از: رشید احمد فریدی
مدرسہ مفتاح العلوم، تراج، سورت
وجوب فی الذمہ قبل یوم النحر کی تائیدات
مذکورہ بالا دلائل سے یہ حقیقت آشکارا ہوجاتی ہے کہ قربانی کا وجوب فی الذمہ غنا سے ہے وقت پر ہرگز موقوف نہیں ہے۔ مزید تائید کے لیے اضحیہ کے مستحبات پر مشتمل صاحبِ بدائع کا کلام پیش کیاجاتاہے۔
(فصل) اما الذی ہو یستحب قبل التضحیة فیستحب (۱) ان یربط الاضحیة قبل ایام النحر بایام لمافیہ من الاستعداد للقربة واظہار الرغبة فیہا فیکون لہ فیہ اجر وثواب (۲) وان یقلدہا (۳) ویجلّلہا اعتبارًا بالہدایا والجامع ان ذلک یشعر بتعظیمہا قال اللہ ومن یعظم شعائر اللہ فانہا من تقوی القلوب (۴) وان یسوقہا الی المنسک سوقا جمیلا لاعنیفا (۵) ولا یجرّ برجلہا الی المذبح کما ذکرنا فی کتاب الذبائح ولو اشتری شاة للاضحیة فیکرہ (۶) ان یحلبہا (۷) او یجزّ صوفہا فینتفع بہ لانہ عیّنہا للقربة فلا یحل لہ الانتفاع بجزء من اجزائہا قبل اقامة القربة فیہا کما لا یحل لہ الانتفاع بلحمہا اذا ذبحہا قبل وقتہا ولان الحلب والجزّ یوجب نقصا فیہا وہو ممنوع عن ادخال النقص فی الاضحیة․․․ ویکرہ (۸) بیعہا لما قلنا․․․ ویکرہ (۹) لہ رکوب الاضحیة (۱۰) واستعمالہا (۱۱) والحمل علیہا (بدائع:۵/۷۸)
یہ مستحبات خاص کر ایام نحر سے چند دن قبل جانور کا خریدنا کیونکہ غنی کااضحیہ خریدنا ایجاب من نفسہ نہیں بلکہ ذمہ فارغ کرنے کے لیے ہے۔ بخلاف الغنی لان الاضحیة علیہ بایجاب الشرع ابتداء فلا یکون شراوٴہ للاضحیة ایجابا بل یکون قصدًا الی تفریغ ما فی ذمتہ (کما مرّ) اور مکروہات دلالت کرتے ہیں کہ غنی پراصل وجوب وقت سے پہلے سے موجود ہے۔ اور عموماً ایساہی ہوتا ہے کہ دِنوں، ہفتوں اور بعض مرتبہ مہینوں پہلے جانور خرید کر اس کے ساتھ رغبت ومحبت کا رشتہ قائم کرتے ہیں اور تعظیم واحترام کا معاملہ کیاجاتا ہے۔ امتِ مسلمہ کا یہ معمول اپنے اپنے علاقہ میں بخوبی دیکھا جاسکتا ہے۔
قربانی قربة موقتہ ہے
قربانی کی دوسری حیثیت یہ ہے کہ وہ بالاتفاق قربة موقتہ ہے یعنی اس کی اداء مخصوص ایام و اوقات کے ساتھ خاص ہے اس اعتبار سے قربانی دیگر واجباتِ موقتہ نماز، روزہ اور جمعہ کے مشابہ ہے اور موقتات میں وقت بالاجماع شرطِ اداء ہے۔
وکل موقّت فالوقت شرط لادائہ لانہ لایتحقق بدونہ (تقریر و تحبیر:۲/۱۷۵)
الوقت شرط لادائہا علی ما عرف فی اصول الفقہ (فتح القدیر:۹/۵۰۷، کتاب الاضحیہ)
وقت ”شرطِ اداء“ کی تفصیل
اور یہ صرف احناف ہی نہیں بلکہ دیگر ائمہ کے نزدیک بھی جن کے یہاں قربانی سنت موٴکدہ ہے بلکہ نفل قربانی کے لیے بھی وقت شرط اداء ہے۔ البتہ اس کی ابتداء وانتہاء میں تفصیل ہے۔
واما شروط صحتہا فمنہا السلامة من العیوب․․․ ومنہا الوقت المخصوص فلا تصح اذا فعلت قبلہ او بعدہ وفی بیانہ تفصیل المذاہب․
الحنیفة قالو: یدخل وقت الاضحیة عند طلوع فجر یوم النحر وہو یوم العید ویستمر الی قبیل غروب الیوم الثالث وہذا لایختلف فی ذاتہ بالنسبة لمن یضحی فی المصر او یضحی فی القریة ولکن یشترط فی صحتہا للمصری ان یکون الذبح بعد صلاة العید․
المالکیة قالو: یبتدیٴ وقت الاضحیة لغیر الامام فی الیوم الاول بعد تمام ذبح الامام ویبتدیٴ وقتہا للامام بعد الفراغ من خطبتہ بعد صلاة العید او مضی زمن قدر ذبح الامام اضحیتہ ان لم یذبح الامام ویستمر وقتہا لآخر الیوم الثالث لیوم العید ویفوت بغروبہ․
الحنابلة قالوا: یبتدیٴ وقت ذبح الاضحیة من یوم العید بعد صلاة العید فیصح الذبح بعد الصلاة وقبل الخطبة ولکن الافضل ان یکون بعد الصلاة والخطبة․․․ واذا کان فی جہة لایصلی فیہا العید کالبادیة واہل الخیام ممن لاعید علیہم فان وقت الاضحیة یبتدیٴ فیہا بمضی زمن قدر صلاة العید․․․ وآخر وقت ذبح الاضحیة الیوم الثانی من ایام التشریق فایام النحر عندہم ثلثة یوم العید ویومان بعدہ․
الشافعیة قالوا: یدخل وقت ذبح الاضحیة بعد مضی قدر رکعتین وخطبتین بعد طلوع الشمس یوم عید النحر وان لم ترتفع الشمس قدر رمح ولکن الافضل تاخیرہ الی مضی ذلک من ارتفاعہا ویستمر الی آخر ایام التشریق الثلثة․ (الفقہ علی مذاہب الاربعة:۱/۷۲۱)
بجز امام شافعی کے سب کے نزدیک منتہائے وقت ۱۲ویں کا غروب ہے اور ابتدائے وقت سوائے امام اعظم کے سب کے نزدیک تقریباً نمازِ عید الاضحی کے بعد شروع ہوتا ہے اس میں شہری ودیہاتی کا کوئی معتد بہ فرق نہیں ہے اور امام اعظم کے نزدیک اصل وقت جمیع مکلفین کے حق میں صبح صادق سے ہی شروع ہوجاتا ہے البتہ ذبح فی المصر کے لیے فراغ من صلاة العید مزید شرط ہے۔
صلاة عید ذبح فی المصر کی شرطِ مزید ہے
ثم یختص جواز الاداء بایام النحر وہی ثلثة ایام عندنا قال علیہ الصلاة والسلام ایام النحر ثلثة افضلہا اولہا فاذا غربت الشمس من الیوم الثالث لم تجز الاضحیة بعد ذلک․ (مبسوط:۱۲/۹)
ثم اول وقت التضحیة عند طلوع الفجر الثانی من یوم النحر الا ان فی حق الامصار یشترط تقدیم الصلاة علی الاضحیة فمن ضحّی قبل الصلاة فی المصر لاتجزیہ لعدم الشرط لا لعدم الوقت ولہذا جازت التضحیة فی القری بعد انشقاق الفجر ودخول الوقت لایختلف فی حق اہل الامصار والقری وانما یختلفون فی وجوب الصلاة فلیس علی اہل القری صلاة العید․ (مبسوط:۱۲/۱۰)
فلا یجوز لاحد ان یضحّی قبل طلوع الفجر الثانی من الیوم الاول من ایام النحر ویجوز بعد طلوعہ سواء کان من اہل المصر او من اہل القری غیر ان للجواز فی حق المصر شرطاً زائدا وہو ان یکون بعد صلاة العید لایجوز تقدیمہا علیہ عندنا․ (بدائع:۵/۷۳)
شہر میں قربانی صحیح ہونے کے لیے صلاةِ عید کی ادائیگی دوسری اہم شرط ہے حتی کہ نماز سے قبل ذبیحہ اضحیہ نہیں کہلائیگا۔ ان اول نسکنا فی ہذا الیوم الصلاة ثم الاضحیة فمن ذبح قبل الصلاة فلیُعد ذبیحتہ ومن ذبح بعد الصلاة تم نسکہ واصاب المسلمین․ (مبسوط:۱۲/۱۴)
گویا شہر میں نماز عیدکے بعد وقت شروع ہوتا ہے لہٰذا نماز سے قبل ذبح کرنا ایساہے جیسے صبح صادق سے پہلے ذبح کرنا ۔
غالباً اسی وجہ سے بعض فقہاء کے کلام میں عبارت اس طرح ہے۔ اول وقتہا بعد الصلاة ان ذبح فی المصر ای بعد صلاة العید یوم النحر وبعد طلوع فجر یوم النحر ان ذبح فی غیرہ․ (شرح وقایہ:۴/۳۹)
وقت شرط اور سبب دونوں کاجامع ہے
بہرحال ائمہ اربعہ کے نزدیک ایام نحر مطلق قربانی کے لیے شرط اداء ہے۔ اور واجب قربانی کے لیے واجبات موقتہ میں سے حج اور جمعہ کو چھوڑ کر یعنی نماز، روزہ کے وقت کی طرح بعینہ اسی وقت کو شرط اداء کے ساتھ وجوب اداء کا سبب بھی قرار دیاگیا ہے، لہٰذا وقت دو حیثیتوں کا جامع ہوا۔
لاتجوز قبل دخول الوقت لان الوقت کما ہو شرط الوجوب فہو شرط جواز اقامة الواجب․ (بدائع:۵/۷۳)
ولا نزاع فی سببیّة ذلک ومما یدل علی سببیة الوقت امتناع التقدیم علیہ کامتناع الصلاة․ (بنایہ:۱۱/۳)
فان قلت جعلت الوقت سببًا فکیف یکون شرطاً قلتُ ہو سبب للوجوب وشرط للاداء (عنایہ علی ہامش الفتح:۱/۲۱۶)
وقد یجامع الشرط السبب مع اختلاف النسبة کوقت الصلاة فانہ شرط بالنسبة الی الاداء وسبب بالنسبة الی وجوب الاداء․ (تقریر:۲/۱۰۲)
اور موقتات کی اداء جس طرح قبل الوقت صحیح نہیں ہے اسی طرح وقت کے بعد بھی صحیح نہیں ہے بلکہ قضاء لازم ہوتی ہے۔
ولم یقل احد بصحة اداء الموقتات بعد مضی وقتہا․․․ فان التضحیة اراقة الدم وہی انما تقبل فی وقت الاداء لابعدہ وانما الذی یلزم بعدہ قضاء ہا (فتح القدیر:۹/۵۰۷)
اما بعد مضی ایام النحر فقد سقط معنی التقرب باراقة الدم لانہا لاتکون قربة الا فی مکان مخصوص وہو الحرم او فی زمان مخصوص وہو ایام النحر․(مبسوط:۱۲/۱۴)
․․․ ویفوت بمضی الوقت فلا تجب علیہ بمنزلة الجمعة (ہدایہ آخرین:۲۴۴)
قربانی کی قضاء اور جمعہ سے مشابہت
صاحب ہدایہ کے بمنزلة الجمعہ کہنے سے چند امور کی طرف اشارہ ہوا:
(۱) ایک یہی جو اوپر مذکور ہوا یعنی وقتِ جمعہ ادائے جمعہ کے لیے شرط ہے اور جمعہ کے وجوب کے شرائط دوسرے ہیں اسی طرح صحة اضحیہ کے لیے وقت شرط اداء ہے اور وجوب فی الذمہ کے شرائط دیگر ہیں۔
(۲) وقت کے اعتبار سے اصل فریضہ ظہر ہے مگر سیدالایام کی خاص شان واہمیت کے پیش نظر بجائے ظہر کے صلاة جمعہ کے ذریعہ فریضہ کی ادائیگی کافی سمجھی گئی ان اصل الفرض ہو الظہر فی حق الکافة․․․ الا انہ مامور باسقاطہ باداء الجمعة (ہدایہ:۱/۱۷۰) اسی طرح قربانی حق مالی ہونے کی وجہ سے اصل وظیفہ تصدق ہونا چاہئے تھا مگر ایام اضحیہ کی خاص شان کہ اس میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے مومنین کی ضیافت ہوتی ہے بجائے تصدق کے اراقة الدم کو قائم مقام کردیاگیا۔ کما مرّ (بدائع، حسامی)
(۳) وقت گذر جانے پر ادائے جمعہ فوت ہوگئی اب جمعہ اداء نہیں ہوسکتی اسی طرح ایام نحر گذر جانے سے اراقة الدم سے قربت اداء نہ ہوگی ولا سبیل الی التقرب بالاراقة بعد خروج الوقت (بدائع:۵/۶۸، مبسوط: ۱۲/۱۴)
(۴) وقت گزر جانے کے بعد قضاء نہ بمثل معقول ہے جیسے نماز پنج گانہ میں اور نہ بمثل غیرمعقول ہے جیسے روزہ کی قضاء فدیہ سے بلکہ وقت کا جو اصل فریضہ تھا یعنی ظہر اس کی قضاء کی جاتی ہے۔ اسی طرح ایام نحر گذر جانے کے بعد قضاء نہ بمثل معقول ہے اور نہ (علی الاطلاق) بمثل غیرمعقول ہے بلکہ غنا کی وجہ سے اصلاً جو حکم عائد ہوتا ہے یعنی تصدق وہی حکم ذمہ میں باقی رہتا ہے۔ وقد تقرر ان القضاء قد یکون بمثل معقول کالصلاة للصلاة وقد یکون بمثل غیر معقول کالفدیة للصوم وثواب النفقة للحج وعدّوا الاضحیة من القسم الثانی وقالوا ان اداء ہا فی وقتہا باراقة الدم وقضاء ہا بعد مضی وقتہا بالتصدق بعینہا وبقیمتہا (تکملہ فتح:۹/۵۰۷)
لاتقضی بالاراقة لان الاراقة لاتعقل قربة وانما جُعِلتْ قربة بالشرع فی وقت مخصوص فاقتصر کونہا قربة علی الوقت المخصوص فلا تقضی بعد خروج الوقت ثم قضاء ہا قد یکون بالتصدق بعین الشاة حیةً وقد یکون بالتصدق بقیمة الشاة (بدائع:۵/۶۸)
قبل از وقت قربانی صحیح نہ ہونے کی وجوہات
(۱) مذکورہ تفصیل سے بخوبی معلوم ہوگیا کہ غنی شخص ایام نحر سے قبل قربانی اس لیے نہیں کرسکتا کہ وقت شرطِ اداء ہے اور تقدم المشروط علی شرط الصحة جائز نہیں ہے۔
(۲) قربانی قربة معقولہ ہے اس لیے اس کی ادائیگی وقت کے ساتھ مقید ہے نہ قبل از وقت جائز ہے اور نہ وقت کے بعد۔ کما مر․
(۳) وقت سبب وجوبِ اداء بھی ہے اور مسبب سبب پر مقدم نہیں ہوتا پس قربانی وقت وجوبِ اداء سے پہلے جائز نہیں اور یہی قیاس کا تقاضہ بھی ہے۔ غالباً اسی وجہ سے حسن بن زیاد اور امام مالک صدقة الفطر اور زکوة میں وقتِ وجوب اداء یعنی صبح یوم الفطر اور حولانِ حول سے قبل اداء کو جائز نہیں کہتے ہیں مگر چونکہ خلاف قیاس نص سے اخذ زکوٰة قبل حولان الحول اور صبح یوم الفطر سے پہلے ادائے صدقہ ثابت ہے اس لیے ائمہ ثلثہ امام ابوحنیفہ، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل جوازِ تقدیم کے قائل ہیں۔ (بنایہ:۳/۵۹۵)
وقت سے پہلے قربانی صحیح نہ ہونے کی وجہ غنی کے حق میں بھی وہی ہے جواوپر مذکور ہوئی نہ یہ کہ غنی کا ذمہ ابھی مشغول بالواجب ہی نہیں ہوا ہے۔
تعقب الفرید علی تخصیص الوجوب بصبح العید
مذکورہ تفصیلات سے یہ چند امور محقق ہوئے: (۱) اصلِ وجوب (نفسِ وجوب) کا ثبوت مکلف کی صفات پر موقوف ہے (۲) وجوبِ اداء (یعنی فرضیت و وجوب) خطابِ الٰہی کے ذریعہ مختص ہے اوقاتِ معینہ کے ساتھ (۳) سبب کے تکرار وتعدد سے وجوب مکرر ہوتاہے (۴) قربانی مالی عبادت ہے اور اس کے نفس وجوب کی علت بالاتفاق غنی (یعنی ملکِ نصاب ہے) (۵) قربانی کے وجوب اداء کا تعلق اضحیہ (جانور) سے ہے نہ کہ مکلف سے (۶) اور اداء کے لیے وقت کا اعتبار محلِ اداء کے لحاظ سے ہے جیساکہ آئندہ مفصل آرہا ہے۔
اب اس کے بعد جدید موقف پر دیے گئے فتاویٰ ملاحظہ فرمائیں۔
دارالعلوم کراچی کافتویٰ
۱۵/شعبان ۱۴۲۰ھ میں دارالافتاء کراچی (پاکستان) سے قربانی سے متعلق ایک فتویٰ دیاگیا جس پر ارباب افتاء کے دستخط بھی ہیں یہ فتویٰ رسالہ ”البلاغ“ کراچی فروری ۲۰۰۰/ میں شائع ہوا۔
متنِ فتوی کی عبارت یہ ہے:
الجواب حامدا ومصلیًا قربانی کے نفس وجوب کا سبب وقت ہے جوکہ یوم النحر کے طلوع صبح صادق سے شروع ہوکر بارہویں تاریخ کے غرب آفتاب تک ہے اور ”غنی“ یعنی مالک نصاب ہونا یہ شرط وجوب ہے اور مثلاً شہری کے حق میں قربانی کا نمازِ عید کے بعد انجام دینا یہ شرط اداء ہے اس کا مطلب یہ ہوا کہ یوم النحر کے طلوع صبح صادق سے پہلے قربانی کا سرے سے وجوب ہی نہیں ہوتا جیسا کہ نماز ہے کہ وقتِ نماز داخل ہونے سے پہلے نماز فرض ہی نہیں ہوتی لہٰذا اگر کسی نے وقت داخل ہونے سے پہلے نماز اداء کی تو فرض ادا نہیں ہوگا اسی طرح اگر کسی نے یوم نحر سے پہلے قربانی کی یا کرائی تو وہ بھی شرعاً معتبر نہیں ہوگی․․․ لیکن یاد رکھنا چاہئے کہ ”اداء“ کا اعتبار اس وقت ہوگا جب اس عمل کا پہلے مکلف کے ذمہ نفس وجوب ہوچکا ہو جیسا کہ شروع میں مذکور ہوا کیونکہ وجوب سے قبل اداء کا اعتبار نہیں اور نفس وجوب کا تعلق ذمہ مکلف سے ہوتا ہے اور ذمہ کا محل مکلف ہے مال نہیں لہٰذا نفس وجوب میں مکلف (فاعل) کے محل کا اعتبار ہوگا اور نفس وجوب کا سبب یوم نحر ہے جیساکہ گذشتہ صفحہ میں مذکور ہوا لہٰذا نفس وجوب میں یہ دیکھا جائے گا کہ جہاں مضحّی (قربانی کرنے/ کرانے والا) رہ رہا ہے وہاں یوم نحر ہوچکا ہے یا نہیں اگر یوم نحر ہوچکاہے تو نفس وجوب ہوگیا اب دیگر شرائط کے پائے جانے کی صورت میں خود قربانی یا اس کی اجازت سے دوسرا کوئی آدمی کرے دونوں صورتوں میں یہ قربانی شرعاً ادا ہوجائے گی لیکن مضحی جہاں رہ رہا ہے وہاں یوم نحر اگر نہیں ہوا ہے تو جس طرح اِس وقت یہ خود قربانی نہیں کرسکتا اسی طرح اس کی طرف سے کوئی اور بھی نہیں کرسکتا اگرچہ وکیل (دوسرا شخص) کے شہر یا ملک میں یومِ نحر شروع ہوچکا ہو۔ (البلاغ:۴۷،۴۸)
جناب مفتی صاحب نے متعدد کتب فقہ سے عبارت نقل کی ہے کہ غنا شرط وجوب ہے اور وقت ”سبب وجوب“ ہے۔ یہ بات بالکل مسلم ہے، مگر سبب وجوب کا مطلب مراد لینے میں اصولی طورپر لغزشیں واقع ہوئی ہیں: (۱) وجوب سے نفس وجوب ہی مراد لیاگیا۔ (۲) نفس وجوب کو سبب کے لفظ کے ساتھ خاص کردیاگیا۔ (۳) سبب کو سبب فی معنی العلة لیاگیا۔ مگر یہ استدلال مخدوش ہے۔ کیونکہ
(۱) وجوب کی دو قسمیں ہیں وجوب اداء اور نفس وجوب اور وجوب اداء مطلوب ہے اس لئے کہ اداء مقصود ہے اوراداء مقید بالوقت ہے پس وقت خاص کے ساتھ جو وجوب متعین ہے وہ وجوب اداء ہے جیساکہ گذشتہ اوراق میں ثابت کیاجاچکا لہٰذا فقہاء کے نزدیک سبب وجوب سے مراد سبب وجوب اداء ہے۔
(۲) نفس وجوب کچھ صفات کے ساتھ مختص اور اس پر مبنی ہے خواہ اسے سبب بھی کہا گیا ہو یا شرط جیسے ملک نصاب وجوب زکوٰة کے لیے سبب ہے اور صدقة الفطر کے حق میں شرط ہے اور گووجوبِ صدقہ کی ضافت رأس یمونہ کی طرف ہے مگر ملک نصاب (غنا) کے بغیر ذمہ مشغول بالواجب ہوتا ہی نہیں۔ پس جب صفات کا تحقق ہوگا نفس وجوب ہوجائے گا اور اگر وقت خاص للاداء میں تحقق ہورہا ہے تو ذمہ کی مشغولیت ان صفات کی وجہ سے ہوتی ہے نہ کہ وقت کی وجہ سے البتہ وقت خاص خطاب الٰہی کی معرفت کا ذریعہ ہے جووجوب اداء کا حقیقی سبب ہے۔ پس وقتِ خاص ہی کو نفس وجوب کا سبب سمجھنا اصول کے خلاف ہے۔
(۳) سبب کی کئی قسمیں ہیں ایک سبب فی معنی العلة ہوتا ہے جیسے ملک نصاب وجوب زکوٰة کے حق میں علّت ہے۔ ایک سبب محض بھی ہوتا ہے جو فقط مُفْضِی الی الحکم ہے نہ کہ موٴثر فی الوجوب جیسے اوقات مخصوصہ موقتات کے لیے پس قربانی کے سبب وجوب کو زکوٰة کے سبب وجوب پر قیاس کرکے قربانی کے سبب یعنی وقت کو موٴثر فی الوجوب ماننا قیاس مع الفارق ہے۔
(۴) غنا کو شرط وجوب کہاگیا ہے کما فی کتب الفقہ وہو الصحیح۔ مگرجناب مفتی صاحب اسے اہلیت وجوب یعنی اصل وجوب کی شرط کے بجائے فقط شرط وجوب اداء سمجھ رہے ہیں جیساکہ ان کی عبارت دلالت کررہی ہے ”لہٰذا نفس وجوب میں یہ دیکھا جائے گا کہ جہاں مضحی (قربانی کرنے/ کرانے والا) رہ رہا ہے وہاں یوم النحر ہوچکا ہے یا نہیں اگر یوم النحر ہوچکا ہے تو نفس وجوب ہوگیا اب دیگر شرائط کے پائے جانے کی صورت میں خود قربانی کرے یا اس کی اجازت سے دوسرا کوئی آدمی کرے دونوں صورتوں میں یہ قربانی شرعاً اداء ہوجائے گی الخ“ حالانکہ جمیع فقہاء کے نزدیک وجوب اضحیہ کی علّت قدرة علی النصاب ہے۔ پس غنا اصلِ وجوب کی شرط ہے یعنی غنا ہی کی وجہ سے مکلف کا ذمہ مشغول بالواجب کہلائے گا کیونکہ اصل وجوب کا محل بہرحال ذمہ المکلّف ہے اِس اصل وجوب کے بعد ہی وقت مخصوص میں وجوب اداء متحقق ہوگا ورنہ نہیں۔
(۵) قربانی کا وقت نماز، روزہ کے اوقات کی طرح سبب وجوب (اداء) ہے پھر بھی دونوں میں فرق ہے کہ نماز، روزہ میں وجوبِ اداء کا محل خود مکلف ہی کی ذات ہے کیونکہ وجوب جس اداء کی صفت ہے اس کا محل قیام ذاتِ مکلف ہے پس وقت کی آمد پر نماز، روزہ کا وجوب مکلف کے ذمہ ہی ہوگا یعنی وقت میں ذمہ مشغول بالواجب ہورہا ہے اور اسی کو عرف میں فرضیت سے تعبیر کرتے ہیں مگر حقیقت میں یہ بلحاظِ اصطلاح وجوبِ اداء ہے جس میں وجوب متصل بالاداء رہتا ہے باقی وہ نفس وجوب جو وجوب اداء کا مقابل اور اس سے منفک و مقدم ہوتا ہے اس کا مبنیٰ صفاتِ مکلف ہے نہ کہ وقت۔ لہٰذا نماز، روزہ میں تو وقت کی آمد پر یہ کہنا صحیح ہے کہ وجوب فی الذمہ بسبب الوقت ہے مگراس پر قیاس کرتے ہوئے قربانی کے بارے میں یہ کہنا کہ وقت کی آمد پر ہی وجوب ذمہ میں آئے گا درست نہیں ہے کیونکہ یہاں وجوبِ اداء کا محل جانور ہے اور ذمہ کا مشغول بالواجب ہونا غنا سے ہے جو وجوبِ اضحیہ کی علت ہے۔
مفتی عمر فاروق لندن کے فتویٰ کی تائید
کراچی کے مذکورہ فتویٰ کے چند سال بعد لندن میں مولانا عمر فاروق صاحب زیدمجدہ نے اُنہی سابقہ بنیادوں پر ذی قعدہ ۱۴۲۴ھ کو فتویٰ دیا اور مزید براں مفتی صاحب نے حضرت مفتی سید عبدالرحیم صاحب لاجپوری نوراللہ مرقدہ کے اس نوع کے فتویٰ کو مبنی بر تسامح بتایا۔ اور پھر مولانا اسمٰعیل گنگات صاحب مدظلہ کے توسط سے حضرت اقدس مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب ادام اللّٰہ ظلالہ علینا سے یہ لکھ کر استصواب کیا۔
․․․”بندہ کہتا ہے کہ فتاویٰ رحیمیہ کا فتویٰ مبنی برتسامح ہے اورہدایہ آخرین/۴۳۰ اور الدرالمختار ورد المحتار جلد۵/۲۷۸ کی جن عبارات کو حضرت مفتی سید عبدالرحیم صاحب لاجپوری قدس سرہ (مفتی اعظم گجرات، انڈیا) نے بطورِ دلیل ذکر فرمایا ہے ان کا تعلق نفسِ وجوب آجانے کے بعد سے ہے کہ نفسِ وجوب آجانے کے بعد قربانی کا جانور جس جگہ ہو اُس جگہ کا اعتبار ہوتا ہے قربانی کرانے والے کی جگہ کا اعتبار نہیں ہوتا۔“ حضرتِ والا سے موٴدبانہ درخواست ہے کہ اگر بندہ کے جواب میں سقم اور غلطی ہوتو اصلاح فرمادیں اوراگر بندہ کا جواب صحیح ہوتو تائید فرمادیں۔
حضرت مولانا مفتی تقی صاحب عثمانی مدظلہ العالی نے ان الفاظ میں تائید فرمائی:
بسم اللہ الرحمن الرحیم
مکرمی مولانا اسماعیل گنگات صاحب زیدمجدکم
السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ
قربانی کے بارے میں مولانا مفتی فاروق ڈیسائی صاحب کا فتویٰ موصول ہوا۔ بندے کو اس سے اتفاق ہے اور ان کے دلائل قوی ہیں اور فتاویٰ رحیمیہ میں تسامح ہے کیونکہ جو عبارت نقل کی ہے اس میں قربانی بعد الوجوب ہے جبکہ زیربحث مسئلہ میں قربانی قبل سبب الوجوب واقع ہورہی ہے نیز احتیاط اس میں ہے کہ جب قربانی کسی ملک میں کی جائے تو جس شخص کی طرف سے قربانی کی جارہی ہے اس کے ملک میں بھی ایام اضحیہ ختم نہ ہوئے ہوں۔
واللہ سبحانہ و تعالیٰ اعلم
بندہ محمد تقی عثمانی عفی عنہ
دارالافتاء دارالعلوم کراچی ۷۷
۱۶/۱۱/۱۴۲۵ھ
نوٹ: حضرت مفتی سید عبدالرحیم صاحب کا فتویٰ شروع رسالہ”نگاہِ اولین“ میں درج کیاگیا ہے۔
تائید صحیح نہیں ہے
تائید سے حضرت کی مراد غالباً یہی ہے کہ کتب فقہ کی وہ عبارتیں جن کو حضرت مفتی سید عبدالرحیم صاحب نے نقل کی ہیں اس کا تعلق بعد نفس الوجوب ہے جبکہ زیر بحث مسئلہ میں قربانی قبل سبب نفس الوجوب واقع ہورہی ہے،اس لیے کہ نفس وجوب وقت سے ہوتا ہے (کما فہمہ ارباب الفتاویٰ من لفظ ”سبب الوجوب“)
بندہ عرض کرتا ہے کہ حضرت کی یہ تائید مبنی بر خطأ ہے اس لیے کہ فقہاء کی عبارت کا تعلق جب بعد الوجوب سے ہے تو نفس وجوب یعنی ذمہ کے مشغول بالواجب ہونے کی بنیاد اور علّت غنا ویسار ہے نہ کہ وقتِ اضحیہ۔اور سبب وجوب سے مراد وقتِ وجوب اداء ہے اور اِسی سبب میں انتقال پایاجاتا ہے کما سبق مفصلا لہٰذا غنی کی قربانی دوسرے مقام پر وہاں کے ایام اضحیہ میں جب بھی کی جائے گی قبل سبب الوجوب نہیں بلکہ بعد سبب الوجوب ہی ہوگی۔
لہٰذا حضرت مفتی سید عبدالرحیم صاحب کا فتویٰ فقہ و اصول فقہ کی روشنی میں صحیح اور درست ہے اس میں قطعی طور پر کوئی تسامح اور لغزش نہیں ہے۔ فللّٰہ درالفقیہ․
شاہی مراد آباد کا فتویٰ
شاہی مرادآباد کے حضرت مفتی شبیراحمد صاحب زیدفضلہ نے ۲۳/صفر ۱۴۲۵ھ کو فتویٰ لکھا جو بقول مفتی محمد سلمان منصورپوری زیدمجدہ دارالعلوم کراچی اور حضرت مفتی سیدعبدالرحیم صاحب لاجپوری کے فتویٰ کے مابین ایک محاکمہ ہے یہ فتویٰ ندائے شاہی کے شمارہ جنوری ۲۰۰۵/ میں شائع ہوا۔
حضرت مفتی صاحب نے اصول کے اُن ہی مفاہیم کے پیش نظر فتویٰ تحریر کیا ہے جن کو کراچی کے فتویٰ میں بنیادی حیثیت حاصل ہے اس لیے سابقہ خطائیں یہاں بھی موجود ہیں بلکہ مزید واقع ہوئی ہیں۔
الجواب وباللّٰہ التوفیق․․․ حامدا و مصلیا ومسلّما
اس مسئلہ میں تین چیزوں کو الگ الگ سمجھنا لازم ہے (۱) سبب وجوب یعنی قربانی واجب ہونے کا سبب یہ قربانی کا وقت ہے جویوم النحر کے طلوع صبح صادق سے شروع ہوکر بارہویں تاریخ کے غروب آفتاب تک رہتا ہے (۲) شرطِ وجوب یعنی قربانی واجب ہونے کی شرط آزاد مسلمان کا مالک نصاب ہونا (۳) شرط اداء یعنی مالک نصاب پر قربانی کے ایام اور وقت داخل ہونے کی وجہ سے قربانی واجب ہوجاتی ہے پھراسکے قربانی اداء کرنے کے لیے ایک مزید شرط ہے وہ یہ ہے کہ شہری آدمی کیلئے نماز عیدالاضحی کی ادائیگی لازم ہے یہی شہری کے لیے ادائیگی کی شرط ہے مگر یہ شرط دیہاتی پر لاگو نہیں ہوتی اور شرط اداء میں مکان اضحیہ کا اعتبار ہے مکان مضحّی کا اعتبار نہیں لہٰذا جہاں جانور ہوگا وہاں کا اعتبار ہوگا اور جہاں مالک ہو وہاں کا اعتبار نہیں یہ مسئلہ صرف تیسری شرط کے اعتبار سے ہے اورپہلی اور دوسری شرط کے وجوب کے بغیر تیسری شرط کا تصور ہی نہیں ہوسکتا، لہٰذا سب سے پہلے اول شرط یعنی دونوں جگہ قربانی کے زمانہ کا آنا لازم ہے پھر شرطِ ثانی یعنی زمانہٴ قربانی میں مسلمان کا مالکِ نصاب ہونا ان دونوں شرطوں کے ایک ساتھ پائے جانے کے بعد تیسری کا مسئلہ سامنے آتا ہے اور تیسری شرط ایک خصوصی اور جزوی شرط ہے عمومی اور کلی نہیں صرف شہری کے ساتھ یہ شرط لگی ہوئی ہے۔ دیہاتی کے ساتھ نہیں لہٰذا شہری اور دیہاتی کے اعتبار سے مکان اضحیہ کا اعتبار ہوگا مکانِ مضحِّی کا اعتبار نہیں۔ فتویٰ رحیمیہ اور مسائل قربانی میں مسامحت ہوگئی ہے کہ اس میں تیسری شرط کو سببِ وجوب یعنی پہلی شرط کے درجہ میں لے جاکر لکھا گیا ہے جو درست نہیں ہے اور ساتھ میں ہدایہ، درمختار اور شامی کے تین جزئیہ بھی نقل کیے ہیں ان تینوں جزئیات کا تعلق تیسری شرط کے ساتھ ہے پہلی شرط کے ساتھ نہیں ہے ان جزئیات کو اس مسئلہ سے متعلق سمجھنے میں مسامحت ہوگئی ہے۔ الخ (ندائے شاہی شمارہ جنوری ۲۰۰۵/)
(۶) اول: یہاں حضرت مفتی صاحب سے مزید ایک خطأ یہ ہوئی بلکہ یہ خطا بھی کراچی کے فتویٰ میں موجود ہے کہ شرط اداء سے فقط نماز عیدالاضحی کی ادئیگی مراد لی ہے جو کہ شہری کے ساتھ خاص ہے حالانکہ وقت (ایام نحر) خود شرط اداء ہے جو واجب اور نفل دونوں قربانیوں کے لیے ہے خواہ شہر میں ہو یا دیہات میں اور فقہاء شرط اداء سے اوّلاً یہی وقت مرادلیتے ہیں الوقت شرط لادائہا علی ما عرف فی اصول الفقہ (فتح القدیر) کیونکہ واجب کی طرح نفل قربانی بھی موقت ہے بخلاف نفل نماز، روزہ کے اور یہ شرط اداء ہر ایک کے حق میں ہے البتہ صلاة العید کی ادائیگی یہ مزید شرط ہے شہر میں قربانی کے لیے۔ فلا یجوز لاحد ان یضحی قبل طلوع الفجر الثانی من الیوم الاول من ایام النحر ویجوز بعد طلوعہ سواء کان من اہل المصر او من اہل القری غیر ان للجواز فی حق اہل المصر شرط زائد وہو ان یکون بعد صلاة العید لایجوز تقدیمہا علیہ عندنا․ (بدائع:۵/۷۳)
(۷) دوم: اسی پر دوسری خطأ مرتب ہوئی کہ مکان اضحیہ کا اعتبار جس کاتعلق دراصل شرطِ اداء یعنی وقت (ایام نحر) سے ہے اور اہل مصر وقریہ دونوں کے حق میں عام اور کلی ہے۔ مفتی صاحب نے اسے شرط زائد کے ساتھ جوڑ کر اعتبار مکان اضحیہ کے ضابطہ کو جزوی بنادیا دیکھئے مسئلہ․․․ نمبر(۳) میں شرط اداء سے نماز عید الاضحی مراد لی ہے پھر لکھتے ہیں ”شرط اداء میں مکان اضحیہ کا اعتبار ہے“ اور آگے لکھتے ہیں ”تیسری شرط خصوصی اور جزوی ہے“۔
(۸) سوم: مفتی صاحب نے اپنے فتویٰ میں مکان اضحیہ ومکان من علیہ الاضحیہ دونوں کے حق میں وقتِ وجوب کو ضروری قرار دیتے ہوئے یوم النحر سے پہلے (باوجود غنا کے) نفس وجوب نہ ہونے پر ایک خاص جزئی (مثال) پیش کی ہے۔
”اگر ہندوستان کا آدمی سعودی عرب قربانی کا پیسہ بھیج دیتا ہے اور وہاں ہندوستان سے ایک دن پہلے قربانی کا دن شروع ہوجاتاہے ہندوستان میں ابھی قربانی کا زمانہ شروع ہی نہیں ہوا اب اگر مالکِ قربانی ہندوستان میں اسی دن مرجاتا ہے تو اس پر قربانی واجب ہی نہیں ہوئی حالانکہ مکان اضحیہ میں جہاں قربانی ہونی ہے وہاں پر وقت ہوچکا تھا۔ لہٰذا مکانِ اضحیہ اور مکان مالک دونوں جگہ قربانی کاسبب وجوب یعنی دسویں ذی الحجہ کی صبح صادق کا ہونا شرط ہے۔“
یہ استشہاد دو وجہ سے صحیح نہیں ہے۔
(۱) ایک یہ کہ اکنافِ عالَم سے حرم میں قربانی کے لیے ہدی بھیجنے کا شریعت کی روشنی میں قدیم دستور رہا ہے حالانکہ ہدی بھیجنے والے اور ذبح فی یوم النحر کے درمیان اوقات کا بیّن فرق بلکہ اکثر قمری تاریخ کا بھی اختلاف ہوتا رہتا ہے کما ستطلع علیہ․
(۲) دوسری یہ کہ مالکِ اضحیہ کا یوم النحرسے پہلے مرجانے پرکیا انحصار ہے مالک اضحیہ کے اعتبار سے وقت آجانے کے بعد بھی اگراضحیہ ایام نحر میں ذبح نہیں کیاگیا ہے اور مالک مرگیا تو بھی وجوب نہیں ہوا ۔
ولو مات الموسر فی ایام النحر قبل ان یضحی سقطت عنہ الاضحیة وفی الحقیقة لم تجب لما ذکرنا اَنّ الوجوب عند الاداء او فی آخر الوقت فاذا مات قبل الاداء مات قبل ان تجب علیہ کمن مات فی وقت الصلاة قبل ان یصلیہا انہ مات ولا صلاة علیہ کذا ہہنا (بدائع:۵/۶۵)
یہی نہیں بلکہ ایام نحرمیں اداء سے قبل فقر لاحق ہوگیا تب بھی وجوب ساقط ہوجائیگا۔ معلوم ہوا کہ وجوب فی الذمہ کا مُوجِب وقت نہیں ہے بلکہ غنا ویسار ہے۔
موسر اشتری شاةً للاضحیة فی اول ایام النحر فلم یضح حتی افتقر قبل مضی ایام النحر او انفق حتی انتقص النصاب سقطت عنہ الاضحیة وان افتقر بعد ما مضت ایام النحر کان علیہ ان یتصدق بعینہا او بقیمتہا ولا یسقط عنہ الاضحیة (فتاویٰ قاضیخان بہامش العالمگیری:۳/۳۴۶)
فتاویٰ رحیمیہ کی تصحیح اوراس میں تسامح کی تردید
مفتی صاحب نے اپنے اُنہی بنیادی امور کے پیشِ نظر جس پر فتویٰ کا مدار ہے فتاویٰ رحیمیہ کے فتویٰ میں مسامحت کی تعیین کی ہے۔ مگر بنیاد جب خود ہی مخدوش اور نقل کے خلاف ہے تو حضرت مفتی سید عبدالرحیم صاحب کے فتویٰ کو مبنی برتسامح کہنا کیسے صحیح ہوسکتا ہے۔
لان الظاہر من الفتوی ان السوال عن المسلم الحر الغنی المقیم فالاضحیة وجبت علیہ ای فی ذمتہ بوجود الغنٰی الشرعی الذی ہو علّة لنفس الوجوب ای لما ہو مقابل لوجوب الاداء وہو الشرط الاول فالغنا شرط فی المرتبة الاولی والوقت بعد ذلک شرطٌ للاداء ای لذبح الاضحیة سواء کان الذابح فی المصر او فی مکان لایصلی فیہ العید وعینُ ذلک الوقت سبب لوجوب الاداء ہذا ہو الشرط الثانی ولافرق بین شرطیّة الوقت وسببیّتہ لانہ جامع لہما باعتبارین (کمامر) ثم بعد ذلک ای بعد مجیٴ الوقت ینتظر لصحة ذبح الاضحیة الانصراف عن صلاة العید ان تذبح فی المصر وہذا الشرط خاص للمصر فقط وہو الشرط الثالث فاعتبار الوقت لمکان ذبح الاضحیة متعلق بشرط الاداء العام الشامل للمصری والقروی لاللشرط الثالث․
واذا علمت ہذا فاستمع ان الشیخ الموٴقر المفتی السید عبدالرحیم اللاجفوری نور اللہ ضریحہ قد اجاب السائل المقیم فی حیدرآباد عن اخیہ عبدالرشید الساکن فی بلدة مدراس فنفس الوجوب قد تحقق اذا ماصار ذا غنیً وبعد الوجوب یلاحظ وجوب الاداء المختص بالوقت وہو الشرط للاداء فالعبارات الفقیة المندرجة فی الجواب من الہدایة والدر المختار ورد المُحتار) لاعتبار مکان الاضحیة کلہا متعلقة لہذا الشرط فلم یقع تقدیم و تاخیر من صاحب السمو الشیخ الفقیہ اللاجفوری علی ما یزعم المفتی شبیر احمد المراد آبادی بل الامر اختلط علیہ․
واذا کان کذلک فالسائل اذا ذبح فی مقامہ فی یوم النحر اضحیة اخیہ الساکن فی مدراس کان الذبح بعد سبب الوجوب ای سبب وجوب الاداء لان السبب ہو الجزء السابق المتصل بالاداء کما قررہ الفقہاء فلا یقع الذبح قبل سبب الوجوب علی ماقیل فالفتوی صحیح وصواب بالتحقیق لاتسامح فیہ مطابق لما صرح بہ ائمة الفقہ فی کتبہم․
جامعہ اسلامیہ ڈابھیل کا فتویٰ
جدید موقِف کی حمایت میں مذکورہ فتاویٰ کے بعد جامعہ اسلامیہ ڈابھیل گجرات سے بھی اک طویل فتویٰ صادرہوا جس میں مسئلہٴ ہذا مختلف فیہا کو دوسرے طرز سے سمجھایا گیا ہے۔مگر خاکم بدہن بنیادی تسامحات یہاں بھی درآمد ہوگئی ہیں تجاوز اللہ عن عثراتہم․
پس ادب کے ساتھ عرض ہے کہ سببِ وجوبِ اضحیہ کو سبب وجوب للزکوٰة پر قیاس کرکے (کہ دونوں مالی عبادت ہیں اور دونوں جگہ سبب کا لفظ موجود ہے) اضحیہ کے سبب کو موٴثر فی الوجوب تسلیم کیاگیا۔ یہ پہلا مقدمہ ہوا اور چونکہ سبب وجوب اضحیہ کو فقہ میں سبب وجوب للصلاة سے تشبیہ دی گئی ہے (کہ دونوں قربت موقتہ ہیں) اورنماز میں وجوب میں مکلف کے وقت کا اعتبار ہے۔ یہ ہوا دوسرا مقدمہ پس قربانی کے متعلق کہاگیا کہ جب تک وقت خاص نہ آجائے غنی کا ذمہ مشغول بالواجب ہوگا ہی نہیں لہٰذا من علیہ الاضحیہ کے حق میں وقت کا اعتبار ضروری ٹھہرا۔ مگر مقدمہٴ اولیٰ میں زکوٰة کا سبب وجوب ملک نصاب ہے جو کہ صفتِ مکلف اور علّت ہے اور قربانی کا سبب وجوب یعنی وقت اداء کا ظرف اور سبب محض ہے۔ اور مقدمہ ثانیہ میں قربانی کے وجوب کا محل جانور ہے اور نماز میں وجوب کا محل خود مکلف کی ذات ہے اور دونوں جگہ وجوب سے وجوبِ اداء مراد ہے ہذا ہو الفرق فیما بین المقدمتین․
اور حیلة المصری اذا اراد التعجیل الخ کے متعلق فتویٴ ہذا میں جو کچھ مرقوم ہے رسالہ کے اخیر میں ”المعتبر مکان الاضحیہ“ پر جوکلام کیاگیا ہے اس سے حقیقت آشکارہ ہوجائیگی۔
جدید موقِف کی فاحش خطاء
(۹) اس سلسلہ کے فتاویٰ میں وقت ہی کو موٴثر فی الوجوب مان کر ابتداء وقت کے بارے میں یہ کہا گیا کہ من علیہ الاضحیہ کے اعتبار سے جب تک صبح صادق نہ ہوجائے اس کی قربانی دوسرے علاقہ میں کرنا جائز نہیں ہے اگرچہ وکیل ذابح کے یہاں وقت ہوچکا ہو ورنہ قربانی نہیں ہوگی۔ اس حکم کے ساتھ اگر یہ بھی کہا جاتا کہ من علیہ الاضحیہ کے یہاں وقت ختم ہوجانے پر بھی دوسرے مقام میں نیابةً اس کی قربانی جائز نہ ہوگی چاہے مکان اضحیہ میں وقت موجود ہو تو ان کے اصول مفروضہ کے مطابق صحیح ہوتا مگریہاں انتہائے وقت میں یوں کہا جارہا ہے ”دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ کسی شخص کے ذمہ قربانی واجب ہوجانے کے بعد اس کی ادائیگی جائز اور صحیح ہونے کے لیے جس جگہ میں قربانی کا جانور ہو وہاں قربانی کاوقت شروع ہوجانے کے بعد باقی رہنا ضروری ہے چاہے اصل مالک (موٴکل) کے مقام پر قربانی کا وقت ختم ہوگیا ہو“ (ترجمہٴ فتویٰ بزبان گجراتی از مفتی عمر فاروق لندن)
حالانکہ وقت کو جب موٴثر فی الوجوب (یعنی سبب وجوب فی معنی العلة) تسلیم کرکے من علیہ الاضحیہ کے حق میں اول وقت کا اعتبار ضروری قرار دیاگیا ہے تو لامحالہ آخر وقت میں بھی اسکا اعتبار ہوگا کیونکہ نیابةً قربانی کے دوسرے مقام پر صحیح ہونے کے لیے جب یہ کہاجارہا ہے کہ پہلے موٴکل کا ذمہ مشغول بالواجب ہونا چاہیے اس لیے کہ اداء بغیروجوب کے صحیح نہیں (اور ذمہ مشغول بالواجب ہوتا ہے وقت کی آمد پر نہ کہ اس سے پہلے۔ کما فی البلاغ والنداء وغیرہما) تو پھربندہ بھی کہتا ہے کہ نیابةً قربانی کے صحیح ہونے کے لیے موٴکل (من علیہ الاضحیہ کے اصل وجوب کا باقی رہنا بھی ضروری ہے پس جب موٴکل کے اعتبار سے وقت ختم ہوگیا تو نفس وجوب ہی ختم ہوگیا تو پھر اداء کے صحیح ہونے کا کیا معنی۔ جیسے وجوبِ زکوٰة کے لیے ملک نصاب کو سبب وجوب کہاگیا ہے تو بقائے زکوٰة کے لیے نصاب کا باقی رہنا شرط ہے اگر اداء سے پہلے نصاب ہلاک ہوگیا تو زکوٰة ساقط ہوجائے گی کیونکہ ملک نصاب سے اصل وجوب ثابت ہوتا ہے لہٰذا سبب وجوب ختم تو نفس وجوب بھی ختم۔ غالباً اسی وجہ سے حضرت مولانا مفتی محمد تقی صاحب عثمانی مدظلہ العالی نے تائیدی خط میں یہ جملہ لکھاہے ”نیز احتیاط اس میں ہے کہ جب قربانی کسی ملک میں کی جائے تو جس شخص کی طرف سے قربانی کی جارہی ہے اس کے ملک میں بھی ایام اضحیہ ختم نہ ہوئے ہوں۔“
مگر ”احتیاط“ کا لفظ پھر بھی تسامح سے خالی نہیں کیونکہ من علیہ الاضحیہ کے اعتبار سے وقت ختم ہوجانے کے بعد مکان اضحیہ میں قربانی جائز ہوتی تو احتیاط تھا کہ ان کے وقت ختم ہونے سے پہلے کرلی جائے۔ یہاں تو اصول مفروضہ کے مطابق قربانی بعد از وقت درست ہے ہی نہیں۔
اس طرح کا مسئلہ مفتی اسماعیل صاحب بھڑکودروی دامت برکاتہم کے شائع کردہ فتویٰ میں بھی ہے۔
مسئلہ نمبر ۴: سعودی اور یو․ کے جیسے ملک میں عید عموماً یہاں (ہندوستان) سے ایک دن پہلے ہوتی ہے اس لیے وہاں کے باشندے کی قربانی یہاں کی دسویں،گیارہویں اور بارہویں ذی الحجہ کے غروب آفتاب تک کرنی جائز ہے البتہ احتیاطاً ان کی قربانی پہلے دودن (یعنی دسویں، گیارہویں) میں کرلینی چاہئے تاکہ وہاں کے ایام قربانی پورا ہونے سے پہلے ان کی قربانی ادا ہوجائے۔(ترجمہ از فتویٰ بزبان گجراتی مجلس الفقہ الاسلامی گجرات)
پس فتاویٰ کا یہ دوسرا طرف خود ان کے اپنے مفروضہ کے بھی خلاف ہے اس لیے کہ ابتدائے وقت میں من علیہ الاضحیہ کا اعتبار اور انتہاء میں مکان اضحیہ کا اعتبار کیاگیا ولم یقل احد بصحة اداء الموقتات بعد مضی وقتہا․․․ فان التضحیة اراقة الدم وہی انما تقبل فی وقت الاداء لا بعدہ وانما الذی یلزم بعدہ قضاء ہا (فتح القدیر:۹/۵۰۷)
واما بعد مضی ایام النحر فقد سقط معنی التقرب باراقة الدم لانہا لاتکون قربة الا فی مکان مخصوص وہو الحرم او فی زمان مخصوص وہو ایام النحر ولکن یلزم التصدق بقیمة الاضحیة اذا کان ممن تجب علیہ الاضحیة لان تقربہ فی ایام النحرکان باعتبار المالیة فیبقی بعد مضیہا والتقرب بالمال فی غیر ایام النحر یکون بالتصدق (مبسوط:۱۲/۱۴)
جدید موقِف کا مفسَدئہ عظیم
(۱) وقتِ خاص ”سببِ وجوب اداء“ ہے اور اداء کا جو محل ہوگا وقت کا اعتبار اس کے حق میں کیا جائے گا جو مسئلہ زیر بحث میں اضحیہ ہے اس ضابطہ کے رُو سے عمل میں امت کے لیے یسروسہولت ہے۔ اس کے برخلاف ”سبب وجوب“ کے لفظ سے وقت کو ذمہ کے مشغول بالواجب ہونے کا موٴثر سبب ماننے کے نتیجہ میں جو علمی خطائیں واقع ہوئی ہیں ان میں سے اکثر پرآپ گذشتہ صفحات میں مطلع ہوچکے ہیں اور اب اخیرمیں اس جدید موقف کے عملی پہلو میں امت کس قدر حرج و تنگی اور پریشانی میں مبتلا ہوجائے گی اسے بھی ایک نظر دیکھ لیجئے۔ کیونکہ ایک طرف یہ مسئلہ فقط مغربی ممالک کی قربانیاں مشرقی ملکوں میں انجام دینے کا نہیں ہے بلکہ دنیا کے تمام شہروں اور دیہاتوں میں نیز ایک جگہ کی قربانی دوسری جگہ کرنے سے متعلق ہے۔ اور دوسری طرف شمسی اوقات کے اعتبار سے ملک کے صوبوں اور صوبہ کے ضلعوں میں صبح صادق اور غروب آفتاب وغیرہ کے اوقات میں تفاوت (تقدم و تأخر) ہونا بالکل مسلّم اور قطعی ہے مثلاً امسال ۱۴۲۶ھ کی دسویں ذی الحجہ (یوم النحر) ۱۱/جنوری ۲۰۰۶/ کو پڑ رہی ہے اس دن کے صبح صادق کے اوقات میں علاقوں کافرق بطور نمونہ ملاحظہ فرمائیے۔
نوٹ : یہ مضمون اسی سال عیدالاضحی سے قبل لکھا گیا ہے۔
علاقہ | ۱۱/جنوری | صبح صادق | علاقہ | ۱۱/جنوری | صبح صادق |
واپی دمن | // | 5:57 | سورت | // | 6:00 |
احمد آباد | // | 6:03 | پٹن | // | 6:06 |
بھوج | // | 6:15 | اوکھا | // | 6:16 |
اسی طرح دیگر صوبوں کے مختلف حصوں کے اوقاتِ صبح صادق معلوم کیے جائیں تو تفاوت ضرور ظاہر ہوگا اور شریعت نے قربانی صحیح ہونے کے لیے دسویں کی صبح صادق سے لے کر ۱۲ویں کے غروب آفتاب تک وقت کی تحدید کی ہے نہ صبح صادق سے قبل جائز اور نہ غروب آفتاب کے بعد جائز۔
لاتجوز التضحیة فی اللیلة العاشرة من ذی الحجة لانہا تضحیة قبل الوقت (قاضیخان علی ہامش العالمگیری:۳/۳۴۵)
ولم یقل احد بصحة اداء الموقتات بعد مضی وقتہا․ الخ (فتح القدیر) اور ایک جگہ کی قربانی دوسری جگہ شرعاً وفقہاً دونوں اعتبار سے درست ہے پس اگر پٹن یا بھوج کے کسی غنی نے واپی یاسورت کے کسی دیہات مثلاً اٹالوہ یا تراج میں کہ یہاں شرعاً نماز عید نہیں ہے قربانی کرائی اور وکیل نے صبح صادق کے فوراً بعد ذبح کیا تو ائمہ فقہ کی تصریح کے مطابق یہ قربانی شرعاً صحیح کہلائے گی اور جدید موقف کے اعتبار سے قربانی نہیں ہوئی کیونکہ من علیہ الاضحیہ مقیم پٹن وبھوج پر ۰۶-۶ اور ۱۵-۶ سے پہلے وجوب ہی نہیں ہوا، لہٰذا ذبح قبل الوقت ہوا۔
ہندوستان
علاقہ | ۱۱/جنوری | صبح صادق | علاقہ | ۱۱/جنوری | صبح صادق |
دہلی (دارالسلطنت) | // | 5:52 | کلکتہ (مغربی بنگال) | // | 4:59 |
بمبئی (مہاراشٹر) | // | 5:56 | ڈوبروگڑھ (آسام) | // | 4:39 |
سری نگر (کشمیر) | // | 6:08 | پٹنہ (بہار) | // | 5:16 |
بیکانیر (راجستھان) | 6:11 | مدراس (تامل ناڈو) | 5:19 | ||
لدھیانہ (پنجاب) | 6:00 | کٹک (اڑیسہ) | 5:05 | ||
احمد آباد (گجرات) | 6:03 | لکھنوٴ (یوپی) | 5:35 |
(یہ سب ٹائم ٹیبل ”اوقات الصلوٰة“ برائے ہندوستان مرتبہ محمد انس سے ماخوذ ہے ایک دو منٹ کا فرق ممکن ہے)
پس دہلی والوں کی قربانی مثلاً اطراف کلکتہ کے کسی دیہات میں یا بمبئی والوں کی قربانی مدراس کے دیہات میں بلکہ اہل گجرات کی قربانی بہار، بنگال اور آسام کے دیہاتوں میں طلوع صبح صادق کے فوراً بعد فقہاء کے بیان کے مطابق بالکل درست ہے اور نئے فتاویٰ کے رُو سے قطعاً جائز نہیں ہے۔
یہ منقسم ہندوستان کا حال ہے پاکستان وبنگلہ دیش ہی نہیں بلکہ ہر ملک کے اندرونی علاقوں میں قرب و بعد مسافت کی وجہ سے شمسی اوقات میں فرق یقینی ہے۔
اب ملکوں کا بھی اندازہ لگالیجئے۔
افریقہ، امریکہ، برطانیہ، وغیرہ اور ممالک عربیہ کے مالداروں کی قربانیوں کا سلسلہ ہندو پاک اور بنگال وغیرہ ایشیائی وغیرایشیائی ملکوں میں حضرت مفتی سیدعبدالرحیم صاحب رحمہ اللہ کے فتویٰ کے بعد سے نہیں بلکہ ایک زمانہٴ قدیم سے جاری اور لوگوں میں رائج ہے پس اہل مغرب کی طرف سے مشرقی ملک کے کسی دیہات میں بلکہ شہر میں رہنے والا غریب یا مالدار، شناسا یا غیرشناسا، براہ راست یا بالواسطہ جو قربانی کا وکیل ہوتا ہے اوّلاً تو اسے یہی نہیں معلوم کہ جس کی طرف سے قربانی ہے وہ کون اور کہاں رہتا ہے؟ اگر اجمالاً معلوم ہو تواسے یہ علم نہیں ہوتا ہے کہ من علیہ الاضحیہ سے میں (وکیل ذابح) جہاں رہتا ہوں دونوں مقامات میں دن یا گھنٹوں کا کتنا فرق ہے اوراگر ملکی پیمانہ پر فرق (یعنی معیاری وقت) معلوم بھی ہوتب بھی مقامی وقت (شمسی رفتار) کے لحاظ سے من علیہ الاضحیہ کے یہاں صبح صادق وغیرہ اوقات کا واقعی علم نہیں ہوتا ایسی صورت میں وکیل ذابح کے لیے وقت کا صحیح اندازہ لگانا اور پھر اس کی رعایت کرنا کہ من علیہ الاضحیہ کے یہاں صبح صادق ہوچکی ہے یا نہیں یقینا دشوار اور مشکل ہے۔
وکیل اگر شہر میں ہے تو وہ اتنا جانتا ہے کہ نماز عید کے بعد قربانی درست ہے اس سے قبل نہیں اوراگر دیہات میں ہے تو صبح صادق کے بعد قربانی کرسکتے ہیں۔ عامة المسلمین جتنا جان رہے ہیں بس یہی شرعاً ثابت ہے اور اگر من علیہ الاضحیہ کے اعتبار سے وقت کی رعایت کرنا ضروری ہو جیسا کہ جدید موقف کا تقاضہ ہے تو اتنا ہی نہیں کہ شہری کی قربانی دیہات میں صبح صادق کے بعد بلکہ ایک شہری کی قربانی دوسرے شہر میں نماز عید کے بعد بھی جائز نہ ہو مثلاً ایک مکی شخص نے اپنی قربانی سورت میں کرائی وکیل شہر میں نماز عید کے فوراً بعد ذبح کرتا ہے تو روٴیت ہلال کی بنیاد پر عرب اورہند کی تاریخ ایک ہوجانے کے باوجود قربانی صحیح نہیں ہوسکتی اس لیے کہ شمسی وقت کے لحاظ سے مکی شخص (من علیہ الاضحیہ) کے یہاں ابھی صبح صادق نہیں ہوئی ہے اور یہاں سورت میں لوگ نماز عید سے فارغ ہوکر جانور ذبح کررہے ہیں۔
غرضیکہ دنیا کے مختلف خطوں میں اور ملک کے مختلف حصوں میں لوگ وکالت ونیابت میں دوسروں کی قربانی کرتے ہیں ان کے لیے من علیہ الاضحیہ کے اعتبار سے صبح صادق کا لحاظ رکھنے میں کھلم کھلاّ حرج ہے اور یہ مفسدئہ عظیم جدید موقف کا نتیجہ کہلائے گا۔
موقِفِ حادث سے ایک متواتر عمل کا بُطلان
جدید موقف کا دوسرا نتیجہ جیسا کہ مفتی شبیراحمد صاحب نے نئے ضابطہ کی تفہیم کے لیے بطورِ مثال ذکر کیا اورمفتی اسماعیل صاحب بھڑکودروی نے مسئلہ کے طور پرذکر کیا ہے۔
”مسئلہ ۶ یہاں ہندوستان میں رہنے والے بھائیوں کی قربانی سعودی اور یو،کے میں وہاں کی دسویں ذی الحجہ کو جائز نہیں اس لیے کہ یہاں کے باشندہ پر نویں ذی الحجہ ہونے کی وجہ سے ابھی قربانی واجب نہیں ہوئی ہے۔“ (ترجمہٴ فتویٰ از مفتی اسماعیل بھڑکودروی مجلس الفقہ الاسلامی گجرات) اور باقی حضرات بھی التزاماً اسی کے قائل ہیں۔
مگر حقیقت میں یہ اُس جدید موقِف کا دوسرا مفسدہ ہے کہ اس سے اطرافِ عالم سے ہدی یا رقم بھیج کر حرم میں کی جانے والی قربانیوں کا ایک سلسلہ جو خیرالقرون سے عملاً چلا آرہا ہے جبکہ قربانی کرانے والے وہ لوگ بھی ہیں جو دنیا کے مختلف خطوں میں مقیم رہتے ہیں اُن کے اور حرم میں ذبح کے وقت میں کثیر تفاوت پایا جاتا ہے اور عموماً تاریخ کا بھی فرق رہتاہے تو امت کے اس قدر مشترک متواتر عمل کا باطل ہونا لازم آرہا ہے جبکہ اصول شرع کی روشنی میں امت کا یہ عمل بالکل برحق ہے اوراس کے صحیح اور منقول ہونے پر کتبِ فقہ وتاریخ کی شہادت کافی ہے جیساکہ آخری رسالہ میںآ پ مطلع ہوں گے۔
پس اس نئے موقِف کا اصولِ فقہ کے خلاف بلکہ خود اپنے مفروضہ کے خلاف ہونے، امتِ مسلمہ کا حرجِ بیّن میں مبتلا ہونے اور ایک متواتر عمل کے باطل ہونے کی وجہوں سے جدید موقف کا غلط ہونا بالکل عیاں ہوجاتاہے۔ فتفکروا․
کشف الغطاء عن اعتبار الوقت لمحل الاداء
ایامِ قمری اور اوقاتِ شمسی
عبادتوں کی ادائیگی کے لیے ایام کی تعیین اور اوقات کی تحدید بھی کی گئی ہے تاریخ کی تعیین شریعتِ مطہرہ میں قمری اعتبار سے ہے اور اوقات کی تحدید و تقدیر شمسی اعتبار سے ہے ماہِ قمری کے ثبوت کا دارومدار رویتِ ہلال پر ہے اورحسبِ اختلاف یعنی خواہ مطلع متحد ہو یا مختلف چاند دیکھنے والوں کے حق میں مطلع صاف ہونے نہ ہونے کی وجہ سے بعض ممالک اور بعض شہروں میں رُویتِ ہلال کا تحقق ہوتا ہے اور دیگر بعض مقامات پر اس کا شرعی ثبوت نہ بہم پہنچے اسلئے تاریخ میں ایک یوم کا فرق آجانا ممکن بلکہ واقع اورمسلّم ہے۔
مقامی وقت یعنی آفتاب کی ذاتی طبعی رفتار سے صبح صادق، طلوع، زوال، غروب وغیرہ کے ذریعہ وقت میں امتیازات قائم ہونے سے مخصوص اوقات کا تحقق ہوتا ہے اور آبادیوں میں ان کے جائے وقوع کے طول البلد و عرض البلد کے اختلاف سے اوقات مخصوصہ میں تفاوت بدیہی و یقینی ہے اسی کا نتیجہ ہے کہ دنیا کے مختلف خطوں میں ایک دن میں گھنٹوں کا فرق بلکہ لیل ونہار کا بھی اختلاف رہا کرتا ہے۔
موقتات میں ایام و اوقات کا اعتبار
لہٰذا اگر ہفت اقلیم میں اتحاد مطلع کی بنیاد پر قمری تاریخ یکساں ہو، تب بھی اوقات مخصوصہ میں تقدم وتأخر امرِ لابدی ہے اسی لیے فرضیتِ احکام میں دونوں امورِ قطعی کااعتبار کیاگیا اور شرع نے عبادتوں کی ادائیگی کا مکلف کرنے میں حسبِ وعدئہ خداوندی یرید اللہ بکم الیسر ولا یرید بکم العسر اور لا یکلف اللہ نفسا الا وسعہا․ بندوں کی قدرت علی الاداء کی بھی رعایت کی ہے یعنی شارع کا بندوں سے اداء کا مطالبہ ان کے اعتبار سے اوقاتِ مخصوصہ میں ہواکرتا ہے۔ دیکھئے قرآن پاک کی آیت ان الصلوٰة کانت علی المومنین کتابا موقوتاً․
اس آیت کے تحت امام رازی لکھتے ہیں واعلم انہ تعالیٰ بیّن فی ہذہ الآیة ان وجوب الصلاة مقدر باوقات مخصوصة الّا انہ تعالٰی اجمل ذکر الاوقات ہہنا وبیّنہا فی سائر الآیات (تفسیر کبیر:۱۱/۲۸) امام قرطبی لکھتے ہیں ․․․ وقال زید بن اسلم موقوتاً منجّمًا ای توٴدّونہا فی انجمہا والمعنی عند اہل اللغة مفروض لوقت بعینہ (تفسیر قرطبی:۵/۳۷۴) اور قاضی بیضاوی لکھتے ہیں ای فُرِضَ محدود الاوقات لایجوز اخراجہا عن اوقاتہا فی شیء من الاحوال (تفسیر بیضاوی:۳/۴۰۲)
ان سب کا حاصل حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی کی جامع تفسیر ”بیان القرآن“ کے ترجمہ و تفسیر کے مختصر دو جملوں سے ملاحظہ فرمائیے ”یقینا نماز مسلمانوں پر فرض ہے اور وقت کے ساتھ محدود ہے (پس فرض ہونے کی وجہ سے اداکرنا ضرور اور موقت ہونے کی وجہ سے وقت ہی پر ادا کرنا ضرور۔“ (بیان القرآن:۱۵۳)
پہلے جملہ میں ”ادا کرنا“ اداء وقضا دونوں کو شامل ہے اور دوسرے جملہ میں ”ادا کرنا“ سے مراد ادا یعنی قضا کا مقابل ہے۔
الغرض واجباتِ موقتہ بلکہ قربة غیر واجبہ بھی اگر شریعت نے اس کی اداء کو موقت قرار دیا ہے تو اداء یعنی فعل (واجب، نفل) کا جو محل ہوگا اس کے حق میں وقت کا اعتبار کیا جائے گا اورمحلِ اداء جہاں ہوگا وہاں کا وقت ملحوظ ہوگا۔
(۱) نماز، روزہ یعنی ارکان مخصوصہ اور امساکِ مخصوص کا محل مکلف کی ذات ہے یعنی فعل کا صدور اور قیام مکلف کی ذات سے ہے اور چونکہ ان افعال سے اِتعابِ نفس مطلوب ہے اسی لیے یہاں نیابت بھی جائز نہیں لہٰذا فاعل یعنی مکلف ہی کے حق میں وقتِ وجوب کا اعتبار ہوگا۔ پس اگر کوئی ہندی مثلاً بلغاریہ پہنچ جائے تو اس کے ذمہ عشاء اور وتر کی اداء کا وجوب نہ ہوگا اور کوئی بلغاری شخص مثلاً عرب چلا جائے تو یہ دونوں نمازیں بھی واجب الاداء ہوں گی۔ کیونکہ بلغاریہ میں عشاء کا وقتِ ممتاز نہیں پایا جاتا ہے۔ اہلیتِ وجوب کے بعد ہی اوقات مخصوصہ میں متوجہ ہونے والے خطابِ شارع سے جس پر صیغہٴ امر دال ہے اداء کا وجوب بھی مکلف کے ہی ذمہ آتا ہے پس وقت کی وجہ سے ذمہ مشغول بالواجب ہوا لہٰذا فقہاء کا ”سببہا اوقاتہا“ کہنا بالکل صحیح ہے۔
وسبب وجوبہا اوقاتہا والامر طلب لاداء ماوجب فی الذمة بسبب الوقت وقد ذکرنا وجہ ذلک فی التقریر․․․ فان قلت جعلت الوقت سببًا فکیف یکون شرطا قلتُ ہو سبب للوجوب وشرطٌ للاداء․ (عنایہ علی ہامش الفتح:۱/۲۱۶)
مگر یہ وجوب باعتبارِ محلِ اداء کے ہے اور اصل وجوب مکلف کے ذمہ باعتبار صفات کے ہے۔ فافہم فانہ لطیف وانہ مزلة الفہم․
(۲) اور زکوٰة میں جزءٌ من النصاب کی ادائیگی کا وجوب ہوتا ہے (جوکہ مال ہے) پس اداء کا محل مال ہے لہٰذا وجوبِ اداء کا تعلق مال سے ہوا اور مال من حیث الجنس محلِ اداء ہے نہ کہ بحیثیتِ نوع اور چونکہ مقصود تصدق سے سَدّ خلّة المحتاج ہے اسی وجہ سے نیابت فی الاداء جائز ہے، لہٰذا ادائے زکوٰة محلِ مال کا لحاظ ہوگا چنانچہ جہاں مال ہو وہاں کے فقراء کو مقدم رکھا جاتا ہے اگرچہ زکوٰة کی ادائیگی موقت نہیں ہے مگر مکانِ محل اداء کی رعایت پائی جاتی ہے۔
(۳) اور صدقة الفطر میں جس فعل کا وجوب صبح یوم الفطر کو ہوتا ہے وہ درحقیقت ”اغناء“ ہے اور اغناء کا تعلق ذمہ مکلف سے ہے پس نماز، روزہ کی طرح مکانِ مودِّی کے حق میں وقت کا اعتبار کیاجائے گا۔
(۴) اور قربانی میں اوقات مخصوصہ میں واجب ہونے والا فعل اراقة الدم ہے جس کا محل جانور ہے اس لئے ذبح اضحیہ کے حق میں وقت کا اعتبار کیا جائے گا یعنی جانور جہاں ہوگا وہاں کا وقت ملحوظ ہوگا خواہ ذابح خود من علیہ الاضحیہ ہو یا اس کی طرف سے وکیل و نائب۔ اور خواہ قربانی نفل ہو کہ واجب اور وجوب بشرط الغنا (من جانب اللہ) ہو یا بسبب النذر (من جانب العبد) ہو یا پھر شراءِ فقیر بنیة الاضحیہ ہو۔ کیونکہ وقت مطلق قربانی کے لیے شرط اداء ہے۔
یہ سب امور ائمہٴ فقہ کے نزدیک بالکل مسلّم ہیں اوراس میں نقلاً کوئی اختلاف نہیں ہے۔
(۱) القربات الموقتة یعتبر وقتہا فی حق فاعلہا لا فی حق المفعول عنہ (بدائع:۵/۷۳)
(۲) المعتبر فی الزکوٰة فقراء مکان المال وفی الوصیة مکان الموصی وفی الفطرة مکان المودّی عند محمد وہو الاصح لان رؤسہم تبع لرأسہ (طحطاوی:۷۲۲)
(۳) وصدقة الفطر بعد ماوجبت لاتسقط بموت المودّیٰ عنہ بخلاف الزکوٰة فان الواجب ہناک جزء من المال وبہلاکہ یفوت محل الواجب وہنا الصدقة تجب فی ذمہ المودّی فبموت المودَّی عنہ لایفوت محل الواجب فلہذا لا یسقط․ (مبسوط:۳/۱۰۸، ہدایہ:۱۹۴)
(۴) فیعتبر فی الاداء مکان المحل وہو المال لامکان الفاعل (ای من علیہ الاضحیة) اعتباراً بہا بخلاف صدقة الفطر حیث یعتبر فیہا مکان الفاعل لانہا تتعلق فی الذمة والمال لیس بمحل لہا (مبسوط:۶/۴۷۷)
ویعتبر مکان المذبوح لامکان المالک وفی صدقة الفطر یعتبر مکان المولیٰ لامکان العبید (قاضی خان)
فیعتبر فی الصرف ای فی الاراقة مکان المحل ای المال لامکان الفاعل اعتبارًا بالزکوٰة بخلاف صدقة الفطر (فتح القدیر)
المعتبر مکان الاضحیة کا ضابطہٴ عام
مسئلہٴ قربانی میں مکانِ ذبح اضحیہ کے حق میں وقت کا اعتبار صاحب بدائع نے خوب وضاحت و صراحت کے ساتھ مدلل لکھاہے وانما یعتبر مکان الشاة لامکان من علیہ ہکذا ذکر محمد فی النوادر قال انما انظر الی محل الذبح ولا انظر الی موضع المذبوح عنہ وہکذا روی الحسن عن ابی یوسف انہ یعتبر مکان الذی یکون فیہ الذبح ولا یعتبر المکان الذی یکون فیہ المذبوح عنہ وانما کان کذلک لان الذبح ہو القربة فیعتبر مکان فعلہا لامکان المفعول عنہ (بدائع:۵/۷۴)
القربات الموقتة یعتبر وقتہا فی حق فاعلہا لا فی حق المفعول عنہ ایک شرعی قائدئہ کلیہ ہے بلکہ الموقتة کے عموم میں واجباتِ موقتہ اور موقتاتِ غیر واجبہ دونوں شامل ہیں چنانچہ حج جس پر فرض ہے جب وہ بنفس نفیس حج اداء کرے گا تو اسی کے حق میں ایام واوقات کا اعتبار ہوگا اور اگر معذور ہونے کی وجہ سے دوسرے کو بھیجا تو اس حاج عن الغیر کے حق میں اوقات کا لحاظ ہوتا ہے خواہ محجوج عنہ کے یہاں یوم عرفہ اور وقت وقوف شروع ہوگیا ہو یا نہیں (البتہ محجوج عنہ پر حج فرض ہونا ضروری ہے اور اس کی فرضیت استطاعت پر متحقق ہوجاتی ہے) یہی حال نفل حج کا ہے اس لیے کہ شرعاً وہ بھی موقت ہے۔ ٹھیک اسی طرح قربانی ہے واجب ہوکہ نفل اس کی اداء مقید بالوقت ہے (رہا وجوب فی الذمہ سو وہ غنا ویسار سے ہے) اور نماز، روزہ میں مکلف ہی فاعل قربة ہے اس لیے اس کے حق میں اوقات ملحوظ ہوتے ہیں۔
لہٰذا مکانِ ذبحِ اضحیہ کا اعتبار جمیع مکلفین کے حق میں شہری ہوں یا دیہاتی مسلم الثبوت ضابطہ ہے جہاں عید کی نماز شرعاً ہو وہاں نمازِعید کے بعد اور وہ تمام جگہیں جہاں شرعاً نماز عید نہیں ہے صبح صادق کے فوراً بعد احناف کے نزدیک قربانی جائز ہے خواہ ذبح کرنے والا من علیہ الاضحیہ بذات خود ہو یا اس کا وکیل و نائب۔
المعتبر فی ذلک مکان الاضحیة حتی لو کانت فی السواد والمضحی (ای من علیہ الاضحیة) فی المصر یجوز وقت الفجر ولو کانت فی المصر والمضحّی فی السواد لایجوز الا بعد الصلاة لانہا تسقط بالہلاک قبل مضی ایام النحر کالزکوٰة تسقط بہلاک النصاب فیعتبر فیہا مکان المحل وہو المال لامکان الفاعل (من علیہ الواجب) کالزکوة بخلاف صدقة الفطر حیث یعتبر فیہا مکان (المودّی) لانہا تتعلق بہ فی الذمة (شرح نقایہ:۲/۲۶۹)
تنبیہ (حیلة المصری) پر
پس کتب فقہیہ میں ”حیلة المصری اذا اراد التعجیل الخ“ جیسی عبارت مذکورہ بالا قاعدئہ شرعیہ (المعتبر مکان الاضحیة) پر متفرع ایک جزئی ہے یعنی اہل شہر کے لیے قربانی کا گوشت جلد حاصل کرنے کی ایک تدبیر ہے جو ان کے اپنے شہرہی سے قریب کے دیہات اور قریہ میں ممکن ہے۔ اس سے یہ نتیجہ نکالنا تو صحیح ہے کہ دونوں جگہ میں اضحیہ کا وقت شروع ہوچکا ہے لیکن اس سے یہ سمجھنا کہ اہل شہر کے حق میں صبح صادق کے بعد نماز عید سے پہلے قربانی کے جواز کی بس یہی صورت ہے جو شہر سے قریب دیہات میں متحقق ہوسکتی ہے، ہرگز صحیح نہیں ہے کیونکہ وقت جواز ”شرط اداء“ میں دنیا کے تمام اہل شہر اور اہل قریہ یکساں شامل ہیں اور نمازِ عید سے فراغت کی شرطِ زائد صحتِ قربانی کے لیے مطلق شہر کے حق میں ہے جس میں عالم کے تمام شہر داخل ہیں اور صبح صادق کے فوراً بعد دیہات میں قربانی کے صحیح ہونے کے لیے دیہات کا شہر سے قریب ہونا شرط نہیں ہے۔ ودخول الوقت لایختلف فی حق اہل الامصار والقریٰ وانما یختلفون فی وجوب الصلاة فلیس علی اہل القریٰ صلاة العید الخ․ کما مرّ (مبسوط:۱۲/۱۰) الحنفیة قالوا: یدخل وقت الاضحیہ عند طلوع فجر یوم النحر․․․ وہذا لایختلف فی ذاتہ بالنسبة لمن یضحی فی المصر او یضحی فی القریة لکن یشترط فی صحتہا للمصری ان یکون الذبح بعد صلاة العید (الفقہ علی مذاہب الاربعة)
مکانِ اضحی ومن علیہ الاضحیہ کا اتحاد واختلاف
مکان اضحیہ اور من علیہ الاضحیہ کے اتحاد واختلاف کی عقلاً پانچ اور حاصل تین صورتیں ہیں جسے فقہاء عموماً بیان کرتے ہیں:
(۱) دونوں کا مکان متحد ہو جس کی دو شکلیں ہیں ایک دونوں شہر میں ہیں تو چونکہ مکانِ ذبح شہر ہے نماز عید سے پہلے قربانی جائز نہیں۔ دوسری اور اگر دونوں دیہات میں ہیں تو بعد الصبح فوراً قربانی درست ہوگی خواہ ذابح خود مَن علیہ الاضحیة ہو یا شخص دیگر۔
اوراگر دونوں کا مکان مختلف ہے تو جوازِ تضحیہ کے لیے مکان اضحیہ کا اعتبار ہے نہ کہ من علیہ یامن مِنہ الاضحیہ کا پس اتحاد کی صورت میں چونکہ کوئی اشکال نہیں ہے اس لئے المعتبر مکان الاضحیة کا ضابطہ پیش کرنے کی حاجت نہیں آئی اوراختلاف کی صورتوں میں اشکال متوجہ ہوگا اس لیے ضابطہ بیان کرنے کی ضرورت لاحق ہوئی چنانچہ
(۲) من علیہ الاضحیہ اگر شہر میں ہو اور اس کا جانور دیہات میں تو وکیل ذابح کے لیے صبح صادق کے بعد قربانی بالکل درست ہے خواہ اضحیہ واجب ہوکہ نافلہ اور من علیہ الاضحیہ یامَن مِنہ الاضحیة کسی بھی شہر میں ہو۔
(۳) دوسری کے برعکس اضحیہ شہر میں ہے اور من علیہ الاضحیہ دیہات میں تو نماز عید سے قبل جائز نہیں۔ اختلافِ مکان کی صورتوں میں وکیل ذابح اور اصیل مذبوح عنہ کے درمیان قرب وبُعد مسافت سے جوازپر کوئی اثر واقع نہیں ہوتا ہے۔
اعلم ہذا اذا کان من علیہ الاضحیہ فی المصر والشاة فی المصر (یہ پہلی صورت ہوئی) فان کان ہو فی المصر والشاة فی الرستاق او فی موضع لایصلی فیہ (یہ دوسری صورت ہوئی) وقد امر ان یضحوا عنہ فضحّوا بہا بعد طلوع الفجر قبل صلاة العید فانہا تجزیہ وعلی عکسہ لوکان ہو فی الرستاق والشاة فی المصر (یہ تیسری صورت ہوئی) وقد امر ان یضحی عنہ فضحّوا بہا قبل صلاة العید فانہا لاتجزیہ وانما یعتبر فی ہذا مکان الشاة لامکان من علیہ الخ (بدائع)
(۴) من علیہ الاضحیہ ایک قریہ میں ہو اور اسکا اضحیہ دوسرے قریہ میں (اس کا حکم نمبر ۲ سے ظاہر ہے)
(۵) ایک شہر والے کی قربانی دوسرے شہر میں علی عکس الرابع اس کا حکم نمبر ۳ سے معلوم ہوچکا ہے۔
اس آخری صورت میں حسن بن زیاد کا معمولی سا اختلاف اَولویت کا ہے اور وہ بھی ذبح فی المصرکی شرط زائد ”فراغ عن الصلاة“ کے حق میں نہ کہ اصل شرط میں۔
صاحب بدائع آگے لکھتے ہیں : وان الرجل فی مصر واہلہ فی مصر آخر فکتب الیہم ان یضحوا عنہ روی عن ابی یوسف انہ اعتبر مکان الذبیحة فقال ینبغی لہم ان لا یضحوا عنہ حتی یصلی الامام الذی فیہ اہلہ وان ضحوا عنہ قبل ان یصلی لم یجز وہو قول محمد وقال حسن بن زیاد انتظرت الصلاتین جمیعًا وان شکوا فی وقت صلاة المصر الآخر لم یذبحوا حتی تزول الشمس فاذا زالت ذبحوا عنہ․ وجہ قول الحسن ان فیما قلنا اعتبار الحالین حال الذبح وحال المذبوح عنہ فکان اولٰی․ ولابی یوسف ومحمد ان القربة ہو الذبح والقربات الموقتة یعتبر وقتہا فی حق فاعلہا لا فی حق المفعول عنہ (بدائع:۵/۷۳)
یعنی حسن بن زیاد فرماتے ہیں کہ مذبوح عنہ کے یہاں بھی نماز عید ہوچکی ہو اس کا لحاظ کرلیا جائے تواولیٰ ہے کیونکہ اس میں دونوں کے حال کی رعایت ہے۔ گویا ابن زیاد کے نزدیک اس صورت خاص میں بھی مکان اضحیہ کے اعتبار سے قربانی بعد نماز عید جائز اور درست ہے جس کا مطلب یہ ہوا کہ ادائے قربت کے لیے اعتبارِ وقت کا ضابطہ سب کے نزدیک مسلّم اور متفق علیہ ہے مگر حسن بن زیاد اس ضابطہ پر درجہٴ اولویّت میں مکانِ مذبوح عنہ کے اعتبار کا اضافہ کررہے ہیں اس کے بالمقابل صاحبین نے اصول پر کوئی اضافہ کسی درجہ میں نہیں کیا اور اسی میں امت کے لیے سہولت ہے۔ چنانچہ امت کا عمل بھی صاحبین کے قول کے مطابق ہے اور یہی مفتیٰ بہ ہے۔
الغرض مذکورہ تمام صورتوں میں غور فرمائیے المعتبر مکان الاضحیة کا ضابطہ کارفرما ہے حالانکہ اختلاف کی صورتوں میں یہ عین ممکن ہے کہ مکان اضحیہ اور من علیہ الاضحیہ کے درمیان بُعدِ مسافت کی وجہ سے طلوع صبح صادق اور غروب آفتاب کے اوقات میں بیّن فرق ہو کیونکہ یہ نظام شمسی کے تحت ایک مسلّم حقیقت ہے پھر بھی صحت تضحیہ کے لیے ابتداء و انتہاءِ وقت میں مکان اضحیہ کا ہی اعتبار کیاگیا ہے لان الذبح ہو القربة فیعتبر مکان فعلہا لامکان المفعول عنہ․
اسی ضابطہ کے ماتحت وہ جزئیہ ہے جو ”حیلة المصری الخ“ کے عنوان سے کتب فقہ میں مذکور ہے جس کی وضاحت گذر گئی۔
اراقة الدم کی انواعِ اربعہ
شریعت میں اراقة الدم کے ذریعہ قربت انجام دینے کی جتنی صورتیں ہیں ان کی زمان ومکان کے ساتھ اختصاص کے اعتبار سے چار قسمیں ہیں:
(۱) زمان ومکان دونوں کے ساتھ خاص ہو جیسے دمِ قران، ودمِ تمتع اور دمِ نفل اگر مفرد بالحج کرنا چاہے یعنی دمِ شکر ایامِ نحر اورحرم کے ساتھ مختص ہے۔
(۲) مکان یعنی حرم کے ساتھ خاص ہو زمان یعنی یوم النحر کے ساتھ خاص نہ ہو جیسے دمِ جنایات، دمِ احصار، دمِ کفارہ۔
(۳) ایام نحر کے ساتھ خاص ہو، مکان متعین نہ ہو جیسے اضحیہ خواہ واجب ہو کہ نفل۔
(۴) زمان ومکان دونوں کے ساتھ خاص نہ ہو جیسے دمِ نذر۔
ثم اعلم ان الدماء علی اربعة اوجہٍ منہ ما یختص بالزمان والمکان وہو دم المتعة والقران ودم التطوع فی روایة القدوری ودم الاحصار عندہما (۲) ومنہ ما یختص بالمکان دون الزمان وہو دم الجنایات ودم الاحصار عندہ والتطوع فی روایة الاصل (۳) ومنہ ما یختص بالزمان دون المکان وہو الاضحیة (۴) ومنہ مالا یختص بالزمان ولا بالمکان وہو دم النذور عندہما وعند ابی یوسف دم النذور یتعین بالمکان․ (تبیین الحقائق:۲/۴۳۴)
اس سے معلوم ہوا کہ دم قران وتمتع اوراضحیہ ایام نحر کے ساتھ خاص ہے اور دم شکر ہو کہ دم جنایت حرم کے ساتھ موقت ہے اور دم تطوع اور دمِ نذور مختلف فیہ ہے۔
(وخص ذبح ہدی المتعة والقران بیوم النحر فقط والکل بالحرم لابفقیرہ) بیان لکون الہدی موقتا بالمکان سواء کان دم شکر او جنایة لما تقدم انہ اسم لما یُہدی من النعم الی الحرم واما توقیتہ بالزمان فمخصوص بہدی المتعة والقران الخ (بحرالرائق:۳/۷۲)
دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ ان تمام اراقة میں ذبیحہ کے حق میں زمان یا مکان کا اعتبار کیاگیا ہے نہ کہ مذبوح عنہ کے زمان ومکان کا۔ پس اگر مذبوح عنہ کے اعتبار سے زمان ومکان کی رعایت ضروری ہوتی تو فقہاء رحمہم اللہ تعالیٰ اتنی اہم شرط کو نظر انداز نہ فرماتے۔
تیسری بات غور فرمائیے اِن قُربات میں جواراقہ واجب ہے اس کے وجوب فی الذمہ کا سبب وہ صفت ہے جس سے مکلف وقتی و عارضی طور پر متصف ہوا ہے یعنی قِران، تمتع، احصار، قتل صید، جنایت، نذر اور غنا ویسار۔ اراقة الدم کے وجوب کی علّت کہیں بھی وقت خاص نہیں ہے۔
ابل اور بقر میں سات آدمیوں کی شرکت
اس قربت کی ادائیگی کے لیے محل اراقہ اگر بڑا جانور ہے تو اس میں سات آدمیوں کی شرکت جائز اور درست ہے خواہ قربت کی جہت مختلف ہو البتہ قربت کی نیت ہونا سب میں شرط ہے اگر کسی ایک نے بھی محض گوشت حاصل کرنے کا ارادہ کیا ہے تو کسی کی قربت ادا نہ ہوگی۔
سن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم البدنة عن سبعة والبقرة عن سبعة․ (بدایة المجتہد ۴/۸۴)
والابل والبقر تجزی عن سبعة والمعز والغنم لایجزیان الا عن احد وان کان بعض السبعة اہل المتعة وبعضہم اہل القِران وبعضہم اہل الجزاء وبعضہم اہل الاضحیة وبعضہم اہل التطوع اجزأت عنہم ولو کان بعضہم یرید نصیبہ من اللحم فانہ لایجوز ولا عن احد (النُتَف فی الفتاویٰ لابی الحسن علی السُغدی متوفی ۴۶۱ھ)
ولو ارادوا القربة الاضحیة او غیرہا من القرب اجزأہم سواء کانت القربة واجبة او تطوعا او وجبت علی البعض دون البعض سواء اتفقت جہات القربة او اختلفت بان اراد بعضہم الاضحیة وبعضہم جزاء الصید وبعضہم ہدی الاحصار وبعضہم کفارة شیء اصابہ فی احرامہ وبعضہم ہدی التطوع وبعضہم دم المتعة والقران․․․ وہذا قول اصحابنا الثلثة (بدائع: ۵/۷۱)
ذبح فی الحرم کے لیے ہدی یا رقم بھیجنے کا قدیم دستور
سوق الہدی معہ افضل لانہ صلی اللہ علیہ وسلم ساق الہدایا مع نفسہ․ (ہدایہ)
رسولِ پاک … کا حجة الوداع میں مدینہ منورہ سے اپنے ساتھ سو (۱۰۰) یاترسٹھ (۶۳) ہدی (اونٹ) کالے چلنا اور یمن سے حضرت علی کا ہدی لے کر آنا اور دیگر صحابہ کرام کا بھی اپنے اپنے علاقہ سے ہدی ساتھ لے جانا کتب حدیث میں موجود ہے حضور … اور بعض صحابہ قارن اور بہت سے صحابہ نے تمتع کا احرام باندھا تھا۔اور اسی بنیاد پر متمتع (اور قارن) کے لیے ہدی کا ساتھ لیجانا افضل ہے (حجة الوداع للشیخ الکاندھلوی) اور قران و تمتع آفاقی شخص ہی کے لیے خاص ہے جو دنیا کے ہر دور دراز علاقہ سے آتے ہیں (قرآن مجید) نیز قافلہٴ حجاج عازمین بیت اللہ کی معرفت قربانی کا جانور یا اس کی رقم بھیجنے کا دستور بھی خیرالقرون سے چلا آرہا ہے چونکہ آفاق سے ہدی بھیجنے والے اشخاص دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں اس لیے ناموں کی تعیین کے ساتھ ان کے واقعات پیش کرنا چنداں آسان نہیں ہے اور یہ موضوع تاریخ کا ہے رجالِ حدیث علماء اسلام اور افرادِ امت کی سوانحِ زندگی کا بالتفصیل مطالعہ کیا جائے اور کم از کم حجاج کی حالاتِ زندگی اور ان کے سفرناموں کو پڑھ لیا جائے تو ضرور اس طرح کے جزوی بہت سے واقعات دستیاب ہوجائیں گے اور قدرِ مشترک امت کا یہ معمول بھی بخوبی معلوم ہوجائے گا اور اگر مکہ مکرمہ کے قدیم ادارے جہاں آفاق سے آئے ہوئے بہت سے حجاج ان اداروں کے توسط سے قربانی وغیرہ کراتے ہیں ان اداروں نے اِس نوع کا کوئی دستاویز محفوظ رکھا ہو تو اِس قدیم دستور کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ من شاء فلیراجع․
یہاں اشارہ کے طور پر اعیان الحجاج سے دو واقعہ پیش کرتے ہیں۔ محدثِ کبیر حضرت مولانا حبیب الرحمن اعظمی کے الفاظ میں:
اوّل: ”حضرت علقمہ“ نے متعدد حج کیے ہیں ایک بار وہ حج کو جانے لگے تو حضرت عبداللہ بن مسعود نے اپنی ہدی کے جانور ان کے ساتھ کردیے اور فرمایا کہ ذبح کے بعد گوشت کے تین حصے کرنا ایک حصہ تم اور تمہارے ساتھی کھالیں اور ایک حصہ خیرات کردینا اور ایک حصہ میرے بھائی عتبہ کے پاس بھجوادینا۔ حضرت سفیان نے فرمایا یہ نفل قربانی تھی“ (اعیان الحجاج: ۱/۸۳، عن مجمع الزوائد للہیثمی)
دوم: ”شیخ سعدی نے گلستاں میں ایک جگہ لکھا ہے ہمارے ساتھ حجاز جانے والے قافلہ میں ایک خرقہ پوش بزرگ بھی تھے ان کو عرب کے ایک امیر نے منیٰ میں قربانی کرنے کے لیے دو سو دینار دیے تھے جاتے جاتے ایک مقام پر قبیلہ بنوخفاجہ کے چوروں نے ہم پر چھاپہ مارا اور جتنا کچھ تھا سب لوٹ لے گئے۔“ (اعیان:۲/۱۰۰)
نتائج تحقیق
(۱) مذکورہ تحقیق و تنقیح سے معلوم ہوا کہ خیرالقرون سے اب تک سلف و خلف، متقدمین ومتأخرین، علماء وصالحین اور امت کے بے شمار عامة المسلمین نے جتنی قربانیاں کی ہیں یا کرائی ہیں یہ سب اصول شرع کے بالکل مطابق ہیں۔
(۲) اطرافِ عالم کے مختلف خطوں سے اللہ کے کچھ بندے حرم و اہل حرم کی عظمت ومحبت میں توسع علی اہل الحرم کے جذبہ سے حجاج کی معرفت قربانی کا جانور یا اس کی رقم بھیج دیتے ہیں تاکہ ان کی طرف سے یوم النحر کو قربانی کی جائے ایسی تمام قربانیاں اصول شرعیہ کے ماتحت بالکل صحیح ہیں۔
(۳) قارن یا متمتع جو اپنے ساتھ دم قران و تمتع کے لیے بَدَنہ (اونٹ یا گائے) لے کر چلا اس آفاقی نے اپنے جانور میں اوروں کو بھی شریک کرلیا ان شرکاء میں بعض صاحب اضحیہ ہے، بعض صاحبِ احصار وغیرہ اور دم احصار اگرچہ امام ابوحنیفہ کے نزدیک دمِ شکر کی طرح ایامِ نحر کے ساتھ خاص نہیں ہے لیکن یہ تو طے ہے کہ آفاقی کو احصار کہیں بھی پیش آسکتا ہے، پس اگر قارن یا متمتع نے اپنا مشترک جانور یوم النحر کو ذبح کیا تو اصول اور فقہ کی روشنی میں یہ ذبح عند الشرع درست ہے شرکاء اپنے اپنے واجب فی الذمہ سے سبکدوش ہوجائیں گے۔ محصر کا اپنے احرام سے نکلنا صحیح کہلائے گا۔ کیونکہ محصر کا احصار جو وجوبِ دم کا سبب ہے وہ کسی وقت خاص کے ساتھ موقت نہیں ہے۔ اسی طرح ملکِ نصاب کی وجہ سے ذمہ کا مشغول بالواجب ہونا مقید بیوم النحر نہیں ہے۔
پس اگر باوجود غنا کے غنی کا ذمہ مشغول بالواجب نہیں ہوا بلکہ وقت آنے پر ہی صاحب ذمہ بنے گا تو اتنی صدیوں میں بہت سی واجب قربانیاں جدید موقِف کے مطابق جو من علیہ الاضحیہ کے اعتبار سے قبل از وقت یا بعد از وقت بھی کی گئی ہوں گی وہ سب رائیگاں ٹھہریں اوراشتراک والی صورت میں نہ دم احصار اداء ہوا اورنہ ہی دم جنایت اور نہ ہی تمتع و قران کا واجب دم صحیح کہلایا کیونکہ اراقہ فعل واحد ہے۔ ایک شریک کا بھی دم اگر ادا نہیں ہوا تو کسی کی طرف سے بھی اراقة الدم صحیح نہیں کہلائے گا لہٰذا وقت ہی سے اصل وجوب ماننے کا نظریہ مفاسد کثیرہ کو مستلزم ہے۔
خلاصة الکلام اور فتویٰ
سابقہ بحث ونظر اور تحقیق کا خلاصہ یہی ہے کہ ذبح اضحیہ کے سلسلہ میں خیرالقرون سے چلا آرہا معمول عین شرع کے مطابق ہے یعنی المعتبر مکان الاضحیہ جہاں جانور ذبح کیا جاتا ہے وہاں ایام نحر کا ہونا ضروری ہے اور جن کی طرف سے قربانی ہے چاہے واجب یا نفل ان کے یہاں بھی وقت شروع ہوچکا ہو اس کی رعایت کرنا ائمہ مجتہدین سے منقول نہیں ہے اور من علیہ الاضحیہ پر قربانی مالک نصاب ہونے کی وجہ سے واجب ہوجاتی ہے یہی ہے حقیقت میں نفس وجوب جو غنا ویسار پر موقوف ہے۔ پس افریقہ، برطانیہ اور امریکہ وغیرہ ممالک مغربیہ کے باشندوں کی قربانی مشرقی ملکوں میں یہاں کے وقت کے اعتبار سے یا برصغیر کے باشندوں کی قربانی حرمین وغیرہ عرب ملکوں میں وہاں کے اوقات کے اعتبار سے شرع کے موافق اور تصریحات فقہیہ کے بالکل مطابق ہے وہذا ہوالمرام․ وما علینا الا البلاغ واللہ الموفق لما یحب ویرضی والصلاة والسلام علی حبیبہ المصطفیٰ․
____________________________________________
ماہنامہ دارالعلوم ، شماره : 1-12، جلد : 92-93ذی الحجہ 1429ھ – محرم 1430ھ مطابق دسمبر2008 ء-جنوری 2009ء