از: ضیاء الدین قاسمی ندوی خیرآبادی
اسلامی تقویم کا آغاز محرم الحرام سے ہوتاہے جو کہ اسی فطری نظام کائنات کے تحت جیسا کہ خالق کائنات نے مقرر فرمایا ہے اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ہے!
اِنَّ عدة الشہور عند اللّٰہ اثنیٰ عشر شہرا فی کتاب اللّٰہ یوم حلق السمٰوات والأرض منہا اربعة حُرمٌ ذلک الدین القیم (سورہ توبہ)
یقینا مہینوں کی تعداد تو اللہ کے نزدیک بارہ ہے اللہ کی کتاب (لوح محفوظ) میں جس دن کہ پیدا کیا آسمانوں اور زمین کو اور ان میں چار حرمت والے مہینے ہیں یہی سیدھا درست دین ہے۔
ان بارہ مہینوں کی ترتیب محرم سے شروع ہوکر ذی الحجہ پر ختم ہوتی تھی اور چار مہینے محرم، رجب، ذیقعدہ اور ذی الحجہ اشہر حرم تھے جن میں قتل وقتال جائز نہیں تھا۔ اہلِ عرب ان چاروں مہینوں کی حرمت کا لحاظ وپاس کرتے تھے حالانکہ ریگستان عرب کے بدووں اور بادیہ نشیں قبائل کی معیشت وزندگی کا دارومدار عام طور پر لوٹ مار پر تھا قافلوں اور مسافروں کو لوٹنا ان کا مشغلہ تھا بلکہ روزی روٹی کے حصول کے لئے ایک قبیلہ دوسرے قبیلہ پر حملہ آور ہوتا رہتا تھا اسی وجہ سے عرب کی سرزمین پر خون خرابہ قتل وقتال اور غارت گری کا ایک چلن تھا جو قبیلہ زیادہ جنگجو ہوتا تھا اس کی عظمت وشوکت تسلیم کی جاتی تھی مگر یہ تمام خون خرابے لوٹ پاٹ اشہر حرم میں موقوف کردئیے جاتے تھے۔
اہلِ عرب اگرچہ چار کے عدد کا لحاظ کرتے تھے مگر قدرتی ترتیب کا پاس نہیں کرتے تھے چونکہ ذیقعدہ، ذی الحجہ اور محرم تین مہینے پے درپے حرمت والے ممنوع القتال پڑتے تھے اس سہ ماہی وقفہ میں اکثر ان کے خورد ونوش کا سامان ختم ہوجاتا تھا خاص کر صحرا وجنگل میں بسنے والے منتشر بدووں کے قبائل جن کا پیشہ ہی لوٹ مار تھا پھر وہ قبائل عرب بھی پریشان رہتے تھے جن کی عادت ہی دوسرے قبیلوں سے جنگ تھی۔ لہٰذا ان سب نے یہ ترکیب نکالی کہ حرمت والے مہینوں میں تقدیم و تاخیر کرنے لگے محرم کو موخر کردیتے تھے اس سال پہلے صفر ہوگا اس کے بعد محرم کبھی ذی الحجہ و ذیقعدہ وغیرہ کو ختم کرکے کوئی اور مہینہ بنادیتے تھے تاکہ لوٹ مار آسان وحلال ہوجائے اسی کو قرآن پاک نے اِنَّما النسْیٴُ زیادةٌ فی الکفر سے تعبیر کیا ہے۔
صاحب تفسیر جلالین انما النسیٴ کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
ای التاخیرُ لحرمةِ شہرٍ الی آخر کما کانت الجاہلیة تفعلہ من تاخیر حرمة المحرم اذا اہل وہم فی القتال الی صفر.
یعنی ایک مہینہ کی حرمت کو دوسرے مہینہ کی طرف موخر کردینا جیساکہ دور جاہلیت کے لوگ محرم کی حرمت کو چاند دیکھنے کے صفر تک موخر کردیتے تھے اس وقت جب کہ وہ جنگ کررہے ہوتے تھے ”اور ابھی ختم کرنے کے موڈ میں نہیں ہوتے تھے۔“
اسی کو شرح المواہب کے مولف نے اپنی اس عبارت میں نقل کیا ہے:
ذلک اَنَّہم کانوا یستحلون القتال فی المحرم لطول مدة التحریم بتوالی ثلاثةِ اشہرٍ ثم یحرمون صفر مکانہ. (از حاشیہ جلالین)
اس لئے کہ عرب والے محرم میں قتال کو حلال کرلیتے تھے۔ تحریم کی مدت کی طوالت کے پیش نظر پے درپے تین مہینوں کے آنے سے پھر اس کی جگہ صفر کو حرام کرلیتے تھے۔
اس تقدیم و تاخیر کے سبب ازل سے جو قدرتی ترتیب قائم چلی آرہی تھی بگڑگئی تھی جس سال اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حجة الوداع فرمایا تو آپ نے اپنے خطبہ میں پوچھا تھا کہ یہ کونسا دن اور کونسا مہینہ ہے صحابہ خاموش رہے کہ شاید کوئی تبدیلی کا اعلان ہوگا لیکن جب آنحضور نے کہا یہ یوم نحر نہیں تو صحابہ نے عرض کیا بے شک پھر آپ نے فرمایا کیا یہ ماہ ذی الحجہ نہیں ہے تو صحابہ نے عرض کیا بے شک اس کے بعد رسول خدا نے اپنا تاریخی جملہ ارشاد فرمایا کہ
اِنَّ الزمان استدار کہیئة یوم خلق السمٰوات والأرض (خطبہ حجة الوداع، رواہ…)
یقینا زمانہ گھوم پھر کر اسی فطری ترتیب پر آگیا ہے جیساکہ اللہ نے آسمان وزمین کی تخلیق کے دن ہیئت و ترتیب رکھی تھی۔
لہٰذا اسلام کے بعد قیامت تک یہی ترتیب رہے گی اور اسی ترتیب سے محرم الحرام اسلامی کلینڈر کاپہلا مہینہ ہے اسی نئے سال کا ہم والہانہ استقبال کررہے ہیں یہ سال نو اللہ کرے کہ امت محمدیہ کی سربلندی اور دینی بیداری کا سال ہو۔
اسلامی کلینڈر کا آغاز ہجری سے کیوں
عیسوی شمسی سال کے برعکس اسلامی قمری سال کا آغاز ولادت النبی کے بجائے ہجرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کرنے میں زبردست حکمت ومصلحت ہے جب امیرالمومنین سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے سامنے اسلامی تقویم کا معاملہ آیا اور اسلامی سال شروع کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی تو آپ نے ہجرت کو معیار بنایا اس لئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کی مکی زندگی، تعذیب وتکلیف ابتلاء وآزمائش، نفرت وعداوت، تعصب و منافرت سے دوچار ہونے مصائب و آلام، شدائد ومحن کاسامنے کرنے میں گذری ہے قدم قدم پر مخالفت ومعاندت ہوتی تھی، ظلم وستم اور جبر واستبداد کے پہاڑ توڑے جاتے تھے فتنہ انگیزیاں اور بہتان تراشیاں ہوتی تھیں، اسلام کے چراغ کو گل کرنے کی سازشیں، آفتاب رسالت کو معدوم کرنے کے منصوبے بنائے جاتے تھے تیرہ سال تک جس قسم کے ہولناک مظالم کا سامنا فداکارانِ محمد اور مظلومانِ اسلام نے کیا اس کو پڑھ کر سن کر دل لرزنے لگتا ہے زندگی کیا تھی بس درندوں، وحشیوں کے درمیان انسانیت، شرافت، عزت پس رہی تھی جب قوت برداشت نہ رہی، پیمانہ صبر چھلکنے پر آمادہ تھا اور پائے استقامت میں تزلزل کا خطرہ پیدا ہوگیاتو اللہ رب العزت نے مکہ چھوڑ کر دوسرے شہر مدینہ کی طرف ہجرت کا حکم دیدیا، اہلِ ایمان نے اللہ ورسول کے سرمایہ کو بچانے کیلئے دولت و ثروت اور جاگیر وجائداد مادی سرمایہ جوش وشوق سے چھوڑنا گوارہ کرکے اپنی ایمانی صلابت اور اللہ ورسول سے سچی محبت کا ثبوت دیا ہجرت کے بعد مدنی زندگی شروع ہوتی ہے جو انصار مدینہ کی مہاجرین واسلام کی قدم قدم پر نصرت واعانت اور حق کیلئے ایثار و قربانی سے عبارت ہے دنیا نے مکہ میں اپنوں کی ستم ظرفیاں اور دشمنیاں دیکھی تھیں تو مدینہ میں غیروں کی محبتیں و الفتیں بھی دیکھ رہے تھے۔ مکہ میں تکذیب و تضحیک تھی تو مدینہ میں تصدیق و تقریب بھی، مکہ میں نفرت وعداوت تھی تو مدینہ میں محبت واخوت تھی، مکہ میں بندش ورکاوٹ تھی تو مدینہ میں آزادی عمل اور حریت تبلیغ تھی۔ مکہ میں بائیکاٹ وقطع رحمی تھی تو مدینہ میں جوڑنا اور صلہ رحمی تھی۔ مکہ میں شعلہ باری تھی تو مدینہ میں گل پاشی تھی۔ مکہ سے اخراج تھا تو مدینہ میں والہانہ استقبال ہورہا تھا۔ گویا ہجرت النبی اسلام کی نشر واشاعت اور دین کی دعوت و تبلیغ کا مرکز اولین تھا، مسلمانوں کے اتحاد وملت اوراتفاق امت کا محور تھا یہیں سے اسلام کی دعوت کا پرچم بلندہونا شروع ہوا اور مسلمانوں میں شوکت کے دور کا آغاز ہوا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو وہ سچے پکے مخلص اصحاب ملے جنھوں نے اپنی جانیں قربان کرکے بانی اسلام کی حفاظت فرمائی آپ کے ادنیٰ سے اشارے پر فخروناز سے اپنی گردنیں کٹوائیں، آپ کی محبت میں اولاد و اقارب کی محبت کو قربان کردیا پھر بھی کہا ”حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا“ اسی لئے تو آقا مدنی فداہ أبی وامی صلى الله عليه وسلم نے انصار مدینہ کی ناز برداری فرمائی ہے ان کے حق میں خیروبرکت کی دعائیں دیں اور خلفاء راشدین سے فرمایا ہے کہ انصار سے اگر کہیں لغزش بھی ہوجائے تو مواخذہ مت کرنا اس لئے کہ انھوں نے میری اور اسلام کی اس وقت مدد کی تھی جب کہ اپنوں نے نکالدیا تھا۔ آپ نے یہ تاریخی جملہ انصار کیلئے ارشاد فرمایا لولا الہجرة لکنتُ امرأ من الانصار(۱) الانصارُ شعارٌ والناسُ دثارٌ کہ اگر ہجرت مقدر نہ ہوتی تو میں انصار مدینہ کا ہی ایک فرد ہوتا۔ انصار شعار یعنی اصل میں اور تمام لوگ دثار یعنی وقتی ساتھ والے ہیں۔
یہی وہ حکمتیں ومصلحتیں ہیں جن کے باعث ہجرت کو معیار بنایا گیا کہ اس سے اسلامی عظمت کاآغاز ہوتاہے اسلامی اتحاد کی ابتدا ہوتی ہے اور اسلامی اخوت ومساوات کی شروعات ہوتی ہے۔
ماہ محرم کی اہمیت وفضیلت
ماہ محرم الحرام کی تاریخی اہمیت مسلم ہے احادیث وروایات اور آثار سے اس کے فضائل و برکات ثابت ہیں روایات کی روشنی میں اسی محرم الحرام کی دسویں تاریخ کو اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم کی تخلیق فرمائی۔ یوم عاشوراء ہی کو جنت پیدا فرمائی۔ یوم عاشوراء ہی کو سفینہ نوح جودی پہاڑ پر ٹھہرا۔ یوم عاشوراء ہی کو حضرت موسیٰ اور ان کی قوم نے فرعون سے نجات حاصل کی اور اللہ نے فرعون اوراس کے لشکر کو غرق کیا۔
یوم عاشوراء کا روزہ
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا رمضان کے بعد بہترین روزہ محرم کا روزہ ہے اور فرض نماز کے بعد بہترین نماز تہجد کی نماز ہے۔ (مسلم شریف، ریاض الصالحین)
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم محرم کی دسویں تاریخ کو خود بھی روزہ رکھتے تھے اور دوسروں کو بھی روزہ رکھنے کا حکم دیتے تھے(بخاری ومسلم)
ماہ محرم اور تاریخی حوادث
اگر ایک طرف محرم فضائل وبرکات کا مہینہ ہے تو اسی کے ساتھ اس مہینہ سے بہت سے دردناک تاریخی حوادث و واقعات وابستہ ہیں جن کی کربناکی سے امت مسلمہ کا ہر فرد بے چین ومضطرب ہوجاتاہے اور تاریخ اسلام کا صفحہ محرم الحرام مظلومان کربلا کے لہو سے تربتر نظر آتا ہے اہل بیت کی اولوالعزمی سیدنا حسین سردارِ نوجوانان جنت کی ایمانی صلابت۔ حق گوئی وبے باکی۔ صبر وتحمل، عزیمت واستقامت کی داستان ہر مسلمان کو عزم و حوصلہ اور باطل کے سامنے سینہ سپر رہنے کی ہمت بخشتی ہے تو دوسری جانب یزیدی فوج کی سنگدلی، بے رحمی، بے حسی اور جبرواستبداد، خاندانِ رسول کی بے حرمتی، اہل بیت کی بے عزتی اور مظلومان کربلا کی تذلیل وتحقیر اور ان کو ناحق تہہ تیغ کرنے کی چنگیزی حرکات سے اسلام کی روشن تاریخ داغدار دکھائی دیتے ہے واقعہ کربلا میں دغابازی، بے وفائی اور غداری کی عبرت انگیز داستان بھی ہے کہ کس طرح آج شہادت حسین کے نام ماتم وغم منانے والے شیعہ حضرات نے سیدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما کو خطوط لکھ لکھ کر کوفہ بلایا تھا پھر مصیبت میں آپ کا ساتھ چھوڑ دیا تھا حضرت مسلم اور ان کے دو صاحبزادوں کے خون سے اپنا ناپاک ہاتھ رنگنا غداری بے وفائی کی بہت ہی المناک گھناؤنی تاریخ ہے جس کے حرف حرف سے مکرو فریب کی بدبو پھیلتی ہے پھر بھی واقعہ کربلا اور شہادت حسین کو اہل رفض و تشیع نے اتنا بدل ڈالا ہے اوراپنے فاسد عقائد میں ایسا رنگ دیا ہے کہ سچائی ہزاروں پردوں میں چھپ گئی ہے۔ تعزیہ داری، ماتم اور مرثیہ خوانی نے غم حسین کو ایسا رنگ دیدیا ہے کہ محرم الحرام کا یہ واقعہ کرب والم، ایک جشن بنادیا گیا ہے من گھڑت واقعات کو اشعار میں بیان کرکے مرثیہ خوانی سے خانوادئہ رسالت اور اہل بیت کی نعوذ باللہ تحقیر ہوتی ہے کاشانہ نبوت اور حرم حسین کی پاکیزہ صفات پاک دامن عفت مآب خواتین کو سینہ کوبی اور آہ وبکا کرتے ہوئے دکھایاجاتا ہے نوحہ کرتے روتے بلکتے چاک گریباں کرتے اور بالوں کو نوچتے چلاتے دکھایا جاتا ہے سکینہ و زینب کو زیب داستان بناکر مرثیہ خوانی ہوتی ہے۔
ان سے بڑھ کر مشرکانہ اعمال ہوتے ہیں حسین کی شبیہ بنائی جاتی ہے تعزیہ کے نام پر قبر بناکر اس کا جلوس نکالاجاتا ہے اور ان سب حرکات کو اسلام کا نام دیاجاتا ہے بالکل وہی افعال واعمال شیعہ حضرات کی طرف سے ہوتے ہیں جس طرح دسہرہ و دیوالی کے مواقع پر برادران وطن ہندو لوگ اپنے دیوی دیوتاکی مورتیاں تیار کرکے جھانکی بناتے ہیں گشت کرتے ہیں پوجتے ہیں پھر دریا میں سیرا آتے ہیں یہی حال تعزیوں کا ہے کہ گشت کرتے ہیں ماتم کرتے ہیں تماشے ہوتے ہیں سینہ کوبی اور نوحہ خوانی ہوتی ہے میلہ سا لگتا ہے رنگ برنگے جھنڈے جھنڈیاں اور قسم قسم کی شکل وصورت بنائی جاتی ہے پھر مصنوعی کربلا کے گہرے کنویں میں دفن کرآتے ہیں۔
شہادت فاروق اعظم
میں نے واقعہ کربلاء کے تاریخی پس منظر میں جانے اور اس کی پرخار تاریخی وادی میں سفر کرانے کے بجائے صرف اصل بات کو سامنے رکھا ہے کیونکہ شیعی روایات نے واقعہ کربلا کو اتنا مسخ کردیا ہے کہ حقیقت سامنے لانے میں بہت ہی زیادہ تحقیقات اور ہزاروں صفحات کی ضرورت ہے۔ شہادت حسین سے پہلے اسی ماہ محرم کی پہلی تاریخ کو امیرالمومنین سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی شہادت کا عظیم سانحہ پیش آیا، وہ عمر جن کی شہادت یقینا واقعہ کربلا سے زیادہ دردناک ہے اسلئے کہ اسلام کو رفعت وعظمت کی بلندیوں تک پہنچانے والے عمرفاروق تھے جن کو برادر رسول اور مطلوب اسلام ہونے کا شرف حاصل ہے جن کے سایہ سے بھی شیطان بھاگتا تھا اور جن کی ذات میں خاتم النّبیین سیدالمرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کو صفات نبوت نظر آتی ہیں کہ ارشاد ہوتا ہے:
لا نبی بعدی لوکان بعدی نبی لکان عمر (مشکوٰة مناقب عمر)
میرے بعد کوئی نبی نہیں اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو یقینا عمر ہی نبی ہوتے۔
عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی عند اللہ مقبولیت کا یہ حال ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تقریباً ۳۴ مواقع پر عمر کی عین خواہش کے مطابق آیت قرآن نازل فرمائی ہے جن کو موافقات عمر کہا جاتا ہے۔ عمر کی عظمت کا سِکّہ مہاتما گاندھی کے دل میں ایسا بیٹھا تھا کہ آزادی کے بعد گاندھی جی نے کانگریسی لیڈران سے کہا تھا کہ تم اسی صورت میں کامیاب حکمراں بن سکتے ہو جب کہ عمرکو اپنا آئیڈیل بناؤگے۔ (دیکھئے کتاب محمد، قرآن اور اسلام غیروں کی نظر میں)
نوحہ وماتم اور تعزیہ سازی کی رسم کہاں سے اور کب سے؟
بات چل رہی تھی دس محرم تک شیعہ حضرات کی مختلف رسومات اور ماتم، نوحہ، تعزیہ وغیرہ کا جو شہادت حسین اور واقعہ کربلا کے پردہ میں ہورہا ہے تعزیہ سازی کی رسم کب سے اورکیسے شروع ہوئی اس سلسلہ میں مستند ترین شخصیت، فخرالمحدثین ابوالمآثر حضرت مولانا حبیب الرحمن محدث اعظمی رحمة اللہ علیہ رحمة واسعة نے جو تحقیق فرمائی ہے اس سے بہتر کوئی دوسری تاریخی روایات نہیں ملتیں حضرت محدث اعظمی رحمة الله عليه نے شیعوں کے ایک رسالہ ”عزاداری کی تاریخ اور اسکا اثبات سنی نقطئہ نظر“ کا جواب ابطال عزا داری کے نام سے دیا ہے جو دارالمبلغین کے ترجمان الداعی جلد ۶ بابت ماہ جمادی الآخر ۱۳۶۱ھ کے شمارہ میں شائع ہوا تھا۔ شیعہ مولف نے اپنے رسالہ ”عزاداری کی تاریخ“ کے بارے میں لکھا ہے کہ عزاداری کرنا ہر مسلمان کا فرض ہے اور دعویٰ کیا ہے کہ میں نے اپنے رسالہ میں اس نظریہ علماء اہل سنت کی کتابوں سے ثابت کیا ہے (میں اسی کو بنیاد بنارہا ہوں حضرت ابوالمآثر کی تحقیق لکھتا ہوں) شیعی مولف رسالہ نے لکھا ہے شہادت حسین رضی اللہ عنہ کے بعد عزاداری بمعنی گریہ وماتم کی ابتداء یزید کے گھر سے ہوئی (ص۵) ملا باقر مجلسی ایک زبردست شیعہ مجتہد ومصنف ہیں وہ اپنی کتاب جلاء العیون ص۵۲۴ میں لکھتے ہیں:
جب اہل بیت حسین، یزید کے محل میں داخل ہوئے تو اہل بیت یزید نے زیور اتار کر لباس ماتم پہنا۔ صدائے نوحہ وگریہ بلندہوئی اوریزیدکے گھر میں تین روز تک ماتم رہا۔
اسی طرح ناسخ التواریخ ص ۲۷۸ اور منہج ص ۳۲۸ میں اس ماتم کا ذکر ہے۔
پھر شیعہ مولف رسالہ میں لکھتا ہے: حضرت حسین کی شہادت کے بعد تین سو برس تک عشرہ محرم میں رونے پیٹنے کی رسم کا کہیں وجود نہ تھا ۳۵۲ھ سب سے پہلے معزالدولہ ویلمی نے صرف دسویں محرم کو بغداد میں حضرت حسین کے ماتم کرنے کا حکم نافذ کیا اور اس کے بعد ۳۶۳ھ میں المعزلدین اللہ فاطمی نے مصر میں بھی حکم جاری کیا۔ص۱۰-۱۱۔
ہندوستان میں چھٹی صدی ہجری تک گریہ ماتم کا کہیں وجود نہیں ملتا۔
ہندوستان کے سوا دنیا میں کہیں بھی تعزیے نہیں بنتے اور ہندوستان میں بھی آٹھویں صدی تک اسکا کوئی نشان نہیں ملتا۔ (ص۳۰-۳۱)
یہ تمام عبارتیں شیعہ مولف کے رسالہ کی ہیں جس کے بارے میں اس کا دعویٰ ہے کہ یہ اہل سنت علماء کی کتابوں سے اخذ ہیں۔
ابوالماثر رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں: معزالدولة ویلمی نہایت غالی شیعہ بلکہ تبرائی رافضی تھا اورالمعز لدین اللہ فاطمی ایک مجوسی النسل بے دین رافضی تھا۔ جس رسم کی بنیاد یزیدنے ڈالی ہو اور معزالدولہ والمعز نے اس کو ترقی دی ہو ظاہر ہے کہ ایک غیرت مند سنی کو اس سے جس قدر نفرت ہوگی کم ہے یہی وجہ ہے کہ مصر وشام،ایران وافغانستان وغیرہ یہ رسم صرف شیعہ ادا کرتے ہیں جیسا کہ شیعہ مولف نے ص:۱۹ میں خود تسلیم کیا ہے ”مصر و ایران وغیرہ میں عزائے حسین صرف شیعان علی سے مخصوص ہے“۔
ابوالمآثر رحمة اللہ علیہ لکھتے ہیں: ہمایوں کے زمانہ میں بھی ماتم کا کوئی تاریخی ثبوت موجود نہیں لیکن اگر ہوتا رہا ہو اس کی وجہ بھی صرف یہی ہوسکتی ہے کہ اس وقت ایرانی شیعہ ہندوستان میں آکر آباد ہوگئے ایرانیوں کی امداد کی وجہ سے ہمایوں بھی ان شیعوں کی دلدہی کرتا تھا چنانچہ شیعہ مولف کے رسالہ میں بھی اس کے اشارات پائے جاتے ہیں دیکھو،ص:۳۵۔
بہرحال اب تک تھوڑی بہت جہاں یہ رسم ہوتی تھی صرف شیعوں کے ساتھ مخصوص تھی سنیوں کی شرکت کا کوئی ثبوت نہیں ہے ہاں جب وہ زمانہ آیا جب بقول مولف تمام اطراف ہند میں شیعہ حکمراں تھے اس وقت ان کے حکمرانوں نے حکومت کے زور سے تعزیہ داری و ماتم کی ترویج کی اور سنیوں کو بجبر واکراہ تعزیہ دار بنایا جیساکہ ص۳۸ و ۳۹ کی عبارت اس کی غمازی کررہی ہے۔
تعزیہ سازی کا آغاز
یہ تو ابھی صرف گریہ وماتم اور نوحہ و زاری کی تاریخ ہے ابھی تعزیہ داری کو لیجئے تو یہ ایک ایسی بدعت ہے کہ ہندوستان کے سوا کسی جگہ کسی عہد میں اس کا نام و نشان نہیں پایا جاتا اور ہندوستان میں بھی خود مولف کے بیان کے مطابق قاضی شہاب الدین دولت آبادی کے زمانہ تک (یعنی نویں صدی ہجری تک( اس کا پتہ نہیں چلتا، تاریخیں، سفرنامے اور دوسرے مظان کل کے کل خاموش ہیں تیمور لنگ کو اس کا موجد قرار دینا عامیانہ روایت پر مبنی ہے مولف خود تصریح کرتاہے کہ اس کا تاریخی ثبوت اب تک فراہم نہیں کیاجاسکا ہے (ص ۴۱ رسالہ عزاداری کی تاریخ)۔
بہرحال عالمگیر کے زمانے سے پہلے تعزیہ کا کہیں ذکر نہیں ملتا اور عالمگیر کے عہد میں صرف ایک تابوت بنانے کا ذکر جن صاحب نے لکھا ہے وہ غالی شیعہ تھے جیساکہ مولف نے خود ہی لکھا ہے دیکھو ص۳۳ و ۳۹ عزاداری کی تاریخ۔
مضمون کے آخر میں محدث اعظمی ابوالمآثر رحمة اللہ علیہ رقم طراز ہیں:
ناظرین غور فرمائیں کہ شیعہ مولف نے ماتم و تعزیہ کی جو تاریخ بیان کی ہے اس میں شیعوں کے سوا کسی دوسرے کا نام نہیں آتا لیکن رسالہ کی تمہید میں لکھتے ہیں کہ ”یہ رسوم فرقہٴ اہلسنّت سے زیادہ وابستہ ہیں“ یہیں سے آپ اندازہ لگاسکتے ہیں کہ شیعوں کے مذہب میں سچائی کی کتنی قدر وقیمت ہے۔
تعزیہ داری حرام ہے
حضرت مولانا عبدالعزیز محدث دہلوی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں:
تعزیہ داری درعشرئہ محرم وساختن ضرائح وصورت وغیرہ درست نیست زیراکہ تعزیہ داری عبارت ازیں ست کہ ترک لذائذ وترک زینت کند وصورت محزون و غمگیں نمایند یعنی مانند صورت زناں سوگ دارندہ بنشیند ومرد را ہیچ ازیں قسم در شرع ثابت نشود (فتاویٰ عزیزی ص ۷۲ مطبوعہ دہلی)
(عشرئہ محرم میں تعزیہ داری اور تعزیے یا قبروں کی صورت بنانا جائز نہیں ہے اس لئے کہ تعزیہ نام ہے اس بات کا کہ لذیذ چیزوں اور زینت کو ترک کردے اور شکل وصورت غمگین و محزون بنائے یعنی سوگ والی عورتوں کی طرح بیٹھے، مرد کو یہ بات کسی موقع پر شریعت سے ثابت نہیں ہے۔)
تعزیہ داروں کی مجلس میں حاضر ہونا جائز نہیں
دراں مجلس بہ نیت زیارت وگریہ زاری حاضر شدن ہم جائزنیست زیراکہ آنجا زیارت نیست کہ جائے او حاضر شود ایں چوبہا کہ ساختہٴ او ہستند قابل زیارت نیستند بلکہ قابل ازالہ اند چنانچہ درحدیث شریف آورہ مَنْ رای منکم منکرًا فلیغیرہ بیدہ فان لم یستطع فبلسانہ فان لم یستطع فبقلبہ وذلک اضعف الایمان (رواہ مسلم) و در مجلس تعزیہ داری رفتہ ومرثیہ وکتاب شنید اگر در مرثیہ وکتاب احوال واقعی نیست بلکہ کذب وافترا و تحقیر بزرگاں در ذکر پس شنیدن ایں چنیں مرثیہ وکتاب بلکہ دریں قسم مجلس حاضر شدن ہم روا نیست (فتاویٰ عزیزی ص۷۳ مطبوعہ دہلی)
(اس مجلس میں گریہ وزاری کی نیت سے جانا کبھی جائز نہیں ہے اسلئے کہ وہاں زیارت کی چیز نہیں ہے کہ اسکے لئے حاضر ہو یہ لکڑیاں جو اسی کی بنائی ہوئی ہیں زیارت کے قابل نہیں ہیں بلکہ مٹانے کے قابل ہیں جیساکہ حدیث میں ہے کہ جو شخص کوئی غیرشرعی چیز دیکھے تواس کو ہاتھ سے مٹادے، اس کی طاقت نہ ہو تو زبان سے اوراس کی بھی طاقت نہ ہو تو دل سے برا جانے اور یہ ایمان کا ادنیٰ درجہ ہے،اور تعزیہ داری کی مجلس میں مرثیہ وکتاب سننا تو اگر مرثیہ وکتاب میں واقعی حالات نہ ہوں بلکہ کذب و افتراء اور بزرگوں کی تحقیر ہوتو ایسا مرثیہ و کتاب سننا بھی جائز نہیں ہے)۔
یہ ایک تلخ حقیقت اور مشاہدہ ہے کہ ہندوپاک اور بنگلہ دیش میں سنیوں کی آج ایک بہت بڑی تعداد تعزیہ داری اور سینہ کوبی اور نوحہ خوانی کی مشرکانہ رسم میں مبتلاء ہے اور بہت فخر سے خود کو اہل سنت والجماعت کے لقب سے یاد کرتی ہے اللہ ان کو ہدایت دے نیز تعزیہ داری کے جلوس میں مسلمانوں کی بڑی تعداد تماشہ بین کی حیثیت سے موجود ہوتی ہے جبکہ اس سے اجتناب ضروری ہے۔
***
__________________________________________
ماہنامہ دارالعلوم ، شماره 9-10 ، جلد: 93 رمضان-شوال 1430 ھ مطابق ستمبر-اكتوبر 2009ء