از: مولانا محبوب فروغ احمد قاسمی، مدرسہ حسینیہ کیرلا، الہند
قرآنِ کریم معجزہ ہے جو آخری نبی محمد عربی … پر جستہ جستہ ۲۳ سالوں میں نازل ہوا، معجزہ کی شان ہی یہ ہوتی ہے کہ انسانی بس اور قدرت سے باہر ہو، لہٰذا قرآن کی مثیل ونظیر بھی انسانی قدرت وطاقت سے ماوراء ہے۔
نیز یہ ایسا معجزہ ہے جو رہتی دنیا تک کی خلقت کو اپنے لانے والے کی صداقت کا یقین کراتا رہے گا،نتیجتاً لوگ حلقہٴ اسلام سے روز افزوں وابستہ ہوتے رہیں گے، رسول اللہ … نے ایک حدیث میں اسی حقیقت کا انکشاف کیاہے۔
ما من الانبیاء نبي الا أعطي ما مثلہ آمن علیہ البشر، وانما کان الذي أوتیت وحیًا أوحاہ اللّٰہ الي، وأرجو أن أکون أکثرہم تابعًا یوم القیامة(۱)
(ہر نبی کو ایسا معجزہ دیاگیا جس کا مشاہدہ کرکے انسانیت ایمان لاتی رہی، مجھے اللہ پاک نے ایسا معجزہ وحی کی شکل میں دیا ہے (اس میں غور وفکر کرکے قیامت تک لوگ ایمان لاتے رہیں گے) مجھے امید ہے کہ روزِ قیامت میرے متبعین زیادہ ہوں گے)
لیکن دین کے باغی اور فطرتِ انسانی سے منہ موڑنے والوں نے تکذیب کو اپنا وطیرہ بنایااور اس معجزئہ قرآن سے متعلق مختلف قیاس آرائیاں کرنے لگے، تو قرآن نے مرحلہ وار تین قسطوں میں ان سے چیلنج کیااور مطالبہ کیا کہ اگراس کلامِ الٰہی کی حقانیت میں تمہیں شک ہے تو اس جیساقرآن، نہیں تو دس سورتیں، یا پھر ایک چھوٹی یا بڑی سورت ہی بنالاؤ، ہم تمہاری بکواسوں کو تسلیم کرلیں گے، لیکن بلند وبانگ ڈینگیں ہانکنے والے ششدر رہ گئے، انھوں نے اپنی غیرت نیلام کردی، بہو بیٹیاں دشمنوں کے حوالے کردیں، گردنیں کٹوائیں، حملے بھی کیے اور حملے کا جواب بھی دیا، سب کچھ گوارہ لیکن یہ نہ ہوسکا کہ صرف ایک آیت ہی بناڈالتے، روز روز کا جھگڑا منٹوں اور سکنڈوں میں مٹ جاتا، قرآن اپنے نزول سے لے کر ہنوز چیلنج کررہاہے لیکن کوئی اس کا معارضہ ومقابلہ کرنے والا آج تک پیدا نہ ہوسکا جو اپنے مقابلے سے اس کی اعتباریت میں فرق پیدا کرسکے۔
بہرحال قرآن معجزہ ہے جس کا مقابلہ محال ہے، لیکن وجہ اعجاز کیاہے، صاحب مناہل العرفان کل چوبیس وجوہ: بعض وجوہِ صحیحہ اور بعض وجوہِ معلومہ ذکر کرتے ہیں(۲)
لیکن اکثر اہل علم حضرات کی رائے ہے کہ قرآن پاک اپنی فصاحت وبلاغت یا بزبان دیگر ”حسن بیان“ میں معجزہ ہے، علامہ خطابی فرماتے ہیں:
ذہب الأکثرون من علماء النظر الی أن وجہ الاعجاز فیہ من جہة البلاغة(۳)
(اکثر اہل فکر ودانش علماء کی رائے ہے کہ وجہ اعجاز بلاغت کی جہت سے ہے)
قریب قریب یہی بات اکثر علماء کے کلام میں پائی جاتی ہے، نیز منطقی لحاظ سے قرینِ قیاس بھی ہے، کیوں کہ یہ کلام جن عربوں میں نازل ہوا وہ ہر علم و فن سے بے بہرہ تھے لیکن فصاحت وبلاغت میں اوج کمال پر پہنچے ہوئے تھے۔ گویا کہ شعر و شاعری، زبان وادب، اور تعبیر وبیان ان کے گھر کی لونڈی ہیں۔ اس لیے ان سے کچھ عذر نہ ہوسکا کہ ہم تو اس فن کو جانتے ہی نہیں، جاننے والوں کو چیلنج کرو، احمد حسن الزیات رقم طراز ہیں:
من قائل أنہ الفصاحة الرائعة المذہب الواضح والأسلوب الموثق ونحن الی ہذا الرأی أمیل؛ فان القوم الذین تحدوا بہ لم یکونوا فلاسفة ولا فقہاء حتی یکون عجزہم عن الاتیان بمثلہ معجزة، انما کانوا بلغاء مصادع وخطباء مصاقع وشعراء فحولاً، وفي القرآن من دقة التشبیہ والتمثیل وبلاغة الاجمال والتفصیل وروعة الأسلوب وقوة الحجاج ما یعجز طوق البشر ویرمي المعارضین بالسُّکات والحَصَر․(۴)
(بعض حضرات اس بات کے قائل ہیں کہ اس قرآن میں شاندار فصاحت، واضح فکر و نظریہ اور مستحکم اسلوب پائے جاتے ہیں میری یہی رائے ہے کیوں کہ جس قوم کو للکارا گیا وہ نہ تو منطقیانہ موشگافیوں سے واقف تھے نہ ہی فہم وفراست کے حامل کہ ان کا اس جیساکلام پیش کرنے سے عاجز رہنا معجزہ ہوتا، ہاں وہ میدان بلاغت کے ہیرو، بلند پایہ مقرر، اور قادرالکلام شاعر تھے، نیز قرآن میں دقیق تشبیہ وتمثیل، ایجاز واطناب، حسین اسلوب اور قوت استدلال نے انسانی قوت کو درماندہ کردیا اور مخالفین پر سکتہ وسناٹا طاری کردیا)۔
اعجازِ بیانی کا امتیاز
بہرحال ایک طبقہ اس پر مصر ہے کہ قرآن کا اعجاز فصاحت و بلاغت کی وجہ سے ہے لیکن علماء کے مختلف اقوال سے یہ بات بھی مترشح ہوتی ہے کہ قرآن کی ہر جہت معجزہ ہے، اس لیے کہ اس کے مخاطبین جہاں عرب کے فصحاء و بلغاء ہیں اسی طرح رہتی دنیا تک کی اقوام ہیں، ان میں یہود و نصاریٰ جیسے دینی پیشوائی کے دعوے دار بھی ہیں اور فلاسفہٴ یونان سے لے کرہندوستان کے ہندو جوگ بھی، یہی وجہ ہے کہ آج اتنی صدیاں گز رگئیں، زمانے نے نہ جانے کتنے پلٹن کھائے، انقلابات کے کیسے کیسے دور آئے اور گزرگئے، سائنس وٹکنالوجی نے کتنی ترقیاں کیں لیکن آج تک کوئی ایساشخص پیدا نہ ہوسکا جو قرآن کی کسی جہتِ اعجاز کو بے اعتبار کرسکا ہو۔
ہاں اتنی بات ضرور ہے کہ قرآنِ کریم کا بلیغانہ وفصیحانہ اسلوب ایسا اعجاز سدا بہار ہے جس میں کوئی آسمانی کتاب تک شریک و سہیم نہیں، بیانی اعجاز کی یہ جہت اتنی نمایاں ہے کہ جو بھی سنا خواہ وہ عربی زبان و بیان میں پہچان رکھتا ہو یا عربی کی الف با سے بھی واقف نہ ہو لیکن اس کا جذب اندرون پکار اٹھتا ہے۔
واللّٰہ انہ یقولہ الذي یقول حلاوة وان علیہ لطلاوة․․․ وانہ لیعلو وما یعلی(۵)
(خدا کی قسم جو یہ کلام بولتے ہیں اس میں بلا کی شیرینی اور رونق ہے، اوریہ کلام غالب ہی رہتا ہے مغلوب نہیں ہوتا ہے)
اعجازِ بیانی کا معجزانہ امتیاز
اعجاز کی معرفت کے لیے کوئی معیار قائم کرنا تقریباً محال ہے، ہر چند کہ بعض علماء نے کوشش کی ہے کہ کوئی منضبط قاعدہ وضابطہ کے تحت اعجازِ بیانی کو داخل کردیا جائے، ان میں غالباً سب سے پہلا نام علامہ خطابی کا ہے جن کی پیروی کرتے ہوئے مختلف مفسرین نے بھی اختیار کیاہے، علامہ خطابی کے قول کاخلاصہ یہ ہے کہ:
بلغاء وفصحاء کے کلام تین قسم کے ہوتے ہیں: (۱) اعلیٰ درجے کا فصیح و بلیغ (۲) معمولی فصیح وبلیغ (۳) بالکل سادہ و سلیس۔ قرآن پاک کا امتیاز ہے کہ ہر ایک سے اپنے مخاطب کی رعایت کرتے ہوئے وافر حصہ لیتاہے جو قرآن ہی کا حق ہے۔(۶)
لیکن علامہ خطابی اپنی کوشش میں کس حد تک کامیاب ہیں یہ کہنا مشکل ہے، کیوں کہ کسی قدر قاعدہ و ضابطہ کو متعین کرلیں لیکن آخری فیصلہ تو ذوق ووجدان ہی کو کرنا پڑتا ہے یہ تو اس خوشبو کی مانند ہے جو پھول کی پنکھڑیوں میں پنہاں ہوتی ہے، جس کو محسوس کیاجاسکتا ہے لیکن لفظوں میں بیان نہیں کیاجاسکتا ہے۔
اس لیے اس کے اعجاز کی شہادت کیلئے یہی کافی ہے کہ اتنا عرصہ گزرنے کے بعد بھی کوئی چیلنج قبول نہ کرسکا، بلکہ اپنی درماندگی کااعتراف ہر صاحب ذوق کو خواہ دبے لفظوں میں ہی سہی کرنا پڑا۔
تاہم ایسے اصول وضوابط کا جائزہ لینا ضروری ہے جن کی رعایت کرنے سے کلام کی شان نرالی ہوتی ہے اور ”تاثیر“ میں چار چاند لگ جاتا ہے۔ دراصل کلام کا موٴثر ہونا ہی بیان کی غرض و غایت ہے، نیز کلام کا موٴثر ہونا چند وجوہ کی بنا پر ہوتا ہے، اس لحاظ سے قرآن کے اعجازِ بیانی کو چار خانوں میں تقسیم کرسکتے ہیں۔
(۱) مفردات کا اعجاز (۲) جملوں اور ترکیبوں کا اعجاز (۳) اسلوب کا اعجاز (۴) نظم و ربط بین الآیات کا اعجاز۔
مفردات کا اعجاز
مفردات کے لحاظ سے اگر قرآن پر غور کیاجائے تو اس کا ہر لفظ اپنی جگہ اتنا فصیح معلوم ہوتا ہے کہ اس کی جگہ دوسرے کلمے کو خواہ اسی معنی ومفہوم کاہو نہیں رکھ سکتے ہیں، اس کے برخلاف زبان دانی کے دعوے کرنے والوں کے کلام میں مختلف خامیاں پائی جاتی ہیں۔ مثلاً متنبی عربی زبان کا مشہور شاعر ہے، اس کو اپنی زبان دانی پر ناز بھی تھا اسی لیے دعوئہ نبوت بھی کربیٹھا حالانکہ اس کا سارا کمال قرآن سے ہی مستفاد تھا جیساکہ اس کی تاریخ حیات سے معلوم ہوتا ہے۔ اس کے کلام کا اگر موازنہ کیا جائے تو بہت سارا نقص نظر آئے گا اور ایسا محسوس ہوگا کہ اگر اس لفظ کے بجائے یہ لفظ ہوتا تو زیادہ اچھاہوتا مثلاً اس کا ایک شعر ہے:
ان القتیل مضرجاً بدموعہ مثل القتیل مضرجاً بدمائہ(۷)
شہید محبت شہید جنگ کی طرح ہوتا ہے۔
لیکن ذرا ”مثل“ کو ہٹاکر ’فوق“ رکھدیں تو دیکھئے حسن کتنا دوبالا ہوتا ہے۔
ان القتیل مضرجاً بدموعہ فوق القتیل مضرجاً بدمائہ
شہید محبت کا مقام جنگی شہید سے بڑھا ہوتا ہے۔
لیکن قرآن نے لفظ ”مثل“ کو تقریباً چالیس جگہ استعمال کیا ہے۔ کسی ایک جگہ بھی ادھر ادھر نہیں کرسکتے ہیں۔
یہ صرف ”مثل“ کے ساتھ خاص نہیں ہے بلکہ قرآن کے جس لفظ کو بھی لے لیں اس کی جگہ دوسرا لفظ حتی کہ اسی معنی کا متبادل و مترادف لفظ بھی نہیں رکھ سکتے ہیں۔ ایسا کرنے سے کلام کا مقصود باقی نہیں رہ سکتا ہے مثال کے طور پر قرآن میں ہے:
أتدعون بعلا وتذرون أحسن الخالقین
تم لوگ بت کو پکارتے ہو اور احسن الخالقین کو چھوڑتے ہو۔
خیال ہوسکتا ہے کہ اگر ”تذرون“ کی جگہ ”تدعُون“ ہوتو معنی میں کچھ فرق نہیں ہوگا؛ بلکہ صنعت جناس کا اضافہ بھی ہوگا۔
لیکن معاملہ ایسا نہیں ہے، وذر، اور ودع بیشک ہم معنی ہیں لیکن دونوں میں بنیادی فرق بھی ہے۔ وذر میں بالقصد چھوڑنا ملحوظ ہے؛ جبکہ ودع میں بالقصد کی کوئی قید نہیں، قرآن تو کہنا چاہتا ہے کہ تم لوگ بالقصد اپنے خالق کو ترک کررہے ہو، ظاہر بات ہے کہ یہ معنی ”ودع“ سے پیدا نہیں ہوسکتا۔
مفرداتِ قرآن میں غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ بہت سے ایسے الفاظ کا اضافہ ہے جو پہلے سے اس معنی میں معہود ومعروف نہیں ہیں، مثلاً موت کے لیے عرب میں ۲۴ الفاظ استعمال ہوتے تھے، سب میں عرب کے قدیم نظریہٴ کفر کی غمازی تھی، لیکن قرآن نے موت کے معنی کے لیے لفظ ”توفی“ استعمال کیا جس کے معنی پورا پورا لینے کے ہیں۔ قرینہ کے اضافے سے موت کا معنی پیدا ہوگا، جو صرف قرآن کا عطاکردہ ہے۔(۸)
بعض معانی کے لیے الفاظ ثقیل ہی استعمال ہوتے ہیں جوکہ فصاحت کے لیے عیب ہے۔ قرآن نے ایسے تمام الفاظ کو چھوڑ دیا اور ضرورت کے وقت ایسا لفظ استعمال کیاجو سنتا ہے عش عش کیے بغیر نہیں رہ سکتا، مثلاً پکی اینٹ کے لیے تین لفظ عربوں میں مستعمل تھے آجرّ، قرمد، طوب، اور تینوں ثقیل سمجھے جاتے تھے۔ قرآن نے اس معنی میں استعمال کیا:
فاوقد لي یا ہامان علی الطین فاجعل لی صرحاً․ اے ہامان گیلی مٹی پر آگ روشن کرکے میرے لیے ایک محل تعمیرکرو۔
اسی طرح ”ارض“ کی جمع اراضی و ارضون دونوں ثقیل سمجھے جاتے ہیں، قرآن نے ہردو کو چھوڑ دیا، اور ان کی جگہ استعمال کیا۔
اللّٰہ الذی خلق سبع سماوات ومن الارض مثلہن
اللہ وہ ہے جس نے سات آسمان پیدا کیے اورزمین بھی اتنی ہی۔
ترکیب کا اعجاز
مفردات کے بعدجملوں کی بندش اور ترکیب کی شوکت و سلاست کا نمبر آتا ہے اس حوالے سے اتنا ہی کہنا کافی ہوگا کہ پڑھنے والا محسوس کرتا ہے کہ زبان از خود ایک جملے سے دوسرے جملے کی طرف پھسلتی جارہی ہے، کہیں اٹکاؤ نہیں یوں لگتا ہے کہ ہموار زمین ہے یا پھر ٹھہرے سمندر کی سطح آب۔
علاوہ ازیں مختلف ترکیبیں قرآن نے ایسی استعمال کی ہے کہ جن سے مختلف گتھیاں سلجھ گئیں، مثلاً قاتل سے انتقام لینا ایک کمال سمجھا جاتا تھا۔ اس پر برانگیختہ کرنے کے لیے مختلف جملے زبان زد تھے القتل أنفی للقتل (قتل سے قتل کی روک تھام ہوتی ہے) القتل احیاء للجمیع (قتل اجتماعی زندگی ہے) أکثروا القتل لیقل القتل (قتل زیادہ کرو، قتل کی وارداتیں کم ہوجائیں گی)
لیکن قرآن نے اس کے لیے استعمال کیا ولکم فی القصاص حیوة اور تمہارے لیے قصاص میں زندگی ، ترکیب مختصر سی لیکن معانی کا ایک سمندر پنہاں ہے۔
کسی چیز کی وسعت کو بیان کرنے کے لیے مختلف جملے تھے، لیکن ساری وسعتوں کی ایک انتہاء تھی۔ قرآن نے جہنم کی وسعت بیان کرتے ہوئے کہا۔
یوم یقول لجہنم ہل امتلئت وتقول ”ہل من مزید“
جس روز ہم جہنم سے پوچھیں گے:کیا تو سیر ہوگئی تو وہ پکار اٹھے گی ”کیا کچھ اور ہے“ اس وسعت کی نہ کوئی حد ہے اور نہ انتہا۔
بتوں کی عظمت وہیبت دلوں میں اتنی جاں گزیں تھی کہ اپنی قسمت کا فیصلہ کروانے بھی ان ہی کے پاس جاتے، ان کے ناموں کے احترام اور عقیدت مندانہ جذبات سے ان کے دل لبریز تھے۔ لیکن قرآن نے صرف ایک جملے میں سب کو پاش پاش کردیا: ان ہی الا اسماء سمیتموہا أنتم وآبائکم یہ محض تمہارے اور تمہارے پرکھوں کے رکھے ہوئے نام ہیں۔ ان سے حقیقت کا کچھ واسطہ نہیں اور نہ ہی کوئی نفع و نقصان ان سے متعلق ہے۔
اسلوب کا اعجاز
اسلوب میں سب سے اچھا اسلوب، عربوں کے نزدیک ہی نہیں ہر صاحب ذوق کے یہاں ”شعری اسلوب“ ہے؛ کیوں کہ اشعار کے سنتے وقت غیرمحسوس طور پر انسان حلاوت محسوس کرتا ہے؛ لیکن علماء کا اتفاق ہے کہ قرآن کا اسلوب شعر نہیں ہے۔ حضرت شاہ ولی اللہ علیہ الرحمہ نے ”الفوز الکبیر“ میں بڑی تفصیل سے اس پر بحث کی ہے۔ جس کا حاصل یہ ہے کہ:
اس کا اسلوب ہے تو نثر، لیکن شعر کی لذت سے بڑھ کر اس میں لذت موجود ہے۔ کیوں کہ شعر کی لذت اور حلاوت کا سارا مدار ”متوازن صوتی آہنگ“ کا کان سے ٹکرانا ہے، لیکن یہ آہنگ پیدا کیسے ہوتی ہے اس کے لیے مختلف ذوق و مزاج ہیں، اور مختلف اصول و ضوابط ہیں، عربی اشعار کا سارا دارومدار خلیل بن احمد کی تخلیق کردہ اوزان پھر ردیف کی یکسانیت اور قوافی کی رعایت پر ہے، لیکن فارسی ذوق اس سے الگ ہے، اس میں اوزان کی نئی بحریں بھی ہیں، پھر حرکات و سکنات کی خاص ہم آہنگی بھی، عربی میں”کبیر“ و” قبور“ ہم وزن ہیں جبکہ فارسی میں مخل فصاحت، عربی میں زحافات اتنی زیادہ ہیں کہ وزن کا باقی رکھنا مشکل ہوتا ہے۔ فارسی میں ایسا نہیں۔
اس کے برخلاف ہندی مزاج کا ذوق دوسرا ہے، اس میں تعدادِ حروف پر دارومدار ہے، پھر بسا اوقات تعدادِ حروف میں کافی تفاوت ہوتا ہے۔
قرآنِ کریم نے ان اصولوں کو نظر انداز کردیا اور صرف ”متوازن صوتی ہم آہنگی“ کو باقی رکھا جو ہرذوق و مذاق میں قدر مشترک ہے، لہٰذا قرآن کو اگر شعر نہیں کہہ سکتے تو نثر محض بھی نہیں، یہی وجہ ہے کہ عربوں نے جب اول وہلہ میں سنا تو شعر کہنے لگے، لیکن چوں کہ شعر کے نوک وپلک اوراصول و ضوابط سے خوب واقف تھے، اس لیے اس نظریہ سے منحرف ہوئے سو کہا۔ پھر نہ جانے کون کون سے لیبل چسپاں کرنے لگے۔(۹)
پھر علمائے بلاغت کے مطابق اسلوب کی تین قسمیں ہیں: خطابی، ادبی، علمی۔ تینوں کی خصوصیات الگ الگ ہیں اور دائرئہ عمل بھی جداگانہ، لیکن قرآن ایک ہی عبارت میں تینوں اسلوب کو جمع کرتا ہے، کہ علم کی سنجیدگی بھی ہوتی ہے، خطابت کا زور بھی تو ادب کی شگفتگی بھی۔
ہر شاعر و ادیب کا میدان الگ الگ ہے۔ ایک میدان کا مرد دوسرے میدان میں بالکل ناکام ثابت ہوتا ہے مثلاً امرء القیس رزم وبزم، اور غزل کا امام ہے۔ اس سے خوف و ہیبت کا مضمون ادا نہیں ہوسکتا، یہ تو نابغہ ذبیانی کا کام ہے۔ لیکن نابغہ سے حسن طلب نہیں ہوسکتا یہ تو اعشی کا کام ہے۔
اسی طرح فارسی شعراء میں نظامی و فردوسی رزم و بزم میں، سعدی وعظ و پند میں تفوق رکھتا ہے۔ ایک فن کا امام و شہ نشیں دوسرے فن میں حیران و خاک نشیں معلوم ہوتا ہے۔
لیکن قربان جائیے قرآن کے اسلوب پر ہر مضمون کو بلیغانہ و فصیحانہ اسلوب میں بیان کرتا ہے خواہ وہ ترغیب وترہیب ہو، یا رزم و بزم، جنت و جہنم کا بیان ہو یا پھر دنیا کی مذمت کا ذکر، انبیاء وصالحین کے کردار کا تذکرہ ہو یا پھر گزرے ہوئے سرکشوں اور باغیوں کی عبرت آموز داستانِ حیات، ہر ایک کو اسی مضمون کے مناسب جوش و خروش اور پرشوکت و پرعظمت لفظ و نظم میں بیان کرتا ہے۔
پھر مخاطب بھی ہر قسم کے ہیں۔ اعلیٰ درجے کے ماہرین فنون بھی، تو متوسط طبقہ کے فصیح و بلیغ نیز الھڑ قسم کے انسان بھی، قرآن کریم باوجود کہ بیان کی جملہ اقسام پر مشتمل ہے لیکن اس کے تینوں قسموں کے مخاطب بیک وقت متاثر ہوتے ہیں اورہر کوئی سمجھنے پر مجبور ہوتا ہے کہ قرآن کا اصل خطاب اسی سے ہے۔
ربط بین الآیات کا اعجاز
قرآنِ کریم ہدایت کا اتنا جامع مجموعہ اور مختلف الانواع مضامین پر مشتمل ہونے کے باوجود ایسا محسوس ہوتاہے کہ ہر مضمون دوسرے مضمون سے مربوط ہے، بلکہ بسا اوقات دو متضاد مضمون کو اکٹھا کرتا ہے اور انسانی دماغ حیران رہ جاتاہے کہ خروج کہاں سے ہے اور دخول کہاں پر ہے، بلکہ یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ دونوں کبھی متضاد رہے ہی نہیں ہیں۔
لیکن اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ اگر ماقبل کا مضمون سامنے نہ ہو تو مابعد کی آیات غیرمربوط معلوم ہوں گی، بلکہ ہر آیت ماقبل سے مربوط ہونے کے باوجود مستقل مضمون کی حیثیت بھی رکھتی ہے۔ یہی محمل ہے ان علماء کے کلام کا جنھوں نے ربط بین الآیات کا انکار کیا ہے۔
خلاصہ یہ کہ قرآن کریم کا اعجاز ذوقی ووجدانی ہے، لیکن اصول وضوابط کا اگر پابند بھی تسلیم کرلیا جائے تو ہر اعتبار سے اس کا اعجاز ٹکسالی ہے، بلکہ جو ادیب و شاعر ایک فن میں کامل دسترس رکھتا ہے۔ اگر اس کے کلام کا موازنہ کیاجائے تو بے اختیار زبان پر آجائے گا ”چہ نسبت خاک را باعالم پاک“ اور این الثری من الثریا۔ اس دعوے کی تصدیق کے لیے ایک مثال بطور موازنہ پیش کی جاتی ہے۔
ایک تقابلی جائزہ
امرء القیس عرب کا مشہور شاعر، رزم و بزم کی تصویر کشی کا ماہر پوری عرب برادری میں مافوق العادت قوت کا حامل تصور کیاجاتا ہے۔ اپنے رزمیہ اشعار میں گھوڑے کی تعریف کرتے ہوئے کہتا ہے:
(الف) مِکَرّ مِفَرّ مغقبل مُدْبِر معًا کجُلمود صَخْر حطّہ السیل من عَلٍ
وہ گھوڑا حملہ کرنے والا، بھاگنے والا،آگے آنے والا، پیچھے کو مڑنے والا سب ایک وقت میں، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ایک پتھر ہے جس کو سیلاب نے اوپر سے لڑھکادیا ہے۔
(ب) کُمیت یُزلّ اللِبْد عن حال متنہ کما ذَلّت الصفواءُ بالمتنزّل
وہ گھوڑا سیاہی وسفیدی مائل چتکبرا ہے، اس کی پیٹھ ایسی صاف ہے کہ نمدہ اپنی پشت کے وسط سے اس طرح پھسلاتا ہے جیساکہ صاف چکنا پتھر اپنے اترنے کی جگہ سے پھسل کر گرتا ہے۔
(ج) علی الذَبْل جَیّاش کأن اہتزامہ اذا جاش فیہ حمیُہ غليُ مرجلٍ
وہ دبلا پتلا ہے لیکن جوش ایسا کہ اس کے چلنے کی آواز گرمیٴ نشاط کے جوش میں دیگ کے ابلنے کی آواز معلوم ہوتی ہے۔
(د) اذا ما السابحات علی الونی أثرن الغبار بالکَدِیْد المُوَکَّل
جس وقت تیز رفتار گھوڑے تھک ہار کر پامال شدہ زمین پر غبار اڑاتے ہیں وہ گھوڑا بدستور بارش کی مانند تیز چلتا ہے۔
(ھ) یُزلّ الغلامَ الخِفّ عن صَہواتہ ویُلوي بأثواب العنیف المثقل
ہلکے پھلکے اناڑی نوجوان کو اپنی پیٹھ سے پھسلادیتاہے، اور بھاری بھرکم تجربہ کار شہ سواروں کے کپڑے گرادیتا ہے۔(۱۰)
یہ پانچ اشعار ہیں جن میں اکیاون الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ جو گھوڑے کی تعریف میں مقصود بناکر کہے گئے ہیں۔ یقینا سننے والا فصاحت و بلاغت کی داد دئیے بغیر نہیں رہ سکتا، لیکن قرآن نے ضمناً گھوڑے کی تعریف کرتے ہوئے کہا ہے۔
والعٰدیٰت ضبحاً، فالموریٰت قدحًا، فالمغیرات صبحًا، فأثرن بہ نقعًا، فوسطن بہ جمعًا․
قسم ہے دوڑتے ہانپتے گھوڑوں کی جوٹاپ مارکر آگ جھاڑتے ہیں، پھر صبح کے وقت تاخت وتاراج کرتے ہیں، پھر اس وقت غبار اڑاتے ہیں، پھر اس وقت دشمنوں کی جماعت میں جاگھستے ہیں۔
ان آیات میں صرف بارہ (۱۲) الفاظ ہیں اور گھوڑے کی ان میں واقعاتی وحقیقی صفات بیان کی گئی ہیں، جب کہ اشعار میں محض تخیلات ہیں۔ شاعر نے گھوڑے کی تعریف کرتے ہوئے اس کے فرار کی بھی تعریف کی ہے حالانکہ ”فرار“ خواہ کسی وجہ سے ہو عیب ہے، کمال نہیں۔ گھوڑے کی پیش قدمی کو دیگ کی آواز سے تشبیہ دی گئی جو کہ واضح نہیں جب کہ آیات میں نہ تو فرار کا ذکر ہے اور نہ گھوڑے کے دوڑنے کا، بلکہ ہانپنے کا بیان ہے جو بالکل واضح ہے۔
اشعار میں کبھی موٹاپے کا بیان ہورہا ہے تو کبھی لاغری کا جو کہ تعارض ہے اورجھوٹ بھی۔ آیات میں کوئی تعارض نہیں۔ نیز گھوڑے کا پامال شدہ زمین سے مٹی کا اڑانا کوئی کمال نہیں بلکہ اصل کمال تو جب ہے کہ زمین تربتر ہو پھر تیز چلنے سے غبار اڑے۔
اشعار میں تجربہ کار وناتجربہ کار دونوں کو یاتو گرادیتے ہیں یا پھر اس کے سامان کو ضائع کردیتے ہیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنے مالک کا وفادار نہیں ہے، جبکہ آیات میں گھوڑے اپنے آپ کو جوکھم میں ڈال کر منزل کی طرف رواں دواں رہتے ہیں جو وفا داری کی دلیل ہے۔
مذکورہ بالا تفصیل قرآنِ کریم کے اعجاز بیانی کو سمجھنے کے لیے کافی ہے۔ قاضی ابوبکر باقلانی نے اپنی کتاب اعجازالقرآن میں بلاغت کے دس وجوہ ذکر کرکے ہر نوع کے اعجاز کو ثابت کیا ہے وہ دس وجوہ حسب ذیل ہیں:
(۱) الایجاز (۲) التشبیہ (۳) الاستعارہ (۴) التلاؤم (۵) الفواصل (۶) التجانس (۷) التصریف (۸) التضمین (۹) المبالغہ (۱۰) حسن البیان۔(۱۱)
خلاصہ یہی ہے کہ قرآن معجزہ ہے جو اپنے مقصد میں پورے طور پر کامیاب رہا۔ اس نے پوری دنیا میں انقلاب عظیم برپا کیا۔ سوئی انسانیت کو جھنجھوڑکر رکھ دیا۔ منتشر اقوام کو متحد کیا اور راہِ راست سے منحرف جماعت کو صحیح راہ پر لگادیا، اور یہ سب طفیل ہے اس کے اعجاز گراں مایہ قدر کا۔
$ $$
حواشی:
(۱) بخاری شریف: ۲/۷۴۴، کتاب فضائل القرآن، باب: کیف نزل الوحی۔
(۲) مناہل العرفان للزرقانی: ۲/۲۶۱-۳۲۴ ، المبحث السابع عشر فی اعجاز القرآن
(۳) الاتقان فی علوم القرآن للسیوطی: ۲/۱۲۱۔
(۴) تاریخ الادب العربی: ۸۹
(۵) الخصائص الکبری: ۱/۱۱۳
(۶) روح المعانی : ۱/۳۱-۳۲۔ الاتقان فی علوم القرآن: ۲/۱۲۱
(۷) شرح دیوان المتنبی: ۱/۱۳۲ شارح: عبدالرحمان البرقوتی مطبوعہ: بیروت ۱۴۰۷ھ
(۸) یتیمة البیان للبنوری مقدمہ مشکلات القرآن ۸۸-۸۹
(۹) ماخوذ از العون الکبیر مع الفوز الکبیر: ۲۱۶-۲۳۰، الفصل الثانی
(۱۰) سبع معلقات: ۸۔ التوضیحات: ۲۱-۲۳
(۱۱) اعجاز القرآن للباقلانی علی ہامش الاتقان فی علوم القرآن للسیوطی: ۲/۱۶۰
———————————
دارالعلوم ، شماره : 8-9، جلد : 92 شعبان – رمضان 1429ھ مطابق اگست -ستمبر ۲۰۰۸ء