مدینہ منورہ میں قیام … اور مدینہ یونیورسٹی میں میرے اساتذہ (۵)

میرے قابل احترام اساتذئہ کرام

از:       مولانا مفتی فضیل الرحمن ہلال عثمانی

یہ ۱۹۶۲ء کی ایک صبح تھی، میں دارالعلوم دیوبند میں اپنی درسگاہ میں بیٹھا ہوا درس دے رہا تھا کہ دارالعلوم دیوبند کے شعبہٴ تعلیمات کا ایک چپراسی ناظم تعلیمات حضرت مولانا محمد ابراہیم صاحب بلیاوی رحمة الله عليه کی جانب سے ایک حکم لے کر آیا کہ ساتھ میں دی گئی عربی تحریر کا اردو ترجمہ کرکے دے دیا جائے۔

میں نے دیکھا تو وہ سعودی سفارت خانے کی طرف سے ایک خط تھا جس میں لکھا گیا تھا کہ مدینہ طیبہ میں ایک اسلامی یونیورسٹی قائم ہوئی ہے، دارالعلوم دیوبند سے کسی کا انتخاب کرکے بھیجیں، ترجمہ کرکے تعلیمات کو بھیج دیاگیا۔

دوپہر کے کھانے پر میں نے والد صاحب حضرت قاری جلیل الرحمن عثمانی سے اس کا تذکرہ کیا۔ انھوں نے فرمایا کہ … تم بھی اپنی درخواست بھیج دو۔

اس واقعہ سے تھوڑے دن پہلے کی بات ہے… والد صاحب کسی کام سے کتب خانہ محمودیہ میں آئے … دوران گفتگو اچانک ان کی زبان سے یہ جملہ نکلا … کیا تم حج کو جانا چاہتے ہو، میں نے حیرت سے ان کی طرف دیکھا، گفتگو کے موضوع سے اس جملہ کا کوئی تعلق نہ تھا، میں نے پوچھا تو کہنے لگے ”بس یوں ہی خیال سا آگیا تھا“۔

مجھے اپنے انتخاب کی امید نہ تھی، بس تعمیل حکم میں درخواست بھیج دی… تعلیم کے آخری سال ”دورئہ حدیث“ کے نمبروں کے حساب سے انتخاب میرا ہوگیا… اور یوں اس مرد فقیر (والد محترم) کا خیال، خیال سے آگے بڑھ کر واقعہ بننے لگا۔

آب زمزم کی برکت

ان ہی دنوں پاؤں پر شدید ورم تھا، والد صاحب کے ساتھ حکیم محفوظ علی صاحب کو (جوکہ دیوبند کے پرانے اور حاذق حکیم تھے، علامہ انور شاہ کشمیری رحمة الله عليه کے عزیز قریب اور پڑوسی تھے) دکھانے کے لئے گیا، انھوں نے دیکھ کر بڑی تشویش ظاہر کی اور بتایا کہ یہ ”فیل پا“ کی بیماری کا آغاز ہے پاؤں پھول کر ہاتھی جیسے ہوجاتے ہیں، اس لئے اس بیماری کو فیل پا (ہاتھی کا پاؤں) کہا جاتا ہے۔ پھول کر کھال پھٹنے لگتی ہے، زخم ہوجاتے ہیں اورآدمی چلنے پھرنے سے معذور ہوجاتا ہے۔ سفر کی بات آئی تو انھوں نے کہا میں اس کا مشورہ نہ دوں گا، بیماری کا آغاز ہوچکا ہے، علاج اور دیکھ بھال کی شدید ضرورت ہے۔

میں نے آب دیدہ ہوکر کہا… آحر انجام موت ہوسکتا ہے، موت ہی آنی ہے، تو اس سے اچھی موت کون سی ہوگی کہ ارض مدینہ میسر آجائے گا۔ پاسپورٹ سے لے کر ڈاکٹری سرٹیفکیٹ تک کتنے کتنے مرحلے آئے، بہرحال وہ طے ہوتے گئے اور دس بارہ دن کے اندر اندر ظہران، ظہران سے جدہ اور جدہ سے مکہ مکرمہ پہنچ گئے۔

مکہ مکرمہ میں مدرسہ صولتیہ میں چند روز قیام رہا۔ شیخ محمد سلیم صاحب اس وقت مدرسہ کے مہتمم تھے۔ اس زمانے میں تبلیغی جماعت کا مرکز بھی یہی ہوتا تھا… ایک بڑے سے ہال میں کھانا رہنا، سونا سب ہوتا تھا، پانی کی اس زمانے میں اتنی فراوانی نہ تھی، جتنی ماشاء اللہ اب ہے… ایک ریال میں ایک بالٹی ملتی تھی۔

عمرہ کیا، آب زمزم خوب جی بھر کے پیا جاتا تھا، سنا تھا زمزم شریف میں شفا ہے، سنی سنائی بات چشم دید بن گئی، کچھ دن میں ہی فیل پا کی تکلیف جاتی رہی۔

توکل کا مزا

مدینہ طیبہ پہنچے، یونیورسٹی میں جاکر انٹرویو دیا، بھائی رشید الوحیدی صاحب ساتھ تھے، ان کا اور میرا داخلہ ”القسم العالی“ میں ہوگیا… رمضان کا مبارک مہینہ شروع ہوچکا تھا، جیب بالکل خالی تھی، کچھ لوگوں نے بتایا کہ یونیورسٹی کی اسکالر شپ ایڈوانس بھی مل جاتی ہے، پتہ نہیں کیوں کہنے کو دل نہ مانا، کھانے کے لئے پیسے نہ تھے… مگر ہوتا یہ تھا کہ مسجد نبوی صلى الله عليه وسلم میں درس کے بعد آجاتے تھے اورکوئی نہ کوئی دعوت کرنے والا مل جاتا تھا، دیوبند کے مولانا انعام کریم صاحب مدینہ طیبہ میں تھے، ان کی وجہ سے بھی بڑا سہارا مل جاتا تھا، سحری اکثر ان کے ساتھ ہوجاتی تھی۔ غرض پورا مہینہ بغیرپیسوں کے بھی آرام سے گذرگیا، کچھ وہاں کی پاکیزہ فضا کا اثر تھا کہ کوئی فکر نہ ہوتی تھی، توکل کا مزا وہیں رہ کر آیا۔

حضرت مولانا سید بدرعالم میرٹھی صاحب کی خدمت میں

مدینہ طیبہ کے قیام میں ایک بہت بڑی نعمت یہ حاصل ہوئی کہ حضرت مولانا سیدبدرعالم صاحب کی خدمت میں رہنے کا موقعہ مل گیا، مولانا بدرعالم صاحب علامہ انور شاہ کشمیری رحمة الله عليه کے خصوصی شاگردوں میں سے تھے، نہایت بلند علمی ذوق رکھتے تھے، فیض الباری عربی زبان میں مولانا بدرعالم صاحب کی مشہور تالیف ہے، جو علمی حلقوں میں قدر کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ ترجمان السنہ احادیث کا ایک بہترین مجموعہ ہے اس پر مولانا کی نادر ونایاب تشریحات… جن لوگوں کو اس کے مطالعہ کا موقعہ ملا ہے وہ اس میں مولانا کی علمی بصیرت کے جوہر دیکھ سکتے ہیں۔

علمی مقام کے علاوہ مولانا صاحب باطن بھی تھے۔ پہلے ان کا تربیتی تعلق میرے دادا حضرت مولانا مفتی عزیز الرحمن صاحبرحمة الله عليه سے رہا… ان کے وصال کے بعد دادا صاحب کے جانشین حضرت مولانا قاری محمد اسحاق صاحب میرٹھی سے تعلق ہوا اور ان کے جانشین بنے۔ مدینہ طیبہ حاضری سے پہلے ہی میں نے مولانا کو بچپن ہی میں دیکھا تھا۔ ایک مرتبہ دیوبند ہمارے گھر تشریف لائے، ہمارے گھر نماز کے چبوترے پر وضو کرتے ہوئے ایک نہایت حسین وجمیل شخصیت کا خاکہ میرے ذہن میں تھا۔

جب میں مدینہ طیبہ پہنچا تو جاتے ہوئے اس قسم کے خیالات ذہن میں تھے کہ میاں ہوں گے کوئی مولانا وولانا… یعنی یہ خیال تھا کہ ہمارے وہاں رہتے ہوئے کہیں مولانا نے روک ٹوک کی تو ہمیں ان کی کوئی زیادہ پروا نہیں ہے، لیکن یہ عجیب بات ہوئی کہ مدینہ طیبہ پہنچ کر جب مسجد نبوی صلى الله عليه وسلم میں حاضری ہوئی تو میرے شوق کا عالم یہ تھا کہ روضہٴ اقدس پر حاضری سے پہلے میں مولانا کی خدمت میں جانا چاہتا تھا اور دل کہتا تھا کہ جلدی سے مولانا کی خدمت میں پہنچ جاؤں… مولوی اور مسٹر کے درمیان کچھ اپنا ہی الگ انداز… ٹوپی کی مناسبت سے سر کے بال ذرا بڑھے ہوئے اور ان کی تراش ایسی کہ نہ انگریزی معلوم ہوں اور نہ انگریزیت سے باہر ہوں… غرض نوعمری کا وقت لاابالی پن اور دماغ میں آزاد خیالی… اس حلیہ میں مولانا کی خدمت میں حاضر ہوئے اور پھرجاتے رہے ایک دن ایسا ہوا کہ اس لباس اور بالوں کی وضع قطع سے بڑی وحشت معلوم ہونے لگی، دل چاہتا تھا کہ کپڑے اتار کر ابھی پھینک دوں، ان بالوں کو نوچ ڈالوں اور مدینہ طیبہ کاعربی لباس پہنوں۔ اکثر مولانا کی خدمت میں عصر کے بعد حاضری ہوتی تھی۔ اس دن بڑی بے تابی کے ساتھ مغرب کی نماز پڑھی، جیب میں پیسے ویسے کچھ نہیں تھے… مسجد نبوی صلى الله عليه وسلم کے قریب ہی بمبئی کے عبداللہ صاحب ریڈی میڈ کپڑوں کی دوکان کرتے تھے، ان سے جاکر صورت حال بتائی کہ پیسے تو اس وقت میرے پاس ہیں نہیں اور دل چاہ رہا ہے کہ ابھی اسی وقت عربی لباس پہنا جائے… انھوں نے بڑی شفقت اور محبت سے ہمیں کپڑے دئیے اور کہا کہ کوئی بات نہیں جب پیسے ہوں گے دے دینا۔ہم جلدی سے نائی کی دوکان پر پہنچے… سرمنڈوایا اورنہا دھوکر عربی لباس پہنا اور معمول کے خلاف عشاء کے قریب مولانا کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ مولانا دیکھ کر کھِل اٹھے… معذور ہوگئے تھے، بستر پر لیٹے رہتے تھے، اسی حالت میں ہاتھ بڑھاکر سینے سے لگایا، آب دیدہ ہوکر پیشانی چومی اور فرمانے لگے اس وقت کا بڑی بے چینی سے انتظار تھا، مجھے اتنے اچھے لگ رہے ہو کہ اجازت ہوتی تو تمہاری تصویر کھینچ کر اپنے پاس رکھ لیتا۔

یہ دراصل ہمارے ذہنی انقلاب کا نقطئہ آغاز تھا جو بالکل اس شعر کی تعبیر تھا۔

نگاہِ مرد مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں

مولانا بلاشبہ مرد مومن ہی نہیں بلکہ مومن کامل اور ولی کامل تھے، جتنا عرصہ ان کی خدمت میں رہنے کی سعادت حاصل ہوئی وہ میری زندگی کا سب سے سنہرا دور تھا۔ ان کا انداز تربیت ہی بڑا نرالا تھا، ہلکی سی بات میں دل ودماغ کی دنیا الٹ کر رکھ دیتے تھے، ذوق ان کا بڑا نفیس اور پاکیزہ تھا… ایک روز فرمانے لگے کہ جب میاں آفتاب (جو مولانا کے اکلوتے صاحبزادے ہیں) کی والدہ کا انتقال ہوا تو اس وقت میں جوان تھا، حضرت قاری اسحاق صاحب میرٹھی نے کئی بار مشورہ دیا کہ شادی کرلو۔ جب حضرت نے کئی بار فرمایا تو میں نے عرض کیا کہ حضرت بات یہ ہے کہ میاں آفتاب کی والدہ کو میں نے اتنے برسوں میں سکھایا تھا کہ چائے کی پیالی طشتری میں کیسے رکھتے ہیں، اب میرے پاس اتنا وقت نہیں ہے کہ نئی آنے والی کو طشتری میں پیالی رکھنا سکھاسکوں۔ مولانا کے کمرے میں بہت صاف ستھرا قالین بچھا ہوا تھا۔ شام کے وقت تمام حاضرین کو خوبصورت صاف ستھرے بنجانوں میں عربی چائے پیش کی جاتی تھی۔ اکثر ایساہوتا تھا کہ چائے پینے والے چائے پی کر فنجان قالین پر رکھ دیتے تھے۔ میں اس معاملے میں بڑی احتیاط کرتا تھا، کبھی خالی فنجان قالین کے اوپر نہیں رکھتا تھا۔ مجھے خیال بھی نہیں تھا کہ مولانا میری اس بات کو نوٹ کرتے ہیں، مگر ایک دن ان کی گفتگو سے معلوم ہوا کہ میرا یہ انداز اُنہیں بہت پسند ہے۔

بات انداز تربیت کی چل رہی تھی… ایک روز فرمانے لگے ”حنفی مسلک کا سب سے مشکل مسئلہ کون سا ہے، جس کو ثابت کرنا حنفیوں کے لئے بڑا دشوار ہوتا ہے…؟ ہم نے تیرتکے لڑا کر فاتحہ خلف الامام، آمین بالجہر اس طرح کے مسائل بتانے شروع کئے… فرمایانہیں! حنفی مسلک کا سب سے مشکل مسئلہ وتر کا ہے جس کو ثابت کرنے میں حنفیوں کو دانتوں پسینہ آجاتا ہے۔ یہ فرماکر حضرت انور شاہ صاحب کشمیریرحمة الله عليه کی عربی کتاب ”کشف الستر عن صلوٰة الوتر“ مجھے دی اور فرمایاکہ اس کا غور سے مطالعہ کرے آنا۔

حیا آنکھ کی ہوتی ہے یا علم کی

ایک مرتبہ مولانا نے ناچیز سے سوال کیا… ہلال میاں یہ بتاؤں کہ حیا کا تعلق علم سے ہے یا نظر سے…؟ پھر خود ہی ارشاد فرمایا کہ حیا کا تعلق نظر سے ہے… میرے کپڑوں کے نیچے میرے اعضاء کا مجھے بھی علم ہے اورآپ کو بھی ، پھر بھی ہم کپڑوں سے بدن کو ڈھکتے ہیں اسلئے نہیں کہ ہمیں علم نہیں ہے کہ کپڑوں کے نیچے کیا ہے؛ بلکہ اس لئے کہ حیا آنکھ کی اور نظر کی ہے… اس طرح چھوٹی چھوٹی گفتگو سے مولانا ذہن کے گوشے کھولتے رہتے تھے۔

جواہر الحکم کی ترتیب

حضرت مولانا اس زمانے میں ”جواہر الحکم“ کے نام سے احادیث کا ایک عام فہم مجموعہ مرتب فرمارہے تھے، جو اب تین حصوں میں شائع ہوچکا ہے… مولانا صاحب فراش تھے اور لکھنے پڑھنے سے معذور ہوچکے تھے، جواہر الحکم کی ترتیب اور تحریر میں مولانا نے مجھے کام کرنے کا حکم دیا۔میری عربی تحریر صاف ستھری تھی، کیوں کہ میں نے باقاعدہ کتابت سیکھی تھی… مولانا میری تحریر دیکھ کر بہت مسرور ہوئے، پہلے حدیث کا عربی متن مجھ سے لکھوا لیتے تھے اور ترجمہ اور تشریح بولتے رہتے تھے اورمیں لکھتا رہتا تھا… اسی زمانے میں میں نے دیکھا کہ مولانا علم حدیث میں کیسی گہری نظر رکھتے ہیں۔مشکوٰة میں کوئی حدیث تلاش کرنی ہوتی تھی تو ہمیں اس کے ڈھونڈنے میں دیر لگ جاتی تھی، مگر مولانا ہاتھ سے ٹٹول کر اوراق کا اندازہ کرکے بتادیتے تھے کہ دیکھو فلاں حدیث یہاں ہوگی اور اکثر وہیں یا ایک آدھ ورق آگے پیچھے مل جاتی تھی۔

اسی زمانہ میں ایک بڑا عجیب واقعہ پیش آیا کہ مولانا بیمار تھے ہی، ان کی علالت نے شدت اختیار کرلی اور حالت ایسی ہوگئی کہ جیسے بس چند لمحوں کے مہمان ہوں… اسی حالت میں اشارے سے مجھے اپنے قریب بلایا اور کان کے پاس منھ لے جاکر فرمایاکہ فلاں حدیث فلاں جگہ لکھ لو۔

چند روز بعد اللہ نے حالت بہتر کردی… میں نے ادب سے عرض کیا کہ اس روز جب آپ کی حالت کافی نازک تھی آپ نے مجھے بلاکر یہ بات ارشاد فرمائی تواس موقعہ پر یہ بات کہنے کی وجہ کیا ہوسکتی ہے…؟ مولانا نے فرمایاکہ مجھے ایسا محسوس ہورہا تھا کہ دنیا سے رخصت ہونے کا وقت شاید بہت نزدیک ہے تو میں چاہتا تھا کہ حدیث کی خدمت کرتے کرتے اس دنیا سے رخصت ہوتا تاکہ صاحب حدیث کی شفاعت نصیب ہوسکے… مولانا کے اس جواب سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ان کی روح کس طرح عشق نبوی صلى الله عليه وسلم میں ڈوبی ہوئی تھی۔

اسی زمانے میں ایک روز ایسا ہوا کہ مسجد نبوی صلى الله عليه وسلم کے خدام روضہ شریف کی خاک پاک لے کر مولانا کی خدمت میں آئے تو مولانا نے اشارہ کیا کہ مجھے سہارا لگاکر بٹھادو اور بڑے ادب کے ساتھ اس خاک پاک کو دونوں ہاتھوں سے سنبھالتے ہوئے باچشم نم فرمایا ”میں نہیں جاسکتا تو وہ خاک پاک بھیج دیتے ہیں“۔

ایک مرتبہ بڑی غیرمعمولی بات ارشاد فرمائی جس کی عام طور پر ظاہر کرنے کی مولانا کی عادت نہ تھی… فرمایا کہ جب میں صحت مند تھا اور چلتا پھرتا تھا تو ایک روز مسجد نبوی صلى الله عليه وسلم میں ستون سے ٹیک لگائے ہوئے درود شریف پڑھ رہا تھا تو میرے منھ میں کسی نے کوئی چیز ٹپکائی اس کی مٹھاس اور خوشبو کی میں کوئی مثال نہیں دے سکتا، عجیب وغریب شیرینی اور دلنواز خوشبو تھی، اس کا ذرائقہ جیسے اب بھی محسوس ہوتا ہے۔

ایک روز بڑی خاص کیفیت میں فرمانے لگے کہ میاں کیا سمجھتے ہو حضرت قاری صاحب مدینہ طیبہ تشریف لاکر بارگاہ نبوت سے میرے بارے میں سب کچھ طے کرکے گئے ہیں اور وہی سب پیش آرہا ہے۔ غرض یہ کہ مولانا کا وجود اور ان کی خدمت میں حاضری کی سعادت میرے لئے سب سے سنہری موقعہ تھا۔

عربوں کی سادگی اور بے تکلفی اور ان کے بلند اخلاق

اب تک عربوں کی خصوصیات کے بارے میں جو کچھ پڑھا اور سنا تھا اب اپنی آنکھوں سے نظر آرہا تھا اور تجربہ ہورہا تھا… عربوں میں عجیب طرح کی بیساختگی اور سادگی ہے، ملتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے نچھاور ہوجائیں گے… نہ کوئی بناوٹ ہوتی ہے نہ تصنع… بڑی بے تکلفی اور اپنائیت کا احساس جیسے بہت پرانے ملنے والے ہوں۔ آپ کومحسوس بھی نہیں ہوگا کہ آپ اجنبی سے مل رہے ہیں۔ چہرے کے اتار چڑھاؤ سے، اچھے الفاظ سے خوشی کا اظہار اور پھران کے دعائیہ جملے ان لوگوں سے مل کر لطف آجاتا تھا۔

کئی بار ہم لوگ کسی گاؤں میں چلے جاتے تھے، وہاں بھی ہمارے علاقوں کی طرح چوپالیں بنی ہوتی تھیں، جس میں بہت سے لوگ جمع رہتے تھے… بڑھ کر ایسا استقبال کرتے تھے جیسے ہمارے آنے کے منتظر ہوں… اور پھر چائے اور کھانے سے تواضع ہوتی تھی، سخاوت کا سبق تو کوئی عربوں سے سیکھے، پیار سے کھلائیں گے کہ جیسے آپ کے نہ کھانے سے ان کا بڑا نقصان ہوجائے گا۔ بار بار تقاضہ کریں گے کہ بھائی یہ تو دیکھو اس کو تو چکھو… ذراسی دیر میں اجنبیت کے پردے اٹھ جائیں گے اور آپ کو بے پناہ اپنائیت کا احساس ہوگا۔

عرب وعدے کے پابند

عرب لوگ وعدے کے کتنے پابند ہوتے ہیں اس کا ذاتی طور پر مجھے وہاں رہنے کے زمانے میں تجربہ ہوا… وہاں ایک ایجنٹ تھے جو طلبہ کے سفر وغیرہ کا انتظام کیا کرتے تھے، جب میں چھٹیوں میںآ نے کے لئے ٹکٹ بنوانے لگا تو میرے پاس تین سو ریال کم تھے۔میں نے اس ایجنٹ سے (جن کا نام مجھے یاد نہیں رہا) کہا کہ میرے پاس اتنے ریال کم ہیں، اگر آپ مجھے دیدیں تو میںآ نے کے بعد واپس کردوں گا… انھوں نے کہا کہ اس وقت تو میرے پاس نہیں ہیں لیکن اگر کوئی انتظام ہوگیا تو میں تمہیں ضرور دے دوں گا… میں نے کسی دوسری جگہ سے انتظام کرلیا اور آنے کے لئے جدہ ایئرپورٹ پرپہنچا… اس وقت جدہ ایئرپورٹ شہر کے اندر تھا اوراتنا وسیع نہ تھا جتنا اب ہے اورنہ اتنی قانونی پابندیاں تھیں… میں جہاز میں سوار ہونے کے لئے اندر داخل ہوہی رہا تھا کہ مجھے کسی کے پکارنے کی آواز آئی۔ دیکھا کہ وہ ایجنٹ بھاگے چلے آرہے ہیں… قریب آکر مجھے تین سو ریال دینے لگے۔میں نے کہا اب تو انتظام کرلیا ہے، اب ضرورت نہیں مگرانھوں نے اصرار کیا کہ میں نے تم سے وعدہ کیا تھا، اب تم ان پیسوں کو رکھ لو، میں نے کہا میں اب ہندوستان جارہا ہوں، میرے وہاں کس کام آئیں گے،تو وہ دوڑ کر گئے اور ریال کو ہندوستانی کرنسی میں بدلواکر جلدی سے واپس آگئے۔ مجھے مجبوراً وہ پیسے رکھنے پڑے… اندازہ لگائیے کہ یہ کردار کہیں جلدی سے دیکھنے کو ملتا ہے…؟

مدینے والوں کی نرم روی

مدینہ طیبہ میں رہنے والوں کے دل بہت نرم ہیں… اگر کچھ لوگ لڑ رہے ہوں اور آپ ان کے سامنے جاکر کہہ دیں ”صل علی محمد“ وہ ساری لڑائی بھول جائیں گے اور زبانوں پر درود جاری ہوجائے گا… ان کے دلوں میں جیسے محبت کے دریا بہتے ہیں۔ مجھے لیوپولڈویس یعنی علامہ محمد اسعد کا وہ جملہ یاد آتا ہے جو انھوں نے اپنی کتاب ”روڈ ٹومکہ“ میں مدینہ طیبہ کے بارے میں لکھا ہے کہ مدینہ محبت کا شہر ہے، یہاں محبت بارش کی طرح برستی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ رسول مقبول صلى الله عليه وسلم کا مسکن یہ پیارا شہر اپنی خصوصیات کے اعتبار سے دنیا میں نرالا ہے… آپ وہاں رہ کر ایسا محسوس کریں گے جیسے آپ بچے ہوں اور اپنی ماں کی گود میں ہیں… اتنے نرم دل اور جلدی اعتبار کرنے والے لوگ ہیں کہ ہر شخص پر اپنے بھائی کی طرح بھروسہ کرلیتے ہیں، کیوں کہ خود صاف دل ہیں اس لئے دوسروں کو بھی اپنی طرح ہی سمجھتے ہیں۔

مدینے کے لوگوں کی انکساری

ہم نے مدینہ طیبہ کے لوگوں کی انکساری کا یہ عالم دیکھا کہ یونیورسٹی کے اساتذہ اگر اپنی کار میں جارہے ہیں اور انھوں نے آپ کو پیدل جاتے ہوئے دیکھ لیا تو فوراً آپ کے قریب لاکر گاڑی روکیں گے اور آپ کو بیٹھنے کی دعوت دیں گے… ان میں بالکل کوئی احساس برتری نہیں ہوگا کہ ہم استاذ ہیں یہ شاگرد ہیں، یا ہم بڑے ہیں یہ چھوٹے ہیں… سلام کرنے میں پہل کریں گے اور شفقت ومحبت کا معاملہ کریں گے۔

یہ ہمارے سامنے کی بات ہے کہ ایک مرتبہ شاہ فیصل یونیورسٹی میں آئے… تفسیر کے استاذ شیخ محمد امین شنقیطی درس دے رہے تھے… قریب میں ایک پرانی سی کرسی پڑی ہوئی تھی جو بوّاب یعنی چپراسی کے لئے تھی… شاہ فیصل نے اسی کرسی کو آگے کیا اور شیخ کے قریب بیٹھ گئے۔ اصرار کے باوجود دوسری اچھی کرسی پر نہیں بیٹھے اور کافی دیر تک انہماک کے ساتھ شیخ کی تقریر سنتے رہے۔

شیخ شنقیطی

شیخ شنقیطی کا ذکر آیا ہے تو دل چاہتا ہے کہ چند باتیں ان کے بارے میں عرض کردی جائیں۔ شیخ شنقیطی مالکی مسلک کے تھے، تفسیر وقرآن کا بہت اعلیٰ ذوق رکھتے تھے، اسلوب قرآن کے تعلق سے ہزاروں اشعار ادب جاہلیت کے ان کو حفظ تھے، شعر پہ شعر پڑھتے چلے جاتے تھے اور اسلوب قرآن اور اس کے انداز بیان کی اس طرح وضاحت کرتے تھے کہ قرآن کے معانی اور مطالب نکھر کر سامنے آجاتے تھے… شیخ پرانی وضع قطع کے علماء میں سے تھے لیکن نہایت روشن فکر تھے… اکثر کہا کرتے تھے کہ ہمارے علماء دین بصیرت کے ساتھ جب تک سائنسی علوم حاصل نہیں کریں گے اور ہمارے نوجوان جدید علوم سے فائدہ نہیں اٹھائیں گے اس وقت تک فکری غلبہ حاصل نہ ہوسکے گا، کیوں کہ اس وقت یورپ کے افکار دنیا میں چھائے ہوئے ہیں اور ان کا جواب ان کی زبان میں دینا ہوگا… بڑے خوش مزاج اور مشفق استاذ تھے… افسوس ہے کہ ایسے عالم سے عالم عرب بلکہ عالم اسلام محروم ہوچکا ہے۔

شیخ ناصرالدین البانی رحمة اللہ علیہ

یونیورسٹی کے اساتذہ میں ایک بڑے ممتاز استاذ شیخ ناصرالدین البانی تھے… سبل السلام کادرس انہیں کے پاس تھا… اب تو وہ اپنی تصانیف کے ذریعے عالمی شہرت حاصل کرچکے ہیں۔ وہ کہا کرتے تھے کہ میں پہلے حنفی تھااور اب حنفی مسلک کو خیرآباد کہہ چکا ہوں… اس میں شک نہیں کہ بڑے قابل اور وسیع المطالعہ عالم دین تھے۔ لیکن امام ابوحنیفہ رحمة الله عليه کے خلاف ان کی تنقید میں بڑی جارحیت تھی جو علمی تنقید کی حدود سے باہر ہوجاتی تھی… ایک مرتبہ کرسی پر بیٹھے درس دیتے ہوئے پاؤں پر پاؤں رکھے ہوئے بیٹھے تھے اورکتاب ان کے پاؤں پر رکھی ہوئی تھی… میں کھڑا ہوگیا اور کہا کہ ادب سکھانے والے کو خود باادب ہونا چاہئے، کتاب آپ کے پاؤں پر رکھی ہے… شیخ نے انکساری کے ساتھ عفواً کہہ کر معذرت کی… یہ بھی ان کی وسعت ظرفی کی بات تھی۔

شیخ عطیہ سالم رحمة اللہ علیہ

یونیورسٹی میں عربی ادب کے استاذ شیخ عطیہ سالم تھے… بڑے مستعد، بیدار مغز اور طلباء کے ساتھ شفقت کا معاملہ کرنے والے… دیکھنے میں بڑے وجیہ اور دراز قد، سنہری کمانی کا چشمہ لگائے ہوئے… زبان بڑی سلیس اور صاف تھی اوران کے درس میں طلباء بڑے شوق کے ساتھ شرکت کرتے تھے… افسوس ہے کہ کچھ عرصہ پہلے ان کا انتقال ہوچکا ہے۔

عبدالمحسن العبادرحمة اللہ علیہ

یونیورسٹی میں ایک استاذ منکسرالمزاج با اخلاق عبدالمحسن العباد تھے… عربی بہت جلدی جلدی بولتے تھے… لہجہ ایسا تھا کہ الفاظ سمجھنے میں مشکل پڑتی تھی، مگر آدمی قابل اور ذی استعداد تھے۔

شیخ العبودی رحمة اللہ علیہ

یونیورسٹی کے رجسٹرار یعنی مسجّل تھے … بڑے بیدار مغز اور وسیع المعلومات اور روشن فکر ہیں الحمدللہ حیات ہیں اور اکثرملکوں کا سفر کرتے رہتے ہیں۔ کچھ سال پہلے اسلام آباد ایک کانفرنس میں شرکت کے لئے گیاتو معلوم ہوا کہ عبودی صاحب آئے ہوئے ہیں۔ فوراً کار لے کر ان کے ہوٹل کی طرف دوڑا مگر افسوس میرے پہنچنے سے پہلے جاچکے تھے… دل کو بڑا قلق ہوا کہ ملاقات کا موقعہ نہیں مل سکا۔

شیخ بن بازرحمة اللہ علیہ

یونیورسٹی کے نائب رئیس یعنی وائس چانسلر اس زمانے میں شیخ عبدالعزیز بن باز تھے… شیخ بصارت سے محروم تھے، مگر صاحب بصیرت تھے، بڑا وسیع علم رکھتے تھے اور جچی تلی بات کیا کرتے تھے… ”نعم“ ان کا تکیہ کلام تھا، ہر جملہ پر یہ لفظ نکلتا رہتا تھا… ہم لوگ کبھی طالب علمانہ انداز میں شیخ سے الجھ جاتے تھے مگر شیخ بڑے تحمل سے جواب دیا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ عصر کی نماز انھوں نے جامعہ کی مسجد میں پڑھائی اور بھولے سے دورکعتیں پڑھاکر قبلے کی طرف پشت کرکے عصر کی تسبیحات پڑھنے لگے، کسی نے یاد دلایا تو اسی پر بناکرکے عصر کی چار رکعتیں پوری کرلیں۔ نماز کے بعد میں نے شیخ سے اس بارے میں دریافت کیا تو انھوں نے مشہور حدیث جس کو حدیث ذوالیدین کہا جاتا تھا اس کا حوالہ دیا… یہ حدیث اس طرح سے ہے کہ ایک صحابی تھے جن کا لقب لمبے لمبے ہاتھ ہونے کی وجہ سے ذوالیدین (ہاتھوں والے) پڑگیا تھا۔ ایک مرتبہ نبی صلى الله عليه وسلم نے چار رکعت والی کوئی نماز پڑھائی اور بھولے سے دو رکعت پر سلام پھیردیا، یہ صحابی جن کا لقب ذوالیدین تھا انھوں نے دریافت کیا ”أقصرت الصلٰوة ام نسیت یا رسول اللّٰہ“؟ کیا نماز اللہ کی طرف سے کم ہوئی ہے یا اللہ کے رسول آپ بھول گئے ہیں…؟ رسول پاک صلى الله عليه وسلم نے باقی دو رکعتیں پوری فرمادیں، میں نے عرض کیا یہ تو ابتدائی دور کی بات ہے جب کہ نماز اپنی اس مکمل شکل تک نہیں پہنچی تھی۔ شیخ نے کہا تمہارے پاس اس کی کیا دلیل ہے…؟ غرض اس طرح کی علمی انداز کی بحثیں ہوتی رہتی تھیں اور شیخ عقدہ کشائی فرماتے رہتے تھے… شیخ کے تعلق سے ایک قابل ذکر بات یہ ہے کہ اسی زمانے میں حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب پاکستان سے آئے ہوئے تھے تو شیخ بن باز نے ان سے سلسلہ حدیث کی سند حاصل کی۔

شیخ بن باز ۱۹۱۲ء میں ریاض میں پیدا ہوئے تھے۔ ایک مرتبہ آپ کی آنکھیں دُکھنے آگئیں جس کی وجہ سے آپ کی نگاہ کمزور ہوگئی اور ہوتے ہوتے ۱۹۳۱ء میں جب کہ آپ کی عمر بیس سال تھی پورے طور پر بینائی سے محروم ہوگئے۔

مگر بینائی سے محرومی ان کی تعلیم کے راستے میں رکاوٹ نہیں بن سکی۔ نوعمری میں ہی آپ نے قرآن مجید حفظ کرلیا تھا… اور ستائیس سال کی عمر میں علوم شرعیہ سے فارغ ہوگئے تھے۔ فراغت کے بعد آپ کو ”خرج“ کے علاقے میں قاضی مقرر کردیاگیا۔

عدالت کی ذمہ داریوں کے باوجود آپ نے درس و تدریس کا سلسلہ جاری رکھا۔ ۱۹۵۴ء میں شیخ بن باز خرج سے ریاض منتقل ہوگئے اور وہاں بھی آپ نے درس و تدریس کا سلسلہ جاری رکھا جب ۱۹۵۵ء میں ریاض میں ”کلیة الشریعہ“ کا قیام عمل میں آیا تو شیخ بن باز وہاں درس دینے لگے۔ ۱۹۶۲ء میں آپ مدینہ یونیورسٹی کے پہلے وائس چانسلر مقرر ہوئے اور نو سال کے بعد آپ کو چانسلر بنادیاگیا۔ پانچ سال تک بن باز صاحب مدینہ یونیورسٹی کے چانسلر رہے۔

اسکے بعد آپ کو مملکة سعودیہ کا مفتی اعظم مقرر کیاگیا۔ آپ کی خصوصیت یہ رہی کہ آپ نے کسی کی پروا کیے بغیر ہمیشہ حق کے مطابق بات کہی، اسلئے آپ کے فتاویٰ انتہائی معتبر سمجھے جاتے تھے۔

بہ حیثیت ایک طالب علم کے حضرت شیخ بن باز کی زندگی کے مختلف گوشوں کا میں نے مطالعہ کیا ہے۔ ان کے جذبات بڑے تعمیری تھے۔ عالم اسلام کے اتحاد کے ہمیشہ متمنی رہتے تھے۔ افسوس ہے عالم اسلام کا یہ مایہ ناز سپوت ۱۳/مئی ۱۹۹۹ء کو طائف میں اہل علم کو یتیم کرکے دنیا سے رخصت ہوگیا۔ مکہ مکرمہ کی مسجد حرام میں بعد نماز جمعہ ان کی نماز جنازہ ادا کی گئی اور ”اُم القریٰ“ کے تاریخی قبرستان ”جنة المعلّٰی“ میں علم کے اس خزانے کو دفن کردیاگیا۔

مولانا مودودی مرحوم سے ملاقات

مدینہ طیبہ کے زمانے میں مولانا مودودی سے ملنے کااتفاق ہوا مگر بڑے عجیب انداز سے۔ ہوا یہ کہ مغرب کی نماز کے لئے مسجد نبوی میں پہنچا تو نماز کھڑی ہوچکی تھی، حاجیوں کی آمد کا زمانہ شروع ہوچکا تھا، اس لئے مسجد بھرجاتی تھی اور نماز کی صفیں باہر سڑک تک پہنچ جاتی تھیں۔ میں جب پہنچا تو باب مجیدی کے باہر صف میں جگہ ملی۔ میں نے دیکھا کہ میرے برابر میں ایک صاحب ململ کا کرتا اور اونچے باڑ کی بالوں والی ٹوپی پہنے ہوئے نماز پڑھ رہے ہیں، میں نماز کے بعد ان کو دیکھتا رہا… میں نے کبھی نہ تو مولانا مودودی کو دیکھا تھا، نہ ان کی تصویر دیکھی تھی… میرے ذہن میں ان کا تصور کچھ ایسا تھا جیسے اس زمانے میں ہفت روزہ چٹان میں عطا ء اللہ شاہ بخاری کی تصویر چھپا کرتی تھی… مگر اس روز ان صاحب کو اپنے برابر میں نماز پڑھتا دیکھ کر نہ جانے کیوں بار بار یہ خیال ہوتا رہا کہ کہیں یہ مولانا مودودی تو نہیں ہیں۔ نماز کے بعد بھائی رشید الوحیدی مل گئے، میں نے ان سے کہا کہ مجھے لگتا ہے مولانا مودودی آئے ہوئے ہیں اور پھر میں نے ان کو یہ بات سنائی۔ اس وقت مدینے میں مسجد نبوی کے قریب بس دو ہی ہوٹل ہوا کرتے تھے، جس میں زیادہ مشہور ”قصر المدینہ“ تھا… بھائی رشید کہنے لگے ان دونوں ہوٹلوں میں دیکھ لیتے ہیں پتہ لگ جائے گا۔مسجد کے بالکل سامنے قصرالمدینہ تھا، ہم لوگ پہلے وہیں پہنچے اور کاؤنٹر پر جاکر معلوم کیا تو پتہ لگا کہ مولانا مودودی فلاں کمرے میں ٹھہرے ہوئے ہیں، ہم لوگ اس کمرے میں پہنچے اور مولانا سے ملاقات کی، تعارف ہوا، تو دیوبند اور چچا عامر عثمانی کے حوالے سے مولانا بہت خوش ہوئے، ہم نے ان سے کہا کہ یونیورسٹی کے بارے میں جو مضامین ہم نے پڑھے تھے اور جو تعارف ہمارے سامنے آیا تھا وہ معیاری تھا، لیکن یہاں وہ علمی رنگ اور وہ وسعت جو ہمارے خیال میں تھی نظرنہیں آئی۔ مولانا نے اس کے جواب میں فرمایا کہ جب یونیورسٹی قائم ہورہی تھی تو شاہ سعود نے مجھ سے اس کا خاکہ تیار کرنے کے لئے کہا تھا، میں نے جو نقشہ تیار کیا تھا وہ ایک عالمی یونیورسٹی کا تھا، لیکن شاہ کی مجبوری یہ ہے کہ وہ ملکی علماء کو نظر انداز نہیں کرسکتے اور پھر انھوں نے ایک رسالہ ”المسلمون“ جنیوا سے شائع ہوتا تھا وہ ہمیں دیا کہ آپ اس کو پڑھیں، اس میں یونیورسٹی کا وہ خاکہ اورپوری تفصیلات موجود ہیں۔ اس کے ساتھ انھوں نے کہا کہ آپ اس کو غنیمت سمجھیں کہ آپ کو اس بہانے مدینہ طیبہ میں قیام کی سعادت حاصل ہوگئی ہے… بہرحال یہ ملاقات جو عجیب انداز میں ہوئی تھی، بڑے خوش گوار ماحول میں ختم ہوئی۔

قیام مدینہ کا ایک حیرت انگیز واقعہ

قیام مدینہ کے زمانے میں ایک بڑا حیرت انگیز واقعہ میرے ساتھ پیش آیا… ہوا یہ کہ کچھ حساب کتاب کی وجہ سے یونیورسٹی کی اسکالرشپ کئی مہینے تک کسی کو نہیں مل سکی… ہمارے پاس تھوڑے سے پیسے تھے جو جلد ہی ختم ہوگئے۔ جس دن آخری ریال ہمارے پاس تھا تو یہ سوچ کر کھانا کھانے کے لئے گئے اور اکثر ہم ”مطعم پاکستان“ کے نام سے مسجد نبوی کے سامنے ایک ہوٹل تھا اسی میں کھانا کھایا کرتے تھے، جس کے مالک بڑے لمبے چوڑے کالے رنگ کے تھے، مگر خوش اخلاق تھے اور کھانا بھی ان کے یہاں اچھا ملتا تھا، اس زمانے میں دس قرش میں ایک پلیٹ سالن کی آجاتی تھی اور چار قرش کی موٹی سی روٹی جس کو ”عیش“ کہتے تھے مل جاتی تھی۔ اس طرح چودہ قرش میں آرام سے پیٹ بھرجاتا تھا اور ایک ریال میں بیس قرش ہوتے تھے… اس دن ہم نے باقی چھ قرش کی بڑی سی گلاب جامن بھی کھائی اورآخری ریال ہوٹل والے کے حوالے کرنے کے لئے چلنے ہی والے تھے کہ ہوٹل کے مالک نے کہا آپ کافی دنوں سے ہمارے یہاں کھانا کھاتے ہیں، حساب کیوں نہیں کھول لیتے…؟ میں نے کہا بھائی آج کل پیسے نہیں مل رہے ہیں اور معلوم نہیں کب ملیں گے، پھر آپ تقاضہ کریں گے، ہوٹل کے مالک نے کہا کہ جب پیسے آئیں گے دے دینا، تقاضا نہیں کروں گا اور یہ کہہ کر کاپی اس نے میرے سامنے رکھ دی کہ جاتے ہوئے اس صفحہ پر اپنا حساب لکھتے جایا کریں۔ آج یہ بڑی عجیب بات تھی، اتنے دنوں سے ہم اس کے یہاں کھانا کھاتے تھے اور نقد پیسے ادا کردیتے تھے، آج ادھار پر اصرار ان کی طرف سے ہورہا تھا اور ہم بچ رہے تھے۔ جب انھوں نے کئی بار اصرار کیا تو ہم نے یہی سمجھا کہ یہ دراصل اللہ کی طرف سے شہر رسول صلى الله عليه وسلم میں ہماری مہمانی کا انتظام ہے، یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ہم ان کے شہر میں ہوں اور بھوکے رہ جائیں، اللہ کا شکر ادا کرکے کھانا کھاتے رہے، جب پیسے آئے تو ہوٹل والے کو ادا کردئیے۔

ایک بات جو وہاں کے لوگوں میں ہم نے دیکھی وہ ہے ایک دوسرے پر اعتماد اور حسن ظن کبھی ایسا نہیں ہوتاتھا کہ ہم نے کاپی پر حساب لکھا ہو اور ہوٹل مالک نے اس کو چیک کیا ہو کہ غلط تو نہیں لکھ گئے۔ مدینے کی فضاؤں میں یہ باہمی اعتماد اتنی بڑی نعمت ہے جو وہاں کے معاشرے کو پاکیزگی سے ہم کنار کرتی ہے۔

وہاں بعض دوکانیں ایسی ہیں کہ ان میں ہر مال پانچ ریال یا دس ریال میں ملتاتھا… آپ بیگ لے کر جو سامان پسند آئے اس میں ڈالتے چلے گئے، واپسی میں دوکان دار کو بتادیجئے کہ کتنے عدد ہیں، اس کے مطابق وہ پیسہ لے لے گا، کبھی یہ نہیں کہے گا کہ دکھاؤنا اتنے ہی ہیں زیادہ تو نہیں۔ اس باہمی اعتماد سے عجیب سی یگانگت اورمحبت پیدا ہوتی ہے… اس لئے علامہ اسعد (لیوپونڈویس) نے بالکل ٹھیک کہا کہ یہ محبت کا شہر ہے۔

جدہ ریڈیو پر

اسی زمانے میں ہم نے مدینہ یونیورسٹی پر ایک چھوٹی سے کتاب لکھی اوراس کو چھپوایا۔ ہندوستان میں بھی اور سعودی عرب میں بھی اس کے بڑے چرچے رہے۔ جدہ ریڈیو سے شام کو اردو کا پروگرام آیا کرتا تھا، اس میں کئی بار اس کتاب کے بارے میں بڑا اچھا پروگرام نشر کیاگیا، پہلے جدہ ریڈیو پر اردو پروگرام کے ڈائرکٹر مولانا عبداللہ عباس ندوی تھے جو بعد میں ام القریٰ یونیورسٹی میں چلے گئے اور آج کل ندوة العلماء لکھنو * کے ”معتمد تعلیم“ بھی ہیں… ان کی جگہ پر نثار احمد ندوی اردو پروگرام میں آگئے تھے، ہمارے بھی بہت سے پروگرام مختلف موضوعات پر جدہ ریڈیو سے نشر ہوتے رہتے تھے… اس وقت ریڈیو اسٹیشن کسی بڑی عمارت میں نہیں تھا، شہر کے اندر ہی تھا۔ کیوں کہ سعودی عرب کی ترقیات اس وقت شروع ہی ہوئی تھیں… نثار صاحب کو ہمارا انداز پسند آیا تھا، انھوں نے کہا کہ آپ ریڈیوپر آجائیں، مجھے امید ہے کہ آپ کو آسانی سے لے لیا جائے گا۔ ہم نے کہا کہ تعلیم سے فارغ ہولیں تو پھر دیکھیں گے کہ کیا کرنا ہے۔

مدینہ یونیورسٹی پر ہم نے جو چھوٹی سی کتاب لکھی تھی وہ یونیورسٹی میں بھی پسند کی گئی… ہندوپاک کے جو لوگ یونیورسٹی دیکھنے آتے تھے ان کو اردو کا یہ پمفلٹ یونیورسٹی کی طرف سے دے دیا جاتا تھا۔ یونیورسٹی نے ہم کو اس پر چھ سو ریال کا انعام بھی عطا کیا… مگر ایک واقعہ ایسا پیش آیا کہ جس کی وجہ سے ہم نے نقد انعام کے بجائے اس کی کتابیں لینی پسند کیں… ہوا یہ کہ جب یہ انعام ہمارے لئے منظور ہوا تو ہم شیخ بن باز کے کمرے میں ان سے ملنے کے لئے اور ان کا شکریہ ادا کرنے کے لئے گئے جیساکہ بتایا گیا کہ شیخ نابینا تھے، جب ہم ان کے کمرے میں داخل ہونے لگے تو ایک صاحب جو مسلکاً اہل حدیث تھے، دروازے کی طرف پشت کئے ہوئے شیخ کے سامنے بیٹھے تھے اور ہمارے بارے میں شیخ کو الٹی سیدھی پٹی پڑھانے کی کوشش کررہے تھے… ہم دروازہ کھول کر اندر جانے لگے تو چوں کہ ان کی پشت دروازے کی طرف تھی، انہیں ہمارے آنے کا پتہ نہیں لگا اوران کے کچھ جملے ہم نے سن لئے… ہمیں بڑا غصہ آیا اور شیخ کے سامنے ہی ان کی اچھی خاصی خبر لی، ہم نے شیخ سے کہا کہ غالباً یہ لوگ سمجھ رہے ہیں کہ ہم نے پیسوں کے لئے یہ کتاب لکھی ہے، آپ ہمیں نقد انعام کے بجائے کتابیں دیدیں تو زیادہ بہتر ہے۔

نجد کے لوگ زیادہ تر حنبلی ہیں اور تنگ ذہن نہیں ہیں… یونیورسٹی کا ماحول بڑا پرسکون اور پرامن رہتا تھا… کبھی کبھی بڑی دلچسپ اور لطیف انداز کی نوک جھونک بھی ہوجاتی تھی۔ ایک سال کے بعد جب ہم چھٹیوں میں ہندوستان آئے تو ہمیں شادی کے بندھن میں باندھ دیا گیا۔ ۱۵/جولائی ۱۹۶۲ء کو ہماری شادی ہوئی اوراگست کے پہلے ہفتے میں چھٹیاں ختم ہونے پر واپس آنا پڑا رمضان المبارک کے مہینے میں ایک روز ایک صاحب نے بلیک بورڈ پر قرآن مجید کی یہ آیت خوش خط لکھ دی …: احل لکم لیلة الصیام الرفث الی نسائکم ہن لباس لکم وانتم لباس لہن (حلال کیاگیا ہے تمہارے لئے رمضان کی راتوں میں لطف اندوز ہونا اپنی بیویوں سے وہ تمہارا لباس ہیں اور تم ان کا لباس ہو) کلاس عبدالمحسن العباد کی تھی… ہم نے احتجاج کیاکہ یہ آیت بلیک بورڈ پر لکھ کر ہمارے جذبات کو ٹھیس پہنچائی ہے، کیوں کہ ہم اپنی بیویوں کے دور ہونے سے اس اجازت سے فائدہ نہیں اٹھاسکتے،اس پر بہت ہنسی اور قہقہے ہوئے اور شیخ بھی اس سے لطف اندوز ہوئے۔

مولانا علی میاں رحمة اللہ علیہ سے ملاقات

یوں تو ہم مولانا ابوالحسن علی ندوی کو اس زمانے سے جانتے تھے،جب وہ دارالعلوم دیوبند کی مجلس شوریٰ میں شرکت کے لئے آیا کرتے تھے… اس وقت وہ نوجوان تھے او رہم لوگ طالب علمی کی زندگی گذاررہے تھے… مولانا سے ملاقات کرکے ہم طلباء کو بڑا مزہ آیا کرتا تھا کیوں کہ مولانا ہمارے ساتھ بہت بے تکلفی سے پیش آتے تھے… قیام مدینہ کے زمانے میں مولانا کا حج کے لئے تشریف لانا ہوا تو یہیں ان کے ساتھ حج کرنے کی سعادت نصیب ہوئی… منیٰ میں ان کا اور ہمارا خیمہ برابر برابر تھا درمیان میں ایک جگہ نماز پڑھنے کے لئے اور نشست و برخاست کے لئے چھوڑی ہوئی تھی۔ ایک دن کا واقعہ ہے مولانا عصر کی نماز سے پہلے اس جگہ میں بیٹھے ہوئے کچھ لکھ رہے تھے، ہم بھی ان کے پاس جاکر بیٹھ گئے۔ اور ان کو لکھتا ہوا دیکھتے رہے، جب وہ ہماری طرف متوجہ ہوئے تو ہم نے ان سے کہا کہ آپ چائے پئیں گے…؟ مولانا نے کہا کہ ہاں پلاؤ، تھکن معلوم ہورہی ہے۔ ہم باہر کے ہوٹل سے ان کے لئے چائے لے کر آئے، پرانی سی کیتلی تھی اور فنجان بھی کچھ زیادہ اچھے نہیں تھے، ابھی ہم نے چائے لاکر رکھی ہی تھی کہ اتنے میں مولانا کے میزبان جو غالباً سعودیہ کے ہی رہنے والے تھے بہت خوبصورت ٹرے میں نفیس قسم کے فنجان اور خوبصورت کیتلی کے ساتھ چائے لے کر آئے… اس چائے کے مقابلے میں ہماری چائے بہت معمولی نظر آرہی تھی… مولانا نے ہمارے چہرے کی طرف دیکھا اور پھر بڑی اپنائیت کے ساتھ دوسرے آنے والوں سے کہا کہ آپ لوگ چائے لیجئے، ہم تو ہلال میاں کی چائے پئیں گے… بات معمولی سی تھی لیکن مولانا کی شفقت اور ان کے بلند اخلاق کا نہ مٹنے والا نقش ہمارے دل پر چھوڑگئی… کبھی لکھنوٴ جانا ہوتا تھا پرسنل لاء بورڈ کی میٹنگ میں شرکت کے لئے تو مولانا کے وہی دل کو موہ لینے والے انداز ہوتے تھے… برابر میں بیٹھے ہوئے کچھ نہ کچھ سامنے رکھ دینا اور بڑی محبت سے کہنا کہ بھئی یہ بھی تو کھائیے… یہ حسن اخلاق اور بلند کردار اور یہ شفقت اور مروت ومحبت اس کے نمونے اب کہاں نظر آتے ہیں۔

مولانا سید محمود صاحب سے ملاقات

مدینہ طیبہ کے قیام کا ذکر ادھورا رہ جائے گا اگر وہاں کی ایک انتہائی محترم شخصیت مولانا سید محمود صاحب کا تذکرہ نہ کیاگیا… مولانا سید محمود صاحب شیخ الاسلام مولانا سیدحسین احمد مدنیرحمة الله عليهکے حقیقی چھوٹے بھائی تھے… حکومت اور عوام سب جگہ انتہائی عزت اور احترام کی نظر سے دیکھے جاتے تھے… ان کے بیٹے سید حبیب صاحب مدینہ کے گورنر رہ چکے تھے۔ مولانا سید محمود صاحب کا تعلق حضرت مولانا سیدبدرعالم صاحب سے بھی بڑا عقیدت مندانہ تھا۔ اکثر ملاقات کے لئے تشریف لایا کرتے تھے اور وہاں ہمیں بھی ملنے کا موقع ملتا تھا، بلکہ باب مجیدی کے قریب وہ مکان جس میں مولانا بدرعالم صاحب کا قیام تھا وہ سید محمود صاحب کا ہی تھا۔

ایک واقعہ قابل ذکر ہے کہ ایک مرتبہ گرمیوں کے موسم میں میں اور بھائی رشید صاحب سیدمحمود صاحب کے مکان پر ان سے ملاقات کے لئے گئے… ان کا مکان مسجد ابوبکر کے قریب تھا، وقت بھی گرمی کا تھا اور موسم بھی… ہم جب ملاقات کے کمرے میں پہنچے تو سیدمحمود صاحب کمرے میں پسینے میں نہائے ہوئے بیٹھے تھے۔ ہمارے پہنچنے پر انھوں نے ایئرکنڈیشنڈ آن کردیااور چند منٹ میں کمرہ ٹھنڈا ہوگیا… ہمارے لئے بہت عمدہ قسم کا شربت منگوایا اور محبت آمیز گفتگو فرماتے رہے… ہم نے ہمت کرکے عرض کیا کہ سید صاحب ہم لوگ جب حاضر ہوئے تو آپ پسینے میں نہائے بیٹھے تھے، ایئرکنڈیشنڈ ہوتے ہوئے آپ گرمی میں بیٹھے رہے، ہم لوگوں کو اس پر حیرت ہے۔

اس کے جواب میں سید صاحب نے جو فرمایا وہ بڑا نصیحت آمیز ہے… کہنے لگے کہ جب ہم مدینہ طیبہ میں آئے تو بڑی مفلسی کی حالت تھی، ایک چھوٹا سا مکان اپنے ہاتھوں سے بنایا تھا وہ اب بھی موجود ہے، کبھی آپ کو لے جاکر دکھائیں گے، میں مشینوں کا کام جانتا تھا، محنت کرتاتھا اور آہستہ آہستہ ترقی کرتا گیا، آج آپ محل نما مکان دیکھ رہے ہیں، کبھی کبھی دل چاہتا ہے اپنے نفس کو یہ بات یاد دلادی جائے کہ کبھی تمہاری کیا حالت تھی، بس اسی خیال سے پسینہ آنے کے باوجود اے سی نہیں چلایا کہ پرانی یاد تازہ رہے اور اس عیش وعشرت کی عادت نہ پڑجائے… سید صاحب کی خودداری کا یہ عالم تھا کہ ایک مرتبہ شاہ سعود کی دعوت کی، دعوت کے بعد شاہ نے اپنی طرف سے ایک اعلیٰ ترین کار تحفے میں بھیجی۔ سید صاحب نے یہ کہہ کر واپس کردی کہ ہم دعوت کی قیمت نہیں لیتے۔ شاہ نے اس کے جواب میں فرمایا کہ ہم اپنے بھائی کو منانا جانتے ہیں… جس شخص کی عزت اور احترام کا یہ عالم ہو وہ اپنے پرانے وقت کو یاد رکھے اس سے بڑھ کر اعلیٰ کردار کون سا ہوسکتا ہے۔

آخری بات

مدینہ منورہ کا قیام اپنے ساتھ اتنی یادیں اور باتیں لئے ہوئے ہے کہ اس کا ذکر ختم کرنے کو دل نہیں چاہتا… وہاں کے لوگوں کا اخلاق، ان کی مروت، ان کی سخاوت، حقیقت یہ ہے کہ عرب کے لوگ اپنی فطرت کے اعتبار سے بہت اچھے ہیں۔ ان میں اتنی خوبیاں ہیں جو بہت کم لوگوں میں پائی جاتی ہیں۔ تعصب نام کی کوئی چیز وہاں نہیں ہے، ذات برادری کا کوئی تصور نہیں ہے بس ایک رشتہ جو سب کو جوڑے ہوئے ہے… اخوت، مساوات اور ایمان کا وہ مضبوط رشتہ جو ایل ایمان کو سیسہ پلائی ہوئی دیوار بنادیتا ہے… وہ دن جو مدینہ کی پرنور، پاکیزہ فضا میں گذرے کبھی بھلائے نہیں جاسکتے… بقول شمیم جے پوری مرحوم۔

پھر آج تک ہوا نہ میسر کہیں شمیم

جو زندگی کا لطف مدینے میں آگیا

عمر کے اس آخری مرحلے میں تمنا ہے کہ دنیا کی زندگی کا جو وقت بھی اللہ کی طرف سے دیاگیا ہے وہ اس نورانی شہر میں گذر جائے اور جنت البقیع کے قبرستان کی مٹی میں میرا یہ بدن سماجائے… آمین۔

***

ماهنامه دارالعلوم ، شماره 3 ، جلد: 94 ربيع الاول – ربيع الثانى 1431 هـ مطابق مارچ 2010 ء

Related Posts