مرتب: حضرت مولانا محمد زکریاصاحب رحمة الله عليه، شیخ الحدیث مظاہرعلوم سہارنپور

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم

نَحْمَدُہ وَنُصَلِّی عَلٰی رَسُوْلِہ الْکَرِیْم

اس سال یعنی ۱۳۹۵ھ میں سفر ہند کے موقع پر ایک نئی بات پیش آئی اس ناکارہ کی روانگی جدہ سے ہندوستان کے لیے ۶/اگست ۱۹۷۵/ مطابق ۲۸/رجب ۱۳۹۵ھ چہارشنبہ کو ہوئی اور اسی روز بمبئی پہنچنا ہوا۔ خیال بمبئی میں دو تین روز قیام کا تھا۔ مگر بمبئی جاکر معلوم ہوا کہ مولانا انعام الحسن صاحب کو مالیرکوٹلہ کا تبلیغی سفر درپیش ہے۔ انھوں نے بمبئی کے احباب کو لکھ رکھا تھا کہ بمبئی میں زکریّا کا قیام زیادہ نہ کرایا جائے۔

اس لیے یہ ناکارہ ایک دن بمبئی ٹھہرکر جمعہ کو بمبئی سے دہلی روانہ ہوگیا۔اور ایک شب قیام کے بعد مولانا انعام الحسن صاحب مالیرکوٹلہ کے لیے اور یہ ناکارہ سہارنپور کے لیے روانہ ہوگیا۔ سہارنپور سے امسال واپسی بجائے طیارہ کے بارڈر کے راستے ہوئی،اور ۲/ذیقعدہ جمعہ کے دن صبح کو پاکستانی بارڈر پر پہنچنا ہوا۔ پاکستان کا تبلیغی اجتماع جو شنبہ سے شروع ہورہا تھا سہ روزہ تھا۔ پاکستان میں چند مواقع پر ٹھہرنے کے بعد ۲۱/نومبر ۱۶/ذیقعدہ ہندی کو مکّہ مکرّمہ واپس پہنچا۔

وہ نئی بات سہارنپور کے زمانہٴ قیام میں اس مرتبہ خلاف معمول ڈاڑھی کے مسئلہ پر مجھے بہت ہی اشتعال رہا۔ مجھے خود بھی خیال آتا رہا،اور دوستوں نے بھی کہا کہ اس شدت کی نکیر تو میرے مزاج میں پہلے نہیں تھی ہر موقع پر مقطوع اللحیہ کو دیکھ کر طبیعت میں جوش پیدا ہوتا تھا، اور ہر مجمع میں اس پر نکیر کرتا۔ بیعت میں بھی قطع لحیہ سے بچنے کی تاکیدکرتا تھا۔ اس شدت کی کوئی خاص وجہ تو میرے ذہن میں نہیںآ ئی بجز اس کے کہ یہ مرض بہت بڑھتا جارہا ہے، اور موجودہ دور میں اس پرنکیر بالکل متروک ہوگئی ہے۔

حضرت شیخ الاسلام مولانا مدنی نوراللہ مرقدہ کے آخری تین چار سال بھی اس پر بہت ہی شدتِ نکیر کے گزرے۔ مجھے ایسے لوگوں کو دیکھ کر جو حضور اقدس صلى الله عليه وسلم کی صورت کے خلاف اپنی صورت بناتے اور ڈاڑھی منڈاتے ہیں یہ خیال ہوتا تھا کہ موت کا مقرروقت کسی کو معلوم نہیں اور اس حالت میں اگرموت واقع ہوئی تو قبر میں سب سے پہلے سیّدالرسل صلی اللہ وآلہ وسلم کے چہرئہ انور کی زیارت ہوگی تو کس منہ سے چہرئہ انور صلى الله عليه وسلم کا سامنا کریں گے۔

اس کے ساتھ ہی بار بار یہ خیال آتا تھا کہ گناہِ کبیرہ زنا، لواطت، شراب نوشی، سودخوری وغیرہ تو بہت سے ہیں۔ مگر وہ سب وقتی ہیں کہ ہر وقت ان کا ظہور اور صدور نہیں ہوتا۔ نبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے۔

لاَیَزْنِی الّزَانِی حِیْنَ یَزْنِیْ وَہُوَ مُوٴمِنٌ (الحدیث) یعنی زناکار جب زنا کرتا ہے تو وہ اس وقت موٴمن نہیں ہوتا۔ مطلب اس حدیث کا مشائخ نے یہ لکھا ہے کہ زناکے وقت ایمان کا نور اس سے جدا ہوجاتا ہے۔ لیکن زنا کے بعد وہ نور ایمانی پھر مسلمان کے پاس آجاتا ہے۔ مگر قطع لحیہ ایسا گناہ ہے جس کا اثر اور ظہور ہر وقت اس کے ساتھ رہتا ہے نماز پڑھتا ہے تو بھی یہ گناہ ساتھ ہے۔ روزہ کی حالت میں، حج کی حالت میں، غرض ہرفرض ہر عبادت کے وقت یہ گناہ اس کے ساتھ لگارہتا ہے۔ اس وقت بار بار یہ خیال آیا کہ ایک رسالہ ڈاڑھی کے متعلق مختصر سا لکھوں۔

مگر ہندوستان کے قیام میں اس کا بالکل وقت نہ ملا۔ ہندوستان سے واپسی پر وہ جوش تو اگرچہ باقی نہیں رہا۔ مگر رسالہ لکھنے کا خیال بدستور دامن گیر ہے۔ اس لیے آج ۲۹/ذی الحجہ ۱۳۹۵ھ یومِ چہارشنبہ بوقت ظہر مسجدِ نبوی میں اس کی بسم اللہ تو کرادی اللہ تعالیٰ پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ کیونکہ اس وقت حجاجِ کرام کی رخصت، اور ملاقات کی وجہ سے احباب کا ہجوم رہتا ہے۔ وَاللّٰہُ الْمُوَفِّقُ لِمَا یُحِبُّ وَیَرْضٰی.

اس رسالہ میں دو فصلیں لکھوانے کا خیال ہے۔ فصل اوّل میں حضور پاک صلى الله عليه وسلم کے ارشادات اور حضرات صحابہ کے آثار مذکور ہیں۔ اور دوسری فصل میں مشائخ اور علماء کے اقوال نقل کیے گئے ہیں۔

فصل اوّل

(۱)          عَنْ عَائِشَةَ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا قَالَتْ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَآلِہ وَسَلَّمْ عَشْرٌ مِنَ الْفِطْرَةِ قَصُّ الشَّارِبِ وَاعفَاءُ للّحِیَةِ الحَدِیْث رَوَاہُ اَبُودَاوٴدَ وعَزاہ فِیْ رِسَالَةِ حُکُمُ اللّحْیَةِ فِیْ الْاِسْلاَمِ لِلّشَیْخ مُحَمَّدِ الحَامِدِ الشَّامِیْ اِلٰی مُسْلِمٍ وَاَحْمَدَ وَالتِرمِذِیْ وَاِبْنِ مَاجَةَ.

حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ دس چیزیں فطرت میں سے ہیں۔ جن میں مونچھوں کا کٹوانا اور ڈاڑھی کا بڑھانا ذکر فرمایاہے۔

ف: بذل المجہود میں لکھا ہے کہ فطرت کے معنی سنن انبیاء ہیں یعنی یہ دس چیزیں جن میں مونچھوں کا کٹوانا اور ڈاڑھی کا بڑھانا بھی ہے جملہ انبیائے کرام علیہم الصلوٰة والسلام کی سنتوں سے ہیں جن کی اقتداء کا ہمیں حکم دیاگیا ہے (یہ اشارہ ہے قرآن پاک کی آیة شریفہ اُولٰئِکَ الَّذِیْنَ ہُدَی اللّٰہُ فَبِہُدَاہُمُ اقتَدِہ کی طرف) یہ آیت شریفہ ساتویں پارہ کی ہے۔

جس میں اوپر سے انبیائے کرام علیہم الصلوٰة والسلام کے اسمائے گرامی ذکر کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کو ارشاد فرمایا ہے کہ یہ حضرات ایسے تھے جن کو اللہ تعالیٰ نے ہدایت کی تھی سو آپ بھی ان ہی کے طریقہ پر چلئے۔ (بیان القرآن)

بذل میں لکھا ہے کہ فطرت کے یہ معنی اکثر علماء سے نقل کیے گئے ہیں۔ اور بعض نے فطرت کے معنی سنتِ ابراہیمی بیان کیے ہیں۔ یعنی حضرت ابراہیم علی نبینا وعلیہ الصلوٰة والسلام کی سنت اور بعض علماء نے فطرت کے معنی یہ کیے ہیں کہ طبائع سلیمہ ان کو طبعاً قبول کرتی ہیں۔ یعنی جو طبیعتیں ٹیڑھی نہ ہوں ان کو یہ سب چیزیں پسند ہیں۔ اور مراد فطرت سے دین ہے جس کی طرف قرآن پاک کی دوسری آیت فِطْرَةَ اللّٰہِ الَّتِیْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَیْہَا میں اشارہ کیاگیا ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ کا وہ دین ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے سب سے اوّل انسان کے لیے پسند فرمایا ہے۔ اور یہ دس چیزیں بھی دین کے توابع میں سے ہیں۔

بذل کے اس قول میں جس آیة کی طرف اشارہ کیاگیا ہے وہ قرآن پاک کی دوسری آیت ہے جو اکیسویں پارہ میں ہے۔

”فِطْرَةَ اللّٰہِ الَّتِیْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَیْہَا لاَتَبْدِیْلَ لِخَلْقِ اللّٰہِ ذٰلِکَ الدِّیْنُ القَیِّمُ وَلٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لاَیَعْلَمُوْنَ.

ترجمہ: اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی قابلیت کا اتباع کرو جس پراللہ تعالیٰ نے لوگوں کو پیدا کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی اس پیدا کی ہوئی چیز کو جس پراس نے تمام آدمیوں کو پیدا کیا ہے بدلنا نہ چاہیے۔ پس سیدھا دین یہی ہے اورلیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔(بیان القرآن)

شیطا مردود نے جب وہ رندئہ درگاہ ہوا تھا تو کہاتھا۔

”وَلَاُضِلَّنَّہُمْ وَلَاُمَنِّیَنَّہُمْ وَلَاٰمُرَنَّہُمْ فَلَیُبَتِّکُنَّ اٰذَانَ الْاَنْعَامِ وَلَاٰمُرَنَّہُمْ فَلَیُغَیِّرُنَّ خَلْقَ اللّٰہِ وَمَنْ یَّتَّخِذِ الشَیْطَانَ وَلِیًّا مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ فَقَدْ خَسِرَ خُسْرَانًا مُبِیْنًا“

”جس کا ترجمہ یہ ہے اور میں ان کو گمراہ کروں گا، اور ان کو ہوسیں دلاؤں گا اور میں ان کو تعلیم دوں گا۔ جس سے چارپاؤں کے کانوں کو تراشاکریں گے اور میں ان کو تعلیم دوں گا جس سے وہ اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی صورت کو بگاڑا کریں گے۔اور جو شخص خدا تعالیٰ کو چھوڑ کر شیطان کو اپنا رفیق بنادے گا وہ صریح نقصان میں واقع ہوگا۔“ (بیان القرآن)

حضرت تھانوی نوراللہ مرقدہ نے فوائد میں تحریر فرمایاہے کہ وَلَاٰمُرَنَّہُم فلَیُغَیِّرُنَّ خَلْقَ اللّٰہ میں ڈاڑھی منڈانا بھی داخل ہے۔ اور بھی متعدد روایات میں ڈاڑھی بڑھانے اور مونچھیں کٹوانے کا حکم ہے۔ رسالہ حکم اللحیہ فی الاسلام میں صحیح ابن حبان کے حوالہ سے بہ روایت حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا پاک ارشاد نقل کیا ہے جو درج ذیل ہے۔

(۲) قَالَ رَسُوْلُ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمْ مِنْ فِطْرَةِ الْاِسْلاَمِ اَخْذُ الشَّارِبِ وَاِعْفَاءُ اللّحٰی فَاِنَّ الْمَجُوْسَ تُعْفِیْ شَوَارِبَہَا وَتُحْفِی لُحَافَخَالِفُوہُمْ خُذُوا شَوَارِبکُمْ وَاعْفُوْا لُحَاکُمْ.

ترجمہ: حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا اسلام کی فطرت سے مونچھوں کا لینا (کٹوانا) ہے، اور ڈاڑھی کا بڑھانا ہے۔ اس لیے کہ مجوسی لوگ اپنی مونچھوں کو بڑھاتے ہیں اور ڈاڑھی کو کٹواتے ہیں۔ لہٰذا ان کی مخالفت کرو، مونچھوں کو کٹوایا کرو اور ڈاڑھی کو بڑھایا کرو۔“

ف: اس حدیثِ پاک میں حضور پاک صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے ڈاڑھی رکھنے کو اسلام کی فطرت (خصلت و مقتضی) قرار دیا ہے۔اور ڈاڑھی کٹانے کو مجوس کا شعار فرمایا ہے۔ نیز مَنْ تَشَبَّہَ بِقَوْمٍ فَہُوَ مِنْہُمْ، مشہور حدیث ہے۔ یعنی جو شخص کسی قوم کی مشابہت اختیار کرتا ہے وہ ان ہی میں شمار ہوتا ہے۔ اسی بناء پر حضور پاک صلى الله عليه وسلم نے حدیثِ بالا میں مخالفتِ مجوس کا حکم دیا ہے۔

پس اس سے صاف معلوم ہوگیا کہ ڈاڑھی رکھنا ایک شرعی حکم ہے۔اوراس میں تمام انبیاء علیہم الصلوٰة والسلام کی موافقت ہے جیساکہ حدیث نمبر ایک میں گذرا، لہٰذا جن لوگوں کا یہ خیال ہے کہ عرب میں چونکہ ڈاڑھی رکھنے کا دستور تھا اس لیے آپ نے عادت کے طور پر اس کا حکم فرمایا ہے، یہ خیال بالکل غلط اور بے اصل ہے، حق تعالیٰ شانہ اپنے فضل وکرم سے ہم سب کو اپنے حبیب پاک علیہ الصلوٰة والسلام کے ارشادات پر عمل اور وعیدات سے بچنے کی زیادہ سے زیادہ توفیق عطا فرمائے۔

حضرت ابنِ عمررضی اللہ تعالیٰ عنہما سے بھی حضور اقدسصلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا پاک ارشاد نقل کیاگیاہے کہ مشرکین کی مخالفت کرو۔ ڈاڑھیوں کو بڑھایا کرو۔ اور مونچھوں کے کٹوانے میں مبالغہ کرو۔ اور بھی متعدد احادیث میں یہ مضمون کثرت سے نقل کیاگیا ہے کہ مشرکین کی مخالفت کرو ڈاڑھی کو بڑھایاکرو۔ اور مونچھوں کے کٹوانے میں مبالغہ کیا کرو۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ وسلم کا پاک ارشاد نقل کیا گیا ہے کہ ڈاڑھی بڑھاؤ، مونچھوں کو کٹواؤ،اور اس میں یہود، اورنصاریٰ کی مشابہت اختیار نہ کرو۔

افسوس ہے کہ ہمارے اس زمانے میں نصاریٰ ہی کے اتباع اور ان کی مشابہت اختیار کرنے کے لیے حضور پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور جملہ انبیاء علیہم الصلوٰة والسلام کی اس مبارک سنت کو ختم کیاجارہا ہے اس ناکارہ کو خوب یاد ہے کہ میرے بچپن میں ہندوؤں میں بھی جو بڑے لوگ ہوتے تھے وہ ڈاڑھی رکھاکرتے تھے۔

مصنّف ابن ابی شیبہ میں روایت نقل کی ہے کہ ایک مجوسی حضور اقدسصلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا جس نے ڈاڑھی منڈارکھی تھی، اور مونچھیں بڑھا رکھی تھی تو حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے فرمایا کہ یہ کیابنارکھا ہے۔ اس نے کہا یہ ہمارا دین ہے۔ حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ ہمارے دین میں یہ ہے کہ مونچھوں کو کٹوادیں اور ڈاڑھی کو بڑھائیں (حکم اللحیہ فی الاسلام) ابنِ عساکر وغیرہ نے حضرت حسن سے مرسلاً حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا پاک ارشاد نقل کیا ہے کہ دس خصلتیں ایسی ہیں جو قومِ لوط میں تھیں جن کی وجہ سے وہ ہلاک ہوئے۔ ان دس چیزوں میں ڈاڑھی کا کٹوانا اور مونچھوں کا بڑھانا بھی ذکر کیاگیا ہے۔ حارث بن ابی اسامہ نے یحییٰ بن کثیر سے مرسلاً نقل کیا ہے کہ ایک عجمی (کافر) مسجد میں آیا۔ جس نے ڈاڑھی منڈا رکھی تھی اور مونچھیں بڑھا رکھی تھیں۔ حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ ایسا کرنے پر تجھے کس چیز نے اُبھارا تو اس نے کہا کہ میرے رب (بادشاہ) نے یہ حکم دیا ہے۔

حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے یہ حکم دیا ہے کہ ڈاڑھی کو بڑھاؤں اور مونچھوں کو کٹواؤں، ایک دوسری روایت میں زید بن حبیب سے نقل کیا ہے کہ حضور اقدس صلى الله عليه وسلم نے ڈاڑھی منڈائے ہوئے دو شخصوں کی طرف جو شاہ کسریٰ کی طرف سے قاصد بن کر آئے تھے ان کی طرف نگاہ فرمانا بھی گوارہ نہ فرمایا۔ اور فرمایا کہ تمھیں ہلاکت ہو، یہ حلیہ بنانے کو کس نے کہا۔ انھوں نے کہا ہمارے رب نے (شاہ کسریٰ نے) حکم دیا ہے۔ تو حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا لیکن مجھے میرے رب نے ڈاڑھی کے بڑھانے اور مونچھوں کے کٹوانے کا حکم دیاہے۔ (حکم اللحیہ) یہ قصّہ آگے مفصل آرہا ہے۔ مرنے کے بعد قبر میں سب سے پہلے سیّدالکونین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت ہوگی۔ کس قدر حسرت اورمایوسی کا وقت ہوگا اگر خدانخواستہ اس ذاتِ اقدس نے جس سے سفارشوں کی اُمیدیں ہیں پہلے ہی وہلہ میں ایسے خلافِ سنت چہرے اور صورت کو دیکھ کر منہ پھیرلیا؟

(۳) عَنْ زَیْدِ بْنِ اَرْقَمْ رَضِیَ اللّٰہ تَعَالٰی عَنْہُ عَنْ رَسُوْلِ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْةِ وَاٰلِہ وَسَلَّمْ قَالَ مَنْ لَمْ یَأخُذْ شَارِبَہ فَلَیْسَ مِنَّا اَخْرَجَہ اَحْمَدُ وَالتِرْمِذیْ وَالنَّسَائِیْ وَالضِیَاءُ. (حکم اللحیة فی الاسْلاَم)

ترجمہ: زید بن ارقم  رضى الله تعالى عنه حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد نقل کرتے ہیں کہ جو شخص مونچھیں نہ کٹوائے وہ ہم میں سے نہیں ہے۔

ف: کس قدر سخت وعید ہے لمبی لمبی مونچھوں والے اپنے آپ کو شریف سمجھیں اور سرکاری کاغذات میں اپنے کو مسلمان بھی لکھوادیں۔ مگر سیّدالکونین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم ان لوگوں کو اپنی جماعت میں شمار کرنے سے انکار فرمارہے ہیں۔ حضرت واثلہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بھی حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد نقل کیاگیا ہے کہ جو اپنی مونچھوں کو نہ کاٹے وہ ہم میں سے نہیں ہے۔

طبع سلیم بھی مونچھوں کے بڑھانے سے کراہت کرتی ہے، پانی، چائے وغیرہ پینے کی جتنی بھی چیزیں منہ میں جائیں گی وہ مونچھوں کے دھووَن کے ساتھ جائیں گی۔ اگر کوئی شخص مونچھوں کو دھوکر پیالی میں رکھ لے اور اس کو پی لے توکس قدر گھن آوے گی۔ لیکن پانی اور ہر پینے کی چیز کا ہرگھونٹ اس دھووَن کے ساتھ اندر جارہا ہے مگر ذرا بھی گھن نہیں آتی۔

امام احمد بن حنبل رحمة الله عليه نے اپنی کتاب الزہد میں عقیل بن مدرک سلمی سے نقل کیا ہے کہ اللہ جل شانہ نے بنی اسرائیل کے انبیاء میں سے ایک نبی کے پاس وحی بھیجی کہ اپنی قوم سے کہہ دو کہ وہ میرے دشمنوں کا کھانا (یعنی جوان کے ساتھ مخصوص ہو جیسے نصاریٰ کا کھانا سوٴر) نہ کھاویں۔ اور میرے دشمنوں کا پانی نہ پئیں(جیسے شراب) اور میرے دشمنوں کی شکل نہ بنائیں۔ اگر وہ ایسا کریں گے تو وہ بھی میرے دشمن ہوں گے جیساکہ وہ لوگ حقیقی میرے دشمن ہیں۔ (دلائل الاثر)

پہلے کئی روایتوں میں گذرچکا کہ ڈاڑھی کا منڈانا عاجم کا یعنی مشرکین کا شعار ہے جس کی مخالفت کا حکم کئی حدیثوں میں گزرچکا ہے۔ یہاں ایک امر نہایت اہم اور قابل تنبیہ یہ ہے کہ بہت سے حضرات ایسے ہیں کہ جو ڈاڑھی منڈانے کو تو معیوب سمجھتے ہیں اور اس سے بچتے بھی ہیں۔ لیکن ڈاڑھی کے کم کرنے اور کتروانے کو معیوب نہیں سمجھتے حالانکہ شریعتِ مطہرہ میں جس طرح ڈاڑھی رکھنے کا حکم ہے۔ اسی طرح اس کی ایک مقدار بھی متعین ہے۔

چنانچہ اس سے کم کرنا شرعاً معتبر نہیں ہے اور وہ مقدار ایک قبضہ (مٹھی) ہے اس سے کم رکھنا بالاتفاق تمام علماء کے نزدیک ناجائز اور حرام ہے گو اس میں علماء کا اختلاف ہے کہ اگر ایک قبضہ پر بڑھ جائے تو اس کو کم کرنا چاہیے یا نہیں۔

حضرت مدنی نوراللہ مرقدہ اپنے رسالہ ڈاڑھی کے فلسفہ میں جو ایک صاحب کے خط کے جواب میں لکھا گیاتھا تحریر فرماتے ہیں کہ حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم ڈاڑھی کے طول اور عرض میں سے کتراکرتے تھے،اس لیے اس کی حد معلوم کرنی ضروری سمجھی گئی۔ چونکہ صحابہٴ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین جناب رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے اقوال وافعال کا مشاہدہ کرنے والے ہیں۔

اس لیے ان کے عمل کو اس بارے میں امام بخاری نے ترازوبنایا ہے۔ اور حضرت عبداللہ بن عمررضى الله تعالى عنه جو کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے بڑے فدائی ہیں اور آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی سنتوں کی پیروی میں نہایت زیادہ پیش پیش رہنے والے ہیں۔ ان کے عمل کو بطورمعیار پیش کیا ہے۔ چنانچہ امام بخاری صحیح بخاری میں فرماتے ہیں۔

”کَانَ ابْنُ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا اِذَا حَجَّ اَوِاعْتَمَرَ قَبَضَ عَلٰی لِحْیَتِہ فَمَا فَضَلَ اَخَذَہ.

ترجمہ: حضرت ابن عمررضى الله تعالى عنه جب حج یا عمرہ کرتے تھے تو اپنی ڈاڑھی کو مٹھی میں لے کرایک مشت سے زائد کو کتروادیتے تھے۔

جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا عرض وطول میں ڈاڑھی کا کترنا اس مقدار اور کیفیت سے ہوتا تھا۔ علاوہ ابن عمررضى الله تعالى عنه اور حضرت عمررضى الله عليه اور حضرت ابوہریرہ رضى الله تعالى عنه بھی ایساکرتے تھے۔حافظ ابن حجر شرح بخاری میں طبری سے نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ایک جماعت کہتی ہے کہ ڈاڑھی جب ایک مشت سے زائد ہوجائے تو زائد کو کتردیا جائے۔

پھر طبری نے اپنی سند سے حضرت ابن عمررضى الله تعالى عنه اور حضرت ابوہریرہ سے روایت کیا ہے کہ انھوں نے ایسا ہی کیا۔ اور حضرت عمررضى الله تعالى عنه سے بھی مروی ہے کہ انھوں نے ایک شخص کے ساتھ ایسا ہی کیا۔ اِسی عمل اور طریق کو فقہا حنفیہ وشافعیہ وغیرہ نے کتبِ فقہ وغیرہ میں ذکر کیا ہے۔ اسی طرح ابوداؤد شریف میں ہے۔

”عَنْ جَابِرٍ رضى الله تعالى عنه قَالَ کُنَّا نُعْفِیْ السِّبَالَ اِلاَّ فِیْ حَجَّةٍ اَوْ عُمْرَةٍ (ابوداؤد)

ترجمہ: ”ہم لوگ ڈاڑھی کے اگلے اور لٹکنے والے حصّہ کو بڑھا ہوا رکھتے تھے مگر حج اور عمرہ سے فارغ ہوکر کتروادیا کرتے تھے۔ جس کی توضیح حضرت ابن عمررضى الله تعالى عنه کے عمل سے معلوم ہوگئی ہے جو بخاری شریف سے ابھی اوپر مذکورہوا۔“

یہ حدیث صاف طورسے بتلارہی ہے کہ عام صحابہ کرام تمام سال میں ڈاڑھی کا اگلا اور لانبا حصہ کترواتے نہیں تھے ہاں جب حج اور عمرہ کرتے تھے تو ایک مشت سے زائد حصہ کو کتروادیتے تھے۔ نیز جناب رسول اللہ تعالیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ڈاڑھی مبارک کم از کم ایک مشت بلکہ اس سے زائد اتنی ثابت ہوتی ہے جس میں تخلیل (خِلال) فرماتے تھے۔ کنگھی سے درست فرمایا کرتے تھے۔ وہ اتنی بڑی گنجان تھی کہ اس نے سینہٴ مبارک کے اوپر کے حصہ کو طول و عرض کو بھرلیا تھا۔

حضرت عمار بن یاسررضى الله تعالى عنه، عبداللہ بن عمر، حضرت عمر، حضرت ابوہریرہ، حضرت جابر رضی اللہ عنہم کے اقوال وافعال سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایک مشت یا اس سے زائدڈاڑھی رکھتے تھے اور رکھواتے تھے۔ تمام دوسرے صحابہٴ کرام کا بھی یہی عمل ہونا التزاماً ثابت ہوتا ہے۔ کیونکہ حضرت جابررضى الله تعالى عنه فرماتے ہیں کہ ہم لوگ ڈاڑھی لمبی رکھتے تھے۔ بجز حج عمرہ کے کترواتے نہیں تھے۔ جناب رسول اللہ تعالیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کرام اورامّت کو ڈاڑھی بڑھانے کا حکم فرمایا ہے۔اور اس عمل کو تمام مسلمانوں کے لیے مابہ التمیز قرار دیا ہے کہ یہ ان کا مخصوص شعار اور یونیفارم ہوگا، نہ منڈوانا جائز ہو نہ خشخشی رکھنا، نہ چھوٹی رکھنا۔ (ملتقط از ڈاڑھی کا فلسفہ)

حضرت مولانا الحاج قاری محمد طیّب صاحب رحمة الله عليه نے اپنے رسالہ ”ڈاڑھی کی شرعی حیثیت“ میں اس مضمون کو تفصیل سے تحریر فرمایا ہے، اور مقدار قبضہ کو قرآن پاک احادیث اور آثار صحابہ سے ثابت فرمایا ہے۔ اس میں تحریر فرمایاہے کہ شیخ ابن ہمام صاحب فتح القدیر نے یہ دعویٰ فرمایا ہے کہ:

”وَاَمَّا الْاَخْذُ مِنْہَا وَہِیَ دُوْنَ الْقَبْضَةِ کَمَا یَفْعَلُہ بَعْضُ الْمَغارِبَةِ مُخَنَّثَةُ الرّجَالِ فَلَمْ یُبِحْہُ اَحَدٌ.

ترجمہ: ”یعنی ڈاڑھی کا کٹانا جبکہ وہ مقدار قبضہ سے کم ہو جیسا کہ بعض مغربی لوگ اور مخنث قسم کے انسان یہ حرکت کرتے ہیں۔ اس کو کسی نے بھی مباح قرار نہیں دیا۔ یعنی تمام فقہاء امت اس پرمتفق ہیں کہ ڈاڑھی کا مقدار قبضہ سے کم کرنا جائز نہیں۔اور یہ اجماع خود ایک مستقل دلیل ہے اس کے وجوب کی۔ حضرت امام محمدرحمة الله عليه اپنی کتاب الآثار میں تحریر فرماتے ہیں۔

مُحَمَّدٌ قَالَ اَخْبَرَنَا اَبُوْ حَنِیْفَةَ عَنِ الْہَیْثَمِ عَنِ ابْنِ عُمَررضى الله تعالى عنه اَنَّہ کَانَ یُقْبِضُ عَلٰی لَحْیَتِہ ثُمَّ یَقُصُّ مَا تَحْتَ القَبْضَةِ قَالَ مُحَمَّدٌ وَبِہ نَأْخُذُ وَہُوَ قَوْلُ اَبِیْ حَنِیْفَہ .

ترجمہ: حضرت امام محمد فرماتے ہیں کہ ہم سے روایت کیاامام ابوحنیفہ رحمة الله تعالى عنه نے اور وہ روایت کرتے ہیں ہثیم سے اور وہ ابنِ عمررضى الله تعالى عنه سے کہ وہ یعنی ابن عمررضى الله تعالى عنه اپنی ڈاڑھی مٹھی میں لے کر مٹھی بھرسے زائد کو یعنی جو مٹھی سے نیچے لٹکی ہوئی باقی رہ جاتی ہے کتردیتے تھے۔ امام محمد نے فرمایا کہ ہم اسی کو اختیار کیے ہوئے ہیں۔اور یہی قول ہے امام ابوحنیفہ رحمة الله عليه کا۔

اوجز المسالک میں اس سلسلہ میں ائمہ اربعہ وغیرہ دوسرے علماء کے مذاہب کو مدلّل اور مفصل بیان کیاگیاہے۔ اس میں لکھا ہے کہ ایک مشت سے زائد ڈاڑھی ہی حضرات شافعیہ کا راجح اور پسندیدہ قول یہ ہے کہ اس کو علیٰ حالہ باقی رکھاجائے۔ اور یہی قول حنابلہ کا ہے،اور مالکیہ کا مذہب مختار یہ ہے کہ جوڈاڑھی حد سے زیادہ بڑھ جائے اس کو کم کیاجائے۔اور یہ ضروری نہیں کہ ایک مشت سے زائد رکھی نہ جائے، اور حضرات حنفیہ کے یہاں مستحب یہ ہے کہ ایک مشت سے جتنی زائد ہے اس کو کاٹ دینا چاہیے۔

فصل ثانی

(۱) حضرت تھانوی نوراللہ مرقدہ اصلاح الرسوم میں تحریر فرماتے ہیں کہ منجملہ ان رسوم کے ڈاڑھی منڈانا یا کٹانا اس طرح کہ ایک مشت سے کم رہ جائے یا مونچھیں بڑھانا جو اس زمانہ میں اکثرنوجوانوں کے خیال میں خوش وضعی سمجھی جاتی ہے۔

حدیث میں ہے کہ بڑھاؤ ڈاڑھی کو،اور کترواؤ مونچھوں کو، روایت کیااس کو بخاری اور مسلم نے، حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے صیغہٴ امر سے دونوں حکم فرمائے اورامر حقیقتاً وجوب کے لیے ہوتا ہے۔

پس معلوم ہوا کہ یہ دونوں حکم واجب ہیں۔اور واجب کا ترک کرنا حرام ہے۔ پس ڈاڑھی کٹانا،اور مونچھیں بڑھانا دونوں حرام فعل ہیں، اس سے زیادہ دوسری میں مذکور ہے،ارشاد فرمایا رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے جو شخص اپنی لبیں نہ لے وہ ہمارے گروہ سے نہیں۔ روایت کیا، اس کو احمد وترمذی اورنسائی نے۔ جب اس کا گناہ ہونا ثابت ہوگیا تو جو لوگ اس پر اصرار کرتے ہیں اور اس کو پسند کرتے ہیں اور ڈاڑھی بڑھانے کو عیب جانتے ہیں۔ بلکہ ڈاڑھی والوں پر ہنستے ہیں اوراس کی ہجو کرتے ہیں۔ ان سب مجموعہ امور سے ایمان کاسالم رہنا ازبس دشوار ہے۔ ان لوگوں کو واجب ہے کہ اپنی اس حرکت سے توبہ کریں اورایمان اور نکاح کی تجدید کریں اوراپنی صورت موافق حکم اللہ اور رسول کے بنادیں اور عقل بھی کہتی ہے کہ ڈاڑھی مردوں کے لیے ایسی ہے جیسے عورتوں کے لیے سر کے بال کہ دونوں باعثِ زینت ہیں۔

جب عورتوں کا سرمنڈانا بدصورتی میں داخل ہے تو مردوں کا ڈاڑھی منڈانا خوبصورتی کیسے ہے۔ کچھ بھی نہیں، رواج نے بصیرت پر پردہ ڈال دیا ہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ صاحب ترک بھی منڈاتے ہیں ہم ان کی تقلید کرتے ہیں اس کا وہی جواب ہے کہ عام آدمیوں کا فعل جو خلافِ شرع ہو حجت نہیں،جو منڈاتا ہے بُرا کرتاہے چاہے کسی ملک کا رہنے والا ہو۔

بعض لوگ اپنے کو کم عمر ظاہر کرنے کو منڈاتے ہیں کہ بڑی عمر میں تحصیل کمال کرنا موجبِ عار ہے۔ یہ بھی ایک لغو خیال ہے، عمر تو ایک خداوندی عطیہ ہے، جتنی زیادہ نعمت ہے اس کا چھپانا بھی ایک قسم کا کفرانِ نعمت ہے،اور بڑی عمر میں تو کمال حاصل کرنا زیادہ کمال کی بات ہے کہ بڑا ہی شوقین ہے جو اس عمرمیں بھی کمال کی دھن میں لگارہتا ہے۔اور چند بے عقلوں کے نزدیک یہ موجب عار ہے تو بہت سے کافروں کے نزدیک مسلمان ہونا موجب عار ہے تو نعوذباللہ کیااسلام کو بھی جواب دے بیٹھیں گے؟ جیسے کفار کے عار سمجھنے سے مذہبِ اسلام کو ترک نہیں کرتے فساق کے عار سمجھنے سے وضع اسلام کو کیوں عار سمجھا جاوے یہ سب شیطانی خیالات ہیں۔ سخت افسوس یہ ہے کہ بعض طالب علم عربی پڑھنے والے اس بلا میں مبتلا ہیں ان کی شان میں بجز اس کے کیاکہا جائے کہ:

”چار پائے برو کتابے چند“

ان لوگوں پر سب سے زیادہ وبال پڑتا ہے۔ اوّل تو اوروں سے زیادہ واقف پھراوروں کو نصیحت کریں، مسئلے بتائیں خود بدعمل ہوں۔ عالم بے عمل کے حق میں کیاکیاوعیدیں قرآن اور حدیث میں وارد ہیں۔ پھران کو دیکھ کر اور جاہل گمراہ ہوتے ہیں ان کی گمراہی کا وبال ان ہی کے برابر ان پر پڑتا ہے۔جیسا اوپر بیان ہوا کہ جو شخص باعث ہوتا ہے اس گناہ کا وہ بھی شریک اس کے وبال کا ہوتاہے۔

میرے نزدیک مدرسین اور مہتممین مدارس اسلامیہ پر واجب ہے کہ جو طالب ایسی حرکت کرے یا کوئی امر خلافِ وضع شرعی کرے۔اگر توبہ کرلے فبہا ورنہ مدرسہ سے خارج کردینا چاہیے ایسے شخص کومقتدائے قوم بنانا تمام مخلوق کو تباہ کرنا ہے:

بے ادب را علم و فن آموختن

دادن تیغ است دست راہزن

اور یادرہے کہ نائی کو بھی جائز نہیں کہ کسی کے کہنے سے ایسا خط بنادے جو شرعاً ممنوع ہو خواہ ڈاڑھی کا یا سرکا کیونکہ گناہ کی اعانت بھی گناہ ہے۔ اس کو چاہیے کہ عذر و انکار کردے۔ (ازرسالہ اصلاح الرسوم)

بعض سعادت مند نائی ایسے بھی ہوتے ہیں جو باوجود ضرورت مند ہونے کے ڈاڑھی مونڈنے سے بڑی صفائی سے انکارکردیتے ہیں۔اگرچہ ایسے بہت کم ہوتے ہیں۔ اس ناکارہ کو اپنے جاننے والوں میں سے کئی سے سابقہ پڑا کہ انھوں نے بڑی پریشانیاں اُٹھائیں۔مگر ڈاڑھی نہ مونڈنے کا جو عہد کیا تھا اس کو خوب نبھایا۔ ابھی چند سال کا قصّہ ہے کہ ایک صاحب پٹنہ بہار کے رہنے والے حاجی پیدل کے نام سے حج کے لیے جارہے تھے۔جوہر پانچ قدم پر دو رکعت نفل پڑھتے تھے ان کے بہت سے اعزّہ جواونچے عہدوں پر تھے یہ ان کے سفر کی خبر رکھتے تھے۔

اورجب کسی ایسی جگہ پر جہاں ریل کی سہولت ہوجانے کا حال معلوم ہوتا تو وہ ریل سے ان سے ملنے آیاکرتے تھے، وہ حاجی صاحب جب سہارنپور پہنچے تو میرے مخلص دوست اور حضرت اقدس رائے پوری نوراللہ مرقدہ کے مرید راؤ یعقوب علی خاں کے یہاں قیام ہوا، غالباً آگرہ کے ایک ڈپٹی صاحب ان سے ملاقات کے لیے راؤ صاحب کے مکان پر پہنچے اور حجامت کے لیے نائی کو بلایا، اس نے بہت بہتر حجامت بنائی جس سے وہ صاحب بہت خوش ہوئے، لیکن جب ڈاڑھی منڈانے کا وقت آیا تب اس نے ہاتھ جوڑ کر کہا کہ حضور یہ کام میں نے عمر بھر نہیں کیا، اس پر وہ مہمان بہت خوش ہوئے اور یاد پڑتا ہے کہ اس نائی کو کچھ انعام بھی دیا۔

(۲) حضرت شیخ الاسلام مدنی نوراللہ مرقدہ اپنے رسالہ ڈاڑھی کے فلسفہ میں تحریر فرماتے ہیں کہ ہر نظامِ سلطنت وسیاست میں مختلف شعبوں کے لیے کوئی نہ کوئی یونیفارم مقرر ہے، پولیس کے یونیفارم اور ہیں ، فوج کا اور ہے، سوار کا اور ہے، پیادہ کا اور ہے برّی فوج کا اور ہے بحری فوج کا اور ہے، ڈاک خانہ کا اور ہے وغیرہ وغیرہ۔ پھر اس پرمزید سختی اور تاکید یہاں تک ہے کہ ڈیوٹی ادا کرتے وقت اگر یونیفارم میں کوئی ملازم نہیں پایا جاتا تو مستوجب سزا شمار کیاجاتا ہے، اور جس طرح یہ امر ایک نظام سلطنت اورحکومت میں ضروری خیال کیاجاتا ہے، اسی طرح اقوام وملل میں بھی ہمیشہ اس کا خیال رکھا جاتا ہے اگر آپ تفحص کریں تو انگلینڈ، فرانس، جرمنی وغیرہ کو پائیں گے کہ وہ اپنے نشانات جھنڈے یونیفارم علیحدہ علیحدہ رکھتے ہیں تاکہ واقف کارشخص پرایک کے سپاہی کو دوسرے سے تمیز آسکے،اور اس سے میدان جنگ میں ملکی وسیاسی مقامات میں امتیاز کیا جاتا ہے۔ ہر قوم اور ملّت اپنے اپنے یونیفارم اور نشانات کومحفوظ رکھنا از حد ضروری سمجھتی ہے، بلکہ بسا اوقات اس میں خلل پڑنے سے سخت سے سخت وقائع پیش آجاتے ہیں۔کسی حکومت کے جھنڈے کو گرادیجیے، کوئی توہین کردیجیے، دیکھئے کس طرح جنگ کی تیاری ہوجاتی ہے۔

الغرض یہ طریقہٴ امتیاز شعبہٴ ہائے مختلفہ اوراقوام وحکومات اور ملل کا ہمیشہ سے اورتمام اقوام میں اطرافِ عالم میں چلاآتا ہے،اگر یہ نہ ہوتوکوئی محکمہ اورکوئی قوم اور کوئی حکومت دوسرے سے تمیز نہ کرسکے۔ ہم کو کس طرح سے معلوم ہوسکتا ہے کہ یہ فوجی ہے یا ملکی، یہ پولیس ہے یا ڈاکیہ، ہر زمانہ اور ہر ملک میں اس کالحاظ ضروری سمجھا گیا ہے،اور سمجھا جاتا ہے۔

جو قوم اور جو ملک اپنے یونیفارم اورنشان کی محافظ نہیں رہی وہ بہت جلد دوسری قوموں میں جذب ہوگئیں۔ حتیٰ کہ اس کا نام و نشان تک باقی نہیں رہا۔ سکھّوں نے اپنی امتیازی وردی قائم کی سر اورڈاڑھی کے بالوں کو محفوظ رکھا۔ آج ان کی قوم امتیازی حیثیت رکھتی ہے،اور زندہ قوم شما رکی جاتی ہے۔

انگریز سولہویں صدی عیسوی کے آخر میں آیا، تقریباً ڈھائی سو برس گزرگئے، نہایت سرد ملک کا رہنے والا ہے، مگراس نے اپنا یونیفارم کوٹ پتلون، ہیٹ، ٹائی نکٹائی اس گرم ملک میں بھی نہیں چھوڑا۔ یہی وجہ ہے کہ اس کو ۳۵ کروڑ افراد، والا ملک اپنے میں ہضم نہ کرسکا اس کی قوم اور ملّت علیحدہ ملّت ہے۔

مسلمان اس ملک میں آئے اور تقریباً ایک ہزار برس سے زائد ہوتا ہے، جب سے آئے ہیں،اگر وہ اپنے خصوصی یونیفارم کو محفوظ نہ رکھتے تو آج اسی طرح ہندو قوم نظر آتے جیسے کہ مسلمانوں سے پہلے آنے والی قومیں ہضم ہوکر اپنا نام ونشان مٹاگئیں آج بجز تاریخی صفحات کے ان کا نام ونشان کرئہ ارض پرنظر نہیں آتا۔ مسلمانوں نے نہ صرف یہی کیا کہ اپنا یونیفارم محفوظ رکھا، بلکہ مذہب،اسماء رجال ونساء تہذیب وکلچر، رسم ورواج زبان وغیرہ جملہ اشیاء کو محفوظ رکھا، اس لیے ان کی ایک مستقل ہستی ہندوستان میں قائم رہی اور جب تک اس کی مراعات رکھیں گے رہے گی، اور جب چھوڑدیں گے مٹ جائیں گے۔

مذکورہ بالا معروضات سے بخوبی واضح ہے کہ قوم اورمذہب کادنیا میں مستقل وجود جب ہی قائم ہوسکتا ہے اور باقی بھی جب ہی رہ سکتا ہے جبکہ وہ اپنے لیے خصوصیات وضع قطع میں تہذیب وکلچر میں، بودوباش میں زبان اور عمل میں اختیار کرے۔

اس لیے ضروری تھا کہ مذہب اسلام جو کہ اپنے عقائد اخلاق و اعمال وغیرہ کی حیثیت سے تمام مذاہب دنیوی اورتمام اقوامِ عالم سے بالاتر تھااور ہے، خصوصیات اور یونیفارم مقرر کرے، اور ان کے تحفظ کو قومی اور مذہبی تحفظ سمجھتا ہو، ان کے لیے جان لڑادے اس کی وہ خصوصیات اور یونیفارم خداوندی تابعداروں کے یونیفارم ہوں جن سے وہ اللہ تعالیٰ کے سرکشوں اور دشمنوں سے تمیز کرسکے۔

(ان ہی کو شعارِ اسلام کہا جاتا ہے) اور ان کی بناء پر باغیان اور بندگانِ بارگاہِ الوہیت میں تمیزہوا کرے۔ چنانچہ یہی راز ”مَنْ تَشَبَّہَ بِقَوْمٍ فَہُوَ مِنْہُمْ“ کا ہے۔ جس پر بساوقات نوجوانوں کو بہت غصّہ آجاتا ہے۔ اسی بناء پرجناب رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے تابعداروں کے لیے خاص خاص یونیفارم تجویز فرمائے۔ کہیں فرمایا جاتا ہے: فَرْقُ مَا بَیْنَنَا وَبَیْنَ الْمُشْرِکِیْنَ الْعَمَائِمُ عَلَی الْقَلانِسِ.

کہیں اہلِ کتاب سے مانگ نکالنے میں مخالفت اختیار کی گئی۔ اسی بناء پر ازار اور پاجامہ میں ٹخنہ کھولنے کا حکم کیاگیا کہ اہلِ تکبرّ سے تمیزہوجائے۔ اس کے بعد متعدد احادیث جو اُوپر گزرچکی ہیں لکھنے کے بعدحضرت رحمة الله عليه نے تحریر فرمایا۔ ”خلاصہ یہ نکلا کہ یہ خاص یونیفارم اور شعار ہے جو کہ مقربان بارگاہِ اُلوہیت کا ہمیشہ سے یونیفارم رہا ہے۔ اورپھر دوسری قومیں اس کے خلاف کو اپنا یونیفارم بنائے ہوئے ہیں، جوکہ اللہ تعالیٰ کے قوانین کو توڑنے والی اور اس سے بغاوت کرنے والی ہیں۔

علاوہ ازیں ایک محمدی کو حسب اقتضاء فطرت وعقل لازم ہونا چاہیے کہ وہ اپنے آقا کا سا رنگ ڈھنگ، چال چلن، صورت سیرت، فیشن کلچر وغیرہ بنائے اوراپنے محبوب آقا کے دشمنوں کے فیشن اور کلچر سے پرہیز کرے، ہمیشہ عقل وفطرت کا تقاضہ یہی رہاہے۔ اوریہی ہر قوم اور ہر ملک میں پایا جاتا ہے۔

آج یورپ سے بڑھ کر روئے زمین پر حضرت محمد صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا اور مسلمانوں کا دشمن کون ہے؟ واقعات کو دیکھئے اس بناء پر بھی جو ان کے خصوصی شعار، اور فیشن ہیں ہم کو ان سے انتہائی متنفر ہونا چاہیے خواہ، وہ کرزن فیشن ہو یا گلیڈ اسٹون فیشن ہو۔ خواہ وہ فرنچ فیشن ہو یا امریکن، خواہ وہ لباس سے تعلق رکھتا ہو یا بدن سے خواہ وہ زبان سے متعلق ہو یا تہذیب و عادات سے، ہر جگہ اور ہر ملک میں یہی امر طبعی اور فطرت شمار کیاگیا ہے کہ دوست کی سب چیزیں پیاری ہوتی ہیں، اور دشمن کی سب چیزیں مبغوض اوراوپری، بالخصوص جو چیزیں دشمن کا خصوصی شعار ہوجائیں۔

اسی لیے ہماری جدوجہد یہ ہونی چاہیے کہ ہم غلامانِ حضرت محمد صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم اور ان کے فدائی بنیں،نہ کہ غلامانِ کرزن وہارڈنگ، فرانس وامریکہ وغیرہ، باقی رہا امتحان مقابلہ یا ملازمتیں یا آفس کے ملازموں کے طعنے وغیرہ تو یہ نہایت کمزور امر ہے سکھ امتحانِ مقابلہ بھی دیتے ہیں، چھوٹے اوربڑے عہدوں پر بھی مقرر ہیں، اپنی وردی پر مضبوطی سے قائم ہیں، کوئی ان کو ٹیڑھی اور بینکی آنکھ سے نہیں دیکھ سکتا۔ باوجود اپنے قلیل التعداد ہونے کے سب سے زیادہ ملازمتیں اور عہدے لیے ہوئے غرارہے ہیں۔ (ماخوذ از ڈاڑھی کا فلسفہ)

مجھ سے ۱۹۴۷/ میں بہت سے نوجوانوں نے خود کہا کہ ہم ڈاڑھی منڈاتے تھے مگر اس قتل عام کے زمانہ میں اس ڈر سے رکھ لی کہ نہ معلوم کہاں مارے جاویں اور ہمیں لوگ ہندو سمجھ کر جلادیں، یہ خطرہ تو ہر وقت موجود ہے،نہ موت کا وقت معلوم ہے نہ جگہ۔

(۳) مولانا سعید احمد پالن پوری مدرس دارالعلوم دیوبند نے اپنے رسالہ ”ڈاڑھی اور انبیاء کی سنتیں،، میں لکھا ہے کہ ڈاڑھی منڈانے کی حرمت پر ساری امّت کا اجماع ہے ایک فرد بھی امت میں اس کے جواز کا قائل نہیں ہے۔ اس کے بعد علماء کی چند تصریحات نقل کی ہیں۔ جس میں صاحب منہل شارح ابوداؤد کی یہ عبارت نقل کی ہے۔

”فَلِذٰلِکَ کَانَ حَلْقُ الْلِحْیَةِ مُحَرَّمًا عِنْدَ اَئمَةِ المُسْلِمِیْنَ الْمُجْتَہِدِیْن اَبیْ حَنِیْفَةَ وَمَالِکٍ وَالشَّافِعِیْ وَاَحْمَدَ وَغیْرِہُمْ.

(اسی وجہ سے ڈاڑھی کا منڈانا سب اماموں کے نزدیک حرام ہے، امام ابوحنیفہ، امام شافعی، امام احمد بن حنبل وغیرہم) اس کے بعد حضرت تھانوی نوراللہ مرقدہ کا قول نقل کیا ہے۔ ”قَوْلُہ لَمْ یُبْحِہ اَحَدٌ نص فی الاجماع“ یعنی صاحبِ درمختار کا قول ”لَمْ یُبْحِہ اَحَدٌ“۔ منڈانے کی حرمت پر اجماع کی صریح دلیل ہے۔ اس کے بعد فقہائے امّت کے مختلف اقوال نقل کیے ہیں۔

(۴) حضرت مولانا عاشق الٰہی صاحب نوراللہ مرقدہ نے اپنے رسالہ ”ڈاڑھی کی قدرو قیمت“ میں مذاہبِ اربعہ کے فقہاء کی عبارتیں نقل کی ہیں اس میں شافعیہ کی کتاب العباب سے نقل کیا ہے۔

”قَالَ اِبْنُ الرَّفْعَةِ اِنَّ الشَافِعِیْ نَصَّ فِیْ الْاُمْ بالتَحْرِیْم“.

”امام ابن الرفعہ کہتے ہیں کہ کتاب الام میں حضرت امام شافعی رحمة الله عليه نے خود اس کے (یعنی حلق لحیہ کے) حرام ہونے کی تصریح فرمائی ہے۔

اس کے بعدکتاب الابداع سے مالکیہ کا مذہب نقل کیا ہے۔ جس کی عبارت کتاب اللحیہ فی الاسلام میں نقل کی ہے۔

”وَقَدْ اِتَّفَقَتِ الْمَذَاہِبُ الْاَرْبَعَةُ عَلٰی وُجُوْبِ تَوْفِیْرِ اللِّحْیَةِ وَحُرْمَةِ حَلْقِہَا، وَمَذْہَبُ السَّادَةِ الْمَالِکِیَّةِ حُرْمَةُ حَلْقِ اللِّحْیَةِ وَکَذَا قَصُّہَا اِذَا کَانَ یَحْصَلُ بِہَا الْمُثْلَةُ.

”بلاشبہ مذاہب اربعہ متفق ہیں اس بات پر کہ ڈاڑھی بڑھانا واجب ہے اور اس کا منڈانا حرام ہے اور اسی طرح اس کا کتروانا بھی حرام ہے جبکہ اس سے صورت بگڑے۔“

اور فقہٴ حنبلی کی کتاب شرح المنتہی اور شرح منظومة الآداب میں لکھاہے۔

”اَلْمُعْتَمَدُ حُرْمَةُ حَلْقِہَا وَمِنْہُمْ مَنْ صَرَحَ بِالْحُرْمَةِ وَلَمْ یَحْکِ خِلَافًا کَصَاحِبِ الْاِنْصَافَ.

معتبر قول یہی ہے کہ ڈاڑھی منڈانا حرام ہے،اور بعض علماء مثلاً موٴلف انصاف نے حرمت کی تصریح کی ہے اوراس حکم میں کسی کا بھی خلاف نقل نہیں کیا۔

اسی طرح اور دوسرے حضرات نے بھی ڈاڑھی کے وجوب پر ائمہ کا اجماع نقل کیا ہے۔ چنانچہ شیخ عبدالرحمن القاسم اپنے رسالہ میں جو اسی موضوع پر ہے تحریر فرماتے ہیں۔

قَالَ شَیْخُ الْاِسْلاَمِ ابْنُ تَیْمِیَّةَ رَحِمَہُ اللّٰہُ تَعَالٰی یَحْرُمُ حَلْقُ اللِّحْیَةِ وَقَالَ الْقُرْطُبِیْ لاَیُجَوْزُ حَلْقُہَا وَلاَ نَتَفُہَا وَلاَ قَصُّہَا وَحَکٰی اَبُوْ مُحَمَّدِ بِنُ حَزْمٍ الْاَجْمَاعَ اَنَّ قَصَّ الشَّارِبِ وَاِعْفَاءُ اللِحْیَةِ فَرْضٌ وَاسْتَدَلَّ بِحَدِیْثِ ابْنِ عُمَررضى الله تعالى عنه خَالِفُوا الْمُشْرِکِیْنَ احفُوْا الشَّوَارِبْ وَاعْفُوْا اللّٰحٰی وَبِحَدِیْثِ زَیْدِ بْنِ اَرْقَمْ الْمَرْفُوعُ مَنْ لَمْ یَأخُذْ شَارِبَہ فَلَیْسَ مِنَّا صَحَّحَہ التِرْمِذِیْ.

”شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے حلق لحیہ کے حرام ہونے کی تصریح فرمائی ہے، اور علامہ قرطبی فرماتے ہیں کہ ڈاڑھی کا منڈانا اوراس کا نوچنا اوراس کا کترنا سب ناجائزہے، اس طرح امام ابومحمد ابن حزم ظاہری نے اس پر علماء کا اتفاق نقل کیا ہے کہ مونچھوں کا تراشنا اور ڈاڑھی کا بڑھانا فرض عین ہے اوراس کی دلیل میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث پیش فرمائی ہے، کہ حضور اقدس صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا کہ مشرکین کی مخالفت کرو مونچھیں تراشو اور ڈاڑھی بڑھاؤ اور حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کی حدیث جس میں وہ حضور پاک صلى الله عليه وسلم کا ارشاد نقل کرتے ہیں کہ جو شخص اپنی مونچھیں نہ تراشے وہ ہم میں سے نہیں ہے۔“

اس کے بعد شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمة الله عليه نے یہود و نصاریٰ کی مشابہت کی مخالفت کی روایات نقل کرکے لکھا ہے کہ ان کی مخالفت شریعت میں مطلوب ہے، اور ظاہر میں مشابہت ان سے محبت اور دوستی پیدا کرتی ہے جیساکہ باطنی محبت ظاہری مشابہت میں اثر انداز ہوتی ہے۔ یہ امور تجربہ سے ظاہر ہیں۔

حضرت ابن عمررضى الله تعالى عنه سے نقل کیا ہے کہ جو کفار کے ساتھ مشابہت اختیار کرے اور اسی پر مرجائے تو ان ہی کے ساتھ حشر ہوگا، تمہید شرح موٴطا میں لکھا ہے کہ ڈاڑھی کا منڈانا حرام ہے اور مردوں میں سے ہیجڑے ہی اس کے مرتکب ہوتے ہیں۔ حضرت عمررضى الله تعالى عنه اور ابن ابی لیلیٰ قاضی مدینہ نے اس شخص کی شہادت رد فرمادی، جو ڈاڑھی نوچتا تھا۔ اس رسالہ میں بہت سی روایات اور آثار ڈاڑھی منڈانے کے ذکر کیے ہیں۔

کسریٰ کے قاصدوں کا قصّہ مختصراً پہلے گزرچکا۔ مولانا میرٹھی نے اس کو مفصّل لکھا ہے وہ تحریر فرماتے ہیں۔ ”کہ خسرو پرویز شاہ ایران کے پاس حضرت عبداللہ بن حذافہ رضى الله تعالى عنه کے ہاتھ آنحضرت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا والانامہ پہنچا تو اس نے نامہٴ مبارک دیکھتے ہی غصہ میں اس کو چاک کردیا۔اور زبان سے کہاکہ ہماری رعایا کا ادنیٰ شخص ہمیں خط لکھتا ہے، اور اپنا نام ہمارے نام سے پہلے لکھتا ہے۔ اس کے بعد خسرو(کسریٰ) نے باذان کو جو یمن میں اس کا گورنر تھااور عرب کا تمام ملک اس کے زیرِ اقتدار سمجھا جاتا تھا یہ حکم بھیجا کہ اس شخص (آنحضرت صلى الله عليه وسلم) کو گرفتار کرکے ہمارے پاس بھیج دو۔

باذان نے ایک فوجی دستہ مامور کیا، جس کے افسر کا نام خرخسروتھا، نیز حالات محمدیہّ پر گہری نظر ڈالنے کے لیے ایک ملکی افسر بھی اس کے ساتھ کیا،جس کا نام بانویہ تھا۔ یہ دونوں افسر جس وقت بارگاہِ رسالت میں پیش کیے گئے تو رعبِ نبوّت کی وجہ سے ان کی رگ ہائے گردن تھرتھرا رہی تھی، یہ لوگ چونکہ آتش پرست پارسی تھے، اس لیے ان کی ڈاڑھیاں منڈی ہوئی اور مونچھیں بڑھی ہوئی تھیں، اور اپنے بادشاہ کو رَب کہا کرتے تھے، ان کے چہرے پر نظرڈال کر آپ کو تکلیف پہنچی اور پہلا سوال ان سے یہ کیا کہ ایسی صورت بنانے کو تم سے کس نے کہا۔ انھوں نے جواب دیا کہ ہمارے رب کسریٰ نے، آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا۔ مگر میرے رب نے تو مجھے یہ حکم دیا ہے کہ ڈاڑھی بڑھاؤں اور مونچھیں کترواؤں، قصہ طویل ہے۔ مگر یہاں صرف یہ دکھانا مقصود ہے کہ غیرمسلم سفیروں کی بھی اس صورت اور شکل سے آنحضرت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی طبعی تکلیف ہوئی۔ اس قصہ کو مولانا محمد یوسف صاحب رحمة اللہ تعالیٰ نے ”حیاة الصحابہ“ میں مختلف سندوں سے ذکر کیا ہے۔

مسلمانوں کے سوچنے کی بات ہے کہ مرنے کے بعد سب سے پہلے قبر میں حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا سامنا ہوگا۔ایسے خلاف سنت چہرے کو دیکھ کر اس ذاتِ پاک صلى الله عليه وسلم کو کتنی تکلیف ہوگی، جس کی شفاعت پر ہم سب مسلمانوں کی اُمیدیں وابستہ ہیں۔ اس کے بعد مولانا میرٹھی لکھتے ہیں کہ مرزاقتیل کا قصّہ آپ نے سنا ہوگا۔ ان کے صوفیانہ کلام سے متاثر ہوکر ایک ایرانی شخص ان کا معتقد ہوگیا۔ اور زیارت کے شوق میں وطن سے چلا، جس وقت ان کے پاس پہنچا تو مرزا ڈاڑھی کا صفایا کررہے تھے۔ اس نے تعجب سے دیکھا اورکہا آغا ریش می تراشی (جناب آپ ڈاڑھی منڈارہے ہیں) مرزا نے جواب دیا، بلے موئے می تراشم ولے دل کسے نمی تراشم (ہاں بال تراش رہا ہوں کسی کا دل نہیں چھیل رہا ہوں)

گویا ”دل بدست آورکہ حجِ اکبر است“ کی طرف صوفیانہ اشارہ کیا کہ اپنے متعلق انسان جو چاہے کرے مگر مخلوق کا دل نہ دکھائے۔ایرانی نے بے ساختہ جواب دیا ”آرے دل رسول می خراشی“ کسی کا دل دکھانا چہ معنی تم تو آنحضرت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا دل چھیل رہے ہو، یہ سن کر مرزا کو وجد آگیا اور بے ہوش ہوکرگرپڑے، ہوش آیا تو یہ شعر زبان پر تھا:

جزاک اللہ چشمم باز کردی

مرا باجانِ جاں ہمراز کردی

پس اگر محبوبِ خدا کی آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچانے کی ہمّت نہیں رکھتے تو خدا کے واسطے آپ صلى الله عليه وسلم کا دل تو نہ دکھاؤ۔ مولانا نے جو شعر لکھا ہے اس کا ترجمہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ تجھے جزائے خیر دے کہ تونے میری آنکھ کھول دی اور مجھے جان جاں کے ساتھ ہمراز کردیا۔ نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم، اللہ تعالیٰ کے محبوب ہیں۔ اس لیے حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی اذیت اللہ جل شانہ کی اذیت ہے۔ اسی لیے حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا ارشاد ہے۔ مَنْ آذَانِیْ فَقَدْ اٰذَیٰ اللّٰہَ تَعَالٰی جس نے مجھے تکلیف پہنچائی اس نے اللہ تعالیٰ کو تکلیف پہنچائی جب غیرمسلموں کے ڈاڑھی منڈانے اورمونچھیں بڑھانے سے حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کو تکلیف پہنچی تو جو لوگ امتی کہلاتے ہیں ان کے اس ناپاک فعل سے حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کو کتنی تکلیف ہوتی ہوگی۔

مولانا میرٹھی تحریر فرماتے ہیں کہ اب ڈاڑھی کی طبّی حیثیت بھی ملاحظہ فرمائیے، طبِ یونانی تو پہلے ہی طے کرچکی تھی کہ ڈاڑھی مرد کے لیے زینت اور گردن اور سینہ کے لیے بڑی محافظ ہے، مگر اب تو ڈاکٹر بھی اُلٹے پاؤں لوٹتے ہیں۔ چنانچہ ایک ڈاکٹر لکھتا ہے کہ ڈاڑھی پر بار بار اُسترا چلانے سے آنکھوں کی رگوں پر اثر پڑتا ہے اور ان کی بینائی کمزور ہوتی جاتی ہے، دوسرا ڈاکٹر لکھتا ہے کہ نیچی ڈاڑھی مضرصحت، جراثیم کو اپنے اندر اُلجھاکر حلق اور سینہ تک پہنچنے سے روک لیتی ہے اور ایک ڈاکٹر یہاں تک لکھتا ہے کہ اگر سات نسلوں تک مردوں میں ڈاڑھی منڈانے کی عادت قائم رہی تو آٹھویں نسل بے ڈاڑھی کے پیدا ہوگی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر نسل میں مادہ کم ہوتے ہوتے آٹھویں نسل میں مفقود ہوجائے گا۔ یہ اس ڈاکٹر کی پیشین گوئی نہیں ہے جس کا تعلق نجومی سے ہے بلکہ یہ ایک طبعی اصول ہے، صاف لہجہ والا بچہ اگر بار بار کسی ہکلے کی نقل اُتارتا رہتا ہے تو چند ہی روز میں ہکلابن جاتا ہے۔اور پھرکتنی ہی کوشش کرے ایک بات بھی بغیرہکلاہٹ کے نہیں کرسکتا۔ اس بحث میں سب سے زیادہ واضح تحریر امریکن ڈاکٹر چارلس ہومر کی ہے جوحال ہی میں شائع ہوئی ہے۔ اس کا بلفظہ ترجمہ یہ ہے۔

”ایک مضمون نگار نے ڈاڑھی مونڈنے کے لیے برقی سوئیاں ایجادکرنے کی مجھ سے فرمائش کی ہے۔ تاکہ وہ تمام وقت جوڈاڑھی مونڈنے کی نذر ہوتا ہے بچ جائے۔ لیکن سمجھ میں نہیں آتا، آخر ڈاڑھی کے نام سے لوگوں کو لرزہ کیوں چڑھتا ہے۔ لوگ جب اپنے سروں پر بال رکھتے ہیں تو پھر چہرے پران کے رکھنے میں کیا عیب ہے، کسی کے سرپر سے اگر کسی جگہ کے بال اُڑ جائیں تو اسے گنج کے اظہار سے شرم آیا کرتی ہے۔ لیکن یہ عجیب تماشا ہے کہ اپنے پورے چہرے کو خوشی سے گنجا کرلیتے ہیں۔ او راپنے کو ڈاڑھی سے محروم کرتے ذرا نہیں شرماتے، جوکہ مرد ہونے کی سب سے زیادہ واضح علامت ہے، ڈاڑھی اور مونچھیں انسان کے چہرے کو مردانہ قوت، استحکام سیرت، کمالِ فردیت، اور علاماتِ امتیاز بخشتی ہیں، اور اس کی بقاء اور تحفظ بھی دلیری کی بناء پر ہوتا ہے، یہی تھوڑے سے بال ہیں جو مرد کو زنانہ صفات سے ممتاز بناتے ہیں۔ کیونکہ اس کے علاوہ وہ بدن کے تمام بالوں میں مرد، اور عورت دونوں مشترک ہیں عورتیں اپنے دلوں میں ڈاڑھی اور مونچھوں کی بڑی قدر رکھتی ہیں،اور باطن میں بے ریش مردوں کی زیادہ دلدادہ ہوتی ہیں۔ اور بظاہر تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان کو ڈاڑھی اور مونچھیں اچھی معلوم نہیں ہوتیں۔ لیکن اس کا سبب صرف یہ ہے کہ وہ فیشن کی غلام اور لباس کی ماتحت ہوا کرتی ہیں، اور بدقسمتی سے آج کل ڈاڑھی اور مونچھیں فیشن کی بارگاہ سے مردود ہوچکی ہیں نتھنوں اور منہ کے سامنے تھوڑے سے بالوں کی موجودگی ایک اچھی چھلنی کا کام دیتی ہے۔اور مضرت رساں خاک مٹّی اور بہت سے جراثیم ناک یا منہ میں نہیں جانے پاتے۔ لمبی اور گھنی ڈاڑھی گلے کو سردی کے اثرات سے بچائے رکھتی ہے۔

دیکھئے ڈاکٹر ہومر، ڈاڑھی منڈانے کو چہرے کا گنج اور فیشن کی غلامی کو زنانہ خصلت بتاتا ہے، اس کے نزدیک استقلال، شجاعت، حوصلہ، ہمّت تمام مردانہ خصائل، اور زینت کا مدار ڈاڑھی ہے وہ آپ کے کھانسی زکام اورنزلہ میں مبتلا رہنے کا سبب آپ کی اس عادت کو قرار دیتا ہے،اور پھر آگے لکھتا ہے کہ ڈاڑھی اور مونچھیں پھر دنیا میں واپس آرہی ہیں اور ان ہی کے ساتھ وہ فوقیت بھی واپس آئے گی جو قدرت نے مرد کو عورت پر دی ہے۔ کسی ڈاڑھی رکھنے والے مرد نے کبھی اپنی بیوی کو نہیں چھوڑاتھا۔ ڈاڑھی والا انسان اپنی ڈاڑھی کی ہمیشہ لاج رکھا کرتا ہے، اس میں ایک آن ہوتی ہے، جو مرد کی شان کو شایان ہے۔ آخر ایک پورے نوجوان مرد کی یہ تمنا کیوں ہوکہ اس کا چہرہ بچوں کا سا نظر آئے، خدانے ڈاڑھی اور مونچھیں اسی واسطے بنائی تھیں کہ ان سے مردوں کے چہرے کی زینت ہو، جو لوگ ڈاڑھی کا مذاق اورمخول اُڑاتے ہیں وہ حضرت یسوع مسیح علیہ الصلوٰة والسلام کا مذاق اورمخول اُڑاتے ہیں، اس لیے کہ حضرت مسیح علیہ السلام ڈاڑھی رکھتے تھے۔

دیکھا آپ نے کہ ایک عیسائی اپنے مذہبی اور طبّی تحقیق میں مختصر لفظوں میں کیا کچھ کہہ گیا۔ اس کے نزدیک جوان کو اِمرد، بے ریش بننے کی تمنّا کرنا، رجعت فہقری ہے، انسان پھر بندر بننے کی تمنّا کرنے لگے، اور انیس صدیاں گزرنے پربھی اپنے نبی کی اتنی قدر کرتا ہے کہ ڈاڑھی کا مضحکہ اُڑانے والوں کو یسوع مسیح علیہ السلام کا مضحکہ اُڑانے والا بتاتا ہے، اس لیے کہ وہ ڈاڑھی رکھتے تھے، مدعیانِ اسلام بتلائیں کہ وہ کیا قدر کررہے ہیں۔ سیّدالانبیاء صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی جن کے اُمّتی بن کر قبل قیامت یہی حضور مسیح علیہ السلام تشریف لائیں گے۔

ہم نے چارلس ہومر کا مضمون بجنسہ درج کردیا کہ تصرف اور خیانت عیب ہے، مگر مونچھوں سے متعلق ہمیں اس کی رائے سے اختلاف ہے۔ خود ہومر کو بھی اس کا اقرار ہے کہ حضرت یسوع مسیح کی مونچھیں بڑھی ہوئی نہ تھیں، ورنہ جہاں اس نے اس کا اظہار کیا ہے کہ یسوح مسیح ڈاڑھی رکھتے تھے، وہیں ان کی بڑی مونچھیں رکھنے کا بھی ضرور ذکر کرتا۔

مولانا میرٹھی کے رسالہ کا خلاصہ ختم ہوا۔ اس ناکارہ نے جب یہ رسالہ شروع کیاتھا۔ اس وقت صرف مولانا میرٹھی کا رسالہ ذہن میں تھا اور وہ بھی مدینہ میں نہیں تھا۔ مگر شروع کرنے کے بعد احباب نے بہت رسالے اس مضمون کے اپنے اپنے پاس سے لاکر دئیے، تو خیال یہ ہوا کہ ماشاء اللہ اس سلسلہ میں تو بہت کچھ لکھا جاچکا ہے۔ اس لیے میں نے تو اپنے رسالہ کو ملتوی کردیا تھا مگر بعض دوستوں کا اصرار ہوا، کہ مختصر ہی سہی جب شروع کردیا تو کچھ نہ کچھ لکھ ہی دیا جائے۔ میں نے بھی سوچا کہ اب ضرورت کا درجہ تو نہیں ہے۔ مگر احیائے سنت کے ثواب میں شرکت تو میری بھی ہوہی جائے گی، جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ ڈاڑھی والوں کا مذاق اُڑایا جاتا ہے تو ان کومیں ایک شعر سنایا کرتاہوں:

”لوگ سمجھیں مجھے محرومِ وقار وتمکیں

وہ نہ سمجھیں کہ مری بزم کے قابل نہ رہا“

سیّدالکونین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم شافع المذنبیں کی خوشنودی کے مقابلہ میں احمقوں کا مذاق کیا قابلِ التفات ہوسکتا ہے۔

          وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی خَیْرِ خَلْقِہ سَیِّدِنَا وَمَوْلاَنَا مُحَمَّدٍ وَّ آلِہ وَصَحْبِہ وَبَارَکَ وَسَلَّمَ.

* * *

——————————-

ماهنامه دارالعلوم ، شماره 03 ، جلد: 93 ربيع الاول 1430 ھ مطابق مارچ 2009ء

Related Posts