے لبریز کردے۔ آمین یا رب العالمین!

(۱۱)         مغربی باطل نظریات کو خوب عام کرنا، اور ہر ممکن یہ کوشش کرنا کہ ان باطل نظریات کے حاملین کو علم و تحقیق کے باب میں بلند ترین مقام دینا، اور یہ کہنا کہ یہی لوگ حقیقت میں دنیائے علم و تحقیق کے درخشندہ ستارے ہیں اور انہوں نے دنیا پر بڑا احسان کیا، حالاں کہ حقیقت اس کے برعکس ہے، کیوں کہ علم و تحقیق کے نام پر انہوں نے دنیا کو گمراہ کیا، مثلاً ڈارون ،فرائیڈ، مارگو لیٹھ، کارل مارکس، آدم اسمیٹھ، دور کایم، جان پول، وغیرہ یہ ائمہ ضلال تو ہوسکتے ہیں، مگر محسن نہیں ہوسکتے، لعنة علیہم و الملائکة والناس اجمعین!

سیکولرزم کے بارے میں شرعی فیصلہ

 علمائے اسلام اور فقہاء عظام نے سیکولرزم کو ایک مستقل مذہب قرار دیا ہے، جس کو ”دہریت“ کہا جاسکتا ہے، لہٰذا وہ کفر صریح ہے، اور مسلمانوں کو اس کا مقابلہ کرنا ضروری ہے، مسلمانوں میں سیکولرزم فکرکے ان حاملین کو منافقین کہا جائے گا، جو اسلامی تعلیمات کا انکار کرے، سیکولرزم کو حق بجانب تصور کرے، اسلامی محرمات کو حلال گردانے۔

سیکولرزم کے دنیا پر اثرات

سیکولرزم نے سب سے زیادہ نقصان عالم اسلام کو پہنچایا، اس لیے کہ سیکولر فکرکے حاملین نے، جس میں کمال اتاترک جیسے لوگ شامل ہیں، خلافتِ اسلامیہ کے سقوط کے سبب بنے، اور عظیم دولت عثمانیہ اسلامیہ کو تقسیم در تقسیم سے دوچار کیا، یہاں تک کہ وہ پچاس حصوں میں تقسیم ہوگئی، اسرائیل کا ناپاک وجود اسلامی ریاستوں کے بیچ عمل میں آیا۔ دنیا میں فحاشی، بدکاری، اور ہر برائی کو پھیلانے کے راہیں ہموار ہوگئیں، اور پوری دنیا کو جمہوریت اور عالمگیریت کے نام پر جہنم کدہ بنا دیا گیا۔

اسلام کے غلبہ کی راہیں کیسے ہموار ہوسکتی ہیں؟

ہم مسلمان ،ہیں ہمارا دین، دین برحق ہے ہمارا رب اللہ ہے، جو قادر مطلق مالک الملک الہ واحد اور ذوالجود والکرم ہے اور ہمارے رسول خاتم النبیین سید المرسلین ہیں، اور ہماری تعلیمات ہر زمانہ میں انصاف امن وسلامتی کی ضامن ہیں، اسی کو حق ہے کہ وہ دنیا پر قیادت وسیاست کرے، مگر ہم نے اس کی قدر نہ کی ذلت ومسکنت کے شکار ہوئے، اب ہمیں کرامت اور غلبہ کیسے دوبارہ ہوسکتا ہے، اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے، تو آئیے ہم اسی پر روشنی ڈالتے ہیں۔

(۱)          سب سے پہلے ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے ایمان میں رسوخ پیدا کریں کیوں کہ قرآن کا اعلان ہے” وانتم الاعلون ان کنتم موٴمنین“۔(آل عمران:۱۳۹) تم ہی سر بلند رہو گے اگر موٴمن رہو۔ موٴمن کس کو کہتے ہیں؟ دل وجان سے اسلام کو تسلیم کر کے، اس پر عمل کرنے اور اس پر سب کچھ قربان کردینے کا نام ہے ایمان اور موٴمن ہونا۔

(۲)         کتاب اللہ اور سنت رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کو ہر حالت میں ہم مضبوطی کے ساتھ تھام لیں، یعنی ہمارا ہر قول اور ہر عمل قرآن وسنت کے منشاء کے مطابق ہوجائے، حدیث میں ہے ”ان تمسکتم بہما لن تضلوا بعدی ابدا“۔

(۳)         تقویٰ، یعنی ہرحالت میں اللہ سے ڈرنے لگ جائیں، اور ہر طرح کے منکر اور حرام سے مکمل اجتناب کریں، اور ہر فرض وسنت کو اپنی زندگی کا لازمی جز بنائیں۔

(۴)         اسلا می تعلیمات کوخوب عام کریں، اور یقین رکھیں کہ کامیابی اسی پر عمل کرنے میں ہے نہ کہ کسی اور چیز میں۔

(۵)         دعا کا التزام کریں، اپنے لیے پوری امت کے لیے، رو رو کر اللہ کے دربار میں دعائیں کریں، خاص طور پر یہ دعا کریں کہ اللہ امت کو منافقین کے شر سے نجات دے اور بچائے اور اسلام پر ثابت قدم رکھے۔

(۶)          غفلت سے بیدار ہو، اور دشمنوں کے مکر وفریب سے اور ان کے سازشوں سے واقف ہوں اور اس سے بچنے کی تدابیر کریں، اللہم اجعل کیدہم فی تضلیل۔

(۷)         اس وقت سب سے بڑی ضرورت اسلامی تعلیمات سے واقف ہونا ہے، لہٰذا اس جانب توجہ دیں، تا کہ حلال حرام کی تمیز ہو سکے، علماء سے اپنے مسائل میں رجوع کریں، اور اپنے بچوں کی اسلامی تربیت کی فکر کریں۔

(۸)         ٹیلی ویژن کی نحوست سے اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو، کوسوں دور رکھیں ،فلم، کھیل کود اور فضول چیزوں میں وقت صرف نہ کرکے اللہ کی طرف متوجہ ہوں۔

اللہ ہماری ہر طرح کے شر سے حفاظت کرے اور ہر طاعت کے کرنے کی توفیق دے اور پوری امت کو اسلام سے وابستہ کردے۔آمین یا رب العالمین!

***

ماهنامه دارالعلوم ، شماره 4 ، جلد: 94 ، ربيع الثانى – جمادى الاول 1431 هـ مطابق اپریل 2010 ء

Related Posts