از: مولانا رشید احمد فریدی
الحمد للّٰہ رب العالمین والصلوٰة والسلام علی سید المرسلین وعلی آلہ وصحبہ اجمعین، اما بعد:
سرزمین بہار کی یہ خوش بختی کہئے کہ وہ ہر دور وہر زمانہ میں ارباب کمال واہل علم وفن پیش کرتی رہی ہے جنھوں نے ہندوبیرون ہند مختلف خطوں میں پھیل کر اپنے جواہر علمیہ سے لوگوں کو فیضیاب کیاہے اور جب سے ہند میں علم حدیث کا شیوع ہوا تو بہار اپنی غربت و افلاس کے باوجود علمائے حدیث وماہرین فن کی جماعت مہیا کرنے میں پیش پیش رہا ہے اور ماضی بعید کے اعتبار سے اگر یہ تسلیم شدہ ہے کہ حضرت مولانا عبدالحق محدث دہلوی رحمة الله عليه کے ذریعہ ہندوستان میں علم حدیث کاشیوع ہوا یعنی دہلی و ماحولہ کو یہ شرف حاصل ہے اور بقول مولانا حکیم سید عبدالحئی حسنی رحمة الله عليه صاحب نزہة الخواطر ”دہلی سے قبل سرزمین گجرات کو یہ فخر حاصل ہے کہ حضرت شیخ الاسلام زکریا انصاری اور علامہ شمس الدین سخاوی اور علامہ ابن حجر مکی کے تلامذہ کی درسگاہیں کھلی تھیں اور تشنگان حدیث اس سے سیراب ہورہے تھے۔“ تو یہ دسویں صدی ہجری کے اوائل یا نویں کے اواخر کا واقعہ ہے۔ اس فخر سابق اور شرف لاحق کے ساتھ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ آٹھویں صدی ہجری میں صحیحین و سنن کے علاوہ طبرانی، عمل الیوم لابن السنی وغیرہ کتب حدیث بہار شریف میں پہنچ چکی تھیں اور مخدوم جہاں شرف الدین احمد یحییٰ منیری رحمة الله عليه م ۷۸۲/ کے خلیفہ حضرت مولانا حسین بلخی المعروف(۱) بنوشہٴ توحید جنھوں نے اپنے چچا مولانا مظفرشمس بلخی خلیفہٴ مخدوم جہاں سے بخاری ومسلم سبقاً سبقاً پڑھی ہے اور صحاح ستہ وغیرہ کتب حدیث ان کے مطالعہ میں رہتی تھی۔ آپ نے بحوالہ کتب مذکورہ ادعیہ واذکار پر مع فضائل کے ایک کتاب تالیف فرمائی جو ”اورادِ دہ فصلی“ کے نام سے موسوم ہے اور اس میں حدیث پر جگہ جگہ کلام بھی موجود ہے جسے انواع کتب حدیث میں سے ایک خاص نوع پر ہندوستان کی غالباً سب سے پہلی تالیف کہی جانی چاہیے مگر چونکہ آپ کے علم بالحدیث پر شان ولایت غالب تھی جس کی وجہ سے آپ اولیاء میں شمار ہوئے اور محدثین کی فہرست میں کسی نے ذکر کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ پس احادیث نبویہ کی ہندوستان میں تشریف آوری اور ہند میں اس فن کا ماہر دیکھئے تو سب سے پہلے سرزمین بہار میں نظر آتا ہے۔ لہٰذا الفضل للمتقدم تقدم کی فضیلت بہار کو نصیب ہے۔اور ماضی قریب کے اعتبار سے تو بقول مولانا قاضی اطہر مبارک پوری ”بہار کی سرزمین سے آخری دور میں چند نامور علماء پیدا ہوئے ان میں جناب مولانا شفیع احمد بہاری اپنے علم و فضل، تقویٰ وطہارت، دینی و علمی خدمات، نیک نفسی، تدریس و تعلیم، تصنیف و تالیف، ارشاد و تبلیغ، اور دیگر دینی و علمی کارناموں کی وجہ سے خاص مقام و مرتبہ رکھتے تھے۔“ راقم الحروف اس وقت آپ کے سامنے حضرت مولانا ابوسلمہ شفیع احمد البہاری رحمة الله عليه کی شخصیت پر کچھ روشنی ڈالنا چاہتا ہے۔
نام و نسب:
ابوسلمہ شفیع احمد بن مولانا حکیم امیر حسن بن محمد اکبر حسن بن محمد یار علی۔
آپ کے والد حکیم امیرحسن بہت نیک، صالح اور ماہرین اطباء میں سے تھے۔ بہار شریف (قدیم ضلع پٹنہ، حال نالندہ) کے محلہ سکونت کلاں کے رہنے والے تھے۔
ولادت و ابتدائی تعلیم:
بہار شریف محلہ سکونت کلاں میں ۱۹۱۲/ کے اواخر میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی بنیادی تعلیم اپنے والد ماجد مولانا حکیم امیرحسن صاحب سے حاصل کی اور عربی کی ابتدائی کتابیں اپنے خسر مولانا اصغرحسین صاحب سے پڑھیں۔ اس کے بعد مدرسہ قومیہ، بہار شریف میں تعلیم حاصل کی۔ پھر مدرسہ عزیزیہ (بہار شریف) میں داخلہ لیا اور متوسطات تک پڑھتے رہے۔ یہاں عربی کے ایک استاذ مولانا انوارالحق اعظمی کے خصوصی شاگرد رہے۔ مدرسہ عزیزیہ کے رفقاء درس میں ایک مولانا مسعود عالم ندوی بھی تھے جن سے دوستانہ تعلق یہیں قائم ہوا مگر استاذ محترم مولانا انوارالحق کے وصال کے بعد مولانا مسعود عالم نے ندوہ کا رُخ کیا اور مولانا ابوسلمہ صاحب نے ازہرِ ہند دارالعلوم دیوبند کی کشش پر لبیک کہا۔
دارالعلوم دیوبند سے جامعہ ڈابھیل:
دارالعلوم میں حضرت علامہ انور شاہ کشمیری اور دیگر اساطین علم کی وجہ سے علم حدیث کا غلغلہ اور فقہ و تفسیر کا زمزمہ تھا کہ گردشِ ایام نے اس بحرِ علم وفن میں تلاطم پیدا کردیا۔ حضرت مولانا ابوسلمہ شفیع احمد صاحب دیوبند میں داخل ہوئے اور تعلیمی ایک سال حرکت و سکون کے درمیان پورا کیا، مگر جب قافلہٴ علم دیوبند سے رخصت ہوکر ہندوستان کے غرب یعنی گجرات کے ایک دور افتادہ گاؤں ڈابھیل میں وارد ہوا تو بہت سے پروانے بھی اُڑ کر شمع انور کے گرد جمع ہوگئے۔ ان میں ایک مستقبل کا محدث مولانا شفیع احمد بہاری بھی تھے۔ آپ نے جامعہ اسلامی ڈابھیل میں رہ کر کسب علم و فیض کیا۔ ۱۳۵۰ھ/ ۱۹۳۲/ میں سند فراغت حاصل کی۔ (مولانا ابوسلمہ صاحب کی یہ سند جس پر وقت کے امام ذہبی حضرت شاہ صاحب کی دستخط ہے اور راقم الحروف نے اس کی زیارت کی ہے۔ بہار کے ایک اور محدث شیخ الحدیث والتفسیر مدرسہ عالیہ کلکتہ (ریٹائیر) مولانا محفوظ الکریم صاحب معصومی رکن شوریٰ دارالعلوم ندوة العلماء لکھنوٴ مقیم کلکتہ دامت برکاتہم کے پاس موجود ہے۔)
تعلیمی یکسوئی:
مولانا ابوسلمہ کے ہم عصر اہل محلہ کا کہنا ہے کہ مولانا جب علم حاصل کرنے کے لئے گھر یعنی (بہار شریف) سے نکل گئے تو فارغ ہوکر ہی واپس آئے۔ درمیان میں گھر نہیں آئے۔
اساتذہ کرام:
دارالعلوم دیوبند اور جامعہ اسلامیہ ڈابھیل کے اساتذہ کرام میں علامہ انور شاہ کشمیری خاتمة المحدثین، مولانا شبیر احمد عثمانی عمدة المفسرین، مفتی عتیق الرحمن عثمانی فقیہ العصر اور مولانا اعزاز علی امروہوی شیخ الادب اور مولانا ابراہیم بلیاوی امام المعقولات اور مشہور ادیب ابوعبداللہ محمد بن یوسف سورتی وغیرہم قابلِ ذکر ہیں۔
تعلیم کے زمانے میں مفتی عتیق الرحمن عثمانی سے خصوصی تعلق رہا۔ ان کی صحبت نے زمانہ کے تقاضوں سے واقفیت اور اسلامی اصولوں سے حالات کو منطبق کرنے کاڈھنگ وغیرہ سکھایا۔
تدریس وتذکیر:
جامعہ ڈابھیل سے فارغ ہوکر اپنے وطن عزیز بہار شریف کے مدرسہ قومیہ میں جہاں آپ نے ابتدائی تعلیم حاصل کی تھی مدرس بلکہ صدرالمدرسین مقرر ہوئے۔ تدریسی خدمات کے ساتھ ساتھ قوم کی دینی رہبری کے لئے وعظ و تذکیر کا سلسلہ بھی شروع فرمادیا۔ ہرجمعہ کو اپنے محلہ سکونت کلاں میں جمعہ سے قبل بیان کرتے تھے۔
تحریک آزادی:
تدریس وتذکیر کے علاوہ وقت کااہم تقاضہ تھا کہ قوم کو بیدار کرکے آزادی کی راہ ہموار کی جائے۔ چنانچہ وطن ہی کی ایک قومی ملّی تحریک جس کے بانی ومحرک بہار شریف کے ایک دُرِّفرید جناب (مولانا) علی حسین عاصم بہاری رحمة الله عليه تھے۔ جس کی قبولیت اور پرواز ہند کے صوبوں سے گذر کر بیرون ملک بڑھ رہی تھی یعنی تحریک موٴمن کانفرنس۔ مولانا ابوسلمہ اس کے پلیٹ فارم سے آزادیٴ ملک وملت اوران کی فلاح کے لئے تگ ودو میں مصروف بھی رہے۔ شیخ الاسلام حضرت مدنی رحمة الله عليه، مفتی کفایت اللہ صاحب اور مولاناابوالکلام آزاد کی طرح مولانا ابوسلمہ رحمة الله عليه بھی تقسیم ملک کو مسلمانوں کے حق میں مفید نہیں سمجھتے تھے۔
شیخ الحدیث والتفسیر:
۱۹۴۹/ میں وزیرِ تعلیم حکومتِ ہند مولانا ابوالکلام آزاد کے مراحم خسروانہ سے جب مدرسہ عالیہ کلکتہ دوبارہ آباد ہوا تو مولانا آزاد کے حکم و ایماء پر مدرسہ عالیہ کلکتہ تشریف لے گئے۔ حضرت مولانا عبدالحلیم صدیقی صاحب صدر المدرسین تھے چنانچہ مولانا ابوسلمہ صاحب کا بحیثیت شیخ الحدیث والتفسیر تقرر ہوا۔ اس وقت سے ۱۹۷۲/ تک یعنی ۲۳/سال اس منصب جلیل پر فائز رہے۔
تلامذہ:
بقول ظفراحمد ایڈوکیٹ کلکتہ ہائی کورٹ ”آپ کے شاگردوں کی تعداد ہزاروں تک ہے جو ہندوستان کے کونے کونے میں پھیلے ہوئے ہیں۔اس کے علاوہ بنگلہ دیش، پاکستان، سعودی عرب میں بھی آپ کے شاگردوں کی ایک خاصی تعداد موجود ہے۔“
شاگردوں میں مولانا سیداحمد ہاشمی صدر ملی جمعیة العلماء ہند و سابق ایم پی، مولانا محمد یحییٰ صدر شعبہ عربی گوہاٹی یونیورسٹی، مولانا راحت اللہ ازہری، صدر شعبہ عربی کلکتہ یونیورسٹی اور مولانا عبدالاحد سینئرآفیسر محکمہ تعلیمات بہار، مولانا ذبیح اللہ عتیق پروفیسر مدرسہ عالیہ کلکتہ، وغیرہم خاص طور سے قابل ذکر ہیں۔
کتبِ درسیہ اور طرزِ تدریس:
مولانا ابوسلمہ صاحب کے ایک شاگرد پروفیسر ذبیح اللہ لکھتے ہیں: ”وکان یدرس السنن والصحاح والکتب الفقہیہ واصول الفقہ کالہدایہ ومسلم الثبوت وکانت لہ ملکة عظیمة لافہام المسائل الصعبة بالسہولة. تدرسنا علیہ الہدایة ومسلم الثبوت ولم نشعر قط بصعوبتہا عندما یلقی الشیخ الاضواء علی مسائلہما.“
اللہ تعالیٰ نے مولانا ابوسلمہ صاحب کو بہت سی خوبیوں اور صلاحیتوں سے نوازا تھا۔ ان میں نمایاں طورپر تقریر و خطابت کا ملکہ، تصنیف و تالیف کا ذوق، اشاعت دین کا شوق، قوم کی شیرازہ بندی اور ان کی ترقی کا فکر، مسلمانوں کی معاشرتی زندگی میں اتباع سنت کی دعوت، اتحاد بین المسلمین کی سعی، علوم میں پختگی بالخصوص علم حدیث میں رسوخ اوراس کی خدمت وغیرہ بہت سے کمالات ہیں جن کی تفصیل ان شاء اللہ ایک مستقل سوانح میں جو زیر ترتیب ہے آئے گی۔ مولانا ابوسلمہ صاحب علم حدیث میں کس مرتبہ کے تھے اور کیا کام انھوں نے کیا ہے اس کا مختصر تعارف ناچیز کے قلم کے بجائے بعض بڑوں کی زبانی ملاحظہ فرمائیے۔
(۱) قاضی اطہر مبارک پوری محقق موٴرّخِ ہند فرماتے ہیں ”مولانا اسلامی علوم کے عالم تھے اور مروجہ علوم میں یدطولیٰ رکھتے تھے۔مگر ان کو علم حدیث سے عشق کی حد تک تعلق تھا۔ اس میں خاص استناد کا درجہ رکھتے تھے۔ ان کے علمی وتصنیفی کارناموں میں علم حدیث کو نمایاں حیثیت حاصل ہے۔ امام بیہقی کی نادر و نایاب اور نہایت اہم کتاب ”معرفة السنن والآثار“ کو اپنی تصحیح و تعلیق سے شائع کرنا چاہتے تھے۔ اس کا پہلا حصہ خود چھاپ کر شائع بھی کیا تھا۔ مولانا نے اس کے چند نسخے میرے پاس بمبئی بھیجے تھے اورایک نسخہ مولانا ابوالوفاء افغانی رئیس لجنة احیاء المعارف النعمانیہ حیدرآباد کو بھیجا تھا تو مولانا نے حدیث کے اس نادر و نایاب تحفہ پر بڑے والہانہ انداز میں شکریہ ادا کیا۔
مقالات حدیثیہ:
نیز رسالہ برہان ۱۹۵۰/ میں امام دارقطنی پر تین چار قسطوں میں مضمون شائع کیا۔ ”ہندوستان میں علم حدیث کی تالیفات کے نام سے برہان ۱۹۵۳/ میں چند قسطوں میں مقالہ لکھا، ۱۹۶۶/ میں مسند احمد پر ایک طویل مقالہ سپرد قلم کیا، ۱۹۷۴/ میں امام شافعی رحمة الله عليه کی کتاب الام پر محققانہ مضمون لکھا۔“
یہ علمی مقالات جو مورخانہ، محدثانہ اور محققانہ ہیں۔ علم حدیث کا مشغلہ رکھنے والوں کے لئے اہمیت کے حامل ہیں۔ ان کے مطالعہ سے علمی انتفاع کے علاوہ صاحب مقالہ کے علم حدیث میں رسوخ اور علوم میں گہرائی وگیرائی کا بخوبی ظہور ہوتا ہے۔
(۲) مولانا سعید الرحمن الاعظمی الندوی مہتمم ندوة العلماء لکھنوٴ، مدظلہ العالی رقم طراز ہیں:
کان الشیخ ابوسلمہ من علماء الہند الافاضل فی ہذا العصر و کان لہ شغف زائد بالعلم والتحقیق وخاصة بعلم الحدیث فانہ کان یعتبر من اساتذة الحدیث وشیوخہ وکان یدرس الحدیث والتفسیر فی المدرسة العالیة فی کلکتہ حیث اشتغل بوظیفة التعلیم الی مدة طویلة فکانت الاواسط العلمیہ والدینیہ تعرف فضلہ ومکانتہ فی مجال التعلیم والتحقیق والدراسة واول عمل علمی قام بہ ہو تحقیق کتاب معرفة السنن والآثار للامام البیہقی ونشرہ وحقق کذلک کتاب اسماء الصحابة والرواة لابن حزم الاندلسی ونشرہ وکذلک کان شغوفا بجمع النوادر من الکتب والموٴلفات القدیمہ واخراجہا بلباس قشیب وطالما کان یخط الکتاب بیمینہ ویعرضہا علی المطابع. (من البعث الاسلامی، لکھنوٴ)
(۳) امیرالہند محدث کبیر حضرت مولانا حبیب الرحمن الاعظمی نور اللہ مرقدہ کااعتراف ملاحظہ کیجئے۔ سچ ہے قدر جوہر شاہ داند یا بداند جوہری۔
”مولانا ابوسلمہ شفیع احمد بہاری مرحوم بڑے صاحبِ صلاحیت اور ذی استعداد عالم تھے۔ درس حدیث کی اتنی عمدہ صلاحیت ان میں تھی کہ المعہد العالی للدراسات الاسلامیہ کے لئے میں نے ان کی خدمات حاصل کرنے کی کوشش کی تھی مگر کسی بدخواہ کی رخنہ اندازی کی وجہ سے وہ نہ آسکے۔ میرا ان سے دوستانہ تعلق ایک عرصہ سے ہے۔ وہ جب مدرسہ عالیہ کلکتہ میں درجہٴ علیاء کے مدرس تھے اُس وقت انھوں نے خط و کتابت کی ابتداء کی تھی۔ تعلقات کی ابتداء یونہی ہوئی کہ وسیع ہوتے گئے… مرحوم بڑے علم دوست مرنجاں مرنج اور بڑے محنتی تھے۔“
(۴) ماضی قریب کے عالم عربی کے مشہور محقق محدث صاحب تصانیف و تعلیقات انیقہ شیخ عبدالفتّاح ابوغدة رحمة الله عليه صدر شعبہٴ حدیث و تفسیر جامعہ محمد بن سعود، ریاض، سعودی عرب کی قدردانی بھی دیکھئے۔ (ترجمہ از عربی مولانا طلحہ ندوی بن مولانا ابوسلمہ رضي الله تعالى عنه)
”میں جناب کی خدمت میں یہ سطور سپرد قلم کررہا ہوں اور دل غم سے گھٹاجارہا ہے، آنکھوں میں آنسو ہیں اور ذہن میں یہ پریشان کن سوال کہ ہم آپ کی تعزیت وغم خواری کررہے ہیں یا خود اپنی۔ یہ سانحہ تنہا آپ کا نہیں بلکہ اس میں عالم اسلام کے وہ سارے افراد شریک ہیں جو حضرت مولانا کے علم حدیث کے قلم گہربار سے فیضیاب ہوتے رہے ہیں۔
انھوں نے ہمیشہ اور ہر جگہ مسلمانوں کے حقوق کی مدافعت کی اور ان کے اندر اتحاد واتفاق پیدا کرنے کے لئے تمام باطل طاقتوں کا کھل کر مقابلہ کیا۔ وہ مسلمانوں کو کفروالحاد، صہیونیت اور مغربی استعمار کے خطرات سے مقابلہ کی دعوت دیتے رہے۔“
حضرت مولانا اپنی ان صلاحیتوں سے جس کا اعتراف وقت کے علماء و محدثین کو تھا۔ علم حدیث پرجوکام کرنا چاہتے تھے اس کا کچھ ذکر انہی کی زبان و قلم سے سنئے۔
”میں مخطوطات اور کتب نادرہ کی تفحص و تلاش اوراس کی نشر و اشاعت کے ساتھ گہری دلچسپی رکھتا ہوں لیکن ایک بے بضاعت اور محدود وسائل ہستی کے لئے اس پُرخطر وادی کی پابجولی آسان نہیں ہے۔ میں بلا تصنع کہتا ہوں کہ ظاہری اسباب کچھ بھی نہیں صرف میری بلند ہمتی اور پختگی عزم ہے۔ … لیکن ہم نے خدا کا نام لے کر کام شروع کرہی دیا اور اس سلسلہ کا سب سے پہلا قدم ”معرفة السنن والآثار للبیہقی“ کی تصحیح و طباعت ہے۔ یہ کتاب مسائل فقہیہ کا دائرة المعارف اورایک قابل قدر کتاب ہے جو عرصہ سے نایاب تھی۔ اگرچہ یہ کام میرے حسب منشاء انجام نہ پاسکا اور کما ینبغی اس کی تصحیح و تکمیل نہ ہوسکی لیکن اس علمی کساد بازاری کے دور میں یہ بھی امر غنیمت ہے۔
اس کے بعد ابن حبان کی تصانیف اورالالزامات علی الصحیحین للدار قطنی پر کام کرہی رہا تھا کہ ہندوستان انقلابی دور سے گذرا اور عام مسلمانوں کے تحیر و قنوط کو دیکھتے ہوئے اردو میں مذہبی اور علمی مضامین کے ذریعہ مسلمانوں کو اسلامی تعلیمات سے روشناس کرانا وقت کا اہم تقاضہ ہوگیا۔“ (اقتباس)
چنانچہ ۱۹۴۹/ میں آپ نے اپنے محلہ سکونت کلاں بہار شریف میں ”مکتبہ علم وحکمت“ قائم کیا اور معرفةالسنن والآثار کی پہلی جلد اسی مکتبہ سے شائع کی۔ پھر ۱۹۵۰/ میں سید سلیمان ندوی رحمة الله عليه کے ۲۰/مضامین کا مجموعہ بڑی محنت و عرق ریزی سے یکجاکرکے شائع کیا۔
ادارئہ ترجمہ وتالیف:
پھر جب کلکتہ مدرسہ عالیہ کے شیخ الحدیث والتفسیر ہوئے اور وہیں بودوباش اختیار کرلی تو ۱۹۷۲/ میں مدرسہ سے ریٹائر ہونے کے بعد ادارئہ ترجمہ وتالیف قائم کیا۔ جس نے اپنے اہم مقاصد کے پیش نظر مسلمانانِ بنگال کی دینی رہنمائی کا نمایاں کارنامہ انجام دیا۔ ادارہ کے متعلق فدائے ملت حضرت مولانا سیداسعد مدنی نوراللہ مرقدہ، صدر جمعیة العلماء ہند کے تاثرات ملاحظہ ہوں۔
”ادارئہ ترجمہ و تالیف کلکتہ تقریباً سولہ برسوں سے خالص علمی و دینی خدمات انجام دے رہا ہے اوراس ادارہ کے زیر اہتمام ۳۰ سے زائد مطبوعات منظر عام پر آچکی ہیں۔ اس ادارے کی تاسیس اور سرکردگی کا شرف حضرت مولانا ابوسلمہ ندوی علیہ الرحمة کو حاصل تھا۔ جو جمعیة العلماء ہند سے نزدیکی تعلق رکھتے تھے۔“
(حضرت مولانا) اسعد غفرلہ، صدر جمعیة العلماء ہند
۲۰/اگست ۱۹۸۸/
(نوٹ: ندوة العلماء لکھنوٴ سے عمدہ روابط و مراسم کی وجہ سے بعض علماء مولانا ابوسلمہ صاحب کو ندوة کافاضل سمجھتے تھے)
تصنیف وتالیف:
صاحب رجال السند والہند قاضی اطہرمبارکپوری رحمة الله عليه فرماتے ہیں۔ ”مولانا تقریر کی طرح تحریر میں یدطولیٰ رکھتے تھے۔ ان کو تصنیف وتالیف کا نہایت ستھرا ذوق تھا۔“ حدیث پر تحقیقی مضامین جو برہان دہلی میں شائع ہوئے اس کے علاوہ چند رسائل منظر عام پر آئے۔ (۱) یکساں سول کوڈ اور اس کا اسلامی احکام پر اثر، (۲) ختم رسالت اور قادیانی فتنہ، (۳) اکبر کا دینِ الٰہی، (۴) خطبہ حجة الوداع، (۵) تعلیماتِ قرآن، (۶) اصلاحی مضامین جو بشکل اشتہار شائع کرتے تھے۔ اس کا مجموعہ بنام تسنیم وکوثر، (۷) مظلوم اردو (غیرمطبوعہ) یہ رسالہ اپنے نام سے ہی داستان المناک کی طرف مشیر ہے اور اردو کے حق میں خدمت کا جذبہ بھی اُبھارنے والا ہے۔
امامت وخطابت:
بقول قاضی صاحب رحمة الله عليه ”وعظ وخطابت میں خاص ملکہ رکھتے تھے۔ تقریر عالمانہ و پُرمغز ہونے کے ساتھ بڑی دلچسپی ہوتی تھی۔ اسی لئے عوام وخواص دونوں طبقے میں آپ کی تقریر کے شیدائی تھے۔“
نیز نوجوانان ملّت اور معتقدین شدت سے جمعہ کا انتظار کرتے کیونکہ خطبہ جمعہ سے قبل تقریباً آدھ گھنٹہ تقریر فرماتے تھے۔
کلکتہ (دھرمتلہ) میدان میں نمازِ عیدین کی جماعت شہر کلکتہ کی سب سے بڑی جماعت ہوتی ہے۔ جس کا اہتمام و انتظام خلافت کمیٹی کلکتہ کرتی ہے۔ ۱۹۶۲/ سے قبل اس کی عظیم الشان امامت امام الہند حضرت مولانا ابوالکلام آزاد رحمة الله عليه فرمایا کرتے تھے۔ جب مولانا اس سے دستبردار ہوگئے تو اس کے لئے ایک مناسب خطیب خوش بیان اور جید عالم کی ضرورت پیش آئی۔ چنانچہ اربابِ خلافت کمیٹی کی نظر انتخاب حضرت مولانا ابوسلمہ شفیع احمد صاحب پر ٹھہرگئی۔ اس وقت سے سالِ وفات ۱۹۸۵/ تک یعنی مسلسل ۲۳/سال یہ فریضہ انجام دیتے رہے۔ اس عظیم امامت کی بناء پر مولانا پورے بنگال میں ”امام عیدین“ کے لقب سے مشہور ہوگئے۔
عیدین کے خطبات تاریخی اہمیت کے حامل ہوتے۔ ہزاروں مسلمان بڑے شوق و جذبہ کے ساتھ مولانا کی تقریر سننے کی غرض سے کلکتہ میدان میں نمازِ عیدین ادا کرنے کا اہتمام کرتے تھے۔
موجودہ طرزِتبلیغ سے رابطہ:
کبھی کبھی تبلیغی مرکز کولوٹولہ میں بعد نماز مغرب بیان ہوا کرتا تھا اور عرب جماعت ہوتی تو کبھی آپ مترجم بھی ہوتے تھے۔ نیز تبلیغی اجتماعات میں شرکت فرماتے اور اپنے علمی اور فکری خاص طرزِ کلام سے لوگوں کو فائدہ پہنچاتے۔
قرآن سے شغف:
حضرت مولانا کو حدیث پاک سے جتنا عشق تھا اس سے زیادہ کلامِ الٰہی سے شغف تھا۔ قوم کو قرآنی تعلیمات سے وابستہ کرنے اوراتباع سنت سے آراستہ کرنے کے لئے شہر کی مختلف متعدد مسجدوں میں درس قرآن کا سلسلہ جاری فرمایا تھا۔ بالخصوص ٹیپوسلطان کی شاہی مسجد میں صحت کی آخری زمانہ تک بعد العصر درس دیا کرتے تھے۔ جو ۱۹۸۳/ میں مفکر اسلام حضرت مولانا ابوالحسن علی ندوی رحمہ اللہ کی کلکتہ تشریف آوری کے موقع پر یہ دور ختم ہوا۔ حضرت مولانا علی میاں رحمة الله عليه تشریف لے گئے۔ قرآن پر خطبہ دیا اور دعا فرمائی اور تلاوتِ کلام پاک کا معمول بھی قابلِ رشک تھا۔ سفر وحضر میں ہمیشہ بلاناغہ تلاوت فرماتے تھے۔
تلاوتِ قرآن اور قرأت بخاری:
حضرت مولانا رحمة الله عليه ایک عجیب معمول جو شاید ہمارے اکابر میں سے کسی کا رہا ہو۔ مولانا عبدالمنان فاضل مدرسہ عالیہ فرماتے ہیں کہ ”میں نے آپ کو زمانہ طالب علمی میں پھر زمانہٴ مدرسی میں دیکھا کہ آپ اپنے خالی گھنٹوں میں مستقل طور پر کلام مجید کی تلاوت اور صحیح بخاری شریف کی قرأت فرماتے تھے اوراخیر عمر تک اسی معمول پر مداومت کی۔ حضرت مولانا کی اس عادتِ شریفہ (تلاوتِ قرآن وقرأتِ بخاری) کا علم راقم الحروف کو بہار کے ایک اور عالم سے براہِ راست ہوا جو سفر میں اس معمول کے چشم دید شاہد ہیں۔
قوم کی دینی رہبری:
قرآنی تعلیمات اور نبوی ہدایات سے لوگوں کو فائدہ پہنچانے کے لئے مولانا بذاتِ خود جتنی جدوجہد کرتے اپنے تلامذہ اور علماء سے بھی چاہتے تھے کہ وہ قوم کی دینی رہبری کے لئے کوئی علمی و دینی مشغلہ ضرور رکھیں۔ مولانا ذبیح اللہ پروفیسر مدرسہ عالیہ فرماتے ہیں۔
”فراغت کے بعد میں نے معاش کی تلاش میں ایک ہائی اسکول میں ملازمت اختیار کرلی۔ حضرت مولانا عالیہ سے ریٹائر ہوچکے تھے۔ ایک روز سڑک پر ملاقات ہوئی۔ اچانک پوچھ بیٹھے۔ ”کیاکررہے ہو؟“ میں متحیر رہ گیا کہ حضور ایسا سوال کیوں کررہے ہیں۔ اُنہیں تو میری ملازمت کے بارے میں علم ہے۔ مجھ کو حیران دیکھ کر فرمایا کہ میرا منشا یہ ہے کہ تم قوم کے لئے کیاکررہے ہو؟ سکوت کے سوا میرا چارہ نہیں تھا۔ تب انھوں نے فرمایا، ”قوم کا بھی تم پر حق ہے۔ میری طرح بھیک مانگو۔ رقم مہیّا کرو۔ دینی اشاعت کا ادارہ بناؤ۔ لوگوں میں ہدایت مفت بانٹو۔ اگر یہ نہ ہوسکے تو کم از کم مسجد کے کسی گوشہ میں بعد جماعت قرآن مجید لے کے بیٹھ جاؤ۔ دوچار آیت کی تفسیر سناؤ۔ کبھی مشکوٰة شریف کی دو چار حدیث کی تشریح سناؤ۔ یہ معمول رکھو۔ لوگ تمہاری تنقید کریں گے۔ تم پر ہنسیں گے۔ ہوسکتاہے کہ مخالفت بھی کریں۔ مگر ہمت ہارنا نہیں۔ نیت صرف اللہ کو راضی کرنا ہو۔ ان شاء اللہ تمہاری محنت بیکار نہیں جائے گی۔ دس میں ایک کو ہدایت ملے گی۔ تمہاری نجات کا ذریعہ بن جائے گا۔
قومی وملّی خدمات:
جس طرح حضرت مولانا کی دینی خدمات بہت ہیں۔ اسی طرح قومی وملی خدمات کا دائرہ بھی بہت وسیع ہے۔ نیز آپ کے اخلاق حمیدہ اور اقوال محمودہ ملی خدمت گاروں کے لئے حوصلہ افزاء ہیں۔ اس مختصر مضمون میں اس کی گنجائش نہیں ہے۔
تواضع اور سادگی:
مولانا کے مزاج میں توضع و انکساری، سادگی و خاکساری کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ ہمیشہ گاڑھے کا کرتہ، گاڑھے کا پائجامہ اور گاڑھے ہی کی دوپلیاں ٹوپی زیب تن فرماتے۔ زیادہ تر پیدل چلتے۔ ضرورت پیش آتی تو سستی سواری مثلاً بس یا رکشا پر اکتفاء کرتے۔ ریل کے سفر میں بھیڑ کی وجہ سے کبھی کبھی گھنٹوں کھڑے رہتے۔ جلسوں میں بہت گئے رات تک بیٹھتے۔ جو ملتا اورجب ملتا کھالیتے۔ مسجد میں سو رہتے۔ مجلس میں چھوٹوں اور غریبوں کے ساتھ بھی گھل مل کر باتیں کرتے۔کوئی مسئلہ پوچھئے نرم لہجہ میں بتادیتے۔ کوئی اُلجھن پیش کیجئے خوبصورتی سے سلجھا دیتے۔ تقریر کے لئے بلا تکلف پیدل بن پڑا تو پیدل پہنچ گئے۔ منتظمین سے نہ سواری کی فرمائش کرتے اور نہ قیام وطعام کا ان کو زیر بار کرتے۔
بیعت و سلوک:
آپ اور آپ کے بڑے صاحب زادے جناب شفیق احمد دونوں حضرت شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی رحمة الله عليه سے بیعت تھے۔ مولانا کو حضرت شیخ الاسلام رحمة الله عليه سے والہانہ محبت تھی۔ چنانچہ حضرت مدنی رحمة الله عليه کے انتقال کے بعد محمد علی پارک (میدان) میں جلسہ تعزیت میں تقریر کرتے ہوئے فرمایا۔
”حضرت شیخ کے سانحہٴ ارتحال سے زہدوتقویٰ، علم وعمل اور امن کی حدیث کی چولیں ڈھیلی ہوگئی ہیں۔ حضرت شیخ کی ذات اقدس محتاجِ تعارف نہیں۔اگر ان کے متعلق جاننا چاہتے ہیں تو ہندوستان کی درودیوار مرحوم کی عظمت کا پتہ دے گی۔ آپ نے آزادی سے قبل مسلمانوں کو جو کچھ کہا اورغلط روی کی جو بھی پیشین گوئیاں کی تھیں وہ سب کے سب صادق آرہی ہیں۔ مگرافسوس مسلمانوں نے وقت کی نزاکت کا احساس نہیں کیا۔ اب بھی وقت ہے کہ ہم ان کے بتائے ہوئے راستہ پر چل کر اپنی منزل پاسکتے ہیں۔“
زیارتِ حرمین شریفین:
۱۹۶۶/ میں پہلی مرتبہ حج بیت اللہ کے لئے تشریف لے گئے۔ اس سفر میں قاضی اطہر مبارکپوری رحمة الله عليه کی رفاقت رہی اور چوتھی مرتبہ ۱۹۸۵/ میں گئے۔
مرض الوفات کی ابتداء:
۱۹۸۵/ میں حج میں جانے سے قبل ہی یرقان کاحملہ ہوگیا تھا۔ مکہ معظمہ پہنچے پر مرض نے شدت اختیار کرلی۔ بمشکل مناسکِ حج ادا کئے۔ ہندوستان واپستی پر ایسی صورت ہوگئی کہ اسپتال داخل کرنا پڑا۔
ایک آخری خط:
ایّامِ مرض میں شفاخانہ (اسپتال) سے ایک درد بھرا خط جو حیاتِ مستعار کا غالباً آخری خط ہے حضرت مولانا ابوالحسن علی الندوی رحمہ اللہ کے نام لکھا گیا ہے۔
عالی جناب مفکر اسلام الحاج مولانا ابوالحسن علی صاحب الندوی دامت فیوضہم وبرکاتہم،
صدر آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ
السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ
میں ۲۳/۸۵/ کو فریضہ حج کی ادائیگی کے بعد مکان اس حال میں پہنچا کہ یرقان کے حملے سے بے دم سا ہورہا ہوں اور تین دن کے بعد جب شفاخانہ میں داخل ہوا تو گفتار و رفتار میں حس وحرکت تک کی گنجائش باقی نہیں رہی تھی۔ آج ایک ماہ سے اوپر کا عرصہ گذرا حالت بدستور سابق ہیں۔ شفاخانہ کی کوٹھری نما کمرے میں محبوس ہوکر رہ گیاہوں۔ جملہ مشاغل یک قلم موقوف ہیں۔ امت مرحومہ کی موجودہ زبوں حالی بالخصوص مسلم پرسنل لاء پر دشمنوں کے حملے اورہماری تہی دستی و بے بسی پر دل کڑھتاہے۔ مگر مجبور محض ہوکر رہ گیاہوں۔ یہ چند سطور جودراصل اپنی غم خواری اور دلسوزی کا برملا اظہار ہے۔ وقت کی ایک اہم ضرورت سمجھتے ہوئے لکھوارہاہوں۔
کرم فرمائے من! آپ کو شاید اپنی قوت کا اندازہ نہیں ہے۔ آپ وہ شمع ہیں جس کے ارد گرد لاکھوں پروانے اپنی فداکاری کاجوہر دکھانے کے لئے مچل رہے ہیں۔
میرے نزدیک سپریم کورٹ کا فیصلہ ہو، اعداء اسلام کے حملے ہوں یا مار آستینوں کے زہر افشانیاں، یہ سب مسلم عوام کے عزم و حوصلے کے آگے مکھیوں کی بھنبھناہٹ سے زیادہ وقعت نہیں رکھتیں۔ اس وقت امتِ مرحومہ کو جو حکم دیاگیا ہے وہ ہے واعتصموا بحبل اللہ جمیعا ولا تفرقوا کے تحت وحدت کی رسی کو مضبوط تھامنا اور انتشار و افتراق سے غایت درجہ احتراز و پرہیز ہے۔“
ابوسلمہ شفیع احمد از کلکتہ
انتقال پُرملال:
بالآخر ۲۲/دسمبر۱۹۸۵/ بروز یکشنبہ مطابق ۹/ربیع الثانی ۱۴۰۶ھ دوپہر کے وقت ۷۳ سال کی عمر میں دنیائے فانی سے عالم جاودانی کی طرف کوچ کرگئے۔
انا للّٰہ وانا الیہ راجعون. للّٰہ ما اعطی ولہ ما آخذ و کُلّ شیء الی اجل مسمی.
۲۳/ کی صبح حضرت مولانا حکیم محمد زمان حسینی صاحب رکن دارالعلوم دیوبند نے نمازِ جنازہ پڑھائی اور ۳۰-۱۲ بجے شہر کے مشہور قبرستان ”گورِ گریباں“ میں بادیدئہ نم سپرد خاک کئے گئے۔ پس گوہرِ آبدار جو بہار شریف سے برآمد ہوا تھا سرزمینِ بنگال نے اُس پیکرِ علم وعمل کو تاصبحِ قیامت اپنی آغوش میں لے لیا۔
وما علینا الاّ البلاغ
_____________________________
ماہنامہ دارالعلوم ، شماره 10-11 ، جلد : 92 ذيقعده 1429 ھ مطابق اكتوبر – نومبر 2008ء