از: محمد عارف جمیل مبارک پوری ، شارجہ، متحدہ عرب امارات

۱– فرمان باری ہے: تلک الرسل فضلنا بعضہم علی بعض، منہم من کلم اللّٰہ ورفع بعضہم درجات وآتینا عیسی ابن مریم البینات وأیدناہ بروح القدس ولو شاء اللّٰہ ما اقتتل الذین من بعدہم من بعد ما جائتہم البینات ولکن اختلفوا فمنہم من آمن ومنہم من کفر ولو شاء اللّٰہ ما اقتتلوا ولکن اللّٰہ یفعل ما یرید (بقرہ/۲۵۳)

”یہ سب رسول، فضیلت دی ہم نے ان میں بعض کو بعض سے، کوئی تو وہ ہے کہ کلام فرمایا اس سے اللہ نے، اور بلند کیے بعضوں کے درجے، اور دیے ہم نے عیسیٰ، مریم کے بیٹے کو معجزے صریح اور قوت دی اس کو روح القدس یعنی جبریل سے، اور اگر اللہ چاہتا تو نہ لڑتے وہ لوگ، جو ہوئے ان پیغمبروں کے پیچھے، بعد اس کے کہ پہنچ چکے ان کے پاس صاف حکم، لیکن ان میں اختلاف پڑگیا، پھر کوئی تو ان میں ایمان لایا، اور کوئی کافر ہوا اور اگر اللہ چاہتا تو وہ باہم نہ لڑتے، لیکن اللہ کرتا ہے جو چاہے“۔

اس آیت میں دو مقام پر بدیہیات ہیں:

مقام اول: (ورفع بعضہم درجات) کا مفہوم وہی ہے جو (تلک الرسل فضلنا بعضہم علی بعض) کا ہے، پھر اس تکرار کا کیا فائدہ ہے؟ نیز (تلک الرسل فضلنا بعضہم علی بعض) ایک کلامِ کلی ہے اس کے بعد (منہم من کلم اللّٰہ) میں اسی جملہ کی تفصیلات کا آغاز ہے، اس کے بعد (ورفع بعضہم درجات) اسی کلی کا اعادہ ہے، اور ظاہر ہے کہ جزئیات کی تفصیل کے آغاز کے بعد، کلام کا اعادہ، قابلِ اعتراض ہے؟

اس کے کئی جواب دئیے گئے ہیں:

اول: (تلک الرسل فضلنا بعضہم علی بعض) سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ بعض رسولوں کی بعض پر فضیلت ثابت ہے؛ لیکن یہ فضیلت، کثیر درجات کے ساتھ ہے یا قلیل، اس کی اس میں وضاحت نہیں تھی جس کی توضیح (ورفع بعضہم درجات) میں کردی گئی جو ایک مستقل فائدہ ہے، لہٰذا یہ تکرار نہیں ہوا۔ یہ جواب رازی نے نقل کیا ہے۔

دوم: دونوں کا محمل الگ الگ ہے، لہٰذا تکرار نہیں۔ اس کی وضاحت کرتے ہوئے ابن عاشور لکھتے ہیں:

”(ورفع بعضہم درجات) میں یہ طے ہے کہ اس بعض سے مراد کوئی ایک متعین رسول ہیں، رسولوں کی ایک جماعت مراد نہیں۔ اور درجات سے مراد، فضیلت کے درجات ہیں، جو اس ایک کے لیے ثابت ہیں، اس لیے کہ اگر بعض سے مراد، اجمالی طور پر، رسولوں کی ایک جماعت ہو اور درجات سے مراد ان کے مابین درجات ہوں، تو (فضلنا بعضہم علی بعض) کے ساتھ یہ کلام مکرر کو جائے گا۔ نیز اگر یہی کہنا مقصود ہوتا کہ بعض رسولوں کو بعض پر فضیلت دی گئی ہے، تو یوں کہہ دیتے: (ورفع بعضہم فوق بعض درجات) جیساکہ ایک دوسری آیت میں فرمایا:

ورفع بعضہم فوق بعض درجات (انعام/۱۶۵)

”اور بلند کیے تم میں درجے ایک کے ایک پر“

یہاں پر نام یا مشہور صفت کی تصریح نہ کرنے کی وجہ، مبلغ (یعنی رسول صلى الله عليه وسلم) کی ذات سے حشمت کا ازالہ ہے۔ اور عرب والے، اپنی ذات کی تعبیر، ”بعض“ کے ذریعہ کرتے ہیں۔ لبید کاشعر ہے:

تراک أمکنة اذا لم أرضہا أو یعتلق بعض النفوس حمامہا

”میں ایسی جگہوں کو یک لخت خیر باد کہنے والا ہوں، جو مجھے پسند نہیں“

مراد اپنی ذات ہے۔

مخاطب کو بھی، ”بعض“ کے ذریعہ تعبیر کرتے ہیں، ابوطیب کا شعر ہے:

اذا کان بعض الناس سیفا لدولة               ففی الناس بوقات لہا وطبول

”اگر کچھ لوگ، کسی ملک کے لیے، تلوار کا کام کرتے ہیں تو کچھ لوگ بانسری اور طبلہ کا کام کرتے ہیں“۔

اس طرح کے تمام مواقع پر، مراد کی تعیین قرینہ سے ہوتی ہے، مثلاً خبر یا صفت کا کسی ایک پر منطبق ہونا، جیسے طرفہ کا شعر ہے:

اذا القوم قالوا من فتی، خلت أننی   عنیت فلم أکسل، ولم أتبلد

”جب قوم پکارتی ہے: کون ہے نوجوان؟ تو میں سمجھتا ہوں کہ میں ہی مقصود ہوں، پھر نہ میرے اندر کسل مندی آتی ہے، اور نہ بے وقوفی“

اسی اسلوب کے مطابق یہ آیت ہے:

وما أرسلناک علیہم وکیلا وربک أعلم بمن فی السموات والارض ولقد فضلنا بعض النبیین علی بعض (اسراء/۵۴،۵۵)

”اور تجھ کو نہیں بھیجا ہم، ان پر، ذمہ لینے والا“۔

اس سے پہلے یہ آیت ہے: واذا قرأت القرآن جعلنا بینک وبین الذین لا یومنون بالآخرة حجابا مستورا (اسراء/۵۴)

”اور جب پڑھتا ہے تو قرآن کردیتے ہیں ہم بیچ میں تیرے اور ان لوگوں کے، جو نہیں مانتے آخرت کو، ایک پردہ چھپاہوا“۔

آگے فرمایا: وقل لعبادی یقول التی ہی أحسن (اسراء/۵۳)

”اور کہہ دے میرے بندوں سے کہ بات وہی کہیں، جو بہتر ہو“۔

آگے فرمایا: ولقد فضلنا بعض النبیین علی بعض (اسراء/۵۵)

”اور ہم نے افضل کیا بعضے پیغمبروں کو بعضوں سے“۔

اس میں یہ خبر دینا ہے کہ اجمالی طور پر بعض پیغام بر، بعض سے افضل ہیں؛ لیکن افضل اور مفضول کی تعیین نہیں، اس لیے کہ ہر فریق، صفتِ خیر میں شریک ہے، اور اس مشترک صفت میں، کوئی ایک دوسرے کے بہ مقابل، صفت کمال میں اضافہ کی وجہ سے، افضل ہے۔ ان صفاتِ تفاضل میں تمییز میں، غموض اور خطا در آنے کا اندیشہ ہے، اور عقل انسانی جو غلطی اور غفلت کی زد میں ہیں، اس کے لیے یہ کام کوئی، آسان نہیں۔ اور جب اللہ تعالیٰ (جو سب کا پروردگار ہے اور اسی کو یہ حق پہنچتا ہے کہ کسی کو کسی سے افضل قرار دے) نے تفضیل کے بارے میں یہ خبر دے دی ہے، تو عام انسانوں کی یہ حیثیت نہیں کہ وہ رسولوں کے درجات کی تعیین کے درپے ہوں، ان کے لیے اسی حد پر رکنا کافی ہے جس کی اطلاع، اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں یا اپنے رسول کی زبانی دی ہے۔(۲)

اسی قول کو زمخشری نے بھی ظاہر قرار دیا ہے، وہ رقم طراز ہیں:

”(ورفع بعضہم درجات) یعنی بعض نبی کا رتبہ، دوسرے تمام نبیوں پر بلند کیا ہے، چناں چہ وہ نبیوں میں فرقِ مراتب کے ساتھ، سب سے بہ درجہا افضل ہیں۔ بہ ظاہر اس سے مراد محمد صلى الله عليه وسلم ہیں، اس لیے کہ انہی کو تمام نبیوں پر فوقیت دی گئی ہے کہ آپ صلى الله عليه وسلم کو کثرت سے معجزات (جن کی تعداد ہزاروں سے زیادہ ہے) دیے گئے، جو کسی اور نبی کو نہیں ملے، اور اگر صرف قرآن ہی ایک معجزہ ہوتا تو بھی، تمام نبیوں سے افضل ہونے کے لیے کافی تھا، کیوں کہ یہ ایسا معجزہ ہے جو ہمیشہ باقی رہنے والا ہے، دوسرے معجزات اس نوعیت کے نہیں۔

پھر اس ابہام میں اس فضیلت کی عظمت کو بیان کرنا ہے، اور آپ کے درجہ کو بلند کرنا ہے جیساکہ مخفی نہیں، اس لیے کہ اس میں اس امر کی شہادت دینی ہے کہ یہ ایسی نمایاں شخصیت ہے جس کے بارے میں کوئی اشتباہ نہیں ہوسکتا، وہ ایسی ممتاز ہستی ہے جس کے بارے میں کوئی التباس نہیں ہوسکتا۔ اور یہ محاورہ ہے کہ اگر پوچھا جائے کہ یہ کس نے کیا؟ تو جواب میں کہتے ہیں ایک (یا کسی) صاحب نے کیاہے، جو اس طرح کے افعال سے معروف مشہور ہوچکے ہوتے ہیں۔ اس اسلوب میں، صراحت سے زیادہ تعظیم ہے۔ حطیئہ سے پوچھا گیا کہ سب سے بڑا شاعر کون ہے؟ تو اس نے زہیر اورنابغہ کا نام لیااور کہا کہ اگر چاہوں تو تیسرے کا ذکر کردوں۔ اس موقع پر اگر وہ یوں کہہ دیتا کہ اگر چاہوں تو اپنا نام لے لوں تو اس کے اندر وہ تعظیم نہ ہوتی۔“(۳)

یہ جواب آلوسی نے بھی نقل کیا ہے۔(۴)

سوم: ابن عطیہ کہتے ہیں: ”یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس سے مراد، محمد صلى الله عيله وسلم اور دوسرے وہ انبیاء کرام ہوں، جن کو عظیم معجزات دیے گئے، اور یہ جملہ، ماسبق کی تاکید کے لیے لایاگیا ہو“۔

یہ جواب زمخشری اور آلوسی نے بھی نقل کیا ہے۔(۵)

مقامِ دوم: فرمان باری (ولو شاء اللّٰہ ما اقتتلوا) کے تکرار میں کیا حکمت ہے؟

اس کے کئی جواب دئیے گئے ہیں:

اول: واحدی کہتے ہیں: تکرار کا مقصد، کلام کی تاکید اور ان لوگوں کی تکذیب ہے جو یہ کہتے ہیں کہ انھوں نے یہ کام اپنے طور پر کیا ہے، اللہ کی طرف سے قضا وقدر کا اس میں کوئی دخل نہیں۔ یہ جواب زمخشری، رازی، ابن عاشور اور ابوحیان نے نقل کیا ہے۔(۶)

یہ جواب آلوسی نے بھی لکھا ہے اور تاکید کا فائدہ بیان کرتے ہوئے وہ رقم طراز ہیں:

”اکثر کی رائے ہے کہ یہ تاکید کے لیے ہے؛ لیکن اس کے پیچھے ایک خاص راز ہے (جیسا کہ صاحب ”الانتصاف“ نے لکھا ہے) وہ یہ کہ جب عرب والے، اپنی گفتگو کا ابتدائی حصہ کسی مقصدپر قائم کرتے ہیں پھر سلسلہ کلام میں کوئی اور مقصد آجاتا ہے، اس کے بعد پہلے مقصد کی طرف لوٹنا چاہتے ہیں تو اس کا ذکر یا تو اسی عبارت میں کرتے ہیں یا اس سے ملتی جلتی عبارت میں۔ یہ عربوں کے یہاں فصاحت کا ایک رائج اسلوب اور عام انداز ہے۔ قرآن کریم میں بھی اس کی کئی مثالیں ہیں، جیسے فرمان باری:

من کفر باللّٰہ من بعد ایمانہ الا من اکرہ وقلبہ مطمئن بالایمان؛ لکن من شرح بالکفر صدرا․ (نحل/۱۰۶)

”جو کوئی منکر ہو اللہ کا، یقین لانے کے پیچھے، مگر وہ نہیں جس پر زبردستی کی گئی اوراس کا دل، ایمان پر برقرار ہے؛ لیکن جو کوئی دل کھول کر منکر ہو“۔

زیرِ بحث آیت بھی اسی انداز کی ہے کہ ابتدا میں یہ بیان فرمایا کہ ان کی آپسی لڑائی، مشیئت الٰہی سے ہوئی، پھر سلسلہ کلام دراز ہوگیا اوراس کے بعد یہ بیان فرمانا چاہا کہ اللہ کی مشیئت، جس طرح اس خاص امر (یعنی ان کی آپسی لڑائی) میں نافذ ہے، اسی طرح ہر وجود میں آنے والے فعل میں نافذ ہے۔ اور اسی کو ان الفاظ میں بیان فرمایا:

ولکن اللّٰہ یفعل ما یرید․

”لیکن اللہ کرتا ہے جو چاہے“۔

اس میں لڑائی کے ساتھ مشیئت کے تعلق کاذکر آگیا تاکہ اس کے بعد مشیئت کے عمومی تعلق کا ذکر آئے۔ تاکہ کلام میں مناسبت پیدا ہوجائے اور ہر ایک اپنی نظیر اور مثل کے ساتھ منسلک ہوجائے۔ یہ ایسا سربستہ راز ہے جس کے بیان سے دل کو انشراح ہوتا ہے، اور باطن کو سکون ملتا ہے۔ اور شاید یہ جواب اس سے بہتر ہے کہ کہا جائے کہ اول الذکر میں بلاواسطہ اور موخرالذکر میں بہ واسطہء مومنین ہے۔ یا اس کے برعکس کہا جائے۔ یہ آیت اس بات کی دلیل ہے کہ حوادث (خیرہوں یا شر، ایمان ہو یا کفر) اللہ کی مشیئت کے تابع ہیں“۔(۷)

دوم: یہاں پر تاکید نہیں؛ اس لیے کہ دونوں مشیئتیں الگ الگ ہیں: اول الذکر سے مراد یہ ہے کہ اگر اللہ چاہتا تو ان کو لڑنے سے روک دیتا بایں طور پر کہ ان کے قوی اور عقلوں کو سلب کردیتا۔ اور دوم سے مراد یہ ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو مسلمانوں کو لڑنے کا حکم دے دیتا؛ لیکن اس کا حکم اور مشیئت یہی تھی کہ وہ آپس میں لڑیں۔

اس آیت سے تقدیر ماننے اور نہ ماننے والے دونوں نے استدلال کیا ہے۔ حتی کہ دورِ جاہلیت میں اعشی شاعر تقدیر کا منکر تھا وہ کہتا ہے

استأثر بالوفاء والعد        ل وولی الملامة الرجلا

اللہ نے وفاء اور عدل اپنے پاس رکھا؛ لیکن ملامت آدمی کے سر کردی۔

لبید شاعر تقدیر کو مانتا تھا، وہ کہتا ہے

من ہداہ سبل الخیر اہتدی  ناعم البال ومن شاء اضل

”جس کو اللہ نے خیر کے راستے دکھائے اسے آسانی سے ہدایت مل گئی اور جسے چاہا گمراہ کردیا“۔

یہ جواب ابوحیان نے نقل کیاہے۔(۸)

ان میں تکرار نہیں، اسی کی طرف، ابوسعود کا بھی رجحان ہے، آلوسی لکھتے ہیں:

”اس درجہ اختلاف (جس کے بعد عادتا لڑائی ہوجاتی ہے) کے باوجود، اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو (مااقتتلوا) وہ لڑائی نہ کرتے، نہ ایک دوسرے پر ظلم وستم کے لیے سر اٹھاتے؛ اس لیے کہ سب اللہ کے دست قہر میں ہے۔ لہٰذا یہ تکرار تاکید کے لیے نہیں جیساکہ بعض حضرات نے سمجھا ہے؛ بلکہ اس امر پر تنبیہ ہے کہ ان کا اختلاف، ان کے نہ لڑنے کے بارے میں اللہ کی عدم مشیئت کا موجب نہیں، جیساکہ استدراکی جملہ کی جگہ میں رکھنے سے ایسا معلوم ہوتا ہے؛ بلکہ اللہ تعالیٰ مختارِ کل ہے حتی کہ اگر اس کے باوجود چاہتا کہ وہ نہ لڑیں، تو نہ لڑتے، جس کی وضاحت یہ استدراکی جملہ کررہا ہے (ولکن اللّٰہ یفعل ما یرید) جیسا چاہے وہی ہوگا، اس پر کوئی کسی چیز کو واجب کرنے والا نہیں، اور نہ اس کو کوئی کسی چیز سے روکنے والا ہے۔ یہ ابوسعود قدس سرہ نے تحقیق کی ہے۔ اور یہ نہایت عمدہ ہے۔ البتہ اس پر، علامہ عبدالباقی بغدادی نے اپنی ”تفسیر“ میں تقریبا وہی اعتراض کیا ہے، جو اس قیاس کی نظیر میں اوپر گذرا۔ اور یہ لکھا ہے کہ یہ ارباب عربیت اور ارباب استعمال کے یہاں (لو) کے استعمال کے خلاف ہے۔ اور اس کا بھی معمولی تبدیلی کے ساتھ وہی جواب دیا جاسکتا ہے، جو اوپر گذرا۔ جس کو فراموش نہیں کرنا چاہیے۔ تکرار کی یہ توجیہ ہمارے علم کے مطابق موصوف کے علاوہ کسی نے نہیں کی۔“(۹)

۲-        فرمان باری: یا أیہا الذین آمنوا أنفقوا مما رزقناکم (بقرہ/۲۵۴)

   ”اے ایمان والو! خرچ کرو اس میں سے جو ہم نے تم کو روزی دی“۔

بدیہی بات ہے کہ رزق اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہی ہوتا ہے پھر اس کی صراحت کرنے میں کیا فائدہ ہے؟

اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملنے کا ذکر کرنے میں، خرچ کرنے کی ترغیب ہے۔ جیساکہ ایک دوسری آیت میں فرمایا:

وأنفقوا مما جعلکم مستخلفین فیہ (حدید/۷)

”اور خرچ کرو اس میں سے جو تمہارے ہاتھ میں دیا اپنا نائب کرکے“

یہ جواب ابن عاشور، ابوسعود اور آلوسی نے نقل کیا ہے۔(۱۰)

۳-         فرمان باری: لا تأخذہ سنة ولا نوم (بقرہ/۲۵۵)

”نہیں پکڑ سکتی اس کو اونگھ نہ نیند“

اونگھ، نیند کا ابتدائی حصہ ہے، اس لیے جب یہ کہا (لاتأخذہ سنة) تو نیند کا نہ آنا بدرجہ اولیٰ ہے، اب اس کے بعد یہ کہنا (ولا نوم) تکرار معلوم ہوتا ہے؟

اس کے کئی جواب دیے گئے ہیں:

اول: آیت کا مطلب یہ ہے کہ اس کو اونگھ نہیں لگتی چہ جائے کہ نیند آئے۔ یہ جواب رازی نے دیا۔(۱۱)

دوم: ابن عاشور کہتے ہیں:

”اللہ تعالیٰ کی ذات سے اونگھ آنے کی نفی کردینا، نیند کی نفی کرنے کے لیے کافی نہیں ہے، اس لیے کہ بعض جان دار ایسے ہیں جن کو اونگھ نہیں آتی؛ بلکہ جب وہ سوتے ہیں تو گہری نیند میں سوتے ہیں۔ اور کچھ لوگوں کو نیند کے وقت کے علاوہ، بے ساختہ اونگھ آجاتی ہے۔ عربوں میں بے خوابی کی قدرت ایک قابل تعریف خصلت تھی۔ ایک شاعر ابوکبیر ہذلی کہتا ہے

فأتت بہ حوش الفواد مبطنا سہدا اذا ما نام لیل الہوجل

”اس کی ماں نے اس کو تیز دل و دماغ والا جنا ہے، اس کا پیٹ پشت سے لگا ہے، کم سونے والا ہے جب کہ حددرجہ بے وقوف رات بھر سوتا رہتا ہے“

مقصود یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے علم کے لیے کوئی حجاب نہیں، نہ کم زور، نہ طویل، نہ جبری نہ کسبی۔

ابن عاشور نے پہلے قول کی تردید کرتے ہوئے کہا:

”لہٰذا فخرالدین رازی اور بیضاوی کی اس تحقیق کی ضرورت نہیں رہتی کہ ”نیند“ سے پہلے ”اونگھ“ ذکر کرنے میں اس امر کی رعایت ہے کہ وجود کے لحاظ سے ان میں یہی ترتیب ہے۔ اور نیند کا ذکر از قبیل احتراس ہے۔ اسی مفہوم کو بشار شاعر نے اخذ کرتے ہوئے شعر کے انداز میں اس طرح ڈھالا ہے، وہ کہتا ہے

ولیل دجوجی تنام بناتہ     وأبناؤہ من طولہ و ربائبہ

”اور کتنی گھٹا ٹوپ راتوں کو جس میں، پابندی کے ساتھ رات جاگنے والے اور جاگنے والیاں اور ان سے کم درجہ میں رات جاگنے والے اس کی طوالت کی وجہ سوچکے ہوتے ہیں“۔

یہاں ”بنات اللیل اور ابناؤہ“ سے مراد وہ لوگ ہیں جو شب بے داری کے رسیا ہیں اور ”ربائبہ“ سے مراد وہ لوگ ہیں جو شب بے داری میں ان سے کم ہیں؛ اس لیے کہ حقیقی بیٹے اور بیٹی کے مقابلہ میں، پروردہ کا انتساب کم زور ہوتا ہے۔(۱۲)

۴-              فرمان باری:

یا أیہا الذین آمنوا أنفقوا من طیبات ما کسبتم ومما أخرجنالکم من الأرض ولا تیمموا الخبیث منہ تنفقون ولستم بآخذیہ الا أن تغمضوا فیہ واعلموا أن اللّٰہ غنی حمید․ (بقرہ/۲۶۷)

”اے ایمان والو! خرچ کرو ستھری چیزیں اپنی کمائی میں سے، اور اس چیز میں سے کہ ہم نے پیدا کیا تمہارے واسطے زمین سے، اور قصد نہ کروگندی چیز کا کہ اس کو خرچ کرو، حالاں کہ تم اس کو کبھی نہ لوگے، مگر یہ چشم پوشی کرجاؤ،اور جان رکھو کہ اللہ بے پرواہ ہے، خوبیوں والا“۔

یہ بدیہی بات ہے کہ جب پاکیزہ چیز خرچ کرنے کا حکم ہے تو بری چیز خرچ نہ کی جائے اس کا علم ہوگیا پھر اس کو دوبارہ ذکر کرنے میں کیا حکمت ہے؟

ابوحیان اس کا جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں:

”اس میں پہلے حکم کی تاکید ہے؛ اس لیے کہ یہ مفہوم (أنفقوا من طیبات ما کسبتم) سے سمجھ میں آچکا تھا۔ اس میں عربی فصاحت وبلاغت کا ایک اسلوب (طیبات اور خبیث) میں طباق ہے“۔ (۱۳)

۵-              فرمان باری:

ان تبدو الصدقات فنعما ہی وان تخفوہا وتوتوہا الفقراء فہو خیرلکم ویکفر عنکم من سیئاتکم واللّٰہ بما تعملون خبیر (بقرہ/۲۷۱)

”اگر ظاہر کرکے دو خیرات تو کیا اچھی بات ہے،اور اگر اس کو چھپاؤ اور فقیروں کو پہنچاؤ تو وہ بہتر ہے تمہارے حق میں، اور دور کرے گا کچھ گناہ تمہارے، اور اللہ تمہارے کاموں سے خوب خبردار ہے“۔

بدیہی بات ہے کہ صدقہ، فقراء ہی کے لیے ہوتا ہے۔ اور جو صدقہ کھلے طور پر دیا جائے وہ بھی فقیروں ہی کو ملے گا۔ پھر خفیہ طور پر جو صدقہ دیا جائے اس میں یہ قید لگانے کی کیا ضرورت ہے کہ اسے فقراء کو پہنچاؤ؟

مفسرین نے اس کے کئی جواب دیے ہیں:

اول: شاید اس میں نکتہ یہ ہے کہ جو خیرات کھلے طور پر دی جاتی ہے وہ فقیروں کو ہی دی جاتی ہے، اس لیے کہ اس میں فقیر اور غیر فقیر کا امتیاز ہوجاتا ہے؛ کیوں کہ حالات سے آدمی کو اندازہ لگ جاتا ہے، اس کے برخلاف چھپا کر جو صدقہ دیا جاتا ہے اس میں یہ شرط لگادی کہ فقیروں کو دیا جائے، اس میں جس کو خیرات دی جائے اس کے حالات کی تفتیش پر آمادہ کرنا ہے۔ اس لیے کہ حریص نگاہ والے (جو فقیر نہیں ہوتے) کھلے طور پر جو خیرات دی جائے اس کو لینے کے لیے سامنے آنے سے شرماتے ہیں؛ لیکن جو خیرات چھپاکر دی جائے اس کو لینے کے لیے سامنے آنے سے نہیں شرماتے۔ یہ جواب ابن عاشور نے نقل کیا ہے اور اسے عصام الدین سے منسوب کیا ہے۔ یہ جواب رازی، ابوحیان، ابوسعود اور آلوسی نے بھی نقل کیا ہے۔(۱۴)

دوم: خفاجی کہتے ہیں کہ ظاہری خیرات میں فقراء کا ذکر اس لیے نہیں کیا کہ اس سے مراد زکاة ہے اوراس کے مصارف فقراء اور دوسرے مستحقین بھی ہیں۔ جب کہ خفیہ خیرات سے مراد نفلی صدقات ہیں اور اس کے مصارف صرف فقراء ہیں۔

ابن عاشور نے یہ قول نقل کرنے کے بعد کہا کہ دو وجوہات سے یہ ناقابل قبول ہے:

اول: ظاہری صدقہ کو، فرض صدقہ میں منحصر کرنا بلاوجہ ہے، اور اس کا کوئی قائل بھی نہیں ہے، ہاں اس میں اختلاف ہے کہ خفیہ صدقہ کرنے کی فضیلت، فرض صدقہ کو بھی عام ہے یا نہیں؟

ہمارے جدامجد ابن عاشور خفیہ صدقہ کی جو حدیث صحیح مسلم میں آئی ہے اس کے حاشیہ میں لکھتے ہیں کہ

”آیت میں خفیہ صدقہ دینے پر، فقیروں کو دینے کا عطف کیاگیا ہے، جس کو افضل ہونے کی شرط قرار دیاگیا ہے حالاں کہ یہ معلوم ہے کہ صدقہ فقیروں کے لیے ہی ہوتا ہے، اس میں افضلیت کی وجہ یہ بتانا ہے کہ فقیر کے حالات کو مخفی رکھا جائے، اور دینے والے ہاتھ کی برتری کا اظہار نہ ہو“۔

یعنی اس میں علت کی طرف اشارہ ہے اور وہ فقیر کی آب رو کو قائم رکھنا ہے۔ اوریہی قول فیصل ہے تاکہ ریاء کا کوئی شائب ہی نہ رہے۔(۱۵)

اس دوسرے قول کو آلوسی نے بھی رد کیا ہے وہ رقم طراز ہیں:

”یہ قول ہیچ ہے، اس لیے کہ اگر یہ تسلیم کربھی لیا جائے کہ علانیہ صدقہ سے مراد زکاة اور خفیہ سے مراد نفلی صدقہ ہے۔ تو ہم یہ نہیں مانتے کہ نفلی صدقہ کے مصارف صرف فقراء ہیں، اور اس کو ثابت کرنے کے لیے جان دینی ہوگی۔ اوراسی وجہ سے بعض حضرات نے فقراء سے مصارف مراد لیے ہیں۔(۱۶)

۶-        فرمان باری: وما تنفقوا من خیر فان اللّٰہ بہ علیم (۲۷۳)

”اور جو کچھ کام کی چیز خرچ کروگے وہ بے شک اللہ کو معلوم ہے“۔

یہاں پر خرچ کرنے کا ذکر تین بار آیا ہے، تو اس تکرار میں کیا حکمت ہے؟

اس کے کئی جواب دئیے گئے ہیں:

اول: امام رازی کہتے ہیں:

”اللہ تعالیٰ نے فقراء کے اوصاف بیان فرمانے کے بعد فرمایا (وما تنفقوا من خیر فان اللّٰہ بہ علیم(۲۷۳)) اس جیسا مضمون اس سے پہلے والی آیت میں آچکا ہے، فرمان باری ہے وما تنفقوا من خیر یوف الیکم وانتم لا تظلمون (بقرہ/۲۷۲)

”اور جو کچھ خرچ کروگے خیرات سوپوری ملے گی تم کو، اور تمہارا حق نہ رہے گا۔“

یہ از قبیل تکرار نہیں؛ بلکہ اس کی دو وجوہات ہیں:

۱- اللہ تعالیٰ نے جب یہ فرمایا (وما تنفقوا من خیر فان اللّٰہ بہ علیم(۲۷۳)) تو یہ بات بدیہی طور پر معلوم تھی کہ بلاکم و کاست پورا پورا اجر وثواب دینے کے لیے یہ معلوم ہونا ضروری ہے کہ عمل کس قدر ہے، اور اجر و ثواب کے استحقاق کے لیے اس کی جہات کیاہیں، تو اللہ تعالیٰ نے اسی بات کو اس آیت میں بیان فرمادیا کہ اللہ تعالیٰ کو اعمال کی مقدار اور کیفیات کا علم ہے۔

۲- اللہ تعالیٰ نے جب مسلمان اور ذمی (غیرمسلم رعایا) ہر ایک کے لیے خیرات کی ترغیب دی اور فرمایا:

وما تنفقوا من خیر یوف الیکم (بقرہ/۲۷۲)

”اور جو کچھ خرچ کروگے خیرات سو پوری ملے گی تم کو“۔

تو یہ بیان فرمادیا کہ اس کا اجر لامحالہ ملنے والا ہے۔ پھر اس آیت میں مذکورہ اوصاف کے حامل فقراء پر خیرات کی ترغیب دی اور یہ خرچ کرنے کا بہترین موقع تھا تو اللہ تعالیٰ نے اس کے عظیم ثواب کو بھی بیان کردیا اور فرمایا وما تنفقوا من خیر فان اللّٰہ بہ علیم(۲۷۳)

”اور جو کچھ کام کی چیز خرچ کروگے وہ بے شک اللہ کو معلوم ہے۔“

یہ ایسے ہی ہے جیساکہ بادشاہ کسی سے کہے کہ تمہارے لیے یہ کافی نہیں کہ اپنی حسن اطاعت اور بہترین خدمت پر گواہ ہو۔ ظاہر ہے کہ اس کی وقعت اس سے زیادہ ہے کہ وہ یوں کہے کہ تم کو تمہارا بدلہ ملے گا۔(۱۷)

ابوحیان نے بھی یہ سوال اٹھایا اور اس کا جواب دیتے ہوئے لکھا ہے:

”(وما تنفقوا من خیر فان اللّٰہ بہ علیم) سے پہلے (وما تنفقوا من خیر فلأنفسکم) اور (وما تنفقوا من خیر یوف الیکم) یہ دونوں آیتیں آچکی ہیں، اور ان میں تکرار و تاکید نہیں؛ بلکہ ہر ایک کے ساتھ الگ الگ قیدیں ہیں۔ چناں چہ پہلی آیت میں یہ بیان فرمایا کہ انسان جو نیکی (جس کو اس کے علاوہ بھی جانتا ہے) کرتا ہے وہ اس کے اپنے لیے ہے، اور اس کا بدلہ اس کو ملے گا۔

دوسری آیت میں یہ بیان فرمایا کہ اس نیکی سے ملنے والا ثواب، اسے بلاکم و کاست مکمل ملے گا۔

تیسری آیت میں یہ بیان فرمایا کہ انسان جو بھی نیکی کرتا ہے اس کی مقدار، اور ثواب کے مرتب ہونے کی اثر انگیز صورتیں اللہ کے علم میں ہیں، اس لیے یہاں پر ایسے وصف (یعنی علم) کا ذکر کیا جو اطلاع معلوم ہوتی ہے۔(۱۸)

۷-        فرمان باری: الذین ینفقون أموالہم باللیل والنہار سرا وعلانیة (بقرہ/۲۷۴)

”جو لوگ خرچ کرتے ہیں اپنے مال اللہ کی راہ میں رات کو اور دن کو، چھپاکر اور ظاہر میں“۔

سوال یہ ہے کہ خرچ کرنا، دن یا رات اور خفیہ یا علانیہ ہی ہوتا ہے پھر اس کو ذکر کرنے میں کیا حکمت ہے؟

زمخشری اس کا جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں:

”مراد یہ ہے کہ یہ لوگ نیکی کمانے کے حریص ہیں، اس لیے ہر وقت اور ہرحالت میں خرچ کرتے ہیں، جب بھی کوئی حاجت مند آتا ہے تو اس کی حاجت کشائی کردیتے ہیں ٹال مٹول نہیں کرتے اور نہ کسی حالت یا وقت کا بہانا کرتے ہیں۔“(۱۹)

۸-              فرمان باری:

یا أیہا الذین آمنوا اذا تداینتم بدین الی أجل مسمی فاکتبوہ ولیکتب بینکم کاتب بالعدل ولا یأب کاتب أن یکتب کما علمہ اللّٰہ فلیکتب ولیملل الذی علیہ الحق ولیتق اللّٰہ ربہ ولا یبخس منہ شیئا فان کان الذی علیہ الحق سفیہا او ضعیفا أو لا یستطیع أن یمل فلیملل ولیہ بالعدل (بقرہ/۲۸۲)

”اے ایمان والو! جب تم معاملہ کرو آپس میں ادھار کا، کسی وقت مقرر تک تو اس کو لکھ لیاکرو، اور چاہیے کہ لکھ دے تمہارے درمیان کوئی لکھنے والا انصاف سے، اور انکارنہ کرے لکھنے والا، اس سے کہ لکھ دے جیسا کہ سکھایا اس کو اللہ نے، سواس کو چاہیے کہ لکھ دے، اور بتاتا جائے وہ شخص کہ جس پر قرض ہے، اور ڈرے اللہ سے جو اس کا رب ہے، اور کم نہ کرے اس میں سے کچھ، پھر اگر وہ شخص جس پر قرض ہے بے عقل ہے یا ضعیف ہے، یا آپ نہیں بتاسکتا تو بتادے کار گذار اس کا انصاف سے“۔

اس آیت میں چند مقامات پر بدیہیات ہیں:

مقام اوّل: (تداینتم) کے لفظ سے، (دین) ہونا سمجھ میں آرہا تھا پھر اس کو الگ سے صراحتاً بیان کرنے میں کیا حکمت ہے؟

مفسرین نے اس کے کئی فائدے بیان کیے ہیں:

۱- اس میں ایک لفظ مشترک معنی کی تعیین اور تخصیص،اور صراحتاً دوسرے معنی کے وہم کو ختم کرناہے۔ اس لیے کہ (تداینتم) کے دو معنی آتے ہیں: (۱) تعاملتم بدین یعنی ادھار معاملہ کرنا۔ (۲) تجازیتم بدین یعنی بدلہ دینا۔ یہاں یہ اشکال نہیں ہونا چاہیے کہ اس وہم کو ختم کرنے کے لیے، سیاق ہی کافی تھا اس لیے کہ گفتگو اس میں ہے کہ بہ صراحت بیان کیا گیا یا نہیں، پھر یہ بھی ہے کہ بسا اوقات ہشیار آدمی ہی سیاق پر متنبہ ہوتا ہے۔ یہ فائدہ رازی، ابوحیان، ابوسعود اورآلوسی نے بیان کیا ہے۔(۲۰)

علامہ طیبی نے بہ حوالہ ”صاحب الفرائد“ لکھا ہے کہ یہاں یہ خیال پیدا ہونے کا امکان تھا کہ (تداینتم) مجازا ”وعدہ“ کے معنی میں استعمال ہو۔ جیسا کہ روبہ شاعر کا شعر ہے

داینت اروی والدیون تقضی        فمطلت بعضا و ادت بعضا

”میں نے (اپنی معشوقہ) ”اروی“ سے ایک ادھار کا معاملہ (وعدہ) کیا تھا، اور قرضے ادا کیے جاتے ہیں، لیکن اس نے کچھ تو ادا کیے اور کچھ نہیں۔

وعدتنا بدرہمینا طلاء      وشواء معجلا غیر دین

”اس نے ہمارے درہموں کے بدلہ، ہم سے ، طلاء (ایک قسم کی شراب) اور بھنے گوشت کا وعدہ کیا جو فی الفور ادا کرنا تھا ادھار نہیں تھا“۔(۲۱)

۲- (بدین) کا ذکر اس لیے کیاتاکہ (فاکتبوہ) کی ضمیر اس کی طرف لوٹ سکے اور یہ کہنا ہوتا (فاکتبوا الدین) اور اہل ذوق سمجھ سکتے ہیں اس صورت میں کلام میں وہ حسن پیدا نہیں ہوتا۔

لیکن اس پر یہ اشکال پیدا ہوتا ہے کہ (تداینتم) کا لفظ (دین) پر دلالت کررہا تھا اس لیے اس کی طرف ضمیر لوٹنے میں کوئی اشکال نہیں تھا جیساکہ ایک دوسری آیت میں ہے:

اعدلوا ہو اقرب للتقوی (مائدہ/۸)

”عدل کرو یہی بات زیادہ قریب ہے تقوی سے“۔

اس کا جواب یہ ہے کہ (دین) سے مراد مصدر نہیں، بلکہ دو میں سے ایک عوض ہے، اور ظاہر ہے کہ سیاق سے صرفِ نظر، لفظ (تداینتم) اس پر، قطعاً دلالت نہیں کرتا، اور بیان و وضاحت کے مقام میں اس پر اکتفا نہیں کیا جاتا خصوصا جب کہ التباس کا اندیشہ ہے۔ یہ جواب رازی، ابوحیان، ابن عاشور، ابوسعود اور آلوسی نے دیا ہے۔(۲۲)

۳- اس کے ذکر کرنے کی وجہ یہ ہے کہ اس میں، دین کی ”موجل“ اور ”حال“ (واجب الادا) دو قسموں کی وضاحت زیادہ ہے؛ اس لیے کہ نکرہ میں شیوع اور تبعیض ہوتی ہے، کیوں کہ اس کو غایت کے ساتھ خاص کردیاگیا ہے۔ اگر اس کو ذکر نہ کرتے تو یہ احتمال باقی رہتا کہ دین صرف موجل ہی ہوتا ہے۔ یہ جواب زمخشری، ابن عاشور، ابوسعود اورآلوسی نے نقل کیا ہے۔(۲۳)

۴- یہ صرف اطناب کے لیے ہے۔جیسے: رأیتہ بعینی (میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا)، لمستہ بیدی (میں نے اپنے ہاتھوں سے چھوا) یہ جواب ابوحیان اور ابن عاشور نے دیا ہے۔(۲۴)

۵- یہ تاکید کے لیے ہے، جیسے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

فسجد الملائکة کلہم أجمعون (حجر/۳۰)

”تب سجدہ کیا ان فرشتوں نے، سب نے مل کر“۔

اور فرمان باری: ولا طائر یطیر بجناحیہ (انعام/۳۸)

”اور نہ کوئی پرندہ کہ اڑتا ہے اپنے دو بازووں سے“۔

یہ جواب رازی اور ابوحیان نے نقل کیا ہے۔(۲۵)

۶- مراد یہ ہے کہ جب تم کسی طرح کے دین کا معاملہ کرو، خواہ چھوٹا ہویا بڑا، کسی نوعیت کا ہو: میعادی قرض یا سلم یا کسی چیز کی فروخت۔ یہ جواب رازی اور ابوحیان نے نقل کیاہے۔(۲۶)

۷- امام رازی کہتے ہیں:

”میرے ذہن میں یہ بات آئی ہے کہ ”مداینة“ میں مفاعلت (جانبین سے شرکت ہوتی) ہے۔ اور اس کی صورت یہی ہوگی کہ دین کو دین کے عوض فروخت کیا جائے، اور یہ باطل ہے۔ لہٰذا اگر صرف یہ کہتے (اذا تداینتم) تو اس نص کا حکم دین کے عوض دین کی خرید و فروخت میں منحصر ہوتا اور یہ باطل ہے، لیکن جب اس کے بعد (بدین) کہہ دیا تو اس کا معنی یہ ہوا کہ جب تم اس طرح کا مداینت کرو جس میں ایک دین ہو۔ اب دین کے عوض ”دین“ کی فروخت اس آیت سے خارج ہوگئی۔ اور ”عین“ کو ”دین“ کے عوض فروخت کرنے اور ”دین“ کو ”عین“ کے عوض فروخت کرنے کی شکل باقی رہ گئی۔ اس لیے کہ بہ ہر دو صورت ایک ہی ”دین“ ہوتا ہے دو نہیں۔“(۲۷)

مقام دوم: مدانیت میں میعاد ہونا لازم ہے پھر (الی اجل) کے ذریعہ اس کو ذکر کرنے میں کیا حکمت ہے؟

اس کا جواب یہ ہے کہ آگے اس کی صفت (مسمی) آرہی ہے اسی کی رعایت میں اس کو ذکر کردیا۔ اور اس صفت کا فائدہ یہ احاطہٴ علم میں لانا ہے کہ یہ میعاد، معلوم و معین ہونی چاہیے مثلاً سال، ماہ اور ایام کی تعیین ہو۔ لہٰذا اگر یہ کہا کہ کھیتی کی کٹائی تک یا اس کی گہائی تک یا حاجی کے آنے تک کے لیے ادھار ہے۔ تو یہ درست نہیں اس لیے کہ تعیین نہیں۔ یہ فائدہ رازی، ابوحیان، ابوسعود اورآلوسی نے نقل کیا ہے۔(۲۸)

مقام سوم: لفظ (فلیکتب) سے، محرر سمجھ میںآ گیا تھا پھر اس کو صراحت کے ساتھ (کاتب) کہنے میں کیا حکمت ہے؟

اس کے دو جواب دیے گئے ہیں:

۱- اولاً اجمالی طور پر تحریر کرلینے کا حکم دیاگیا ہے اس کے بعد (ولیکتب بینکم کاتب بالعدل) میں اس تحریرکی کیفیت اوراس کو انجام دینے والے کی تعیین کی گئی ہے۔ یہ جواب ابوسعود اور ان کے بعد آلوسی نے لکھا ہے۔(۲۹)

۲- یہ تاکید کے لیے ہے۔ یہ جواب ابوحیان نے دیا ہے۔(۳۰)

مقام چہارم: سوال یہ ہے کہ جب لکھنے کا حکم آگیا تو اس سے لکھنے سے گریز کرنے کی ممانعت سمجھ میں آگئی تھی، پھر اس کو دوبارہ بیان کرنے میں کیا حکمت ہے؟

اس کے دو جواب دیے گئے ہیں:

۱- یہ تاکید کے لیے ہے۔ یہ جواب ابوسعود اور آلوسی نے دیا ہے۔ لیکن یہ جواب اس صورت میں ہے جب کہ (کما علمہ اللّٰہ) کا تعلق (یکتب) سے ہو۔ یعنی اس وجہ سے کہ اللہ تعالیٰ نے اس پر کرم فرماکر اس کو دستاویز نویسی کا فن عطا کیا۔ یہ ایسے ہی ہے جیساکہ کہا جاتا ہے: أحسن کما أحسن اللّٰہ الیک (اللہ نے تم پر احسان کیا ہے تو تم بھی حسن سلوک کرو) مطلب یہ کہ دستاویز نویسی کے، لوگوں کے ساتھ حسن سلوک کرنے سے گریز نہ کرے؛ کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے اس پر کرم فرما اور اس کو یہ امتیازی مقام عطافرمایا۔ اور اس کے بیان کرنے کی ضرورت اس لیے پڑی کہ کسی چیز سے ممانعت، اصح قول کے مطابق، صراحتاً اس کی ضد کا حکم دینا نہیں۔ لہٰذا تحریر کی اہمیت بتانے کے لیے اس کو صراحتاً ذکر فرماکر اس کی تاکید کردی۔ اور یہیں سے بعض حضرات نے یہ بات اخذ کی ہے کہ امر وجوب کے لیے اور فرض کفایہ ہے۔ لیکن چوں کہ یہ امر ہمارے فائدہ کے لیے تھا ہمارے خلاف نہیں، اس لیے اس کو وجوب سے ہٹادیاگیا مبادا جہالت اجل والے مسئلہ میں جو اشکال تھا وہی یہاں بھی نہ لوٹ آئے۔

زمخشری، رازی ابوحیان اور ابن عاشور بھی تاکید ہی کی بات لکھتے ہیں، ابن عاشور رقم طراز ہیں:

”(فلیکتب) یہ (ولایاب کاتب) کی تفریع ہے، جس میں مقتضی کو بہ صراحت بیان کرنا اور (فاکتبوہ) میں امر کو مکرر ذکرکرنا ہے۔ لہٰذا یہ امر ونہی دونوں کی تاکید ہے، اس کو دوبارہ اس لیے لایا گیا تاکہ (ولیملل الذی علیہ الحق) کو اس پر مرتب کیا جاسکے، اس لیے کہ اس سے متصل امر اوّل دور ہوگیا تھا۔ اس کی نظیر سورہ اعراف کی یہ آیت ہے۔

واتخذ قوم موسی من بعدہ من حلیہم عجلا جسدا (اعراف/۱۴۸)

”اور بنالیا موسی کی قوم نے اس کے پیچھے اپنے زیور سے بچھڑا“۔

کہ اس کے بعد فرمایا: اتخذوہ (اعراف/۱۴۸)

”معبود بنالیا اس کو“۔

۲- دوم اس میں تکرار نہیں۔ اس لیے کہ امر کا تعلق جس سے ہے، نہی کا تعلق اس سے نہیں۔ یہ جواب اس صورت میں ہے جب کہ (کما علمہ) میں کاف کا تعلق (فلیکتب) سے ہو۔اور فاء اس سے مانع نہیں جیساکہ فرمان باری میں ہے:

وربک فکبر (مدثر/۳)

”اور اپنے کپڑے پاک رکھ“۔

اس لیے کہ معنوی لحاظ سے یہ ”صلہ“ ہے۔ یہ تاکید نہیں؛ بلکہ یہاں پر یہ کہ اولاً مطلق تحریر سے گریز کرنے کی ممانعت کی گئی، پھر تحریر مقید کا حکم دیاگیا، اور اس صورت میں تاکید نہیں؛ اس لیے کہ مطلق سے گریز کی ممانعت، مقید کے مامور بہ ہونے کی دلیل نہیں، ورنہ پھر اس کا اس کے بعد ذکر تاکید ہوتی، جیساکہ بعض حضرات نے اس کا دعویٰ کیاہے، اس لیے کہ اگر مطلق کتابت سے گریز ممنوع ہے تو کتابت شرعیہ سے گریز کرنا بہ درجہ اولیٰ ممنوع ہوگا۔ اور کتابت شرعیہ سے گریز کی ممانعت، کتابت شرعیہ کا امر وحکم ہے۔ لہٰذا کتابت شرعیہ کا حکم دینا صراحتاً تاکید ہوگی۔ مزید براں یہ کہ اگر مطلق و مقید دونوں آئیں اور واقعہ ایک ہو، تو مطلق کو مقید پر محمول کریں گے، خواہ مطلق پہلے آئے یا بعد میں۔ تو جس طرح پہلی صورت میں، مطلق کتابت کو، کتابت مقیدہ پر محمول کیاگیا ہے، تاکہ تاکید کا فائدہ دے، تو مطلق کتابت سے گریز کی ممانعت کو، تاکید کے لیے، کتابت مقیدہ پر محمول کیوں نہ کیا جائے، اور ان دونوں میں تفریق کرنا، محض تحکم ہے۔ یہ جواب زمخشری، ابوحیان، ابوسعود اور آلوسی نے نقل کیا ہے۔(۳۱)

۸- فرمان باری: لہا ماکسبت، وعلیہا ما کتسبت (بقرہ/۲۸۶)

”اسی کو ملتا ہے جو اس نے کمایا، اور اسی پر پڑتا ہے جو اس نے کیا“۔

یہاں پر فعل (کسب) کو دوبار لانے میں کیا حکمت ہے؟

اس کے دو جواب دیے گئے ہیں:

اول: تحسین کلام کے لیے، کسب کو مکرر لایاگیا، اور دونوں کی تصریف (صیغہ کی شکل) الگ الگ کردی گئی، جیساکہ اس فرمان باری میں ہے:

فمہل الکافرین أمہلہم رویدا (سورہ طارق/۱۷)

یہ جواب ابن عطیہ نے دیا ہے۔(۳۲)

دوم: اس لیے کہ نیکیوں کی تحصیل بلا تکلف ہوتی ہے، کیوں کہ نیکیاں حاصل کرنے والا اللہ تعالیٰ کے بنائے ہوئے سیدھے راستے پر ہوتا ہے۔ جب کہ برائیاں کرنے والا، بہ تکلف، اللہ کی ممانعت کے پردہ کو چاک کرتا ہے اور اس سے تجاوز کرجاتا ہے۔ لہٰذا اس کے لیے ”مبالغہ“ (یعنی صیغہ کی ساخت میں اضافہ) اختیار کیاگیا۔ اسی معنی کے پیش نظر اس آیت میں یہ دونوں الگ الگ صیغے اختیار کرنا مستحسن ہے۔

زمخشری اورابن عطیہ دونوں کے کلام سے معلوم ہوتا ہے کہ شروسیئات کے ارتکاب میں تکلف اور اعتمال ہوتا ہے؛ لیکن اس کے سبب کی توجیہ دونوں نے الگ الگ کی ہے۔

زمخشری کہتے ہیں کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ نفس اپنی پسندیدہ چیز کی طرف راغب ہوتا اور کھنچتا ہے، اور ابن عطیہ نے کہا کہ اس کا سبب یہ کہ اس میں تکلف اور اللہ کی طرف سے ممانعت کے حجاب کو چاک کرنا ہوتا ہے۔ لہٰذا انسان معصیت کا ارتکاب بلاتکلف نہیں کرتا ہے۔ سجاوندی کی رائے بھی قریب قریب وہی ہے جو ابن عطیہ کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ”افتعال“ میں التزام ہوتا ہے، اور شر انسان کے اپنے سرہی لازم ہوتا ہے جب کہ خیر میں انسان دوسرے کو شریک کرسکتا ہے کہ کسی کی رہ نمائی کردی یا سفارش کردی۔(۳۳)

نسفی اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں:

”نیکی کے لیے ”کسب“ کا اور برائی کے لیے ”اکتساب“ کا صیغہ استعمال کیاگیا اس لیے کہ افتعال کے وزن میں ”انکماش“ (سکڑنا) ہے اور برائی کے وقت، نفس سکڑتا ہے، جب کہ نیکی کے لیے، تکلف کرتا ہے“۔(۳۴)

* * *

حواشی

(۱)                        رازی ۶/۵۲۱۔

(۲)                       ابن عاشور تفسیر آیت۔

(۳)                      زمخشری تفسیر آیت۔

(۴)                      آلوسی ۲/۳۔

(۵)                      ابوحیان ۲/۶۰۱؛ زمخشری تفسیر آیت؛ آلوسی ۲/۳۔

(۶)                       زمخشری تفسیر آیت؛ رازی ۶/۵۲۱؛ ابن عاشور ۳/۱۳؛ ابوحیان ۲/۶۰۳۔

(۷)                      آلوسی ۲/۳۔

(۸)                      ابوحیان ۲/۳۰۶۔

(۹)                       ابوسعود ۳/۲۴۵؛ آلوسی ۲/۳۔

(۱۰)                     ابن عاشور تفسیر آیت؛ ابوسعود ۳/۲۴۵؛ آلوسی ۳/۴۔

(۱۱)                      رازی ۸/۷-۹

(۱۲)                     ابن عاشور تفسیر آیت۔

(۱۳)                     ابوحیان تفسیر آیت۔

(۱۴)                     ابن عاشور تفسیر آیت؛ رازی ۷/۶۱؛ ابوحیان ۲/۶۹۱؛ ابوسعود ۱/۲۶۶؛ آلوسی ۳/۴۴۔

(۱۵)                     ابن عاشور تفسیر آیت۔

(۱۶)                     آلوسی ۳/۴۴۔

(۱۷)                     رازی ۷/۶۷۔

(۱۸)                     ابوحیان تفسیر آیت۔

(۱۹)                      زمخشری تفسیر آیت؛ ابوحیان تفسیر آیت۔

(۲۰)                    رازی ۷/۱۱۷؛ ابوحیان ۲/۷۲۳؛ ابوسعود ۱/۲۷۰؛ آلوسی ۳/۵۵۔

(۲۱)                     ابن عاشور ۳/۹۸۔

(۲۲)                    رازی ۷/۱۷؛ ابوحیان تفسیر آیت؛ ابن عاشور تفسیر آیت؛ ابوسعود ۱/۲۷۰؛ آلوسی ۳/۵۵۔

(۲۳)                    زمخشری تفسیر آیت؛ ابن عاشور ۳/۹۸؛ ابوسعود ۱/۲۷۰؛ آلوسی ۳/۵۵۔

(۲۴)                    ابوحیان تفسیر آیت، ابن عاشور ۳/۹۹۔

(۲۵)                    رازی ۷/۱۱۷؛ ابوحیان ۲/۷۲۳۔

(۲۶)                    رازی ۷/۷۱۱؛ ابوحیان ۲/۷۲۳۔

(۲۷)                    رازی ۷/۱۱۷۔

(۲۸)                    رازی ۷/۹۱؛ ابوحیان تفسیر آیت؛ابوسعود ۱/۲۷۰؛ آلوسی ۳/۵۶۔

(۲۹)                     ابوسعود ۱/۲۷۰؛ آلوسی ۳/۵۶۔

(۳۰)                    ابوحیان تفسیر آیت۔

(۳۱)                     زمخشری تفسیر آیت؛ ابوحیان تفسیر آیت؛ ابوسعود ۱/۲۷۱؛ آلوسی ۳/۵۶۔

(۳۲)                    دیکھئے: ابوحیان تفسیر آیت۔

(۳۳)                   دیکھئے: ابوحیان تفسیر آیت۔

(۳۴)                   نسفی تفسیر آیت؛ بیضاوی۱/۵۸۶۔

***

———————————

ماہنامہ  دارالعلوم ، شماره 06-05 ، جلد: 93 جمادى الاول – جمادى الثانى 1430 ھ مطابق مئى – جون 2009ء

Related Posts