معاشرہ کو اعلیٰ اخلاق و اقدار کی تلاش

از:مولانا اسرار الحق قاسمی‏،  صدرآل انڈیا تعلیمی وملی فاؤنڈیشن

                عہد حاضر میں کوئی اور بات اس سے زیادہ فوری اہمیت کی حامل نہیں ہوسکتی کہ بنی نوع انسان کو مکمل تباہی اور بربادی کے اس خطرہ سے آگاہ کیا جائے جو اسے موجودہ نظام عالم سے درپیش ہے، نوع انسانی آج جس لرزہ دہشت میں جی رہی ہے اس کی ذمہ داری بلاشبہ مغرب پر عائد ہوتی ہے۔ مغربی تہذیب کا بنیادی روگ مادہ پرستی ہے، جس نے اس کو زندگی کے اقدار سے دور کردیا ہے۔ مغربی نفسیات اور مغربی زندگی سے اس کی قدم قدم پر تصدیق ہوتی ہے۔ کیونکہ یہ تہذیب اپنی جلو میں مادی ترقیات، سائنسی ایجادات و اکتشافات کا ایک بحر بے کراں رکھتی ہے، اس لیے دنیا کا کوئی بھی خطہ اس تہذیب وفکر سے آزاد نہ رہ سکا۔ اس طرح اس مادی تہذیب کی بداخلاقیاں، فحاشیاں، سرمستیاں اور انسانیت سوز تباہیاں مسلسل پھیلتی رہیں، اس نے اعلیٰ اقدار حیات کی تباہ کاری کے لیے ایک بڑے فتنہ کی شکل میں پوری شدومد کے ساتھ سراٹھایا اور دیکھتے دیکھتے پوری دنیائے انسانیت کو اپنے شکنجہ میں جکڑلیا۔

                مغربی مصنّفین، اہل قلم اور اہل دماغ نے اپنی نگارشات اور شاعری کے ذریعہ انسانی معاشرہ کے اخلاقی اور اجتماعی نظاموں کے خلاف ایک بغاوت برپا کردی۔ انھوں نے معصیت کو خوشنما اور دلفریب بناکر پیش کیا، طبیعتوں کو ہرقیدوبندش، فرد کو ہر ذمہ داری اور جوابدہی سے آزاد ہونے، آزادی مطلق اور بے قیدی کی کھلی تبلیغ، زندگی سے پورے پورے تمتع، مطالبات نفس کی پوری تکمیل اور لذت پرستی کی اعلانیہ دعوت دے کر اعلیٰ اقدار حیات کی نہ صرف دھجیاں اڑائیں، بلکہ نقد لذت اور ظاہر ومحسوس مادی نفع کے سواہر چیز کا انکار کیا اور تحقیر کی۔ مغربی تہذیب کی بنیاد تصور آزادی پر قائم ہے، لیکن انسانی آزادی کے تئیں اس کا نقطئہ نظر ایک طرفہ ہے جس کی بھاری قیمت آج انسانیت کو چکانی پڑ رہی ہے۔ درحقیقت نہ تو آزادی کا مغربی تصور مکمل ہے اور نہ ہی وہ انسانی خوشحالی کا ضامن ہے۔ مغرب اپنی تاریک فضاء اور فکر میں اس قدر ڈوبا ہوا ہے کہ مطلق انسانی آزادی کے تصور کی وجہ سے جو بحران پیدا ہورہا ہے اسے وہ نہیں دیکھ سکتا۔

                مغرب میں نشأة جدیدہ کے بعد مادی قوت اور ظاہری علم میں تیزرفتار ترقی ہوئی لیکن اخلاق واقدار میں اتنی ہی سرعت کے ساتھ زوال و انحطاط واقع ہوتا گیا۔ کچھ مدت کے بعد مادی قوت اوراخلاق کے درمیان زبردست فاصلہ پیدا ہوگیا اور اس کے نتیجہ میں ایک ایسی نسل پیدا ہوگئی جو زبردست افراط و تفریط کی شکار ہے۔ یہ نسل اسراف، مبالغہ آرائی اور انتہاپسندی کی علامت بن گئی ہے۔ کمانے میں اسراف، لہو ولعب اور تفریح طبع میں اسراف، خرچ کرنے میں اسراف، جمہوریت میں غلو، آمریت ہوتو اس میں مبالغہ، اپنے خود ساختہ قوانین اور مقرر کردہ اصول اور قدریں ہوں تو اس کی ضرورت سے زیادہ تقدیس، یہاں تک کہ بال برابر اس سے ہٹنا روا نہیں ہوتا اور اس سے انحراف کرنے والا ایسا مجرم سمجھا جاتا ہے جس کے بعد وہ کسی عزت وشرافت کا مستحق اور احترام کے قابل نہیں رہتا۔ اس نسل کے اخلاق میں توازن نہیں، افراد کے چھوٹے چھوٹے معاملات میں وہ بڑی ایمانداری سے کام لیتی ہے، لیکن جب اپنی قوم کی مصلحت کا تقاضہ ہوتا ہے تو افراد اور قوموں کو نگل جاتی ہے۔ انفرادی زندگی میں ان کا حال یہ ہے کہ اگر ۹بج کر ۱۲/منٹ پر آنے کا وعدہ کریں تو ٹھیک اسی وقت پہنچیں، لیکن قومی معاملات میں دوسری قوموں کو دھوکہ دینے میں انھیں ذرا تأمل نہیں ہوتا۔

                تہذیبوں کا اتار چڑھاؤ ہوتا رہتا ہے، تاریخ کے آغاز سے ہی یہ عروج وزوال تہذیبوں کی تقدیر کا جزولازم رہا ہے، موجودہ مغربی تہذیب کا دور چار سو برسوں سے زیادہ عرصہ پر محیط ہے، اس دور میں سائنس، سیاست اور سماجی حالات میں کافی ترقی اور پیش رفت ہوئی ہے۔ لیکن آج مغرب سخت بحران سے دوچار ہے، اپنے افکار و خیالات اور زندگی کے تمام شعبوں میں اس پر بحرانی کیفیت طاری ہے، وہ لوگ جو مغرب کی تہذیبی تاریخ، ان کے فلسفہ، سائنس اور نئے خیالات کے اظہار سے واقف ہیں وہ کم وبیش ان کے بحرانی نشانات کو دیکھ سکتے ہیں۔ دھیرے دھیرے مغربی تمدن، ازکار رفتہ اور کمزور ہورہا ہے۔ انسانی معاشرہ آج اپنے مستقبل کے لیے ایک نئی بصیرت کا متلاشی ہے اور ایک ایسے تمدن کا منتظر ہے جو نہ صرف اس کی مادی بلکہ روحانی ضرورت کو بھی پوری کرسکے۔

                اس لیے دور حاضر اس کا متقاضی ہے کہ عالمی امن کی بقا، قیام امن وسلامتی، عدل ومساوات، مذہب وعقیدہ کی آزادی، رواداری، باہمی امداد و تعاون، انسانی جذبات و احساسات کا احترام، انسانی ضمیر کی تربیت اور آزادی فکر وخیال کے حوالہ سے اسلام کے اقدار حیات کو اجاگر کیا جائے۔ خاص طور سے ہماری دینی قیادت جو امت کا فکری و دینی مقتدا ہے وہ اپنی دانشورانہ کاوش اور علمی تحقیقات میں انسانی فطرت، انسانی تعلقات اور انسانی ماحول کے تعلق سے اسلامی اہداف و اقدار، اصولوں اور جہتوں کے متعلق منظم اورمربوط اور سائنٹفک طریقہٴ فکر پیش کرے اور اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ایک ایسا معاشرتی ومذہبی تصور سامنے لائے جو زیادہ سے زیادہ کشادگی اور گنجائش رکھتا ہو اور انتہائی متنوع کثرت کو اپنے اندر سمونے کی صلاحیت رکھتا ہو اور حکمت و تدبر کے ساتھ انسانی معاشرہ کو اس حقیقت سے بھی روشناس کرایا جائے کہ اعلیٰ انسانی اخلاق واقدار کی حامل انسانی تہذیب ہی ایک ایسا گہوارہ امن و انصاف ہے جس میں تمام افراد، قوموں اور گروہوں کو اپنے اپنے عقائد کے مطابق زندگی بسر کرنے کی پوری آزادی ہے اور مفاہمت واحترام کی بنیاد پر باہم تعاون کرنے کا حق حاصل ہے۔ یہی وہ درست اور عملی راستہ ہے جو امن وسلامتی، تعاون وشرکت عمل پرمشتمل، قابل عمل عالمی نظام کی منزل تک پہنچاسکتا ہے اور مقاصد، اقدار، فلاح و صلاح اور مفاہمت کے وسیع مشترک انسانی دائرہ بھی تشکیل دے سکتا ہے۔ اس حد تک وسیع کہ انسانی گروہوں کے درمیان پڑوسیوں کی سطح سے لے کر پوری انسانیت پر مشتمل امت واحدہ کی سطح تک قابل عمل اصول زندگی کی بالادستی قائم ہوسکے۔

                تاریخ کے ایسے عہد میں جب کہ انسانیت موت و زیست کی کشمکش میں مبتلا تھی، اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد رسول اللہ … کو وحی اور رسالت کے ساتھ مبعوث فرمایا کہ اس جاں بلب انسانیت کو نئی زندگی بخشیں اور لوگوں کو تاریکیوں سے نکال کر روشنی کی طرف لائیں۔ آپ … کی بعثت کا مقصد یہ تھا کہ دنیا کو جنت کی بشارت دیں، عذاب آخرت سے ڈرائیں، نیکی کی ترغیب دیں، بدی سے روکیں، پاک چیزوں کو حلال، گندی وناپاک چیزوں کو حرام قرار دیں اور ان بندشوں کو اور بیڑیوں کو توڑ کر جنھیں انسانوں نے اپنی نادانی سے یا مذاہب اورحکومتوں نے اپنی طاقت بے جا سے ان کی پاؤں میں ڈال رکھی تھیں، انہیں مادی زندگی کی تنگنائیوں سے نکال کر دنیا وآخرت کی وسعتوں میں پہنچادیں۔ اسی لیے آپ … کے مخاطب ایک قوم یا ایک ملک کے باشندے نہیں تھے۔ آپ … کا خطاب تمام انسانوں اور پورے انسانی ضمیر سے تھا۔ آپ … نے سب سے پہلے لوگوں کو اللہ پر ایمان لانے کی دعوت دی، لوگوں میں کھڑے ہوکر بآواز بلند فرمایا: ”یا ایہا الناس قولو لا الٰہ الا اللّٰہ تفلحوا“ آپ … کی اس دعوت کی تاریخ انسانی اور معاشرہ انسانی پر گہرا و وسیع اثر مرتب ہوا، جب بھی کوئی شخص اللہ تعالیٰ پر ایمان لاتا اور لا الٰہ الا اللہ کی گواہی دیتا،اس کی زندگی میں عظیم الشان انقلاب رونما ہوتا اور وہ شخص پہلا جیسا آدمی باقی نہ رہتا۔ یہ ایمان ایک کامیاب اخلاقی ونفسیاتی تربیت تھی جس نے انسانی خاندان کے ہر فرد کو اس کا صحیح مقام عطا کیا۔ اس طرح انسانی معاشرہ بے خار گلدستہ بن گیا۔

                توحید انسانی زندگی کے خالق مطلق اوراس کی مخلوق کے درمیان براہ راست تعلق کی حیثیت سے ادراک کا نام ہے، جس کے تحت انسان کی زندگی درحقیقت افضلیت اوراہلیت کے امتحان کی ایک مہلت قرار پاتی ہے۔ یہ تصور ایک سوسائٹی کے اندر فیصلہ عمل اور آخری جوابدہی کو براہ راست فرد انسانی سے وابستہ قرار دیتا ہے۔ اس تصور کے تحت انسانوں کے درمیان کسی قسم کی مصنوعی تقسیم اور انسانی تعلقات کی نوعیت یا کسی فرد کے شرف و استحقاق کے تعین کے لیے رنگ، زبان، دولت کے خود ساختہ امتیازات کو معیار بنانے کی گنجائش باقی نہیں رہتی ہے۔ توحید کا تصور معاشرہ کو اجتماعی حیثیت میں اور ہر فرد کو انفرادی حیثیت میں اپنی منزل کے تعین کی آزادی اور حق خود اختیاری عطا کرتا ہے۔ مزید برآں توحیدکا تصور ہی غیرمسلموں کے تعلق سے مسلمانوں کے تحمل اور رواداری کی بنیاد بھی ہے۔

                پہلی صدی ہجری میں اسلامی تہذیب منصہ شہود پر جلوہ گر ہوئی، جس نے قیام مذاہب و اخلاق کی تاریخ میں ایک نئے روشن اور انقلابی باب کا آغاز کیا، اس نے نہ صرف تہذیب کے دھارے کا رخ موڑ دیا بلکہ دنیا کے سفر کی سمت بھی بدل دی۔ اس تہذیب کی اقدار حیات آفاقی ہیں جو انسان کے سماجی، سیاسی، اقتصادی اور روحانی سروکاروں میں توازن و تناسب کو برقرار رکھتی ہیں۔ یہاں ایک ایسا نظام عدل اورجمہوری سسٹم ہے جو پوری انسانیت کے لیے مشعل راہ ہے۔ پیغمبر اسلام … رحمة للعالمین ہیں۔ اس لیے ان کی مثالی زندگی اور ان کے انقلابی نظریات بھی پوری انسانیت کے لیے مینارئہ نور ہیں۔

                اسلامی تہذیب کی بنیاد ایک روحانی رشتہ پر قائم ہے، جس کے احساس سے سماج کا ہر فرد سرشار ہوتا ہے اور یہ چیز اسے ایک پلیٹ فارم پر متحد کردیتی ہے۔ اسلامی تہذیب میں انانیت یا اکثریت کے مظالم اور اقلیت کا اخراج، ان سب کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔ یہاں انسان صرف انسان ہونے کی وجہ سے معزز و محترم ہے۔ یہاں صرف مسلمانوں کے ساتھ نہیں بلکہ تمام انسانوں کے ساتھ عدل اور برابری کا سلوک ہوتا ہے، کیونکہ یہاں یہ احساس عام ہے کہ اگر ایک انسانی گروہ ہمارا دینی بھائی ہے تو دوسرا انسانی گروہ بھی خلقت میں ہم جیسا ہی ہے۔ اسلامی تہذیب، قوموں کے تعلقات میں طاقت کے استعمال، منافقت اور دوہرے رویہ کی تردید کرتی ہے اور اس کے بدلے بین الاقوامی تعلقات میں باہمی عزت واحترام کے اصول و منطق کو اختیار کرتی ہے۔

———————————

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ 3‏، جلد: 92 ‏، ربیع الاول 1429 ہجری مطابق مارچ 2008ء

Related Posts