عیسائی مشینریز کی تباہ کاریاں (۱)

از: مفتی ابرار متین بیگ قاسمی ، بنگلور

علم، ہنر اور مزدوری یہ تینوں ایسی چیزیں ہیں جن کی علیحدہ علیحدہ حیثیت ہے نظام کائنات یا یہ کہ انسانی ضروریات کے دنیا کے نظام میں ان تینوں چیزوں کی بڑی ہی اہمیت اور ایک ناگزیر ضرورت ہے نہ کوئی شخص علم کی ضرورت اور اس کی افادیت کا انکار کرسکتا ہے اور نہ کوئی شخص ہنرمندی اور مزدوری والے پیشہ کا اور اس کی اہمیت کا انکار کرسکتا ہے ہر ایک کی اپنی اپنی جگہ مختلف مواقع اور مختلف اوقات میں بڑی اہمیت وضرورت ہے۔

علم ، ہنر اور مزدوری میں بھی ضرورت، اہمیت اور فوقیت کے اعتبار سے ترتیب وار سب سے پہلے نمبر پر علم کی ضرورت درکار ہے پھر ہنرمندی اور اس کے بعد پیشہ کی اوریہ علم کی فوقیت، اہمیت اور ضرورت کے اعتبار سے اس شخص پر ہمیشہ برقرار رہے گی جو علم والی کیفیت سے نا آشنا اور محروم ہو، ہاں! کوئی ذات اور شخصیت ایسی ہوجو ہنرمندی اور مزدوری والے پیشہ کے علاوہ وہ علم والی عالی صفت سے بھی آراستہ و پیراستہ ہوتو وہ شخص اب ہنرمندی اور پیشہ گری کی وجہ سے چھوٹا نہیں ہوسکتا اور فی نفسہ فقط ہنرمندی اور فقط مزدوری والی کیفیت بھی بری اور حقیر نگاہ سے نہیں دیکھی جاسکتی، اس لئے کہ دنیا میں اسلام ہی ایک ایسا کامل ومکمل مذہب ہے جس نے ہر طبقہ والوں کو عزت و توقیر کی صفت سے ایک الگ طرح کا اعزاز بخشا ہے اگر کوئی طبقہ حرفت وصنعت کا حامل ہے تو اسے بھی عزت کی نگاہ سے دیکھا گیا ہے اسی طرح اگر کوئی طبقہ مزدوری والے پیشہ سے تعلق رکھتا ہے تو اسے بھی عزت کی نگاہ سے دیکھا گیا ہے وہ اس لئے کہ دنیا میں جتنے انبیاء علیہم الصلوٰة والسلام آئے سبھی نے علم والی اعلیٰ صفت سے مزین ہونے کے بعد دنیا کے گزربسر یا کوئی اور غرض سے حرفت وصنعت کو بھی اختیار کیا ہے اور مزدوری والے پیشہ کو بھی اختیار کیاہے جیسا کہ حضرت داؤد علیہ الصلوٰة والسلام نے حرفت وصنعت میں لوہے کی”زرہ“ بنانے کا کام انجام دیا اور حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہم الصلوٰة والسلام نے مزدوری کے غرض سے نہ سہی اعلاء کلمة اللہ اور احیاء اسلام کے لئے کعبة اللہ کی تعمیر کی اوراسی طرح حضرت موسیٰ علیٰ نبینا علیہ الصلوٰة والسلام اور خود سیدالانبیاء خاتم الانبیاء محمد عربی صلی اللہ تبارک وتعالیٰ علیہ وسلم نے بکریوں کو ہانکنے اور تجارت والا پیشہ انجام دیا۔ لہٰذا نہ تو حرفت وصنعت والا معاشرہ کے اندر کم نگہی سے دیکھا جاسکتا ہے اور نہ مزدوری پیشہ والا بے وقعتی اوربے اہمیتی سے دیکھا جاسکتا ہے ان سب حقیقتوں کے باوجود علم والے کی خاص طور پر علم دین اور علم شریعت رکھنے والوں کی ایک علیحدہ اہمیت ہے اور اللہ کی جانب سے عطا کردہ خاص نعمت کی وجہ سے فوقیت بھی حاصل ہے جو حرفت وصنعت اور مزدوری پیشہ والے کو حاصل نہیں جس کے ماننے میں کسی کو کسی طرح کا تردد وتأمل نہیں ہونا چاہئے۔ (ذلک فضل اللّٰہ یعطیہ من یشاء) یہ اللہ کا (خاص) فضل ہے وہ جسے چاہے عطا کرتا ہے۔

دنیوی و دینی تعلیم کی تقسیم

یہ بات تو واضح ہے کہ حقیقی علم تو وہی ہے جو ایک انسان کو اپنے حقیقی خالق ومالک سے روشناس کرادے اوراسے زندگی کے حقیقی مقصد سے جوڑ دے اللہ کی پہچان کرانے کے لئے اور زندگی کے مقصد سے روشناس کرانے کے لئے علم شریعت درکار ہے لیکن یہاں یہ سوال پیداہوتا ہے کہ کیا علم شریعت کے علاوہ مختلف دنیوی علوم کو بھی علم کی فہرست میں رکھاجاسکتا ہے یا نہیں؟ بعض علماء کرام تو یہ کہتے ہیں کہ علم دین علم شریعت کے علاوہ دنیا کے تمام علوم کو علم کی فہرست میں رکھا نہیں جاسکتا اور بعض علماء کرام یہ کہتے ہیں کہ علم کا اطلاق مطلق طورپر دنیوی علوم پر بھی کیا جاسکتا ہے اور دینی علوم پر بھی کیا جاسکتا ہے اس لئے کہ جب حضرت آدم علیٰ نبینا علیہ الصلوٰة والسلام کو اللہ کی جانب سے جن اسماء یعنی دنیوی ناموں اور ان چیزوں کے خواص و آثار کا علم دیا گیا تھا تو اس کا تعلق دینی علم یا شریعت کے علم سے نہیں تھا لہٰذا یہاں یہ بات معلوم ہوئی کہ علم کا اطلاق جس طرح علم شریعت پر کیاجاسکتا ہے۔ دنیوی علوم پر بھی کیاجاسکتا ہے، جس کی وضاحت حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی رحمة الله عليه نے اپنی تفسیر ”بیان القرآن“ ۱،۲ص:۱۹ میں کی ہے جیساکہ حضرت خود رقم طراز ہیں کہ (اور علم دیا اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو (ان کو پیدا کرکے) سب چیزوں کے اسماء (مع ان چیزوں کے خواص(۱) وآثارکے غرض تمام روئے زمین کے اسماء خواص کا علم دیدیا)۔ لہٰذا اس تفسیر کو سامنے رکھتے ہوئے یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ دنیا کے مختلف علوم خواہ اس کا تعلق سیادت و سیاست سے ہو یا فن طب یا فن ریاضی سے یا یہ کہ اس کا تعلق علم منطق یا فلسفہ سے ان سب پر علم کا اطلاق کیا جاسکتا ہے۔

ایک ضروری وضاحت

یہ بات واضح رہنی چاہئے کہ جو شرافت وفضیلت علم دین کے حاصل کرنے والوں کو حاصل ہے وہ دیگر علوم وفنون کے حاصل کرنے والوں کو نہیں ہے کیونکہ حقیقی علم تو وہی ہے جو اللہ تبارک وتعالیٰ کی تعریف و توصیف اوراس کے احکامات ومنہیات کاتعاون کرائے اور زندگی کے حقیقی مقصد اور نجات ابدی کا سامان فراہم کرے اس کے علاوہ جو علوم وفنون جو صرف عارضی زندگی میں یا عارضی مسائل کو حل کرنے میں معین ومددگار ہوتے ہیں وہ ابدی اور حقیقی زندگی کے سامان فراہم کرنے کے علوم وفنون کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔

یہ وہ چند گزارشات تھیں جن کا یہاں ذکر کردینا ازحد ضروری معلوم ہوا تاکہ ہر کس وناکس کو علوم و فنون، حرفت وصنعت، مزدوری کا پیشہ دنیوی و دینی علم کی تقسیم اوران کے درمیان فضیلت جیسے موضوعات پر سرسری انداز سے علم ہوجائے تاکہ اس کتاب کے اگلے مضمون کو سمجھنے میں کچھ نہ کچھ معین و مددگار ثابت ہو اور ایک دلی ڈھارس کا سامان مہیا ہو۔

دینی تعلیم کی ضرورت – تعلیمی جنگ کا آغاز ہوچکا ہے

اس کتاب کا اصل مقصد تو عیسائی مشنری اسکولس کی تعلیم اوراس کے مزاج و مذاق اوراس کی سازشی تربیت اوراس کے اثرات کو بیان کرنا ہے لیکن جب علم کی بات آہی گئی ہے تو مطلق ضرورت تعلیم کے تحت دنیوی تعلیم کی ضرورت کے ساتھ ساتھ دینی تعلیم کی ضرورت کو بھی بیان کردیا جائے تاکہ فی زمانہ مطلق تعلیم کی ضرورت بھی سامنے آجائے۔

یوں تو دینی تعلیم کی ضرورت پر بہت سارے ایسے موضوعات اور ان کے تحت ذیلی موضوعات ہیں جن کے اجمالی تفصیل کی بھی یہاں گنجائش نہیں، ہاں کچھ باتیں ایسی ہیں جن کا یہاں سرسری انداز میں ذکر کرنا ضروری ہے۔

جہاں اس دنیا کے اندر دنیوی تعلیم اوراس کے صحیح نظام تعلیم کی ضرورت ہے اس سے کہیں زیادہ دنیوی تعلیم گاہوں میں دینی تعلیم اور دینی نظام تعلیم بھی ازحد ضروری ہے جس سے تعلیمی اوراخلاقی انحطاط کی تیزرفتاری میں کمی واقع ہو، بعض دینی مدارس ومکاتب میں تعلیمی انحطاط تو ضرور ہوسکتا ہے مگر عقائد اسلامیہ کے اعتبار سے یا اخلاقی وروحانی اعتبار سے یا یہ کہ صحیح فکر وصحیح نظر کے اعتبار سے کمی یا انحطاط معلوم نہیں ہوتا اگر کسی ایک مدرسہ یا ایک مکتب میں یا یہ کہ ایک دو طالب علموں میں اس قسم کی کمی ہوسکتی ہے بقیہ مدارس ومکاتب میں اس قسم کی کمی محسوس نہیں ہوسکتی لیکن جب کبھی دنیوی تعلیم گاہوں کی بات آتی ہے تو سب سے پہلے وہاں کے تعلیمی معیار کی Standard کی بات ضرور آتی ہے اور لوگ بھی فقط معیار تعلیم کے علاوہ دوسرے اہم وحساس پہلوؤں کو کبھی جان بوجھ کر نظر انداز کردیتے ہیں یا کبھی جانے بغیر غفلت کا شکار ہوتے ہیں کیوں کہ بچوں کے یہ سرپرست Parents معیار تعلیم کو ہی سب کچھ جانتے اور مانتے ہیں معیار تعلیم کے علاوہ دوسرے حساس پہلوؤں کو نہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں، نہ ماننے کی ادنیٰ سی زحمت گوارہ کرتے ہیں وہ اس لئے کہ معیار تعلیم کا تعلق اپنی ذاتی مفاد و حیثیت سے ہوتا ہے۔مختصر انداز میں اس کو اس طرح بیان کیا جائے تو کوئی حرج اورکوئی نا انصافی نہیں ہوگی کہ معیار تعلیم کا تعلق صاف صاف انداز میں مادہ پرستی یا مادیت کے رجحان، میلان اور جھکاؤ سے ہوتا ہے وہ اس طور پر کہ اگر لڑکے کی ابتدائی تعلیم اچھی ہوگی تو سیکنڈری Secondry تعلیم بھی اچھی ہوگی، جب سیکنڈری تعلیم اچھی ہوگی تو خود بخود ڈگری کی تعلیم اچھی ہوگی، جب ڈگری کی تعلیم اچھی ہوگی تو اس سے اونچی تعلیم بھی اچھی ہوگی جسے Higher Education کہاجاتا ہے۔

جب اعلیٰ قسم کی تعلیم سے فراغت ہوگئی تو لڑکے اور لڑکے کے والدین کو ایک خاص قسم کی فکر سوار ہوگی کہ دیرینہ محنت اور دیرینہ کدوکاوش کا صلہ کہیں ایسے ہی ضائع نہ ہو بلکہ اعلیٰ تعلیم کے صلہ میں لڑکے کے لئے ایسی نوکری کی تلاش و جستجو رہتی ہے جس سے کہ یہ موٹی رقم ہر ماہ وصول کرسکے، بلکہ سادہ الفاظ میں یہ کہہ لیجئے کہ اب والدین لڑکے کوایسی مرغی سمجھتے ہیں کہ جو ہر روز سونے کا انڈا دے اور اچھی خاصی رقم حاصل کرنے کا ذریعہ بنے۔ بہرحال لڑکے کو اس اسٹیج تک پہنچانے کیلئے والدین اور سرپرستوں کو معیار تعلیم کی ضرورت رہتی ہے جسے وہ پورا کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھتے۔ تعلیم کے ختم کرنے کے بعد جب اچھی خاصی نوکری مل جاتی ہے تو لڑکے کے والدین کے حق میں اورایک کام باقی رہ جاتا ہے تاکہ اس کے ذریعہ بھی معیار تعلیم کی رہی سہی پوری قیمت بلکہ Convent کے زمانے سے لے کر اعلیٰ تعلیم کے اختتام تک جتنی رقم خرچ کی جاچکی ہے اسے سود ہی نہیں بلکہ ”سود درسود“ سمیت وصول کیاجاسکے اور وہ مرحلہ لڑکے کی شادی کا ہوتا ہے جس سے لوگ اپنے لڑکے کی ”دولہا بکتا ہے بولو خریدوگے“ والے نعرے کے تحت بازار میں بولی لگاتے ہیں اوراسے اچھی خاصی رقم کے تحت فروخت بھی کردیتے ہیں۔ الغرض یہ تمام باتیں اچھی نوکری کا ملنا اوراچھی نوکری کے ساتھ اچھی خاصی دودھ دینے والی بھینس کی طرح لڑکی کا ملنا معیار تعلیم پر ہی منحصر ہوتا ہے۔ تعلیمی میدان کا یہ وہ باب تھا جس کی ہر والد ووالدہ فکر کرتی ہیں، مادہ پرستی یا مادیت کی طرف میلان وجھکاؤ کی وجہ سے اس کے ابتدائی تعلیم سے لے کر اختتام تعلیم تک خاص طور پر ابتدائی تعلیم کے زمانے میں بہت سارے ایسے بھیانک و اندوہ ناک موضوعات ومسائل ہیں جن کی طرف والدین کی ادنیٰ سی توجہ بھی نہیں ہوتی جس کی وجہ سے ان کا لڑکا مادیت کے ریل پیل کے علاوہ نیک صالح معاشرے سے اخلاقی و روحانی ماحول و اثرات سے ایمانی حرارت اور اس کی ضروریات سے مقصد زندگی اور فکر آخرت سے پاکدامنی اورنیک خیالات کے اعتبار سے کوسوں کوس دور رہ جاتا ہے۔ اتنا ہی نہیں بلکہ ان مذکورہ اوصاف کے نہ ہونے کی وجہ سے کچھ منفی عادتیں Negative Hobbies یا یہ کہ کچھ ایسے خیالات کا مالک اوراس کا پیرو ہوجاتا ہے جو اسلامی اصولوں، ایمانی تقاضوں سے میل نہیں کھاتے، بلکہ حالت اس قدر خستہ و بگڑی ہوئی ہوجاتی ہے کہ وہ اسلام کے مزاج ومذاق، اس کے طور و طریق اور اس کی تعلیمات سے نفور اور بیزارگی کا اظہار کرنے لگتا ہے اور وہ اسے قدامت پرستی Fundamentalism سے تعبیر کرتے ہوئے اسلام کے تاقیامت جاری وساری ہونے میں رکیک شوشے نکالتا ہے اور اس کے سسٹم (System) کو بوسیدہ قرار دیتا ہے تاکہ یہ پڑھا لکھا نوتعلیم یافتہ مسلم نوجوان جس کے رگ وریشہ میں ایک مسلمان باپ و ماں کا خون دوڑ رہا ہے اورجس کا نام عبدالرحمن یا عبدالرحیم ہے پوری طرح سے پورے جذبہ کے ساتھ عیسائی مزاج و مذاق اور ان کی تہذیب کا یہ وکیل اور رکھوالا بن جائے اور ان کا قولی وعملی ترجمان Ambassidor بن جائے۔

ماحول کا اثر

جو شخص جس ماحول اور جس چھت کے تلے نشوونما پاتا ہے،جس کا کھانا پینا، اٹھنا بیٹھنا، اوڑھنا سونا جس انداز میں ہوتا ہے وہ اسی ماحول کا خوگر حامی اور تابع ہوتا ہے، دنیا کے اندر بہت ہی کم ایسی مثالیں ہیں کہ جن کا ماحول ومعاشرہ تو خراب تھا لیکن ان کی پرورش اور ان کا مزاج و مذاق نیک صالح تھا 99.9% لوگ اور شخصیتیں ایسی ہوتی ہیں کہ جن کا جو ماحول رہتا ہے وہ اسی ماحول کے خوگر اور تابع رہتے ہیں، ایسا دنیا میں کبھی نہیں ہوسکتا کہ سنگلاخ وادیوں اور بنجرزمین میں زعفران، پھل پھلاری کی کاشت کاری ہو بلکہ بنجر زمین اور سنگ لاخ وادیوں میں زہریلے پودے اور خاردار درخت ہی پیدا ہوسکتے ہیں یا زیادہ سے زیادہ ایسی گھاس پوس ہوسکتی ہے جسے بے عقل جانور بھی چرنا پسند نہیں کرتے۔

      آج ہمارا ماحول بھی بعینہ ایسا ہی ہوتا جارہا ہے کہ ہم اور ہمارا معاشرہ اور ہماری اولاد نیک صالح، وفاشعار دین کے حامی و پاسبان بنیں لیکن ہم اس صالحیت ووفاشعاری اور دین کی محبت وحمیت پیدا کرنے کیلئے ایک نہیں دو نہیں بلکہ ایسے بہت سارے برے ماحول اور معاشرہ کو ترجیح دیں جہاں اسلام سوزی، ایمان سوزی، اخلاق سوزی، تہذیب سوزی کے علاوہ کچھ ہاتھ نہ آئے۔ یعنی اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم زمین کے اندر خاردار درخت کے بیج اس نیت سے بورہے ہیں کہ ہمیں اس زمین سے ایسے ہرے بھرے درخت یا ایسے خوشگوار اور خوش ذائقہ پھل پھول ملیں جو جسم و روح کو تسکین و فرحت بخشیں۔ حالانکہ یہ نہ ہوسکتا ہے اور نہ ہوسکے گا۔

صحبتِ صالح ترا صالح کند

کسی بھی انسان کے معیار کو جانچنے اور جاننے کیلئے اس کے ماحول اور معاشرے کا جانچنا اور جاننا بہت ہی ضروری ہوتا ہے جب تک ہم اس کے ماحول اور معاشرے کو نہیں جانچیں گے اس وقت تک ہم اس کی انسانیت، شرافت، صداقت اور عدالت کا اندازہ نہیں لگاسکتے۔ اسی طرح ہر انسان ہی نہیں بلکہ ہر خاندان و قبیلہ، ہر قوم ومذہب کے امانت و دیانت، صداقت وعدالت کا اندازہ اس وقت تک نہیں لگاسکتے جب تک کہ اس کے ماضی کی تاریخ پر صحیح نظر کرتے ہوئے عدل کی ترازو سے انصاف نہ کیا جائے۔

اللہ تبارک و تعالیٰ کا قانون رہا ہے کہ ہر قوم کے حق میں اس قوم کے مزاج و مذاق اور طرز معاشرت کے اعتبار سے کچھ مثبت فیصلے بھی کئے تو کچھ منفی فیصلے کئے، صرف فیصلے ہی نہیں کئے بلکہ اچھی قوموں کے صفات بیان فرماکر یہ کہا بلکہ یہ حکم دیا کہ ان کے اخلاق واطوار کو زندگی میں ڈھالو اور بری قوموں کے صفات بیان فرماکر یہ کہا کہ ان کے مزاج ومذاق اور ان کے ساتھ دوستی وغیرہ کرنے سے باز رہو،اس لئے کہ جو آدمی جس طرح کے آدمی کے ساتھ زندگی گزارتا ہے اور جس طرح کے آدمی کے ساتھ رہتا ہے وہ آدمی اسی طرح کے اخلاق پیدا کرتا ہے مثلاً کوئی اچھے آدمی کے ساتھ رہتا اور بستا ہے اوراپنی زندگی اس کے ساتھ گزارتا ہے تو اچھے قسم کے اخلاق واطوار زندگی میں ڈھال لیتا ہے اور برے آدمی کے ساتھ زندگی گزارتا ہے تو وہ برے آدمی کے اخلاق کو اپنی زندگی کا حصہ بلکہ اسے اپنی طبیعت ثانیہ بنالیتا ہے۔ اسی لئے حدیث میں آتا ہے کہ (المرء مع من احب) اور (المرء علی دین خلیلہ) یعنی جو آدمی جس آدمی کے ساتھ زندگی گزارتا ہے وہ آدمی قیامت کے دن اسی کے ساتھ ہوگا۔

کسی آدمی کا اچھے خاندان یا نیک خاندان کا ہونا اس آدمی کے اچھے اور برے ہونے سے متعلق نہیں ہوتا بلکہ اس کے نیک ماحول اور نیک معاشرے سے یا برے ماحول اور برے معاشرے سے تعلق رکھتا ہے۔ اسی لئے نبی کی بیوی، نبی کا بیٹا اور نبی کا باپ، خاندان نبوت سے تعلق رکھنے کے بعد بھی نہ ایمان والے بن سکے اور نہ نیک عادات واطوار کے حامل بن سکے، اس لئے کہ ان کے ایمان نہ لانے، کفر وشرک میں مبتلا ہونے کا سبب خود ان کا ماحول و معاشرہ رہا جیساکہ حضرت لوط علیہ السلام کی بیوی، حضرت نوح علیہ السلام کا بیٹا اور حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰة والسلام کے والد وغیرہ وغیرہ۔

اسی طرح کسی خاندان یا قبیلہ کے اچھے ہونے کے لئے اورمعیاری اخلاق کا حامل ہونے کے لئے کسی اعلیٰ اوراونچی نسبت کی چنداں ضرورت نہیں بلکہ اس کے اچھے اخلاق اور صالح معاشرے کی ضرورت پڑتی ہے۔ اس لئے آپ دیکھیں گے کہ دنیا کے اندر بہت سارے خاندان، قبیلے ایسے ہیں جن کی برے معاشرے اور برے معاشرے کے سبب ان کے زمانہ کی بدنامی جانی مانی اور عبرت کے قابل ہے۔ اسی طرح کا کچھ حال دنیا کی بعض اقوام وملل کا ہے جن کی بدبختی یا سعادت کا دارومدار خود ان کی کوئی خاص قومی سعادت و شقاوت پر منحصر نہیں رہی بلکہ ان کی سعادت وشقاوت کے اثرات خود ان کی اپنی جدوجہد یا اپنے ہاتھوں سے پیدا کردہ ماحول ومعاشرے کے اثرات تھے جو ان کیلئے شناخت Identify کا سبب وذریعہ بنے اور ان کی یہ مثبت ومنفی شناخت دنیا میں صدیوں سے آج تک برابر چلی آرہی ہے۔ مثلاً قوم ثمود، قوم عاد، قوم صالح وغیرہ وغیرہ ایسے اقوام ہیں جن کے برے معاشرے کی وجہ سے اور خاص قسم کے برے صفات کی وجہ سے ہلاک ہوئے اور برے معاشرے کے حامل لوگوں کے ساتھ بعد پند ونصائح کے یعنی ان کے ساتھ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے فریضہ کو بار بار انجام دینے کے بعد ان کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے سے منع کیاگیا تاکہ ان کے برے اخلاق وصفات کا اثر اچھے انسان ومسلمان بندوں پر نہ پڑے۔

سورہٴ فاتحہ کے دو اہم سبق

یوں تو پورا قرآن مجید ہی سرچشمہ رشد وہدایت ہے جس کی ہر آیت علم وحکمت سے آراستہ وپیراستہ ہے، جس کی مختلف عبارتیں، سورتیں اور آیات ایک انسان کیلئے مختلف مواقع کے اعتبار سے مختلف النوع سبق عبرت دیتی ہیں تاکہ ایک انسان زندگی کی حقیقت کو پہچان کر حقیقی خالق و مالک کا ایک اچھا بندہ بن جائے اور ہمیشہ ہمیشہ کیلئے کامیاب وکامران ہوجائے۔ ٹھیک اسی طرح دیگر قرآنی آیات کی طرح سورئہ فاتحہ کی ایک ایسی آیت ہے جس میں ماحول ومعاشرے کے اعتبار سے دو اہم سبق دئیے گئے ہیں گویا کہ یہ ایک ہی سبق ہے جس میں ہر مسلمان کو اس بات کی صرف تاکید ہی نہیں بلکہ یہ یاددہانی کرائی جارہی ہے اور یہ یاددہانی زندگی کے صرف اہم اہم مواقع پر ہی نہیں بلکہ دن کے چوبیس گھنٹوں میں پانچ بار نماز کی حالت و صورت میں پانچ وقت ہی نہیں بلکہ پانچ نمازوں کی ہر ہر رکعت میں یاددہانی کرائی جارہی ہے اور ہم مسلمانوں سے اس بات کی دعا کروائی جارہی ہے کہ ہم صبح و شام یہود ونصاریٰ کی روش اور ان کی ضیغ وضلال والی زندگی سے پناہ مانگیں اوراس سے محفوظ رہنے کی ہمہ وقت خدا کی بارگاہ میں دعا کرتے رہیں کہ (اے ہمارے پروردگار ہمیں ان لوگوں کے راہ پر نہ چلا جو گمراہ ہوچکے ہیں اور جن پر تیرا غضب نازل ہوا یعنی ”یہود ونصاریٰ“ کی راہ پر۔

قرآن مجید کے سورئہ فاتحہ کی اس ایک آیت میں ماحول ومعاشرے کے اعتبار سے ایسا کامل ومکمل سبق ہے جو زندگی کے بہت سے شعبوں کو محیط ہے۔ مثال کے طور پر ان کے معتقدات، عبادات، معاملات اور معاشرات ان میں کاہر ایک عنوان ایک مستقل موضوع بحث ہے لیکن کتاب کے موضوع کے اعتبار سے معاشرے کا باب اجمالی تفصیل کو چاہتا ہے۔ جس طرح ایک مسلمان کو دنیا کے تمام مذاہب عالم واقوام عالم کی تہذیب وثقافت اور اس کے اثرات قبول کرنے سے روکا گیا اور اس سے باز رہنے کے لئے پوری شدومد کے ساتھ تاکید کی گئی ٹھیک اسی طرح بلکہ اس سے زیادہ دو ایسے مذاہب و قوموں کی تہذیب و ثقافت کے اختیار کرنے سے روکاگیا جن کی تہذیب وثقافت فطرت انسانی کے صرف مخالف ومتصادم ہی نہیں بلکہ فطرت انسانی کی عین دشمن ہے۔

یہودیت ونصرانیت فطرت انسانی کی عین دشمن

(۱) معتقدات کی ایک مثال:

مناسب معلوم ہوتا ہے کہ یہودیت ونصرانیت فطرت انسانی کی کیسے دشمن، اس کی یہاں ایک مثال بیان کی جاتی ہے، ہر انسان یہ جانتا ہے کہ وہ دنیا میںآ نے سے پہلے معدوم تھا، لیکن ظاہری اسباب کے اعتبار سے اسے جس ذات نے وجود بخشا وہ ماں اور باپ ہے اور ہر انسان یہ جانتا ہے کہ ظاہری اسباب کے تحت جو معدوم سے موجود ہوا ہے وہ ماں باپ کے سہارے سے وجود پذیرہوا ہے اور جو ذات جس ذات سے موجود ہوتی ہے وہ بھی مخلوق اور جس ذات نے ظاہری اعتبار سے اسے جنم دیا وہ بھی مخلوق اور یہ صاف بات ہے کہ جب دونوں بھی مخلوق ہوئے تو ضرور ان کے لئے ایسا خالق ہوگا جو انکا غیرہوگا ان جیسا نہیں ہوگا۔ اگر ان جیسا ہوگا تو پھر خالق ومخلوق میں کوئی فرق نہیں ہوگا حالانکہ یہ ضروری امر ہے کہ ہر مخلوق کے لئے کوئی خالق ضرور ہوتا ہے اور وہ ”اللہ“ ہے اب اس فطرت انسانی والے نتیجہ کے بعد نصاریٰ کا یہ کہنا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام ایک قول کے اعتبار سے اللہ کے بیٹے ہیں دوسرے قول کے اعتبار سے اللہ کے ساجھی دار ہیں۔ تیسرے قول کے اعتبار سے وہ اللہ کا علم ہے، جو فطرت انسانی کے عین خلاف ہے اور اسی طرح سے یہود کا یہ کہنا کہ حضرت عزیر اللہ کے بیٹے ہیں یہ بھی فطرت انسانی کی سوچ وسمجھ کے عین مخالف ہے۔ صرف یہ ایک مثال نہیں بلکہ بہت سی ایسی یہودیت ونصرانیت کے معتقدات، عبادات، معاملات اور معاشرت کی مثالیں ہیں جو فطرت انسانی کے عین موافق ہے۔

(۲) طرز معاشرت کی ایک مثال

مناسب معلوم ہوتا ہے کہ جس طرح یہودونصاریٰ کا گڑھا ہوا دین اور اس کے معتقدات فطرت انسانی مخالف و متصادم ہیں جیسا کہ اوپر کی ایک مثال سے سمجھ میں آیا ٹھیک اسی طرح ان کے طرز معاشرت بھی عقل وخرد اور فطرت انسانی کے مخالف ومعاند ہے۔ یہ بات اجمالی طور پر تفصیل کے بغیر ہر کس وناکس کو معلوم ہے کہ انسان کی دو جنسیں ہیں ایک مرد کی جنسیت، دوسرے عورت کی جنسیت، دونوں کے طرز معاشرت میں بھی نمایاں اور واضح فرق ہے۔ مزاج ومذاق کے اعتبار سے بھی اور جسم کے اعضاء متفرقہ کے اعتبار سے بھی۔ اس فرق کی وجہ سے جو کام مرد کرسکتا ہے وہ عورت نہیں کرسکتی اور جو کام عورت کرسکتی ہے وہ مرد نہیں کرسکتا۔ مثلاً مرد حمل سبب اولاد ہے مگر بچہ جنم نہیں دے سکتا برخلاف عورت کہ جو بچہ جنم دے سکتی ہے مگر حمل ٹھہرا نہیں سکتی۔ ٹھیک اسی طرح مرد بچہ کو دودھ پلانہیں سکتا مگر عورت بچہ کو دودھ پلاسکتی ہے اور اس کی اچھی طرح بڑی مامتا سے پال پوس کر پرورش کرسکتی ہے مگر مرد اس کام کے انجام دینے سے بے بس اور قاصر ہے اور ٹھیک اسی طرح ایک ”مرد“ مرد ہونے کے اعتبار سے عورت کے پاس ایک خاص قسم کی محبت وکشش رکھتا ہے جو محبت و کشش عورت میں نہیں پائی جاتی ، اسی طرح عورت اپنے جسم کی خاص بناوٹ کی وجہ سے جو محبت و کشش رکھتی ہے وہ مرد نہیں رکھتا ۔ علاوہ ازیں عورت جب اپنے خاص قسم کی بناوٹ اور خاص حصوں کو مستور رکھتی ہے یعنی اسے چھپاکر رکھتی ہے تو سامنے والے مرد میں خواہ وہ مرداس کا شوہرہو یا غیر شوہر جنسیاتی وہیجانی کیفیت پیدا نہیں ہوتی مگر اس کے برخلاف جب عورت اپنے اعضاء خاص کر سینہ، بال، پیٹ، پیٹھ کو کھول دیتی ہے تو اب خاص قسم کا ہیجان اور کیفیت پیدا ہوجاتی ہے۔ یہ وہ باتیں ہیں جو عقل کے مطابق بھی ہیں اور فطرت انسانی کے عین موافق بھی اور یہ کیفیت اپنے شوہر کے پاس ہوتو کوئی بات نہیں اگر یہ کیفیت غیرشوہر کے سامنے یا پاس ہوتو بے شمار فتنے وفساد کا سبب ہے۔ لیکن یہود ونصاریٰ نے معاشرت وتہذیب کے باب میں اس کو کچھ الٹا ہی کردکھایا ہے، یعنی فطرت انسانی تقاضہ کرتی ہے کہ دنیا میں فتنہ وفساد نہ ہو اور فتنہ وفساد کے بہت سارے اسباب ہیں جیسے مال، دولت، عہدہ وجائیداد وغیرہ۔ ٹھیک اسی طرح عورت بھی ایک عظیم فتنہ ہے جبکہ یہ اپنے وظیفہ سے ہٹ کر زندگی بسر کرے، پردے میں رہنے اور پردہ دار کپڑے پہننے کے بجائے بے پردہ ہوکر بے پردہ حیاسوز کپڑے پہنے۔ یہ سب حرکتیں اوریہ مزاج ومذاق وہ ہے جو فطرت انسانی کے عین مخالف ہے لیکن یہود ونصاریٰ کی معاشرت یہ کہتی ہے کہ یہی فطرت ہے۔ چنانچہ یہود ونصاریٰ کی تہذیب نے فطرت کی خلاف ورزی کرتے ہوئے یہ کیا کہ مرد والی جنس کو اوپر سے نیچے تک پردہ کرادیا اور اسے شرٹ اور شرٹ پر کوٹ اس طرح پہنادیا کہ نہ اس کا ذرہ برابر پیٹ دکھائی دے، اور نہ پیٹھ، پھر اس شرٹ کی حفاظت کے لئے ایسی ٹائی لگادی کہ وہ شرٹ اوپر کی جانب سے اپنی جگہ سے نہ ہٹ پائے اور ”ان شرٹ“ ایسا کروایاکہ نیچے کی جانب سے بھی اپنی جگہ سے نہ ہٹے، اوپر سے پینٹ اس طرح پہنایا کہ نہ پنڈلیاں نظر آئیں اور نہ ٹخنے نظر آئیں اور اس پر پیر میں اس طرح کے ساکس پہنائے کہ نہ پیر دکھائی دے اور نہ پیر کی انگلیاں نظر آئیں اوراس پیر کے پردے کی حفاظت کے لئے شوز پہنادئیے، پھر اب صرف بال باقی رہ گئے تھے اس پر ایک ہیٹ Hat لگادی تاکہ اس کے بال نظر نہ آئیں اور آنکھ کے پردے کے لئے ایک ایسی کالی عینک لگادی کہ آنکھوں کا بھی مکمل پردہ ہوجائے یعنی مرد کو ناف سے لیکر گھٹنوں کے نیچے کے علاوہ جن اعضاء کے چھپانے کی ضرورت نہیں تھی ان سب کو چھپا کر عورت کی طرح مکمل پردہ کرادیا، جن اعضا کے کھلے رہنے میں نہ تو کسی مرد یا عورت کو کسی قسم کے سوال کی گنجائش ہے اور نہ خاص قسم کے ہیجان کے پیداہونے کا خوف۔

برخلاف عورت کے سرتاپا تقریباً ننگا کردیا۔ سب سے پہلے عورت کے بدن سے برقع نکال دیا اور اس کے بعد جو اوڑھنی اس کے سر کے بالوں کے پردہ اور حفاظت کا کام انجام دیتی تھی نکال دیا، صرف اوڑھنی ہی نہیں نکالی بلکہ اوڑھنی نکال کر جو بال بندھے رہنے چاہئے تھے اسے یا تو مکمل طور پر کھول دیا یا نہیں تو ان بالوں کا ایسا اونچا چونڈھا بنایا جو ایک مرد کو مائل کرنے کیلئے کافی ہے، پھر جس اوڑھنی سے گریبان وسینہ ڈھکا ہوا تھا اسے ظاہر کردیا تاکہ فتنہ سامانی میں خوب اضافہ ہو، پھر جو قمیص گھٹنوں کے نیچے تک پہنچتی تھی اسے چھوٹا کرتے کرتے اتنا چھوٹا کردیا کہ وہ ناف کے اتنے اوپر آگئی کہ جس سے بآسانی پیٹ بھی بن سنور کر نظرآئے اور پیٹھ بھی، جس سے ایک شریف پاک دامن آدمی کی نظریں تباہ وبرباد ہوجائیں اور قمیص کو اوپر سے اتنا چھوٹا کردیا کہ سینہ کا کچھ حصہ ضرور نظر آئے، یہ تو قمیص کی حالت تھی جسے بلوز، ٹی شرٹ، وغیرہ کی صورت میں ڈھالا گیا۔ عورت کے پائجامہ کو نیچے کی جانب سے اتنا چھوٹا کردیا کہ جس سے پیر اور پیر کی انگلیاں اور پھر پنڈلیاں اور اس کے بعد پھر گھٹنے اور پھر ران تک نظر آنے لگے تاکہ ایک مسلمان کی نظر اس پر پڑے تو ایمان خراب کردے اور ایک غیرمسلمان انسان کے انسانیت کاناس پیٹ دے۔ غرضیکہ یہود ونصاریٰ کی طرز معاشرت کی ایک ایسی واضح مثال ہے جو فطرت انسانی کے صرف مخالف ہی نہیں بلکہ انسانیت کو فناء کی گھاٹ پر اتارنے کے لئے کافی ہے۔

(باقی آئندہ)

________________________________

ماہنامہ  دارالعلوم ، شماره 12 ، جلد: 93 ذى الحجه 1430 هـ مطابق دسمبر 2009ء

Related Posts